شریف بہن اور بھائی۔ قسط 38

شریف بہن اور بھائی

قسط 38


سیکس ہم لوگ وقفے سے کرنے لگے ۔۔۔ ناز کے دماغ میں امی اور خالہ کی باتیں سن کر ایک خواہش کو نیل بن کر پھوٹتی ہے کہ اب جب پتہ چل چکا ہے کہ وہ اور ساگر بہن بھائی نہیں ہیں تو کیوں نا شادی کر لی جائے۔ اور وہ ناز سے ناز ساگر بن جائے۔۔۔ گزرتے دنوں کے ساتھ یہ کو نپل اپنی جڑیں مضبوط کرتی گئی اور ناز پہلے سے بھی زیادہ میر اخیال رکھنے لگی ۔۔۔ اب ہر دوسرے دن خالہ نجمہ گھر کا چکر لگاتیں ۔۔۔ امی کو دیکھنے اور ان کا حال چال پوچھنے کے بعد وہ ناز کو لے کر کچن میں گھس جاتیں اور ناز ہر بار کچھ نا کچھ نیا کھانا بنانا ان سے سیکھتی گئی۔۔۔ ایک دن جمعہ کے دن شوروم سے چھٹی تھی تو میں گھر میں ہی تھا۔۔۔ تقریباً صبح دس بجے کے قریب خالہ کی آمد ہوئی اور امی کا حال چال پوچھنے کے بعد خالہ نے ناز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ ناز بیٹا مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ میں اس وقت اپنے کمرے میں تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ نیچے خالہ آئی ہوئی ہیں۔۔۔ خالہ نے ناز سے کہا۔۔۔ بیٹا اب باجو کی تو دماغی کیفیت درست نہیں۔۔۔ اور پتہ نہیں کب تک ان کی یہ حالت رہے گی۔۔۔ تم دونوں کو دیکھ دیکھ کر میرا دل کرتا


ہے۔۔۔


میں ایک بہت ضروری بات کہنے والی ہوں۔ اس لیے غور سے سنو۔۔ دراصل ساگر


تمہارا سگا بھائی نہیں ہے۔۔۔ اور ساتھ ہی خالہ نے میری پوری سٹوری ناز کو سنا دی ۔۔۔ جو کہ وہ پہلے سے جانتی تھی۔۔۔ لیکن اس نے خالہ پر اس کا اظہار نہیں ہونے دیا۔۔۔ اور شدید حیرانگی ظاہر کی۔۔۔ خالہ بولیں اب اصل بات سنو جس کی وجہ سے


میں نے تمہیں یہ ساری سٹوری سنائی ہے۔۔۔


میرا اور تمہارے خالو کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تم دونوں آپس میں شادی کر لو۔ کیونکہ تم


دونوں بچپن سے ایک ساتھ رہتے آئے ہو اور ایک دوسرے کا مزاج اچھی طرح سے سمجھتے ہو۔ گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے گی۔۔ بولو کیا کہتی ہو اس بارے میں ۔۔۔ ناز کچھ دیر سر جھکائے چپ بیٹھی نیچے دیکھتی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر نہایت دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔ لیکن خالہ جان وہ بھیا کو امی نے اپنا دودھ تو پلایا ہے نا۔۔۔ اس طرح میری ان سے شادی کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ تو خالہ مسکراتے ہوئے بولیں یہی تو اس سٹوری کا سب


سے اہم پہلو ہے۔۔۔ تمہاری امی کا دودھ روبی کی پیدائش کے بعد خشک ہو گیا


تھا۔۔۔ مطلب تم ساگر اور ناظم تینوں ڈبے کے دودھ پر پہلے ہو۔۔۔ یہ بات سن کر ناز کے دل میں خوشی کا ایک جوار بھاٹا پھوٹ پڑا لیکن اس نے اپنے چہرے کے تاثرات کو


اپنے کنٹرول میں رکھا۔۔۔ آپ ہی ساگر سے بات کریں ناخالہ ۔۔۔ نہیں بیٹا یہ بات اب


تم کو اپنی باجی ثمینہ کو بتانی ہے اور وہ ہی ساگر کو اس بارے میں سمجھائے گی۔۔۔ پھرادھر ادھر کی باتیں کر کے خالہ چلی گئیں۔۔۔ اب ناز بیویوں سے بھی بڑھ کر میر اخیال رکھنے لگی۔۔ لیکن میں اس کو صرف بہن کا پیار ہی سمجھے بیٹھا تھا۔۔۔ ناز نے خالہ کے بارے میں مجھ سے کوئی بھی بات نہیں کی۔ اور ہماری روٹین چلتی رہی۔۔۔ ایک دن میں شوروم میں تھا اچانک اشفاق صاحب اندر داخل ہوئے۔۔ میں نے فٹافٹ اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور سلیم کو کولڈ ڈرنکس منگوانے کا اشارہ کیا۔۔۔ اشفاق صاحب نے سب سے پہلے مجھ سے ابو کے بارے میں افسوس کیا۔ اور مجھے تسلی دی کہ بیٹا یہ سب قدرت کے کھیل ہیں ہونی کو کون ٹال سکتا


ہے۔۔۔ میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی خاموش بیٹھے رہے اتنی دیر میں سلیم نے کولڈ ڈرنکس بھجوا دیں۔۔۔ اور اشفاق صاحب سپ لیتے ہوئے مجھ سے امی کے بارے میں پوچھنے لگے۔۔۔ ساگر بیٹا تم لوگوں کا دکھ تو میں سمجھ سکتا ہوں لیکن ایک بیوی کا دکھ وہی جانتی ہے۔ میں تمہاری امی کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ بتاؤ بھا بھی کیسی ہیں۔۔ ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔ میں نے نہایت دھیمے لہجے میں ان کو امی کی حالت کے بارے میں بتایا۔۔۔ تو سن کر وہ بھی رنجیدہ ہو گئے۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا سا گر بیٹا یہاں پاکستان میں ان کا علاج بہت مشکل ہے ۔۔۔ تو انکل


میں امی کو کہاں لے جاؤں میں نے بے بسی سے جواب دیا۔۔۔ تو انہوں نے کہا بیٹا تم اپنی


امی کو لندن لے جاؤ۔۔۔ وہاں ساؤتھ لندن میں ایک ہسپتال ہے۔۔۔


اس ہسپتال میں یورپ کے سب سے شاندار دماغی امراض کے ڈاکٹر ز موجود


ہیں۔۔۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہاں بھا بھی کا علاج بہتریں طریقے سے ہو سکے گا۔۔۔ لیکن وہاں کتنی دیر لگے گی۔ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تو میر امشورہ ہے تم بھا بھی کو وہاں لے جاؤ۔۔۔ اور وہاں تمہیں کسی بھی قسم کی مدد ہوئی تو یہ میرا کارڈ رکھ لو مجھے فون کر دینا۔۔۔ میر ابھائی وہاں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے میں اسے بول دوں گا اور وہ تمہاری ہر طرح کی مدد کرے گا۔۔۔ میں تو اب امریکہ میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ہی رہتا ہوں۔ یہ تو کچھ جائیداد بیچنے کے سلسلے میں پاکستان آنا پڑا تو تمہارے ابو سے ملنے چلا آیا لیکن باہر کچھ پرانے شناسا دکانداروں سے ملنے پر تمہارے ابو کی وفات کے بارے میں پتہ چلا۔ اسی طرح کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اشفاق صاحب چلے گئے اور میں


گہری سوچ میں مبتلا ہو گیا۔۔۔میں نے یہ ساری باتیں باجی ثمینہ اور خالہ سے فون پر ڈسکس کیں۔۔۔ اور میں کیا کرتا۔۔۔ میرے بڑے وہی تو تھے اور ان سے مشورہ کرنا بھی ضروری تھا۔۔۔ دونوں نے ہی مجھے مشورہ دیا کہ ساگر کر ڈالو بچے ۔۔۔ امی کا علاج ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔ خالہ نے مجھ سے پوچھا کہ ساگر کیا ناز نے تم سے کوئی بات کی۔۔۔ میں نے پوچھا کس معاملے میں خالہ جان۔ تو انہوں نے کہا بس تم میرے حوالے سے ناز سے پوچھنا وہ خود ہی تمہیں بتادے گی۔ اور یہ کہہ کر خالہ نے فون بند کر دیا۔۔۔ میں سارا دن سوچ میں ڈوبا رہا۔۔۔ اور رات کو شاپ بند کر کے اسی طرح سوچوں کے تانے بانے بنتا گھر پہنچ گیا۔۔۔ گھر کا دروازہ چابی سے کھولنے کے بعد میں نے گاڑی گیراج میں پارک کی اور مرکزی دروازہ بند کر کے صحن میں داخل ہوا ۔۔۔ ناز اور امی کو موجود نہ پاکر میں نے امی کے کمرے کا دروازہ کھولا تو امی اپنے بستر پر سورہی تھیں۔۔۔ چند لمحے ان کا چہرہ دیکھنے کے بعد میں اوپر اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔۔۔ اوپر جا کر کمرہ کھولنا چاہا تو کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔۔۔ میں کندھے اچکا کر نیچے چلا آیا اور ناز کے کمرے میں واش روم استعمال کر کے فریش ہوا اور پھر اوپر چلا گیا۔۔۔ دروازہ ابھی بھی بند تھا۔۔۔ میں نے تھوڑا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ناز کی آواز سنائی دی۔۔۔ آپ پلیز نیچے چلے جائیں اور کھانا گرم کر کے کھا


لیں۔۔۔ تھوڑی دیر تک ملاقات ہو گی۔۔۔ میں پھر کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کندھے


اچکا تا ہوا نیچے چلا آیا۔۔۔ نیچے آکر میں نے کھانا گرم کیا اور ٹیبل پر بیٹھ کر تسلی سے کھانا کھایا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد میں تھوڑی دیر تک ناز کا انتظار کرتا رہا۔۔۔ کچھ دیر بعد مجھے اوپر سے کھٹکے کی آواز سنائی دی اور میں اٹھ کر پھر سے اوپر کی جانب چل پڑا ۔۔۔ اوپر پہنچ تو دیکھا کہ کمرے کا لاک کھل چکا ہے لیکن دروازہ ابھی بھی بند تھا۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا اور دباؤ ڈالتے ہوئے دروازہ


کھول کر اندر چلا آیا۔۔۔


کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے حیرت کا حسین ترین جھٹکا لگا۔۔۔ کمرہ ہر طرف سے صاف ستھرا تھا۔۔۔ مختلف خوشبویات سے معطر کمرہ مہک رہا تھا۔۔۔ بیڈ پر گلاب کی پتیاں جا بجا پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔ بیڈ کے بلکل درمیان میں گلاب کی پتیوں سے دل بنا ہوا تھا اور بیڈ پر موجود تکیے پر گلاب کی پتیوں سے ہی این اور دوسرے تکیے پر ایس بن ہوا تھا۔۔۔ میں ابھی اس حسین منظر میں کھویا ہو اتھا۔ کہ واش روم کا دروازہ کھلا اور ناز سرخ عروسی جوڑے میں ملبوس واش روم سے برآمد ہوئی۔ اور میری آنکھوں کے سامنے سے


گزر کر بیڈ کی جانب چل پڑی ۔۔۔ ناز کو اس طرح دلہن بنی دیکھ کر میرے لن میں


زبر دست کسی ہلچل پیدا ہوئی اور میں وہیں کھڑے ہو کر اپنے لن کو مسلنے لگا۔۔۔ ناز بلکل ایک کنواری سہاگن کی طرح بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی اور گھونگھٹ اوڑھ کر شرماتے ہوئے بولی۔۔۔ اجی یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔ آپ کو ذرا شرم نہیں آتی کہ نیچے آپ کی ساس سوئی ہوئی ہیں اور آپ اس طرح شرارتیں کر رہے ہیں اگر وہ آپ کی شرارتوں سے اٹھ گئیں


تو کیا سو چیں گی۔۔۔ میں حیران پریشان ناز کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ آج یہ کس موڈ میں ہے۔۔۔ مجھے گم صم کھڑے دیکھ کر نا ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ کھا گئے نا جھٹکا۔۔۔ آئیں یہاں بیٹھیں میں آپ کو ساری بات بتاتی ہوں۔۔۔ میں بیڈ پر ناز کے پاس بیٹھ گیا تو پھر ناز نے مجھے اس دن خالہ کے آنے اور جانے تک کی ساری بات حرف بہ حرف بتادی۔۔۔ اور پھر اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ساری بات باجی ثمینہ سے بھی کر چکی ہے اور باجی نے ساری بات خالہ سے کنفرم کرنے کے بعد ناز کو کال کر کے اس بارے میں خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں خود دو تین دن میں ساگر سے ملنے آؤں گی اور سامنے بیٹھ کر ساری بات سمجھاؤں گی۔ یہ کہہ کر ناز میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ بولیں نا۔۔۔ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گے۔۔۔ بلکل مذہبی اصولوں اور معاشرے کے عین مطابق۔۔۔ کیا آپ میرے


دلہا بنیں گے۔۔۔


مجھ سے اتنی خوشی برداشت نہ ہوئی اور میں نے آگے بڑھ کر ناز کو پکڑا اور اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔ میری جان اگر تمہیں اس سے خوشی ملتی ہے اور سب راضی ہیں تو اس سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں تیار ہوں۔۔۔ میں نے ایک چیز پر غور کیا کہ ناز نے اب مجھے بھائی کہنا بند کر دیا تھا۔۔۔ چلو اچھا ہی ہے اب تو ویسے بھی رشتہ بدلنے والا ہے۔۔۔


میرے راضی ہونے پر ناز خوشی سے جھوم اٹھی اور مسرت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ آپ نے میرا ادل جیت لیا ہے۔۔ میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر ہٹایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ میری شہزادی تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔۔۔ یہ سن کر ناز خوشی سے باؤلی ہو گئی اور مجھ سے لپٹ کر مجھے چومنے لگی۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے بازوؤں میں


سمٹے ہوئے سو گئے۔۔۔


اگلے دن صبح روٹین کے مطابق ناشتہ کر کے امی کو دیکھ کر اور پیار کر کے میں شو روم چلا گیا۔۔۔ اور سارا دن وہیں مصروف رہا۔۔۔ رات کو جب میں شوروم سے واپس آیا تو کھاناکھانے کے بعد میں اور ناز ایک دوسرے کی بانہوں میں سمٹے بیڈ پر لیٹے ہوئے


تھے۔۔۔ اچانک ناز بولی۔ اب امی کے بارے میں کیا سو چاہے آپ نے۔۔۔ تو مجھے اچانک یاد آیا کہ اس دن اشفاق صاحب کے آنے کی بابت تو میں نے ناز کو بتایا ہی نہیں ابھی تک۔ میں نے سارا معاملہ ناز کے گوش گزار کر دیا۔۔ میری بات سن کر ناز کسی خیال میں کھو گئی۔۔۔ چند منٹ ایسے ہی سوچنے کے بعد وہ بولی۔۔۔ میرے دماغ میں ایک بات آتی ہے۔۔۔ کیوں نہ ہم لوگ امی کو لیکر لندن میں شفٹ ہو جائیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔۔۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تو وہ بولی۔۔۔ جی ساگر۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔۔ اب یہاں دل نہیں لگتا۔۔۔ ابو کے جانے کے بعد جب آپی اور ناظم بھی روٹھ کر چلے گئے ہیں تو اب مجھے یہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔۔۔ ویسے بھی امی کے علاج کیلئے جانا تو ہے ہی نا۔۔۔ اور وہاں پتہ نہیں کتنا ٹائم لگے گا۔۔۔ تو کیوں نا ہم لوگ وہاں ہی شفٹ ہو جائیں ۔۔۔ ناز کی بات میرے دل و دماغ کو لگی۔ اور میں سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنے لگا۔۔۔ پھر میں نے ناز سے وعدہ کیا کہ اس بارے میں باجی سے بات کروں گا اور ان کا عندیہ بھی لوں گا۔۔۔ اسی طرح باتیں کرتے کرتے ہم لوگ سو گئے۔۔۔


اگلے دو دن یونہی روٹین میں گزر گئے۔۔۔ تیسرے دن میں شو روم میں تھا جب مجھے گھر


سے ناز کی کال آئی اور اس نے بتایا کہ باجی ثمینہ اور خالہ جان گھر آئی ہیں آپ بھی آ


جاؤ۔۔۔ میں شوروم سلیم کے حوالے کر کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ دعا سلام کے بعد ہم سب لوگ بیٹھ گئے۔۔۔ پھر خالہ اور باجی ثمینہ نے مل کر بات شروع کی اور شروع سے لے کر آخر تک وہ باتیں بتائیں جو کہ میں پہلے سے جانتا تھا لیکن میں نے ڈرامہ کرتے ہوئے حیرانگی کا اظہار کیا۔۔۔ قصہ مختصر اگلے دو گھنٹوں میں وہ لوگ مجھے ناز سے شادی کرنے پر اپنی دانست میں منا چکے تھے اور نکاح نہایت سادگی سے کرنے کا فیصلہ ہوا۔۔۔ میں نے باجی سے ناظم کے بارے میں پوچھا تو باجی نے بتایا کہ وہ اب ہوسٹل میں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہے۔۔۔ پھر امی کے بارے میں بات شروع ہو گئی تو میں نے باجی لوگوں سے کہا کہ میں امی کو لیکر لندن جانا چاہتا ہوں لیکن ۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر میں چند ساعت کیلئے رکا۔۔۔ باجی اور خالہ میر امنہ دیکھ رہی تھیں۔۔۔ اگر آپ لوگ میری شادی ناز سے کرنا ہی چاہتے ہیں تو اگلے پانچ دن کے اندر کر دیں۔۔۔ اور پھر میں اور نازامی کو لیکر ہمیشہ کیلئے لندن شفٹ ہو جائیں گے ۔۔۔ میری بات سن کر دونوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔ میں


نے رات والی ساری بات ان لوگوں سے ڈسکس کی۔۔۔ آخر کار وہ لوگ بھی مان گئے


کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔۔۔تھوڑی دیر بعد باجی اور خالہ چلی گئیں۔۔۔ باجی نے اسی دن واپس اپنے گھر جانا تھا۔ وہ صرف مجھے ناز سے شادی کرنے کیلئے تیار کرنے آئیں تھیں۔۔۔ اور اب میری طرف سے پانچ دن میں شادی کا سن کر فورا واپس چلی گئیں تا کہ تیاری کر سکیں۔۔۔ میں نے اسی دن اپنا امی کا اور ناز کا پاسپورٹ اپلائی کروایا اور ایک پراپرٹی ڈیلر کو کہہ کر اپنے شو روم کا سودا کر وا دیا۔ تین دن میں ہی سارے معاملات طے پاگئے اور وہاں سے مجھے نہایت معقول رقم مل گئی۔۔۔ میرے شوروم چھوڑتے وقت ورکرز اور خاص طور پر سلیم بہت اداس تھا۔۔ لیکن کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا سارے حالات ان کے سامنے تھے اور مجھے امی کو لے کر ہر صورت لندن جانا تھا۔۔۔ اگلے دن مجھے گھر میں چھ چھوڑ کر خالہ ناز کو ساتھ لے گئیں۔۔۔ کیونکہ شادی کی کچھ خریداری کرنی تھی ۔۔۔ اسی طرح دن گزر گئے اور شادی کا دن آگیا ۔۔۔ ہمارا نکاح بہت سادگی سے ہوا۔۔۔ شادی میں صرف باجی اور ان کی فیملی،، خالہ اور خالو ، اور ہماری ایک ممانی اور ان کی فیملی جو کہ پاس ہی رہتی تھیں وہ لوگ شامل ہوئے۔۔۔ ناظم بھی آیا لیکن تھوڑی دیر بیٹھ کر مجھے اور ناز کو مبارکباد دی اور بہانہ کر کے چلا گیا۔۔۔ سب لوگوں کے دل میں یہی بات آئی چونکہ باپ کی وفات کو تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے شاید اس لیے ناظم لیے دیے رہتا ہے ۔۔۔ مگر میں یہ سوچ کر اداس ہو گیا کہ کمبخت نے مجھ سے کوئی بات بھی نہیں کی اور صرف


مبارکباد دے کر چپ چاپ واپس چلا گیا۔۔۔


شادی نہایت سادگی سے سر انجام پائی اور سب لوگ ہمیں مبارکباد دے کر اپنے گھروں


کو رخصت ہو گئے ۔۔۔ آج ہماری سہاگ رات تھی۔۔۔ اس لیے باجی ثمینہ رات کو


ہمارے گھر ہی رک گئیں امی کا خیال رکھنے کیلئے اور میں دلہن بنی ناز کو لیکر اوپر اپنے


کمرے میں آگیا جس کو اچھی طرح پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔


میں نے کمرے کو لاک کرنے کے بعد بیڈ پر ناز کے قریب بیٹھ گیا اس کا گھونگھٹ


اٹھایا ۔۔۔ ناز کی گھنی لمبی پلکیں بلکل روایتی دلہنوں کی مانند نیچے جھکی ہوئی تھیں۔۔۔ میں


نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کی ٹھوڑی کو پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا۔۔۔


لطف خاص میں شامل ہے تشنگیء حیات


میں سانس پی رہا ہوں تیرے لبوں کو چوم کر


یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہونٹ ناز کے ہونٹوں سے جوڑ دیے اور ایک لمبی کس


جاری ہے

*

Post a Comment (0)