زمیندار کی بیٹی
قسط 4
اس م بعد بھی میں نے بھابھی کو بہت مرتبہ چودا۔ میں نے میٹرک کر لیا اور پھر میرے ابو کی ریٹائرڈمنٹ ہوگئی اور میں بھابھی کی چوت سے محروم ہو گیا۔ اور پھر ہم نے پنڈی کے علاقے فتح جنگ میں بیس ایکڑ زمین خرید لی اور میں بطور
جاگیر دار اپنا مستقبل بنانے لگ گیا۔
ہمارے ساتھ جو ڈیرہ تھا وہ بھی ایک نوجوان زمیندار تھا میری طرح اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جب میں انکے کھیت میں گیا تو وہ لوگ کرکٹ کھیل رھے تھے مجھے دیکھ کر اس نے مجھے بھی کھیلنے کی پیشکش کی اور اپنا ہاتھ بڑھاتی ہوئی کہا؛
نام شاہد ہے مجھے نک نیم نوابزادہ سے پکارتے ہیں۔
میں نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا؛ میں ذیشان رفیق نیو گایئز ان یوئیر ویلج۔ ہم دونوں مسکرا دئیے۔
اس دن ہم لوگ شام تک کرکٹ کھیلتے رھے اور میں پہلی بار گاؤں کے کھلے میدانوں میں بھاگ ڈور کر بہت تھک گیا تھا۔ اسی لئیے ہم دونوں چلتے چلتے کھیت کی ایک پگڈنڈی پر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے
شاہد نے مجھے بولا کہ؛ آپ روز ہمارے ساتھ کھیلا کرو آپکے جلد ہی سب لوگ دوست بن جائینگے تو گاؤں کے سرسبز و شاداب کھیتوں کا دل فریب نظارہ دیکھتے ہوۓ میں بولا؛
یار میں تو بہت تھک گیا ہوں۔ آپ لوگوں کا ھی حوصلہ ہے فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ بھی اور کھیتوں کی جھاڑیوں سے گیند بھی ڈھونڈ کر لاؤ۔
شاہد میری بات کا جواب دیتے ھوۓ بولا؛
دیکھ ذیشان ادھر جو بندہ مار کھا جاتا ہے وہ سخت جان بن جاتا ہے دنیا ایویں نئ پینڈو زندگی کی فین ھوتی جارھی ہے۔
میں نے بولا؛ یار لمبی مت چھوڑا کر شاہد ایسا جو تجھے گاؤں بہت پسند ہیں۔
تو وہ دبنگ لہجے میں بولا؛ ہم پینڈو لوگ نا ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور ہماری پہچان ہماری گلی نمبر سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام سے ہوتی ہے۔ اور تم شہری لوگ ساتھ والے گھر میں میت پڑی ہوتی ہے اور دوسرے گھر میں میوزک چل رہا ھوتا ہے
میں جل کر بولا؛ بس بس میری جان آپکی بات سو فیصد درست ھے مگر ہمارے گاؤں کے تو چند گھر ہیں قریب پچاس گھر کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو سب کچھ ٹھیک ہوتا۔
میری بات سن کر شاہد بولا؛
پاگل ہمارا گاؤں چھوٹا ضرور ہے پر اس میں بسنے والے لوگوں کے دل چھوئے نہیں ہیں تم چاہتے ھو شہری کلچر کہ یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر گھومیں اور میں اپنی آنکھوں کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس بات پر میں کھلکھلا کر مسکرا دیا اور بولا
تو بڑا شرارتی ھے یار بھلا اس عمر میں یہ سب نہیں ہوگا تو پھر کب ہوگا
شام ڈھل رہی تھی اور پرندوں کی قطاریں آسمان پر رخت سفر باندھے گھونسلوں کو لوٹ رھیں تھیں بہت دلفریب منظر تھا شاہد کی پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی تھی وہ مجھے آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا؛ ذیشان کیا دیکھ رہے ہوا
تو میں بولا؛ شاید یار بلا کا حسن ھے تیرے گاؤں میں
شاہد بولا؛ ذیشان جگر ابھی تم نے حسن دیکھا ھی کب ھے
میں بولا؛ کیوں کیا ہوا
تو وہ بولا؛ وہ دیکھ
میں نے کھالے کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا تو
دو حسین لڑکیاں ہمارے طرف ھی آرہی تھیں ان کے کندھوں پر کئ تھی جو کھیتوں کو پانی لگانے کے استعمال میں آتی ھے اردو میں شاید اسے کسی بولتے ھیں
شاہد بولا؛ اس میں جو کالے سوٹ والی ہے وہ انعم شہزادی ھے اور جو اسکے پیچھے والی ہے وہ لبنیٰ شہزادی ھے چاچے شیرو کی دو ھی بیٹیاں ہیں جن کی ادھر سات ایکڑ زمیں ہے جسے اپنے باپ کیساتھ یہ بھی کاشت کرتی ہیں
میں بولا؛ واھ بھئ اب یہ کدھر جارھی ہیں
اس سے پہلے شاہد کچھ بولتا وہ دونوں ہمارے عین سر پر پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں؛ نوابزادے تم ادھر بیٹھے ہو۔ گھر نہیں جانا، چاچی نے مجھے کہا کہ اسکو جاتے ہی بھیج دو دودھ نکالنا بھینسوں کا
تو شاہد اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بولا؛ ہائے میری راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس تو لے لو دودھ بھی نکال لوں گا بھینسیں کونسا بھاگی جارہی ہیں۔
انعم شاہد کی دومعنی بات سن کر بولی؛
یہ اجنبی کون ہے
تو اس نے میرا تعارف کرواتے ہوۓ کہا؛
یہ ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا نیا کسان اور نیا باشنده اور ذیشان یہ ہمارے شیرو چاچا کی بڑی بیٹی انعم شہزادی
اور میں لبنی شہزادی۔ دوسری نے اپنا تعارف خود ہی کروا دیا
تو میں بولا؛ جی انعم ویسے آپکو ڈر نہیں لگتا اتنے رات گئے کھیتوں میں
میری بات کاٹتے ہوۓ لبنی بولی؛ آج ساڈی پانی دی واری اے اسیں پانی لان چلیاں واں۔
یعنی اسکا مطلب کہ آج ہماری کھیتوں کو پانی دینے کی باری ہے اور ٹائم پیریڈ ہے سات بجے سے نوبجے تک ہمارا باپ اکیلا ھوتا ھے اور ہم نے اپنی تعلیم مكمل کرلی ھے اور اب انہیں ریسٹ دیا ہے اور اب ہم فارمر ہیں۔ انعم نے سینے کو تان کر کہا
تو میں سوچنے لگا کہ جب کسان اتنے حسین ھوں تو گھوبھی کتنی حسین ہوگی مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر انعم شہزادی بولی؛
ذیشان صاحب آپکی زمین کدھر ہے۔
تو شاہد نے کہا؛ انعم آپکا جو سبزی والا ایکڑ ہے جس پر امرودوں کے دو پودے بھی ہیں دراصل اسکے اگلے کھیت ذیشان کے ہیں اس کا ابو ریٹائرڈ فوجی ہے اور اس کے ماموں نے اسے یہ زمیں خرید کر دی ہے جس اب ذیشان آباد کرے گا۔
انعم بولی؛ تو تم بھی آرمی جوائن کرلیتے
تو لبنی بولی؛ اسکا نشانہ کچا ہوگا اس لئے کسان بن گیا ہے چارہ
تو میں بولا؛ نشانہ تو میرا بہت پکا ہے کبھی آزما کر تو دیکھ لو۔
میری بات سن کر وہ شرما سی گی
اور انعم بولی: کاشتکاری میں اب کسانوں کو کچھ نہیں بچتا ڈی اے پی کی بوری دس هزار سے تجاوز کرگی ھے سارا اناج تو آڑھتی خرید لیتے ہیں اور دام کماتے ہیں کسان بیچارہ تو محنت ہی کرتا رہ جاتا ہے
میں بولا؛ میں ایک الگ ذہن کا بندہ ھوں دیکھنا اس فیلڈ میں بھی بہت کچھ الگ سے کروں گا میرے پاس وسیع پلان ہے۔ جس سے میں کسان کی زندگی خوشحال بنا سکتا ھوں
تو انعم بولی؛ آپکی پرفامنس بھی دیکھ لینگے
اور لبنی کو بولی؛ چل نی بم چلیئے انکی باتیں ختم نہیں ہونی۔
انعم نے اپنے ایک میں ہاتھ میں پکڑے آگے ٹارچ پکڑی ہوئی چل پڑی اس کے : پیچھے تھی اور دوسرے میں کئ پکڑے اگے چل پڑی اس کے پیچھے پیچھے ناک چڑھی لبنی اپنے ہاتھ میں چاۓ کا تھرماس پکڑ کر آگے بڑھ گئیں
انکے آگے بڑھتے ہی میں نے شاہد کو بولا؛
یار ان کو ڈر نہیں لگتا اگر سانت نکل آئے تو پھر کہا جائینگی بیچاری۔
تو شاہد بولا؛ اوہ میرے بھولے بادشاہ اس انعم نے بہت دفعہ سانپ مارے ہیں اور یہ کھیتوں میں بچپن سے ہی آرہی ہیں اسی لئیے ڈر کا تناسب بہت ہی کم رہ گیا ان کے ذہن میں۔
شاہد اپنے گھر چلا گیا اور میں اپنے گھر چلا آیا اور ان دو شہزادیوں کے بارے میں سوچتا رھا میرا دل کر رہا تھا کہ میں انکی مدد کروں مگر وہ بہت خود دار تھیں شاید مدد کی پیشکش ٹھکرا دیتیں۔
میں اس رات جلد سو گیا کیونکہ حویلی نما اس گھر میں شہر کی طرح پُرسکون رات کی سیاهی پوری طرح سے پھیل چکی تھی۔
جاری ہے