شریف بہن اور بھائی۔ قسط 36

شریف بہن اور بھائی

قسط 36


میں نے کچن میں جا کر پانی پیا اور سکون کا سانس لیتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔ پر نہیں اصل پہاڑ تو اب ٹوٹا۔ جب گھر کے فون کی گھنٹی بجی اور ناز نے فون اٹھایا اور دوسری طرف سے کچھ

سننے کے بعد ناز نے ایک چیخ ماری اور بیہوش ہو کر گر گئی۔۔۔ میں فوراً اچھلا اور بھاگ کر ناز کو اٹھایا اتنی دیر میں امی بھی پاس آگئیں اور میں نے ناز کو امی کو پکڑاتے ہوئے فون کا رسیور کان سے لگایا تو دوسری طرف شوروم سے سلیم کی کال تھی اور اس نے نہایت متوحش لہجے میں بتایا۔۔۔۔ 


ساگر بھائی انکل کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے آپ فوراً پہنچیں میں نے ایمبولینس کال کی ہے۔۔۔۔ میں نے امی کو کہا امی دل مضبوط کر لیں اور میری بات سنیں ۔۔۔ ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔۔ آپ اپنی اور لڑکیوں کی حالت سنبھالیں میں جا رہا ہوں۔۔۔ میری بات سنتے ہی امی چیخ پڑیں۔ پہلے روبی اپی کی حالت دیکھ کر اور اب شوہر کو ہارٹ اٹیک آنے کی خبر سن کر ان کی حالت خراب ہوگئی اور وہ مسلسل چیخیں مارنے لگیں۔ ناظم اوپر کمرے میں تھا امی کی چیخیں سن کر بھاگتا ہوا نیچے آیا۔ روبی آپی بھی بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلیں اور میں ان کو ساری بات بتا کر گھر والوں کو سنبھالنے کا کہہ کر باہر نکلا۔ 


میر ادماغ طوفانوں کی زد میں آیا ہوا تھا۔ میں فوراً ٹیکسی پکڑ کر شو روم نکل گیا۔۔۔ وہاں پہنچ کر کرایہ ادا کرتے ہوئے جیسے ہی میں گاڑی سے نکلا تو دیکھا کہ شوروم کے سامنے آس پاس کے دکانداروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔۔۔ میں تیزی سے راستہ بناتے ہوئے آگے پہنچا تو دکان کا سینئیر لڑکا سلیم ایک دم آگے سے آیا اور میرے گلے لگ کر رونے لگا۔ میرا دل ایک دم جھکڑا گیا۔۔ لک لک کیا ہوا سلیم ۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔۔ میں نے اسے جھنجوڑتے ہوئے متوحش لہجے میں پوچھا تو اس نے زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ انکل اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔ ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔ 


میری آنکھوں کے آگے دنیا گھوم گئی اور میں لڑکھڑا کر زمین پر گرا۔۔۔ وہاں موجود لوگوں نے مجھے سنبھالا اور پانی وانی پلایا۔۔۔ چند منٹ میں میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے اندر جا کر دیکھا کہ ابو کو ایک اسٹریچر پر لٹا کر ان پر ایک چادر تانی ہوئی تھی۔۔ میں جاتے ہی ابو کی لاش سے لپٹ کو رو پڑا ۔۔۔ سب لوگ مجھے چپ کرواتے ہوئے تسلی دینے لگے ۔۔۔ کچھ منٹ بعد میں نے ایمبولینس والوں کو ابو کی لاش گھر میں پہنچانے کا کہا اور خود اندر جا کر دکان سے سارا کیش اٹھانے لگا کہ مبادا کہیں ضرورت پڑ جائے۔۔۔۔


سلیم میرے پاس ہی کھڑا تھا وہ بولا ساگر بھائی میں روٹین کے کام اور کسٹمرز ڈیل کر رہا تھا کہ اچانک میں نے اندر سے کچھ گرنے کی آواز سنی۔ میں بھاگ کر اندر آیا تو انکل کو سینے پر ہاتھ رکھ کر آگے جھکتے ہوئے دیکھا۔۔ میں نے فوراً ان کو سنبھالتے ہوئے نیچے لٹایا لیکن ان کی حالت دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔۔۔ میں نے سب سے پہلے ایمبولینس والوں کو کال کی پھر آپ کے گھر کال کی۔۔ مگر جتنی دیر میں ایمبولینس آتی انکل جان کی بازی ہار چکے تھے۔۔۔ یہ کہہ کر وہ پھر روتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔ میں بھی وہاں سے نکلنے لگا تو میرا پاؤں کسی چیز کے ساتھ ٹکرایا میں نے جھک کر دیکھا تو وہ میرا کیمرا تھا۔۔۔ 


جیسے ہی میں نے اٹھایا تو ساری حقیقت سمجھ میں آگئی۔۔۔۔ کیمرے میں امی والی وڈیو اوپن تھی اور اپنے اختتام تک پہنچ کر سٹاپ ہو چکی تھی۔۔۔ یقیناً میرے جانے کے بعد کسی ٹائم ابو وہاں پہنچے اور سامنے کیمرہ پڑا دیکھ کر اٹھا لیا اور جیسے ہی امی والی وڈیو میں امی کو اس حال میں دیکھا ہوگا۔ ابو امی کی اس بے وفائی کو برداشت نہ کر سکے ہوں گے اور ان کو ہارٹ اٹیک ہوگیا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔ میرا دل چاہا کہ میں اپنی کنپٹی پر گولی مار لوں مگر اس سوچ نے مجھے باز رکھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے بعد بہنوں اور والدہ کا کیا ہو گا۔۔ اب میں کیا کر سکتا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا تھا نا وہ تو آپی کو چوٹ لگنے کی وجہ سے مجھے بھاگنا پڑا۔۔۔ 


حالات نے ہمیں یہ دن دکھایا تھا۔۔۔ اتنی دیر میں مجھے سلیم نے بتایا کہ بھائی ایمبولینس تیار ہے میں میں نے شوروم کو تالا لگایا اور چابی اپنی جیب میں رکھ کر لڑکوں کو بولا کہ تم لوگ جاؤ میں بعد میں بتاؤں گا۔۔ تو سلیم ضد کر کے میرے ساتھ ہی ایمبولینس میں بیٹھ گیا۔۔ وہ ابو کو بے انتہا چاہنے لگا تھا۔ کیونکہ ابو بلکل اپنے بیٹوں کی طرح ہی اس کا خیال رکھتے تھے۔۔۔ میں ابو کی لاش لے کر گھر پہنچا۔۔ تو ابو کی لاش دیکھ کر گھر میں چیخم دھاڑ شروع ہو گئی پھر وہی سب رونا دھونا۔ محلے داروں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔۔ آپی ، ناز ، امی اور ناظم سب کی حالت بری تھی۔۔۔ بہر حال ابو کو دفنا دیا گیا۔۔ 


اور چند دن کیلیئے ہمارے گھر میں سناٹا چھا گیا۔۔۔ سب لوگ چپ چاپ کونوں کھدروں میں گھسے روتے رہتے۔۔۔ بڑی باجی ثمینہ بھی آئی تھیں ان کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔۔۔ امی رہ رہ کر ابو کا پوچھتی تھیں۔۔ کہتی تھیں ان کو کال کرو وہ کب آئیں گے۔۔۔ شاید نہایت صدمے نے ان پر اثر ڈالا تھا جو وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگیں۔۔۔ باجی ثمینہ بھی کب تک رہ سکتی تھیں۔ ۔ ان کا اپنا بھی گھر بار تھا۔ آخر وہ بھی چلی گئیں۔۔ اور گھر میں سناٹا چھا گیا۔ سب لوگ افسردہ افسردہ رہنے لگے۔۔۔


لیکن زندگی کے کام تو نہیں رکھتے نا۔۔۔ اب میں نے اپنا سارا وقت شوروم میں گزارنا شروع کر دیا ۔۔۔ دن گزرتے گئے اور حالات واپس نارمل ہونا شروع ہو گئے۔۔۔ ایک دن میں شام کو گھر پہنچا تو ایک نیا طوفان میرا منتظر تھا۔۔۔ آپی گھر سے غائب تھیں۔ ناز اور ناظم بیٹھے رو رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر ناز نے مجھےاوپر کمرے میں چلنے کو کہا۔۔ تو میں اوپر چلا آیا۔ ناز اور ناظم میرے پیچھے پیچھے چلے آئے ۔۔۔ ناظم کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔۔۔۔ میں نے پوچھا تم لوگ کیوں رور ہے ہو۔ ہوا کیا ہے اور امی کہاں ہیں تو ناز نے بتایا امی دوائی کے زیر اثر سو رہی ہیں۔۔ اور ہمارے رونے کی وجہ اس پیپر میں بند ہے۔۔ 


جیسے ہی اس نے پیپر میری طرف بڑھایا۔ ناظم نے درمیان سے پیپر اچک لیا اور انتہائی بد تمیزی سے بولا رک جا ساگر میں بتاتا ہوں اس میں کیا لکھا ہے۔۔۔ اور اس نے پیپر پڑھنا شروع کیا۔ ساگر میں جا رہی ہوں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔ تم سے دور سب سے دور۔ میں نے تم لوگوں کو بتایا تھا نا کہ مجھے یورپ سے آفر آئی ہے۔۔۔ تو ساگر میں نے وہ آفر ریجیکٹ نہیں کی تھی شاید اسی دن کیلئے ۔۔۔ ان لوگوں کی طرف سے یونیورسٹی کے ذریعے بار بار مجھے کانٹیکٹ کیا گیا۔ لیکن میں ان کو کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔ لیکن جس دن میں نے تمہیں خوشی کے عالم میں بتانے کی کوشش کی کہ میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ 


تو تم نے مجھے ریجیکٹ کر دیا۔۔ اور حمل ضائع کرنے کو بولا۔۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ تمہارا بچہ نہیں ہو سکتا۔۔ ساگر ایک لڑکی سے کبھی مت پوچھو کہ اس کے پیٹ میں کس کا بچہ ہے کیونکہ وہ لڑکی ایک ایک لمحے کا حساب رکھتی ہے۔۔ بہر حال میں جا رہی ہوں۔۔۔ امی کا سامنا کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے ویسے وہ جانتی ہیں کہ میں نے کچھ دن میں چلے جانا تھا۔۔ کیونکہ امی اور ابو کے مشورے کے مطابق ہی میں نے یہ آفر قبول کی ہے۔۔ اور ابو نے ہی سارے انتظامات کیے ہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو پتہ چلے اس لیے ابو کو سر پرائز کا بہانہ بنا کر چپ رہنے کی استدعا کی۔۔۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔


اب اپنے اور امی کے ساتھ ساتھ چھوٹوں کا بھی خیال رکھنا۔۔ وہ تمہاری ذمہ داری ہیں۔۔ ایک آخری بات بتا دوں۔ میں نے وہ حمل ضائع نہیں کروایا بلکہ تم تینوں سے جھوٹ بولا۔ وہ بچہ میرے پیٹ میں ہے اور ساگر وہ تمہارا بچہ ہے۔ میرا بچہ ہے۔ میں اسے جنم دوں گی اور پروان چڑھاؤں گی۔۔ الوداع ساگر ۔۔۔۔ تمہاری اپنی روبی۔۔


پیپر کی تحریر ختم کرتے ہی ناظم نے وہ پیپر میرے منہ پر دے مارا اور بولا یہ تھی تمہاری پلاننگ بھائی۔۔ یہ تھا تمہارا دماغ ۔ ۔ تم نے ہمیشہ اپنا مطلب نکالا ہے۔ اس دن بھی آپی کتنے مان اور پیار کے ساتھ کمرے میں آئی تھیں۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہیں۔ لیکن تم۔ بجائے اس کے کہ ان کو پیار سے سمجھاتے ان کو پیار کرتے ان کا مان رکھتے تم نے انہیں رلا دیا اور ان کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ تم نے مجھ سے میری زندگی چھین لی۔۔۔ بس بہت ہوا اب میں یہاں نہیں رہوں گا۔۔۔ اور یہ کہہ کر وہ باہر جانے لگا۔۔۔ میں اسے روکنے کیلئے آگے بڑھا تو اس نے بھرتے ہوئے مجھے دھکا دیا اور بولا ہاتھ مت لگاؤ مجھے۔۔ 


میں یہاں سے باجی ثمینہ کی طرف جا رہا ہوں اور اب ان کے ساتھ ہی رہوں گا۔۔ ساگر اب تم میری بات سنو اپنا یہ ننها سا دماغ مت لڑانا اور کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کرنا ورنہ میں یہ سب کچھ باجی ثمینہ کو بتا دوں گا۔۔۔ بس مجھے چپ چاپ یہاں سے جانے دو اب میں باجی کے پاس ہی رہوں گا اور اپنی تعلیم پوری کروں گا۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا بیگ اٹھایا جو کہ اس نے پہلے ہی تیار کر کے رکھا تھا اور باہر جانے کیلئے قدم بڑھا دیے۔۔۔ میں اور ناز ایک دم اس کو روکنے کیلئے آگے بڑھے۔۔ تو اس نے ہمارے قدموں کی آہٹ سنتے ہی ہمیں بولنے کا موقع دیے بغیر انگلی سے وارننگ کا اشارہ دیا اور سیڑھیاں اتر گیا۔۔ 


ہم دونوں اس کے پیچھے آئے اور بہت روکنے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے دھکا دے کر گھر کے مرکزی دروازے سے باہر نکل گیا۔۔۔ میں اور ناز ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے ۔۔۔۔ اس مشکل وقت میں ناز نے میرا بہت ساتھ دیا اور مجھے سنبھالا۔۔۔ ساری رات ناز میرے سینے پر سر رکھ کر میرے کمرے میں ہی لیٹی رہی میری دلجوئی کرتی رہی اور مجھے دلاسے دیتی رہی۔۔ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے تو ہم دونوں بھی اسی طرح پڑے پڑے سو گئے۔۔۔ اگلی صبح مجھے ناز نے ہی اٹھایا اور ناشتے کیلئے نیچے آنے کا کہہ کر چلی گئی۔۔۔ میں اٹھا اور فریش ہو کر نیچے آیا اور ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر سوچنے لگا۔۔۔


اب میرے سامنے ایک اور مشکل آن کھڑی ہوئی کہ امی کو کیسے بتاؤں گا کہ ناظم کہاں گیا کیوں گیا۔۔۔ اور آپی بنا بتائے بنا ملے کیوں چلی گئیں۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ ناز ناشتہ بنا کر لے آئی۔۔ ہم دونوں نے ناشتہ کیا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد ناز نے امی کو اٹھا کر ناشتہ کروایا اور میں شاپ پر جانے کیلئے نکل گیا۔۔۔ ماتمی دن کے گزرنے کے بعد ہم سب لوگ یہی سمجھے تھے کہ امی کی یہ حالت صدمے سے ہوئی ہے جو کہ عارضی ہوگی۔۔۔ لیکن آہستہ آہستہ ہمیں محسوس ہوا کہ یہ حالت عارضی نہیں ہے۔۔۔ روز بروز امی کی حالت اور ایب نارمل ہوتی گئی۔۔۔ ان کی تکرار بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔ وہ ہر وقت ناظم ، آپی اور ابو کا پوچھتی رہتیں۔ 


اور کہتیں کہ ان کو بلاؤ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔۔۔ میں بہت پریشان تھا۔۔ میں نے آس پاس کے سب مشہور ڈاکٹرز کو چیک کروایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔۔۔ امی کی حالت دن بدن خراب ہوتی گئی یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں بھی بلانا چھوڑ دیا بس ہر وقت بیٹھے ہوئے وہی الفاظ ادا کیے جاتیں۔۔۔۔ میں اور ناز امی کو لیکر اسلام آباد پمز ہسپتال چلے گئے وہاں ایک دماغ کے ڈاکٹر نے امی کے تمام ٹیسٹ اور چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ ان کی یہ حالت کسی صدمے کی وجہ سے ہوئی ہے۔۔۔ اور گہرے صدمے نے ان کے دماغ پر اثر ڈالا ہے۔۔۔ ان کے دماغ کا آپریشن کرنا پڑے گا۔۔ جس میں صرف چالیس پرسنٹ چانس ہیں کہ یہ ٹھیک ہو پائیں گی۔۔۔


ہم امی کو لیکر گھر واپس آگئے۔۔۔ ڈاکٹر نے کچھ دوائیں دی تھیں وہ امی کو کھلاتے رہے بس۔ میں چالیس پرسنٹ پر رسک نہیں لے سکتا تھا۔ کیونکہ ڈاکٹر کے مطابق اگر آپریشن کامیاب نہیں ہوتا تو ان کی دماغی کیفیت اور زیادہ خراب ہونے کے چانسز زیادہ تھے۔۔۔۔ اب میں اور ناز ہر وقت امی کا خیال رکھنے لگے ۔۔۔ اور میں ساتھ ساتھ شوروم پر بھی جانا شروع ہو گیا۔۔۔ آپی کی کوئی بھی خیر خبر نہیں تھی۔ بس ناظم کے بارے میں باجی ثمینہ سے اتنا پتہ چلا تھا کہ وہ ان کے گھر میں ہی ہے اور اپنی سٹڈی آگے شروع کر چکا ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ناظم نے باجی کو ہمارے بہن بھائیوں کے اندرونی رشتے کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ 


بس اتنا کہا تھا کہ باجی اب ابو اور آپی کے جانے کے بعد میرا وہاں دل نہیں لگتا۔ اب میں آپ کے پاس رہوں گا۔ اور باجی نے اس کا سر چوم کر خوش آمدید کہا۔ دنیا کی کوئی بھی بہن اپنے بھائی کے ساتھ یہی سلوک کرے گی جو کہ باجی ثمینہ نے کیا۔ اب ناظم کی طرف سے میں بے فکر ہو چکا تھا۔۔ بے شک وہ مجھ سے ناراض تھا پر میرے دل کو تو اطمینان تھا نا کہ وہ باجی کے گھر میں موجود ہے۔ اور اس طرح اس کی خیریت پتہ چلتی رہے گی۔۔ اس کڑے وقت میں ناز نے میرا بہت ساتھ دیا تھا۔ اس نے اپنی سٹڈی کو خیر باد کہہ دیا اور ہر وقت امی کا خیال رکھنے لگی۔۔۔ امی کا کھانا پینا۔۔ دوائی کھلانا۔۔ نہلانا دھلانا۔ 


غرض کہ سب کچھ ناز کرنے لگی۔۔ جب میں گھر میں ہوتا تو ہر وقت میری دلجوئی میں لگی رہتی ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ زندگی دوبارہ معمول پر آنا شروع ہو گئی ۔۔۔ اب میرا زیادہ تر وقت شوروم پر ہی گزرتا تھا۔۔۔ میں بہت زیادہ محنت کر رہا تھا۔۔ نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ شوروم کو کامیابی سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ اور ابو کی کہی ہوئی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کاروبار کو چار چاند لگانے کی تگ و دو میں تھا۔۔۔ جیسے ہی ابو کا خیال ذہن میں آتا تو آنکھیں بے ساختہ آبدیدہ ہو جاتیں۔۔ میں خود کو ابو کی موت کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔۔۔ میرے ذہن میں یہ بات آتی کہ نا میں وہ وڈیو بنانے کا ناز کو کہتا۔۔۔ نا ہی وہ وڈیو بنتی۔۔۔ اور ناہی مجھے یہ دن دیکھنا پڑتا۔۔۔ 


ان سب باتوں کے با وجود میں نے ناز کو کبھی بھی حقیقت نہیں بتائی۔۔ میرے دل میں ڈر تھا کہ کہیں روبی آپی کی طرح وہ بھی مجھ سے روٹھ نہ جائے۔۔ ہم دونوں کے درمیان کافی دنوں سے ایک فاصلہ قائم تھا۔۔۔ ابو کی وفات سے لے کر اب تک دو مہینے ہونے کو آئے تھے۔۔ اور ابھی تک ہم لوگوں نے آپس میں سیکس نہیں کیا تھا۔۔ ایک رات میں جب شاپ سے واپس آیا تو ناز امی کو دوائی کھلا کر سلانے کے بعد اوپر میرے کمرے میں چلی آئی۔۔ میں اس وقت کمپیوٹر پر بیٹھا امی والی وڈیو کمپیوٹر میں سیو کر رہا تھا۔۔ ناز کو دیکھ کر مانیٹر بند کر کے اٹھ کھڑا ہو ۔۔۔ ناز نے میرے پاس آکر میرا ہاتھ تھاما اور مجھے لے کر بیڈ پر چلی آئی۔۔۔ 


مجھے بیڈ پر لٹا کر ناز نے میرا سر اپنی گود میں رکھا اور سر دباتے ہوئے دھیمی سی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ بھیا وہ بھی کیا دن تھے جب ہم چاروں آپس میں ملکر خوب مزہ کیا کرتے تھے۔۔۔ ایک دوسرے کا کتنا خیال کرتے تھے ۔۔۔۔ اب تو وہ دن ہوا ہو گئے۔ آپ بھی چپ چاپ رہتے ہیں نا مجھ سے کوئی پیار والی بات کرتے ہیں اور نا ہی میرا خیال کرتے ہیں۔۔۔ میں اٹھ کر بیٹھتے ہوئے ناز سے مخاطب ہوا۔۔۔ یار ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔۔ تم تو میری جان ہو۔۔۔ اب آپی کے جانے کے بعد ایک تم ہی تو میرا سہارا ہونا۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے ناز کو کندھوں سے پکڑا اور کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔ آج اتنے دنوں بعد ناز کو ٹچ کرتے ہی بلکا سا سرور میرے بدن میں پھیل گیا ۔۔۔ 


ناز کے ممے میرے سینے کے ساتھ چپکے ہونے کیوجہ سے میرے لن میں بھی ہلکی ہلکی اکڑاہٹ آنا شروع ہو گئی۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں ناز کو سیدھا کر لوں پر زبان سے نہ کہہ پایا۔۔۔ مگر شاید ۔۔۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)