شریف بہن اور بھائی۔ قسط 34

شریف بہن اور بھائی

قسط 34


مجھے لگا کہ میں خود کو کنٹرول نہیں کر پاؤں گا۔ میں مزے کی شدت سے ہکلاتے ہوئے بولا۔۔۔ آ۔۔ آپی۔۔۔ آپی۔۔۔ میں چھوٹنے لگا ہوں۔۔۔۔ وہ بھی ہکلاتے ہوئے بولیں ۔۔ ر۔۔ رک رک میں بھی آئی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے جسم نے جھٹکا کھایا اور میرا لاوہ بہہ نکلا۔۔۔ ٹھیک اسی وقت آپی کے منہ سے بھی چیخ نما سسکاری نکلی اور اپنی گانڈ ہلاتے ہوئے وہ بھی ڈسچارج ہو گئیں۔۔۔


آپی میرا لن اندر لیے ہوئے میرے اوپر ہی لیٹ گئیں۔۔۔۔۔ ہم لوگ وہیں اپنی اپنی جگہوں پر پڑے رہے اور تقریباً دو گھنٹے تک سیکسی موویز دیکھتے رہے۔۔۔۔ پھر رات کے ایک بجے ہم لوگوں نے سیکس کا ایک اور شاندار راؤنڈ لگایا۔۔۔ میں نے ناز کے ساتھ ساتھ آپی کو بھی بھگتایا۔۔۔۔ ناظم نے آپی کی ہی چدائی کی کیونکہ وہ صرف آپی کا ہی دیوانہ تھا۔۔۔ شاید اس بات کو ناز محسوس کر گئی۔۔۔ وہ منہ سے تو کچھ نہ بولی لیکن اس نے بھی ناظم کی طرف دھیان نہیں دیا۔ صرف میرے ساتھ ہی مزے لیے۔۔۔ رہ گئیں آپی تو وہ میرے اور ناظم کے درمیان سینڈوچ بنی رہیں۔۔۔ ناظم کا خود پر زیادہ کنٹرول نہیں تھا اس لیے وہ جلدی ہی چھوٹ گیا۔ 


اور آپی پھر سے میری طرف آگئی تھیں۔۔۔ صبح تین بجے کے قریب دونوں بہنیں فارغ ہو کر اپنے کمرے میں چلی گئیں .. دونوں بہنوں کے جانے کے بعد میں نے اٹھ کر کمرے کی ساری کھڑکیاں کھول دیں۔ کیونکہ کمرے میں ہر طرف منی کی بو پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ آج کی رات ایک شاندار سیکس پارٹی کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔۔۔ ناظم تو پہلے ہی تھک کر سو چکا تھا۔۔ میں بھی بہت زیادہ کمزوری محسوس کر رہا تھا۔ اس لیے جیسے تیسے کر کے واش روم میں گیا اور فریش ہونے کے بعد باہر آکر بیڈ پر لیٹ گیا۔۔ اور تھوڑی ہی دیر میں دنیا و ما فیا سے بے خبر ہو گیا۔۔۔


اگلے دن سے وہی پرانی روٹین شروع ہو گئی۔۔۔ میں ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی ٹائم دینے لگا۔۔۔۔ دن گزرتے گئے اور ہماری سیکس لائف پہلے سے اور شاندار ہوتی گئی۔۔۔ سیٹ اپ وہی تھا کہ میں اپنی دونوں بہنوں کو چودتا تھا جبکہ ناظم صرف آپی کی طرف متوجہ تھا.. اور ادھر ناز بھی ناظم سے بھاگتی تھی اور صرف میرے ساتھ ہی مزے لیتی تھی۔۔۔ اس طرح وقت گزرتا گیا۔ موج مستیوں میں وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔۔ ویسے بھی ہم لوگ جب آپس میں وقت گزارتے تھے تو ہمیں دنیا کا ہوش نہیں رہتا تھا ۔۔۔ اب میری اور روبی آپی کی تو تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔۔۔۔ ناز اور ناظم کالج لائف میں انجوائے کر رہے تھے۔۔۔


ایک دن ناز کا داؤ چل گیا وہ امی کے ساتھ خالہ نجمہ کے گھر چلی گئی اور وہاں اس کو موقع مل گیا کہ وہ ان کا شو ریکارڈ کر سکے۔۔۔ تو ناز نے امی لوگوں کے بیڈ روم میں جانے سے پہلے ہی ایک مناسب جگہ پر کیمرہ چھپا دیا اور خود سامنے آئے بغیر ہی ریکارڈنگ آن کر کے وہاں سے کھسک لی۔۔۔ کیونکہ امی کے گھٹنوں میں درد رہتا تھا تو وہ اب نیچے خالہ کے بیڈ روم میں ہی کام چلا رہی تھیں۔ جب کافی دیر بعد امی لوگ فارغ ہو کر واپس بیڈ روم سے باہر نکلیں تو ناز نے بہانے سے اندر جا کر کیمرہ آف کر کے چھپا لیا۔۔۔ رات کو میں گھر آیا تو ناز نے سب سے نظریں بچا کر کیمرہ مجھے پکڑاتے ہوئے کامیابی کا بتایا۔ اور میں نے کیمرہ پاکٹ میں ڈال لیا۔ 


میرا خیال تھا کہ رات کو ناظم کے سونے کے بعد وڈیو چیک کروں گا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد جب امی ابو اپنے کمرے میں چلے گئے تو میں بھی اوپر چلا گیا۔۔ ناظم کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ناظم بھی کمپیوٹر آف کر کے سو گیا۔۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد ابھی کیمرہ سے میموری کارڈ نکال کر کمپیوٹر کے ساتھ اٹیچ کیا ہی تھا کہ ناز کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ بھیا آج آپی بھی جلدی ہی سو گئیں تو میں نے سوچا آج میں بھیا کے پاس اکیلی جاتی ہوں اور ہم دونوں ملکر اپنے اپنے بدن کو سکون پہنچاتے ہیں یہ کہتے ہوئے وہ ایک ادائے ناز سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی۔۔۔ 


میں نے مسکراتے ہوئے چھوٹی بہنا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے اوپر گرا لیا اور اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اس کے چوتڑوں کو دبانے لگا۔۔۔۔ ابھی ہم لوگ کسنگ ہی کر رہے تھے کہ کمرے کا دروازہ کھول کر آپی اندر داخل ہوئیں۔۔۔ اور ہماری حالت دیکھ کر مصنوعی غصے سے بولیں ۔۔۔ ناز تیری پھدی میں تو ہر وقت طوفان آیا رہتا ہے۔ اس کا علاج کیوں نہیں کرواتی۔۔ ناز بھی اسی انداز میں آنکھیں میچتے ہوئے بولی۔۔۔ آپی علاج کروانے ہی تو آئی ہوں نا بھیا کے پاس۔۔۔ اور اس کی بات سن کر ہم تینوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیے۔۔۔ اس رات بھی ہم تینوں نے ملکر خوب مزے کیے اور میں نے دونوں بہنوں کی پھدی ماری۔ 


ناز کو فارغ کرنے کے بعد جب میں آپی کے اوپر لیٹ کر پھدی میں لن گھسائے اندر باہر کر رہا تھا تبھی اندازاً دس منٹ کے بعد مجھے اپنا جسم اکڑتا ہوا محسوس ہوا اور یوں لگا جیسے سارے جسم کا خون میرے لن کی طرف بہہ رہا ہو۔ آپی نے مجھے کس کر پکڑا ہوا تھا اور ان کی ٹانگیں میری کمر پر قینچی کی صورت کسی ہوئی تھیں۔ میں آپی کے اوپر لیٹا ہوا تیزی سے لن پھدی کے اندر باہر کر رہا تھا۔ ہم دونوں کے ہونٹ آپس میں پیوست تھے۔۔۔ اچانک مجھے آپی کی پھدی میں موجود بچہ دانی کی گرفت اپنے لن کی ٹوپی پر سخت ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا پانی نکلنے لگا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا لن باہر نکالنے کی سوچتا۔ عین اسی وقت میں کنٹرول نہ کر پایا اور میرے لن نے آپی کی بچہ دانی پر ہی منی کی دھاریں چھوڑنا شروع کر دیں۔۔۔ اور آخر کار میں روبی آپی کی پھدی میں موجود بچہ دانی کے اوپر ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔۔


میرے گرم گرم منی کو اپنی بچہ دانی پر گرتا ہوا محسوس کر کے آپی پرجوش ہو گئیں اور انہوں نے اپنے دانت میرے کندھے میں گاڑھ دیے اور تیزی سے اپنی گانڈ ہلانی شروع کر دی۔ اور لرزتے ہوئے فارغ ہونے لگیں۔ لگاتار دو منٹ تک ہم دونوں کے جسموں کو جھٹکے لگتے رہے اور ہم اپنا پانی چھوڑتے رہے۔۔۔ جب منی کا آخری آخری قطرہ بھی نکل گیا تو ہم پر سکون ہو گئے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں کپڑے پہن کر چلی گئیں۔۔۔ دونوں بہنوں کے جانے کے بعد میں نے کیمرہ اٹھایا میموری کارڈ واپس کیمرے میں لگا کر پھر کسی وقت اس وڈیو کو دیکھنے کا پلان بنایا اور کیمرہ الماری میں لاک کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹ کر سو گیا۔۔۔


اگلے چند دن پھر مصروفیت میں گزر گئے اور میں کیمرہ الماری میں رکھ کر ریکارڈنگ والی وڈیو بھول گیا پھر ایک رات میں اور ناظم بیڈ پر لیٹے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ آپی اور ناز اندر داخل ہوئیں۔۔۔ میں نے آپی کی طرف دیکھا تو مجھے آپی کی آنکھوں میں ایک عجیب سے چمک نظر آئی جو کہ اس سے پہلے آج تک منعقود تھی۔۔۔ آپی سیدھا میرے پاس آئیں اور چپ چاپ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔ ناز بھی چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ میں حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگا کہ آخر ان کو ہوا کیا ہے جو یہ ایسے خاموش ہیں۔۔۔۔ اچانک ہی آپی نے جیسے میرے سر پر بمب پھوڑا۔۔۔ 


ساگر میں پریگنینٹ ہوں۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھا اور آپی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔ یہ کیا بکواس کر رہی ہو آپی۔۔۔۔ آپی نے میری آنکھوں میں دیکھتےہوئے کہا۔۔۔ نہیں ساگر یہ جھوٹ نہیں بلکل سچ ہے کہ میں پریگنینٹ ہوں اور تمہارے پیار کی نشانی میرے پیٹ میں موجود ہے۔۔۔ میں نے انتہائی پریشانی سے اپنا سر پیٹتے ہوئے پوچھا کہ آپی میں تو آپ کو ہمیشہ حمل روکنے والی دوائی لا کر دیتا تھا۔۔۔ آپی نظریں جھکا کر بولیں یار وہ آخری مرتبہ جب تم میرے اندر ڈسچارج ہوئے تھے تو میں نے کمرے میں جاکر دوائی کھانی چاہی تو پتہ لگا کہ دوائی ختم ہو چکی ہے۔۔۔ میں نے سوچا کہ چلو کوئی بات نہیں کل منگوا لوں گی تم سے۔ مگر اگلے دن بھول گئی اور پھر بھولی ہی رہی۔۔۔


میرے دل و دماغ میں آندھیاں کی چل رہی تھیں۔۔۔ بڑی بہن کے رسوا ہونے کا ڈر اور باقی پریشانیاں مارے جا رہی تھیں۔۔۔ آپی جیسے خلاؤں میں تکتی ہوئی بولیں۔۔۔۔ ساگررر۔ کتنی خوشی کی بات ہے نا ہمارا پیار لازوال ہونے والا ہے۔۔۔ اس گھر میں پہلا بچہ ہمارا ہو گا۔۔۔ میرا ہو گا۔۔۔ تمہارا ہو گا۔۔۔ لیکن ساگر بجائے خوش ہونے کے پریشانی اور تذبذب کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔۔۔ آپی پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔۔ دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔ امی ابو کو کیا بتائیں گے۔۔۔ نہیں آپی اس حمل کو ضائع کرنا ہو گا۔۔۔ اور آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ یہ صرف میرا بچہ ہے ناظم کا بھی تو ہو سکتا ہے ہم دونوں کا بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔


ابھی یہ الفاظ ساگر کے منہ میں ہی تھے کہ آپی اپنی آنکھوں میں آنسو لیے دلبر داشتہ ہو کر ایک دم مڑیں اور بھاگتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔۔۔ ساگر نے غصے سے ناز کی طرف دیکھا اور اسے کہا جاؤ تم بھی اور آپی کو سمجھاؤ کہ وہ اپنا پاگل پن چھوڑے اور اس حمل کو ضائع کروادے۔۔۔ ناز نے میری طرف دیکھا لیکن منہ سے بولی کچھ نہیں اور چپ چاپ سر جھکائے آپی کے پیچھے چلی گئی۔۔۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میری کنپٹیاں جل رہی تھیں۔۔۔ کانوں سے جیسے دھواں نکل رہا تھا۔۔۔ اتنے میں ناظم کی آواز سنائی دی۔۔۔ بھائی آپ کو آپی سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔ 


میں نے غصے سے ناظم کی طرف دیکھا اور اس کی بات کاٹتے ہوئے تلخ لہجے سے بولا اب تم شروع ہو جاؤ آپی کے چمچے ۔ ہزار بار منع کیا ہے اپنے اس ننھے سے دماغ کو تکلیف مت دیا کرو۔۔۔۔ ناظم نے شکوہ کن نظروں سے مجھے دیکھا اور چپ چاپ کروٹ بدل کر لیٹ گیا۔۔۔ میں بھی لیٹ کر اس مصیبت کے بارے میں سوچنے لگا۔۔ اور انہی متضاد سوچوں میں جانے کب نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔۔۔ اگلے دن میں نے آپی سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ منہ پھیر کر اپنے کمرے میں چلی جاتیں۔ میں بہت پریشان تھا اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا لیکن آپی نے میری بات نا سنی۔ 


اگلے چند دن ایسے ہی گزر گئے۔ اور جب بھی میں آپی سے بات کرنے کی کوشش کرتا وہ مجھ سے کنی کترا جاتیں۔۔۔ چند دن بعد آپی نے مجھے ناز کی معرفت کہلوا دیا کہ آپی نے میڈیسن کے ذریعے وہ حمل ضائع کروا دیا ہے۔۔۔ میں نے سکون کا سانس لیا مجھے لگا کہ جیسے سر سے بوجھ کا پہاڑ اتر گیا ہو۔۔۔ اب مسئلہ تھا آپی کو منانے کا لیکن آپی میری بات سنتی تب نا۔۔۔ اب تو انہوں نے میرے سامنے آنا بھی کم کر دیا تھا۔۔۔ میں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا کہ کہیں وہ اور بگڑ گئیں تو ڈرامہ بھی لگا سکتی ہیں۔۔ مجھے آج بھی وہ گیراج والا قصہ یاد آتا ہے تو پھیپھڑے حلق میں آ جاتے ہیں۔۔۔


البتہ ناز کے ساتھ اب کبھی کبھار مزے کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔۔۔۔ وہ بھی رات کو آپی اور ناظم کے سونے کے بعد آ جاتی تھی ۔۔۔ اور فارغ ہو کر جلد ہی چلی جاتی۔۔ اور میں نے آپی والے واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے اب کبھی بھی ناز کے اندر چھوٹنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ ویسے بھی ناز ہمیشہ اپنے منہ میں منی نکلوانا پسند کرتی تھی۔۔۔ ایک رات میں ویسے ہی کمپیوٹر پر بیٹھا فولڈرز چیک کر رہا تھا کہ آپی کے ساتھ سیکس کے دوران بنائی ہوئی وڈیو نظر آگئی۔۔۔ اس وڈیو فائلز کو دیکھتے ہی جیسے دماغ میں دھماکا سا ہوا اور مجھے امی اور خالہ والی وڈیو یاد آئی جو کہ ابھی تک میرے کیمرے میں موجود تھی 


اور میں کیمرہ الماری میں رکھ کر بھول گیا تھا۔۔۔ ناظم اس وقت سو رہا تھا۔۔۔ میں اٹھا الماری سے کیمرہ اور اپنا ہیڈ فون نکال کر کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ کیمرے کو ڈیٹا کیبل کے ساتھ میں نے کمپیوٹر میں کنیکٹ کیا اور کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔میں نے کمپیوٹر پر امی والی ریکارڈنگ چلائی اور ہیڈ فون کانوں پر چڑھا کر وڈیو دیکھنے لگا۔۔۔۔ مووی میں خالہ کے کمرے کا منظر تھا کچھ منٹ بعد ہی امی اور خالہ کمرے میں داخل ہوتی نظر آئیں۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)