خدیجہ
قسط 25
(Second last)
خدیجہ کا دل ایک دم اتنی تیزی سے دھڑکا کہ اسے لگا کہیں سینہ چیر کر باہر ہی نہ آ جائے۔ مسز رابعہ کی کلاس میں اس پینٹنگ کیلئے مائیکل کے ساتھ پوز کرنا ہی اسے عجیب لگ رہا تھا۔ اب مسٹر ڈیوڈ کیلئے سیکس پوزیشن کا عملی مظاہرہ کرنا تو بہت ہی عجیب تھا۔ خدیجہ سوچنے لگی آیا یہ پروگرام میں جائز بھی ہے یا نہیں۔ لیکن وہ دونوں کلاس انسٹرکٹر کی بات پر عمل کے پابند تو تھے۔ خدیجہ جھجھکتی ہوئی پوزیشن میں آ گئی۔
اس پوزیشن میں بھی اس کا حسن عیاں تھا۔ اس کے بڑے بڑے ممے ایسے لٹک رہے تھے جیسے کسی بھینس کے تھن ، دودھ نکالنے کیلئے بالکل تیار۔ اوپر سے اس کی کمر اور چوتڑوں کے نشیب و فراز بھی نمایاں تھے۔
"کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پوزیشن برتر ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے پوچھا۔
کسی نے جواب نہیں دیا۔
"بچو یہ بتاؤ کہ اس پوزیشن کو کیا کہتے ہیں؟" مسٹر ڈیوڈ نے پھر سے پوچھا۔
"میں بتاؤں۔ میں بتاؤں۔" شاہد چلا اٹھا۔ اس کا تجربہ تو سیکس میں نہ ہونے کے برابر تھا لیکن پورن سے جو معلومات اس نے اخذ کر رکھی تھیں ان کی بنیاد پر وہ شیخیاں جھاڑنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا تھا۔
"ہاں شاہد بتاؤ"
"اسے ڈوگی سٹائل کہتے ہیں مسٹر ڈیوڈ" شاہد کا سر فخر سے تن گیا تھا۔
" صحیح کہا۔ یہ ڈوگی سٹائل ہے کیونکہ لڑکی اپنے آپ کو ایک ڈوگی کی طرح پیش کر رہی ہے۔ یعنی کتیا کی طرح"
مسز ڈیوڈ کا اسے کتیا سے تشبیہ دینا خدیجہ کو پسند نہیں آیا لیکن سوائے مایوسی سے آہیں بھرنے کے علاوہ وہ کیا کر سکتی تھی۔
"کیا لڑکیاں کتیوں کی طرح چودے جانے پر اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتی ہیں؟" مسٹر ڈیوڈ کا سوال نرم سے نرم الفاظ میں بھی کافی تضحیک آمیز تھا۔ وہ ہر حد کراس کرتے جا رہے تھے۔ فیکلٹی کو ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن سب جانتے تھے کہ مسٹر ڈیوڈ جو چاہیں بول کر ہی رہتے ہیں۔ جو بات کہنا ممنوع ہو وہی بات کہنا مسٹر ڈیوڈ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھی اسی لئے کی تھی کہ کلاس کے طلبا کا ردعمل دیکھ سکیں۔
وہ چند قدم اٹھا کر خدیجہ کے قریب آئے اور اسے اپنی پوزیشن ایڈجسٹ کرنے کا کہا جس سے خدیجہ کا جسم کلاس کے مزید سامنے آ گیا۔ مسٹر ڈیوڈ ہنس پڑے اور بولے: "ارے نہیں خدیجہ ۔ میں تمہاری پھدی کلاس کی طرف کرنا چاہ رہا ہوں۔"
خدیجہ نے رخ پھیر لیا لیکن ٹانگیں سختی سے بھینچ کر رکھیں۔
مسٹر ڈیوڈ پنجوں کے بل بیٹھ گئے اور خدیجہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبایا۔
"خدیجہ نیچے ہو جاؤ۔ کہنیاں نیچے ٹیک دو۔ اور سر بھی نیچے اپنے بازو پر رکھ دو۔ خدیجہ نے ان کی بات پر عمل کیا۔
"ذرا دیکھئے کہ جیسے جیسے خدیجہ اپنا سر نیچے کرتی ہے، اس کے چوتڑ اوپر ہوتے ہیں" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کے چوتڑ پر ہاتھ رکھ دیا۔
"اس پوزیشن میں خدیجہ اپنے آپ کو اپنے سیکس کیلئے مالک یعنی اپنے آدمی کو پیش کر رہی ہے۔" یہ کہہ کر مسٹر ڈیوڈ اٹھ کر تھوڑا پیچھے آئے اور طلبا کی جانب سے خدیجہ کے چوتڑ دیکھنے لگے۔
"یس یس یس دیکھئے کیسے خدیجہ کی پھدی کے دونوں ہونٹ کھل سے گئے ہیں۔ یہ دعوت نہیں تو کیا ہے۔"
خدیجہ نے شرم سے آنکھیں بند کریں۔ ٹانگیں بھینچنے کا الٹا ہی اثر ہوا تھا۔
"اور خدیجہ تمہاری پھدی دنیا کی حسین ترین پھدیوں میں سے ایک ہے۔ اتنے پیارے رسیلے ہونٹ میں نے آج تک کسی پھدی میں نہیں دیکھے"۔ خدیجہ شرم سے لال ہو رہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ کلاس کے سب لڑکوں کی نظریں اس کی پیاری پھدی پر ہی ہوں گی۔
خدیجہ نے اگرچہ مسٹر ڈیوڈ کا شکریہ ادا کیا تھا لیکن اسے اب بھی یہ تعریف سے زیادہ ذلالت محسوس ہو رہی تھی۔ یہ تو پرنسپل کی باتوں سے بھی کئی گنا زیادہ سبکی تھی۔
"اور بچو دیکھو اس پوزیشن میں کیسے خدیجہ کی گانڈ اوپر اٹھ گئی ہے۔ ٹھہرو ذرا۔ خدیجہ ذرا اور اوپر کرو اپنے چوتڑ۔ ابھی اور گنجائش ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے بات کے درمیان میں خدیجہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
مرتی کیا نہ کرتی۔ خدیجہ نے گھٹنے اپنے مموں کے قریب کئے جس سے چوتڑ اور اوپر اٹھ گئے اور پھدی مزید واضح ہو گئی۔
"ہاں اب ٹھیک ہے۔ جیسا کہ میں بتا رہا تھا کہ جب لڑکی اپنے آپ کو ایسے پیش کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ کہہ رہی ہے میرے دونوں سوراخ پیش خدمت ہیں جو مرضی لے لو۔"
مسٹر ڈیوڈ کی بات پر لڑکیوں کی حیرت بھری آوازیں اور لڑکوں کی ہلکی ہلکی ہنسی گونجی۔ مسٹر ڈیوڈ نے بات جاری رکھی: "چاہو تو پھدی لے لو اور چاہو تو گانڈ اور خدیجہ کے تو دونوں ہی سوراخ بہت ہی پرکشش اور خوبصورت ہیں۔"
خدیجہ نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا لیکن پوزیشن قائم رکھی۔
"اس پوزیشن میں لڑکا اپنے ہاتھوں سے چاہے تو لڑکی کے چوتڑ پکڑ لے یا چاہے تو ممے بھی پکڑ سکتا ہے۔ اور مزید یہ کہ وہ لڑکی کی گانڈ نہ بھی لے تو بھی انگلی سے اسے چھیڑ سکتا ہے"
مسٹر ڈیوڈ کی بات پر خدیجہ کی گانڈ کا سوراخ بے اختیار سکڑ گیا جو سب نے دیکھا۔
"اور اس پوزیشن میں لڑکی اپنے ہاتھوں سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتی ہے۔ " مسٹر ڈیوڈ نے بات مکمل کی۔
"مسٹر ڈیوڈ ، اس پوزیشن میں لڑکی اپنی پھدی اور لڑکے کے لن کو بھی چھو سکتی ہے۔" سارہ نے فوراً کہا۔
"ہاں تمہاری بات کسی حد تک درست کے لیکن پھر بھی لڑکی ہے تو لڑکے کے کنٹرول میں ہی نا۔" سارہ کی بات پر لڑکوں نے مڑ کر اس کی طرف ضرور دیکھا تھا اور یقیناً اسے ایسا کرتے خیالوں میں دیکھا بھی ہو گا۔
"یس سر" سارہ نے جواب دیا۔ وہ اس بات پر مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"آپ میں سے کتنے لڑکے خدیجہ کی طرح اپنی گانڈ پیش کرنا پسند کریں گے؟" مسٹر ڈیوڈ نے لڑکوں سے مخاطب ہو کر پوچھا جس پر لڑکے ہنس پڑے۔
مسٹر ڈیوڈ کی بات میں شاید کوئی مفہوم پنہاں تھا لیکن زیادہ تر لڑکے کالج کی مشہور سٹوڈنٹ لیڈر کو یوں اپنی گانڈ پیش کرتے دیکھنے میں مصروف تھے۔
"میرے خیال میں تو یہ سب سے زیادہ کنٹرولڈ پوزیشن ہے۔ اس پوزیشن میں لڑکی اپنی پھدی پیش کر رہی ہے جسے لڑکا کیسے چاہے استعمال کرے۔ یاد کریں بچپن میں کیا اس پوزیشن میں ہی آپ کے والدین آپ کی پٹائ نہیں کرتے تھے۔ " مسٹر ڈیوڈ نے اپنی بات کی وضاحت کیلئے قریب آ کر خدیجہ کے چوتڑ پر ہلکی سی چپت بھی رسید کر دی۔
"خدیجہ کیا تمہیں بے عزتی محسوس ہو رہی ہے۔ خاص طور پر جب میں نے تمہارے چوتڑ پر چپت لگائی تب۔" مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ سے پوچھا۔
"جی سر۔ بہت زیادہ " خدیجہ نے چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہی جواب دیا۔
"بھئی تم واقعی بہت خوبصورت ہو۔ اور بہت کو آپروٹیو بھی۔" مسٹر ڈیوڈ نے اس کے چوتڑوں پر مزید کچھ ہلکے ہلکے تھپڑ مارے اور چوتڑوں کے درمیان انگلی ڈال کر اس کی پھدی کے ساتھ رگڑی۔
"خدیجہ اب اٹھ کر سائیڈ پوز میں ایسے بیٹھیں کہ وزن چوتڑوں پر رہے " مسٹر ڈیوڈ نے آخرکار خدیجہ کو اس پوزیشن کی اذیت سے نجات دلا ہی دی۔ وہ خوشی خوشی اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"اور مائیکل آپ خدیجہ کے سامنے آ کر کھڑے ہوں اور اپنا لن اس کے منہ کے سامنے کریں"
کلاس کی کئی لڑکیوں نے اپنے چہرے شرم سے چھپا لئے۔ خدیجہ سے ہمدردی بھی تھی اور مسٹر ڈیوڈ کی بات پر شرم بھی آ رہی تھی۔ لڑکے البتہ دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
خدیجہ کا دل تو کر رہا تھا کہ وہ بھی چہرہ ہاتھوں میں چھپا لے۔ مائیکل کو اوپر سے خدیجہ کی آنکھوں میں پریشانی نظر آ رہی تھی۔ اس کا لن خدیجہ کے چہرے کے بالکل سامنے تھا۔ مائیکل کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ اس کا لن اتنی خوبصورت لڑکی کے منہ کے اتنا قریب ہے لیکن اسے خدیجہ کو پریشان دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ اگر وہ اپنا لن کسی لڑکی کو پیش کرے تو لڑکی بھی خوش ہونی چاہیے۔
مسٹر ڈیوڈ کو البتہ ان کے جذبات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو اپنی دھن میں مگن تھے۔
"چوسنا ایک ایسا عمل ہے جس کی توقع لڑکی سے رکھی جاتی ہے لیکن پھر بھی معاشرے میں یہی سمجھا جاتا ہے جیسے زبردستی لڑکی کو چوسنے پر مجبور کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ تو محبت کی علامت ہونا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے؟" مسٹر ڈیوڈ نے نیا موضوع بحث شروع کر دیا۔
"سر ایسا اس لئے ہے کہ یہ ایک انتہائی گھٹیا عمل ہے" رشیدہ نے بغیر ہاتھ اٹھائے جھٹ سے جواب دے دیا اور جواب بھی ایسا کہ جس کی توقع مسٹر ڈیوڈ کو تھی ہی نہیں۔
"کیا مطلب ؟" مسٹر ڈیوڈ نے رشیدہ سے وضاحت چاہی۔
"سر یہ تو سادہ سی بات ہے۔ ایسی گندی چیز کو کون منہ میں لینا پسند کرے گی۔ خود سوچیں ذرا اس سے وہ پیشاب کرتا کے۔ آخ تھو۔ اور پیشاب کر کے خود بھی ہاتھ دھوتا ہے پہلے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ لڑکی اسے منہ میں لے کر چوسے؟ مجھے یقین ہے اس سے بدبو بھی آتی ہو گی اور اس کا ذائقہ بھی بہت گندہ ہو گا " سب لڑکیوں نے رشیدہ کے جواب کی تائید کی۔ جو لڑکیاں چوستی تھیں وہ بھی رشیدہ کے جواب کی سچائی سے بہرحال متاثر تھیں۔
"لیکن رشیدہ جب لڑکا لڑکی کی چاٹتا ہے تب کے بارے میں کیا خیال ہے؟" مسز ڈیوڈ نے بات پلٹانے کی کوشش کی۔
"ہاں تو میں نے کب کہا ہے کہ چاٹو۔ مسٹر ڈیوڈ یہ پیار محبت نہیں یہ بس پورن میں ہی جچتا ہے۔ " رشیدہ کی اس بات پر البتہ لڑکیاں متفق نہیں تھیں۔ رشیدہ کچھ زیادہ ہی دقیانوسی خیالات کی حامل معلوم ہوتی تھی۔
رمشا نے کچھ بولنے کیلئے ہاتھ کھڑا کیا۔ مسز ڈیوڈ کی اجازت پر اس نے کہا: "مسٹر ڈیوڈ بہت سے لڑکے اپنا چسوانا پسند کرتے ہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو چاٹتے نہیں ہیں۔ "
"یس یس"
"جی بالکل "
بہت سی لڑکیوں نے رمشا کی بات کی تائید کی۔ لڑکوں میں سے بھی کئی لڑکے مسکرائے تھے۔ شاید رمشا کی بات سچ ہی تھی۔
"آپ کی بات درست ہے رمشا" مسٹر ڈیوڈ تو بس طلبا کو یوں بحث میں حصہ لیتے دیکھ کر خوش تھے۔ وہ یہی چاہتے تھے کہ بچے بڑھ چڑھ کر کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔
"لیکن پھر وہی بات کروں گا کہ کیا دونوں جنس برابر ہیں؟ میری نظر میں تو مرد کو برتری حاصل ہے"
"وہ کیسے سر؟" رمشا نے وضاحت چاہی۔
"وہ ایسے کہ مرد اپنا لن جب کھڑا کرے تو وہ اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ لڑکی کیلئے پورا منہ میں لینا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ کیا یہ برتری کی نشانی نہیں ؟" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔
"ہو گی لیکن اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا" رمشا کا اشارہ خدیجہ اور مائیکل کی طرف تھا۔ اس کی بات پر ایک قہقہہ پڑا۔
خدیجہ نے رمشا کی بات پر منہ اٹھا کر مائیکل کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں بس شرمندگی تھی۔ کیسی عجیب بات تھی کہ کلاس میں مسٹر ڈیوڈ نے بات شروع کی تھی عورت کے مرد سے کمتر ہونے سے اور اب مائیکل ان کے مذاق کا نشانہ بن گیا تھا جیسے وہ کمتر ہو۔ خدیجہ کو مائیکل پر بے پناہ پیار آ گیا۔ وہ پہلے بھی اس کی مدد نہیں کر پائی تھی جب وہ کلاس کی جانب پیدل چل کر آ رہے تھے۔ اب مائیکل کو مشکل میں دیکھ کر خدیجہ سے رہا نہ گیا۔ وہ تھوڑی سی اٹھ کر بیٹھی اور منہ آگے کر کے مائیکل کا پورا کا پورا لن اپنے منہ میں لے لیا۔
کوئی بھی خدیجہ سے اس کی توقع نہیں کر رہا تھا اور اس کی حرکت پر کئی طلبا کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی تھی۔ شاید رمشا یا طاہرہ ہوتی تو انہیں اتنی حیرت نہ ہوتی لیکن خدیجہ کے بارے تو ایسا سوچنا بھی تقریباً ناممکن تھا۔
مائیکل سب سے زیادہ حیران تھا۔ آج صبح تک اس کی یہ حالت تھی کہ کسی لڑکی نے اس کا لن دیکھا تک نہیں تھا اور اب اس کا لن خدیجہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی اس نے خود ہی لیا تھا بغیر کسی مجبوری کے۔ شاید خدیجہ نے رمشا کے تضحیک آمیز تبصرے کی نفی کیلئے ایسا کیا تھا لیکن مائیکل بہرحال اس کا شکر گزار تھا۔ خدیجہ کے منہ میں اس کا لن ۔ آہ۔ وہ بھول گیا کہ وہ کلاس میں کھڑے ہیں۔ اس کا لن خدیجہ کے منہ میں بڑا ہونے لگا۔
حتیٰ کہ مسٹر ڈیوڈ خود بھی شدید حیران تھے۔ خدیجہ سے ایسے عمل کی توقع انہیں خواب میں بھی نہیں تھی۔ خدیجہ نے تو مسٹر ڈیوڈ کے خیالات کی کئی مواقع پر نفی کی تھی۔ آج کیا ہو گیا ہے اسے۔ مسٹر ڈیوڈ نے سوچا یقیناً خدیجہ جو کچھ ہے وہ نظر نہیں آتی۔
تاہم، مسٹر ڈیوڈ کو یہ معلوم تھا کہ بات ڈرامے سے آگے بڑھ گئی ہے اور یہ پروگرام کی خلاف ورزی ہے۔ سیکس پوزیشن بنوانا اور بات ہے اور سیکس کرنا اور بات اور جو اب خدیجہ کر رہی تھی یہ سیکس کے زمرے میں آتا تھا۔
"خدیجہ تمہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔
خدیجہ نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا لیکن وہ مائیکل کا لن منہ سے نہیں نکالنا چاہتی تھی اس لئے توتلے سے انداز میں مسٹر ڈیوڈ سے کہا: "توئی بات نہیں مستل دیود۔ " خدیجہ نے مائیکل کی آنکھوں میں دیکھ کر آنکھ بھی ماری اور شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجائے مائیکل کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔
"جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکا اس پوزیشن میں برتر ہے۔ لڑکی نیچے بیٹھی ہے جیسے انتظار میں ہو کہ لڑکا اسے کیا کہتا ہے" مسٹر ڈیوڈ نے صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہا لیکن خدیجہ تو اب کسی کا انتظار کرنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ وہ مسلسل مائیکل کے ٹوپے پر زبان پھیر رہی تھی۔ مائیکل کو یقین نہیں آیا کہ ایک لڑکی اس کا لن منہ میں لے کر چوس رہی ہے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور مزے لینے لگا۔
خدیجہ بھی مزے لے رہی تھی۔ اسے تو مائیکل کو مزے میں دیکھ کر ذیادہ مزہ آ رہا تھا۔ وہ مزے سے اس کا لن چوسنے لگی۔ اب اسے کوئی بے عزتی کوئی ذلالت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ اسے ایسا بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے کسی مالک کی خدمت میں مصروف ہو بلکہ وہ تو یہ اس لئے کر رہی تھی کہ اسے اچھا لگ رہا تھا، مزہ آ رہا تھا، لن کو چوسنا، اس کا ذائقہ زبان ہر چکھنا اور زبان کو لن پر پھیرنا یہ سب اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جیسے جیسے مائیکل کا لن اس کے منہ میں بڑا ہو رہا تھا، ویسے ویسے اسے اپنی ٹانگوں کے درمیان بھی بڑھتی ہوئی نمی محسوس ہو رہی تھی۔
مائیکل کے لن کو مکمل کھڑا ہونے میں دیر نہیں لگی۔ خدیجہ اپنی محنت کا پھل دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کے تھوک میں چمکتا ہوا مائیکل کا چکما لن کیسا لگے گا لیکن اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں منہ سے نکالنے پر لڑکیاں پھر سے مائیکل کے لن کا مذاق نہ بنا لیں۔ فل کھڑا ہونے کے باوجود خدیجہ کو اسے منہ میں رکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ وہ بارہا مائیکل کا لن دیکھ چکی تھی اور اسے پتہ تھا کہ مائیکل کا لن بہت چھوٹا ہے۔
"کچھ لڑکے اپنی برتری کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ اپنا لن پورا کا پورا لڑکی کے منہ میں گلے تک گھسا دیتے ہیں جس سے لڑکی کو کھانسی آتی ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے کہا اگرچہ انہیں پتہ بھی نہیں تھا کہ مائیکل کا لن کھڑا ہو کر کتنا بڑا ہوا تھا۔
خدیجہ البتہ مسٹر ڈیوڈ کی بات سمجھ گئی اور فوراً ایکٹنگ کرنے لگی جیسے مائیکل کا لن اس کے منہ کیلئے بہت بڑا ہو۔ لن منہ سے تو نہیں نکالا لیکن اس کی باڈی لینگویج سے ایسا لگتا تھا جیسے پورا منہ میں لینے میں اسے دشواری پیش آ رہی ہے۔
"اوہ آئی ایم سو سوری۔" مائیکل کو تھوڑی پتہ تھا کہ خدیجہ ایکٹنگ کر رہی ہے۔ وہ تو خدیجہ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنا لن خدیجہ کے منہ سے نکال لیا لیکن خدیجہ نے فوراً اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا لن چھپا لیا اور مسٹر ڈیوڈ کی طرف منہ کر کے کہنے لگی: "مسٹر ڈیوڈ مائیکل کا لن ہے ہی بہت بڑا اس لئے مجھے منہ سے نکالنا پڑا۔" ساتھ ہی وہ کھانسنے کی بھی ایکٹنگ کر رہی تھی۔
کلاس میں کئی طلبا کو البتہ خدیجہ کی حرکتوں پر شک تھا لیکن کوئی بھی اس کی ایکٹنگ پر انگلی نہ اٹھا سکا۔ مائیکل تو خود اس بات پر شرمندہ ہو رہا تھا کہ اس کی وجہ سے خدیجہ کو تکلیف پہنچی۔ لیکن وہ خود بھی حیران تھا کہ کیا واقعی اس کا لن اس قدر بڑا ہے کہ لڑکی کو اسے منہ میں پورا لینے سے تکلیف ہو رہی ہے۔ اسے مسٹر ڈیوڈ کی کچھ باتیں حقیقت پر مبنی لگنے لگیں کیونکہ اب اس میں بھی برتری کے جراثیم سر اٹھا رہے تھے۔
خدیجہ نے مائیکل کا لن ہاتھوں میں تھامے رکھا۔ اسے اچھا بھی لگ رہا تھا یوں تھامے رکھنا لیکن ایک مقصد اس کا لن کو باقی طلبا کی نظروں سے چھپانا بھی تھا۔ خدیجہ نے ہتھیلی میں لن پکڑ کر دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے کو اس کے ٹوپے پر ویسے ہی پھیرنا شروع کر دیا جیسے وہ اس کی ہتھیلی پر پہلے پھیرتی تھی۔ مائیکل کو ایک دم سے جھٹکا لگا۔ وہ ڈسچارج ہونے کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا دل تو کر رہا تھا کہ خدیجہ کے منہ میں ڈال دے لیکن وہ خدیجہ کو تکلیف بھی نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔
"مسٹر ڈیوڈ میں مزید نہیں کر سکتی۔ مائیکل کا لن میرے منہ کیلئے بہت بڑا ہے۔ کیا میں کسی اور طریقے سے مائیکل کیلئے کچھ اور کر لوں؟" خدیجہ نے مسٹر ڈیوڈ سے کہا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں" مسٹر ڈیوڈ تو خود یہی چاہتے تھے کہ خدیجہ کسی بھی طرح خود جو مجبور محسوس نہ کرے۔
"مسٹر ڈیوڈ میں مائیکل کے لن کو اپنے مموں کے درمیان رکھ لوں۔" خدیجہ نے کہا اور مسٹر ڈیوڈ کے جواب سے پہلے ہی آگے بڑھ کر اس کا لن اپنے مموں کے درمیان پھنسا لیا۔ ایک ہاتھ سے لن ایڈجسٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے دونوں مموں کو پکڑ لیا تاکہ ساتھ جڑے رہیں۔
خدیجہ کے نرم و گداز مموں کے درمیان لن رکھ کر مائیکل کے منہ سے آہ نکل گئی۔ اس کیلئے تو خدیجہ کے مموں کے درمیان اپنا لن دیکھنا ہی بہت تھا۔ کجا یہ کہ وہ ممے رگڑ بھی رہی تھی۔ وہ ذرا سا جھک گیا۔ اسے لگا وہ بس ڈسچارج ہونے والا ہے۔
مسٹر ڈیوڈ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مائیکل کسی بھی لمحے ڈسچارج ہو سکتا ہے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ خدیجہ کے جسم پر منی گرنے سے خدیجہ کو کئی دھچکا پہنچے۔
"بس بس خدیجہ ۔ آپ اٹھ جائیں اور مائیکل آپ بیٹھ جائیں
پوزیشن ریورس کر کے دیکھتے ہیں کہ کون برتر رہتا ہے۔" مسٹر ڈیوڈ زندگی میں پہلی بار گڑبڑا کر رہ گئے تھے۔ انہوں نے سچویشن سنبھالنی چاہی لیکن خدیجہ کو کوئی مسلہ نہیں تھا۔ پہلے وہ مائیکل کو منہ میں ہی ڈسچارج کروانا چاہتی تھی اور اب اس کا منصوبہ تھا کہ مائیکل کی منی اپنے مموں پر نکالے اور جب نکلے تو حیران ہونے کی ایکٹنگ کرے جیسے اسے غصہ آ گیا ہو۔ یہ سب وہ صرف مائیکل کے لن کو طلبا کے مذاق کا نشانہ بننے سے بچانے کیلئے کر رہی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ منی نکلنے سے لن سو جائے گا تو پھر اتنا مذاق نہیں بنے گا۔
مائیکل اب چند سیکنڈز دور تھا منی نکالنے سے۔ اس نے خدیجہ کی طرف دیکھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ خدیجہ کے خوبصورت مموں پر اپنی منی نکالنے والا ہے۔
مسٹر ڈیوڈ کو خدیجہ کی دلچسپی پسند آئی لیکن وہ اسے جاری نہیں رہنے دے سکتے تھے۔ انسٹرکٹر کا کام تھا کہ وہ ایسے کاموں کو روکے۔ ایسے لڑکی کے مموں پر ڈسچارج ہونے سے کالج میں یہ بات پھیلنا ناگزیر تھا اور مسٹر ڈیوڈ کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ وہ خدیجہ کے پیچھے آئے اور اس کے کندھے پکڑ کر آہستہ سے پیچھے کر دیا۔ خدیجہ اپنی خواہش کے برعکس اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
مائیکل بالکل قریب تھا جب مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کو کھینچا۔ وہ اگرچہ ڈسچارج ہونا چاہتا تھا لیکن اسے خوشی تھی کہ مسٹر ڈیوڈ نے خدیجہ کو ہٹا لیا ورنہ بعد میں شاید مائیکل خود بھی اس بات پر پچھتاتا۔ مائیکل نے گھٹنے زمین پر ٹیک دئے اور ہاتھ لن پر رکھ کر اسے چھپانے کی کوشش کرنے لگا۔
ایسے نیچے گھٹنے ٹیکنے سے اس کا منہ خدیجہ کی پھدی کے بالکل سامنے آ گیا تھا۔ اتنے قریب سے اس نے کبھی کوئی پھدی نہیں دیکھی تھی۔ محض ایک یا دو انچ دور اتنی خوبصورت پھدی دیکھ کر وہ کھو سا گیا۔ مسز رابعہ کی کٹنگ سے پھدی کے بال بہت پیارے لگ رہے تھے۔ اور ہونٹ اتنے رسیلے کہ دل کرتا تھا چوم لے۔ مائیکل سوچے بنا نہ رہ سکا کہ یہ نرم گیلے پھدی کے ہونٹ لن پر کیسے محسوس ہوں گے۔ اوپر سے پھدی کے ہونٹ خدیجہ کی ہی پھدی سے نکلنے والی نمی سے گیلے بھی تھے۔ جس کا مطلب تھا کہ خدیجہ خود بھی کافی گرم ہے۔
"ظاہر ہے لڑکی کے پاس تو ایسا کوئی ہتھیار نہیں جسے وہ لڑکے کے منہ میں ٹھونس کر اپنی برتری کا اظہار کرے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ لڑکے پھدی سے آنے والی بو پسند نہیں کرتے اور منہ پھدی کے قریب لانا بھی پسند نہیں کرتے" مسٹر ڈیوڈ نے اپنا لیکچر جاری رکھا۔ ان کی بات پر خاصی آہیں بلند ہوئی تھیں۔ لڑکیوں کی خاص طور پر۔
مائیکل نے منہ قریب کر کے خدیجہ کی پھدی کو سونگھا۔ اسے تو یہ بو بالکل بھی بری نہیں لگی بلکہ اسے تو یہ خوش بو محسوس ہوئی۔
"خدیجہ کی پھدی سے تو بہت ہی خوشگوار خوشبو آ رہی ہے مسٹر ڈیوڈ" مائیکل بول ہی اٹھا۔
مائیکل کی بات پر کچھ لڑکے ہنس پڑے تو لڑکیوں نے سکھ کا سانس لیا۔ خدیجہ کو بھی خوشی ہوئی کہ مائیکل کو اس کی پھدی کی خوشبو بھائی تھی ورنہ وہ مسٹر ڈیوڈ کی بات پر خاصی افسردہ ہو گئی تھی۔
"اوہ" ایک دم سے خدیجہ کے منہ سے نکلا کیونکہ اسے اپنی پھدی پر مائیکل کے ہونٹ محسوس ہوئے تھے۔
دراصل مائیکل نے منہ تو آگے سونگھنے کیلئے ہی کیا تھا لیکن اس سے رہا نہ گیا اور اتنے قریب سے دیکھنے پر اس نے اپنے ہونٹ خدیجہ کی پھدی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ ساتھ ہی جلدی سے زبان نکال کر پھدی کا ذائقہ بھی چکھ لیا تھا۔
"اور اس کا ذائقہ بھی بہت اچھا ہے مسٹر ڈیوڈ" مائیکل نے اعلان کرنا مناسب سمجھا لیکن اس کی بات پر سب طلبا ہنس پڑے۔ بات ہی مزاحیہ تھی۔
خدیجہ کو اپنی تعریف سننے کا تو تجربہ تھا ہی۔ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر۔ آج صبح سے وہ اپنے جسم کی تعریفیں بھی سن ہی رہی تھی لیکن یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے اس کی پھدی کے ذائقے پر تعریف کی تھی۔ مسکرا کر وہ خود بھی ہنس دی تھی لیکن اس کی ہنسی ایک آہ میں بدل گئی کیونکہ مائیکل رکا نہیں تھا بلکہ اس بار اس نے اپنے ہونٹ اس کی پھدی کے ہونٹوں پر رکھ کر چوم لیا تھا جیسے فرنچ کس کرتے ہیں۔ وہ چومنے چاٹنے لگا۔ خدیجہ کو لذت پہنچانے سے ذیادہ اسے خود مزہ آ رہا تھا۔
مائیکل اور خدیجہ کے بارے میں مسٹر ڈیوڈ کی سب باتیں غلط ثابت ہو رہی تھیں۔
"میں دیکھ رہا ہوں کہ مائیکل کو تو چاٹنا بہت پسند آیا ہے لیکن کیا باقی لڑکے مائیکل کی پوزیشن میں آنا پسند کریں گے؟" مسٹر ڈیوڈ نے کہا۔ آخر سائیکو ڈرامہ تو یہی ہوتا ہے کہ دو طلبا اداکاری کریں اور باقی طلبا ان سے اختلاف کریں اور بحث کریں۔
لیکن اس صورتحال میں تو پھدی چاٹنے کو ناپسند کرنے والے لڑکے بھی مائیکل کی جگہ لینے کو تیار تھے۔ ایک تو خدیجہ تھی ہی اتنی پیاری اوپر سے وہ سٹوڈنٹ لیڈر تھی۔ اس کی پھدی تو ہر کوئی چاٹنا پسند کرتا۔
"مسٹر ڈیوڈ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پروگرام میں شامل ہونے کیلئے مجھے کیا کرنا ہو گا؟" خالد ایک دم بول اٹھا۔ اس کی بات پر پھر سے طلبا ہنسے۔ ظاہر ہے اگر پروگرام میں شمولیت کا مطلب یہ تھا کہ خدیجہ کی پھدی چاٹنے کا موقع مل سکتا ہو تو ہر کوئی شامل ہونے کیلئے تیار تھا۔
مسٹر ڈیوڈ کو اب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو بات وہ سمجھانا چاہ رہے تھے وہ مائیکل اور خدیجہ کی مدد سے ناممکن ہو گئی تھی۔
خدیجہ البتہ اب بہت مزے لے رہی تھی۔ مائیکل کا تجربہ نہیں تھا لیکن وہ تجربے کی کمی کو اپنے جذبے سے پورا کر رہا تھا۔ وہ اپنے ہونٹوں سے خدیجہ کی پھدی کو چوم رہا تھا چاٹ رہا تھا اور ہونٹوں سے نوچ رہا تھا تاکہ خدیجہ کو درد بھی نہ ہو اور مزہ بھی آئے۔ خدیجہ کو ایسا مزہ زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا۔ حتیٰ کہ جب وہ انگلیاں پھدی میں ڈالتی تھی تب بھی نہیں۔ لڑکے کی زبان میں کچھ اور ہی مزہ تھا۔
"بالکل ایسے جیسے لڑکا برتری کے اظہار کے طور پر اپنا لن لڑکی کے منہ میں گھسا دیتا ہے ایسے ہی لڑکی اگر برتری کا اظہار کرے تو وہ لڑکے کا چہرہ پکڑ کر اپنی گیلی چکنی پھدی میں رگڑ ڈالتی ہے۔" مسٹر ڈیوڈ نے اب بھی بات سنبھالنے کی کوشش جاری رکھی۔ وہ لہجے سے اب بھی برتری کمتری ثابت کرنا چاہ رہے تھے لیکن سامنے موجود دونوں ماڈلز کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے تھے۔
مائیکل کو البتہ مسٹر ڈیوڈ کی بات پسند آئی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ خدیجہ کے چوتڑوں پر رکھ کر اپنی طرف کھینچا اور اپنا چہرہ اس کی پھدی میں دفن کر دیا۔
"اوہ مائیک" خدیجہ اب کنٹرول کھوتی جا رہی تھی۔ کلاس کے سامنے یوں جذبات کی رو میں بہنا اگرچہ اسے پسند نہیں تھا لیکن مائیکل کی زبان اور ہونٹوں میں ایک نشہ تھا اور یہ نشہ خدیجہ پر چڑھ رہا تھا۔ کلاس میں اب خاموشی تھی۔ بس مائیکل کی زبان خدیجہ کی پھدی میں اندر باہر ہونے کی آوازیں آ رہی تھیں یا پھر خدیجہ کی آہوں کی۔
لڑکوں کے لن کھڑے ہو رہے تھے یا کھڑے کو چکے تھے۔ کافی لڑکے اپنے لن پکڑ کر کھیلنے میں مشغول تھے۔ لڑکیاں بھی اپنی ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس کر رہی تھیں۔ یہ نظارہ انہیں بھی گرم کر گیا تھا۔
مسٹر ڈیوڈ اگرچہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے لیکن سائیکو ڈرامہ اب ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ کیا نتیجہ نکلتا ہے بس یہی دیکھنا باقی تھا۔
خدی5جہ سے بھی صبر نہیں ہوا۔ اس نے مائیکل کے سر پر دونوں ہاتھ رکھ دئیے اور اپنے چوتڑ دائرے میں گھما کر اپنی پھدی اس کے ہونٹوں اور زبان پر رگڑنے لگی۔ مائیکل نے ہاتھ خدیجہ کے چوتڑوں سے ہٹا لئے اور اپنے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ انگلیاں بھی استعمال کرنے لگا۔ اس کا پورا چہرہ خدیجہ کی پھدی سے نکلنے والی نمی سے تر تھا لیکن وہ خوش تھا کہ خدیجہ کو مزے تو دے رہا تھا نا۔ اس کا منہ خدیجہ کی پھدی کے پانی سے بھر جاتا لیکن وہ گھونٹ بھرتا اور پھر سے چاٹنا شروع کر دیتا۔
خدیجہ نے ہاتھ نیچے کر کے مائیکل کی زبان کو اپنی پھدی کے اندر کلٹ کا راستہ دکھایا اور جب مائیکل کی زبان خدیجہ کے کلٹ پر جا کر لگی تو خدیجہ نے سب احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیں اور کھل کر آہ کرنے لگی۔ آہیں بھرنے لگی۔ مائیکل اپنی زبان اس کے کلٹ پر دباتا پھر اس پر زبان پھیرنے لگتا۔ ساتھ پی اس کی ناک بھی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان رگڑ کھا رہی تھی۔ خدیجہ لذت سے کانپنے لگی، ہانپنے لگی۔
"مسٹر ڈیوڈ" خدیجہ نے چیخ ماری۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ مسٹر ڈیوڈ کیا مدد کرتے۔ وہ تو اب بس اس سائیکو ڈرامہ کا اینڈ دیکھنا چاہتے تھے۔
"مائیکل ۔ رکو رکو " خدیجہ چلا اٹھی لیکن مائیکل اب چالو ہو گیا تھا اور اسے پتہ تھا کہ خدیجہ بھی چالو ہے اس لئے اس نے اپنی رفتار اور بڑھا دی۔ ایک ہاتھ پیچھے سے لے جا کر خدیجہ کی گانڈ میں بھی انگلی کرنے لگا۔
یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ خدیجہ ڈسچارج ہونے لگی۔ اس نے مائیکل کا سر پکڑ کر اپنی ٹانگوں کے بیچ زور سے دھنسا دیا اور اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ ایسا مزہ ایسی لذت اسے زندگی میں پہلی بار ملی تھی۔ ڈسچارج ہوتے ہوئے اسے محسوس ہوا جیسے اس کی ٹانگوں سے جان نکل رہی ہو۔ اسے پتہ تھا ان لمحات میں یقیناً وہ طلبا کو کافی مضحکہ خیز لگی ہو گی لیکن مزہ اتنا زیادہ تھا کہ مزے کے علاوہ اسے کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں تھی۔ اس نے جیسے اپنے جسم کو لذت کے سمندر میں لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔ منہ سے لذت بھری چیخیں اور آہیں بھی مسلسل جاری تھیں۔
جب وہ ڈسچارج ہو چکی تب بھی اس نے مائیکل کا چہرہ ٹانگوں کے بیچ دبائے رکھا اور وہ اتنا جھک گئی تھی کہ ممے مائیکل کے بالوں پر ٹچ ہو رہے تھے۔ مموں پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔
بلاآخر خدیجہ نے مائیکل کا چہرہ چھوڑ دیا۔ مائیکل پیچھے ہو کر خدیجہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس کا چہرہ تو خدیجہ کے مموں سے بھی زیادہ تر تھا۔
خدیجہ ایک دم شرما گئی اور اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
"آپ دونوں اب جا سکتے ہیں۔ جو کچھ آج ہوا ہے اسے پروسیس کرنے کیلئے ہمیں کافی درکار ہو گا۔" مسٹر ڈیوڈ تقریباً لاجواب تھے۔
"یس سر" خدیجہ نے کہا اور ہاتھ چہرے پر رکھے رکھے شرمائے انداز میں کلاس سے نکل گئی۔ مائیکل بھی اس کے پیچھے کلاس سے باہر نکلا آیا۔
جارج ہے