شریف بہن اور بھائی
قسط 40
سارا لن اندر ڈال دو۔۔۔ پھر ناز نے اپنا منہ نیچے کیا اور گانڈ تھوڑی اور باہر نکال دی۔۔۔ میں نے کافی سارا تیل اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر پھینکا۔۔۔ اور وہیں آہستہ سے ملتے ہوئے ایک زور کا گھر مارا اور پورا لن گانڈ کے اندر اتار دیا۔۔۔ ناز کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔۔۔
میں سہم کر وہیں رک گیا اور کوئی حرکت نہ کی کیونکہ اس ٹائم وہ واقعی شدید تکلیف میں مبتلا تھی۔۔۔ پانچ منٹ بعد جب آہستہ آہستہ وہ پر سکون ہو گئی تو بولی آج تو آپ نے مجھے مار ہی ڈالا۔ ابھی بھی بہت درد ہو رہی ہے لیکن آپ آہستہ سے آگے پیچھے ہلنا شروع کرو۔۔۔ میں بڑی احتیاط سے لن کو اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ کوئی پانچ منٹ تک میں بڑے پیار سے لن کو گانڈ میں اندر باہر کرتا رہا تا کہ ناز کو زیادہ تکلیف نہ ہو ۔۔۔ جب گانڈ میں لن کافی حد تک رواں ہو گیا۔۔۔ تو ناز نے کہا ساگر تھوڑا تیزی سی کرواب درد پہلے سے بہتر ہے۔۔۔ یہ سن کر میں نے اپنے جھٹکے تیز کر دیے ۔۔۔ ناز کی گانڈ بہت زیادہ ٹائٹ تھی اس کی گانڈ نے میر الن مضبوطی سے اندر جھکڑ کر رکھا ہوا تھا۔۔۔ لن پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا۔۔۔
ناز کے منہ سے اب لذت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں۔۔۔ آو۔ اوہ آو۔ اوہ اوہ آہ آہ میں دھکے پر دھکا لگا رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنا لن باہر نکالا اور ناز کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ لیں اور ایک جھٹکے میں سارا لن اس کی گانڈ میں اتار دیا ۔۔۔ ناز ایک دفعہ پھر چینچ کر بولی۔۔۔ آرام سے مجھے جان سے مارنا ہے کیا۔۔۔ میں نے اب گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ ناز کی پھدی میں موجود ڈلڈو کو بھی اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ اس طرح ناز کی تکلیف بلکل ختم ہو گئی اور وہ مزے سے اپنی گانڈ ہلانے لگی۔۔۔
مجھے ناز کی گانڈ مارتے ہوئے دس منٹ سے زیادہ ٹائم ہو گیا تو میری ہمت جواب دینے لگی۔۔۔ میرا جسم اکڑتا جا رہا تھا۔۔۔ ناز نے یہ دیکھ کر میرے ہاتھ سے ڈلڈو پکڑا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے پوری شدت سے ڈلڈو اپنی پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ میں نے دو سے تین منٹ مزید گھسے مارے تو میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔۔۔ اور میرے لن نے ناز کی گانڈ میں ہی منی کی دھاریں چھوڑ دیں۔۔۔ اسی وقت ناز نے ڈلڈو نکال کر باہر پھینکا اور اپنے ہاتھ کی تین انگلیاں اپنی پھدی میں ڈال کر زور زور سے رگڑنا شروع کیا اور چند لمحوں بعد ہی اس کا جسم کانپنے لگا اور اس نے زور دار چیخ مارتے ہوئے منی چھوڑ دی۔۔۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ناز کی گانڈ میں میری منی کا سیلاب نکل آیا ہو۔ میں ناز کے اوپر ایسے ہی لیٹ گیا۔۔۔ میرا لن ابھی تک اس کی گانڈ کے اندر ہی تھا۔۔۔ کافی دیر ایسے ہیلیٹے رہنے کے بعد میں نے اپنا لن باہر نکالا اور اس کے ساتھ ہی قالین پر لیٹ گیا۔۔۔ تبھی ناز میری طرف کروٹ لے کر میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ میری جان نے آج جو مجھے مزہ اور درد دیا ہے وہ میں ساری عمر نہیں بھول سکتی۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ پتہ نہیں میں کتنے سالوں سے پیاسی تھی مگر آج اس پیاس میں تھوڑا ٹھہراؤ آیا ہے۔۔۔
ہم یوں ہی لیٹ کر باتیں کرتے رہے۔۔ پھر ناز بولی میری بنڈ میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔ میں اس کو سہارا دے کر واش روم میں لے گیا۔۔۔ گرم پانی کے ساتھ اس کی گانڈ کو دھو کر اچھی طرح صاف کیا اور اس کی ٹکور کی۔۔۔ اس کے بعد میں نے اچھی طرح اس کی گانڈ کے سوراخ میں تیل لگا دیا اور کہا ناز اب سو جاؤ کافی ٹائم ہو گیا ہے صبح میں تمہیں درد کی گولیاں لا دوں گا۔۔ کھا لینا اس سے سارا درد منٹوں میں ختم ہو جائے گا۔۔۔ پھر میں ناز کو اٹھا کر بیڈ پر لے گیا اور وہ وہیں میرے بازوؤں میں سمٹ کر سو گئی ۔۔۔ اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو ناز اٹھ کر واش روم میں جاچکی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ناز باہر نکل آئی اس کے بالوں سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ میں بھی نہا دھو کر فریش ہو گیا۔۔ اب وہ پہلے سے کافی بہتر لگ رہی تھی۔۔۔ بہر حال ناشتہ کرنے کے بعد میں نے اسے درد کش گولیاں لا دیں اور کھانے کو بولا تا کہ درد بلکل ختم ہو جائے۔۔۔ پھر امی کو دیکھ کر اور ان کے ماتھے پر پیار کرنے کے بعد میں باجی ثمینہ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔۔ دس بجے کے قریب پھر سے مہمان آنا شروع ہو گئے۔۔۔ میں ناز کو لے کر اوپر کمرے میں چلا گیا اور ہم تیار ہو کر نیچے چلے آئے۔۔۔ ایک چھوٹی سی دعوت ولیمہ کی رسم گھر میں ہی ادا کی گئی۔۔۔ شام تک ساری رسومات سے فارغ ہو کر سب مہمان اپنے گھروں کو چلے گئے اور اسی دن باجی بھی اپنے گھر واپس چلی گئیں۔۔۔
میں نے آج کی رات بھر بھی جم کر ناز کی چدائی کی۔ یہ وہی ناز تھی جس کو میں پہلے بھی چودتا تھا لیکن بیوی بننے کے بعد چدائی کا مزہ جیسے پہلے سے دوبالا ہو گیا تھا۔۔۔ شادی کے چار دن بعد ہی پاسپورٹ بن کر آگئے اور اگلے ہی دن صبح میں ایمبیسی چلا گیا اور ویزہ اپلائی کر دیا میں امی کے سارے پیپرز اپنا اور ناز کا نکاح نامہ ہر چیز ساتھ لے گیا تھا۔۔۔ مریضہ کی کیفیت کے پیش نظر ہمیں جلد ہی ویزہ مل گیا چند دن بعد ہم لوگ امی کو لے کر لندن روانہ ہو گئے۔۔۔ جانے سے پہلے میں نے اشفاق صاحب سے رابطہ کیا تھا اور اپنی شادی بابت بتا کر ہمارے لندن ٹرانسفر ہونے کے متعلق بتایا وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنے بھائی سے کہہ کر ہسپتال کے پاس والے ایریا میں ہی ایک فلیٹ کا بند و بست کر دیا جو کہ نہایت مناسب رینٹ پر مل گیا۔۔۔
سجا سجایا اور ، ضرورت زندگی کی ہر چیز سے مزین فلیٹ بہت شاندارتھا۔۔۔ لندن پہنچنے کے اگلے ہی دن ہم امی کو لیکر ہسپتال پہنچ گئے۔۔۔ کیونکہ میں پاکستان میں سے روانہ ہونے سے پہلے ہی ڈاکٹر ز سے ساری رپورٹس ڈسکس کر چکا تھا اس لیے امی کو فوراً ایڈمٹ کر لیا گیا اور ان کے ٹیسٹ ہونے شروع ہو گئے۔۔۔ ہمیں تین دن تک ہسپتال میں رہنا پڑا ۔۔۔ تین دن بعد ڈاکٹر ز پینل کے متفقہ فیصلے کے مطابق مجھے بتایا گیا کہ امی کا علاج آپریشن کے بغیر ہی ممکن ہے لیکن یہ علاج بہت آہستہ آہستہ ہو گا۔۔۔ ڈاکٹر نے میڈیسن لکھ دی اور ہمیں ہر ہفتے چیک اپ کروانے کا کہا۔۔۔ ہم لوگ امی کو لیکر گھر ٹرانسفر ہو گئے اور باقاعدگی سے ان کی میڈیسن شروع کروادی گئی۔۔۔
اب مسئلہ تھا روز گار کا۔ حالانکہ ہمارے پاس کافی معقول رقم موجود تھی لیکن وہ کب تک ساتھ دیتی۔۔۔ اس لیے میں نے جاب ڈھونڈنا شروع کر دی۔۔۔ چند دن بعد ہی میرا اس کمپنی سے کانٹیکٹ ہو گیا جن سے میں اپنے شو روم کیلئے سامان منگواتا تھا۔۔۔ یہاں بھی اشفاق صاحب ہی کام آئے۔۔۔ انہوں نے ہی یہ کانٹیکٹ کروایا تھا۔۔۔ میں اس کمپنی کی ایک ذیلی شاخ میں مارکیٹنگ سپر وائزر کے طور پر تعینات ہو گیا۔ سیلری بہت اچھی اور پر کشش تھی۔۔۔
لندن آنے سے پہلے میں اپنا مکان اور وہاں گاؤں میں موجود زمینیں بیچنے کیلئے خالہ اور خالو کو بول آیا تھا۔۔۔ لندن آنے کے دو مہینے بعد ہی مجھے خالو کی کال آئی اور انہوں نے بتایا کہ بیٹا ایک پارٹی سے سودا ہو چکا ہے۔۔۔ اب بس پاور آف اٹارنی منتقل کرنی ہے اور رقم وصول کرنی ہے باقی سارے معاملات طے پاچکے ہیں۔۔۔ میں چند دن کی چھٹی لیکر پاکستان چلا گیا اور وہاں دو دن میں ہی سارے معاملات طے کرنے کے بعد رقم میرے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئی۔۔۔ میں نے خالہ لوگوں کے خلوص کا دل سے شکریہ ادا کیا اور وہاں سے باجی کے گھر کی طرف نکل گیا۔۔۔ جانے سے پہلے چونکہ میں باجی کو کال کر کے اپنے آنے کا مقصد بتا چکا تھا۔۔۔
اس لیے باجی نے ناظم کو بھی بلا رکھا تھا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے جیب سے چیک بک نکالی اور دو عدد چیک کاٹ کر باجی اور ناظم کے سامنے رکھ دیے۔۔۔ باجی میری طرف دیکھ رہی تھیں جبکہ ناظم سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔ تبھی میں ان سے مخاطب ہوا۔۔۔ باجی اب چونکہ میں وہاں جا چکا ہوں اور امی کا علاج بھی شروع کر دیا گیا ہے۔۔۔ امی کے علاج کیلئے اور ہمیں بھی وہاں سروائیو کرنے کیلئے رقم کی ضرورت تھی اس لیے میں سب کچھ بیچ چکا ہوں اور اب آپ کا اور ناظم کا حصہ آپ کے حوالے کرنے آیا ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر میں نے دونوں چیک اٹھائے اور ان پر دستخط کر کے باجی کے سامنے کر دیے۔۔۔
باجی چند لمحے خاموشی کے بعد بولیں۔۔۔ نہیں ساگر میرے بھائی، میرے بچے ان پیسوں کا میں کیا کروں گی۔۔۔ اور نہ ہی مجھے ان کی ضرورت ہے اوپر والے نے سب کچھ عطا کر دیا ہے۔۔۔ لیکن باجی میں نے بولنا چاہا تو باجی نے میری بات کاٹ دی۔۔۔ نہیں ساگر تم یہ واپس اٹھالو۔۔ ویسے بھی امی کا علاج کروانے اور وہاں سیٹل ہونے کیلئے تم دونوں کو ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے اس لئے میں یہ نہیں رکھ سکتی۔ باقی رہا نا ظم کا حصہ تو یہ بیٹھا نا ظم تمہارے سامنے۔۔۔ تم جانو اور وہ جانے۔۔۔ یہ کہہ کر باجی نے چیک میرے سامنے رکھا اور اٹھ کر باہر چلی گئیں۔۔۔
میں نے ناظم کی طرف دیکھا تو وہ آنکھوں میں آنسو لیے میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔ جیسے ہی مجھے اپنی طرف دیکھتے پایا۔۔۔ تو اٹھ کر کھڑا ہوا۔۔ ایک چیخ ماری اور میرے گلے لگ کر رونے لگا۔۔۔ بھائی ۔۔۔ ابو بھی چھوڑ گئے۔۔۔ آپی بھی روٹھ گئیں اب تم بھی جارہے ہو۔۔۔ میں نا سمجھی میں غلطی کر گیا۔ میرے بھائی مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں نے ناظم کی پیٹھ تھپکتے ہوئے اسے دلاسا دیا اور کہا نہیں چھوٹے میں تم سے ناراض نہیں ہوں بلکہ میں تو امی کے علاج کی خاطر یہاں سے گیا ہوں۔۔۔ تم مت ہو یار ۔۔۔ چھوٹے اگر غلطیاں کریں تو بڑے دل پر نہیں لگاتے۔۔۔
پگلے تو بھائی ہے میرا۔۔۔ لیکن بھائی یہ پیسے ان کا میں کیا کروں گا۔ ناظم اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔ تو میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا پگلے یہ پیسے تو تمہاری پڑھائی کیلئے پریشان ہیں۔۔۔ تم اپنی پڑھائی پوری کرو۔۔۔ اور اگر وہاں آنا چاہو تو بتا دینا میں کچھ نا کچھ کر کے تمہیں بلالوں گا۔۔۔ اور ناظم پھر سے میرے گلے لگ کر رو پڑا ۔۔۔ ناظم کو سمجھا بجھا کر چیک اس کے حوالے کیا اور وہاں سے نکل کر ائیر پورٹ کی طرف چل پڑا۔۔۔ لندن پہنچ کر زندگی کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ میں بھی بہنے لگا۔۔۔ امی کا علاج لگا تار جاری تھا۔۔۔ اب ان کی حالت میں پہلے کی نسبت بہتری آتی جارہی تھی۔۔۔ پہلے وہ ہر وقت آپی اور ابو لوگوں کا تذکرہ کرتی رہتی تھیں۔۔۔
اب وہ ہر وقت چپ رہتی تھیں۔۔۔ اور ہمارے مخاطب کرنے پر چونک جاتی تھیں۔۔۔ ڈاکٹر ز بہت پر امید تھے کہ اب کسی بھی وقت ان کے دماغ میں پڑی ہوئی گرہ کھل جائے گی۔ اور وہ پہلے کی طرح نارمل زندگی گزاریں گی۔۔۔ مجھے لندن آئے ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔ اس عرصے میں ہم لوگ یہاں کے لائف سٹائل میں ایڈ جسٹ ہو گئے۔ ایک دن امی کو دوائی کھلا کر سلانے کے بعد رات کے وقت ہم دونوں شاپنگ کرنے کیلئے بلکل پاس ہی ایک شاپنگ مال میں گئے۔۔۔ وہاں ہم ادھر ادھر گھوم کر اپنی ضرورت کی چیزیں نکال کر ٹرالی میں رکھ رہے تھے ۔۔۔
ناز نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بتا رہی تھی کہ فلاں فلاں چیز نکال لو ۔۔۔ چلتے چلتے اچانک میں نے اپنے بازو پر ناز کی گرفت سخت ہوتی ہوئی محسوس کی۔۔ میں نے بے ساختہ ناز کی طرف دیکھا تو وہ پتھرائی آنکھوںکے ساتھ ایک جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی نظروں کے ساتھ اپنا رخ بدلا تو وہاں موجود ایک لڑکی کو دیکھ کر میں بھی ساکت رہ گیا ۔۔۔ وقت جیسے تھم سا گیا۔ اور میں جیسے سانس لینا بھول گیا۔۔۔ ایک لڑکی ایک چھوٹے سے بچے کو اٹھائے شاپنگ مال میں داخل ہو رہی تھی۔۔۔ وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکی کوئی اور نہیں روبی آپی تھی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح آپی نے عبایا پہنا ہوا تھا۔۔ اور سر پر اسکارف تھا ۔۔۔ ہاں یہاں یورپ میں آکر اتنا فرق ضرور پڑا تھا کہ آپی نے اپنا چہرہ کھلا چھوڑا ہوا تھا۔۔۔ میں اور ناز میکانکی انداز میں آگے بڑھے اور آپی کے پاس جا کر ناز نے ایک دم آپی کہہ کر چیخ ماری اور آپی سے لپٹ گئی۔۔۔ روبی آپی جو ابھی تک ہماری موجودگی سے انجان تھیں وہ ایک دم مڑیں ۔۔۔ ناز اور مجھے اپنے سامنے دیکھ کر آپی کی آنکھیں بھی پتھر ا گئیں۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی ہم لوگ گاڑی میں بیٹھے گھر کی طرف جارہے تھے۔۔۔
جب آپی مل گئیں تو کہاں کی شاپنگ بس اسی وقت واپسی کی ٹھان لی اور چل پڑے۔۔۔ ناز نے آپی کی گود میں موجود بچے کے بارے میں پوچھا تو آپی بات گول کر گئیں اور امی کا پوچھنے لگیں۔۔۔ یہ جان کر کہ امی اس حالت میں یہاں ہیں آپی تڑپ اٹھیں اور مجھے کہنے لگیں۔۔۔ ساگر مجھے جلدی سے امی کے پاس لے چلو۔۔۔ گھر پہنچے تو امی کا کمرہ معلوم کر کے آپی سیدھا امی کے کمرے میں گئیں۔۔۔ مگر اس وقت امی سو رہیں تھیں۔۔۔ آپ نے امی کا ماتھا چوما اور باہر واپس آگئیں۔۔۔ ہم لوگ باہر صحن میں موجود صوفوں پر بیٹھ گئے ۔۔۔ تبھی میں پہلی دفعہ آپی سے مخاطب ہوا۔۔۔
آپی کیسی ہیں آپ۔۔۔ وہ چھلکتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجا کر بولیں ۔۔۔ تمہارے سامنے ہی ہوں۔ ناز آپی کی گود میں موجود بچے کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ لہجے میں بولی آپی یہ بچہ ۔۔۔ تو آپی اسے جواب دینے کی بجائے میری آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر بولیں ساگر یہ اسی حمل کا نتیجہ ہے جس کے بارے میں تم کہتے تھے اس کو ضائع کروا دو۔۔ میر ارواں رواں کانپ اٹھا۔۔ اور میں ہکلاتے ہوئے بولا۔۔۔ آپی ۔۔۔۔ آپ۔۔۔ مطلب۔۔۔ او ہو۔۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ ۔۔۔م یرا بیٹا۔۔۔ ہاں ساگر یہ تمہارا بیٹا ہے تمہارا اپنا خون۔ ہمارے پیار کی وہ کو نپل جو تم نے میرے اندر جھگائی تھی۔۔
اور میں نے اپنے بیٹے کو پکڑا اور بے ساختہ چومتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔ ناز نے بھی بچے کو ڈھیروں پیار کیا ۔۔۔ اس بچے کو اب میں اپنا بیٹا ہی لکھوں گا۔۔۔ میرا بیٹا حیرانگی سے آنکھیں کھولے ٹکر ٹکر مجھے دیکھ رہا تھا۔۔۔ حیران کن طور پر میرا بیٹا پہلی دفعہ میری گود میں آکر بلکل بھی نہیں مچلا اور سکون سے چند منٹوںمیں ہی سو گیا۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ ابھی میں اپنے پیار کی نشانی کو سینے سے لگائے اس کے لمس کو محسوس ہی کر رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے پیٹ پر کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا۔ میں نے چیک کیا تو پتہ چلا کہ میرے بیٹے نے نیند میں ہی میرے اوپر پیشاپ کر دیا۔۔ یہ دیکھ کر ناز کھلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی اب آپ مکمل باپ بن چکے ہیں۔۔۔
آپی نے بیٹے کو مجھ سے پکڑا اور بولیں لاؤ اس کو ڈائیپر پہنا دوں۔۔۔ لیکن درمیان میں سے ہی ناز نے بیٹے کو اچک لیا اور آپی کا ہینڈ بیگ اٹھاتی ہوئی لاڈ سے بولی۔ نہیں یہ میرابیٹا ہے اور میں ہی اس کی خدمت کروں گی۔۔۔ اور بیٹے کو لے کر ناز اندر کمرے میں چلی گئی۔۔۔ وہ سمجھدار تھی ہم دونوں کو اکیلے میں باتیں کرنے کا موقع دے گئی تھی۔۔۔
ہم دونوں خاموشی سے بیٹھے تھے۔۔۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد آپی نے ہی خاموشی توڑی ساگر مجھے بتاؤ نا میرے جانے کے بعد کیا کیا ہوا۔۔۔ میں نے آپی کے جانے کے بعد سے لیکر اب تک کی ساری سٹوری سنا دی ۔۔۔ یہ بھی بتا دیا کہ میں اس کا سگا بھائی نہیں ہوں۔۔۔ ساتھ ہی امی اور خالہ نجمہ کی چدائی والی وڈیو میں اپنے بارے میں ہونے والے انکشاف کے متعلق بتایا۔۔۔
لیکن ابو کی وفات اور وڈیو والا حادثہ میں چھپا گیا۔۔۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ آپی کو اس بارے میں معلوم ہو۔۔ وہ بات میں اپنے سینے میں دفن کر چکا تھا۔۔ یہ جان کر آپی بہت حیران ہوئیں کہ میں ان کا سگا بھائی نہیں ہوں۔۔۔ پھر میری اور ناز کی شادی کا سن کر آپی نے بے اختیار سر جھکا لیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلنے لگیں۔۔۔ اور میں نے باقی ساری بات پوری کی کہ کیسے ہم لوگوں نے امی کے علاج کیلئے کوششیں کیں پھر اشفاق صاحب کا آنا۔۔۔ اس ہسپتال کے متعلق بتانا۔۔۔ اور ہمارے لندن شفٹ ہونے کے بعد سے اب تک کی ساری روداد سنا کر میں خاموش ہو گیا۔۔۔
کچھ لمحے یونہی خاموشی میں بیت گئے ۔۔۔ اتنی دیر میں ناز بیٹے کو اٹھائے باہر آ گئی۔۔۔ آپی اٹھ کر کھڑی ہوئیں اور ناز کو ناز ساگر بننے پر مبارکباد دی۔۔۔ پھر ناز نے بیٹا مجھے پکڑایا اور نان سٹاپ آپی سے باتیں کرنے لگی۔۔۔ ان دونوں نے آپس میں سب گلے شکوے کیے اور دنیا جہان کی باتیں کیں۔۔۔ جبکہ میں اپنے بیٹے میں کھویا رہا۔۔۔
کوئی دو گھنٹے بعد آپی یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں کہ اچھا اب میں چلتی ہوں۔۔۔ صبح آؤں