خدیجہ
قسط نمبر 3
خدیجہ کو ہال وے یعنی برآمدے میں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ دل میں تو وہ دعائیں کر رہی تھی کہ مائیکل آئے ہی نہ۔ یہی ایک صورت تھی خدیجہ کے بچنے کی۔ اور اگر آ بھی جاتا تو کم از کم دیر سے آتا۔ ہال کے دوسرے دروازے سے مائیکل جیسے ہی داخل ہوا، اس کی نظریں قدرتی طور پر خدیجہ پر فوکس ہو کر رہ گئیں۔ مائیکل کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ پرنسپل آفس کے باہر چمڑے کی کرسی پر ایک حسین و جمیل بڑی بڑی چھاتیوں والی لڑکی الف ننگی بیٹھی ہے۔ اس کے قدم وہیں رک گئے اور نظریں خدیجہ پر فکس ہو گئیں۔
خدیجہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے گود میں رکھی کتاب کا ایسے مطالعہ کر رہی تھی جیسے اسے احساس ہی نہ ہو کہ وہ ننگی ہے۔ جیسے پرنسپل آفس کے باہر ننگی ہو کر کرسی پر بیٹھے رہنا ایک نارمل سی بات ہو۔
مائیکل خدیجہ کی چھاتیوں کو گھورے چلے جا رہا تھا۔ خدیجہ کی چھاتیاں تھی ہیں اتنی بڑی لیکن بڑی ہونے کے باوجود ڈھلکی ہوئی نہیں تھیں بلکہ سینے پر فخریہ تنی ہوئی تھیں۔ مائیکل کا ذہن پورن میگزین میں چھپنے والی ننگی ماڈلز کی تصاویر کی طرف گیا اور اسے یہ فیصلہ کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا کہ خدیجہ کے ممے ان میگزین والی ننگی ماڈلز کے مموں سے لاکھ گنا بہتر ہیں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ مائیکل نے آج تک ایسے دوبدو کسی لڑکی کو ننگی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی تربیت سخت ماحول میں ہوئی تھی اور شاید ماحول ہی کی وجہ سے اس کے والدین نے اس کا داخلہ اس کالج میں کروایا تھا۔ مائیکل کی طبیعت ہی کچھ اس قسم کی بن گئی تھی کہ پورن میگزین تو وہ جی بھر کر دیکھتا تھا لیکن کسی لڑکی سے بات چیت کے مراحل سے آگے کا کام اس کیلئے بہت مشکل تھا۔ وہ بہت شرمیلا واقع ہوا تھا۔ چند مرتبہ وہ ڈیٹ پر گیا تھا لیکن اتنا نروس ہوا کہ لڑکی بے چاری خود پریشان ہو گئی کہ کہاں پھنس گئی ہوں۔
ایک لڑکی نے البتہ مائیکل سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ مائیکل کے لبوں کو چومنا چاہتی ہے۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب مائیکل ابھی سکول میں تھا۔ مائیکل کو بھی وہ لڑکی بہت پسند تھی لیکن مائیکل شرم کے مارے اسے نہ چوم سکا حتیٰ کہ سکول ختم ہو گیا اور اس لڑکی نے کسی اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ بعد میں اسے پتہ چلا تھا کہ اس لڑکی نے کوئی اور لڑکا بوائے فرینڈ بنا لیا تھا۔
ایک بات کا البتہ مائیکل کو اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ کسی بھی لڑکی کی موجودگی میں ہونٹوں پر مسکراہٹ رکھنی ہے۔ خدیجہ کے بالکل الٹ، مائیکل نے پروگرام کو کبھی مذاق نہیں سمجھا تھا بلکہ ہمیشہ پروگرام کے بارے سنجیدہ گفتگو کرنے پر دوستوں میں مذاق کا نشانہ بنا تھا۔ اس کے دوست ہمیشہ یہ ٹھٹھا اڑاتے تھے کہ نہ جانے وہ کون بے چارہ ہو گا جو پروگرام میں سارا دن ننگا کالج میں گزارے گا۔
یہ بھی خوش قسمتی ہی تھی کہ پروگرام کی پہلی شرکت دار کو اس نے باقی طلبا سے پہلے دیکھ لیا تھا۔ خدیجہ کے بارے ہمیشہ اسے یہی محسوس ہوا تھا کہ خدیجہ بہت مست ہے۔ خصوصاً اس کا پرجوش رویہ سب سے منفرد تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے خدیجہ کالج میں ہونے والے ہر ایونٹ میں شرکت کرنا چاہتی ہو۔ ہمیشہ جذبے سے بھرپور اور کام کیلئے ہمہ وقت تیار، کبھی نہ گھبرانے والی۔ شاید یہی جذبہ تھا جس کی بدولت وہ آج پرنسپل آفس کے باہر ننگی بیٹھی تھی۔
مائیکل کی نظریں بار بار خدیجہ کے مموں پر جا رہی تھیں۔ اتنے بھرے بھرے ممے تھے کہ بس دل کرتا تھا دیکھتے ہی جائیں۔ مائیکل جیسے جیسے قدم بڑھا کر خدیجہ کی طرف چل رہا تھا، اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہر قدم کے ساتھ خدیجہ کے مموں کا سائز بھی بڑھ رہا ہو۔ ساتھ ہی اس کا لن بھی انگڑائی لے رہا تھا۔ ایک ہاتھ جیب میں ڈال کر اس نے لن کی پوزیشن ایڈجسٹ کی۔ ذہن اب بھی خدیجہ کے مموں میں ہی الجھا تھا۔ آخر کیسے اتنے بڑے ممے سینے پر سیدھے تنے ہوئے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ اس نے اپنی امی کی نصیحت پر انڈر وئیر پہن رکھا تھا۔ ویسے اپنی پرائیویٹ زندگی میں اپنی امی کی مداخلت پر وہ ہمیشہ ناک بھوں ہی چڑھاتا تھا۔ اس کی امی بھی تو اسے ایسے ٹریٹ کرتی تھیں جیسے وہ اٹھارہ برس کا نہ ہو بلکہ کوئی آٹھ برس کا چھوٹا لڑکا ہو۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی وہ اسے انڈر وئیر کی مختلف قسموں پر لیکچر دے رہی تھیں کہ باکسر کی بجائے بریف زیادہ بہتر ہیں کیونکہ ان سے ٹٹوں کو بہتر سپورٹ ملتی ہے۔ سارا وقت مائیکل نظریں نیچے کئے ان کی باتیں سنتا رہا تھا۔ اب جب اپنی امی کی نصیحت پر بریف پہننے پر اسے لن قابو کرنے میں آسانی ہوئی تو اس کی مسکراہٹ اور بڑھ گئی۔ اس کی امی نے تو اس کی صحت کے حوالے سے نصیحت کی تھی لیکن ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی یہ نصیحت مائیکل کیلئے کیسے کام آ رہی تھی۔
پچھلے چند دن سے ویسے بھی اس کا لن بار بار کھڑا ہو جاتا تھا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جب سے اس نے کالج میں داخلہ لیا تھا، تب سے ہی یہ سلسلہ جاری تھا۔ شاید یہ ماحول کی وجہ سے تھا کیونکہ وہ ہاسٹل میں رہ رہا تھا گھر سے دور۔ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کا ڈر نہیں تھا۔ خصوصاً ماں کی بے جا مداخلت اور سخت کنٹرول سے دور ہونے کی وجہ سے اور کالج کی اتنی ساری پیاری پیاری لڑکیوں کو دیکھنے کے ان گنت مواقع کی موجودگی کی وجہ سے بار بار لن کھڑا ہونا قدرتی ہی تھا۔ یہ اور بات تھی کہ کسی بھی لڑکی سے بات کرنے اور پھر اسے گرل فرینڈ بنا کر اپنے بستر تک لانے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔
جو لڑکی اس وقت سامنے تھی اس سے تو بہرحال بات کرنی ہی تھی۔ اگر خدیجہ کو ننگی سامنے دیکھ کر بھی وہ اس سے بات کرنے کا موقع گنوا دیتا تو پھر تو وہ بالکل ہی چغد ہوتا۔
خدیجہ کے قریب پہنچ کر جب ہاتھ آگے بڑھانے کا موقع آیا تو اسے احساس ہوا کہ ہاتھ تو جیب میں ہے جس سے لن پکڑ رکھا ہے۔
"اب وقت ہے اس بریف انڈر ویئر کے اصل امتحان کا۔" مائیکل نے دل میں سوچا اور ہاتھ جیب سے نکال کر خدیجہ کی طرف بڑھایا: "گڈ مارننگ مس خدیجہ ، آپ یقیناً پروگرام کی پہلی شرکت دار ہیں۔ ہیں نا؟"
خدیجہ نے مائیکل کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا تھا لیکن اب تک اس کا رویہ ایسا تھا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو کہ کوئی ہال میں داخل ہوا ہے۔ دراصل وہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ مائیکل کا اس کے مموں کو گھورنے کا اسے علم تھا۔
"کتنا فضول سوال ہے" خدیجہ نے دل میں سوچا۔ پھر جواب دیا: "واہ تم تو خود سے ہی بھانپ گئے۔ اب پتہ چلا اتنے اچھے نمبر کیسے آتے ہیں تمہارے ٹیسٹ میں۔" خدیجہ نے اس سے ہاتھ بھی ملایا لیکن یہ بات صاف ظاہر تھی کہ خدیجہ کو اس سے ملنے کی کوئی خوشی نہیں تھی۔ مائیکل نے برا نہیں منایا۔ اس کیلئے ہاتھ ملاتے وقت خدیجہ کے مموں کا ہلنا ہی کافی تھا۔ اس کا لن ایک دم اکڑ گیا اور اسے ایک ٹانگ دوسری سے ذرا آگے کرنی پڑی تاکہ خدیجہ کو شک نہ ہو۔
خدیجہ کا خیال تھا کہ مائیکل کا اسے ننگی دیکھنے پر اس کی بے چینی کسی قدر کم ہو گی کیونکہ مائیکل بظاہر کالج کے چند شریف طلبا میں سے ایک تھا لیکن ہوا اس کے الٹ۔ اس یوں مائیکل کے سامنے ننگی بیٹھنے پر شدید ندامت محسوس ہو رہی تھی۔ مائیکل کو وہ جانتی تو تھی لیکن صرف ایک فیلو طالب علم کے طور پر۔ خدیجہ اس کی ذہانت کی بھی معترف تھی لیکن یوں اس کے سامنے ننگی بیٹھنے کا تو اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ مائیکل کے بارے اس کا تاثر یہی تھا کہ مائیکل کو پڑھائی میں دلچسپی ہے اور سیکس وغیرہ سے اس کی رغبت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اب مائیکل کا اس کے مموں کو گھورنا خدیجہ کی ساری گزشتہ سوچوں کو غلط ثابت کر رہا تھا۔ اس کا دل تو کر رہا تھا فوراً ہاتھوں سے اپنے ممے چھپا لے لیکن پروگرام کے اصول اسے ایسا کرنے سے روکتے تھے۔ وہ بے بس تھی۔ وہ مجبور تھی۔ اس کے بس میں بس یہی تھا کہ ایسے بیٹھی رہے اور مائیکل کو اپنی ننگی چھاتیاں تکنے دے۔
"کیسا چغد ہے۔ مسکراہٹ دیکھو چوتیے کی۔" خدیجہ نے دل میں سوچا۔
بے شک پروگرام کے اصول اسے اپنا جسم چھپانے سے منع کرتے تھے لیکن وہ کسی بھی سچویشن میں زیادہ دیر تک انڈر پریشر نہیں رہ سکتی تھی۔ اس کی طبیعت میں ہی ایسا نہیں تھا۔ وہ مائیکل کو یوں اپنے ممے آزادی سے گھورنے نہیں دے سکتی تھی۔ اس نے ہمیشہ یہی سیکھا تھا کہ کسی بھی سچویشن میں پریشر سے نکلنے کا طریقہ یہ تھا کہ مخالف کو انڈر پریشر کر دیا جائے۔ مخالف کو انڈر پریشر کرنے کا بہترین طریقہ اپنے کانفیڈنس کا اظہار تھا۔ خدیجہ نے یہی کیا۔ وہ سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور سینہ تان کر مائیکل کا سامنے کھڑی ہو گئی۔ "ہیلو مائیکل ، تم سے مل کر خوشی ہوئی۔"
سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہونے پر خدیجہ کے مموں کا ہلنا دیکھ کر مائیکل کا تو برا حال تھا۔ کاش وہ انہیں چھو سکتا۔
"مجھے بھی آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔" مائیکل نے جواب دیا۔
خدیجہ کے یوں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے اسے شرم آ گئی اور اس نے نظریں جھکا لیں لیکن اس سے ہوا یہ کہ اس کی نظریں سیدھی خدیجہ کی پھدی پر پڑیں۔ اگرچہ بالوں سے ڈھکی ہوئی تھی لیکن اتنے قریب سے دیکھنے پر مائیکل کو اس کی اس کی پھدی کے لبوں کی ہیئت معلوم پڑ رہی تھی۔ اس نے فوراً ہی وہاں سے بھی نظر ہٹا لی کہ مبادا خدیجہ اسے اپنی پھدی گھورتے ہوئے نوٹس نہ کر لے۔ مائیکل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کرے کیا۔ پھدی سے نظریں ہٹائیں تو سیدھی مموں پر جا ٹکیں۔ خدیجہ کے نپلز اتنے سخت لگ رہے تھے دکھنے میں۔
"پرنسپل تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ تمہیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔" بلاآخر خدیجہ کو ہی ہمت کرنی پڑی اس آکورڈ سچویشن سے نکلنے کی۔
"نہیں نہیں۔ میں تو وقت سے پہلے آ گیا ہوں۔ ابھی میرا ٹائم نہیں ہوا ملاقات کا۔" مائیکل کا دل ہی نہیں کر رہا تھا جانے کا۔ پرنسپل سے ملنے سے زیادہ اسے خدیجہ کی قربت کی تمنا تھی۔
"مائیکل ، میری آنکھیں یہاں اوپر ہیں" خدیجہ کی بس ہو گئی۔
"سوری خدیجہ" مائیکل کے پاس اور کوئی جواب نہیں تھا۔ اسے اپنی ماں کی ایک اور بات یاد آ گئی۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ لڑکیوں کو گھورنا مت کیونکہ لڑکیوں کو پتہ چل جاتا ہے جب کوئی انہیں گھور رہا ہو۔ آج کیا امی کی ساری باتیں سچ ثابت ہونی ہیں۔ مائیکل نے سوچا۔
خدیجہ نے گہری سانس لی۔ اسے آنے والا وقت انتہائی کٹھن نظر آ رہا تھا۔
سانس لینے پر خدیجہ کے ممے پہلے پچکے اور پھر پھولے۔ مائیکل کی نظریں پھر سے مموں پر چلی گئیں لیکن اس نے فوراً ہی نظریں ہٹا بھی لیں۔
"کوئی بات نہیں مائیکل" خدیجہ مائیکل کی خفت بھانپ گئی تھی۔ اسے احساس ہو گیا تھا مائیکل جان بوجھ کر ایسا نہیں کر رہا تھا۔ یہ ایک لاشعوری عمل تھا۔ ویسے بھی پروگرام کے اصولوں میں ایک یہ بھی تھا کہ کسی کو بھی اپنا جسم نہ صرف دیکھنے دینا ہے بلکہ خوشی سے دکھانا ہے۔ خدیجہ کے نزدیک یہ ایک احمقانہ اصول تھا لیکن بہرحال اصول تو اصول ہی تھا۔ پروگرام میں تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ایک اصول یہ بھی تھا کہ اگر کوئی خوش اخلاقی سے آپ کو کوئی پوز بنانے کا کہے تو آپ کو ماننا ہو گا۔ نہ صرف ماننا ہو گا بلکہ بعینہ ان کی ہدایت کے مطابق پوز بنانا ہو گا ورنہ انہیں حق ہو گا کہ وہ ایک نیا پوز بنانے کا مطالبہ کر دیں۔ اختلاف رائے کی صورت میں سیکیورٹی گارڈ فیصلہ کرنے کا مجاز ہو گا۔ پروگرام کے مطابق کسی بھی فرد یا افراد کے گروہ کو یہ حق ایک بار ہی حاصل ہو گا۔
شکر ہے مائیکل نے کسی پوز کی فرمائش نہیں کی۔ خدیجہ نے سوچا لیکن ابھی تک نہیں کی تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کرے گا بھی نہیں۔ اور اگر کرے گا بھی تو خدیجہ اسے یاددہانی کروا سکتی تھی کہ جلد ہی وہ بھی خدیجہ کی طرح ننگا ہو گا لہذا فرمائش کرتے وقت خیال رکھے کہ اس سے بھی فرمائش کی جا سکتی ہے۔
"ویسے بھی کچھ ہی دیر میں تم بھی اسی کشتی کے سوار ہو گے۔" خدیجہ کے الفاظ مائیکل پر کسی بم کی گرے۔
"کیا؟؟؟"
اب مسکرانے کی باری خدیجہ کی تھی۔ بظاہر مائیکل اتنا ذہین ہونے کے باوجود اب تک یہی نہیں سمجھ پایا تھا کہ اسے یہاں کیوں بلایا گیا تھا۔ خدیجہ کو ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔
"جی ہاں۔ مجھے پرنسپل نے بتایا ہے کہ میں اور تم پروگرام کے پہلے شرکت دار ہیں۔ بلکہ پہلی تو میں ہی ہوں۔ تم دوسرے ہو۔ میرے بعد" خدیجہ نے مائیکل سے کہا۔
مائیکل پر ایک دم سے مایوسی طاری ہو گئی۔ اس کا تنا ہوا لن ڈھیلا پڑ گیا۔ یہ کیسے سچ ہو سکتا ہے۔ اس نے سوچا لیکن اتنی صبح اسے پرنسپل آفس بلانے کا اور کیا مقصد ہو سکتا تھا۔ پہلے اس نے سوچا تھا شاید سافٹ ویئر کا کوئی مسلہ ہو گا لیکن اب اسے پتہ چل گیا تھا کہ اصل بات کیا ہے۔
اتنے میں مسز ایڈورڈز جو اپنے شیشے کے کیبن سے خدیجہ اور مائیکل کو دیکھ رہی تھیں، باہر آ گئیں اور انہیں مخاطب کر کے کہنے لگیں: "میں دیکھ رہی ہوں آپ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو جان رہے ہیں۔ آج کا دن آپ دونوں کیلئے انتہائی یادگار اور پر لطف ثابت ہو گا۔"
خدیجہ نے رخ مسز ایڈورڈز کی جانب کیا اور طنز کا اظہار کیا: "اوہ کیوں نہیں مسز ایڈورڈز ۔ ضرور ایسا ہی ہو گا "
مسز ایڈورڈز خدیجہ کے لہجے میں چھپے طنز کو بھانپ گئیں لیکن انہیں برا نہیں لگا کیونکہ ان کے اپنے بچے بھی اتنی ہی عمر کے تھے اور وہ سمجھ سکتی تھیں کہ اس عمر میں بچے ایسے ہی کرتے ہیں۔ جب بھی وہ اپنے بچوں کو کوئی کام کہتیں تو پہلے بیزاری کا اظہار ہوتا لیکن جب کام کرنے لگتے تو دلچسپی بڑھ جاتی۔ انہیں یقین تھا خدیجہ کا طنز بس تب تک ہی ہے جب تک وہ عملی طور پر اس کے اثرات دیکھ نہیں لیتی۔
مسز ایڈورڈز نے آگے بڑھ کر آہستگی سے مائیکل کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور اسے پرنسپل آفس کی طرف آہستہ سے دھکیلا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا: "ایک دن آپ دونوں اس دن کو یاد کریں گے۔ کاش ہمارے زمانے میں بھی یہ پروگرام ہوتا۔"
اس کے بعد مائیکل پرنسپل آفس میں داخل ہو گیا.
جاري