شریف بہن اور بھائی۔ قسط 35

شریف بہن اور بھائی

قسط 35


اور میں کیمرہ الماری میں رکھ کر بھول گیا تھا۔۔۔ ناظم اس وقت سو رہا تھا۔۔۔ میں اٹھا الماری سے کیمرہ اور اپنا ہیڈ فون نکال کر کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ کیمرے کو ڈیٹا کیبل کے ساتھ میں نے کمپیوٹر میں کنیکٹ کیا اور کمپیوٹر کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔میں نے کمپیوٹر پر امی والی ریکارڈنگ چلائی اور ہیڈ فون کانوں پر چڑھا کر وڈیو دیکھنے لگا۔۔۔۔ مووی میں خالہ کے کمرے کا منظر تھا کچھ منٹ بعد ہی امی اور خالہ کمرے میں داخل ہوتی نظر آئیں۔۔۔۔ آتے ہی ان دونوں نے بنا ٹائم ضائع کیے اپنے کپڑے اتار دیے۔۔۔۔


واہ کیا بات ہے۔۔ امی اس عمر میں بھی بھر پور اٹھان والا جسم رکھتی ہیں اور خالہ کے تو کیا ہی کہنے۔۔۔ کپڑے اتار کر دونوں ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے لگیں۔ چند منٹ تک ایک دوسرے کے باری باری ممے چوسے اس کے بعد وہ 69 پوزیشن میں آکر ایک دوسرے کی پھدیاں بھنبوڑنے لگیں۔ ابھی وہ ایک دوسرے کی پھدیاں ہی چاٹ رہی تھیں کہ خالو بھی فل ننگے اپنا لمبا اور کالا سیاہ لن لیے کمرے میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ سیکس میں شامل ہو گئے۔۔ اب دونوں میاں بیوی امی کی چوت اور گانڈ کو چاٹ رہے تھے۔۔۔ چند منٹ ایسے ہی چوت چٹائی کے بعد خالو نے امی کو سیدھا لٹا کر امی کی ٹانگیں کھول کر اپنا لن ان کی پھدی میں ڈالا اور دھکے مارنے لگے۔۔۔ 


خالو نے دونوں کی آدھے گھنٹے تک جم کر چدائی کی۔۔۔ اور میں امی اور خالہ کی سیکسی اور گندی زبان سن سن کر گرم ہو گیا۔۔۔ اور اپنا ٹراؤزر اتار کر وڈیو دیکھتے ہوئے اپنا لن سہلانے لگا۔۔۔ فارغ ہونے کے بعد خالو تو کمرے سے باہر نکل گئے۔۔ جبکہ امی اور خالہ وہیں لیٹی لیٹی باتیں کرنے لگیں۔۔۔ میں وڈیو آف کرنے ہی لگا تھا کہ ان دونوں یعنی امی اور خالہ کو کچھ بولتے دیکھ کر تجسس کے مارے رک گیا اور ان کی باتیں سننے لگا۔۔ کیمرہ انتہائی اعلیٰ کوالٹی کا تھا تو میں ان کی آواز بھی بخوبی سن سکتا تھا۔۔۔ خاله نجمہ امی سے مخاطب ہوئیں۔۔۔ باجو جڑی وڈی گشتی توں ایں۔۔۔ توں تاں بڑے بڑے لن کھادے ہونے۔۔۔ پنڈ وچ تے توں ایک بندہ وی نئیں سی چھڈیا۔۔۔۔ 


میری امی چونکہ شادی سے پہلے گاؤں کی رہنے والی تھیں اس لیے خالہ گاؤں کی بات کر رہی تھی۔۔۔ اور میں جو صرف خالہ کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا۔۔ جب امی کا جواب سنا تو شدید حیرانگی سے اچھل پڑا۔۔۔ امی بولیں ۔۔۔ مجو ہن تینوں کی دساں یار۔۔۔ کی زمانہ سی او۔۔ صبح توں لے کے شام تک چار پنج لن روز ای اپنے استعمال اچ ریندے ہوندے سی۔۔۔ تیرے بہنوئی نے وی تاں پہلے 29 واری میری پھدی ماری ہی۔۔ اشارہ ابو کی طرف تھا ۔۔۔ اور میں سن سن کر حیران ہو رہا تھا کہ میری امی جن کو ہم بہت پاکباز خاتون سمجھتے تھے اصل میں کتنی بڑی چداکڑ خاتون ہیں۔۔۔ اسے لئی تے سہاگ رات نوں تیرے بہنوئی نوں میری کھلی ہوئی پھدی تے کوئی اعتراض نئیں سی ہویا۔۔۔۔ 


پھر امی ہنستے ہوئے بولیں ۔۔۔ اعتراض کردا دی کیویں او دے خیال اچ تاں اس پھدی دا مربع اونے ہی بنایا ہی۔۔ پر اونوں کی پتہ ایتھے تے پورا پنڈ لنگ وڑیا۔۔۔ اور امی کی بات سن کر خالہ ہنس پڑیں۔۔۔ اچھا باجو اک گل ہور دس۔۔۔ میں بڑی واری سوچیا کہ تینوں پچھاں پر ہمت نہیں ہوئی۔ جے اج گل منہ تے آائی گئی اے تاں دس دے۔۔۔ اے ساگر دے نین نقش تو اڈے سارے گھر چوں کے نال نہیں رلدے۔۔۔ مینوں شک اے او تیرا منڈا نئیں ۔۔۔ خالہ کے منہ سے یہ سننا تھا کہ میرے کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔۔۔ آہو نجو میرا منڈا نئیں او ایک آرمی دے میجر دامنڈا اے۔۔۔ میں حیرت کے مارے اچھل پڑا اور کرسی سے گرتے گرتے بچا۔۔۔ 


یہ انکشاف سن کر ایسا لگا جیسے مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔۔۔ یا پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی ہو ۔۔۔۔ چند منٹ لگے مجھے اپنے حواس بحال کرنے میں۔۔۔ پھر میں نے وڈیو ریورس کر کے وہیں سے سلسلہ جوڑا جہاں امی نے میرے بارے میں بتایا تھا۔۔۔ امی کی بات سن کر خالہ کہہ رہی تھیں ہاجو فوجی وی رگڑ دتے۔۔۔ کوئی چھڈیا وی ہے کہ نئیں۔۔۔ تو امی نے غصیلے لہجے میں کہاں کنجری عورت پہلے پوری گل تاں سن لے میری۔۔ درمیان وچ بنڈ نہ دے بار بار ۔۔۔۔ تو خالہ نے ہنستے ہوئے منہ پر انگلی رکھ لی۔۔۔ امی پھر کہنے لگیں۔۔ نجو او اپنے ہمسائے چاچے سردار دی کڑی زرینہ نوں جاندی ایں نا۔۔۔ اوہی زرینہ باجو جس دا ایکسیڈنٹ ہویا سی تاں مرگئی سی نا۔۔ ؟ 


خالہ نے امی کو دیکھتے ہوئے تائیدی لہجے میں پوچھا۔۔۔۔ امی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولیں ہاں ہاں اوہی یار ۔۔۔ دراصل ہویا کی سی کہ میرے دن پورے ہوئے ہی۔۔ تے میں ہسپتال اچ ایڈمٹ سی۔ اس دن میرے بچی بچہ ہونا اسی پر قدرت نوں کجھ ہور ای منظور سی۔۔ میرا مریا ہویا منڈا پیدا ہویا۔۔۔ میں تاں اس وقت وڈے پریشن دی وجہ توں بیہوش سی پر تیرا بہنوئی میرے کول ای سی ۔۔۔ خون زیادہ وگ جان نال میری حالت بڑی خراب سی۔۔۔ اسی ٹیم ہسپتال آلیاں نے تیرے بہنوئی نوں آکھیا۔۔۔ تواڈی بیگم دی حالت بہت سیریئس ہے۔۔ تے ہوش آن توں بعد اوناں نوں کوئی بری خبر نہیں ملنی چائیدی۔۔۔ 


ہر حال وچ تواڈی بیگم نوں خوش رکھنا پوے گا ورنہ کسے وی قسم دا صدمہ جان لیوا ثابت ہو سکدا۔۔۔ تیرے بہنوئی نہیں پچھیا کے تازہ تازہ غم اچ کیویں خوش رکھاں اونوں تے وڈے ڈاکٹر نے آکھیا۔۔۔ جناب اک طریقہ ہے تاں ہی۔۔ دراصل آپنے ہی تھوڑی دیر پہلاں اک واقعہ ہویا ہے۔۔۔ تو اڈے ایک پنڈ دی اک عورت نوں بچی بچہ ہونے آلاسی او اپنے فوجی خاوند نال اج ہسپتال آرئی سی کہ راستے اچ نہر داپل پار کر دے ہوئے گڑی نہر وچ جا ڈگی۔۔۔ پر فوجی کمال مہارت نال بہت زخمی حالت اچ اپنی بیوی نوں لے کے ایتھے ہسپتال پہنچ گیا۔۔۔ دوناں دی حالت بہت خراب سی۔۔۔ زخماں نال چور چور سن۔۔۔ اسی فوراً عورت دا آپریشن کیتا تے منڈا پیدا ہویا۔۔ 


بچہ صحیح سلامت اے پر بچے دی ماں اپریشن دے وچ ای مر گئی اور فوجی نوں جدوں خبر ملی۔ کہ اودی محبت او دی بیوی مر گئی تاں دستی فوجی نوں وی اٹیک ہویا تے اوتھے ای پھڑک گیا۔۔۔ ہن او بچہ لاوارث اے۔۔ اگر تسی اونوں گود لے لو تے توانوں بچے دی خوشی مل جائے گی۔۔۔ تو اڈی بیگم دا حوصلہ ودے گا اووی بچ جائے گی نالے اک لاوارث بچے نوں ماں باپ دا پیار مل جاوے گا۔۔۔ دسو کی کیندے او۔۔۔ تیرے بہنوئی نے صرف میری خاطر او بچہ قبول کر لیا۔۔ تے بڑی دیر تک میرے توں اے خبر چھپا کے رکھی۔۔۔ کوئی اک سال بعد مینوں ساری گل سچی کچی دس دتی۔۔۔ 


فیر میرے کہنے تے تیرے بہنوئی نے جا کے ہسپتال اچوں اس فوجی تے اودی بیوی دی فائل دی کاپی لے آندی تے اودے وچ لگیاں فوٹواں دیکھ کے مینوں پتہ لگا کہ او کون سی۔۔۔ او عورت زرینہ سردار سی چاچے سردار دی کڑی ۔۔۔۔ فیر یاد آیا کہ چاچا تے آپ وی پچھلے سال فوت ہو گیا سی۔۔۔ بس میں اس بچے نوں سینے لائی رکھیا تے ساری دنیا نوں ایہوائی دسیا کہ اے میرا اپنا پتر اے۔۔۔


ساگر او ہی بچہ اے۔۔۔ امی نے اپنے مخصوص پنجابی سٹائل میں خالہ کو ساری رام کتھا سنائی۔۔۔ خالہ نے آہستگی سے پوچھا کہ باجو اس فوجی دا نام کی سی۔۔۔ تو امی نے جواب دیا اس فوجی دا نام اے۔۔۔،،،،،، میجر آفاق شاہد * با جو اس گل دا ساگر نوں پتہ ہے۔۔۔ خالہ نے امی سے پوچھا تو امی کہنے لگیں نہیں پاگلی۔۔۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد امی بڑے دھیمے لہجے میں بولیں۔۔ اج ساگر نوں دیکھ لے بلکل اپنے باپ دی کاپی اے اگر او دا کوئی وی زندہ ہوندا تے اونوں ویکھدے ای کیندا کہ اے میجر جوان ہو کے آگیا ۔۔۔۔ کچھ دیر اسی طرح باتیں کرنے کے بعد امی بولیں۔ چل نجو ہن پا کپڑے تاں نکلیے باہر ۔ اور کپڑے پہن کر وہ باہر نکل آئیں اور وڈیو ختم ہو گئی۔۔۔


میں نے کمپیوٹر بند کیا اور چپ چاپ اٹھ کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ میرے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔۔۔۔ انکشاف ہی ایسا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ پتہ نہیں میرے پاپا کیسے نظر آتے تھے۔۔ تبھی اچانک امی کی وہ بات ذہن میں آئی کہ ساگر ہو بہو اپنے پاپا کی کاپی ہے تو میں اٹھ کر سامنے شیشے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اپنی شکل میں سے پاپا کو تلاش کرنے لگا۔۔۔ اور پھر میں آنکھوں میں آنسو نکل آئے اور میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔۔۔ جب کافی دیر رونے سے دل کا سارا غبار نکل گیا تو میرے دماغ میں ایک بات آئی جس نے مجھے لازوال خوشی دی۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ دماغ پر جو ایک بوجھ تھا کہ میں اپنی سگی بہنوں کے ساتھ سیکس کر رہا ہوں اس بوجھ سے نجات مل گئی۔۔۔ 


میں نے کیمرہ بند کر کے سامنے الماری میں رکھا کہ صبح اٹھ کر کیمرہ شوروم ساتھ لے جاؤں گا۔ اور وہاں موجود ڈی وی ڈی رائیٹر کے ذریعے اس وڈیو کی ڈی وی ڈی بنا کر اپنے پاس محفوظ کر لوں گا۔۔۔ نہیں پھر میں آرام سے بیڈ پر لیٹ کر آپی کے بارے میں سوچنے لگا۔۔ میرے دل پر کافی عرصے سے یہ بوجھ چلا آ رہا تھا۔۔۔ کہ میں اپنی سگی بہنوں کے ساتھ چدائی کر کے اچھا نہیں کر رہا ہوں۔ مگر اب میں اس بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا۔۔۔ میں نے سوچا کہ اب آپی کو کسی نا کسی طرح رازی کر کے یہ خوش خبری سنانی ہے۔۔۔۔ پھر اسی طرح سوچوں کے تانے بانے بنتا ہوا میں سو گیا۔۔۔۔ 


اگلے دن صبح اٹھنے کے بعد جب ناشتہ کرنے نیچے آیا تو گھر پر امی کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ جب کہ میرے حساب سے آپی کو گھر پر ہونا چاہیے تھا۔۔۔ میں نے امی سے آپی کے متعلق پوچھا تو امی کہنے لگیں۔۔۔ بیٹا روبی کا کوئی سیمینار تھا وہ اس میں شرکت کرنے یونیورسٹی گئی ہے۔۔۔ امی نے مجھے ناشتہ دیا۔۔ میں ابھی ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ ابو کا فون آیا کہ بیٹا فورا شاپ پر پہنچو۔۔ وہ فرنچائز کا نمائندہ آیا ہے ان کے مطابق ہمارے بل میں کچھ فرق ہے۔۔۔ میں نے ناشتہ کیا اور اپنا کیمرہ اٹھا کر فورا شاپ پر چلا گیا ۔۔۔ وہاں جا کر معاملات چیک کیے اور ساری سیٹلمنٹ کر دی۔۔۔ ان معاملات سے فارغ ہونے کے بعد میں نے کیمرہ سے وڈیو کمپیوٹر میں کاپی کی اور ڈی وی ڈی رائیٹر کے ذریعے وڈیو کی ڈی وی ڈی بنا کر اسے اپنے لاکر میں محفوظ کیا۔ 


پھر کمپیوٹر سے وڈیو ڈیلیٹ کی اور کیمرہ اپنے سامنے ہی رکھ لیا کہ جاتے وقت اٹھا لوں گا۔۔۔۔ یہاں مجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہوئی کہ میں کیمرے سے وڈیو ڈیلیٹ کرنا بھول گیا۔۔۔ جس کا مجھے اسی دن بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔۔۔ میں ابھی شاپ پر ہی تھا کہ مجھے آپی کی ایک سہیلی کا فون آیا اور وہ بہت گھبرائی ہوئی آواز میں بولی آپ ساگر بات کر رہے ہیں نا۔ میں نے بولا جی میں ساگر ہوں۔ تو اس نے بتایا کہ آپ کی آپی یو نیورسٹی سے واپس آرہی تھیں کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ اب ہولی کراس ہسپتال میں ہیں۔۔۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں نے اس کو پوچھا کہ کیا آپ نے گھر بھی کال کی ہے تو اس نے کہا کہ نہیں بھائی پہلے آپ کو فون کیا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ میں ہسپتال آرہا ہوں۔ 


اور اب آپ گھر میں کال مت کرنا۔ یہ کہہ کر کال بند کی اور اچھل کر اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے سلیم کو صرف اتنا بتایا کہ میں ایک ضروری کام جا رہا ہوں تم سنبھال لینا اور وہاں سے ٹیکسی لے کر ہسپتال کی طرف نکل گیا۔۔۔ کیمرہ سامنے میز پر ہی پڑا رہ گیا۔۔۔ ہسپتال پہنچ کر میں نے آپی کا پتہ کیا اور سیدھا آپی کے روم میں پہنچ گیا وہاں آپی کی چند سہیلیاں ان کے پاس موجود تھیں۔ آپی کو ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں تھیں۔ ان کے ماتھے اور چہرے پر دو تین جگہ پر میڈیکیٹڈ ٹیپ لگی ہوئی تھی۔۔۔ میرے پوچھنے پر نرس نے بتایا کہ موٹر سائیکل سے ٹکر ہوئی ہے اور صرف چند ہلکی پھلکی چوٹیں آئی ہیں۔۔۔ 


میرے وہاں پہنچنے پر آپی کی سہیلیاں ان کو اپنا خیال رکھنے کا بول کر وہاں سے چلی گئیں۔۔۔ میں نے ہسپتال کا بل ادا کیا اور آپی کو لے کر ٹیکسی میں گھر پہنچ گیا۔۔۔ گھر پہنچے ہی امی سے ٹی وی لاؤنج میں ملاقات ہو گئی۔۔۔ امی آپی کو اس حالت میں دیکھ کر گھبرا کر اٹھیں اور سارا حال احوال دریافت کیا۔۔۔ معمولی چوٹوں کا جان کر امی کی جان میں جان آئی اور انہوں نے فوراً حکم صادر کیا کہ روبی بیٹا تم جا کر آرام کرو اب۔ اور آپی سر جھکا کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔۔


میں نے کچن میں جا کر پانی پیا اور سکون کا سانس لیتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔ پر نہیں اصل پہاڑ تو اب ٹوٹا۔ جب گھر کے فون کی گھنٹی بجی اور ناز نے فون اٹھایا اور دوسری طرف سے کچھ

سننے کے بعد ناز نے ایک چیخ ماری اور بیہوش ہو کر گر گئی۔۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)