خدیجہ۔ قسط 24

خدیجہ 


قسط نمبر 24



سیاسیات کی کلاس (پولیٹیکل سائنس) کی جانب سفر


خدیجہ سیکیورٹی گارڈ کے ہمراہ مائیکل کی راہ تک رہی تھی۔ اسے یہ اچھا نہیں لگا تھا کہ مائیکل نے شاور میں اس سے زیادہ وقت لگایا تھا اور جب وہ باہر آیا تو اس کا لن بھی فل کھڑا ہوا تھا۔ خدیجہ تھوڑی جیلس ہوئی کیونکہ ظاہر ہے کہ مائیکل کا لن اس کی وجہ سے نہیں بلکہ باقی لڑکیوں کی وجہ سے کھڑا ہوا تھا۔ تاہم، ایک بات کی اسے تسلی تھی کہ کم از کم مائیکل نے مٹھ نہیں ماری یا مروائی۔


"اوہو مائیکل کا تو کھڑا ہوا ہے" خدیجہ نے شرارتی لہجے میں کہا۔


"آئی ایم سوری" مائیکل نے جواب دیا۔


"ارے سوری کیا کیا بات ہے۔ اتنا پیارا تو لگ رہا ہے"


مائیکل کو خدیجہ سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ پہلے تو اس کا ردعمل بالکل مختلف تھا اس کے لن کے حوالے سے۔ اب ایسا کیا ہوا آخر۔ مائیکل سوچنے لگا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔


"میرا خیال ہے اگلی کلاس کے پہلے پانچ منٹ میں تمہیں ریلیف لے لینا چاہیے۔" خدیجہ نے خود ہی مائیکل کو تجویز دی۔ اسے امید تھی کہ اس بار مائیکل کو ریلیف دینے کا موقع اسے ہی ملے گا۔ 


سوشل سائنسز کی بلڈنگ کی طرف جاتے ہوئے البتہ مائیکل کا کھڑا لن سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ صبح جب اس کا لن سویا ہوا تھا تو چلتے ہوئے اسے کافی شرم آئی تھی۔ اب وہ شرم دوگنا ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے ایسا نظارہ طلبا کو ہر روز تھوڑا ہی نظر آتا تھا۔ ایک لڑکے کو یوں سخت کھڑا لن لئے تیز تیز چلتے ہوئے دیکھنا بھی ایک مزیدار سین تھا۔ 


مائیکل اور خدیجہ طلبا کے قریب سے گزرتے تو انہیں طلبا کے تبصرے بھی سنائی دیتے۔


"ارے واہ مائیکل ۔ کیا لن ہے بھئی"


"مائیکل اس کھمبے پر جھنڈا لگا لو اب"


"مائیکل سچ بتانا مجھے دیکھ کھڑا ہوا ہے نا"


ایسے تبصرے تو پھر بھی قابل قبول تھے لیکن بعض طلبا نے تو حد ہی کر دی۔


"بس؟ اتنا ہی لمبا ہے بس؟"


"کیا یہ واقعی کھڑا ہوا ہے یا میری نظر کا دھوکہ ہے؟"


"یہ تو کسی لڑکی کو محسوس بھی نہیں ہو گا"


ایسے تبصروں پر سیکیورٹی گارڈ تصویر لے لیتا۔ مائیکل اور خدیجہ جلد از جلد کلاس میں پہنچنا چاہتے تھے لیکن سوشل سائنسز کی بلڈنگ جم سے بالکل مخالف سمت میں تھی اور فاصلہ کافی تھا۔ لہذا دونوں کو ہی توقع تھی کہ ابھی مزید طلبا سے سامنا ہو گا۔


خدیجہ کو یہ احساس تھا کہ مائیکل کا لن کھڑا ہونے سے وہ طلبا کی نظروں سے بچی ہوئی تھی۔ لڑکوں کی نظریں اس کے اچھلتے مموں، تراش شدہ بالوں والی پھدی اور گانڈ پر تھی لیکن بہرحال تبصروں کا مرکز مائیکل کا لن ہی تھا۔ خدیجہ نے مائیکل کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنا انگوٹھا اس کی ہتھیلی رگڑنے لگی تاکہ اسے وہ وقت یاد دلا سکے جب وہ اس کے سامنے اپنی پھدی دکھانے کیلئے جان بوجھ کر جھک گئی تھی۔


مائیکل نے البتہ ہاتھ چھڑا لیا۔ صبح کی بات اور تھی۔ تب وہ اپنا لن تھوڑا بڑا کرنا چاہ رہا تھا۔ اب تو پہلے ہی کھڑا تھا اس کا لن۔ اس وقت خدیجہ کی گانڈ اور چوتڑوں سے جھانکتی پھدی کا خیال لن کو نرم تھوڑا ہی کر سکتا تھا۔ 



خدیجہ کو اچھا نہیں لگا جب مائیکل نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ مائیکل تو پہلے اتنا اچھا برتاؤ کر رہا تھا۔ کہیں ناراض تو نہیں ہو گیا۔ خدیجہ نے سوچا۔ لیکن میں نے کیا کیا ہے جو مجھ سے ناراض ہو رہا ہے۔ شاید اسے غصہ ہے کہ لڑکے میری طرف تو ہوس سے دیکھ رہے ہیں لیکن لڑکیاں اس کے لن کا مذاق بنا رہی ہیں۔ اس میں بھی میرا تو قصور نہیں ہے نا۔ خدیجہ سوچتی جا رہی تھی۔ اس نے مائیکل کے لن کی طرف دیکھا جو کہ اب سکڑنے لگا تھا۔ مائیکل کے لن سے غبارے کی طرح ہوا نکلتے دیکھ کر خدیجہ کو نہ جانے کیوں افسوس ہوا تھا۔


________________________________________________


پولیٹیکل سائنس کی کلاس


جب وہ کلاس میں داخل ہوئے تو ان کا روایتی گرم جوش استقبال ہوا۔ مسٹر ڈیوڈ نے ان کا استقبال کیا تھا جو کہ اس کلاس کے انسٹرکٹر تھے۔ مسٹر ڈیوڈ کالج میں کافی مشہور تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ سٹوڈنٹ لیڈر تھے اور لمبے بالوں اور اپنے تیکھے سیاسی نظریات کی وجہ سے تب بھی کافی مشہور ہوا کرتے تھے۔ کافی سٹوڈنٹس کو شک تھا کہ مسٹر ڈیوڈ اپنی سٹوڈنٹ لائف میں حشیش کا نشہ کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسٹر ڈیوڈ کافی آزادانہ خیالات کے مالک تھے اور باقی پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرز سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ 


ایک مرتبہ سیمسٹر کے آغاز پر انہوں نے طلبا سے کہا اس سیمسٹر میں نہ کتابیں ہوں گی، نہ کوئی ٹیسٹ۔ طلبا کو پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن جب واقعی انہوں نے محض طلبا کی حاضری کی بنیاد پر امتحان میں گریڈز دیئے تو سب حیران رہ گئے۔ ہر کلاس میں مسٹر ڈیوڈ بس سٹوڈنٹس کو آبزرو کرتے کہ سٹوڈنٹس کلاس کا مقررہ وقت کیسے گزارتے ہیں۔ اس سب کی منطق یہ تھی کہ مسٹر ڈیوڈ کی تھیوری تھی کہ کسی بھی گروہ میں لیڈرز، فالوورز ، گروپس اور بغاوت قدرتی طور پر خود بخود رونما ہوتی ہیں اور اس طرح سٹوڈنٹس کو آزادی دینے سے وہ اصل سیاست سیکھ سکیں گے۔ 


سٹوڈنٹس کو اور کیا چاہئے تھا۔ کلاس میں کچھ کرنا ہی نہیں تھا بس حاضری لگاؤ اور اے گریڈ لے لو۔ اس سے بہتر ڈیل تو ممکن ہی نہیں تھی۔ مسٹر ڈیوڈ کو اس سال بہترین پروفیسر کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ باقی پروفیسر ان سے اسی لئے حسد کرتے تھے کہ مسٹر ڈیوڈ تعلیم میں جدت لاتے تھے جبکہ باقی پروفیسر جدت سے خائف تھے۔ 


اس سال وہ سائیکو ڈرامہ استعمال کر کے سیاسی ایشوز اور اختلافات کی نشاندھی کرنا چاہتے تھے۔ 


جب پرنسپل کے ساتھ میٹنگ میں انہیں پروگرام کے بارے آگاہی دی گئی تو انہوں نے فوراً اپنی کلاس کیلئے حامی بھر لی تھی۔ وہ تو اس قسم کی جدیدیت کے دل سے قائل تھے۔ 


"آئیے" آئیے کی بڑی یے کو مسٹر ڈیوڈ نے اچھا خاصہ کھینچ دیا تھا۔ وہ واقعی مائیکل اور خدیجہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے بہت خوش تھے۔ کلاس میں سٹوڈنٹس کی دلچسپی یکدم بڑھ گئی جب دو ننگے طلبا کلاس میں داخل ہوئے۔ کسی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ مسٹر ڈیوڈ کے دماغ میں کیا تھا لیکن سب کو یقین تھا کہ وہ مائیکل اور خدیجہ کو جیسے بھی استعمال کریں، ان کا ہر طریقہ دلچسپی سے بھرپور ہی ہو گا۔ 


مائیکل اور خدیجہ نے آج تک مسٹر ڈیوڈ سے نہیں پڑھا تھا لیکن وہ ان کی شہرت سے بخوبی واقف تھے۔ کون نہیں تھا۔ 


"یس سر" دونوں نے مسٹر ڈیوڈ کے آئیے کا جواب سر ہلا کر دیا۔ دونوں ہی بہت محتاط تھے۔


"بھئی سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے آپ دونوں پر بہت فخر ہے۔" باری باری مسٹر ڈیوڈ نے ان دونوں سے مصافحہ کیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبا کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔


"جو کچھ آپ دونوں کر چکے ہیں ، جو کچھ آپ کر رہے ہیں اور جو کچھ آپ کریں گے۔ مجھے اس سب پر بے انتہا خوشی ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کی تعریف کر سکوں۔ " مسٹر ڈیوڈ کا یہ کہنا کہ ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں بہت معنی رکھتا تھا کیونکہ وہ باتوں میں بھی کھل کر اظہار کرتے تھے اور اپنی بادی لینگویج سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ 



"اچھا سب سے پہلے تو میں مائیکل آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو ریلیف کی ضرورت ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے مائیکل کی طرف رخ کر کے پوچھا۔


مائیکل جھینپ گیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے ابو اس سے پوچھ رہے ہوں کہ بیٹا مٹھ مارو گے۔ 


"شکریہ مسٹر ڈیوڈ لیکن میں ٹھیک ہوں" مائیکل نے مسٹر ڈیوڈ کو جواب دیا۔ 


"آر یو شور؟ میرے خیال میں تو کلاس کے آغاز کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا۔ سب کے سامنے ریلیف لینا بہادری کا استعارہ ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے کلاس کی طرف دیکھا۔ طلبا کے چہرے پر بے چینی اور کنفیوژن تھی۔ ایسے ہی لمحات کیلئے تو وہ پروفیسر بنے تھے۔ 


خدیجہ نے مائیکل کے قریب ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہلکی سی آواز میں اس سے کہا: "اگر تم چاہو تو میں تمہاری مدد کروں؟"


مائیکل حیران رہ گیا۔ اس نے خدیجہ کی طرف منہ پھیر کر دیکھا۔ وہ ہر گز خدیجہ کو کلاس کی نظروں میں نہیں لانا چاہتا تھا۔ یہ آج کی آخری کلاس تھی اور وہ یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ خدیجہ کو کچھ ایسا کرنا پڑے جس پر اسے شرمندگی ہو۔ اس کے ٹٹوں میں برداشت کر کر کے درد ہو رہا تھا۔ پہلے پروفیسر عافیہ اور پھر لڑکیوں کی صحبت نے شدت سے ڈسچارج ہونے کی خواہش جگا دی تھی لیکن اس کا خیال تھا کہ وہ یہ کلاس بغیر ڈسچارج ہوئے آرام سے گزار لے گا۔ ویسے بھی اس کلاس میں لڑکے کافی زیادہ تعداد میں تھے۔ 


"نہیں خدیجہ میں ٹھیک ہوں۔" مائیکل نے خدیجہ کو جواب دیا۔


مسٹر ڈیوڈ کو قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں تو توقع تھی کہ اس وقت تک مائیکل ڈسچارج ہونے کیلئے تڑپ رہا ہو گا اور وہ مائیکل کو کلاس کے سامنے ڈسچارج کروا کر سب کو حیران کر دیں گے۔ دراصل ان کا اصل مقصد مائیکل کے ڈسچارج ہونے پر طلبا کے ردعمل کو نوٹ کرنا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مختلف طلبا کس کس انداز میں اپنا ردعمل دیتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ مائیکل نے ڈسچارج ہونے سے معذرت کر لی تھی تو وہ اس بات کو اپنا منصوبہ خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ 


"ٹھیک ہے پھر۔ بچو جیسا کہ ہم آج کل سائیکو ڈرامہ کے بارے میں پڑھ رہے ہیں تو اب جبکہ ہمارے درمیان دو مخالف جنس کے ننگے طلبا موجود ہیں تو کیوں نا معاشرے میں مختلف جنس کے لوگوں کی سیاست کو ایکسپلور کیا جائے۔"


مائیکل اور خدیجہ کو کوئی اچھی توقع اب رہ ہی نہیں گئی تھی۔ خدیجہ نے ایک چیونگم منہ میں ڈالی۔



"جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ سائیکو ڈرامہ میں ہم کوئی بھی ایشو یا اختلاف ڈسکس کرتے ہیں اور اس سے متعلق معاشرے کی طے شدہ رائے کو چیلنج کر کے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور سیکس سے متعلق جتنی غلط فہمیاں معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں شاید ہی کسی اور موضوع سے متعلق ہوں۔ بعض لوگ تو سیکس کو صرف عورتوں کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ گردانتے ہیں۔ "


مسٹر ڈیوڈ کی باتوں پر کئی ایک طلبا نے بھنویں اچکائیں۔ 


"سب سے عام سیکس پوزیشن کون سی ہے؟" 


کئی طلبا نے ہاتھ کھڑے کئے۔ مسٹر ڈیوڈ نے سجاد کی طرف اشارہ کیا۔


"سر مشنری پوزیشن سب سے عام ہے" سجاد کا جواب درست تھا لیکن مسٹر ڈیوڈ مزید وضاحت کرنا چاہتے تھے۔


"اس پوزیشن میں عورت ٹانگیں اٹھا کر لیٹی ہوتی ہے اور مرد اپنا ہتھیار اس کے اندر گھسا کر اپنا بیج بوتا ہے جس کی وجہ سے اگلے نو ماہ وہ قابو میں رہتی ہے " 


کلاس کی کئی لڑکیاں مسٹر ڈیوڈ کو پسند کرتی تھیں لیکن اس بات پر انہیں اپنی پسند پر نظر ثانی کرنی پڑی لیکن طاہرہ مسٹر ڈیوڈ کے ہتھیار کے بارے میں سوچنے لگی۔ 


علی رضا نے مسٹر ڈیوڈ کی اجازت سے نشاندھی کی کہ کئی لڑکیاں نیچے کی بجائے اوپر آنا پسند کرتی ہیں اور اس پوزیشن کو کاؤ گرل پوزیشن کہا جاتا ہے۔ 


"ہاں ٹھیک کہا لیکن میرا چیلنج ہے کہ سروے کروا لو بیشک لیکن زیادہ تر مواقع پر لڑکی نیچے ہی ہوتی ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔


لفظ کاؤ گرل پر کئی طلبا مسکرا اٹھے۔ خود علی رضا خدیجہ کو کاؤ گرل ہیٹ پہنے اپنے لن پر سوار فرض کرنے لگا۔ اس کا لن ایک دم انگڑائی لینے لگا۔ 


"ویسے یہ آئیڈیا برا نہیں۔ ہم کلاس میں ہی سروے کروا لیتے ہیں۔ جو طلبا سیکس کر چکے ہیں اور اکثر کرتے ہیں ان کی رائے سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کون سی پوزیشن زیادہ مقبول ہے۔" مسٹر ڈیوڈ ہمیشہ دلچسپ قسم کے پریکٹیکل کرواتے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کی بات درست کے لیکن ان کے مطابق ایک ٹیچر کو اپنی رائے طلبا پر ٹھونسنی نہیں چاہئے بلکہ طلبا کو سچ دریافت کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔


"چلو سروے بھی کرواتے ہیں لیکن پہلے میں ایک اور عام پوزیشن دکھانا چاہتا ہوں۔ خدیجہ آپ ذرا ادھر آئیں اور اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل جھکیں زمین پر۔" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کو بازو سے پکڑ کر کہا۔



جارج ہے 

*

Post a Comment (0)