شریف بہن اور بھائی۔ قسط 24

شریف بہن اور بھائی

قسط 24


میں نے شدید تکلیف سے چلا کر کہا اچھا اچھا۔۔۔۔ اور آپی نے اپنے دانتوں کو تھوڑا نرم کر دیا تو میں انگلی باہر نکال کر بولا۔۔ کتنی ظالم ہو یار آپی۔۔۔ میری جان نکال دی۔۔۔۔ اتنی زور سے کاٹا ہے۔۔۔۔ تبھی آپی نے کھکھلا کر ہنتے ہوئے کہا کہ یاد رکھنا بچے کبھی بھی اس لڑکی سے پنگا نہیں لینا جس کے منہ کے پاس تمہارا یہ کیوٹی کیوٹی ہو۔۔۔


اور یہ کہتے ہوئے پھر سے لن کو منہ میں ڈال لیا۔ میں بھی اپنی دو انگلیاں پھر سے آپی کی پھدی میں ڈال کر ہلاتے ہوئے آپی کے دانے کو چوسنے لگا۔۔۔ کچھ پانچ منٹ بعد ہی مجھے لگا کہ اب میرا لن اپنا لاوہ بہانے کیلئے تیار ہے تو میں نے مزے سے چور لہجے میں کہا۔۔۔۔ آپی ۔۔۔ مم مم ۔ میں چھوٹنے لگا ہوں۔۔۔ آپی نے ایک لمحے کیلئے لن کو منہ سے باہر نکالا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی میں۔۔۔ میں بھی چھوٹنے والی ہوں ،،،، اور فورا ہی دوبارہ لن کو منہ میں لے کر چوپے لگانے لگیں۔ میں نے بھی فوراً آپی کے دانے کو ہونٹوں سے پکڑ کر اندر کی طرف کھینچا تو آپی کا جسم یکدم اکڑ گیا اور ان کو جھٹکے لگنے لگے۔۔۔۔ 


میری انگلیاں آپی کی پھدی کے اندر ہی تھیں۔ آپی کی چوت میری انگلیوں کو کبھی بھینچتی تھی اور کبھی چھوڑ دیتی تھی۔۔۔ کافی دیر تک آپی کو جھٹکے لگتے رہے اور ان کی پھدی میری انگلیوں کو ایسے ہی بھینچتی اور چھوڑتی رہی۔۔۔ میں نے فورا ہی آپی کی پھدی سے منہ لگا دیا اور ساراجوس چاٹنے لگا عین اسی لمحے میرے جسم بھی اکڑا اور میرے لن نے بھی آپی کے منہ میں ہی لاوا اگلنا شروع کر دیا۔۔۔ 


میری آنکھیں مزے کی شدت سے بند ہو گئیں۔۔۔۔ ہم دونوں ہی ڈسچارج ہو چکے تھے۔۔۔۔ آپی اٹھیں اور میرے داہنے پہلو میں لیٹ کر اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر رکھ کر منہ بھینچتے ہوئے آوازیں نکالیں ،،،، اوں اوں اوں،،،، میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو آپی نے اپنے ہونٹوں کو مضبوطی سے بند کر رکھا تھا۔ اور ہونٹوں کی دونوں سائیڈوں سے میرا منی بہہ رہا تھا۔۔۔ میرے منہ میں بھی آپی کی چوت سے نکلا ہوا امرت موجود تھا۔۔ 


آپی نے میرے گال پر ہاتھ رکھ کر میرے چہرے کو اپنی طرف کیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کے ساتھ ایک دوسرے کو کس کرنے لگے۔۔۔ کافی دیر تک ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے اور زبانیں لڑانے کے بعد ہم الگ ہوئے تو ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر دونوں ہی ہنس پڑے۔ پھر آپی نے پاس پڑی ہوئی میری شرٹ اٹھا کر اس سے پہلے اپنا منہ صاف کیا اور پھر میرا منہ صاف کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ گندے !! مجھے بھی اپنی طرح گندا بنا دیا ہے تم نے۔۔۔ میں نے نڈھال سی آواز میں شرارت سے کہا۔۔ آپی گندی تو آپ پہلے سے ہی تھی۔۔۔ کیونکہ ہو تو میری ہی بہن نا۔۔۔۔ 


بس یہ گندگی کہیں اندر ہی چھپی ہوئی تھی جو اب باہر آرہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کی جوانی کے جوس سے بھرے ہوئے ہونٹ چپکا دیئے۔۔۔۔ پھر آپی مجھے ( ابھی آئی ) کہہ کر ننگی ہی نیچے چلی گئیں اور تقریبا پندرہ منٹ بعد واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں موجود ٹرے میں گرم دودھ سے بھرے ہوئے دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔۔۔ چلو اٹھو اور شاباش دودھ پیو کافی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے۔۔۔ جلدی دودھ پیو تھوڑی دیر میں ہی ٹھیک ہو جاؤ گے۔۔ آپی بڑی فکر مند ہو رہی تھیں۔۔۔۔ ہم دونوں نے اپنا اپنا دودھ کا گلاس اٹھا کر پینا شروع کیا۔۔۔ دودھ پینے کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر وہیں بیڈ پر ہی لیٹ گئے۔۔۔ اور آپی بڑی محبت بھرے لہجے میں بولیں،،،، ساگر میری جان ہو تم ،،، بس مجھ سے ناراض مت ہوا کرو۔۔۔۔ 


میرا دل ہول جاتا ہے۔۔۔۔ میں نے محبت پاش نظروں سے آپی کو دیکھا اور اپنے سینے میں بھیج لیا۔۔۔ اور ایسے ہی پڑے پڑے پتہ نہیں کب ہم سو گئے۔۔۔ آپی کے ہلانے پر میری آنکھ کھلی۔۔۔ آپی مسلسل مجھے ہلاتے ہوئے کہہ رہی تھیں ساگر ۔۔۔ساگر۔۔۔۔اٹھو نا ساگررررر۔۔۔ ساگر کے بچے اٹھ جاؤ اب جلدی سے۔۔۔۔۔ اور مجھے جھنجھوڑا تو میں اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ گیا۔۔۔ ٹائم دیکھا تو دو بج چکے تھے۔۔۔۔ آپی بولیں اٹھو جلدی سے فریش ہو کر کپڑے پہنو۔۔۔ ناظم اور نازو بس آتے ہی ہوں گے۔۔۔ میں جلدی سے اٹھ کر واش روم میں گھس گیا۔۔۔ اور دس منٹ بعد ہی میں فریش ہو کر باہر آیا تو آپی میرے دوسرے کپڑے نکال چکی تھیں۔۔۔۔ 


میں نے فٹافٹ پینٹ پہنی۔۔۔ابھی شرٹ پہن ہی رہا تھا کہ آپی کی تشویش شدہ آواز سنائی دی۔۔۔۔ یار ساگر میں تھوڑا ناز پر نظر رکھتی ہوں تم بھی ناظم کو تھوڑا دباؤ۔۔۔ اب یہ آپس میں کھل چکے ہیں۔۔۔ اور تم تو جانتے ہی ہو کہ دونوں میں سیکس کی بھوک بہت زیادہ ہے۔۔۔۔ کہیں کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔۔۔ ایسی غلطی کہ جس سے پکڑ میں آ جائیں۔۔۔ یا پھر صحت کی خرابی ہو۔۔۔ تو میں نے سر ہلا دیا۔۔۔۔ اور تم بھی اپنی صحت کا تھوڑا خیال رکھو کل رات سے مسلسل جوس نکال رہے ہو۔۔۔ اب تمہاری اگلے دو دن کی چھٹی۔۔۔ بس اب ضد مت کرنا میں پہلے ہی کہے دیتی ہوں ہاں۔۔۔۔ آپی آنکھیں نکال کر بولیں۔۔۔۔ میں جو کچھ کہنے کیلئے منہ کھول رہا تھا۔۔۔ 


آپی کی محبت اور تشویش کے پیش نظر مسکرا کر رہ گیا اور وعدہ کیا کہ اگلے دو دن بلکل بھی سیکس کی طرف دھیان نہیں دوں گا۔۔۔۔ اچھا اب جلدی نیچے آؤ میں کھانا تیار کرتی ہوں یہ کہہ کر آپی کمرے سے نکل کر نیچے چلی گئیں۔۔۔۔ میں بھی آہستہ سے چلتا ہوا نیچے جا کر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا۔۔۔ اور ٹی وی چلا کر چینلز بدلنے لگا۔۔۔ آپی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔۔۔۔اتنے میں باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور ایک منٹ بعد ہی ناظم اور ناز اندر داخل ہوئے ناز کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔ وہ سیدھا میرے پاس آئی اور اپنا بیگ ایک سائیڈ پر پھینکتے ہوئے اچھل کر میری گود میں بیٹھتے ہوئے مجھے کس کرنے لگی۔۔۔ آپی کی چلاتی ہوئی آواز آئی خبردار جو کچھ بھی کیا تو چلو اٹھو شاباش اور جا کر کپڑے بدلو۔۔۔۔ 


اور ناز نے منہ بناتے ہوئے کہا آپی آپ اور بھیانے تو خود سارا دن مزے کیے ہوں گے اب ہمیں کیوں منع کر رہی ہو ۔۔۔۔ اور ناظم نے بھی آگے ہو کر ملتجانہ انداز میں آپی کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔ بکواس مت کرو تم دونوں چھوٹے بدمعاشوں کو اور کچھ بھی نہیں سوجھتا۔۔۔ ہر وقت سیکس سیکس۔۔۔ ذرا حالت دیکھو اپنے بھیا کی کمزوری سے رنگ پیلا پڑ گیا ہے۔۔۔ اب میری بات کان کھول کر سن لو۔۔۔ اب اگر اگلے دو دن تک تم تینوں میں سے کسی نے بھی سیکس کا نام بھی لیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ آپی کی ڈانٹ سن کر میں نے ہونٹوں پر آتی ہوئی مسکراہٹ کو روکتے ہوئے سہم جانے کی ایکٹنگ کی۔۔۔ 


چھوٹے دونوں بھی منہ بنا کر رہ گئے۔۔۔ پھر ناز نے مجھ سے پوچھا بھیا کیا ہوا ہے تو میں نے نڈھال سے لیجے کہا کہ نازو یار شدید کمزوری کا احساس ہو رہا ہے چونکہ کل رات لگاتار دو دفعہ ڈسچارج ہوا ہوں شاید اسی لیے کمزوری ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہاری تفتیش پوری ہو گئی ہو تو جا کر اب کپڑے بدل لو۔۔ لیکن میری بات دماغ میں بٹھا لو کہ اگلے دو دن تک کوئی بھی کچھ نہیں کرے گا۔۔۔ آپی نے انگلی دکھاتے ہوئے وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔۔۔۔ تو دونوں چھوٹے بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے اپنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔


ان کے جانے کے بعد آپی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوا کہا۔۔۔۔ ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔۔ دونوں چھوٹوں کا یہ حال ہے۔۔۔ اور میں مسکراتا رہا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کھانا تیار ہو چکا تھا۔۔۔ ناز اور ناظم بھی کھانے کی ٹیبل پر پہنچ چکے تھے۔۔۔ آپی کھانے کے برتن ٹیبل پر رکھ ہی رہی تھیں کہ اتنے میں پھر سے باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی۔۔۔ میں نے ناظم کو اشارہ کیا تو وہ اٹھ کر دروازہ کھولنے چلا گیا۔۔۔۔ توقع کے عین مطابق دروازے سے امی ہی اندر داخل ہوئیں۔۔۔۔ سب سے دعا سلام کیا اور خاص طور پر میری طبیعت کا پوچھا۔۔۔ امی اس وقت ایسے کھکھلاتے ہوئے خوشی بھرے لہجے میں بات کر رہی تھیں۔۔ 


جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔۔۔۔ اور خوش کیوں نا ہوتیں۔۔۔ آج پھر اپنے من کی مراد پوری کر کے آئی تھیں۔۔ مطلب خالو سے چدوا کر آئی تھیں۔۔۔۔ کھانا کھا کر میں باہر نکل گیا اور دوستوں کے ساتھ سنوکر کلب چلا گیا۔۔۔ وہاں کافی اچھا ٹائم گزرا اور رات کا کھانا میں نے دوستوں کے ساتھ باہر ہی کھایا۔۔۔۔ رات کو جب گھر میں داخل ہوا تو ساڑھے دس بج رہےتھے۔۔۔ ابو اپنی روٹین کے مطابق ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے اور ساتھ لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہے تھے۔۔۔۔ دعا سلام کے بعد میں ابو کے پاس ہی بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا۔۔۔۔ 


ابو نے ایک نظر چشمے کے اوپر سے مجھے پر ڈالی اور اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے۔۔۔ ساگر ۔۔۔۔۔ بیٹا تمہارے ایف ایس سی کے ایگزامز بھی ہونے والے ہیں۔۔۔ کیا ارادہ ہے تمہارا پھر ۔۔۔۔ ابو میرا ارادہ تو یہی ہے کہ انجنئیرنگ کروں الیکٹرونکس میں۔ مہم ۔۔۔۔۔ اچھا ساگر بیٹا تم میرے دوست اشفاق صاحب کو تو جانتے ہوگے نا وہی والے اشفاق صاحب جن کا الیکٹرونکس کا شوروم ہے۔۔۔۔۔ جی ابو بلکل جانتا ہوں۔۔۔۔ ابو کا سیٹریس انداز دیکھ کر میں بھی سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا مکمل دھیان ان پر لگا دیا ۔۔۔۔ ابو بولے۔۔ بیٹا اب میں ریٹائر ہونے والا ہوں اور کافی دنوں سے یہ سوچ رہا ہوں کہ کوئی کاروبار شروع کروں۔۔۔۔ 


اب قدرت نے خود ہی ایک راستہ بنا دیا ہے اسی کے بارے میں تم سے بات کرنی ہے۔۔۔ میں سینے پر دونوں ہاتھ باندھے سوالیہ نظروں سے ابو کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد ابو نے کہا۔۔۔ میں کچھ بھی کاروبار کروں سنبھالنا تو تم ہی نے ہے نا۔۔۔ کیونکہ میرے بعد گھر کے بڑے تم ہی ہو۔۔۔۔۔ میں نے سر جھکاتے ہوئے کہا،،، ابو آپ بلکل فکر نہ کریں میں ہر طرح سے آپ کی امیدوں پر پورا اتروں گا، میری بات سن کر ابو کے چہرے پر خوشی کا تاثر پیدا ہوا۔۔۔ اور وہ بولے۔۔اشفاق صاحب نے اپنا شو روم بڑی محنت سے بنایا ہے۔ مگر انہوں نے آج ہی مجھ سے ذکر کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے اپنے بیٹوں کے پاس امریکہ جار ہے ہیں۔۔۔ 


اب وہ اپنا شو روم بیچنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان سے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ مگر تم سے مشورہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ اگر وہ شوروم میں خرید لوں تو کیا تم اسے سنبھال سکو گے۔۔ ؟؟ میں نے ابو کی بات سن کر چند لمحوں کیلئے سوچا اور پھر مضبوط لہجے میں جواب دیا کہ ابو آپ میری طرف سے بے فکر رہیں۔ آپ تو ویسے بھی جانتے ہیں نا کہ مجھے الیکٹرونکس سے دلچسپی ہے۔۔۔ بس آپ دیکھ لیں کہ پیسوں کا بندوبست ہو جائے گا نا۔۔۔۔ ابو پر جوش ہو کر بولے وہ میں دیکھ لوں گا ویسے بھی کچھ پیسے دے کر باقی کا ٹائم لیا جا سکتا ہے۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ میں اور ابو اگلے دو گھنٹوں تک اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔۔۔ اس کے ہر منفی اور مثبت پہلو کو زیر بحث لاکر اس پر غور کیا۔ 


پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کے اوپر والے کا نام لے کر یہ کام شروع کر دیا جائے۔۔۔اس کے بعد میں ابو کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ جہاں ناظم پہلے ہی پڑھائی کرتے کرتے لڑھک چکا تھا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کو سیدھا کر کے لٹایا اور خود بھی لیٹ گیا۔۔۔ چند منٹوں بعد ہی میں نیند کی وادیوں میں کھو چکا تھا۔۔۔۔ دو دن اسی طرح روٹین میں گزر گئے اور ہم چاروں میں سے کسی نے بھی سیکس سے متعلق کوئی بات تک نہیں کی۔۔۔۔ تیسری رات کافی دیر تک کمپیوٹر پر ایک انڈین مووی دیکھتا رہا ۔۔۔۔ اور سوتے سوتے مجھے رات کے تین بج گئے۔۔۔۔ رات کو جب دیر سے سویا تو صبح آنکھ بھی کافی دیر سے کھلی۔۔۔


صبح میری آنکھ کھلی تو دس بج چکے تھے۔۔۔ میں منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کیلئے نیچے جانے لگا ابھی پہلی سیڑھی ہی اترا تھا کہ مجھے اوپر والی سیڑھیوں سے کھٹکا سنائی دیا میں نے اوپر دیکھا تو مجھے ایک پر چھائیں سی نظر آئی۔۔۔ میں دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو آپی کو دیکھا۔۔۔۔ آپی نے ایک لال رنگ کا ٹب پکڑ رکھا تھا جس کو الٹا کر کے آپی نے اپنے ممے چھپائے ہوئے تھے ۔۔۔۔ ان کے بال ایک موٹی چٹیا میں بندھے ہوئے تھے ۔۔۔ اور چند آوارہ لٹیں آپی کے گیلے رخساروں پر پڑی ہوئی تھیں۔۔۔۔ آپی نے پرنٹڈ لان کا ایک ڈھیلا ڈھالا سوٹ پہن رکھا تھا۔۔۔ اور چادر ، اسکارف، ڈوپٹہ وغیرہ سے بے نیاز تھیں۔۔۔ 


قمیض کی آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہوئی تھیں۔۔۔ شلوار کے پائنچے پیروں تلے دبے ہوئے تھے۔۔ اور خوبصورت گلابی پاؤں جوتے کی قید سے آزاد تھے۔۔۔۔ میں نے سر سے لے کر پاؤں تک آپی کے جسم کو دیکھا اور حیرت زدہ سی آواز میں بولا ،،، آپی ۔۔۔۔۔ مجھ سے چھپ رہی ہو ، آپی نے پریشان نظروں سے مجھے دیکھا اور ہکلاتی ہوئی بولیں ، وہ تم ۔۔۔ تم جاؤ نیچے ۔۔۔ م۔ م۔۔۔ میں آکر تمہیں ابھی ناشتہ دیتی ہوں، میں سمجھ نہیں یار ہا تھا کہ آپی ایسے سہمے ہوئے سے انداز میں کیوں بات کر رہی ہیں۔ میں ایک قدم ان کی طرف بڑھا تو وہ ایک دم سے سائیڈ پر ہوئیں۔۔۔


اور ایک ہاتھ سے ٹب کو اپنے سینے پر دبائے دوسرے ہاتھ سے مجھے روکتے ہوئے بولیں،،،، تم جاؤ نہ ساگر یار۔ میں آتی ہوں نہ نیچے ، میں نے شدید حیرت کے اثر میں کہا۔ آپی کیا بات ہے آپ ایسے گھبرا کیوں رہی ہیں۔ اور اوپر سے کہاں سے آرہی ہیں۔۔۔ آپی بولیں، وہ میں دھلے ہوئے کپڑے اوپر پھیلانے گئی تھی۔ تم جاؤ نیچے۔ امی بھی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ہیں۔۔۔۔۔ میں اور قریب ہوا تو آپی گھبرا گئیں۔۔۔۔


اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں۔ میں آپ کے اتنے قریب کوئی پہلی بار تو نہیں آ رہا نا۔۔ یہ کہہ کر میں آگے بڑھا اور آپی کے ہاتھ سے خالی ٹب کھینچ لیا۔۔ آپی کے سینے سے طب ہٹا تو ایک حسین ترین نظارہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔ آپی نے قمیض کے اندر برا نام کی کوئی چیز بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔۔۔ آپی کی گیلی قمیض ان کے دونوں بھاری مموں کے درمیان خالی جگہ پر سمٹ کر ان کے مموں کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)