MrJazsohanisharma

گھر میں دو جوان پھدیاں۔ قسط 4

گھر میں دو جوان پھدیاں

 

قسط 4


اور اسکے جواب میں وسیم نے جوکچھ 

کہا۔ مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا۔ میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی۔ 

وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی 

 ہے۔ کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں۔ 

ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں 

 سکتی تھی۔ میرے میاں موجود تھے ۔ اور میرے تو بچے جوان تھے۔ یعنی ۔۔۔مجھ تک پہنچنے کیلیےمیریبیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا۔

میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم۔ مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 

وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے

 کانوں میں گونج رہے تھے۔ اور میں گم 

سم بیٹھی تھی۔ کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے۔ 

وسیم۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔؟ میں تمہاری ساس ہوں۔ تمہاری بیوی کی ماں ہوں 

میں۔۔۔میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے 

 ہوئے کہا۔ 

جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں۔ لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر 

رشتے ناطے سے آزاد ہے۔ اور میں نے 

آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے 

یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے 

 کیلیے کی ہے۔ 

وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا۔ اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں 

بھرلیا۔ سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے۔ بری بات۔۔۔وسیم یہ کیا کررہے ہو۔۔؟ 

میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے۔

اگر آپ مجھے نہ ملیں۔ تو یاد رکھئے گا۔ کہ میرا اور

 شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا 

 !رہیگا۔۔۔بس۔۔۔ 

اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی۔ 

وسیم۔۔۔بات کو سمجھنے کی کوشش 

کرو۔۔۔میری گھگھی بندھ گئی تھی۔ مجھے اندازہ ہورہا تھا۔ کہ اگر داماد کی خواہش 

پوری نہ ہوئی۔ تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے۔ 

مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی۔ 

اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا۔ اور بےنیازی سے چلا

  گیا۔

اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی۔ ایک طرف داماد کی خواہش تھی۔ اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی۔ 

اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا۔ دوسری طرف بیٹی تھی۔ اگر وسیم کی 

خواہش پوری نہ ہوئی۔ تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا۔میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی۔ شوہر بیمار رہتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے 

محسوس کرتی تھی۔ میرا بھی دل تھا۔ جو 

چاہتا تھا۔ کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے۔ 

اور میری قسمت ۔۔۔کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا۔

لیکن۔۔کس روپ میں سامنے آیا تھا۔۔۔۔داماد کے۔۔۔۔؟ 

میں شش و پنج میں تھی۔ بات ایسی تھی۔ کہ کسی 

 سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ کوئی سنتا تو کیا 

  کہتا۔۔۔؟ 

لہذا۔۔یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا۔ اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ 

وسیم۔۔مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے۔ لیکن 

مجھے اس بات کی ضمانت دو ۔ کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا۔۔۔؟؟؟ 

 جی بالکل۔۔آپ اسکی فکر نہ کریں۔۔جب 

 وجہ ہی نہیں رہے گی سردمہری کی تو 

موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا 

 ہی ہے نا۔ 

وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا۔۔۔اور میں گم سم تھی۔ 

لیکن۔۔۔میری ایک شرط ہے وسیم۔۔اس بار میں نے دل کڑا کر کہا ۔

 جی کہیے۔۔۔اس کی آواز گونجی۔ 

وسیم تم کو جو کرنا ہے کرلو۔۔میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو۔۔۔لیکن صرف ایک بار۔۔تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر۔۔۔اپنی بیٹی کی 

خاطر۔۔بس۔۔دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نا۔۔۔اب تم بھی میری بات یہ بات مانو۔۔۔ 

اور اتنا ہی کہہ کر رسیور فون پر رکھ کر 

میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی۔ آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے۔دو دن گزر چکے تھے۔۔ مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے۔ 

اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے۔۔وہ تو کرنا ہی ہے۔۔سو داماد سے دریافت کیا جائے۔ کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟

وسیم کو فون لگا چکی تھی میں۔۔تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا۔ 

جی جناب۔۔۔کہیے۔۔۔اس کی شوخ آواز 

 ابھری۔ 

 وسیممیں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری

 خواہش پوری کردی جائے۔۔میں چاہتی ہوں تم مجھ کو بتادو ۔ کب اور کہاں۔۔۔؟ 

میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں 

 کہا۔

آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نا۔۔۔ آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس۔۔ٹھیک ہے۔؟۔۔۔وہ خوش خوش بولے۔ 

لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی۔ اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ۔۔۔میں نے جل کر کہا۔

جینہیں۔۔بات یہ ہے۔ کہ شازیہ کل گیارہ 

بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس 

جارہی ہیں۔ اور میں گھر پر بالکل اکیلا ہی 

 !ہونگا۔۔

 اس نے پوری بات بتائی۔ 

اوہ۔۔۔اچھا ٹھیک ہے۔ شازیہ کے نکلتے ہی 

مجھے کال کرکے بتادینا۔۔۔میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی۔

 اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا۔ 

اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی۔ نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی۔ میں بالکل ٹھیک نظر آرہی تھی۔ظاہر ہےکہ میںجو کام کرنے کیلیے جارہی 

تھی۔ وہ غلط تھا۔ مگر میں مجبور تھی۔ اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا۔

اور آٓدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے 

سامنے تھی۔بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی۔ اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا۔ وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا۔ میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ 

وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا۔ جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا۔ 

اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا۔ کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔؟ 

اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا۔ اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا۔ اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے۔ اب وہ 

میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا۔ 

وسیم۔۔تم کو میری بات یاد ہے نا۔میں نے ایک لمحے کے لیے اس کو روک کر کہا۔جی۔۔۔مجھےآپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے۔اسں نے فورا ہی جوابا کہا۔۔۔اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا۔

اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے۔ 

اس نے میری قمیض اوپر کرنی شروع کی۔ میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد 

کی۔۔اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر 

کر فرش پر گر چکی تھی۔۔۔اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا۔ 

اس نے ایک ہی جھٹکے میں میرا آزاربند کھینچا۔ اور میری شلوار بھی کھولدی۔ اور یوں اب میں صرف برامیں رہ گئی تھی۔کالے رنگ کا نیٹ کا براجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے۔۔۔ وسیم مجھے ننگا دیکھ کر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے۔ اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا۔ اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو 

دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا۔ اور مجھے ایسا لگنے لگا۔ کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے 

 گررہے ہوں۔ 

اس کی زباناور ہونٹ بہت ہیگرم ہورہے تھے۔ 

 ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی۔ اور میں بستر پر بالکل چت لیٹی یہ سب 

  کروارہی تھی۔ 

 اوووووہ۔۔۔اوووووف۔۔۔۔اوووووووف۔ 

میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی۔ 

یہ جتانا چاہ رہی تھی۔ کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں۔ 

وسیمکے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا۔

ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا 

تھا۔ وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے۔ اس طرح کہ جیسے وہ 

  میرے اندر اتر چکے ہوں۔ 

اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی۔ کہ 

میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی۔ دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو۔ جو کام کرنا ہی کرنا ہے۔ تو 

پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے۔؟

میںگو مگوں کی کیفیت میںوسیم کے نیچے تھی۔ 

اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا۔ 

اوووف۔۔گلے کو چومنے اور چوسنے میں 

مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا۔

میں بے اختیار ہی سسک 

 !پڑی۔۔۔۔ہااااااااااااہ۔۔۔۔

اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے۔ اور مجھ کو محسوس ہونے لگا۔ کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں۔ وسیمچند ہی لمحوں میں گلےسے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا۔ اب وہ برا اتار 

کر میرے مموں کو چوس رہا تھا۔ وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو 

چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا۔ تو کبھی دوسرے والے کو 

 !چوستااور پہلے والے کو دباتا۔۔۔

 !اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی۔۔

جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم 

ہوچکا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی۔ انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں۔ مجھ کو لگ رہا تھا۔ کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلےہی میں اپنی شرمکو بالائے

طاق رکھ کر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی۔ 


میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت 

تھی۔ تین بچوں کی ماں تھی۔ لیکن میرے 

میاں نے مجھ کو بالکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا۔ اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی۔ اسطرح کا 

 !میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔۔

اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس 

چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا۔ اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپناپیٹ لرزتاہوا محسوس ہورہا تھا۔ 

میں "ہاں۔ اور۔ ناں " کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی۔ 

اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری 

 پھدی پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں۔ اور 

اپنے ہونٹ پھدی پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا۔۔وہ کبھی پھدی کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا۔

اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا۔ کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ۔۔۔۔اور جب ٹوٹا۔۔۔۔کیونکہ مجھےاچانکہی احساس

ہوا کہ میری پھدی نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع 

کردیا ہے۔ جو اس بات کی دلیل تھی۔ کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے۔ ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھ کر۔۔۔۔۔وسیم میری 

ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے 

میری پھدی پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان 

سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا۔ میرے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ 

اور پھر بالاآخر۔۔۔۔میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا۔میں نے اپنے دونوںہاتھوںسے وسیم کے سر کو 

 پکڑا۔ اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی پھدی کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں 

سے پرکیف آہیں نکلنے لگی۔ اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے 

گونجنے لگا۔ اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا۔

وسیم۔۔وسیم۔۔۔۔اوووہ جانوں ۔۔۔یہ کیا کررہے ہو تم۔ 

میری جان میںتو ساس ہوںتمہاری۔۔۔یہ

کیا کردیا تم نے مجھے۔۔۔میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے۔۔۔۔ 

اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع 

رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا۔

وہ دوزانو ہوکر بیٹھا۔ میرے بھاری 

چوتڑوں کو اوپر اٹھائیا۔ اور اپنی گرفت 

میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری پھدی میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا۔ 

میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا۔ اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپناسر پھنسایا ہوا۔ اور دیوانہ 

وار میری پھدی کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا۔ 

میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی۔ 

کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی۔ کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں۔ اب 

مزے میں ڈوب چکی تھی۔ بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے۔ اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں ۔ 

چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی۔ کہ اب داماد جی میری چوتمیں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا۔ 

 میں یہ سو چ کر ہی شرمائے جارہی تھی۔ میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور

 طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا۔ گیلا بھی کیا۔ وہ اس قابل ہوگئی تھی۔ کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے۔ 

وسیم نے میری پھدی چسائی روکی ۔ اور 

میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا۔ 

وسیم چودو نہ آپ مجھے۔میں نے شرمائے 

 ہوئے لہجے میں کہا۔

 پہلےآپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا۔۔۔اس نے خمار آلود لہجے میں کہا۔ 

وسیم۔۔۔نہیں نہ۔۔۔میں نے تمہارے سسر کا 

بھی کبھی نہیں چوسا۔۔۔میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا۔

 تو داماد کا چوس لیں۔۔۔کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا۔

اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا۔ کہ میں انکار نہ کرسکی۔ میں نے اپنے لبوں کو 

 کھول لیا۔اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا۔

میںزندگی میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی

تھی۔ لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا 

چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔ میں بالکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی۔ دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے۔ اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا۔ کہ 

پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے۔ ۔۔۔میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی 

لؤڑے کو چھوتے رہیں۔ میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگی۔ ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی 

رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے۔ 

وسیمبہت ہی خوش لگ رہا تھا ۔وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا۔ جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں۔ اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ 

لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بالکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا۔ لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی۔ 

کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے۔ تو میں نے انکو روک دیا۔

اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا۔ اور آہستہ آہستہ لؤڑا

  میرے حلق کے اندر تک آگیا۔

میں وہیں رک گئی۔ اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی۔ اور نتیجہ ہی ہوا۔ کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی۔ وہ مزے کے مارے بہکنے لگا۔ 

اووووووہ۔ ممی۔ممی۔۔۔یہ کیا کررہیں ہیں 

آپ۔ ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا۔ 

 وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا۔ اس کی یہ بات سن کر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا۔

وسیم ۔۔۔چلو چؤدو مجھے۔۔۔میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا

اور وسیم میرے اوپر لیٹا۔ اپنا لؤڑا میری پھدی پر رکھا۔ اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا ۔

حالانکہ میری پھدی چوسنے کی وجہ سے بالکل گیلی تھی۔ 

لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا۔ 

مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا۔ وہ پھر بھی اس قدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھ کو۔ کہ 

لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت 

 لرز کر رہ گئی۔ 

 میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی۔ 

وسیم ۔۔۔پلیز۔۔۔رسانی سے زرا۔۔پلیز۔۔۔میں نے اس کو سمجھایا۔

فکر نہ کریں۔۔ چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے۔ آپ کو صرف مزہ ملے گا۔۔اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی۔ 

اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے 

 پیچھے 

  چلانا شروع کیا۔

اور میں مزے میں ڈولنے لگی۔ لؤڑا اندر سے میری پھدی کو رگڑ رہا تھا۔ لگ رہا تھا جیسے پھدی اندر سے حرارت خارج کررہی ہے۔ دھواں چھوڑ رہی ہے۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی۔جو اس 

بات کا کھلا اظہار تھی۔ کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی۔ 

میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی۔وہ 

پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری پھدی میں

  دھکم دھکا چلا رہا تھا۔ 

میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی۔ 

وسیم۔۔۔ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو۔ 

 میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ 

جی نہیں۔۔۔آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا 

دل چاہتا ہے۔ مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ 

کشش محسوس نہیں ہوتی۔اس نے صاف الفاظ میں کہا۔

اور اس کے ساتھ ہی اس نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی۔

مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری پھدی میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو۔

میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں۔ لؤڑا میری چوت کی 

آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا۔ جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا۔ لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا 

تھا۔ کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی۔ 

وسیم چؤد رہا تھا ۔۔آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے۔ 

میں چدوارہی تھی۔ اور مزے کے مارے سسک رہی تھی۔ 

 وسیم۔۔۔ وسیم۔۔اووووہ۔۔۔اووووووووہ۔۔۔ 

نڈھال کردیا تم نے تو مجھے۔۔میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی۔ 

مجھے معلوم تھا۔۔آپ جیسی خوبصورت اور 

گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری 

 ہوجائیگی۔ 

وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ 

تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے۔ مجھے 

 میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا۔ میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی۔ 

اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی

 مجھے اپنی پھدی میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی۔ مجھ کو 

احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں۔ 

مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی۔ 

 !اووووووووووو۔۔۔اوووووووووووووو۔۔۔

میرا پوراجسم اکڑ گیا ۔ میںنے وسیم کو

اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا۔ 

میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ۔۔اورساتھ ہی 

میری پھدی نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا۔

اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ۔ 

لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا۔

میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی۔ اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا۔لگ رہا تھا کہ میرے ہوش وحواس جواب دے جائینگے۔

وسیم پلیز بس ۔۔بس کرو۔۔بس کرو ۔۔۔میں منمنائی۔ 

 آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ۔۔وہ مسلسل مجھے چودے ہی جارہا تھا۔۔

رحم کرو۔۔۔وسیم میرا دم نکل جائیگا۔۔۔اووووہ۔۔ 

 کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو۔ 

اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا۔ اور میں بالکل ہی بے سدھ ہوگئی۔اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا۔ میری اس بات پر خوشیسے پاگل ہوگیا کہکچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو۔

اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا۔ اورمجھے 

 سیدھا کرکے لٹایا۔ اور اپنا لوڑا میرے 

چہرے کے ع ین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا۔

اور بمشکل۔۔ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی۔ جو بالکل سیدھی میرے 

چہرے پر آئی۔ میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی۔ کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا

  تھا۔

 اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے

 چہرے پر اگل دی تھی۔ اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا۔ اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی 

ہوئی تھی۔مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ 

نہیں تھی۔ کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے۔

وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا۔ اور مجھ سے بولا۔ 

آپ میری ساس ہیں۔ میں نے آپکو چؤدا ہے۔ مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں۔ اوراتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم

کی طرف نہانے چلدیا۔ جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی۔ شام 6 

بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا 

آج تیسرا دن تھا۔ میں گھر کے کام چکا تھا۔ نمٹا کر تیار ہورہی تھی۔ 

میں نے وسیم کو فون لگایا۔ جی۔۔۔اس کی شوخ

 چنچل آواز آئی۔ آجاؤ وسیم تمہاری دعوت 

ہے۔۔میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی ۔ جی میں آرہا ہوں۔۔وہ بھی خوشی سے بولا۔ میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ۔۔! داماد بھی بہت خوش ہیں۔ لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں۔ کیونکہ میری 

 ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے 


جاری ہے 


*

Post a Comment (0)