خدیجہ
قسط نمبر 2
خدیجہ کو یہ سوچ کر خود پر ہنسی آ گئی کہ اس نے کتنا وقت اپنے لباس کے انتخاب میں لگایا تھا۔ کیسے اس نے خود کو لباس میں بار بار دیکھ کر سنوارا تھا۔ اور اب اسے یہ لباس اتارنا پڑ رہا تھا۔ کیسا مذاق تھا یہ۔
اس نے نظریں جھکا کر اپنے بلاؤز کی طرف دیکھا اور ایک ایک کر کے بٹن کھولنے لگی۔ ہاتھ بٹن کھولنے میں مصروف تھے تو ذہن پروگرام کی دیگر تفصیلات یاد کرنے میں۔ ذہن پر زور ڈالا لیکن کچھ یاد نہ آیا۔ دراصل اس نے کبھی غور سے پروگرام کے اصول پڑھے ہی نہیں تھے کیونکہ تب اس کے نزدیک تو یہ محض ایک مذاق تھا۔ یہ اور بات تھی کہ اب یہ مذاق حقیقت بن چکا تھا۔
بلاؤز کے بٹن کھولنے کے بعد سکرٹ کی باری تھی۔ جسمانی مشقت سے زیادہ اسے دماغی قوت درکار تھی بے لباس ہونے کیلئے۔ اس نے اپنی ڈائریکشن ایڈجسٹ کی اور رخ ان دونوں کی متضاد سمت کر لیا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی کسی کے سامنے اس طرح اپنا لباس نہیں اتارا تھا سوائے اپنی چند قریبی دوستوں کے اور ورزش کی کلاس میں۔ اسے ان دونوں کی نظریں اپنے جسم میں گڑی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اس نے احتیاط سے اپنا سکرٹ اتار کر تہہ کر کے صوفے کے بازو پر رکھ دیا۔
"یہ میں کیا کر رہی ہوں" خدیجہ نے دل ہی دل میں سوچا مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔
پرنسپل اور مسز وارن اب اس کی ٹانگیں اوپر تک دیکھ سکتے تھے لیکن اوپری حصہ اب بھی بلاؤز کے نیچے چھپا ہوا تھا جسے اتارنے میں خدیجہ جھجک رہی تھی۔ شرماتے جھجکتے اس نے دونوں بازو بلاؤز سے نکال لئے اور آہستگی سے بلاؤز اتار کر فولڈ کر کے سکرٹ کے ساتھ ہی رکھ دیا۔
خدیجہ اب صرف برا، پینٹی، ہوز اور ہیلز پہنے ہوئے تھی۔ اسے بہت شرم آ رہی تھی اگرچہ اس کی پشت ان دونوں کی جانب تھی۔
تاہم، محض اس کی خوبصورت ٹانگیں اور پینٹی دیکھ کر ہی پرنسپل کے انڈر وئیر میں حرکت شروع ہو گئی تھی۔ انہوں نے گلا کھنکار کر صاف کیا اور ایک ٹانگ دوسری پر رکھ کر رخ تھوڑا سا مسز وارن سے پھیر لیا۔ پروگرام کیلئے خدیجہ ک انتخاب کرتے وقت شاید وہ بھول گئے تھے کہ ایک جوان لڑکی کا جسم ان پر کس طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔ خدیجہ کا صرف اپنے زیر جامہ میں ملبوس ہونا اور اس کی واضح بے چینی یہ سب پرنسپل کے جذبات کو مزید ہوا دے رہا تھا۔ ان کے انڈر وئیر میں مزید حرکت ہونے لگی لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی ہونے لگا کہ یہ غلط ہے۔
"شاباش خدیجہ ، بس تھوڑی سی ہمت اور" مسز وارن نے خدیجہ کا حوصلہ بڑھایا۔
"جی میڈم۔" خدیجہ نے انہیں جواب دیا اور دونوں ہاتھ اپنی کمر پر لے جا کر برا کا ہک کھول دیا۔ تھوڑا سا آگے جھک کر برا اتار دی۔ ایک کپ کو دوسرے کے اندر ڈال کر برا فولڈ کر کے باقی کپڑوں کے ساتھ رکھ دی۔ برا اتارنے کے بعد کی حرکت سے اس کے پستان ہلنے لگے تھے۔ اس نے دل میں شکر ادا کیا کہ منہ دوسری طرف تھا۔
پھر خدیجہ نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے پینٹی اور ہوز کے دونوں اطراف گھسا دئیے۔ گھر پر ہوتی تو شاید وہ ہوز اتارنے میں احتیاط کرتی کیوں کہ نیٹ کا کپڑا نازک ہوتا ہے لیکن یہاں اگر وہ آہستہ آہستہ اتارتی تو شاید پرنسپل اور مسز وارن یہ سمجھتے کہ وہ جان بوجھ کر آہستہ آہستہ اپنا جسم عیاں کر رہی ہے جیسے کلب میں سٹرپ ٹیز ہوتا ہے۔ خدیجہ ہر گز یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایسا سوچیں۔
خدیجہ نے ایک ہی جھٹکے میں پینٹی اور ہوز اتارنے چاہے لیکن ہوز کافی تنگ تھا لہٰذا خدیجہ کو رکنا پڑا، جھکنا پڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی رفتار آہستہ رکھنی پڑی۔ اگر وہ بیٹھی ہوتی تو اتنی دقت نہ ہوتی لیکن بیٹھنے کی صورت میں اسے منہ موڑنا پڑتا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ خدیجہ جانتی تھی کہ اس کی یہ خواہش مضحکہ خیز تھی کیونکہ جلد یا بدیر اسے مڑ کر پرنسپل اور مسز وارن کا سامنا تو کرنا ہی ہے۔
خدیجہ نے جتنی کوشش کی کہ وہ کوئی غلط تاثر نہ دے، ہوز اتارنے میں مشکلات کی وجہ سے اتنی ہی پریشانی ہوئی۔ کبھی ایک ٹانگ تو کبھی دوسری ٹانگ پر سے ہوز نیچے کرنے کی وجہ سے اس کے چوتڑ کبھی ٹائٹ ہو جاتے تو کبھی ڈھیلے۔ اس کی سڈول ٹانگیں اور چوتڑ یوں اوپر نیچے ہوتے دیکھ کر پرنسپل کو پینٹی کے اوپر سے ہی خدیجہ کی پھدی کے خدو خال کا اندازہ ہو رہا تھا۔ ایک تو پینٹی کافی ٹائٹ تھی، دوسرا خدیجہ کے جھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے مزید ٹائٹ ہو گئی تھی اور تیسرا خدیجہ کے ٹانگوں کو بار بار اٹھانے کی وجہ سے اس کی پھدی کے گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ بالکل نمایاں ہو رہے تھے۔ پرنسپل کا لن اب انڈر وئیر کے اندر کھڑا ہو گیا تھا۔ ان کا دل تو کر رہا تھا کہ ہاتھ میں پکڑ کر کچھ مزے لیں لیکن یہ انتہائی نامناسب ہوتا۔ تاہم اس عمر میں بھی اتنی جلدی لن کھڑا ہونے پر انہیں دل ہی دل میں فخر محسوس ہوا اگرچہ وہ اس فخر کا اظہار کسی سے نہیں کر سکتے تھے۔
سب سے بہترین نظارہ تو تب میسر ہوا جب خدیجہ کو پینٹی ہوز اتارنے کیلئے ہیلز اس کے پائنچوں میں سے گزارنی پڑیں۔ خدیجہ جانتی تھی کہ وہ بہت سیکسی نظارے پیش کر رہی ہے لیکن اسے توقع تھی کہ پرنسپل اور مسز وارن کی نظریں اس کی پرائیویٹ جگہ پر نہیں ہوں گی۔
"شاباش خدیجہ، اب ذرا مڑ کر ہماری طرف رخ کریں تاکہ ہم دیکھ سکیں۔" پرنسپل سے رہا نہ گیا۔
مسز وارن اپنی سیٹ میں بے چین تھیں۔ شاید بطور ایک عورت انہیں احساس تھا کہ خدیجہ پر کیا گزر رہی ہے۔ لیکن انہیں معلوم تھا کہ یہ سب پروگرام کا حصہ ہے اور اس کے اصولوں کے مطابق ہے۔ کسی کے سامنے برہنہ ہونا بہت سے ایشوز کو واضح کر دیتا ہے مثلاً اپنے جسم کے بارے میں انسیکیور ٹی ، اپنی نظروں میں اپنا امیج، جذبات، جنسی تضادات، دوسروں سے کمیونیکیشن وغیرہ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ان سب چیزوں کی لسٹ بنائی جائے جو پبلک نیوڈیٹی سے عیاں ہوتی ہیں تو یہ لسٹ بہت ہی لمبی بنے۔ مسز وارن نے پروگرام کا اچھا خاصہ مطالعہ کر رکھا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ کسی بھی ادارے کیلئے اس کا آغاز انتہائی مشکل ہے لیکن انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر پروگرام کا آغاز کر لیا جائے اور کامیابی سے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نتیجہ بہت ہی کارآمد نکلتا ہے۔ مختصراً یہ کہ کامیابی سے پروگرام پر عمل کی صورت میں طالب علموں میں جنسی ہراسگی بہت کم ہو جاتی ہے اور اپنے بدن سے آگاہی بہت بڑھ جاتی ہے۔
خدیجہ نے ایک ہاتھ اپنی چھاتیوں پر اور دوسرا پھدی پر رکھ لیا اور آہستہ آہستہ اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا اور شرم کے مارے وہ زمین میں گڑی جا رہی تھی۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اسے شاور سے نکلتے ہوئے دیکھ لیا ہو حالانکہ پرنسپل اور مسز وارن کیلئے اسے شاور سے نکلتے دیکھنا ناممکن تھا۔
بلاشبہ ایک جوان لڑکی کو ننگی دیکھنا جذبات بھڑکا دیتا ہے لیکن اگر وہ لڑکی اپنے پرائیویٹ پارٹس چھپانے کی کوشش کر رہی ہو تو منظر میں حدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کتنی بے چین ہے اور آپ عنقریب اس کے جسم کے وہ حصے دیکھنے والے ہیں جنہیں وہ لڑکی سب سے چھپانا چاہتی ہے۔
حقیقت تو یہ تھی کہ خدیجہ کے ہاتھ کچھ زیادہ چھپا نہیں پا رہے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اس نے نپلز چھپا لئے تھے لیکن اس کی بڑی بڑی چھاتیوں کا اکثر حصہ بخوبی نظر آ رہا تھا۔ بلکہ اس کے اپنے بازو کی مدد سے یوں نپلز چھپانے کی وجہ سے چھاتیاں دب کر رہ گئی تھیں اور بیچ کی لکیر زیادہ واضح ہو گئی۔ دوسرے ہاتھ سے پھدی چھپانے کی ناکام کوشش بھی جاری تھی۔
"بیٹا آپ کو اپنے ہاتھ ہٹانے ہوں گے" مسز وارن نے خدیجہ سے کہا۔
"میڈم کیا یہ ضروری ہے؟" خدیجہ کو اب بھی امید تھی کہ شاید کوئی صورت ہو بچ نکلنے کی۔
"جی مس خدیجہ یہ ضروری ہے۔ بھلا اگر ہاتھ سے چھپانا ہی مقصود ہو تو پھر کپڑے اتارنے کا کیا فائدہ؟" مسز وارن کی جگہ پرنسپل نے خود خدیجہ کو جواب دیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی خدیجہ پرنسپل کی بات سے سو فیصد متفق تھی۔
"مجھے پورا یقین ہے کہ آپ نے پروگرام کے اصول پڑھ رکھے ہوں گے لیکن میں یہاں دہراتا چلوں کہ پروگرام کے اصولوں کے مطابق آپ نے پورا دن ایسے ہی ننگی گزارنا ہے، آپ نے اپنے جسم کو کسی چیز کی مدد سے چھپانے کی کوشش نہیں کرنی۔ نہ ہاتھوں سے نہ کتاب سے نہ پرس سے نہ کسی اور چیز سے۔ اگر کوئی آپ سے کسی پوز کی فرمائش کرے تو آپ کو پوری کرنا ہو گی بشرطیکہ کہ فرمائش کرنے والا قابل احترام انداز میں فرمائش کرے اور آپ کے جسم کو چھونے سے گریز کرے۔ شاید آپ کو ابھی تو یہ سب عجیب لگ رہا ہو لیکن جب آپ کو اس سب کی عادت ہو جائے گی تو آپ ایک مضبوط اور صحت مند لڑکی بن کر ابھریں گی۔ آپ کو اپنے جسم سے متعلق کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہو گا۔ آپ کا کانفیڈنس کئی گنا بڑھ جائے گا۔ چلئے شاباش اب اچھی بچی بنیں اور ہاتھ ہٹا لیں۔" پرنسپل نے تو پوری تقریر جھاڑ دی۔
"یس سر" خدیجہ نے کہا اور دونوں ہاتھ سائیڈوں پر گرا دئیے۔
پرنسپل کو اب سمجھ آیا کہ خدیجہ کا ہاتھوں سے اپنے جسم کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنا کیوں اتنا سیکسی لگ رہا تھا۔ انہیں کسی جوان لڑکی کو ننگی دیکھے کافی وقت بیت چکا تھا۔ اب جب خدیجہ کا ننگا جسم ان کی نظروں کے سامنے آیا تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پائے۔ دل ہی دل میں وہ یہی سوچ رہے تھے کہ بس خدیجہ اور مسز وارن ان کے اندر پیدا ہونے والی ٹھرک کو نہ بھانپ سکیں۔ خدیجہ کی چھاتیاں سینے پر ایسے فخریہ آویزاں تھیں کہ جیسے پکے ہوئے خربوزے۔ نپلز اور اس کے گرد کا کچھ حصہ سرخی مائل تھا۔ پرنسپل اپنا آفس ہمیشہ ائیر کنڈیشنڈ رکھتے تھے۔ شاید ٹھنڈ کی وجہ سے خدیجہ کے نپلز اتنے سخت ہو گئے تھے۔ پرنسپل کا بہت شدید دل کر رہا تھا کہ وہ اپنا لن تھام لیں۔
پرنسپل نے اپنا گلا کھنکار کر صاف کیا۔ واضح طور پر وہ خدیجہ کے جسم سے بے حد متاثر ںظر آ رہے تھے۔
"میرا خیال ہے آپ پروگرام کیلئے بالکل پرفیکٹ ہیں" جب پرنسپل نے یہ بات کہی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ مسلسل خدیجہ کی چھاتیوں کو گھور رہے ہیں۔ ایک دم سے انہوں نے اپنی نظریں ہٹا کر مسز وارن کی طرف گھمائیں اور ان سے پوچھا: "مسز وارن، آپ کا کیا خیال ہے؟"
مسز وارن کو سمجھ نہیں آیا کیا جواب دیں۔ ان کے نزدیک خدیجہ کا جذبہ، مضبوط شخصیت اور کانفیڈنس پروگرام کی کامیابی کیلئے اہم تھے۔ تاہم وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ پروگرام کی پہلی شرکت دار اگر ایک سیکسی جسم والی لڑکی ہو تو کامیابی کے چانسز کافی بڑھ جاتے ہیں۔
"ہمم، خدیجہ آپ بہت پرکشش لڑکی ہیں۔" مسز وارن بس اتنا ہی کہہ پائیں۔
"اوہ تھینک یو میڈم" خدیجہ نے انہیں جواب دیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی فیکلٹی ممبر نے خدیجہ کے جسم کی تعریف کی تھی۔ اگر وہ لباس میں ہوتی تو ادباً جھک کر شکریہ ادا کرتی لیکن بنا لباس کے جھکنا اسے کچھ معیوب سا لگا اس لئے صرف زبان سے کہنے پر ہی اکتفا کیا۔
جب خدیجہ اور مسز وارن آپس میں جملوں کا تبادلہ کر رہی تھیں، تب پرنسپل نے موقع کا فائدہ اٹھا کر خدیجہ کی پھدی پر کئی اچٹتی ہوئی نظریں ڈالیں۔ انہیں کسی قدر مایوسی ہوئی کیونکہ خدیجہ کی پھدی کے گرد کافی بال تھے۔ پرنسپل توقع کر ہے تھے کہ وہ خدیجہ کی پھدی کے ہونٹ دیکھ پائیں گے لیکن بالوں میں ڈھکی ہونے کی وجہ سے ان کی نظریں ایک بار پھر اس کی چھاتیوں پر جا ٹکیں۔ انہوں نے نظریں تھوڑی اور اوپر کیں اور خدیجہ کے چہرے پر فوکس کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا: "اچھا مس خدیجہ ، مسز وارن کے پاس پروگرام کی تاریخ، اصول اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اگر آپ نے پڑھنے ہوں تو آپ مسز وارن سے لے سکتی ہیں۔" پرنسپل دراصل اپنی سیٹ سے نہیں اٹھنا چاہتے تھے۔ وجہ ان کا لن تھا جو لوہے کی مانند سخت ہو رہا تھا۔ پرنسپل نے مسز وارن کو ہدایت کی کہ وہ خدیجہ کو پروگرام کے کاغذات کی ایک کاپی فراہم کریں۔
"مس خدیجہ آپ باہر برآمدے میں بیٹھ کر ان کا مطالعہ کر سکتی ہیں۔ تب تک آپ کے پارٹنر بھی آ جائیں گے۔ سیکیورٹی گارڈ آج سارا دن آپ کے ساتھ رہے گا۔ ہم نے اسے آپ کے کلاس شیڈول کی کاپی دے دی ہے۔"
"میرا پارٹنر؟" خدیجہ کو ایک کے بعد ایک حیرت کا جھٹکا لگ رہا تھا۔
"جی مس خدیجہ۔ ہم یہ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ آپ اکیلی سارا دن پروگرام پر عمل کریں۔ اسی لئے ہم نے آپ کے پارٹنر کے لئے مائیکل کا انتخاب کیا ہے۔"
"مائیکل بیٹس؟" خدیجہ نے دل میں اس کا نام دہرایا۔ اس کیلئے یہ بہت عجیب تھا۔ اگر پارٹنر ضروری ہی تھا تو کوئی لڑکی منتخب کر لیتے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ آرام دہ محسوس کرتیں۔ مائیکل ایک لڑکا تھا اور خدیجہ کو لڑکوں سے سوائے گھورنے کے اور کوئی امید نہیں تھی۔ ویسے اگر اسے خود سے کسی لڑکے کا بھی انتخاب کرنا ہوتا تو وہ مائیکل کو ہر گز نہ چنتی۔
خدیجہ نے اپنا پرس اٹھایا اور باہر برآمدے کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ مکمل ننگی ہو کر پرس اٹھا کر چلنے میں ایک عجیب سی بات تھی۔
جاری ہے