گھر میں دو جوان پھدیاں۔ قسط 5

گھر میں دو کنواریاں 


قسط 5



میں اپنی جوانی کے جوبن پر تھی اور میرا حسن دیکھ کر ہر لڑکا مجھے چودنے کی خواہش کرتا تھا۔میرا نام کونپل ہے عمر 

22 سال اور میں ملتان شہر کی رہنے والی ہوں۔ ہم 2 بہنیں ہیں، بڑی بہن کا نام 

یاسمین ہے اور انکی شادی ہو چکی ہے اور میری بھی عنقریب شادی ہونے والی 

ہے۔ میرا 1 بھائی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے اور ابھی بی اے کےامتحانات دے رہا ہے۔ ۔ 

میری منگنی بھی ہو چکی ہے منگیتر کا نام رضوان ہے جواب 

اپنا بزنس چلاتے ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ 

یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر 19 سال تھی، یعنی آج سے 3 سال

پہلے۔ تب میں گورنمنٹ ڈگری کالج ملتان 

میں پڑھتی تھی جو کچہری چوک کے ساتھ واقع ہے۔ اس زمانے میں مجھ پر نئی نئی جوانی آئی تھی اور میرا حسن اپنے جوبن پرتھا۔ 34 سائز کے گول اوپر کو اٹھے ہوئے ممے ، 29 کی پتلی کمر اور 34 سائزکے میرے چوتڑ ہر دیکھنے والے کو ایک بار مٹھ مارنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ 

 کالج کا زمانہ تھا ہم لڑکیاں کالج میں آپس میں سیکس کے بارے میں بات بھی کرتی 

تھیں اورچند ایک گندی فلمیں بھی دیکھ رکھی تھیں۔ 

 میری بہن اپنے شوہر یعنی میرے بہنوئی کے ساتھ میکے رہنے کے لیے آئی تھیں۔ 

میرے بہنوئی ایک نہایت شریف اور اچھے انسان ہیں 

ہر کسی سے بہت پیار محبت اور اخلاق کے ساتھ ملنے والے ۔ اور میری بہن انکےساتھ بہت اچھی ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہے۔ یاسمین یعنی میری بہن کبھیکبھی میرے ساتھ سیکس کی باتیں بھی 

کرتی تھی اور بتاتی تھی کے اسکے میاں کیسےاسکی جم کے چودائی کرتے ہیں۔ 

میں اپنے بہنوئی کا نام ہی بتانا بھول گئی۔ 

میرے بہنو ئی کا نام قاسم ہے جو لاہور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں۔ 

ہمارا گھرانہ تھوڑا بولڈ ہے اور میں اپنے بہنوئی قاسم کے ساتھ بھی خاصی فری 

تھی۔اور ان سے رضوان کے بارے میں بھی بات کر لیا کرتی تھی۔ جب یاسمین 

قاسم کےساتھ ہمارے ہاں رہنے کے لیے آئی تو ان دنوں رضوان بھی پڑھائی کے لیے ملتان آئےہوئے تھے جو اس وقت بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھتے 

تھے۔ اسی بہانے انکوبھی گھر آکر مجھ سے ملنے کا موقع مل گیا۔ یاسمین اور 

قاسم کی موجودگی میں رضوان آتے اور ہم 

سب مل کر خوب شغل کرتے اور باہر سیر کرنے بھی جاتے۔ 

 جب رضوان یونیورسٹی میں ہوتے تو میرا رابطہ ان سے موبائل پر ہوتا تھا ہم لمبی باتیں کرتیں اور ایک دوسرے کو اپنی 

 سیکسی تصویریں بنا کر بھی بھیجتے تھے۔ 

اس دن جب یاسمین اور قاسم دونوں شاپنگ کے لیے شام کے ٹائم کینٹ چلے گئے اورامی ابو بھی گھر پر موجود نہیں

تھے تو میں نے رضوان کو کال کی اور کافی دیر ہم نے ایک دوسرے سے پیار محبت اور پھر سیکس کے بارے میں باتیں کیں۔ پھر رضوان نے مجھے کہا کہ میں انہیں کچھ سیکسی تصاویر بنا کر ایم ایم 

ایس کروں۔ میں فوراراضی ہوگئی۔ میں نے 

اپنا فیورٹ نیلے رنگ کا برا پہنا جس میں فوم بھی لگا ہوا تھا

اور وہ مموں کو اور بھی بڑا کر کے دکھاتا تھا، اسکے ساتھ اسی رنگ کی پینٹی پہنی اور اوپر سے ایک ٹائٹ شرٹ جو لمبائی میں میری ناف تک تھی اور نیچے ایک سکن ٹائٹ جینز جس میں میرے گول چوتڑ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ابھی میں تیار ہی 

ہوئی تھی کہ باہر مجھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ قاسم یعنی میرے بہنوئی کی کار 

تھی۔ مجھے اس وقت انکے واپس آنے کی بالکل خوشی نہیں ہوئی لیکن کیا کرتی 

دروازہ کھولا تو پتالگا کہ وہ اکیلے آئے 

ہیں یاسمین کو کینٹ میں اپنی کوئی پرانی دوست مل گئی تھی اور 

وہ اسکے ساتھ اسکے گھر چلی گئی تھی اس لیے قاسم جلدی واپس آگئے۔ اندر 

آکرانہوں نے میرا اوپر سے نیچے تک بغور جائزہ لیا اور پھر ہنس کر بولے رضوان کےساتھ ڈیٹ پر جانے کا تو ارادہ نہیں کیا تمہارا؟؟؟

 میں بھی ہنس دی کہ نہیں ایسی قسمت کہاں ہماری کہ اکیلے گھومنے جا سکیں باہر۔ یہ کہ کر میں کچن میں چلی گئی کہ رات کے لیے کھانے کا کچھ بندوبست 

کروں کیوں کہ تصویریں بنانا تو اب مشکل تھا اورساتھ ہی میں نے رضوان کو بھی 

میسج کر کے بتا دیا کہ آج میں تصویریں نہیں بھیج سکتی۔ 

جب میں کچن میں کام میں مصروف تھی تو قاسم کچن میں آئے اور مجھ سے پانی 

مانگا، میں نے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور خود دوبارہ چولہے کی طرف منہ کر 

کےکھانا بنانے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ 

دیر گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قاسم ابھی تک کچن میں موجود ہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی 

کھڑےتھے اور انکی نظریں میرے چوتڑوں پر تھیں 

یہ دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی 

اورشرمندگی بھی۔ خوشی اس لیے کہ مجھے اپنی خوبصورتی پر فخر ہونے لگا جس نےمیرے بہنوئی کو بھی تھوڑا بہکا دیا تھا اور شرمندگی اس لیے کہ عموماً میں گھر میں ایسا لباس نہیں پہنتی تھی اور یہ والا کچھ زیادہ ہی ٹائٹ تھا جس میں میرے جسم کے تمام ابھار بڑے واضح نظر آرہے تھے۔ میں نے قاسم کو مخاطب کر 

کے پوچھا کہ قاسم بھائی کیا ہوا؟ کچھ اور چاہیے کیا آپکو؟ وہ ایک دم چونکے اور میرے چوتڑوں سے نظریں ہٹا کر میری 

طرف دیکھ کر بولے نہیں کچھ نہیں۔ بس ایسے ہی کمرے میں اکیلا بیٹھے بور ہو رہا تھا تو سوچا کچھ دیر اپنی سالی سے گپ شپ ہی لگا لی جائے۔میں بھی مسکرا 

دی اور کہا جی ضرور۔ ہم دونوں نے باتیں شروع کر دیں ادھر اُدھر کی۔کچھ دیر بعد 

قاسم نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ان کپڑوں میں قیامت ڈھارہی ہو۔ میرا چہرہ خوشی اور شرم سے سرخ ہوگیا۔ 

 مجھے اپنی تعریف سننا بہت اچھالگتا تھا۔

پھر قاسم بولے کے رضوان تو بڑا خوش قسمت ہے جسکو تم جیسی سیکسی لڑکی


ملی ہے۔ انکے منہ سے "سیکسی" کا لفظ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی کیونکہ ہم نےپہلے کبھی ایسی بات آپس میں نہیں کی تھی۔ مگر حالت کو نارمل رکھنے کے لیے میں نے کہا کہ میری بہن بھی کچھ کم 

خوبصورت تو نہیں۔ جس پر وہ مسکرا دیے کہ ہاں تم دونوں بہنیں بہت خوبصورت ہو، مگر یاسمین اب کچھ موٹی ہو چکی ہے اور اسمیں وہ پہلے جیسی بات نہیںرہی جبکہ تم ابھی جوان ہو اور بہت خوبصورت بھی۔ یہ کہہ کر وہ میرے تھوڑا قریب آگئے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

میرے لیے یہ حیران کن بات تھی اور میں پریشان بھی ہوگئی کیونکہ قاسم کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اور اسی وقت میری 

نظر قاسم کی پینٹ پر پڑی تو وہاں ناف 

سے کچھ نیچے ایک ابھار نظر آرہا تھا۔ میں

سمجھ گئی کہ مجھے ایسے ٹائٹ کپڑوں 

 میں دیکھ 

 کر میرے بہنوئی کا لن بھی کافی ٹائٹ ہوگیا ہے۔ 

 میں تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے بولی کہ مجھے ان کپڑوں میں الجھن ہورہی ہے میں شلوار قمیض پہن کر آتی ہوں۔ مگر انہوں نے میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا اور 

کہاکہ نہیں تم ان کپڑوں میں بہت پیاری لگ رہی ہو کچھ دیر ٹھہر کر چینج کر لینا۔ میں 

اوربھی پریشان ہوگئی اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ آج میرا کنوارہ پن ختم ہو جائے گا۔

مجھے ڈرتا دیکھ کر قاسم نے اپنے اوپر تھوڑا قابو پایا اور مجھے ریلیکس کرنےکے لیے بولے کہ ڈرو نہیں تم میری بیوی نہیںسالی ہو۔ بس میں ان کپڑوںمیں تمہاری کچھ تصویریں بنا لوں پھر چینج کر لینا۔ مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ اور میں نے شکر کیا

موبائل نکال کر میری ایک تصویر بنائی۔ پہلے انہوں نے کچھ تصویریں دور سے 

بنائیں مگر پھر ایک تصویر موبائل میرے مموں کے قریب 

  کر کے انکی بھی تصویر بنا ڈالی۔

میں نے منع کیا اور کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو قاسم بولے کہ کچھ نہیں تم نے

کونسا بعد میں ایسا ڈریس پہننا ہے تو ابھی تمہاری خوبصورتی کو محفوظ کرلوں تاکہ بار بار دیکھ سکوں۔ پھر انہوں نے میرا 

منہ دوسری طرف کر کے میرے چوتڑوں کی بھی تصویر بنائی اور میں پریشان 

 کھڑی تھی کہ آخر یہ سب کیا ہورہا ہے۔ 

پھر قاسم نے میری شرٹ کا اوپر والا بٹن کھول دیا میں نے مزاحمت کرنا چاہی 

توقاسم بولے بس کچھ سیکسی تصویریں بنانی ہے تمہاری۔ انہوں نے زبردستی 

میرااوپر والا بٹن کھولا اور میرے کندھے سے شرٹ ہٹا کر میری تصویر بنائی۔ پھر دوسرےکندھے سے بھی شرٹ ہٹا دی۔ 

مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں ،

 نظریںجھکائے چپ چاپ کھڑی تھی

 میں کہ قاسم نے اپنا موبائل ٹیبل پر رکھا 

اورمیرے قریب آکر میرہ چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میرے تن بدن میں جیسے آگ 

سی لگ گئی مگر میں نے مزاحمت کرنے 

کی کوشش کی کہ قاسم بھائی یہ سب ٹھیک نہیں یہ غلط ہے۔ مگر انہوں نے دوبارہ 

اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور انکو چوسنے لگے۔ وہ بڑے پیار اور 

آہستگی کےساتھ میرے ہونٹ چوس رہے تھے ، میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش 

کی تو انہوں نےاپنا دایاں ہاتھ میری کمر پر رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ میرے ممے زور سےقاسم کے سینے میں دھنس گئے، یہ پہلا موقع تھا جب مجھے کسی مرد نے چوما تھااور مجھے اپنے گلے سے لگایا تھا۔ میں نے فلموں میں تو سب کچھ دیکھا ہوا تھا مگرکبھی کسی مرد کے اتنا قریب نہیں گئی تھی یہاں تک کہ 

 رضوان سے بھی کبھی اتنی قربت نہیں ہوئی تھی۔ 

قاسم مسلسل میرے ہونٹ چوس رہے تھے اور اب انکا ہاتھ میری کمر سے ہوتا 

ہوامیرے چوتڑوں پر جا چکا تھا۔ ٹائٹ 

جینز سے باہر نکلتے ہوئے چوتڑوں کو انہوں نےزور سے اپنے ہاتھ سے دبا لیا تھا جیسے کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہہو۔ میری ہلکی سی مزاحمت اب بھی جاری 

تھی مگر قاسم کے ہونٹوں کا لمس مجھے مدہوش کر رہاتھا۔ اب وہ اپنی زبان میرے منہ میں ڈال چکے تھے اور ہماری زبان آپس میں ٹکرا رہی تھی۔ پھر انہوں نے 

میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر زور زور سے چوسنا شروع کردیا جس نے میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میری مزاحمت بالکل ختم ہوگئی اور 

اب میں بھی کسنگ میں قاسم کا ساتھ دینے لگی۔ اور انکی زبان کو چوسنا شروعکردیا ۔ کافی دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوستے رہے کبھی قاسم کی زبان 

میرے منہ میں ہوتی تو کبھی میری زبان قاسم کے منہ میں۔ مجھے یہ سب کچھ 

اچھالگنے لگا تھا۔ پھر قاسم نے میرے 

اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں سے چوسنا

شروع کر دیا۔ قاسم کبھی اوپر والے ہونٹ کو اپنے منہ میں لیتے تو کبھی نیچے والےہونٹ کو۔ ہونٹوں سے دل بھرا تو قاسم نے میرے کندھوں کو چومنا شروع کر دیا جووہ پہلے ہی ننگے کر چکے تھے۔ پہلے تو اپنے ہونٹوں سے میرے کندھے چومتےرہے پھر زبان پھیرنا 

شروع کردی۔ جب زبان سے بھی دل نہیں بھرا تو اپنے دانت میرےکندھوں پر گاڑھ 

دیے۔ اور ساتھ میں میرے چوتڑ بھی دباتے رہے۔ پھر میری گردن پربھی یہی مشق دہرائی، ہونٹوں سے زبان سے اور دانتوں 

سے کاٹ کر میری گردن پرپیار کیا۔ جب وہ میری گردن پر زبان پھیرتے اور کاٹتے تو جیسے مجھے 240 وولٹ کا جھٹکا لگتا۔ میں تڑپنے لگی اور میرے منہ سے خود 

بخود سسکیاں نکلنے لگیں جن سے قاسم 

کو اور حوصلہ ملا اور پھر آہستہ آہستہ وہ میرے مموں تک پہنچ گئے اورمیری شرٹ اتار دی۔ شرٹ اتارنے کے بعد وہ کچھ دیر مجھے ایسے ہی دیکھتے رہےاور بولے 

کہ کونپل تم قیامت ہو یہ پتلی کمر اور بڑے بڑے ممے میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ اسکے بعد انہوں نے میری جینز کا بٹن اور زپ کھول کر میری جینز بھی اتاردی۔ اب میں صرف برا اور پینٹی میں تھی۔ 

قاسم نے مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور میری دونوں ٹانگیں 

قاسم کی کمر کے گرد تھیں۔ وہ کبھی میرے ہونٹ چوستے کبھی کندھے پر اپنی زباناور ہونٹ پھیرتے تو کبھی برا کے اوپر سے 

ہی میرے ممے چومتے۔ کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا پھر انہوں نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور خود میرےاوپر آکر میرےدائیں

ممے پر سے برا ہٹا دیا۔ میرے گول اور 

بڑے ممے دیکھ کر تو قاسم جیسےاپنے آپ میں نہیں رہے انہوں نے فورا میرے 

دوسرے ممے سے بھی برا ہٹایا اورپاگلوں کی طرح میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔ میرے نپل بہت سخت ہورے تھے جو 

قاسم نے اپنے منہ میں لیے ہوئے تھے اور ان پر زور زور سے اپنے دانتوں 

سےکاٹ رہے تھے۔ میرا ایک نپل انکے 

منہ میں تھا تو دوسرا نپل اپنے ہاتھ سے مسل رہےتھے۔ میں اس مزے کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو اس وقت مجھے آرہا تھا،میری ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں، آہ ہ ہ ہ ۔افآہ آہ آہ او یاہ۔۔۔ قاسم

آرام سے کروپلیز درد ہوتا ہے۔ قاسم بولے جان ابھی تمہیں ایسا مزہ دوں گا کہ تم ساری عمر یادرکھو گی۔ اور دوبارہ 

وحشیوں کی طرح میرے مموں کو کاٹنے لگے۔ 

میں بھی پاگل ہو چکی تھی میں نے قاسم کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور انہیں لٹا کر خودانکے اوپر بیٹھ گئی۔ جیسی ہی میں 

انکے اوپر بیٹھی مجھے اپنے نیچے ایک موٹی سی چیز کا احساس ہوا۔ میں قاسم 

کے لن کے بالکل اوپر بیٹھی تھی جس 

 سے مجھے 

سرور سا مال۔ میںنے اپنی برا کی ہککھول کر برا کو اپنے جسم سے علیحدہ کیا اور

قاسم کی شرٹ اتار کر انکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ بالوں سے بھرا ہوا سینہ مردکی شان ہوتا ہے اور قاسم کا سینہ کچھ 

 ایسا ہی تھا۔ سینے پر پیار کرتی ہوئی میں

نیچے ناف تک آئی اور قاسم کی بیلٹ کھول کر پینٹ کا بٹن اور زپ کھولی اور پینٹ اتارنے میں قاسم کی مدد کی۔ قاسم نے نیچے سفید رنگ کا انڈر ویئیر پہنا ہوا 

تھاجس میں سے لن کا تناو اور موٹائی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ 

پینٹ اتار کرمیں پھر سے قاسم کے اوپر لیٹ گئی اور ہم ایکدوسرے کو پیار 

کرنےلگے۔ ایکدوسرے کے جسم کی گرمی ہم دونوں کو بہت سکون دے رہی تھی۔ 

کبھی میں اوپر ہوتی اور قاسم نیچے تو 

کبھی قاسم اوپر اور میں نیچے۔ پھر قاسم نے اپناانڈر ویئر بھی اتار دیا اور انکا 7 

انچ کا لمبا اورموٹا لن میرے سامنے تھا۔ 

میں نےفلموں میں ایسے لن دیکھے ہوئے تھے مگر آج یہ لن دیکھ کر مجھے ڈر 

لگنے لگا کہ اتنا موٹا لن میری کنواری اور چھوٹی سی پھدی میں کیسے جائے گا؟؟ 

قاسم نے اپنالن میرے ہاتھ میں پکڑایا جو میں نے بغیر جھجک کے پکڑ لیا اور 

اسکی مٹھ مارنےلگی جیسے میں نے فلموں

  میں دیکھا ہوا تھا۔

 قاسم نے شاید 2 یا 3 دن پہلے ہی نیچے کی شیو کی تھی لن کے ارد گرد باریک 

باریک بال تھے جب میں ان باریک بالوں 

پہ ہاتھ پھیرتی تو قاسم کو بڑا مزہ آتا۔ کچھ دیر مٹھ مارنے کے بعد قاسم نےمجھے کہا کہ اب اسکو منہ میں لے کر چوسو۔ میں نے لن منہ کے قریب کیا تو مجھےاس 

سے نفرت آنے لگی اور میں نے انکار کیا۔ لن سے پانی بھی نکل رہا تھا تھوڑا اورٹوپی پوری گیلی تھی جسکی وجہ سے مجھے نفرتآ رہی تھی۔ مگر قاسم نے کہاکہ یہ بہت مزے کا ہوتا ہے یاسمین بھی 

بڑے شوق سے چوستی ہے تم بھی چوسو مزہ آئےگا۔ پھر میں نے اپنی زبان لن کی 

سائڈ پر پچھلے حصے پر پھیرا جہاں پانی نہیں تھا۔ لنکی گرمی میری زبان پے 

محسوس ہوئی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ 

میں نے لن کے نچلےحصے پر خوب زبان پھیری اور آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جانے لگی ک ہ اچانک مجھے اپنے منہ میں کچھ نمکین سے ذائقہ محسوس ہوا۔ یہ لن 

سے نکلنے والا پانی تھا جو لن کو گیلا کر 

رہا تھا اور میری زبان اس گیلے حصے تک پہنچ چکی تھی۔ 

مچھے کچھ ہی دیر میں یہ پانی اچھا لگنےلگا اور میں نے اس پر بھی زبان 

پھیرناشروع کر دی اور پھر لن کے ٹوپے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور آہستہ آہستہ 

آدھا لن میرے منہ میں تھا۔ قاسم کو میرے لن چوسنے سے شاید تکلیف بھی ہورہی تھی۔کیونکہ مجھے چوپا لگانے کا تجربہ نہیں تھا صرف فلموں میں چوپا لگاتے 

دیکھا تھا۔ قاسم نے مجھے سمجھایا کے 

دانت لن پر زور سے مت پھیرو زیادہ زبان اور ہونٹوں کا استعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور کچھ ہی دیر میں قاسم کو مزہ آنے لگا۔ 3سے 4 منٹ تک چوپا لگانے کےبعد قاسمنے میرے منہ میں اپنیسپیڈ تیز کر دی 

اور زور زور سے لن اندر باہر کرنے لگے، میں سمجھ گئی 

 کہ منی نکلنے والی ہےمیں نے لن منہ 

سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر قاسم نے مجھے بالوں سے پکڑ رکھاتھا اور 

مجھے لن باہر نہیں نکالنے دیا اتنے میں منی کا فوارہ میرے منہ میں ہی نکل گیا۔ 

منی کا ذائقہ بھی نمکین تھا اور مزیدار تھا مگر وہ بہت گاڑھی اور زیادہ مقدار میں تھی جسکی وجہ سے مجھے بہت زیادہ کھانسی آئی اور میرا چہرہ سرخ ہوگیا میراسانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔ میںنے 

ساری منی کارپٹ پر تھوک دی اور فوران 

اپنی شرٹ اٹھا کر منہ میں ڈالی اور منہ کی 

صفائی کی پھر کلی کی اور قاسم نے مجھےپانی پلایا۔ 

کچھ دیر کے بعد جب میں نارمل ہوئی تو میں نے قاسم سے پوچھا کہ یاسمین تو کہتی تھی آپ اسکی ساری رات چدائی 

کرتے ہو مگر آپ تو 5 منٹ میں ہی فارغ ہوگئے۔ یہ سن کر وہ بولے کہ یاسمین کو ماہواری ہے جسکی وجہ سے 6 دن سے چدائی نہیں کی اس لیے جلدی فارغ ہوگیا لیکن تم فکر نہیں کرو ابھی تمہاری جم کےچدائی کروں گا۔ میں نے اپنی پینٹی اتار دیاور قاسمکو دعوت دی کہ اب وہاپنی زبان سے میری پھدی چاٹیں اور مجھے 

بھی مزہ دیں۔ مگر قاسم نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے انکو پھدی کے پانی سے 

نفرت آتی ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں زور سے چلائی

 مادر چود تیرے لن سے بھی تو نفرت آتی 

 تھی 

  میں نے بھی چوسا ہے 

چل اب تو بھی میری پھدی چاٹ اور مجھے مزہ دے۔ مگر قاسم نہ مانے اور مجھےلٹا کر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور اپنی بڑی انگلی میری پھدی پر 

پھیرنےلگے۔ پہلے تو میں غصے میں 

گالیاں دیتی رہی کہ اب میری پھدی چاٹو مگر پھر آہستہ آہستہ انگلی پھرنے سے میری پھدی گیلی ہونے لگی اور مجھے 

مزہ آنے لگا۔ پھرقاسم نے اپنی آدھی انگلی میری کنواری پھدی میں ڈال دی تو میری جیسے جان ہی نکل گئی۔ مجھے انگلی جانے سے بہت تکلیف ہوئی تھی اور 

آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے قاسم 

اپنی پوری انگلی اندر ڈال چکے تھے اور انگلی سے میری چدائی کررہے تھے۔ 3 سے 4 منٹ کی چدائی کے بعد مجھے 

انگلی کا مزہ آنے لگا اور میں نےاپنی گانڈ اوپر نیچے ہلنی شروع کر دی۔ 10 منٹ تکمجھے انگلی سے چودنے کےبعدجب

انگلی روانی سے پھدی میں جانے لگی تو مزہ اور بڑھ گیا اور مجھے اپنےجسم میں عجیب سے سرور محسوس ہوا۔ میرے منہ سے مسلسل آوازیں نکل رہی تھیں 

اور مزے سے مدہوش ہو رہی تھی۔ آہ آہ آہ او و،

 یس۔۔۔ آ آ آ اف آہ آہ آہ کی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا اور ساتھ ہی میری آوازوں میں تیزی آنے لگی تو قاسم نے بھی اپنی انگلی سے میری چدائی کی سپیڈ بڑھادی اور اگلے 2 منٹ میں ہی میری چوت نےپانی چھوڑ دیا ۔ جب چوت نے پانی چھوڑا تو اس وقت جو مزہآیا وہمیںالفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ جب میں 

فارغ ہوگئی تو قاسم میری ٹانگیں کھول کر درمیان میں آگئے 

قاسم نے اپنے لن کا ٹوپہ میری پھدی کے اوپر رکھا اور آہستہ آہستہ رگڑنے لگے۔ لن کو پھدی کے اوپر دیکھ کر تو میری 

ویسے ہی پھٹ گئی کہ ایک انگلی نے اتنی تکلیف دی تو اس لن سے کیا ہوگا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے میری پھدی کے اندر لوہے کا راڈ گھسا دیا ہوا میری زور دار چیخ نکلی مگرقاسم نے فورا اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور میری چیخ کو دبا دیا۔ قاسمکا آدھا لن میریپھدیمیں

جا چکا تھا اور تکلیف کے مارے میں کسی مچھلی کی طر ح تڑپ رہی تھی اور قاسم کی 

منتیں کر رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں چدوانا۔

مگر وہ کہاں چھوڑنے والے تھے کنواری پھدی کو۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی میرے اوپرلیٹے رہے اور آہستہ آہستہ لن کو ہلانا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد جب میرا رونا بند 

ہوا توساتھ ہی ایک اور زور دار دھکا لگا اور میری کنواری چوت کو قاسم کا لن 

چیرتا ہوامکمل گہرائی میں جا چکا تھا۔ پورا کمرہ میری دبی دبی چیخوں سے گونج رہا تھا اورقاسم میرے اوپر لیٹے میرے ہونٹوںکو دبائے ہوئےتھے۔5 

منٹ تک انہوں نےپھدی میں لن کو حرکت نہیں دی، اور میرے ہونٹوں پر میرے 

گالوں پر پیار کرتے رہےساتھ میں ایک 

ہاتھ سے میرے ممے بھی دباتے رہے اور نپل کو بھی دانت سے کاٹتےرہے۔ 5 منٹ بعد آہستہ آہستہ لن کو آگے پیچھے کرنا 

شروع کیا تو میری ہلکی ہلکی سسکاریاں نکلنے لگیں، آنکھیں ابھی بھی بھیگیں 

ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے لن اندرباہر ہو 

رہا تھا میری خشک پھدی دوبارہ سے گیلی ہونے لگی۔ گیلی پھدی میں لن آسانی سے 

اندر باہر ہونے لگا اور مجھے مزہ آنے لگا۔

قاسم ابھی بھیمیرے اوپر لیٹے تھےاور لن

 میری پھدی کو چیرتا ہوا کبھی اندر جاتاتو کبھی باہر آتا یہ سلسلہ مزید کچھ دیر جار 

رہا اور میں اب چدائی کے مزے لینے لگی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنی گانڈ ہالنی 

شروع کی اور چدائی میں تھوڑی سی سپیڈ کااضافہ ہوا۔ اب قاسم کا منہ میرے ہونٹوں پر نہیں بلکے میرے مموں پر تھا، وہ 

میرےنپل بھی کاٹ رہے تھے اور ساتھ 

ساتھ اپنے موٹے اور لمبے لن سے میری گیلی پھدی کی چدائی بھی کر رہے تھے۔ 

20 منٹ کی چدائی کے بعد اب میں مکمل مزے میں تھی

 اور قاسم کا خوب ساتھ دے رہی تھی۔میری ٹانگیں تھک چکی تھیں۔میں نے قاسم و 

بتایا تو وہ خود نیچے لیٹ گئے اور مجھے اپنے اور بیٹھنے کو کہا۔ میں جب اٹھی تو 

مجھے بیڈ پر سرخ رنگ کی کوئی چیز نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر پتا لگا وہ خون تھا جو میری پھدی پھٹنے پر نکال تھا۔ 

تھوڑی دیر کو خیال آیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوامگر اس وقت تو لن کی پیا سی پھدی نے کچھ اور سوچنے نہیں دیا اور میں 

قاسم کےاوپر بیٹھ کر لن کو اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کار آہستہ آہستہ لن اندر لینے لگی۔ایک بار پھر تکلیف ہو رہی تھی مگر مجھے پتہ تھا کہ ابھی یہ تکلیف مزے میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہی ہواکچھ 

ہی دیر بعد میں قاسم کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی۔ قاسم نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں کے نیچے رکھے ہوئے تھے اور مجھے اچھلنےمیں مدد کر رہے تھے۔ 

کمرہ جو پہلے چیخوں سے گونج رہا تھا وہ اب ہمارے جسم کےٹکرانے کی آواز سے اور ہماری مزے میں ڈوبی ہوئی 

سسکاریوں سے گونج رہا تھا۔ لن کا اندر جانا اور باہر آنا مجھے بہت مزہ دے رہا 

تھا۔ پھر قاسم نے مجھے اپنے اوپرلٹا لیا ،

میرا ایک مما اپنے منہ میں لیا اور میری گانڈ

 اوپراٹھا کر خود دھکے مارنےلگےپھدی میں۔ 

اب قاسم کی سپیڈ بہت اچھی تھی اور میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔۔۔ آآ آآہ ہہ ہ ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ افُ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ زور سے 

چودو قاسم اور زور سے۔۔۔ جیسے ہی میں 

قاسم کو زور سے چودنے کا کہتی قاسم کی سپیڈ بڑھ جاتی اور میری پھدی بھی ساتھ دیتی۔ اب تک میری پھدی 2 بار اپنا پانی چھوڑ چکی تھی، مگر ابھی تک دل نہیں بھرا تھا۔اب ہم صوفے پر تھے


جاری ہے 



*

Post a Comment (0)