شریف بہن اور بھائی
قسط 18
ناز نے اپنے ہونٹوں کو گرپ کر کے میری ساری منی کو منہ میں ہی جمع کرنا شروع کر دیا۔ جب میرا لن سے منی کا آخری قطرہ بھی نکل گیا اور لن نے جھٹکے مارنے بند کر دیے تو ناز نے بڑی احتیاط سے اپنے منہ سے لن باہر نکال لیا۔۔۔ ناز نے لن باہر نکالتے وقت اس چیز کا خیال رکھا تھا کہ منی کا ایک بھی قطرہ باہر نہ گرنے پائے۔۔۔ اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑے سیکسی انداز میں وہ میری ساری منی کا گھونٹ بھر گئی اور حلق سے نیچے اتار لی۔
میں ابھی حیرت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ناز نے پھر سے میرا لن کو پکڑا اور چاٹ چاٹ کر لن کی ٹوپی پر لگی منی صاف کرنی شروع کر دی۔ اچھی طرح سے لن صاف کرنے کے بعد ناز اٹھی اور مسکراتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ اور بولی واہ بھیا جی بہت مزے کا جوس ہے آپ کا۔۔۔۔ کیا آپ میری بات کا یقین کریں گے کہ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی لن کو ایسے منہ میں لے کر چوسا ہے اور اس کا جوس پیا ہے۔۔۔ میں حیرانی سے بولا لیکن نازیہ سب کیا ہے اور تم اس طرح اچانک رات کے اس پہر ۔۔۔۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تو ناز صوفے سے اٹھی اور پاس آکر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جوڑ کر ایک کس کی اور بولی چلو بھیا جی چھت پر چلتے ہیں وہاں کھلی ہوا میں ساری سٹوری میں آپ کو سناؤں گی۔۔۔۔ اور یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔۔ میں سر پکڑے بیٹھا رہا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ پھر اچانک جیسے شیطان نے میرا کان مروڑا اور بولا ارے بھوسڑی کے کیوں اتنا ٹائم برباد کر رہے ہو۔۔۔ تم خود بھی تو یہی چاہتے تھے کہ ناز بھی اس کھیل میں شامل ہو جائے۔ اب تو وہ بنا کسی محنت کے خود ہی آگئی ہے تو نخرے کیوں کر رہا ہے۔ چل اٹھ اور خافٹ جا کر سیکسی سینا کی کہانی سن اور چھوٹی بہنا کے ساتھ مزے کر۔
میں فٹافٹ اٹھا اور اپنا ٹراؤزر پورا پہن کر چھت پر چلا گیا۔ ناز وہاں زمین پر چٹائی بچھائے بیٹھی ہوئی تھی میں جا کر ناز کے قریب ہی لیٹ گیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ مجھے اپنی یہ چھوٹی بہن ایک دم اپنی عمر سے بڑی لگ رہی تھی۔ اس ٹائم ناز کے کھلے بال اس کی گانڈ تک جارہے تھے۔ میں چپ چاپ ناز کے سراپے کو دیکھتا رہا آخر کار ناز نے ہی خاموشی توڑی اور وہ کہنے لگی بھیا جی یہ پچھلے سال کی بات ہے ہفتے کا دن تھا
سکول سے چھٹی تھی تو امی نے خالہ نجمہ کی طرف جانے کا پروگرام بنایا اور مجھے ساتھ لیکر دو پہر ایک بجے خالہ نجمہ کے گھر پہنچ گئیں۔۔۔ اور دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔۔ میں ان کی باتوں سے بور ہو رہی تھی تو خالہ نجمہ کے ٹی وی لاؤنج میں ہی لیٹ گئی اور ٹی وی دیکھنا شروع کر دیا۔ خالہ نجمہ اور امی خالہ کے بیڈ روم میں ہی بیٹھی تھیں۔ میں لیٹی ہوئی نیم آنکھوں سے ٹی وی دیکھ رہی تھی میرا سر دروازے کی طرف تھا اور پاؤں ٹی وی کیطرف تھے۔۔۔ اچانک مجھے دروازے کی طرف سے امی کی سرگوشی سنائی دی وہ خالہ سے کہہ رہی تھیں نجو جا ویکھ کے آ ناز سو گئی کہ نئیں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ان کو ایسے مجھے چیک کرنے اور سرگوشیوں میں بات کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ یہ سوچتے ہی بے اختیار میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ چند لمحوں بعد میں نے اپنے پاس آہٹ محسوس کی تو میں نے آنکھیں بند رکھتے ہوئے ہی اپنا منہ ایسے ڈھیلا چھوڑ دیا کہ جیسے میں بہت گہری نیند میں منہ کھولے سو رہی ہوں۔ مجھے اپنے سر پر ایک ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا لیکن میں کسمسائی بھی نہیں۔ پھر خالہ کی آہستہ سے آواز سنائی دی ناز سو رہی ہو کیا لیکن میں پھر بھی چپ رہی۔
خالہ نے مجھے تھوڑا آہستہ سے ہلایا بھی لیکن بے سدھ پڑی دیکھ کر امی سے بولیں باجو ایہہ تاں کوک ستی پئی اے۔ تو امی کی آواز آئی چل فیر فٹا فٹافٹ ٹیم ناں ضائع کر ۔ چھیتی نال کمرے اچ چل۔۔۔۔ اور مجھے قدموں کی آوازیں دور جاتی سنائی دیں۔۔۔ میں حیرت زدہ انداز میں سوچتی رہی کہ آخر کیا ماجرہ ہے۔۔۔۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد میں اٹھی اور دبے قدموں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج سے باہر نکلی اور اسی طرح دبے پاؤں چلتی ہوئی خالہ کے بیڈ روم کی طرف گئی لیکن وہ دونوں وہاں نہیں تھیں تو میں سوچنے لگی کہ وہ کہاں جاسکتی ہیں۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ اوپر والے فلور پر بھی تو دو کمرے ہیں وہاں دیکھتی ہوں۔۔۔ یہاں یہ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خالہ بے اولاد ہیں ان کی شادی کو 14 سال ہو چکے ہیں پر ابھی تک کوئی بچہ نہیں ہے وہ لوگ سب ٹیسٹ رپورٹس کروا چکے تھے پر قدرتی طور پر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ اور اس وقت امی کے گھٹنے بھی بلکل ٹھیک تھے۔
مطلب وہ با آسانی سیڑھیاں چڑھ سکتی تھیں۔ جیسے ہی میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے کمرے کے پاس پہنچی تو مجھے کچھ عجیب سی آوازیں سنائی دیں۔ میں بہت حیران ہوئی۔ اور دبے پاؤں چلتے ہوئے میں نے کمرے کے دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ اندر سے بند تھا۔ میں نے جھک کر لاک کے سوراخ سے آنکھیں لگا دیں۔ اندر کا منظر میرے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھا۔۔۔ امی اور خالہ دونوں نگی تھیں کپڑے کا ایک تار بھی ان کے جسم پر موجود نہیں تھا۔ وہ مادر زاد ننگی ایک دوسرے کو چوم رہی تھیں۔۔۔۔
خالہ نجمہ کے بڑے بڑے دودھ مجھے سامنے نظر آرہے تھے۔ جبکہ امی کی پیٹھ میری طرف تھی امی کے کولہے بہت بھاری تھے۔۔۔۔ خالہ نے امی کو جپھی ڈالی ہوئی تھی اور زور زور سے آہیں بھرتی ہوئی امی کے کولہے دباتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔ میں ان دونوں کو اس حالت میں دیکھ کر شرم سے شرابور ہو چکی تھی۔ اور حیرانگی سے سوچ رہی تھی کہ یہ دونوں کیا کر رہی ہیں۔ مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی میں ان دونوں کی باتیں بھی سنا چاہتی تھی لیکن یہ میرے لیے وہاں پر ممکن نہیں تھا۔
اتنی دیر میں نیچے کا دروازہ کھٹکا اور میں جلدی سے وہاں سے اٹھی اور دبے قدموں ہی بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلی اور واپس ٹی وی لاؤنج میں آکر لیٹ گئی اور اپنی تیز چلتی سانسوں پر قابو پانے لگی ایک منٹ بعد ہی جوتے کی کھٹ کھٹ سے اندازہ ہوا کہ خالہ سیڑھیاں اترتی ہوئی آرہی ہیں انہوں نے باہر کا دروازہ کھولا تو ہماری ایک ممانی اندر داخل ہوئیں۔ خالہ سے گلے مل کر وہ سید ھائی وی لاؤنج میں ہی آئیں اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئیں میں بھی انگڑائی لیکر اٹھ گئی۔ اور مامی کو سلام کیا ساتھ ہی خالہ سے پوچھا امی کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ باجی واش روم میں ہیں۔۔۔
میں چپ چاپ بیٹھ گئی خالہ اور مامی باتیں کر رہی تھیں کہ پانچ منٹ بعد ہی پورے کپڑوں میں ملبوس چادر جسم پر لپیٹے ہوئے امی کمرے میں داخل ہوئیں اور آتے ہی ممانی سے گلے ملیں اور نان سٹاپ گلے شکوے شروع ہو گئے۔ خیر اس دن دو گھنٹے بعد مامی تو چلی گئیں۔۔۔۔
اور امی نے بھی جانے کی نوید سنائی۔ میں اٹھ کر واش روم کی جانب چل دی۔۔ امی اور خالہ سرگوشیوں میں کچھ باتیں کر رہی تھیں۔ میں فٹافٹ واش روم کے دوسرے دروازے سے جو کہ بیٹھک میں کھلتا تھا بیٹھک میں داخل ہوئی اور دروازے پاس آکر کان دروازے کے ساتھ جوڑ دیے۔۔ تو خالہ کہہ رہی تھیں باجو توں بے فکر رہ کل کوئی آیا وی تاں میں کنڈی نہیں کھولنی۔ کل آویں رج کے مزہ کراں گے۔ پھر امی کی آواز سنائی دی۔۔ پر اس ناز دا کی کراں گے اونے تے کل نوں وی تیار ہو جانا مینوں پتہ نا او دا۔
تو خالہ نے کہا باجو ایہہ توں میرے تے چھڈ دے میں اونوں آندی نوں دودھ اچ نیندر دی گولی دے چھڈنی آپے ای چار گھنٹے ستی روؤ گی۔ اور ان کی آواز دروازے سے دور ہو
گئیں لگتا تھا جیسے وہ باتیں کرتے کرتے بیٹھک سے پرے ہٹ گئیں ہوں۔۔ میں چپ چاپ واش روم میں گئی اور فریش ہو کر واپس آگئی اور اپنا عبایا پہنا پھر ہم دونوں واپس اپنے گھر آگئے۔ باقی سارا دن اور رات میں اگلے دن کے بارے میں سوچتی رہی۔ کہ کیسے امی اور خالہ کا شو دیکھوں۔ اگلے دن چونکہ اتوار تھا اور سکول سے بھی چھٹی تھی تو سب لوگ ہی گھر پر تھے۔۔۔
بس ابو باہر اپنے دوست کی طرف گئے تھے۔ اور آپ ابھی سو رہے تھے۔ صبح دس بجے ہی امی نے آپی کو بولا کہ روبی میں نجمہ کی طرف جا رہی ہوں تم بھائیوں کو کھانا بنا دینا۔ اور یہ کہہ کر برقع پہنے لگیں تو میں بھی عبایا پکڑ کر امی کے پاس آ گئی۔ امی امی میں بھی ساتھ چلوں گی تو امی کہنے لگیں تو وہاں جا کر کیا کرے گی کل بھی سو گئی تھی یہاں گھر میں ہی رہ اور روبی سے کچھ کھانا بنانا سیکھ۔ اتنے میں آپی بولی چلو امی آپ لے جاؤ نا اسے ساتھ ۔۔۔ بے چاری کے پاس چھٹی کا ہی تو دن ہوتا ہے ورنہ تو ہر وقت پڑھائی میں مصروف رہتی ہے۔
تو امی بولیں چل نگوڑ ماری جلدی برقع پہن اور چل میرے ساتھ ۔ میں اور امی تیار ہو کر نکلے اور تھوڑی دیر بعد ہم خالہ کے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔ خالہ نے مجھے گلے لگایا اور میرا ماتھا چوما پھر امی سے گلے ملیں اور ہم لوگ اپنے اپنے عبائے اتار کر ٹی وی لاؤنج میں موجود کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔۔۔خالہ کہنے لگیں اچھے وقت پر آئے ہو تم لوگ میں چائے ہی بنانے لگی تھی تو باجو آپ کیلئے چائے اور ناز کیلئے دودھ تیار کر کے ابھی لاتی ہوں کیونکہ مجھے پتہ کہ میری بیٹی چائے نہیں دودھ پینا پسند کرتی ہے۔ اور یہ کہہ کر خالہ کچن کی طرف چل دی۔
چونکہ خالو کو رسالے پڑھنے کا بہت شوق تھا تو انہوں نے گھر میں ہی ایک لائیبریری بنائی ہوئی تھی جو کہ اوپر والے سٹور روم میں کے ساتھ ملحقہ تھی۔ میں نے خالہ سے کہا کہ میں اوپر جا رہی ہوں کوئی رسالہ لیکر پانچ منٹ میں آتی ہوں آپ اتنی دیر کچن سے فارغ ہو لیں۔ اور یہ کہہ کر میں اوپر چل پڑی۔ اور سیڑھیوں پر رک کر ایک سائیڈ میں چھپ کر امی کی طرف دیکھا تو وہ خالہ کو ہی دیکھ رہی تھیں اور خالہ ان کو انگوٹھا کھڑا کر کے اشارہ کر رہی تھیں جیسے سب او کے ہے کا نشان بنا رہی ہوں۔ میں سیدھا اوپر کل والے کمرے میں گئی جہاں امی اور خالہ پچھلے روز لگی ہوئی تھیں۔
اور اندر جا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ میں کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ رہی تھی کہ جہاں سے میں سارا منظر آرام سے دیکھ سکوں۔ اچانک ہی میری توجہ اوپر والے روشن دان پر گئی جو کہ کمرے کی داہنی دیوار میں تھا۔ میں اس طرف گئی اور دیکھا کہ اس کے ساتھ ملحقہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسے خالہ لوگ سٹور روم کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ میں سٹور روم میں داخل ہو گئی اور یہ دیکھ کر میری آنکھیں چمک اٹھیں کہ وہاں سٹور روم میں ایک بڑا سٹول بھی موجود تھا جس پر چڑھ کر میں آسانی سے اندر جھانک سکتی تھی۔ میں نے سٹول پر چڑھ کر اندر کمرے میں جھانکا تو پورا کمرہ میری نظر کے سامنے تھا۔
میں وہاں سے نکلی اور لائیبریری سے ایک ناول اٹھا کر نیچے چلی آئی امی اور خالہ پھر سے بیڈ روم میں بیٹھی ہوئی تھیں اور میرا دودھ کا گلاس سامنے ٹیبل پر تھا تو میں نے یہ کہتے ہوئے دودھ کا گلاس اٹھایا کہ میں ٹی وی لاؤنج میں جا رہی ہوں اور گلاس منہ کو لگاتے ہوئے ایک چھوٹا سا گھونٹ بھرا اور باہر چل دی۔ باہر جاتے ہی میں نے منہ میں موجود اور آدھا گلاس دودھ واش بیسن میں پھینکا اور پانی گرا کر وہاں سے ٹی وی لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئی اور ناول کھول لیا۔ چند منٹ تک کوئی ہلچل محسوس نا ہوئی تو دبے پاؤں اٹھی اور گلاس کا باقی دودھ بھی واش بیسن میں گرا کر پانی بہا دیا
لیکن گلاس میں چند قطرے دودھ کے چھوڑ دیے اور جا کر ناول پکڑ کر کل کی طرح ہی ٹی وی کے آگے لیٹ گئی۔ اور ناول کو ایسے اپنے ہاتھ کے پاس سائیڈ پر بے ترتیبی سے گرا دیا۔ تا کہ پہلی نظر دیکھنے میں ایسا لگے کہ ناول پڑھتے ہوئے ہی سو گئی ہوں۔۔۔۔ٹھیک پانچ منٹ بعد مجھے قدموں کی آواز سنائی دی اور خالہ نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا اور آواز دی نازو۔ مجھے بے سدھ دیکھ کر خالہ نے اچھی طرح مجھے جھنجھوڑا تو میں نے گہری نیند کی ایکٹنگ کرتے ہوئے منہ سے بے ربط سے آوازیں نکالی اور کروٹ بدل کر اپنا منہ دروازے کی طرف کرتے ہوئے اپنی آنکھیں ہلکی سی غیر محسوس انداز میں کھول لیں۔۔۔۔
لے پھڑ باجو ایہہ تاں کھوتے گھوڑے ویچ کے مودی ہو گئی۔۔ خالہ نجمہ نے خوش ہوتے ہوئے امی کو پکارا۔۔۔ تو امی بھی پر جوش لہجے میں بولیں تاں چل فیر گشتیے جلدی چل تے چلیے ٹیم نا برباد کر میری پھدی اگ ورائی جاندی۔ امی کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔ میں نے ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ امی کا لال ہوتا چہرہ دیکھا۔ اور امی اوپر والے روم کی طرف چل دیں۔۔۔۔ خالہ نجمہ یہ کہتے ہوئے باہر کے دروازے کی طرف لپکیں کہ باجو توں چل تے میں دروازے نوں تالا مار کے آئی۔ اور دروازہ لاک کر کے خالہ بھی امی کے پیچھے چل دیں۔۔۔۔
کوئی دس منٹ بعد میں بھی اپنی جگہ سے اٹھی اور آہستہ سے دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچ گئی۔۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔ لیکن میں نے وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا۔۔ اور یہ میرا اچھا فیصلہ تھا جس کا ادراک مجھے تھوڑی دیر بعد ہی ہو گیا تھا۔ میں سٹور روم کے اندر جا کر آہستہ سے سٹول پر چڑھ گئی اور اندر دیکھا تو میرے ہوش رخصت ہوگئے۔۔۔۔ امی ننگی ہوکر سامنے بیڈ پر سیدھی لیٹی
ہوئی تھیں جبکہ ان کی ٹانگیں ہوا میں اٹھی ہوئی تھیں اور خالہ جھک کر امی کی ٹانگوں میں سر دے کر کچھ کر رہی تھی مجھے سمجھ نہ آئی کہ خالہ کیا کر رہی ہیں پر ان کا سر مسلسل آگے پیچھے ہل رہا تھا۔
ادھر امی کا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔ اور وہ مسلسل آہیں بھر رہی تھیں اسی دوران خالہ نے امی کی ٹانگیں دونوں سائیڈوں پر پھلا دیں اور جیسے ہی وہ نیچے جھکی مجھے ایک جھٹکا لگا۔۔۔۔ خالہ نے اپنا منہ امی کی شرم گاہ پر پیشاب والی جگہ پر رکھ دیا تھا اور زبان نکال کر اسے بڑی رغبت سے چاٹ رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے اپنی ٹانگوں کے بیچ والی جگہ میں ایک اینٹن کی پیدا ہوتی محسوس ہوئی اور میرا ہاتھ بے اختیار اپنی پیشاب والی جگہ پر پہنچ گیا۔ جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس جگہ کو ٹچ کیا تو سرور کی اک لہر میرے اندر مچل گئی۔۔۔۔
مجھے زندگی میں پہلی دفعہ ایسا سرور محسوس ہوا تھا۔۔ اور میں نے مسلسل اس جگہ کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ جس سے میرے جسم میں مزے کی لہریں دوڑنے لگیں۔ پھر میں نے اپنی نظریں اندر جما دیں۔۔۔ خالہ مسلسل اپنی زبان نکالے امی کی ،،، وہ جگہ ، چاٹ رہی تھیں اور امی اب کراہتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ چٹ چٹ میری پھدی چٹ۔ نی گشتیے۔ لن کھان آلی رنڈی ۔۔۔۔ کتی اینگوں زبان کڈ کے اس ماں نوں چٹ۔۔۔۔۔ اج اید اسارا چاکڑ دے بار۔۔۔ اپنے مینوں بہت تنگ کیتا ہو یا۔۔۔۔ مجھے امی کے منہ سے ایسے لن پھدی جیسے الفاظ سن کر پتہ نہیں کیا ہو تا جا رہا تھا۔۔۔
میرے اندر جیسے بجلی کی لہریں چل رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ بھلا امی یہ سب کیوں کرتی ہیں اور اتنی گندی زبان امی کی توبہ توبہ ۔۔۔۔ لیکن ایک بات تھی اتنے گندے الفاظ سن کر میرا ہاتھ بے ساختہ میری ٹانگوں کے درمیان اور تیز چلنے لگا۔۔۔۔ ادھر امی کی آوازیں چیخوں میں بدل چکی تھیں۔ تو پھر کچھ پانچ منٹ بعد ہی امی کانپنے لگیں اور خالہ کو پیچھے دھکا دے کر خود دونوں ٹانگیں گھٹنوں سے فولڈ کر کے پیٹ کے ساتھ جوڑ لیں اور امی کو جھٹکے لگنے لگے۔ چند لمحوں بعد امی کا جسم پر سکون ہو چکا تھا۔
اور اب امی سیدھی لیٹی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا تو امی کی پیشاب والی جگہ سے سفید رنگ کا گاڑھا گاڑھا مواد باہر نکلا ہوا تھا۔ امی کے منہ سے اس قسم کے لن پھدی جیسے الفاظ سن کر مجھے پتہ چل چکا تھا کہ امی جسم کے کس حصے کو کیا کہہ رہی ہیں۔۔ تو اب مجھے بھی وہی الفاظ سوچنا اور سننا اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔ جیسے ہی امی کا جسم پر سکون ہوا۔۔۔ امی اٹھ کر کھڑی ہوگئیں اور خالہ نجمہ کو گلے لگا لیا۔
امی کے بڑے بڑے ممے تقریباً 38 سائز کے تھے۔ گول مٹول مموں پر بڑے بڑے نپل۔۔۔۔ پیٹ سے گوشت تھوڑا ڈھلکا ہوا تھا۔ جبکہ خالہ نجمہ ہر لحاظ سے امی سے آگے تھیں ان کے ممے بھی چالیس سائز کے تھے پیٹ بلکل کسا ہوا۔ اور ان کی سب سے خاص چیز ان کی گانڈ تھی جو کہ باہر ایسے نکلی ہوئی تھی جیسے کسی غار کے اوپر پہاڑیاں ہوں۔۔۔اب دونوں بہنوں کے ممے آپس میں ملے ہوئے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ چوم رہی تھیں۔۔ کچھ دیر تک اسی طرح کسنگ کرنے کے بعد امی اور خالہ دونوں بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ امی کہنے لگیں ہن او کنجر کتھے رہ گیا آیا کیوں نہیں بجے تک۔
امی بے چینی سے جیسے کسی کا انتظار کر رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ اب اور کون آنے والا ہے۔ تبھی خالہ نجمہ اپنی پھدی کو مسلتی ہوئی بولیں او وی آجاؤ گا اونی دیر تک ہا میری آگ تاں ماڑی جنی ٹھنڈی کر دے باجو ۔۔۔ امی اٹھ کر نیچے زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر سیدھی لیٹ گئیں اور خالہ نجمہ چلتی ہوئی امی کے سینے کے پاس آئی اور دونوں ٹانگیں امی کے دونوں اطراف رکھ کر اپنا منہ امی کی طرف کیا اور امی کے سینے کے پاس پاؤں کے بل بیٹھ کر اپنی گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھالی۔ اس طرح خالہ کی پھدی سیدھا امی کے منہ کے سامنے آگئی۔
امی کی طرح خالہ کی پھدی کے ہونٹ بھی تھوڑے کھلے ہوئے تھے۔ امی نے اپنی زبان باہر نکالی اور خالہ کی پھدی کو چاٹنے لگیں۔۔۔اب خالہ کی کراہیں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ اور وہ مسلسل کراہتے ہوئے امی کو ڈائریکشن دے رہی تھیں۔۔۔۔۔ باجو تھوڑا تھلے۔۔۔۔۔ ہاں تھوڑا سائیڈ تے۔۔۔۔ آہہ ہ ایتھے مار اپنی جیب۔۔۔۔۔ ہاں ہاں میر ا چھولہ چوس۔۔۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میرا ہاتھ مسلسل اپنی پھدی کو کھا رہا تھا۔۔۔۔ اب میری بھی ٹانگیں کانپنے لگیں اور مجھے واضح محسوس ہوا جیسے میری رگوں کا سارا خون میری ٹانگوں کی طرف جا رہا ہو۔ میں گھبرا کر سٹول سے نیچے اتر آئی۔۔۔
میرے اندر جیسے آگ لگی ہوئی تھی۔ میری پھدی تپتی جا رہی تھی۔۔ میں نے جلن سے بچنے کیلئے اپنی شلوار اتار کر پھینک دی اور نیچے دیکھا تو میری پھدی لال سرخ ہو رہی تھی۔ اچانک میرے جسم کو جھٹکا لگا اور مجھے لگا کہ میرا پیشاب نکلنے لگا ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی روکنے کی لیکن وہ جلن سی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے اپنا دوپٹہ منہ میں ٹھونس لیا۔ مبادا آواز ہی نا باہر چلی جائے۔۔۔ اور ہاتھ سے پھر اس جلن کو مٹانے کیلئے جیسے ہی اپنی پھدی پر ہاتھ لگایا مجھے لگاتار جھٹکے لگنے لگے اور میری پھدی سے کچھ پانی جیسا نکلنے لگا۔۔ میں کھڑی کانپتی رہی۔ مگر جیسے جیسے میری پھدی سے پانی نکل رہا تھا مجھے سکون ملتا جارہا تھا۔۔۔
وہ میری زندگی کا پہلا لمحہ تھا کہ جب میں سیکس کی اس لذت سے آشنا ہوئی تھی میں نے اپنے ہاتھ کو پھدی پر لگایا تو کافی چہچہاہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے ہاتھ کو سامنے کر کے دیکھا تو یہ بلکل اسی طرح سفید سفید گاڑھا پانی تھا جو امی کی پھدی میں سے نکلا تھا۔۔۔۔ اچانک مجھے سٹور روم کے باہر کھٹکا محسوس ہوا میں نے کان لگا کر سنا تو کوئی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آرہا تھا۔۔۔ میں ڈر کے مارے کانپنے لگی کہ اب کیا ہوگا اندر امی اور خالہ اس حالت میں موجود اور میں اس جگہ پر ایسے کھڑی ہوں۔ میں نے لیک کر اپنی شلوار اٹھا کر پہنی اور دروازے کے ساتھ کھڑی کانپتی رہی۔۔۔ پھر مجھے لگا کہ قدموں کی وہ آواز ساتھ والے کمرے کے سامنے رک گئی ہے اسی وقت مجھے کسی مرد کے بولنے کی آواز سنائی دی۔۔۔
مجھے اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ لیکن ساتھ والے کمرے میں کسی قسم کی ابتری محسوس نہ کرتے ہوئے میں دوبارہ ہمت کر کے سٹول پر چڑھ گئی۔ اندر کا منظر دیکھا تو میرا منہ حیرانگی سے کھلا رہ گیا۔ اندر خالو دروازے کے پاس ہی بلکل ننگے کھڑے اپنے ہاتھ سے اپنے لن کو سہلا رہے تھے۔ خالو کا لن کالے رنگ کا تھا اور بلکل بلیک کوبرا کی طرح ہوا میں جھٹکے کھا رہا تھا۔ اتنا بڑا لن دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ وہاں امی مسلسل سب چیزوں سے بےنیاز خالہ کی پھدی چاٹ رہی تھیں۔۔۔ تبھی خالو نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ہوں میرا انتظار وی نا کر سکیاں تسی دونوں گشتیاں۔۔۔
خالو کی آواز نے تو جیسے بمب پھوڑا۔۔ خالہ ایک دم اچھلی لیکن خالو کو دیکھ کر بڑے پیار سے مسکراتے ہوئے بولیں آجا تیری من پسند ڈش بالکل تیار ای۔ لیکن امی نے اپنا منہ نہیں ہٹایا اور مسلسل پھدی چاٹتی رہیں اور پھر اچانک ۔۔۔۔
جاری ہے