شریف بہن اور بھائی۔ قسط 25

شریف بہن اور بھائی

قسط 25


اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہیں۔ میں آپ کے اتنے قریب کوئی پہلی بار تو نہیں آ رہا نا۔۔ یہ کہہ کر میں آگے بڑھا اور آپی کے ہاتھ سے خالی ٹب کھینچ لیا۔۔ آپی کے سینے سے طب ہٹا تو ایک حسین ترین نظارہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔ آپی نے قمیض کے اندر برا نام کی کوئی چیز بھی نہیں پہنی ہوئی تھی۔۔۔ آپی کی گیلی قمیض ان کے دونوں بھاری مموں کے درمیان خالی جگہ پر سمٹ کر ان کے مموں کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے خالی ٹب نیچے رکھ کر اپنے ایک ہاتھ سے آپی کا بایاں ممہ تھامتے ہوئے دوسرا ہاتھ نیچے سے پھدی کی طرف لیجاتے ہوئے ہنس کر کہا،، یہ چھپا رہی تھیں مجھ سے۔۔ 


پہلی بار تھوڑی نا دیکھ رہا ہوں میں۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے جیسے ہی میں نے آپی کی پھدی کو ٹیچ کیا۔۔ میں ٹھٹھک گیا۔۔ اور دوبارہ سے اپنے ہاتھ سے پھدی کو ٹٹولنے لگا۔ میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ میرے ہاتھ میں پھدی آئے گی۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔ میرے ہاتھ نے فوم کے ایک ٹکڑے کو محسوس کیا اور چند سیکنڈ میں ہی میں سمجھ گیا کہ آپی نے اپنی پھدی پر پیڈ باندھا ہوا ہے۔ میں نے آپی کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مجھے دھکا دیتی ہوئی بولیں۔۔۔۔ بس چیک کر لیا۔۔۔ !! میں اسی لیے تم سے چھپ رہی تھی۔ میں نے آپی کی بات سنی اور ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کے شکنجے میں کستے ہوئے آپی کو دیوار کے ساتھ چپکا دیا۔۔۔ اور بولا ۔۔۔۔ تو کیا ہوا آپی میں اس کو نہیں چاٹوں گا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنا منہ آگے کیا اور آپی کے نچلے ہونٹ کو چوسنے لگا۔۔۔ 


آپی نے تڑپ کر اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے ہٹانے کی کوشش کی تو میں نے آپی کا ہونٹ اپنے منہ میں دبا لیا۔۔۔ جس کی وجہ سے آپی پھر مجھ سے چپک گئیں۔۔۔ میں نے زور دار طریقے سے آپی کے ہونٹ چوستے ہوئے آپی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھا۔۔ لیکن آپی نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں خود ہی پیچھے ہٹ گیا اور منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔۔ آپی کیا ہے یار ،، تھوڑا سا تو ساتھ دو نا،، آپی نے بے چارگی سے گڑ گڑاتے ہوئے کہا۔۔۔ ساگر رر ر پلیز ابھی میں نہیں کر سکتی نا۔۔۔ تم تھوڑا کنٹرول کر لو میری جان۔۔ 


میں نے پھر سے آپی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھتے ہوئے کہا۔ اچھا میں آپ کی پھدی کو نہیں چھیڑوں گا لیکن آپ اس کو تو پکڑ لو تھوڑی دیر ۔۔۔ تو آپی ذرا سخت لہجے میں بولیں، ، ساگر نہیں نا، کبھی تو میری بات مان لیا کرو۔ آج میں کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ آج میرے مینسز کا پہلا دن ہے۔۔ اور پہلے دن بہت زیادہ بہاؤ ہوتا ہے۔۔ بہت زیادہ خون کے بہاؤ کی وجہ سے پھدی کی اندرونی دیواریں بہت نازک ہو جاتی ہیں تو ایسے میں اگر میں تمہارا لن پکڑوں یا چوسوں گی تو ظاہر ہے کہ میں بھی گرم ہو جاؤں گی۔۔ اور میرا پانی رسنا شروع ہو جائے گا۔۔۔ 


اور ایسے ٹائم پر اگر پانی رسنے لگے تو بہت تکلیف ہوتی ہے مجھے۔۔۔ تمہیں تو اپنی پڑی رہتی ہے۔۔ میری تکلیف سے کوئی سروکار نہیں تمہیں۔۔۔۔ اور یہ کہتے ہوئے آپی کی آنکھیں بھرا گئیں۔۔۔ میں نے آپی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تڑپ کر آپی کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور شرمندگی سے بولا نہیں آپی رونا نہیں پلیز آپ کو پتہ ہے نا میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے دنوں میں آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔۔۔ آپی اسی طرح میرے سینے میں اپنا چہرہ چھپائے کھڑی رہیں پھر کچھ دیر بعد پیچھے ہٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔ 


اچھا اب تم جاؤ نیچے میں کچھ دیر بعد آکر تمہیں ناشتہ دیتی ہوں۔۔۔ ساتھ ہی میں اوپر سے اپنی چادر بھی لے آؤں ۔۔۔ میں نہیں چاہتی کے امی مجھے اس حال میں تمہارے سامنے گھومتے ہوئے دیکھیں۔۔۔ میں نے بڑے پیار سے آپی کے ہونٹوں کو چوما اور نیچے کی جانب چل دیا۔۔ نیچے پہنچ کر میں نے امی کو سلام کیا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے انجانے پن میں پوچھا۔۔۔ امی آپی کہاں ہیں آج کچھ ناشتہ واشتہ ملے گا۔۔۔ تو امی جو کہ دوپہر کے کھانے کیلئے گوشت کاٹ رہی تھیں۔ چھری نیچے رکھ کر اٹھیں اور بولیں۔ لاڈ صاحب کے اٹھنے کا کوئی ٹائم ٹیبل ہو تو ناشتہ بنا کر رکھیں نا۔۔ 


تم بیٹھو میں ابھی ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔۔۔ روبی نے آج مشین لگائی ہوئی ہے اور کپڑے دھو رہی ہے۔ امی کچن میں چلی گئیں اور میں ٹی وی دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد امی ناشتے کی ٹرے پکڑے کچن سے برآمد ہوئیں اور بولیں او فوہ میں تو بھول ہی گئی۔۔ ساگر تمہارے ابو کا فون آیا تھا کہ تم ٹھیک 12 بجے ان کے آفس میں پہنچ جاؤ وہ کہہ رہے تھے کہ تمہیں ساتھ لیکر اشفاق صاحب سے ملنے جانا ہے۔ جی اچھا امی میں چلا جاتا ہوں یہ کہہ کر میں نے پہلا نوالہ لیا ہی تھا کہ آپی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئیں۔۔۔ 


اس وقت آپی نے اپنی بڑی سی چادر اچھی طرح سر اور جسم پر لپیٹی ہوئی تھی۔ جس سے آپی کے جسم کے خدو خال چادر میں چھپ گئے تھے۔۔۔ میں نے اپنا سر جھکایا اور ناشتہ کرتے ہوئے امی کو دکھانے کیلئے اونچی آواز میں آپی کو سلام کیا وہ بھی سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ابو کے آفس چلا گیا۔ اور وہاں سے میں اور ابو ان کے دوست اشفاق صاحب کو ملنے ان کے شوروم جا پہنچے۔۔۔ ان کی شاپ پر تین ورکر کام کرتے تھے۔۔۔ خیر اگلے دو گھنٹوں میں ہم نے اشفاق صاحب سے سارے معاملات کرتے طے کر لیے۔۔۔ اور تو اور اشفاق صاحب نے اپنے ورکرز کو بلا کر ہمارا تعارف کرواتے ہوئے یہ بھی باور کروا دیا کہ آئندہ ہم لوگ اس شو روم کے مالک ہوں گے ۔۔۔ 


جس کو ورکرز نے بھی خوشدلی سے قبول کیا۔۔۔ اور اگلے چار دن تک ہم لوگ پیپر ورک میں ہی مصروف رہے۔۔ پھر روزانہ میں صبح کالج جاتا تھا اور کالج سے شو روم چلا جاتا۔ اور رات کو 9 بجے شاپ بند کرنے کے بعد ہی میں گھر آتا تھا۔۔۔ آج شاپ پر جاتے ہوئے میرا پانچواں دن تھا کہ جب شاپ بند کر کے میں گھر پہنچا تو ساری پلٹن کھانے کی میز پر موجود تھی۔۔۔


میں جلدی سے واش روم گیا اور ہاتھ منہ دھو کر کھانے کیلئے بیٹھ گیا۔۔۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے ہم نے کھانا ختم کیا تو ابو نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ ارے یار ساگر میں بھول گیا تھا کہ وہ تمہارا لائیسنس بن کر آگیا ہے۔۔۔ اور جیب سے لائیسنس نکال کر مجھے پکڑا دیا۔۔ ابھی میں لائیسنس دیکھ ہی رہا تھا کہ ناز نے میرے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور بولی بھیا ایسے ہی سوکھا سوکھا تو نہیں ملتا نا لائیسنس۔۔۔ اب جناب اپنی جیب کو تھوڑا ڈھیلا کریں اور ابھی کے ابھی آئسکریم کھلانے لے چلیں تو واپس کروں گی۔۔۔۔ اور ناز کی بات سن کر آپی اور ناظم بھی اس کے ساتھ مل گئے اور آئسکریم ، آئسکریم کا شور مچانے لگے ۔۔۔۔ 


تو ابو نے مسکراتے ہوئے ان کو چپ کروایا اور گاڑی کی چابی مجھے دیتے ہوئے بولے۔۔۔ جا لے جا یار ان کو کھلا لا آئسکریم۔ اور ساتھ میں اپنے لیے گاڑی کی دوسری چابی بھی بنوا لاؤ۔۔۔۔ میں ان سب کو آئسکریم کھلا کر اور چابی بنوا کر جب گھر میں واپس داخل ہوا تو اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ ہمیں اندر آتے دیکھ کر ابو بولے کہ میں تم لوگوں کے ہی انتظار میں جاگ رہا تھا۔۔۔ ورنہ مجھے سخت نیند آ رہی ہے۔ اب میں جا رہا ہوں اپنے کمرے میں اور تم لوگ بھی جا کر سو جاؤ۔ اب گپیں ہانکنے مت بیٹھ جانا یہ کہ کر ابو اپنے کمرے میں گئے اور دروازہ بند کر لیا۔۔۔


ناز جو کہ نجانے کب سے پیشاپ روکے ہوئے تھی ایک دم بھاگ کر واش روم میں گھس گئی اور آپی بھی اپنے کمرے کی جانب چل پڑیں۔۔۔ تبھی ناظم آہستہ سے میرے پاس ہو کر بولا ۔۔۔۔ بھائی آج آپی کو بولو نا تھوڑا مزہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ آج بہت دل چاہ رہا ہے۔۔۔۔ ناظم نے کہا تو آہستہ سے تھا لیکن آپی نے اس کی بات سن لی۔۔۔۔ لیکن میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی آپی نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور بولیں کیا تمہارا بھی دل کر رہا ہے تو میں نے جواب دیا نہیں یار مجھے اس ٹائم نیند کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھ سکے گا۔۔ میں تو چلا سونے۔۔ 


اگلے دن بھی روٹین کے مطابق میں 9 بجے گھر پہنچا۔۔۔ کھانے کے بعد ابو مجھ سے مخاطب ہوئے۔۔۔ بیٹا ویسے تو تم کالج سے سیدھا شو روم چلے جاتے ہو ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ تم پانچ بجے گھر آ جایا کرو۔۔۔ سلیم،،، پہلے سے موجود دکان کا منتظم ،،، اچھا محنتی اور ایماندار شخص ہے۔ پہلے بھی اشفاق صاحب کے وقت میں سارا کام وہی سنبھالتا تھا۔۔ اور میں بھی روزانہ ایک چکر لگا ہی لیتا ہوں۔۔۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابو میں تو اپنے تجربے کیلئے رات تک رکتا ہوں۔۔۔ اور ساری لسٹیں سیٹ کر رہا ہوں۔۔۔ بیٹا میری ایک بات یاد رکھو جب تک سانس چلتی ہے یہ کام بھی چلتے رہیں گے۔ تمہیں ساتھ ساتھ اپنا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ 


ایسا تو نہیں ہوتا کہ ہم سب کچھ آج ہی کر لیں اور پھر چین سے سو جائیں۔۔۔ ابو مجھے سمجھاتے ہوئے بولے۔۔ اور میں جی اچھا ابو کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ ناظم وہاں بیٹھا پڑھ رہا تھا۔۔۔ میں نے اس کے کندھوں کو ذرا جان سے دباتے ہوئے پوچھا۔۔۔ اور سناؤ چھوٹے کیا چل رہا ہے۔۔۔۔ اف بھائی جان آپ کو اپنی طاقت کا اندازہ بھی ہے کچھ؟ اتنی زور سے دبایا ہے کہ میرے کندھے شل ہو گئے ناظم منہ بسورتے ہوئے بولا۔۔۔۔ کیا یار تھوڑا سا ہی تو دبایا ہے اور تم سے برداشت نہیں ہو رہا اسی لیے تو کہتا ہوں اپنا پانی ذرا کم نکالا کرو۔۔۔ ویسے تمہیں تو کافی دن ہو گئے نا پانی نکالے ہوئے۔۔ بات کرتے کرتے میں نے سوالیہ انداز میں کہا۔ 


تو ناظم نے میری بات سن کر کہا۔۔۔ ارے ہاں بھائی کل آپ تو کمرے میں آگئے تھے تو آپی نے مجھے مزہ کروایا تھا۔۔۔۔ میں حیران ہوا اچھا وہ کب یار مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ تو ناظم بولا ہم کمرے میں تھوڑی نہ آئے تھے بس یہاں کمرے کے باہر ہی مجھے کھڑا کر کے آپی نے میرا لن چوس کر میرا پانی نکال دیا تھا۔ ویسے بھائی آپی آپ کے ساتھ تو بہت فری ہیں لیکن میرا لن تو صرف جان چھڑوانے والے انداز میں چوسا ہے۔ پتہ نہیں وہ میرے ساتھ ایسا کیوں کرتی ہیں۔۔۔۔ ارے نہیں یار ایسا مت سوچو مسئلہ یہ ہے کہ آج کل آپی کے مینسز چل رہے ہیں تو اس حالت میں وہ اگر دل سے چوستی تو ظاہر ہے وہ بھی گرم ہو جاتی۔ 


تو اس وقت آپی کی پھدی میں بہت جلن ہوتی ہے۔ مجھے یہ باتیں آپی نے خود بتائی ہیں۔۔۔ چل اب چپ چاپ سو جا اور مجھے بھی سونے دے یہ کہتے ہوئے میں بیڈ پر لیٹ گیا اور چند منٹوں میں ہی تھکن کی وجہ سے میں انٹاغفیل ہو چکا تھا۔۔۔ اگلی صبح میں تھوڑا لیٹ ہوا تو ناز مجھے اٹھانے آئی ۔۔۔۔ بھیا اٹھو۔۔۔۔ اب اٹھ بھی جاؤ۔ کیا آپ نے آج کالج نہیں جانا۔۔۔۔ دیر ہو رہی ہے میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور اس کو گھر کے کپڑوں میں ملبوس پا کر نیند سے بھری آواز میں پوچھا۔۔۔۔ چڑیل آج تم نے کیا اسکول نہیں جانا جو گھر کے کپڑوں میں گھوم رہی ہو۔۔۔۔ تو وہ بولی نہیں بھیا آج صبح جب میں نے دیکھا کہ آپ نہیں اٹھنے والے مطلب کالج کی بھی چھٹی تو میں نے امی سے سر درد کا بہانہ کر دیا تھا صبح ہی تو آج میں گھر پر ہی ہوں۔۔۔۔ 


اور آپی تو یونیورسٹی جاچکی ہیں۔۔۔ اور ناظم تو اپنے ٹائم پر سکول چلا گیا تھا۔۔۔ چلیں اب باتیں چھوڑیں اور نیچے آجائیں میں آپ کیلئے ناشتہ گرم کرتی ہوں۔۔۔ میں اٹھ کر واش روم میں چلا گیا اور پندرہ منٹ بعد فریش ہو کر نیچے چلا آیا۔۔۔۔ امی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھیں تو مجھے دیکھ کر وہیں رک گئیں اور پریشانی سے بولیں ساگر بیٹا کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمہاری۔ آج کالج کیوں نہیں گئے ۔ امی سب ٹھیک ہے بس گزشتہ چند دنوں کی روٹین سے تھک گیا تھا تو آج چھٹی کر لی کہ تھوڑا تھکن اتار لوں۔ میں نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔ 


تو امی بڑی محبت سے بولیں بیٹا سب کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ ۔ کام کو ایسے ترتیب دو کہ آرام اور صحت متاثر مت ہوں ۔۔۔ اچھا اگر تم دونوں گھر پر ہو تو میں ذرا نجمہ کی طرف جا رہی ہوں۔ دوپہر میں ایک بجے تک واپس آجاؤں گی۔۔۔ اور دوپہر کا کھانا میں آکر ہی بناؤں گی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے امی اپنا عبایا لینے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ میں اندر سے خوش ہو گیا کہ چلو اچھا ہے امی جارہی ہیں تو تھوڑا ناز سے کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔۔۔۔ امی جاتے ہوئے مجھے مرکزی دروازہ بند کرنے کا کہہ کر باہر نکل گئیں۔۔۔۔


میں نے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔۔۔۔۔ اور واپس ٹی وی لاؤنج میں آیا تو ناز وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔۔ میں اس کو دیکھتا ہوا سارے کمرے دیکھنے لگا مگر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئی۔۔۔ تو میں نے حیرانگی سے اس کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔۔۔۔ تو ناز کی اوپر سے آواز آئی میں یہاں اوپر ہوں بھیا۔۔۔ آپ بھی اوپر ہی آجائیں ۔۔۔۔ میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر چلا گیا۔۔۔ سنڈی روم میں جھانکا تو ناز وہاں بھی نہیں تھی۔۔۔ تب مجھے شک ہوا کہ ہونا ہو ناز میرے کمرے میں میرا انتظار کر رہی ہے۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں تیز قدموں سے چلتا ہوا جیسے ہی اپنے کمرے میں پہنچا تو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ 


ناز فل ننگی کھڑی تھی۔۔۔۔ اس نے اپنے بال پونی ٹیل کے انداز میں باندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ بائیں ہاتھ سے اپنا نپل مسلتے ہوئے دائیں ہاتھ سے اپنی پھدی مسل رہی تھی۔۔۔۔ میں چند قدم آگے بڑھا تو ناز نے نظر اٹھا کر براہےراست میری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔ اور آگے بڑھ کر میرے سینے سے لگ گئی اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر انہیں چوسنے لگی ۔۔۔۔ اس وقت ناز کے انداز میں وحشت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔ 


اس لیے میں بنا کچھ بولے بس اس کا ساتھ دے رہا تھا۔۔۔۔ ناز کی زبان میرے منہ میں تھی اور میں اسے چوس رہا تھا۔۔۔ بہت مزے دار ذائقہ تھا اس کی زبان کا۔۔۔ میں بے اختیار اس کی زبان چوستا چلا جارہا تھا ۔۔۔ اب ناز نے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ میں نے اپنا ہاتھ ناز کے مموں پر رکھا اور بڑے پیار سے اس کے نپلز کو پکڑ کر مسلتے ہوئے کھینچنے لگا۔۔۔۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)