شریف بہن اور بھائی
قسط 9
آپی نے ڈلڈو کو اندر باہر کرتے ہوئے کہا کہ اچھا اگر یہ بات ہے تو تھوڑا اور مزہ لے لو یہ کہتے ہوئے آپی نے ڈلڈو کو اندر باہر کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے میرے ٹوں پر مساج کرنا شروع کر دیا۔ اور بولیں چلو اب دونوں مل کر ایک ساتھ ہی پیچھے کو جھٹکا مارو اور پھر ایک ساتھ ہی آگے کو جانا تا کہ ردھم نا خراب ہو۔ یہ کہتے ہوئے آپی نے اپنے ہاتھ سے ڈلڈو کو چھوڑ دیا۔۔۔
اچانک مجھے ناظم کی آوہ بھری سسکی سنائی دی میں نے گردن موڑ کر دیکھا تو آپی نے دوسرے ہاتھ سے اس کے ٹٹوں کو سہلایا تھا۔ آوہ آپی جی اف فف ف۔۔۔ ہم دونوں کو آپی کے ہاتھوں کا احساس پاگل پن دے رہا تھا۔ اور ہم دونوں تیزی سے اپنے جسموں کو آگے پیچھے کرنے لگے۔ جب ہمارا ردهم بن گیا تو آپی نے ہمارے ٹٹوں کو چھوڑا اور صوفے کی طرف جاتے ہوئے بولیں۔ اب اپنی مدد آپ کرو میں تم لوگوں کو مزہ دینے نہیں اپنا مزہ لینے ادھر آئی ہوں۔ اب ہم دونوں کی سپیڈ تھوڑی کم ہو گئی تھی۔۔
اور ہم نے آپی کے صوفے پر بیٹھتے ہی اپنی نظریں ان کی پھدی پر جما دیں جو کہ بہت گیلی ہو کر چمک رہی تھی۔ آپی نے ہماری طرف دیکھا تو مسکرا کر اپنی ٹانگیں کھول لیں اور اپنی پہلی انگلی کے ساتھ والی دو انگلیاں منہ میں لیکر اچھی طرح تھوک لگایا اور انہی دو انگلیوں کے ساتھ اپنی پھدی کا دانہ مسلنے لگیں۔ اس سین نے ہم دونوں پر جادو سا کر دیا اور ہم تیزی سے حرکت کرنے لگے۔ ہماری گانڈ میں تیزی سے آپس میں ٹکرا رہی تھیں اور ڈلڈو پورے کا پورا دونوں گانڈوں میں چھپ جاتا تھا۔ آپی نے ہماری حالت سے اندازہ لگا لیا کہ ان کی اس حرکت نے ہم دونوں کو بہت مزہ دیا ہے۔
آپی بار بار یہی حرکت کرنے لگیں اور ہم دونوں پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو چودتے رہے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے اپنے لن کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا۔
اب آپی اپنی بڑی انگلی کو اپنی پھدی میں ڈال کر انگلی سے خود کو چود رہی تھیں۔ ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اپنے نپلز کو مسلنے لگیں تو کبھی اپنی پھدی کے دانے کو چٹکی میں پکڑ کر کھینچنے اور مسلنے لگتیں۔ اب وہ بلا جھجک پلکیں جھپکائے بغیر ہماری چدائی دیکھ رہی تھیں۔ اسی دوران ہی ایک لمبی آہ کے ساتھ ناظم کے لن نے پانی چھوڑ دیا اور وہ ایک جھٹکے سے آگے ہوا اور ڈلڈو کو اپنی گانڈ سے باہر نکال لیا۔ اب آدھا ڈلڈو میری گانڈ میں تھا اور آدھا ڈلڈو ہوا میں لٹک رہا تھا۔ آپی نے یہ سین دیکھا تو ایک لذت بھری سسکی حلق سے خارج کی اور ساتھ ہی ان کا ہاتھ تیز تیز پھدی پر چلنے لگا۔
اور ساتھ ہی آپی نے اپنا سر صوفے کی پشت پر لگا کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دیکھ کر میں نے ڈلڈو اپنی گانڈ سے نکالا اور ان کے پاس جا کر ان کے سامنے ہی بیٹھ گیا میری دیکھا دیکھی ناظم بھی اٹھ کر پاس آگیا۔ آپی کی انگلی بڑی سپیڈ سے پھدی میں اندر باہر ہو رہی تھی اور ان کا ہاتھ اور
پھدی کے آس پاس کا ایریا ان کے جوس سے چمک رہا تھا۔ اچانک آپی نے اپنے سر کو صوفے کی پشت پر دبایا اور ٹانگیں کھلی رکھتے ہوئے اپنے پیر زمین پر جما کر اپنی گانڈ ہوا میں اچھال دی۔
اس طرح ان کا جسم کمان کی صورت اختیار کر گیا۔ ان کے ہاتھ پھدی اور مموں سے ہٹ کر پیٹ پر آ پہنچے۔ اب پتہ نہیں یہ ان کے حسین جسم کا نظارہ تھا۔ سیکسی ماحول کا اثر تھا یا پھر میری سگی بہن کے جسم سے نکلنے والی خوشبو کا جادو تھا کہ میں ٹرانس کی کیفیت میں آگے بڑھا آپی کے دونوں مموں کو ہا تھوں میں دبوچا اور اپنے ہونٹوں کے ساتھ ان کی پھدی کے دانے کو دبا کر چوس لیا۔ آپی کے منہ سے ایک تیز آہ ہ نکلی اور انہوں نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو دہایا اور اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگیں۔ ناظم میری اس حرکت پر شاک کی کیفیت میں منہ کھولے رہ گیا مگر نا ہی اس نے کوئی حرکت کی اور نا ہی اس کی زبان سے کوئی لفظ نکلا۔
آپی کے جسم نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور ان کے منہ سے آواز نکلی،،،،ساگر در دری، آه ،،،،، کو ،،،، اوہ ،،، میں گئی۔۔۔۔۔۔ ان کے جسم کو متواتر جھٹکے لگنے لگے اور وہ میرے منہ کو اپنی پھدی پر دباتی جا رہی تھیں۔ ان کی چوت جیسے میرے منہ میں پھڑک رہی تھی۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی پھدی کا ذائقہ چکھا تھا اور اسی لمحے مجھے پتہ چلا کہ پھدی کے پانی کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ جو ہم نمکین نمکین محسوس کرتے ہیں وہ دراصل پسینہ ہوتا ہے۔ آپی مکمل طور پر میرے منہ پر ہی ڈسچارج ہو چکی تھیں اور ان کے پانی کے چند قطرے میرے منہ میں بھی گئے تھے۔
جن کو امرت سمجھ کر میں نگل گیا۔ آپی کا جسم زرا سکون میں آیا تو ان کو ادراک ہوا کہ کیا ہو چکا ہے تو وہ ایک دم سے اپنے چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر کہنے لگیں ساگر در رد یہ تم نے کیا کر دیا یہ بہت غلط ہوا ہے اور ساتھ ہی پشیمانی کا احساس آنسو بن کر ان کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔ میں بے اختیار بولا کہ آپی جس طرح آپ کا جسم اکڑ رہا تھا مجھے لگا کہیں آپ کا نروس بریک ڈاؤن نا ہو جائے اور ویسے بھی وہ وقت کی ڈیمانڈ تھی۔ میں آپ کو یوں اپنے مموں اور پھدی کو بھنبھوڑتے دیکھ کر رہ نا سکا اور اپنی پیاری آپی کو منزل تک پہنچانے کیلئے آگے بڑھ آیا۔
یہ کہہ کر میں آگے بڑھا اور آپی کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ کر ان کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا اور دوسرا بازو ان کی ننگی کمر سے پیچھے کرتے ہوئے ان کے کندھے پر رکھ کر انہیں خود میں بھینچ لیا اور دکھی لہجے میں بولا آپی اب پلیز آپ رو مت ورنہ میں بھی رو دوں گا اور آپ تو جانتی ہیں نا کہ میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔
آپی نے سر اٹھایا تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور وہ بولیں مجھ پاگل کو پتہ ہی نہیں تھا کہ میر ابھائی مجھ سے اتنا پیار کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے مموں کو میرے سینے پر رگڑنے لگیں۔ میں نے اس وقت اپنے دل و دماغ میں آپی کیلئے شدید محبت محسوس کی اور پتہ نہیں کس جذبے کے تحت میں ان کے ہونٹوں پر جھکتا گیا اور اپنے ہونٹ آپی کے ہو نٹوں سے ملا دیے۔ ان کے ہونٹ نرم نرم تھے میں نے آپی کے اوپر والے ہونٹ کو چوسنا شروع کیا تو لگا جیسے گلاب کی پنکھڑی کو چوم رہا ہوں۔
اوپر والے ہونٹ کو چوسنے کے بعد میں نچلے ہونٹ کو چوسنے لگا تو آپی نے میرا اوپر والا ہونٹ اپنے منہ میں لے لیا اور مدہوشی کی کیفیت میں چوسنے لگیں۔ آپی نے اپنے جسم کو میرے ہاتھوں میں بلکل ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ اب آپی نے اپنی زبان کو میرے منہ میں داخل کر دیا تھا اور میں بے اختیار ان کی زبان چوستا چلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ کو آپی کے مموں پر رکھا اور ممے دباتے ہوئے بڑی نرمی سے ان کے نیل کو مسلا تو سیسیسی کی آواز آپی کے حلق سے بر آمد ہوئی اور میرے منہ میں ہی گم ہو گئی۔
میں اپنا ہاتھ آپی کے مموں پر پھیرتے ہوئے نیچے لیجانے لگا۔ جیسے ہی میں نے اپنے ہاتھ سے اپنی بہن کی پھدی کے دانے کو چھوا تو آپی نے ایک دم آنکھیں کھول دیں اور مچلتے ہوئے زور لگا کر مجھے خود سے دور کر دیا۔ اور متوحش لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔ نہیں ساگر نہیں یہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔ اور اٹھ کر فٹافٹ اپنی قمیض پہنے لگیں۔ میں نے آپی کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ پہلے ہی بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھیں۔ میں اور ناظم آپی کو کپڑے پہنتے دیکھتے رہے اور وہ چپ چاپ کپڑے پہن کر تیز تیز قدموں کے ساتھ کمرے سے نکل گئیں۔
میں اپنے اوپر چھائے نشے کو توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ آپی کے جسم کی خوشبو ابھی بھی میری سانسوں میں بسی ہوئی تھی اور میں اسے کھونا نہیں چاہتا تھا اس لیے ناظم کو سونے کا اشارہ کر کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور خود بھی لیٹ گیا۔ اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر آنکھیں بند کیے آپی کے ساتھ ہوئے کھیل کے بارے میں سوچتے ہوئے لن سہلانے لگا۔ جلد ہی میرے لن نے بھی پانی چھوڑ دیا اور مجھ میں اتنی ہمت بھی نہ رہی کہ اپنی صفائی کر سکوں اور میں اسی طرح لیٹے لیٹے نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔۔۔۔۔۔
صبح جب میری آنکھ کھلی تو دس بج رہے تھے ناظم کمرے میں موجود نہیں تھا۔ ناظم اور ناز کے سکول کھل چکے تھے میں فریش ہو کر نیچے آیا تو امی ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھیں سلام کر کے میں پاس ہی بیٹھ گیا اور روبی آپی کے متعلق پوچھا تو امی کہنے لگیں بیٹا روبی تو یونیورسٹی چلی گئی اور تمہارے چھوٹے بھائی بہن بھی سکول جاچکے ہیں۔ تم آج اپنے کالج کیوں نہیں گئے ہو اپنی پڑھائی کا بھی تھوڑا دھیان رکھو۔ امی نے ہمیشہ کی طرح سب کا ہی بتا دیا اور مجھے بھی لیکچر پلانے لگیں۔ وہ ذرا سانس لینے کو رکیں تو میں بولا امی جان ناشتہ تو دے دیں نا میں نے آج کالج لیٹ جانا تھا اسی لیے دیر سے اٹھا ہوں۔
امی فوراً کچن میں گئیں اور پہلے سے تیار شدہ ناشتے کو گرم کر کے ٹرے میں سجا کر لے آئیں۔ میں بھی ناشتہ کر کے کالج چلا گیا۔ جب کالج سے واپس آیا تو ناظلم اور ناز نانی کے گھر جانے کیلئے تیار ہو رہے تھے۔ امی ان کو کچھ سامان پکڑاتے ہوئے نصیحتیں کر رہی تھیں کہ سیدھا نانی کے گھر جانا اور کوئی آئس کریم وغیرہ کے چکر میں مت پڑنا۔۔۔۔ سن رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں۔ ان کو روانہ کرنے کے بعد امی صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی پر کوئی کو کوکنگ پروگرام دیکھنے لگیں تو میں نے کہا امی بہت بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو ہی دے دیں تو امی نے ٹی دی سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔۔۔
روبی کچن میں ہی ہے اس کو کہہ دو۔ اتنے میں کچن کے دروازے پر آپی نمودار ہوئیں اور میرے طرف دیکھ کر بولیں تم ہاتھ منہ دھو کے فریش ہو جاؤ اتنی دیر میں کھانا لگ جائے گا۔ منہ ہاتھ دھوتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ لگتا ہے آپی کی کل رات والی شرمندگی تھوڑی دھیمی پڑ چکی ہے تبھی تو وہ نارمل ہیں۔
میں ٹیبل پر پہنچا تو آپی کچن سے کھانے کی ٹرے لے کر نکلیں اور میرے سامنے رکھ کر صوفے پر امی کے پاس جا بیٹھیں اور امی سے باتیں کرنے لگیں آپی نے اس وقت چادر نہیں پہنی ہوئی تھی صرف ڈوپٹہ اور اسکارف لیا ہوا تھا۔ ان کی ٹائٹ قمیض میں سے ان کے ممے نظر آرہے تھے میں کھانا کھاتے ہوئے بار بار مموں کو دیکھنے لگا کہ آپی کی نظر مجھے پر پڑی تو انہوں نے غصیلے انداز میں امی کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہوں،، دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے کیا۔۔۔۔ امی دیکھ لیں گی۔
میں نے ایک نظر امی کی طرف دیکھا اور ان کو ٹی وی کی طرف مشغول دیکھ کر اپنے ایک ہاتھ پر کیس کی اور اسے آپی کی طرف اڑا دیا۔ آپی نے امی سے نظر بچا کر مسکراتے ہوئے میری کس کو کیچ کیا اور اپنے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگا لیا۔ میں بھی بے ساختہ مسکرا دیا۔ پھر آپی نے کھانے کی طرف اشارہ کیا اور امی سے باتیں کرنے لگیں۔ میں نے ابھی کھانا ختم کیا ہی تھا کہ امی نے حکم صادر کر دیا۔۔۔
روبی دیکھو بھائی نے کھانا ختم کر لیا ہے جاؤ اور ابھی جا کر برتن دھو دو ایسے ہی مت چھوڑ دینا بعد میں بدبو آنے لگتی ہے۔۔۔ آپی میرے پاس آئی اور جھک کر برتن اٹھانے لگی تو میں نے امی سے نظر بچا کر ہاتھ بڑھایا اور آپی کے ایک ممے کو سہلا دیا۔۔۔ آپی نے غصے سے میری طرف دیکھا اور کچن میں چل دیں۔ آپی کی مٹکتی ہوئی گانڈ دیکھ کر میرا لن سر اٹھانے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے اونچی آواز میں کہا آپی ایک گلاس پانی تو دینا تو وہ بولیں خود ہی آ کر لے لو میرے ہاتھوں پر صابن لگا ہوا ہے۔ میں اٹھ کر کچن میں گیا تو آپی واش بیسن پر جھک کر برتن دھو رہی تھیں۔
اور ان کے دونوں ہاتھ واقعی صابن سے لتھڑے ہوئے تھے۔ میں نے پیچھے سے ان کو جھکڑ کر ان کے مموں کو دبوچ لیا اور پوچھا کیا حال ہے میری سیکسی بہنا کا۔ آپی میری اس حرکت پر مچل اٹھیں اور اپنی کہنیوں سے میرے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔ ساگر اپنے کمینے پن کو قابو میں کرو امی پاس ہی باہر بیٹھی ہیں کچھ تو حیا کرو۔ میں نے اپنے ہونٹوں سے آپی کی گردن پر چومنے کے بعد کہا پیاری بہنا جی آپ کے جسم کے ہر حصے کی خوشبو مجھے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ دیکھیں میرا لن بھی کھڑا ہو چکا ہے۔۔
ساگر پلیز چھوڑو مجھے امی کسی بھی وقت آسکتی ہیں تو میں نے کہا آپی بے فکر رہو امی جان ٹی وی پر مکمل کباب کوفتے تیار کروا کر ہی اٹھیں گی اور ساتھ ہی ایک ہاتھ نیچے لیجا کر آپی کی پھدی پر رکھ دیا۔ آپی بے اختیار آگے کو جھکیں اور ان کے ساتھ ہی میں بھی آگے کو ہوا تو میر الن آپی کی گانڈ کی دراڑ میں فٹ ہو گیا۔ آپی کے منہ سے سسکی برآمد ہوئی اور وہ مصنوعی غصے سے دبی آواز میں بولیں ساگر چھوڑو مجھے ورنہ میں نے صابن سے بھرے ہاتھ تمہارے کپڑوں پر لگا دینے ہیں
لیکن نیچے سے اپنی پوزیشن نہ بدلی۔ لگا دیں آپی مجھے کیا۔۔۔ پھر امی جان کو بھی خود ہی جواب دیجئے گا اور یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے لن کو آپی کی گانڈ پر اور دبایا تو آپی نے بچنے کیلئے تھوڑا سائیڈ لینے کی کوشش کی اس کا اثر بلکل الٹا ہوا میرا تنا ہوا لن آپی کی گانڈ کے سوراخ پر فٹ ہو گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر آپی کی پھدی کے دانے پر زور سے دبایا تو میری انگلی کی ایک پور شلوار سمیت پھدی کے اندر چلی گئی اور ساتھ ہی میں نے پیچھے سے جھٹکا مارا تو آپی مچھلی کی طرح تڑپ کر میری گرفت سے نکل گئیں۔
اور میں پیچھے ریفریجریٹر سے جا ٹکرایا اور اس پر پڑے سارے برتن چھناکے سے نیچے گرے۔ اب کیا توڑ دیا ہے۔۔۔ امی باہر سے چلائیں۔ آپی نے فورا ہی جواب دیا کہ کچھ نہیں ٹوٹا امی۔ برتن دھو کر شیلف میں رکھ رہی تھی کہ ہاتھ سے پھسل کر نیچے جا گرے۔ اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو دبوچ لیا میرے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ آپی غصے سے دبی آواز میں بولیں باہر جاتے ہو یا اسے ابھی مروڑ دوں۔ اور میں معافی مانگتے ہوئے کان کو ہاتھ لگانے لگا تو آپی نے میرے لن کو چھوڑا اور مجھے کندھے سے پکڑ کر گھمایا اور میری گانڈ پر ایک لات مار کر مجھے باہر کا راستہ دکھایا اور میں ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔
امی کی طرف دیکھا تو ان کا دھیان مکمل طور پر ٹی وی کی طرف تھا ۔۔۔ میں کچھ سیکنڈ رکا اور پھر دوبارہ سے کچن میں داخل ہوا آپی پھر برتنوں میں مشغول تھی جیسے ہی میں آپی کے پاس پہنچا تو اس کو کچھ احساس ہوا تو وہ ایک دم مڑی اور اس کے مرتے ہی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ اس کے چہرے کو تھام کر اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں پر رکھے اور ایک زور دار کس کر کے باہر بھاگ گیا۔ اور آکر امی کے پاس صوفے پر بیٹھنے سے پہلے اپنے لن کو ٹانگوں میں دبا لیا۔
امی جان وہ بہاری کباب اب پروڈیوسر ہضم بھی کر چکا ہو گا اور یہ چینل والی آنٹی کچھ اور بنانے لگ پڑی ہے چوبیس گھنٹے یہ چینل چلتا رہتا ہے آپ اب بس بھی کریں تو امی نے خفگی سے مجھے دیکھا اور کہا کہ تم اور تمہارے ابو کو ہی چٹخارے دار چیزیں کھانے کا شوق ہے تم ہی لوگوں کیلئے دیکھتی ہوں۔ پھر مستی بھری ایک جمائی لیتی ہوئی اٹھ گئیں اور مجھے بولیں اچھا تم دیکھو ٹی وی میں تو سونے جا رہی ہوں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ اور میں وہیں بیٹھا چینل بدلتا رہا۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آپی میرے پیچھے آئیں اور ایک دم دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے بالوں کو زور سے پکڑ کر کھینچنے لگیں۔
افف آپی درد ہو رہا ہے پلیز میرے بالوں کو چھوڑ دیں۔ میں نے تکلیف دہ لہجے میں کہا لیکن آپی نے ایک اور جھٹکے سے بالوں کو کھینچا اور بولیں فٹافٹ معافی مانگو ورنہ جڑ سے اکھاڑ دوں گی۔ میں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آپی کی کلائیوں کو مضبوطی سے پکڑا اور بولا اچھا اچھا میں معافی مانگتا ہوں اب چھوڑیں بال۔
نہیں ایسے نہیں تم بولو۔۔۔۔ آپی جان۔۔۔۔۔۔ دوبارہ ایسی حرکت۔۔۔۔۔۔ نہیں کرو گا۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔ آپی نے ٹھہر ٹھہر کر یہ الفاظ ادا کیے۔ آپی کی بات ختم ہوتے ہی میں نے وہ الفاظ اسی طرح ان کی منشاء کے مطابق دہرا دیے۔ آپی
میرے سر کے بالوں کو ایک اور جھٹکا دیتے ہوئے بولیں اب کہو۔ پلیز ۔۔۔ پیاری آپی جی ۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ معاف۔۔۔۔ کر دیں۔ میری سوہنی بہنا پلیز مجھے معاف کر دیں میں نے یہ کہا تو آپی نے اپنی گرفت تھوڑی ڈھیلی کی لیکن میرے بال چھوڑے بنا صوفے کی سائیڈ سے گھوم کر میرے سامنے آکھڑی ہوئیں۔
میں نے بھی گرفت ڈھیلی محسوس کر کے آپی کی کلائیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ آپی ہنستی ہوئی بولیں شاباش ساگر اب تم اچھے بچے بنے ہو اور میرے بال چھوڑ کر جیسے ہی صوفے پر بیٹھنے کیلئے اپنی پیٹھ میری طرف کی۔ میں نے کھڑے ہو کر پیچھے سے آپی کو جھکڑا اور اپنی گود میں لیتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔ آپی نے میری گرفت میں آتے ہی اپنے بازو کہنیوں سے موڑ کر اپنی گردن پر رکھ لیے اور اپنے جسم کو سکوڑ کے دہری ہو کر میری گود میں گریں۔ اور دونوں بازوؤں سے اپنے مموں کو چھپا لیا۔ بولو بسنتی۔۔۔ اب تمہیں کون بچائے گا،،،
میں نے یہ کہہ کر سر جھکایا اور آپی کے گال چومنے کی کوشش کرنے لگا۔ آپی بے تحاشہ بننے لگیں اور اپنی ٹانگیں صوفے پر سیدھی کر کے اپنا منہ میرے سینے اور پیٹ کے درمیان چھپا دیا۔ میں آپی کو چومنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل گدگدی کر رہا تھا اور ان کے جسم پر اپنی گرفت بھی ڈھیلی کر دی تھی۔ آپی نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کرلی
اور دائیں ٹانگ کو موڑ کر کروٹ لی اس طرح ان کا چہرہ میرے پیٹ میں اور دھنس گیا تھا۔ ساتھ میں وہ پاگلوں کی طرح ہنستی ہوئی کہہ رہی تھیں ساگر چھوڑو مجھے ورنہ !!!!
میں ان کے پیٹ پر گدگدی کرتے ہوئے بولا ورنہ کیا ہوگا آپی جان۔ ورنہ یہ کہتے ہوئے آپی نے اپنے دانت میرے پیٹ میں گاڑ دیے اور مجھے کاٹنے لگیں۔ آہ اچھا اچھا چھوڑتا ہوں چھوڑتا ہوں یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ آپی کے جسم سے الگ کر کے ہوا میں اٹھا دیے۔ آپی نے ایک بار اور زور سے کاٹا اور دانت ہٹا لیے اور اپنا جسم بھی ڈھیلا چھوڑ دیا۔ وہ اسی طرح آدھی صوفے پر آور آدھی میری گود میں لیٹی ہوئی تھیں۔ ہنستے وقت آپی کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی اور آنکھوں کا پانی ان کے شفاف سرخ گالوں کو تر کر رہا تھا۔
آپی اب اپنی جنسی خواہشات پر قابو پا چکی تھیں تبھی انہوں نے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں دیکھا۔ میں نے ان کے گالوں پر نمی دیکھی تو بے اختیار بائیں ہاتھ سے ان کے گال صاف کر دیے۔ آپی ایک دم سنجیدہ ہو گئیں اور کہنے لگیں کہ ساگر یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں تمہارے خیال میں یہ سب ٹھیک ہے۔ آپی کی بات سن کر میرے چہرے پر بھی سنجیدگی طاری ہو گئی اور میں ان کے سر کے بالوں میں انگلیاں پھرتے ہوئے کہنے لگا۔ کیا ٹھیک ہے کیا غلط مجھے نہیں پتہ۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں جس لڑکی سے پیار کرتا ہوں وہ دنیا کے سب سے حسین اور خوبصورت لڑکی آپ ہو۔
لیکن ساگر ہم سگے بہن بھائی ہیں ہم یہ سب نہیں کر سکتے۔ یہ کوئی مزاق نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ اس کو قبول نہیں کرے گا۔ میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا کہ آپی میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ مجھے آپ سے شدید محبت ہے اور اب میں آپ کے بنا رہ نہیں سکتا۔ آپی نے جواب میں کچھ نہیں کہا بلکہ ہاتھ بڑھا کر میرے سر کے بالوں کو سنوارنے لگیں جو خراب بھی انہوں نے ہی کیئے تھے اور میں ان کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ چند لمحوں بعد وہ بولیں ساگر مجھے بھی اب یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی تمہارے بنا رہ نہیں پاؤں گی۔
اور تمہارے ساتھ ہی رہنا چاہوں گی کبھی شادی نہیں کروں گی لیکن۔۔۔۔
آپی یہ کہہ کر رکیں تو ان کے چہرے سے بے بسی اور لاچارگی ظاہر ہو رہی تھی۔ لیکن ویکن کچھ نہیں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ جو کل ابھی آیا ہی نہیں اس بارے میں سوچنے سے کیا فائدہ بس ہمیں اپنے آج کو دیکھنا ہے اور خوب پیار کرنا ہے۔ میں نے یہ جملہ کہہ کر اپنے ہونٹ بڑی نرمی سے آپی کے ہونٹوں سے جوڑ دیے۔ آپی نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور میں آپی کا نیچے والا ہونٹ چوسنے لگا اور آپی میرا اوپر والا ہونٹ چوسنے لگیں۔
اچانک کسی خیال کے تحت میں نے چونک کر اپنا سر اٹھایا تو آپی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میرے منہ سے نکلا۔۔۔۔۔ آپی۔۔۔۔امی۔۔!!!؟؟؟
جاری ہے