شریف بہن اور بھائی۔ قسط 16

شریف بہن اور بھائی


قسط 16


میری پوری سٹوری سننے کے بعد ناظم بولا۔ بھائی آپ زبردست ہو یار جیسے آپ نے آپی کو اس کام کیلئے راضی کیا وہ آپ ہی کا کام تھا۔ آپ کا جواب نہیں ہے بھائی۔۔۔۔۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ جب آپی میرا چوپا لگائے گی۔ اف فف ففف سوچ کر ہی دماغ گھوم رہا ہے۔ یہ کہہ کر ناظم نے ایک جھرجھری سی لی۔۔ میں نے مسکرا کر ناظم کو دیکھا اور کہا۔۔ 


فکر نہ کر چھوٹے بھائی میرا اگلا ٹارگٹ آپی کی پھدی ہے بہت جلد ہی میر الن آپی کی پھدی میں ہو گا۔ ناظم ایک ٹھنڈی سانس لیکر بولا ہاں بھائی سچی کتنا مزہ آئے گا نا جب ہم آپی کی پھدی میں لن ڈالیں گے۔ پھر وہ چونک کر بولا۔ لیکن اگر بھائی اس سے کوئی مسئلہ ہو گیا مطلب آپی پریگنینٹ ہو گئیں یا پھر کوئی اور بات ہو گئی تو۔۔۔


میں نے جھلاتے ہوئے اس کو ایک چپیڑ لگائی اور کہا کہ چوتیا پن مت دکھا۔ اس کا بندوبست میں خود ہی کر لوں گا۔ میں ایک دفعہ پھر تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ جیسے میں بولوں ویسے کرنا اپنی ماں چدائی مت شروع کر دینا۔ اور انہیں خیالوں میں کھوئے اور آپی کا انتظار کرتے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آنکھ لگ گئی اور ہم دونوں ہی سو گئے۔ صبح میں اٹھا تو ناظم جا چکا تھا میں بھی تیار ہو کر نیچے آیا تو امی نے مجھے ناشتہ دیا کیوں کہ آپی یونیورسٹی جا چکی تھیں۔ 


ناشتہ کر کے میں کالج چلا گیا۔ دوپہر میں جب واپس گھر آیا تو 3 بج رہے تھے۔ امی نے ہی دو پہر کا کھانا دیا۔ کھانا کھا کر میں نے آپی کے ادھ کھلے کمرے میں نظر ڈالی تو آپی بیڈ پر سوتی نظر آئیں جبکہ ناز بیٹھی پڑھ رہی تھی۔ میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ناظم بھی سو رہا تھا تو میں نے بھی کپڑے بدلے اور یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ رات کو پھر آپی سے کھیلتے وقت دیر ہو جاتی ہے تو نیند پوری نہیں ہوتی تو کیوں نا تھوڑا آرام کر لوں۔ چنانچہ میں بھی سو گیا۔۔۔۔۔


شام کو آنکھ کھلی تو نا ظم غائب تھا۔ فریش ہو کر میں نیچے آیا تو آپی گھر پر نہیں تھیں۔ امی سے پوچھا تو پتہ چلا کہ نجمہ خالہ کی کسی سہیلی کی مہندی ہے تو وہاں میوزیکل پروگرام بھی رکھا گیا ہے تو آپی ، ناظم اور ناز تینوں ہی وہاں گئے ہیں۔ میں بھی باہر نکل گیا۔ جب رات کو دس بجے گھر آیا تو وہ لوگ ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔ میں کمرے میں آکر ایک ٹرپل ایکس مووی لگا کر بیٹھ گیا لیکن آج مووی دیکھنے میں بھی مزہ نہیں آرہا تھا بس آپی کی یاد ستا رہی تھی۔ کسی نا کسی طرح ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد میں نے کمپیوٹر بند کیا۔۔۔


 اور نیچے چلا گیا۔ ابھی سیڑھیوں میں ہی تھا کہ امی کی آواز سنائی دی۔ وہ ابو سے کہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔ سنئیے جی۔۔۔۔ وہ نجمہ کا فون آیا تھا کہ آپ ساگر کو بھیج دیں وہ آکر روبی لوگوں کو لے جائے تو آپ گاڑی کی چابی ساگر کو دے دیں وہ چلا جائے گا۔ میں امی کی بات سن کر نیچے پہنچا تو ابو اپنا لیپ ٹاپ بند کر رہے تھے۔ پہلے تو مجھے چابی پکڑانے لگے پھر کسی خیال کے تحت رک گئے اور چشمے کے اوپر سے مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ ساگر تم نے لائیسنس نہیں بنوانا ابھی تک۔۔۔۔۔ وہ ابو رہ گیا کل ہی چلا جاؤں گا بنوانے۔۔۔۔۔ 


ابو نے غصے سے کہا یار کمال کرتے ہو تم عجیب آدمی ہو کہا بھی تھا کہ بس تصاویر لیجا کر شکور صاحب سے مل لو اور سائن وغیرہ کر دینا۔ باقی شکور صاحب سنبھال لیں گے۔ لیکن تم ہو کہ دھیان ہی نہیں دیتے ہو کسی بات پر ۔۔ میں دیکھ رہا ہوں آج کل تم بہت غائب دماغ ہوتے جا رہے ہو کن خیالوں میں رہتے ہو ہاں۔۔!!!! میں ابو کی ڈانٹ سنتے ہوئے خود کو دل ہی دل میں کوس رہا تھا کہ گانڈو اس ٹائم تو نیچے اترا ہی کیوں۔۔۔۔ امی نے میری کیفیت بھانپ کر میرا دفاع کرتے ہوئے ابو سے کہا۔ اب بس بھی کریں آپ بھی ایک بات کے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں۔ 


ساگر کہہ رہا ہے نا کہ وہ کل چلا جائے گا شکور صاحب کے پاس۔ ابو امی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے۔۔۔ اری نیک بخت۔۔۔۔ لوگ ترستے ہیں آج کل کہ اپنا کوئی جان پہچان والا آدمی ہو تو کام کروا لیں۔ ابھی شکور صاحب بھی پتہ نہیں اور کتنے دن ہیں وہاں پر ۔۔۔ ان کا ٹرانسفر ہونے والا ہے اسی لیے کہہ رہا ہوں جا کر لائیسنس بنوائے۔۔۔۔ پر یہ لڑکا کسی کی مانے تب نا۔۔۔۔ امی نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہا اچھا چابی دیں جلدی سے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔۔۔ لیکن ابو کھڑے ہوتے ہوئے بولے نہیں اب اس کی یہی سزا ہے۔۔۔۔۔ کہ جب تک لائیسنس نہیں بنائے گا گاڑی بھی نہیں ملے گی اور یہ کہہ کر باہر نکل گئے۔۔۔۔ 


امی نے جھلا کر اپنے سر پر ہاتھ مارا اور بولیں ہائے رے یہ سارے ضدی میرے ہی پلے کیوں پڑے ہیں۔۔۔


میں سر جھکائے کھڑا تھا کہ امی کی دوبارہ آواز سنائی دی۔ اب جا نا۔۔۔ جلدی سے دروازہ کھول ورنہ ہارن پہ ہارن بجانا شروع کر دیں گے۔ میں نے باہر جا کر دروازہ کھولا اور ابو کی گاڑی باہر جانے کے بعد دروازہ بند کر کے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میرا موڈ سخت خراب تھا۔ پہلے ہی آپی کے ساتھ سیکس نا ہونے کی وجہ سے جھنجھلاہٹ تھی اوپر سے رہی سہی کسر ابو نے پوری کر دی۔ میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے تمہیہ کرنے لگا کہ اب صبح ضرور شکور صاحب کے پاس جاؤں گا۔ 


اور اسی خراب موڈ میں ہی نیند نے حملہ کر کے میرے شعور کو سلا دیا۔۔۔۔ میں صبح جب اٹھا تو میرے دماغ میں ابو کی ڈانٹ تازہ ہو گئی۔ میں جلدی جلدی تیار ہوا اور ناشتہ کر کے لائیسنس آفس چل دیا وہاں جا کر شکور صاحب سے ملا تو انہوں نے ایک آدمی میرے ساتھ بھیج دیا۔ خیر سب پیپر ورک ختم کر کے میں کالج چلا گیا۔ دوپہر کو گھر واپس آیا تو ناظم ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ہانک لگائی کہ بھائی کھانا ٹیبل پر ہی پڑا ہے کھا لیں۔ میں نے امی کا پوچھا تو وہ بولا۔۔۔۔ امی اور ناز تو مارکیٹ گئی ہیں جبکہ روبی آپی کو نجمہ خالہ ساتھ لے گئی ہیں۔ 


میں کھانا کھا کر کمرے میں گیا اور جاتے ہی سو گیا۔۔۔ شام میں اٹھ کر دوستوں کی طرف نکل گیا واپس آیا تو 9 بج رہے تھے۔ کمرے میں جا کر کمپیوٹر پر ٹائم پاس کرتے ہوئے آپی کا انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر تک بھی جب آپی نہیں آئیں تو ٹائم دیکھا تو 11:30 ہو چکے تھے۔ میں آپی کو دیکھنے نیچے چل پڑا۔ آپی کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اندر امی اور ناز دونوں مل کر روبی آپی کو کپڑے دکھا رہی تھیں جو انہوں نے آج شاپنگ کی تھی۔ ان دونوں کی پیٹھ میری طرف تھی جبکہ آپی کا رخ دروازے کی طرف تھا۔۔


میں دروازے میں کھڑا ہو کر آپی کو متوجہ کرنے کے لیے ہاتھ ہلانے لگا۔۔۔ لیکن کافی دیر جب آپی متوجہ نا ہوئیں تو میں مایوس ہو کر جانے ہی لگا تھا کہ آپی کی نظر مجھ پر پڑی تو آپی نے ایک دم نظر جھکا لی۔ آپی کو میری موجودگی کا علم ہو چکا تھا۔ کچھ دیر بعد آپی اٹھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ناز تم وہ کالے رنگ والا شاپر کھولو میں پانی پی کر ابھی آئی۔۔۔۔ ناز نے آواز لگائی آپی میرے لیے بھی پانی لے آنا اور میں فور دروازے سے پیچھے ہٹ گیا کہ کہیں وہ مجھے نہ دیکھ لے۔۔۔۔ آپی کمرے سے باہر نکلیں اور اپنی پشت سے دروازہ بند کر کے کچن کی طرف جانے لگیں۔ 


میں نے آپی کو پیچھے سے جھکڑ لیا۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کے ممے مسلنے لگا۔۔ آپی زور لگا کر مجھ سے دور ہوئیں اور بولیں ساگر پاگل ہو گئے ہو کیا چھوڑو مجھے سب لوگ جاگ رہے ہیں اور ابو بھی اپنے کمرے میں ہیں کوئی اچانک باہر نکل آیا تو جانتے ہو نا کیا ہوگا۔ لیکن میں نے ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے ان کو اپنی طرف گھمایا اور ان کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ آپی نے میرے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھے دھکا دیا اور غصے سے بولیں۔ انسان بنو انسان ایسی کیا موت پڑ گئی ہے تمہیں۔۔۔۔ 


میں نے آپی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ٹراؤزر کے اوپر سے ہی کھڑے

لن پر رکھتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھو آپی میرا بہت برا حال ہے۔ پلیز اوپر کمرے میں آؤ نا۔۔۔۔ آپی دانت پیستے ہوئے بولیں ساگر کمینے ابھی کیسے آؤں تم دیکھ ہی چکے ہو میرے کمرے میں کیا چل رہا ہے اور میں بھی صرف پانی کا بہانہ بنا کر آئی ہوں۔ لیکن آپی نے اپنا ہاتھ میرے لن سے نہیں ہٹایا بلکہ اسے مٹھی میں مسلنے لگیں۔ تو کب تک آپ فری ہو جاؤ گی آپی آج چوتھی رات ہے میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔ میرا جسم جل رہا ہے۔۔۔۔


آپی نے کہا اب میں کیا کہہ سکتی ہوں کہ کتنی دیر لگ جائے۔۔۔۔ میں نے اپنا ٹراوزر تھوڑا نیچے کیا اور اپنا لن باہر نکال لیا اور بولا چلو آپی تھوڑا لن ہی چوس دو نا۔ آپی نے میرے ننگے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور بولیں پاگل پن مت کرو اپنے آپ پر تھوڑا کنٹرول کرو میں جیسے ہی فری ہوئی آ جاؤں گی بس اب تم جاؤ یہاں سے۔ لیکن میں نے اپنا ہاتھ نیچے لیجا کر آپی کی پھدی پر رکھتے ہوئے دانے کو مسلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ آہہ ساگر ۔۔۔۔۔ چھوڑو مجھے ۔۔۔۔ پلیز کوئی آجائے گا۔ اور اتنی دیر میں اچانک ایک کھٹکا ہوا میں نے فوراً آپی کی شلوار سے ہاتھ نکالا اور اپنا ٹراؤزر اوپر چڑھاتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بھاگا اور آپی کچن میں گھس گئیں۔ 


وہ کھٹکا شاید کمرے کے اندر ہی ہوا تھا کیونکہ باہر کوئی ہلچل نہیں تھی۔ چند لمحوں بعد آپی کچن سے پانی کا گلاس پکڑے باہر نکلیں تو میں نے دوبارہ آپی کی طرف قدم بڑھائے۔ آپی نے مجھے غصے سے دیکھا لیکن میرے نا رکتے قدم دیکھتے ہوئے وہ بھاگ کر دروازے کے پاس چلی گئی اور مجھے ایک فلائنگ کس کی۔ لیکن میں نے برا سا منہ بنا کر آپی کو دیکھا اور اوپر چل پڑا۔ پیچھے کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو آپی اندر جا چکی تھیں۔ 


میں کمرے میں پہنچا تو ناظم سو چکا تھا۔ اور میں غصے اور بے بسی کی حالت میں لیٹا اور پتہ نہیں کب میری آنکھ لگ گئی اور میں بھی سو گیا۔ صبح ناظم نے مجھے اٹھایا لیکن میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کالج جانے کو اس لیے دوبارہ سو گیا۔ دوسری بار آنکھ کھلی تو دس بج رہے تھے۔ میں نے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا اور نیچے ناشتے کی ٹیبل پر چلا آیا۔ امی وہاں موجود تھیں تو سلام دعا کر کے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا ہی تھا کہ روبی آبی میری آواز سن کر کمرے سے نکل آئیں اور اسی وقت امی نے بھی مٹر چھیلتے وقت آواز دی۔۔۔۔ روبی۔۔۔۔ باہر آؤ 

بھائی کو کھانا دو۔۔۔۔ 


روبی آپی بولیں جی امی آگئی ہوں۔ دیتی ہوں ابھی۔ آپی نے امی کو جواب دے کر کچن میں جاتے ہوئے مڑ کر مجھے دیکھا۔ ہماری نظریں ملیں تو میں نے غصے میں منہ بنا کر نظریں پھیر لیں۔ حالانکہ دل میرا کر رہا تھا کہ آپی کو اٹھا کر اپنے دل میں چھپا لوں۔ وجہ تھی آپی کی آنکھوں میں جھلملاتا کاجل۔ آپی نے آج آنکھوں میں کاجل لگا رکھا تھا اور اس کاجل کی وجہ سے ان کی آنکھیں مزید حسین اور بڑی نظر آرہی تھیں۔ آپی ناشتے کی ٹرے میرے سامنے رکھتے ہوئے سرگوشی میں بولیں۔۔۔۔ ارے رے میری جان ناراض ہے مجھ سے۔۔۔۔ لیکن میں چپ رہا۔ میری پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے پھر آپی بولیں۔۔۔ 


غصے میں لگتا بھی بہت پیارا ہے میرا سوہنا بھائی۔۔۔۔ اور ساتھ ہی میرے گال پر چنکی کائی۔۔۔۔ میں نے غصے سے آپی کا ہاتھ جھٹک دیا مگر بولا پھر بھی کچھ نہیں۔ اور نا ہی نظر اٹھا کر ان کو دیکھا۔ میں نے ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ آپی نے پودوں کو پانی دینے والی بالٹی اٹھائی اور امی کو کچھ کہتی ہوئی باہر گیراج میں رکھے پودوں کے گملوں کے جانب چلی گئیں۔ میں اٹھنے ہی لگا تھا کہ امی کی آواز آئی ساگر بیٹا موٹر چلا دو یہ لڑکی جب بھی پودوں کو پانی دیتی ہے ساری ٹینکی خالی ہو جاتی ہے۔ موٹر کا بٹن گیراج میں ہی تھا۔ 


میں نے گیراج میں جا کر موٹر کا بٹن چلایا اور مڑنے ہی لگا تھا کہ آپی نے میرا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا اور اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بولیں کیا تکلیف ہے تمہیں۔ ہاں۔۔۔ تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے ہو۔۔۔۔ کیا ڈرامہ ہے ساگر ۔۔۔۔ میں نے آپی کی طرف نہیں دیکھا اور نظریں جھکائے ہوئے ہی ناراضگی سے بولا۔۔۔ بس نہیں کرنی مجھے آپ سے کوئی بھی بات۔ میری مرضی۔۔۔


آپی نے میری تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا اور محبت سے بولیں ساگر میری جان میں بھی تو مجبور ہوں نا۔۔۔ چلو اب ناراضگی ختم کرو۔۔ چلو شاباش میری طرف دیکھو۔۔۔۔ دیکھو میری طرف۔۔۔۔ نظر اٹھاؤ اپنی۔۔۔ میں نے نظر نہیں اٹھائی لیکن آپی کا ہاتھ بھی نہیں جھٹکا اور کہا آپی آج کتنے دن ہو گئے آپ نہیں آئی ہو۔ جب آپ کا دل چاہتا ہے تو اپنے مزے کیلئے آتی ہو۔ میری خوشی کیلئے تو نہیں آئی نا۔۔۔ مجھے پتہ ہے آج پانچ دن ہو گئے میں نے اپنے سوہنے بھائی کو خوش نہیں کیا۔ لیکن میں کیا کروں یار موقع ہی نہیں مل پایا۔ چلو اچھا ٹھیک ہے میں آج کوشش کروں گی آنے کی۔ اور یہ کہہ کر آپی نے مجھ پر نظریں گاڑ دیں۔ آپی کی بات سن کر بھی میں نے اپنا انداز نہیں بدلا اور غصے سے بولا ابھی بھی کہہ رہی ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔کوشش۔۔۔۔۔۔۔


مطلب آج رات بھی آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ یار ناز اور ناظم کے فائنل ایگزامز ہونے والے ہیں وہ کافی دیر تک پڑھتے ہیں تو میں کیسے آؤں۔۔۔ تم بھی تو ضد لگا کر بیٹھ گئے ہو کوئی بات سمجھتے ہی نہیں ہو۔ اب آپی کے چہرے پر بھی جھنجھلاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ کچھ دیر تک جب میری طرف سے کوئی جواب نا ملا تو کچھ فیصلہ کر کے بولیں۔ او کے ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ لو۔۔۔


یہ کہہ کر آپی نے ایک ہی جھٹکے میں اپنی شلوار پیروں تک اتار دی اور اپنی قمیض اور چادر اٹھا کر پیٹ کے ساتھ لگا لی اور میری طرف پیٹھ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ چلو ابھی اور اسی وقت چودو مجھے۔۔۔ میں قسم کھاتی ہوں اب تمہیں منع نہیں کروں گی۔ چلو آؤ نا مارو میری پھدی۔۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)