شریف بہن اور بھائی
قسط 5
وہ سب کچھ آپ مجھ پر چھوڑ دیں لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ناظم کو اعتماد میں لینے کیلئے جو کچھ ہمارے درمیان ہوا وہ سب کچھ اسے بتانا پڑے گا۔۔ آپی سے یہ باتیں کرتے ہوئے میرا لن تھوڑی سختی لے چکا تھا۔ اور پینٹ میں تنبو سا بن گیا تھا۔ آپی کچھ دیر سوچنے کے بعد بولیں۔۔۔۔
او کے ساگر جو جی میں آئے کرو میں سب کچھ تم پر چھوڑتی ہوں۔ بس جلدی کرو میں اور انتظار نہیں کر سکتی۔ یہ کہہ کر وہ کھڑی ہوئیں اور تھپڑ کے سے انداز میں ہاتھ میرے لن پر مارا۔۔ اور تکلیف سے میں ایک دم دہرا ہو گیا اور ایک آہ کے ساتھ میرے منہ سے نکلا۔ ،، بہن چود آپی ، اور وہ ہنستے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئیں۔ میں نے پیچھے سے آواز لگائی ،،،، یاد رکھنا بدلہ ضرور لوں گا، اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ بولیں دیکھا جائے گا اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میں بھی اپنے کمرے میں آ گیا۔ ناظم پہلے ہی سو چکا تھا۔ شاید اتنے دن بعد اپنے بیڈ کا سکون نصیب ہوا تھا۔ اسی لیے جلدی سو گیا تھا۔ میں بھی لیٹ گیا اور کچھ منٹوں میں ہی دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گیا۔۔۔ صبح دس بجے آنکھ کھلی۔۔ چونکہ ناظم کے سکول کی ابھی چھٹیاں ختم نہیں ہوئیں تھیں اس لیے وہ ابھی تک سو رہا تھا۔ میں واش روم چلا گیا اور واپس آ کر ناظم کو جگایا تو وہ بھی اٹھ کر واش روم چلا گیا۔۔ میں اسے جلدی نیچے آنے کا کہہ کر خود بھی نیچے چل دیا اور کھانے کی میز پر پہنچ گیا۔ تبھی امی کی آواز کچن سے آئی۔
اٹھ گیا بیٹا۔ بس تھوڑی دیر بیٹھو میں ناشتہ تیار کر کے لاتی ہوں۔۔ میں نے جواب دیا جی امی دو بندوں کا ناشتہ بنائیے گا ناظم بھی رات کو آچکا ہے بس ابھی نیچے آ رہا ہے۔ اور کیا آپی نہیں ہیں گھر میں جو آپ خود ناشتہ بنا رہی ہیں۔ ارے وہ تو صبح ہی سے یونیورسٹی چلی گئی ہے اور وہ چھوٹی لکھی بھی نانی گھر جا کر بس گئی ہے۔ نہ کھانا بنانا سیکھتی ہے اور نا ہی سینا پرونا۔۔ امی کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں بھی جواب میں ہوں ہاں کرتا رہا۔
کچھ دیر میں ناشتہ بھی بن گیا اور ناظم بھی نیچے آچکا تھا۔ امی سے پیار لی کر ناظم بھی ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتہ ختم کرنے کے بعد ناظم نے امی کو کچن میں مصروف دیکھ کر ٹراؤزر کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا اور بولا ، چلو نا بھائی بہت دن ہو گئے ،، اور ساتھ ہی میرا لن دبا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں اوپر جا رہا ہوں تم بھی تھوڑی دیر بعد آ جانا۔
جب ناظم اوپر کمرے میں آیا تو میں بیڈ پر لیٹا آپی کے بارے میں سوچ رہا تھا اور میر ا لن فل کھڑا تھا۔ ناظم نے میری طرف آتے ہوئے کہا کہ امی نجمہ خالہ کی طرف چلی گئیں ہیں بتا کر گئی ہیں کہ اب شام میں ہی واپس آئیں گی۔ اور ہاں بھائی امی کا موڈ بلکل ٹھیک تھا اس کا مطلب ہے آپی نے امی ابو کو کچھ بھی نہیں بتایا۔۔۔ اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔
میں نے کہا ناظم جو کچھ میں تمہیں بتانے جارہا ہوں وہ سن کر تمہارے ہوش اڑ جائیں گے۔ اور شروع سے سب کچھ بتانا شروع کیا۔ ایک گھنٹے بعد جب میں نے بات مکمل کی تو ناظم نے خوشی سے میرے اوپر چھلانگ لگائی کہ مطلب اب کوئی روک ٹوک نہیں اور یہ کہہ کر مجھے کسنگ کرنے لگا۔۔۔ آج کافی دونوں بعد ہم لوگوں نے لگاتار دو گھنٹے تک باری باری تین دفعہ ایک دوسرے کی گانڈ ماری اور لن چوسے۔۔۔ اب تھک کر بیڈ پر ننگے ہی لیٹے ہوئے تھے ۔۔
اور حلق خشک تھے۔ میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور پانی پینے چل دیا۔۔۔ اسی رات ہم دونوں کو ایمرجنسی میں پھر گاؤں جانا پڑا اور اس دفعہ آٹھ دن بعد سارا کام پکا کر کے لوٹے۔ آٹھ دن بعد ایک دفعہ پھر دوپہر کو دونوں بھائیوں نے آپس میں جم کے چدائی کی۔ اور ناظم تھک کر سو گیا تو میں پانی پینے نیچے کچن کی طرف چل دیا۔ جب میں آخری سیڑھی اتر رہا تھا تو سامنے صوفے پر آپی آدھی لیٹی اور آدھی بیٹھی حالت میں پڑی تھیں۔ آنکھیں بند تھیں
اور یونیورسٹی بیگ سامنے ہی پڑا ہوا تھا۔ آپی نے عبایا اتارا ہوا تھا اور ان کی ٹانگیں اطراف میں کھلی ہوئی تھیں شاید کالج سے آتے ہوئے گرمی سے نڈھال ہو گئیں تھیں اسی لیے ایسے پڑی تھیں۔ اچانک مجھے بدلے والی بات یاد آئی۔۔۔ اور میں سانس روک کر دبے پاؤں آپی کے پاس جا پہنچا اور اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر تھپڑ کے انداز میں زور سے آپی کی ٹانگوں کے درمیان دے مارا۔ اور وہاں سے چند قدم بھاگا لیکن یہ کیا !!!
بے دھیانی میں میرا ہاتھ آپی کی ٹانگوں کے درمیان صوفے پر پڑا تھا تبھی آپی کی بے تحاشا ہنسی سنائی دی۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں اور مجھے کہنے لگیں۔ کمینے تم نے بدلہ لے لیا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ابھی تم دوبارہ ٹرائی نہیں کر سکتے اچھا!!!۔۔۔ میں نے کہا او کے میر اوعدہ ہے دوبارہ کوشش نہیں کروں گا حساب برابر ہو گیا۔ آپی بولیں میں نے بھی ایک بات کا تم سے بدلہ لینا ہے۔۔ وہ کس بات کا میں حیران ہوا۔۔۔
وقت آنے پر بدلہ لوں گی یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا وقت ہی نا آئے یہ کہتے ہوئے آپی اپنے روم میں چلی گئیں ان کے چہرے پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی۔ میں بھی کچن میں چلا گیا اپنے لیے کافی تیار کی میز پر بیٹھ کر پی۔ اس کے بعد پانی کا جگ بھرا اور اوپر سیڑھیاں چڑھنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ آپی اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ وہ ابھی ابھی منہ ہاتھ دھو کر آئیں تھیں اور بہت پیاری لگ رہی تھیں۔
کاٹن کی سفید شلوار کے ساتھ کریم رنگ کی پرنٹڈ قمیض پہنی ہوئی تھی ساتھ میں چادر لے رکھی تھی۔ میں نے ستائشی نظروں سے دیکھا اور بولا واؤ آپی آپ کا سوٹ بہت پیارا ہے۔ آپی نے کہا ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے لو اچھی طرح سوٹ دیکھ لو۔ یہ کہہ کر انہوں نے چادر اتار دی اور بازو اٹھا کر اپنا آپ دکھانے لگیں۔ چادر ہٹتے ہی بڑے بڑے ممے میری نظروں کے سامنے تھے۔ ٹائٹ قمیض کی وجہ سے ان کے نپلز دبے ہوئے تھے۔
میں نے مموں پر نظریں گاڑے ہوئے پوچھا آپی اتنا دبا کے رکھے ہوئے ہیں برا میں تو درد نہیں ہوتا آپ کو ۔ نہیں یار اب تو عادت کی ہو گئی ہے۔ اب محسوس نہیں ہوتا لیکن جب برا پہننا شروع کیا تھا تب بڑی الجھن ہوتی تھی۔ میں نہیں پہنتی تھی تو امی سے بڑی ڈانٹ پڑتی تھی تبھی تو میں نے برا سے بچنے کیلئے چادر لینا شروع کی اب وہ بھی عادت بن گئی۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھیں اور میرے ہاتھ سے پانی کا جنگ لے کر منہ سے لگا کر پانی پیا اور جگ میرے ہاتھ میں رکھ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔
میں نے کہا آپ یہیں ٹھہریں میں پانی کمرے میں رکھ کے آتا ہوں۔۔۔ کمرے میں پہنچا تو ناظم سو چکا تھا میں نے پانی کا جگ ایک سائیڈ پر رکھا اور کمرے کو باہر سے لاک کر کے نیچے آپی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔ آپی قریبا نیم دراز تھیں۔ تو میں نے ان کے مموں پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا، پھر آپ نے برا پہننا کب شروع کی، آپی نے کہا کہ باجی کو پتہ تھا کہ میں برا نہیں پہنتی تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ ایسے برا نہیں پہنو گی تو چھاتی کی شیپ خراب ہو جائے گی اور ڈھلک جائے گی اور بریسٹ سے متعلق بہت سی موذی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔۔۔
یہاں میں باجی کا تعارف کروا دوں ہماری سب سے بڑی بہن کا نام سمینہ ہے وہ آپی سے سات سال بڑی ہیں شادی شدہ ہیں اور ملتان میں اپنے سسرال میں ہی رہتی ہیں۔ باقی تعارف ان کی انٹری پر کروایا جائے گا۔
تو اس وقت آپ کی عمر کیا تھی۔ تو آپی سوچتے ہوئے بولیں میں اس وقت تیرہ سال کی تھی۔ میں نے پوچھا آپی آپ کے دودھ کس عمر میں نکلے تھے جو تیرہ سال کی عمر میں ہی برا کی ضرورت پڑ گئی۔ آپی نے کہا کہ گلٹیاں توں دس سال کی عمر میں ہی بن گئی تھیں بارہ سال کی عمر تک شیپ بن چکی تھی اور تیرہ سال کی عمر میں یہ بلکل ڈویلپ ہو چکے تھے۔
تو کیا اتنی سی عمر میں سب کے ممے نکل آتے ہیں۔ میں نے معصومیت سے پوچھا۔ تو آپی کہنے لگیں نہیں یار ہر کسی کا مختلف ٹائم پریڈ ہوتا ہے لیکن ہمارا یہ خاندانی سلسلہ ہے باجی شمینہ اور خالہ نجمہ کے بھی تیرہ سال کی عمر میں نکل آئے تھے جبکہ نانی بتاتی ہیں کہ ان کے اپنے اور امی کے تو دس سال کی عمر میں ہی نکل آئے تھے۔ تیرہ سال کی عمر تک تو ان کے اتنے بڑے ہو گئے تھے جتنے ابھی میرے ہیں یہ کہہ کر بے اختیاری انہوں نے بازو اٹھا کر اپنے مے دکھائے پھر اچانک ان کو احساس ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھی ہیں تو جھینپ کر بازو نیچے کر لیے۔
پھر شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے بولیں کہ کیا تم امی اور ۔۔۔
نہیں نہیں میں نے ان کی بات کائی قسم لے لیں کہ آج تک کبھی بھی امی اور نانی کو ایسی نظر سے نہیں دیکھا۔۔ اچھا!!!! اس کا مطلب ہے کہ باجی ثمینہ اور خالہ نجمہ کو دیکھا ہے اس نظر سے۔ تو میں نے بے چارگی سے جواب دیا۔ آپی آپ تو جانتی ہی ہیں کہ ان کے جسم بھرے بھرے ہیں اور وہ آپ کی طرح کبھی بھی چادر نہیں لیتیں اور ہمارے سامنے تو ڈوپٹہ بھی نہیں پہنتیں سارا دن ایسے ہی گھر میں گھومتی رہتی ہیں
اوپر سے ان کے کھلے ڈھلے گلے تو کچھ نا کچھ نظر آہی جاتا ہے مسکینوں کو۔۔۔ میں اور آپی ایک ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے آپی نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر صوفے کے اوپر رکھیں اور لیٹ کر اپنا سر صوفے کے بازو پر رکھ دیا ساتھ ہی ان کی ٹانگیں تھوڑی کھل گئیں تو میں نے دیکھا کہ پھدی والی جگہ سے شلوار کا کافی سارا حصہ گیلا ہو رہا تھا پتہ نہیں آپی کو اس ٹائم کتنی گرمی چڑھی ہوئی تھی۔ آپی نے پوچھا اچھا باجی میں سب سے اچھا کیا لگتا ہے جس کو دیکھ کر تمہارا دل بار بار دیکھنے کو کرے۔
تو میں نے اپنے کھڑے لن کو ٹانگوں میں دباتے ہوئے کہا باجی کی پھدی۔۔۔۔ کیا وہ حیرت سے چلا اٹھیں۔۔ وہ تم نے کہاں سے دیکھ لی، تو میں نے کہا یاد کرو پچھلے سال ہم دس دن کیلئے ملتان باجی کے گھر رہنے گئے تھے۔ آپ باجی کے کمرے میں سو رہی تھیں اور میں ان کے دیور کے ساتھ سو رہا تھا۔ مجھے رات کو سوتے وقت پیاس لگی میں اٹھا ٹائم دیکھا تو دو بج رہے تھے۔ میں نے کچن میں جا کر پانی پیا واپس آنے لگا تو پیشاب کی طلب بھی محسوس ہوئی واش روم میں پیشاب کر رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں نے سسکیوں کی آواز سنی میں نے غور کیا تو وہ آواز واش روم کے ساتھ بیٹھک میں سے آرہی تھی۔
میں نے واش بیسن پر چڑھ کے روشن دان میں سے اندر جھانکا تو باجی صوفے پر لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے شوہر ان کی ٹانگیں اٹھا کر ان کی پھدی چاٹ رہے تھے۔۔ بس اتنا ہی دیکھ پایا تھا کہ واش روم کا دروازہ کسی نے کھولنے کی کوشش کی تو آواز پیدا ہوئی اندر باجی اور ان کے شوہر نے فٹا فٹ اپنی آواز میں کنٹرول کر لیں تھیں اور مجھے لاچار وہاں سے نکلنا پڑا۔ واش روم کے باہر باجی کی ساس کھڑی تھیں ان کو بھی واش روم جانا تھا۔ پھر جتنے دن بھی رہے لگاتار کوشش کے باوجود کچھ دیکھ نہیں پایا۔
ابھی اتنی ہی بات کی تھی کہ باہر کا دروازہ کھٹکا اور آپی فوراً گھبرا کر اٹھی اپنی قمیض سیدھی کی اور چادر اٹھا کر اپنے کمرے میں بھاگ گئیں۔ باہر سے امی اندر آئیں اور آتے ہی مجھے پانی پلانے کو بولا تو میں بڑی احتیاط سے اپنے کھڑے لن کو چھپاتا ہوا کچن میں جا کر پانی ڈالنے لگا اتنے میں آپی اپنے کمرے سے چادر میں ملبوس نکلیں اور امی کو سلام کر کے سیدھا کچن میں آئیں میرے ہاتھ سے پانی کا گلاس پکڑا اور میرے کھڑے لن کی طرف اشارہ کر کی بولی۔۔ پہلے اپنے جہاز کو تو لینڈ کرواؤ۔ اور باہر چلی گئیں میں بھی بچتا بچاتا اوپر کمرے میں پہنچ گیا کمرے کا لاک کھول کر اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ناظم واش روم میں تھا۔
چند منٹ میں ناظم واش روم سے باہر آیا تو میرا لن بھی بیٹھ چکا تھا۔ ہم دونوں ہی نیچے چلے آئے۔۔۔ ناظم نے نیچے آتے ہی امی اور آپی کو سلام کیا تبھی آپی اپنی چادر سنبھالتی ہوئی اٹھیں ناظم کے ماتھے کو چوما اور بولیں۔ کیسے ہو چھوٹے بھائی وہاں ہماری یاد تو بہت آئی ہو گی اور مزاحیہ خیز لہجے میں کہا خاص طور پر اپنے بھائی کو تو ضرور یاد کیا ہو گا۔ ناظم اس حملے سے بوکھلا گیا۔ ویسے بھی امی پاس بیٹھی تھیں اس لیے احتیاط کر رہا تھا۔ تو اس نے وہاں سے نکلنے میں ہی غنیمت جانی۔ اور اٹھ کر باہر جاتے ہوئے بولا۔ آپی اب میں بچہ تو نہیں ہوں جو اکیلے میں پریشان ہو جاؤں گا یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
تبھی امی بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں تو میں نے شعلہ بار نظروں سے آپی کو گھورتے ہوئے کہا آپی کیا پاگل ہو گئی ہو۔ ایسے طنز مت کرو ناظم پر ورنہ سب کچھ بگڑ جائے گا۔ جب آپ نے سب کام مجھ پر چھوڑا ہے تو مجھے میرے طریقے سے چلنے دیں۔
جاری ہے