تنہائی کی ساتھی ماں بیٹی
قسط 3
نگہت خوب محبت سے امی کے چہرے پرہاتھوں سے نرم نرم اندازکامساج کررہی تھی۔ کوثربیگم کا چہرہ پوری طرح مڑکرنگہت کی گردن سے جڑا ہوا تھا۔ ان پرغنودگی جیسی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ نگہت کے جوان ہاتھوں اوربدن کا لمس انہیں خوب سکون دینے لگا۔ وہ اپنا جسم بیٹی کے جسم سے لگاکر بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں ماں بیٹی ساتھ ساتھ اکا دکا بات بھی کرتی جارہی تھیں۔ دونوں کو ہی ایک دوسرے کے بدن سے لطف ملنے لگا۔
نگہت نے کچھ دیر کوثربیگم کے گالوں کی مالش کرنے کے بعد ان کے بازواورہاتھوں کودھیرے دھیرے ملنا شروع کردیا۔ وہ امی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیتی اوراس کی ہتھیلی کو اپنی ہتھیلی کے ساتھ پیار سے سہلاتی۔ نرم نرم ہتھیلیوں کے ملنے سے دونوں کو میٹھا سا احساس ملتا۔ باری باری دونوں ہاتھوں کواس طرح مل کرنگہت نے ان کی قمیض کی آستین اوپرکردی اوربازو کو سہلایا۔ ماں کے نرم وملائم بازو نے اسے نیا لطف دیا۔ کوثر بیگم کو بھی بہت اچھا لگا۔ پھردوسری آستین اوپرکرکے نگہت نے امی کا دوسرا بازو بھی اسی طرح ملا۔ کافی دیرتک ایک دوسرے کی آغوش کی گرمی سے لطف اندوز ہونے کے بعد کوثرخاتون اورنگہت اپنے اپنے کاموں میں لگ گئیں۔
ماں بیٹی تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہی تھیں۔ اب انہیں اپنی اپنی تنہائی کے لیے ایک سہارا، ایک ساتھی مل گیا تھا۔ رات ہوئی توماں بیٹی پھرایک ہی بسترپرتھیں۔ اس بارنگہت اپنی امی کی ٹانگوں کی بجائے ان کے سرہانے کی طرف قریب ہوکربیٹھی۔ کوثربیگم نیم درازتھیں۔ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگیں۔ انہیں اب ایک دوسرے کا ساتھ لبھانے لگاتھا۔ دونوں کی خواہش تھی کہ ساتھ ساتھ وقت گزاریں۔ باتیں کرتے ہوئے نگہت امی کے ہاتھ، بازو، گال کو چھونے لگی۔ کوثرخاتون بھی بیٹی کوکہیں نہ کہیں مس کرتیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے بدن پر کسی نہ کسی جگہ ہاتھ پھیرنے کا مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیربعدنگہت اپنی پوزیشن بدل کرامی کے اورقریب ہوگئی۔ اب دونوں کا جسم ایک دوسرے کی حدت کوواضح طورپرمحسوس کرنے لگے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں کو تھوڑی تھوڑی دیربعد اپنے ہاتھوں میں لے کرلطف لیتیں۔ باتیں کرتے کرتے، نگہت غیرمحسوس اندازمیں،امی کے بدن پر کسی نہ کسی جگہ ہاتھ پھیرتی، دباتی۔کوثربیگم بھی نگہت کے بدن پرمختلف مقامات پرہاتھ پھیرنے لگی۔ اسی دوران ایک بار پھرنگہت نے پوزیشن بدلی اورامی کے ساتھ نیم درازہوکربائیں ہاتھ پراپنا سرٹکا لیا۔ اب دونوں باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کا چہرہ بہت قریب سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کرنے لگیں۔ نگہت امی کے بالوں سے کھیلنے لگی۔ ساتھ ان کے گال چھونے لگی۔ کوثرخاتون بھی نگہت کے رخساروں پر ہاتھ پھیرتی۔ اور کبھی اس کی کمرپرہاتھ لے جاتی۔ اچانک بجلی چلی گئی۔اب کمرے میں گھپ اندھیرا ہوگیا۔ نگہت پہلے ہی امی کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی۔ اس نے کوثرخاتون کا گال چوم لیا۔ اور پھر ان کے ہونٹ منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ ایک ہاتھ سے اس نے امی کا چہرہ تھاما اورتھوڑا سا اپنی طرف موڑ دیا۔ کوثرخاتون کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ انہوں نے نگہت کو بازوؤں میں بھرلیا۔ نگہت امی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر ان کا رس پی رہی تھی اورکوثرخاتون کے حسین بدن کی مہک میں ڈوب گئی۔ کوثرخاتون بھی نگہت کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ دے کربےحس وحرکت لیٹی رہیں۔ اب وہ پوری طرح بسترپر درازتھیں۔ اورنگہت ان کے رسیلے ہونٹوں کا مشروب پینے میں مصروف تھی۔ کوثرخاتون بھی نگہت کا پوراساتھ دے رہی تھیں۔
کچھ دیرکے بعد نگہت نے امی کے ہونٹ منہ سے نکالے اوران کے سینے پرسرٹکا دیا۔ جلد ہی بجلی بحال ہوگئی۔ نگہت امی کے سینے پراپنا سراسی طرح رکھے لیٹی رہی۔
جب مزید کچھ وقت اسی طرح گذر گیا توکوثربیگم کونیند محسوس ہونے لگی۔ نگہت یہ دیکھ کربولی۔ امی میں آپ کودباتی ہوں،آپ سو جائیں۔ کمرمل دو، پھر درد کر رہی ہے۔کوثربیگم نے جواب میں کہا۔ امی آپ قمیض اتاردیں۔ نگہت کہنے لگی۔ کوثر بیگم اٹھ کربیٹھیں اورقمیض اتاردی۔ بریزئیر بھی اتاریں۔ نگہت نے کہا۔ کوثربیگم نے وہ بھی اتارکرایک طرف رکھ دی۔
اب ان کا سنہری بدن اپنی تمام ترتابانیوں کے ساتھ کمرے میں کرنیں بکھیرنے لگا۔ قمیض اتارکر کوثرخاتون بسترپرمنہ کے بل لیٹ گئیں۔
جاری ہے