گھر میں دو جوان پھدیاں
قسط 3
صبح روزی کی چھٹی تھی اسے دیکھ کر صباء نے بھی چھٹی کر لی۔۔مجھے
ضروری جانا تھا نوٹس لینے تھے اس
لیے میں حسب معمول تیار ھو کر کالج کے لیے چلا گیا۔
میرے جانے کے بعد گھر میں کام کاج سے فارغ ھو کر صباء نے روزی کو کمرے میں بلایا۔روزی کمرے میں آئی تو صباء نے کمرے کا لوک لگایا اور اس کا ھاتھ پکڑ کر بولی۔۔
مجھے تم سے کچھ پوچھنا ھے وعدہ کرو
جو پو چھونگی اس کا صحیح صحیح جواب دو گی۔
کیا بات ھے پوچھو جو پوچھنا ھے اس میں اتنی راز داری کی کیا بات ھے
روزی نے اسے حیرت سے دیکھ کر کہا۔
دعوت والے دن میں اور تم ایک ساتھ تیار ھو رھے تھے تم نے اپنے لیے کپڑے
نکالے مگر اسے پہنا نہیں بلکہ تم صرف نقاب لگا کر ھمارے ساتھ چلی گئی اور وھاں جا کر تم بہانہ بنایا کہ تمھارا ٹیسٹ ھے تیاری کرنی ھے تم بھائی کے سات ھ چلی آئیں۔بتاو میں غلط بول رھی ھوں۔
صباء نے روزی کی جانب غور سے دیکھتے ہوئے
کہا۔صباء کی بات سن کر روزی گھبرا سی گئی۔۔
تم کیا کہہ رھی ھو۔ایسا نہیں۔۔ھے۔۔اس کے منہ سے گھبراھٹ میں نکلا۔
تم جھوٹ بول رھی ھو تمھاری زبان تمھارا ساتھ نہیں دے رھی۔
صباء نے اس کے ھاتھ پر دباو ڈالا۔۔اور اسے کس کے پکڑ کر اپنی جانب کیااچھا۔ تو پھر راتکو بھائی کے ساتھ کیا کررہی تھی
اس سوال نے روزی کی آنکھوں کے آگے
اندھیرا کر دیا۔ اسکی چوری پکڑی جا چکی تھی۔ اس کے پاس کوئی راہ فرار نہیں تھی آخر روزی کو صبا کے سامنے سچ بولنا
ہی پڑا۔ ساری حقیقت جان کر صبا مسکرائی اور بولی
میں یہ سب جانتی تھی بس تمہارے منہ سے اعتراف سننا چاہتی تھی۔ ویسے رات
کو بھائی نے جیسے تمہاری بجائی مجھے تو دیکھ کر ہی مزہ آ گیا۔ یقین مانو بڑی مشکل سے خود پہ ضبط کئے لیٹی رہی۔ میری پھدی پانی پانی ہو رہی تھی۔
صبا کی بات سنُ کر روزی کی جان میں
جان آئی کہ سب خیر ہے۔ روزی نے فوراَََ صبا کو اپنا ہم راز بنا لیا اور دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کی ہر بات مانیں گی۔
جب میں کالج سے واپس آیا تو موقع ملتے ہی روزی نے مجھے ساری بات بتا دی۔ پہلے تو مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ
میری بہن نے مجھے روزی کو چودتے
دیکھ لیا ہے لیکن صبا نے جیسے روزی کو جواب دیا تھا اس سے مجھے تسلی ہوگئی کہ صبا کومیرے اور روزی کے جنسی رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔
رات کو جب میں کمرے میں تھا تو صبا اور روزی دونوں اکٹھی میرے کمرے میں داخل ہوئیں دونوں کے چہرے کھلے ہوئے تھے صبا نے چہک کر مجھ سے پوچھا۔ کیسےہیں بھائی۔۔؟پڑھائی ہو رہی ہے کیااس کے الفاظ میں شرارت تھی جیسے
مجھے جتا رہی ہو کہ اب وہ بھی سب جانتی ہے
میں نے بھی اس کا جواب مسکرا کر دیا
۔۔اور پڑھنے لگا۔۔دونوں اپنے اپنے بیڈ پر لیٹ گئی اور میں نے اپنی توجہ پڑھائ ی کی جانب رکھی۔کوئیآدھے گھنٹے کےبعد روزی اٹھی اور اس نے مجھے پیچھے سے پیار سے پکڑ لیا۔اور اس کا ھاتھ میرے لن کی جانب بڑھنے لگا۔
مطب اسے آج پھر لن چاھیے تھا روزی نے
اپنے کپڑے بھی اتارے ہوئے تھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ یہ سب صباء کا پلان تھا۔۔۔روزی کو کپڑوں سے آزاد دیکھ کر
میں بھی تیار ھو گیا اور کپڑوں سے آزاد ھو گیا۔۔روزی نے میرے جسم کو سہلانا شروع کر دیا۔میں نے اس کے ھونٹوں کو پیار کیا اور اسےسختی سے بانہوںمیں بھر لیا۔۔
کچھ دیر کے بعد روزی نے میرا لن پکڑ کر چوسنا شروع کر دیا۔اور میں کچھ مزے کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔کیا
زبردست چوسا لگاتی تھی۔روزی۔۔میں جلد ھی چدائی کے لیے تیار ھو گیا۔۔اور روزی کو اپنے بیڈ پر لٹا کر اس کی چوت میں لن ڈال دیا۔میں نے دو تین جھٹکے ہی لگائے تھے کہ اچانک صباء نے کروٹ بدلی اور
وہ ھڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی آج ھم نے لائٹ
نہیں بجھائ ی تھی۔۔
یہ کیا۔۔ صباءنےاٹھ کر حیرت سےک ہا۔ ھڑ بڑا کر اٹھنے کی وجہ سے صباء کی نائٹی کھل کر نیچے گر گئی تھی جس کی وجہ سے وہ بھی ننگی ھو گئی تھی میں
نے فورا اسے جا پکڑا اور اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔۔
صباء نے مجھے اپنے آپ سے لپٹا لیا وہ
میرے جسم کے ساتھ چپکی کھڑی تھی اس
کا رخ روزی کی جانب تھا۔اب ھم تینوں کمرے میں ننگے تھے۔
دیکھو صباء۔اگر تم چاہو تو ہمیں جوائن کر سکتی ھو۔۔میں نے اسے آفر دی۔اور۔۔اور اگر تم منع کرو گی تو میں تمھارے ساتھ زبردستی کرونگا۔۔اور جوروزی کےساتھ
کر رھا تھا وہ میں تمھارے ساتھ کرونگا تاکہ تم اپنی زبان نہ کھول سکو۔
میں نے اس کے شفاف جسم پر ھاتھ پھیرتے ھو ئ ے کہا۔
صبا نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور کس کرنے کے بعد بولی
بھائی۔ آپ بے فکر رہیں۔ میں بھی آپ کی
دیوانی ہوں۔ جب سے آپ کو اور رو زی کو چدائی کرتے دیکھا ہے میری پھدی کا
پانی ہی نہیں رک رہا۔ مجھے آپ کے پیار کی اشد ضرورت ہے بھائی۔
یہ کہہ کر صبامیرے ننگے جسم کےساتھ چھپکلی کی طرح چپک گئی اس کے تنے
ہوئے کنوارے ممے میرے سینے میں پیوست ہو گئے۔
روزی یہ دیوانگی دیکھ کر گلا صاف کرتے ہوئے بولی
اوئے لیلی مجنوں۔ میں بھی یہاں ہوں۔ مجھے
بھی شامل کرو اپنی محبت میں۔
ہم تینوں ہنسنے لگے اور ایک ہی بیڈ پر آگئے
ایک کنواری میرے لن کی ضربوں سے پہلے ہی چد چکی تھی اور دوسری کنواری خود بخود میری بانہوںمیں آگئی تھی
حالانکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک دن صبا کو چودوں گا اسُ کے
حسن سے میں متاثر ضرور تھا لیکن اس حد تک کبھی نہیں سوچا تھا لیکن اچانک
میرے سامنے ایسی صورت حال آچکی تھی جس میں میرے پاس انکار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ
صبا روزی سے زیادہ خوبصورت اور نرم و نازک تھی۔ صبا کا جسم قیامت خیز تھا۔
وہ دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتی تھی
اور اس وقت تو وہ بالکل ننگی میں سامنے بیٹھی تھی۔ میں اسُ کے جسم کی تراش خراش دیکھکر پاگل ہورہا تھا میرالن جھٹکے پہ جھٹکے کھا رہا تھا۔
دونوں حسیناوں نے فیصلہ کیا کہ میں
بستر پر سیدھا لیٹ جاوں اور وہ آپس میں
صلح صفائی سے میرے ساتھ نمٹ لیں گی۔ میں چپ چاپ سیدھا لیٹ گیا کہ میرا لن تن کر سیدھا چھت کی طرف منہ کئے کھڑا تھا
روزی تجربہ کار ہو چکی تھی وہ میرے لن کو پکڑ کر صبا کو بتانے لگی
دیکھو ڈئیر۔ پہلے نرمی سے لن کو ہاتھ میں لینا۔
اسکی نزکت اور لمس کو محسوس کرنا۔ جیسے تم لن ہاتھ میں لو گی تمہارے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ جائےگی جو باقی سب تمُ سے خود ہی کروا لے گی لیکن یاد
رکھنا جب لن منہ میں ڈالو تو تمہارے دانت اس کے ساتھ ٹچ نہ ہونے پائیں۔ زبان اور ہونٹوں کا استعمال کر کے اس انمول لالی پاپ کو چوسا جاتا ہے۔ صبا ہنس دی اور بولی
تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں چھوٹی بچی ہوں۔
میں نے تم دونوں کا پورا شو دیکھا ہے۔ میں نے تم سے ہی سیکھا ہے کہ کیسے لن کو سہلاتے ہیں اور منہ میں لیتے ہیں۔ بس ابتم پیچھے ہو جاواور مجھےموقع دو۔
روزی لن چھوڑ کر تھوڑی پیچھے کھسک گئی جبکہ صبا نے اسکی جگہ لے لی اور بستر پر الٹے منہ دراز ہوتے ہوئے میرے لن کے پاس منہ رکھ کر لیٹ گئی۔ اسکی یہ ادا بہت ہی سیکسی تھی اسکا کنوارہ جوان جسم چمک رہا تھا اسکی کمر ہموار تھی لیکن گانڈ کی پہاڑیاں جان نکال رہی تھیں۔ گوری گانڈ کی گولائیاں کیا شہوت انگیز کشش رکھتی تھیں۔صبا نے جیسےہی
میرے لن کو ہاتھ میں لیا اسکا ہاتھ کانپنے
لگا۔ شاید وہ بہت زیادہ جذباتی ہو رہی تھی۔ اسکے نرم ہاتھ کے لمس نے میری آہ
نکالدی تھی۔ وہ پہلےچند لمحے لن
کوبھوکی نظروں سے دیکھتی رہی۔ پھر
جیسے اسُے کوئی دورہ پڑ گیا ہو۔ وہ لن کو اپنے چہرے پر ہونٹوں پر اور اپنی چھاتی پر فریفتگی سے پھیرنے لگی۔
روزی جو اسُ کے عین پیچھے تھی۔ اسکی بے صبری اور بھوک دیکھ کر مسکرانے
لگی۔ ساتھ ہی اسُ نے صبا کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ میں ان دو مست
کنواریوں کے حصار میں خود کو شہنشاہ سمجھ رہا تھا ۔
جلد ہی میرا لن صبا کے منہ میں تھا ۔وہ بالکل قلفی کی طرح لن منہ میں لے کر چوپےلگانے لگی اسی دوران روزی نے صبا کے پہلا میں لیٹ کر اپنا سر اسکی
گانڈ کے ابھاروں پر رکھ لیا اور زبان نکال کر گانڈ کی گولائیوں پر پھیرنے لگی۔ صبا کو جیسے ہی نرم زبان کا لمس ملا اسکی لن چوسنے کی کارکردگی پہلے سے زیادہ
سیکسی ہو گئی۔ وہ لن کو حلق تک لیجانے کی کوشش کرنے لگی۔
روزی نے اب اپنی زبان صبا کی گانڈ کے ابھار کھول کر اسکی گانڈ کے سوراخ پر لگانا شروع کر دی تھی جس سے صبا مستی سے سسکیاں لینے لگی تھی۔
میں یہ سب دیکھ کر اور بھی گرم ہو رہا تھا۔ میں نے روزی کو ٹانگوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اسی پھدی پر زبان رکھ دی۔ میری زبان سانپ کی طرح اسکی پھدی کے دانے پر چلنے لگی۔ہم تینوں ہی ایک دوسرے کی شہوت بڑھا رہے تھے میری پھدی میں زبان ڈالنے سے روزی
بے حال ہونے لگی اور ۔۔اور زیادہ وحشت سے صبا کی گانڈ کے سوراخ کو چاٹنے
لگی ۔صبا گانڈ پر نرم زبان کے لمس سے مدہوش ہو کر میرے لن کو زور زور سے چوسنے لگی اور میں لن پر صبا کے منہ کی گرمی محسوس کرتے ہوئے شہوت سے کانپنے لگا۔ تھوڑی دیر کے اس عمل کے بعد میرے لن میں منیبھری جانے لگی تو میں نے صبا کے منہ سے لن کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ لن
چھوڑنے کو تیار نہیں تھی تبھی مجھے
لگا کہ روزی میری زبان کی تاب نہ لاتے
ہوئے فارغ ہو گئی ہے کہ اسکی پھدی کے لب لرزنے لگے تھے عین اسی وقت میرے لن نے منی کا فورا صبا کے منہ میں چھوڑ دیا۔ گرم منی جیسے ہی صبا کے منہ میں گئی۔ وہ کھانسنے لگی۔ وہ شاید اس کے لیے تیار نہ تھی۔ اسُ نے ابکائیاں لینی شروع کر دیں۔روزی نے فوراَ، اسُے
سنبھالا۔ اور اسکی پیٹھ ملنے لگی۔ جبکہ میں ہنس رہا تھا ۔ جب صبا کا سانس بحال ہوئی توُاس نے پیاربھرے غصے سے میرے لن پر مکا مارا اور بولی۔
یہ کیا حرکت کی آپ نے بھائی۔ مجھے بتا نہیں سکتے تھے کیا۔ کتنی نمکین ہے آپ کی منی۔
افُ۔۔ میرا تو تراہ نکل گیا تھا کہ یہ کیا منہ میں آ گیا ہے۔ اور کتناعجیب سا ٹیسٹ ہے اسکا ۔۔جیسے کچا گوشت کھا لیا ہو۔
میں نے صبا کو حوصلہ دیا کہ پہلی بار
ایسا ہی محسوس ہوتا ۔آہستہ آہستہ عادی ہو جاو گی۔ روزی نے میری بات کی تائید کی اور بولی۔
میں جب تک ایک دفعہ بھائیکی منی پی نہ
لوں مجھے سکون ہی نہیں آتا۔ پر آج میری جگہ تم نے پی لی۔
ہماری باتیں جاری تھیں کہ میرا لن پھر کھڑا ہو گیا۔ صبا اتاولی ہو رہی تھی کہ
جلدی سے اپنی پھدی کا افتتاح کروائے۔۔
وہ بار بار لن کو اپنی پھدی پر رگڑنے لگی جبکہ روزی پہلے میرے ہونٹ چوستی رہی
پھر اپنے نپلز باری باری میرے منہ میں دینے لگی۔
جب صبا کی برداشت جواب دے گئی تو اسُ نے میرے لن پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن لن پھدی میں جانے کی بجائے ایک طرف کو پھسل گیا۔ روزی نے یہ دیکھا تو
وہ مسکراتی ہوئی اسُ کے پاس آئی اور لن کو پکڑ کر صبا کی پھدی کے سوراخ میں رکھا اور اسُے کان میں بولی۔ اب آرام آرام سے بیٹھو۔
صبا نیچے بیٹھنے لگی تو لن کے ٹوپے
نے اسکی پھدی کھولنا شروع کی ۔۔جیسے
ہی پھدی کے اندر کے پردے تک لن پہنچا ۔ لن رُک گیا۔ صبا نے اپنا زیادہ وزن ڈالا۔تو گچپ کی آواز سے لن نے پھدی کی سکرین توڑ دی اور صبا کے وزن سے ہی لن ایک جھٹکے سے پھدی کی گہرائی تک اتر گیا۔ لیکن صبا کی چیخ بڑی مشکل سے رکی تھی۔ وہ میرے اوپر ہیدوہری ہو گئی اور اٹھ کر لن نکالنے کی کوشش کرنے
لگی۔ لیکن روزی نے اسُے نیچے دباتے ہوئے کہا۔
میری جان۔ تھوڑا انتظار کرو۔ جو ہونا تھا ہو گیا ۔ بس تھوڑی دیر بعد یہ درد بھول کر
تم مزے
لینے لگو گی۔
میری پھدی برُی طرح جل رہی ہے۔ اور
دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔ میں مرجاوں گی۔ اسے باہر نکالنے دو۔
واقعی صبا کی پھدی سے خون کی دھار نکل کر میرے لن کے ارد گرد کھڑی ہو گئی تھی۔لیکن روزی نے اسُے اٹھنے
نہیں دیا۔ میں نے ہولے ہولے نیچے سے لن ہلانا شروع کر دیا۔ صبا کی پھدی اندر سے کافی تنگ تھی میرے لن کو پوری
طرح اسُ نے جکڑ رکھا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد لن کی حرکت سے پھدی کی
دیواروں نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا اور لن آسانی سے حرکت کرنے لگا۔ لن کی
پھدی کی دیواروں پر رگڑ سے صبا جلد ہی
اپنا درد بھول کر ہونٹ دانتوں میں لیکر سسکیاں بھرنے لگی۔
میں نے روزی کو شارہ کیا کہ صبا کو اٹھا دو تاکہ میں اسُے لیٹا کر چدائی کروں۔ صبا اب لن سے اترنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن روزی نے اسُے سمجھایاتواتر گئی۔ ایک کپڑے سے روزی نے میرے لن اور صبا
کی پھدی کو اچھی طرح صاف کیا۔ میں نے صبا کو لیٹا کر اسکی ٹانگیں کندھوں پر
رکھی اور لن کو آرام سے اسکی پھدی کے حوالے کر دیا۔ ایک بار پھر صباکی پھدی کے زخم ہرے ہوگئے لیکن جلد ہی وہ
مزے لینے لگی۔ اسکی سسکیاں سنُ کر میرا جنون بڑھنے لگا۔ روزی مسلسل
میرے منہ میں منہ دیے زبان چوس رہی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ سے صبا کا
خوبصورت پٹ پکڑا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ روزی کی پھدی میں انگلی کر رہاتھا۔ میری رفتار خود بخود تیز ہوتی گئی۔ اور لن کی تیز ضربوںسے صبا جلدہی فارغ ہو گئی۔جب وہ چھوٹی تو اسکی حالت خراب تھی۔ اسکا سار اجسم سکڑ گیا تھا اور جھٹکے
کھانے لگا تھا اور اسُ کے منہ سے بھاری سسکیاں نکلنے لگیں تھی۔ میری رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور صبا مستی سے
چور ہوت ی گئی۔ جب وہ مکمل فارغ ہو چکی تو مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی اس کی
آنکھوں میں آنسو تھے اور اسکا کاجل پھیل چکا تھا
مسکرا کر بولی۔بھائی۔ اب آپ پکے بہن چود بن گئے ہیں۔ لیکن میری پھدی کو جو
آج مزہ ملا ہے مجھے عمر بھر یاد رہے
گا۔
روزینے اسُے بتایا کہپہلا مزہ واقعی
شاندار ہوتا ہے لیکن اب جب بھی چداوٴوں گی پہلے سے زیادہ مزہ آئے گا۔
صبا ٹھنڈی ہو چکی تھی تو میں نے اسُکی جگہ روزی کو لیٹا لیا اور اسکی پھدی میں لن کی چوٹیں لگانے لگا اس دوران
صبا میری چھاتی پر اور پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتی رہی۔ روزی بھی فارغ ہو گئی
لیکن میرا لن ابھی فارغ ہونے کو تیار نہیں تھا
میں نے دونوں سے پوچھا کہ اب مجھے تم دونوں میں سے کسی کی گانڈ مارنی ہے۔ بتاو کون مروائے گی تو دونوں ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگیں۔ دونوں نے صاف انکار کر دیا کہ اتنا موٹا لن گانڈ میں نہیں لیا جاتا۔
تو میرے لن کو فارغ کیسے کراو گی اب۔
تم دونوں کی پھدیاں مل کر بھی فارغ نہیں کرا پائیں۔
میں نے شکوہ کیا تو روزی بولی۔
پہلے اٹھو اور لن کو اچھی طرح دھو کر
آو۔اس کے بعد دیکھو میں کیسے تمہارا جوس نکالتی ہوں۔
میں باتھ روم گیا اور لن کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جو دو دو پھدیوں کو کھولنے کے بعد سرخ ہو رہا تھا۔رگڑیں کھا کھا کر اسکیجلد سرخی مائل ہو گئی تھی۔ میںجیسے ہی واپس آیا دونوں کندھے سے کندھا ملائے بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ مجھے
انہوں نے نیچے ہی کھڑا کر لیا اور لن کی طرف دیکھنے لگیں۔ پھر روزی نے پہلے لن منہ میں ڈالا اور مہارت سے چوسنے لگی جبکہ صبا اسُے چوستے دیکھ رہی
تھی۔ صبا کے ممے بہت خوبصورت تھے
گورے گور ے گول مٹول اور اسکی نپلز کا رنگ بالکل پنک تھا جبکہ روزی کے ممے تو گول تھے لیکن نپلز کلیجی تھیں ۔ روزی سے صبا کے ممے بڑے اور زیادہ چکمدار تھے۔ میں نے صبا کو اشارہ کیا کہ مجھے اپنی نپلز چسوائے
اس نےفوراَ، گھٹنوں کے بل بیڈ پر کھڑےہوتے ہوئے میرے منہ میں دایاں نپل ڈال دیا۔
افُ۔۔ کتنا دلکش منظر تھا۔ میری بہن کی
نپل میرے منہ میں اور میرا لن روزی کے منہ میں۔ مجھے پھر گرم ی چڑھنے لگی۔ روزی پوری تندہی سے لن چوس رہی تھی میں نے اسُے کہا کہ بیڈ پر ہی گھٹنوں کے بل اوندھی ہو جائے اور اپنی گانڈ میری
طرف کر دے۔ اسُ نے مجھ سے وعدہ لیا کہ گانڈ نہیں مارو گے۔ میں نے کہا بے فکر رہو میں تمہاری پھدی میں ہی ڈالونگا۔ روزیبیڈ پر دوہری ہو گ ئی اسکی گانڈ
بالکل میرے سامنے تھی۔ میں نے اسکی پھدی کو پہلے ہاتھ سے مساج کیا اور
اسکی پھدی نے جو پانی پھر سے چھوڑ
دیا تھا اسی سے اسکی پھدی گیلی کی اور
لن کو سوراخ پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں اندر کر دیا
روزی کی ایک لمبی سسکی نکلی اور وہ آگے کو جھک گئی یہ پو زیشن کمال کی
تھی۔ لن آرام سے پھدی میں آ جا رہا تھا۔ میں نے کمرہ تھپ تھپ کی آوازوں سے بھر دیا۔ میں پوری قوت سے روزی کی پھدی مار رہا تھا۔صبا مجھے کس کر رہی تھی اور اب وہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے نپلز مسل رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں روزی کی پھدی کی گرمی
میرے لن پر بھاری ہو گئی اور میں فارغ ہونے والا ہو گیا
میں نے اسُ سے پوچھا کہ کہاں فارغ ہوں تو اسُ نے ایک ادائے دلبرا سے کہا
میری پیٹھ پرجیسے ہی لن چپکاری مارنے والا ہوا میں نے باہر کھینچ لیا اور اسکی
گانڈ کے گول ابھاروں پر لن رکھ کر مٹھ مارنے لگا
ایک لمبی پچکاری میرے لن سے برآمد ہوئی اور روزی کی گانڈ سے اسکی گردن تک پھیل گئی پھر دوسری پھر تیسری۔۔
میں فارغ ہو رہا تھا اور نشے سے پاگل ہو رہا تھا۔ جب ساری منی نکل گئی تو صبا نے مجھے کپڑا دیا جس سے میں نے پہلے روزی کی گانڈ صاف کی اور پھر
اپنے لن کو اچھی طرح صاف کیا۔ ہم تینوں ہی تھک چکے تھے۔ وہی ایک بیڈ پر ایک دوسرے سے چمٹ کر خاموش لیٹ گئے اور کچھ ہی دیر میں سو گئے۔
مجھے اپنے ہی گھر میں دو دو پھدیاں مل
گئی تھیں جو ہر روز میری پہنچ میں تھیں۔
لیکن ہم تینوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ کام روز نہیں
کریں گے بس ہفتے میں ایک دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اور میں
پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی۔ میری بچی کی آنکھوں میں آنسو
تھے۔ اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہےزرا سی کوئی اونچ نیچ ہو
اور اسکا دل ہول جاتا تھا۔اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی۔ تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں۔ میری
اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی۔
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے۔ وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا۔ اور میں نے جب وسیم کو دیکھا۔تو وسیم
مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا۔ باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی۔ اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن
تھے۔ اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی۔
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے۔بچی میکے آتی۔ تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی۔ خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی۔
لیکن۔۔۔۔ آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی۔
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا۔
پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی۔ لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا۔
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ
کرلیا۔
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر
بلوایا تھا۔ کیونکہ بوقت دوپیر میرے میاں
جوکہ بیمار رہتے ہیں۔ سورہے ہوتے ہیں۔ اور میرے دونوں بیٹے
رضوان اور عمران اپنے اپنےآفسزمیں ہوتے ہیں
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی۔
میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی۔
اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا۔
وسیم کیا بات ہے۔؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے ۔ کیا کوئی بات ہوئی ہے۔؟
میں نے اسکے بالکل قریب ہوکر رازداری سے
دریافت کیا۔
جاری ہے