ڈاکٹر ہما
1 قسط
ڈاکٹر ہما کا تعلق ایک 28 سال کی ایک بہت ہی خوبصورت اور جوان لڑکی تھی۔ بے حد گوری رنگت ، چکنا جسم، چھوڑ تو ہاتھ پھسلتا ہی جائے جسم پر سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے دودھ اور مکھن سے تراشا ہوا جسم ہوا سکا۔ مناسب قد، لیے سیاہ بال ، ہلکی سی نیلی آنکھیں، بے حد خوش مزاج اور ہنس مکھ لڑ کی۔ ویسا ہی شوہر اسے ملا تھا۔ انور بھی اپنے حسن اور وجاہت میں اپنی مثال آپ تھا۔ مناسب قد ، گورا رنگ ، مضبوط جسم اور پیار کرنے والا۔ دونوں کی جوڑی خوب جچتی تھی۔ جو بھی دیکھا تو دیکھتاہی رہ جاتا اور انکی جوڑی کی تعریف کیلئے بنا نہ رہ سکتا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر چکی ہوئی تھی اور شادی کو بھی ڈیڑھ سال ہو چکا تھا مگر دیکھنے میں ابھی بھی ایک کمین معصوم سی لڑکی ہی لگتی تھی۔ دل کی بہت اچھی تھی۔ غرور اور بد مزاجی تو اسکے مزاج میں دور دور تک نہیں تھی۔ کسی کو تکلیف دینے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ دوسروں پر بہت جلدی اعتبار کر لینے اور انکی باتوں میں آجانے والی نیچر تھی ہمائی۔ تعلق اس کا ایک متوسط گھرانے سے تھا جو کہ انتہائی شریف لوگ تھے۔ والد اسکے ایک سرکاری ملازم تھے۔ اپنی زندگی میں پیسہ سے زیادہ انہوں نے عزت ہی بنائی تھی تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب ہما کی شادی کی بات چلی تو انکے ایک بہت جگری دوست نے اپنے بیٹے کارشتہ پیش کیا جسے ہما کے والد نے بخوشی قبول کر لیا۔ اپنے والد کے فیصلے کو مانتے ہوئے اس نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ابو کے دوست کے بیٹے سے شادی کو ہاں کر دی تھی۔ اسکے ابو کے دوست کا بیٹا انور ایک فرم میں انجینئر تھا۔ اچھی جاب تھی۔ انور کے والد گاؤں میں ہی رہتے تھے اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ۔ بھی دل کرتا تو شہر میں آ جاتے کچھ دن انور کے پاس رہنے کے لیے اور ہی چلے جاتے۔ ساتھ پینسٹھ سال کی عمر میں بھی چوہدری کرامت مکمل فٹ آدمی تھے۔ بڑا بیٹا عابد بھی پڑھا لکھاتھا مگر اب اپنے باپ کے ساتھ گاؤں میں ہی رہ گیا ہوا تھا اور اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ہما بھی اس خاندان میں آکر بہت ہی خوش تھی۔ ساس اسکی تھی نہیں جس سے کسی بات پر اور بیچ بیچ ہوتی اور سسر تو تھے ہی بہت اچھے انسان۔ ہما اپنے شوہر انور کے ساتھ بہت خوش تھی۔ وہ اسکا بہت خیال رکھتا تھا یہ دونوں شہر میں ایک بلڈ نگ کی چوتھی منزل کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اس سے اوپر کی منزل ابھی زیر تعمیر تھی جس میں بلڈ نگ کے سیکورٹی گارڈ رہتے تھے۔ ہما شادی کے ایک سال بعد تک ہما گھر پہ ہی رہی مگر شوہر کے ڈیوٹی پر چلے جانے کے بعد اسکا دل نہیں لگتا تھا۔ آخر اس نے جاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ انور نے بھی خوشدلی سے اسے اجازت دے دی۔ کیونکہ وہ بھی اپنی خوبصورت بیوی کی خوشی میں ہی خوش تھا۔ پرائیویٹ ہسپتال میں رات کو کام تو اتنازیادہ نہیں ہوتا تھا بس جیسے ہی وہ اپنے اپنے کام سے یعنی مریض دیکھنے سے فارغ ہوتے اور کسی ایک کے آفس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتے۔ آخر دونوں نے اور کرناہی کیا تھا۔ کبھی زمان چائے منگواتا تو کبھی ہما اور کبھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بھی بن جاتا تو وہ بھی چلتارہتا اور بس ایسے ہی ہنسی کھیل میں بہا کی ڈیوٹی گزرنے لگی۔ وہ اب اپنے فارغ پن سے بھی نجات پاچکی تھی اور زمان کی شکل میں اسے ایک اچھا دوست بھی مل گیا تھا۔ہما ایک لڑکی تھی تو زمان کی اسکے اندر دلچسپی کو وہ کیسے محسوس نہ کر پاتی۔ اسے بھی احساس ہونے لگا کہ زمان اسکو پسند کرتا ہے اور اسی لیے وہ اسکے ارد گرد ہی منڈلاتا رہتا ہے۔ ویسے بھی عورت بھی تو آخر انسان ہی ہوتی ہے نا تو جیسے مرد کا دل باہر نظر آنے والی کسی بھی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر مچل جاتا ہے تو ایسے ہی عورت کا بھی کسی پرائے مرد کو دیکھ کر اس میں دلچسپی لینا بھی کوئی بڑی یا بری بات تو نہیں نا۔ اور یہ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مگر مردوں کے بر عکس عور تیں اپنی اس قسم کی پسند کو بڑے سلیقے سے اپنے دل میں ہی چھپا جاتی ہیں ۔ کچھ ایسا ہی حال ہما کی بھی تھا۔ اسے بھی زمان اچھا تو لگتا تھا مگر وہ کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے ڈرتی یا بجاتی تھی۔ ہمالباس کے معاملے میں فیشن کا کافی خیال رکھتی تھی اور جب سے جاب پر آنے لگی تھی زمان کے ساتھ تو اور بھی اپنے پہنا دے کا خیال رکھتی تھی۔۔ فیشن کے مطابق ہی کپڑے پہنے کا شوق تھا اسکو۔۔ ہر طرح کے کپڑے پہننے کی اجازت تھی اسکو اپنے شوہر کی طرف سے۔۔ وہ اکثر قمیض ، شلوار یا نا ئٹس ، لیکی یا جینز پہنتی تھی۔ ہر لباس ہی اسکے کھلتے ہوئے خوبصورت جسم پر بچتا
تھا۔۔
جب بھی ٹائٹس پہنتی تو اسکے جسم کے نشیب و فراز دلوں پر بجلیاں ہی گراتے تھے۔ اور ایسی ہی بجلیاں ڈاکٹر زمان کہ گھائل کر چکی ہوئی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود ایک نرس زیب سے ہما کی اچھی دوستی تھی وہ بھی ہا کو چھیڑ تی کہ زمان اسکو پسند کرنے لگا ہے۔ زیب: ڈاکٹر ہما آپ نے نوٹ نہیں کیا شائد کہ ڈاکٹر زمان ہر وقت آپکے ارد گرد ہی پھرتے رہتے ہیں۔ زیب نے اس وقت یہ بات کی جب زمان ایک مریض کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کر ہما کے گورے گورے چہرے پہ ایک ہلکا سا سرخ رنگ لہرا کر گزر گیا اور وہ دھیرے سے مسکر اکر بولی۔ ہما۔ تو میں کیا کروں۔ زیب: ڈاکٹر صاحبہ کرنا تو آپکو وہی پڑے گا جو ڈاکٹر زمان چاہیں گے۔ ہم ہنس پڑی اور زیب کی طرف مصنوعی غصے سے دیکھتی ہوئی بولی۔۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔ تم خود کر لوجو کرنا ہے اسکے ساتھ ۔۔ یا جو وہ کہتا ہے۔۔ زیب مسکرائی۔۔ ہائے ے ے ے ے۔۔۔ میں تو فور آتیار ہو جاؤں اگر زمان صاحب مجھے ایک بار بھی اشارہ کر دیں۔۔ ہما تبھی اسکی بات پر بننے لگی۔۔۔ اور تھوڑی شرماتی ہوئی بولی۔۔۔ تم تو ایسے کر رہی جیسے تمھارے اندر کوئی بہت ہی زیادہ آگ لگی ہوئی ہو۔۔ لگتا ہے کہ تمھارا دل ڈاکٹر زمان پر آگیا ہے۔۔ زیب جنی۔۔ کیا کرؤں ڈاکٹر زمان ہیں ہی اتنے ہینڈ سم اور سمارٹ کہ ان پہ دل آجانا کوئی بڑی بات نہیں ہا۔۔۔ پھر تمھارے اس عاشق کا کیا جو اکثر حمکو ملنے آتا ہے۔۔۔۔۔ راشد۔۔ زیب۔۔ ہو تو ہے ہی۔۔۔۔۔۔ پر اس دل کا کیا کرؤں ۔۔۔ زیب اپنے بائیں مے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔۔ پرائیویٹ ہسپتال میں رات کو کام تو اتنازیادہ نہیں ہوتا تھا بس جیسے ہی وہ اپنے اپنے کام سے یعنی مریض دیکھنے سے . فارغ ہوتے اور کسی ایک کے آفس میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتے۔ آخر دونوں نے اور کرناہی کیا تھا۔ کبھی زمان چائے منگواتا تو بھی ہما اور بھی کچھ کھانے پینے کا پروگرام بھی بن جاتا تو وہ بھی چلتارہتا اور بیس ایسے ہی نہی کھیل میں ہما کی ڈیوٹی گزرنے لگی۔ وہ اب اپنے فارغ پن سے بھی نجات پاچکی تھی اور زمان کی شکل میں اسے ایک اچھا دوست بھی مل گیا تھا۔ ہما ایک لڑکی تھی تو زمان کی اسکے اندر دلچسپی کو وہ کیسے محسوس نہ کر پاتی۔ اسے بھی احساس ہونے لگا کہ زمان اسکو پسند کرتا ہے اور اسی لیے وہ اسکے ارد گرد ہی منڈلاتا رہتا ہے۔ ویسے بھی عورت بھی تو آخر انسان ہی ہوتی ہے ناتو جیسے مرد کا دل باہر نظر آنے والی کسی بھی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر مچل جاتا ہے تو ایسے ہی عورت کا بھی کسی پرائے مرد کو دیکھ کر اس میں و چیپسی لینا بھی کوئی بڑی یا بری بات تو نہیں نا۔ اور یہ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ مگر مردوں کے بر عکس عور تیں اپنی اس قسم کی پسند کو بڑے سلیقے سے اپنے دل میں ہی چھپا جاتی ہیں یہ کچھ ایسا ہی حال ہما کی بھی تھا۔ اسے بھی زمان اچھا تو لگتا تھا مگر وہ کوئی بھی قدم آگے بڑھانے سے ڈرتی یا بجاتی تھی۔جمالیاس کے عالم میں فیشن کاکافی بھال رکھتی تھی اور جب سے جاب پر آنے لگی تھی زمان کے ساتھ تو اور بھی اپنے پہنا دیے کا خیال رکھتی تھی۔۔ فیشن کے مطابق ہی کپڑے پہننے کا شوق تھا اسکو۔۔ ہر طرح کے کپڑے پہنے کی اجازت تھی اسکو اپنے شوہر کی طرف سے۔۔ وہ اکثر قمیض ، شلوار یا نا ئٹس، لیگی یا جینز پہنتی تھی۔ ہر لباس ہی اسکے کھلتے ہوئے خوبصورت جسم پر جچتا تھا۔۔ جب بھی ٹائٹس پہنتی تو اسکے جسم کے نشیب و فراز دلوں پر بجلیاں ہی گراتے تھے۔ اور ایسی ہی بجلیاں ڈاکٹر زمان کہ گھائل کر چکی ہوئی تھیں۔۔ ڈیوٹی پر موجود ایک نرس زیب سے ہما کی اچھی دوستی تھی وہ بھی ہم کو چھیڑتی کہ زمان اسکو پسند کرنے لگا ہے۔ زیب: ڈاکٹر ہما آپ نے نوٹ نہیں کیا شائد کہ ڈاکٹر زمان ہر وقت آپکے ارد گرد ہی پھرتے رہتے ہیں۔ زیب نے اس وقت یہ بات کی جب زمان ایک مریض کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔ اسکی بات سن کر ہما کے گورے گورے چہرے پہ ایک ہلکا سا سرخ رنگ لہرا کر گزر گیا اور وہ دھیرے سے مسکرا کر بولی۔ ہما۔ تو میں کیا کروں۔ زیب: ڈاکٹر صاحبہ کرنا تو آپکو وہی پڑے گا جو ڈا کٹر زمان چاہیں گے۔ ہماہنس پڑی اور زیب کی طرف مصنوعی غصے سے دیکھتی ہوئی بولی۔ کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔ تم خود کر لوجو کرنا ہے اسکے ساتھ ۔۔ یا جو وہ کہتا ہے۔۔ زیب مسکرائی۔۔ ہائے سے سے سے ہے۔۔۔ میں تو فور آتیار ہو جاؤں اگر زمان صاحب مجھے ایک بار بھی اشارہ کر ی کی بات بنے گی اور تیموری رہائی ہوئی ہیں تم تو اسے کر دی جسے تمھارے اندر کوئی بت ہی زیادہ آگ لگی ہوئی ہو ۔۔ لگتا ہے کہ تمھار اول ڈاکٹر زمان پر آگیا ہے۔۔ زیب ہنسی۔۔۔ کیا کرؤں ڈاکٹر زمان ہیں ہی اتنے ہینڈ سم اور سمارٹ کہ ان پر دل آجانا کوئی بڑی بات نہیں ہما۔۔۔ پھر تمھارے اس عاشق کا کیا جو اکثر تمکو ملنے آتا ہے۔۔۔۔۔ راشد۔۔ زیب۔۔ ہو تو ہے ہی۔۔۔۔۔۔ پر اس دل کا کیا کرؤں ۔۔۔ زیب اپنے بائیں مے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔۔ ہما بھی اس سب بات چیت کو حسب معمول انجوائے کر رہی تھی۔۔ تو پھر کہہ کیوں نہیں دیتی ان سے اپنا حال دل۔۔ زیب۔۔ کیا فائدہ کہنے کا ڈاکٹر ہما۔۔ زیب اپنے چہرے پر تھ پر تھوڑی شرارت اور تھوڑی مایوسی لاتی ہوئی بولی۔ ہما۔۔ کیوں۔۔فائدہ کیوں نہیں۔۔ زیب ہما کو آنکھ مارتی ہوئی بولی۔۔۔ کیونکہ ڈاکٹر زمان کا دل تو آپ پر آیا ہوا ہے۔۔ یار کر نے کی اور بیوی ہی نہیں میں ایک شادی شدہ کرتی ہوں ۔ مجھ سے کیا مطلب اسکو۔ زیب۔۔ ارے ہما جی ۔۔۔ زمان صاحب کو جو مطلب ہے وہ تو ایک شادی شدہ لڑکی بھی پورا کر سکتی ہے۔۔ ہم شرماتی ہوئی۔ جی نہیں مجھے کسی کا کوئی مطلب پورا نہیں کرنا۔ میں اپنے میاں جی کے ساتھی ہی خوش ہوں زیب بنسی۔۔ ڈاکٹر ہما آپکی شرماہٹ بتارہی ہے کہ آپکے دل میں بھی کچھ کچھ ہو تا ضرور ہے زمان صاحب کو لے کر ۔۔ اور ہوتا بھی ہے تو کیا ہوا۔۔ ان شادی شدہ مردوں کی طرح ایک شادی شدہ لڑکی کو بھی پوری اجازت ہے اور حق ہے کہ وہ بھی اپنے من پسند مرد سے انجوائے کر سکے۔۔ جانے گئی تو مجھے کھرے کھوانے کی نہیں ۔ زیب بھی اس بات پر بنے تھی۔ زیب۔۔ ڈاکٹر ہما۔ ایک بات کہوں۔۔ ویسے آپ ہو بہت لگی۔ ہما مسکرائی۔۔ وہ کیسے۔زیب۔۔ وہ ایسے کہ آپکو شوہر ملا تو بہت خوبصورت اور اسکے بعد عاشق ملا تو وہ شوہر سے بھی بڑھ کر۔۔ ہما اسکی بات پر شرما گئی اور بننے لگی۔۔۔ دونوں ہنس رہی تھیں کہ زمان آفس میں داخل ہوا اور دونوں کو ہنستے ہوئے دیکھ کر بولا۔۔ کیا بات ہے۔۔ آپ لوگ کس بات پر ہنس رہے ہو جی۔۔ ہما اور زیب دونوں ایکدوسری کو دیکھ کر مسکرانے لگیں۔۔ ہما فور ابولی۔۔ ارے زیب دروازہ تو کھلا رہنے دو۔ مگر زیب در وازہ بند کر کے جاچکی تھی۔۔ زمان مسکرا یا۔۔ ارے ڈاکٹر ہما۔۔ کیوں گھبرارہی ہیں دروازہ صرف بند ہوا ہے لاک تو نہیں ہوانہ۔۔ ویسے بھی آپکو میرے سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں آپکو کاٹنے تو نہیں لگانا۔۔ ہما اسکی بات پہ مسکرادی اور تھوڑ اشرما بھی گئی۔۔ لیکن ایسے اچھا تو نہیں لگتا نا کہ ہم آفس بند کر کے بیٹھے ہوں کوئی دیکھے تو کیا سوچے گا نا۔۔ زمان ۔۔ ارے ڈاکٹر ہمارات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں اس وقت سارے مریض سو چکے ہوئے ہیں آپ انکی فکر نہیں کریں۔۔ کوئی ہمیں یہاں نہیں دیکھے گا ایک ساتھ بیٹھے ہوئے۔ ہما مسکرائی۔۔ ڈاکٹر زمان آپ دن بہ دن نائی نہیں ہوتے جار ہے ؟ زمان ۔۔ اور آپ بھی تو دن بہ دن خوبصورت ہوتی جارہی ہیں۔۔ ہما۔۔ زمان میں ماروں گی آپکو۔۔ زمان۔۔ مار لیں آپ پھر اسکے بعد میں بھی ماروں گا۔۔ زمان نے ہما کو آنکھ ماری۔۔ ہماشر مائی۔۔ بہت بد تمیز ہو تم نا۔۔ ایک آہ پر زمان ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے بولا۔۔ بس آپ کے حسن اور بے نیازی نے بد تمیز بنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مانیان یا کیا کسی کا عاشق کی طرح بی یو کر رہے ہو۔ زمان مسکرا کہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور ہما کے قریب ہی صوفے پر آتا ہوا بولا۔۔ چلو آج آپ نے ہمیں اپنا عاشق تو ہما تھوڑا گھبرائی، تھوڑا شرمائی اور تھوڑا اپنی جگہ پہ سمٹی۔۔ زمان۔۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو یار۔ میں ایک شادی شدہ لڑکی ہوں ہمارے درمیاں یہ دوستی والا سلسلہ نہیں چل سکتا نا۔۔ زمان ہما کے تھوڑا اور قریب سر کا۔۔ دھیرے سے ہما کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولا۔۔ مجھے بھی پتہ ہے کہ آپ شادی شدہ ہیں۔۔ مگر ہم دوستی تو کر سکتے ہیں نا۔۔ اور اس میں کوئی بھی حرج نہیں ہے۔۔ میں بھی بس آپ سے دوستی ہی چاہتا ہوں نا کوئی آپکو اپنے شوہر سے الگ ہونے کو تو نہیں کہہ رہانا۔ ہماد ھیرے سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔ لیکن یہ سب ٹھیک نہیں ہے نا۔۔ اگر میرے شوہر کو پتہ چل گیا تو۔۔زمان نے ہی کا ہاتھ اوپر اٹھایا۔ اور اسکے گورے گورے ہاتھ کو چوم لیا۔ ہمانے فور اپنا ہاتھ پیچھے کرنا چاہا مگر زمان نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا ابلکہ اسکے ہاتھ کو آہستہ سے جھٹکا دے کر اپنی طرف کھینچا۔ تو ہم زمان کے اور قریب آگئی۔۔ دونوں کے چہرے ایکدوسرے کے بلکل قریب آگئے۔ دونوں کی نظریں ملی ہوئی تھیں۔۔ ہما کی سانسیں تیز ہونے لگیں۔۔ اسکے ہونٹ پھڑ پھڑانے لگے۔۔ دھیرے دھیرے ہونٹ کھیلنے لگے ۔۔ زمان جیسے خوبصورت اور مینڈسم مرد کو اپنے اپنے قریب پا کر اسکی اپنی حالت بھی بے قابو ہونے لگی تھی تھی ۔۔ آنکھوں میں عجیب سانشہ سا اتر نے لگا تھا۔۔۔ زمان کی گرم گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔ آخر زمان نے درمیانی فاصلہ طے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ بہت ہی آہستگی کے ساتھ ہما کے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور اسکے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔۔ ہما کاتو پورا جسم ہی تھرا اٹھا۔۔۔ کانپ کر رہ گئی۔۔ مگر اپنے ہونٹوں کو زمان کے ہونٹوں سے جدا کرنے کا خیال اسکے دل میں آیا اور نہ ہی ہو پیچھے ہٹ سکی۔۔ زمان نے بھی اب آہستہ آہستہ ہما کے ہونٹوں کو بار بار چومنا شروع کر دیا۔۔ پھر اسکے نچلے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ اسکے دونوں ہاتھ اب ہما کے دونوں بازؤں پر تھے ۔۔ جو کے اسکی ہاف سلیو شرٹ میں سے باہر تھے۔۔ وہ آہستہ آہستہ ہما کے گورے گورے ننگے بازؤں کو سہلانے لگا۔ ہما کے ملائم چکنے جسم پر اسکے ہاتھ پھسل رہے تھے اور اوپر سے اسکے ہونٹ ہما کے ہونٹوں کا رس پی رہے تھے۔۔ آج اسکی بہت دنوں کی خواہش پوری ہوا رہی تھی اور اسے ہما کے اتنے قریب آنے، اسکے جسم کو چھونے اور اسکو کس کرنے کا موقع مل گیا تھا۔۔۔ وہ تو خود کہ ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔ ہواؤں میں اڑتا ہوا تو ہما بھی محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اور اب بنا کسی مزاحمت اور روک ٹوک کے زمان کو اپنے ہونٹ چومنے اور چوسنے دے رہی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی ایک دوسرے کو چومنے کے بعد ہما کو تھوڑا ہوش آیا تو اس نے جلدی سے خود کو زمان سے الگ کیا۔۔۔ زمان پلیز۔ ایسا نہیں کرو پر سب ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اگر کوئی اندر آ گیانا تو بہت برا ہو گا۔۔۔ زمان ۔۔ ارے ہما کیوں ڈرتی ہو۔ کوئی بھی اندر نہیں آئے گا۔۔ صرف سٹاف زیب ہی تو جاگ رہی ہے۔۔ اور وہ بھی اپنے عاشق کے ساتھ فون پر لگی ہو گی۔۔ تم کوئی فکر نہیں کرو کسی کی۔۔ بس انجوائے کر و آج کا دن۔ اپنی بات پوری کرتے ہی زمان نے اس بار ہما کو اپنی طرف کھینچ کر اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔ اور اپنے سینے سے بیچ لیا۔ ہما اسکے سینے کے ساتھ لگ کر مست کی ہونے لگی۔۔ عجیب سی کیفیت ہونے لگی۔۔ عجیب سامزہ آنے لگا۔۔ زمان کے ہاتھ ہما کی کمر پر تھے۔۔ اوپر نیچے کو پھسل رہے تھے۔۔ اسکی کمر کو سہلارہا تھا۔ ہما کی بریزیر کے سٹر میں اور بک اپنے ہاتھوں سے محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اور ایسے ہی دوبارہ سے اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا۔۔۔ ہما کے سڈول اور سالڈ مے زمان کے سینے سے لگے ہوئے تھے۔۔ اور وہ انکی سختی کو آسانی سے محسوس کر پار ہا تھا۔۔ ہما کے ہو نوں کہ چومتے ہوئے۔۔ چوستے ہوئے۔۔ اسکے ہونٹوں کی لپ اسٹک چراتا جار ہا تھا۔۔ دونوں نئے نئے لوور ز ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور سٹاف زیب اندر داخل ہوئی مگر اندر کا منظر دیکھ کر فورا ہی رک گئی ۔۔ اسے دیکھتے ہی دونوں جلدی سے ایکدوسرے سے الگ ہو گئے۔۔ زیب۔۔اوہ۔۔ سوری۔۔ سوری۔۔ مجھے ناک کر کے آنا چاہیے تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ لوگ۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔ وہ دراصل روم 4 والی مریضہ بلوار ہی تھی ڈاکٹر ہما کو۔۔ یہ کہہ کر زیب کمرے سے باہر نکل گئی۔۔ ہما غصے سے زمان کو دیکھنے لگی ۔۔ بس ہو گیا : کچھ غلط۔۔ میں نے کہا بھی تھا کہ یہ سب نہیں کر و۔۔ اب پتہ نہیں زیب کیا کیا باتیں بنائے گی۔۔ زمان۔ آئی ایم سوری ڈاکٹر ہما۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ ایسے ہی منہ اٹھا کر اندر آجائے گی۔۔ ہما اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس وقت میں روگ تو رہی تھی تم کو مگر تم کسی کی سنتے بھی ہو۔۔ زمان بھی اٹھا اور دوبارہ ہما کو پکڑتے ہوئے بولا۔۔ بس کیا کروں تم کو اپنی باہوں میں پاکر جوش ہی نہیں رہا ہما ۔۔ چھوڑ دو مجھے اب۔۔ جانے دوا سے دیکھنے کے لئے۔
جاری ہے