خدیجہ۔ قسط 9

خدجہ 



قسط نمبر 9


"میڈم میں اور مائیکل صرف دوست ہیں۔ مائیکل میرا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔" خدیجہ نے مسز رابعہ کو یہ بتانا مناسب سمجھا کیونکہ جس پینٹنگ کا مسز رابعہ نے نام لیا تھا اس سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ کوئی ایسا پوز بنوائیں گی جو گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے لئے مناسب رہے گا۔ 


مسز رابعہ کی ہنسی نکل گئی۔ 


"ارے ارے ارے خدیجہ تم کیا سمجھ بیٹھی ہو میری بچی۔ ارے ایسا کچھ نہیں۔ تم شاید سمجھ رہی ہو کہ مائیکل اور تمہیں ایک دوسرے کو چومنا ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے ۔ یہ صرف ایک آرٹسٹک پوز ہو گا۔ ٹھہرو میں تمہیں دکھاتی ہوں۔ مائیکل یہاں آؤ۔ بیٹھو یہاں۔"


انہوں نے مائیکل کو نرم و گداز صوفہ نما بنچ پر بٹھایا اور پھر خدیجہ کو اس کے بائیں جانب بٹھایا۔ 


"مائیکل اپنا دائیاں ہاتھ خدیجہ کی بائیں جانب کرو اور خدیجہ تم تھوڑا سا پیچھے ہو کر بیٹھو اور اپنا دائیاں پاؤں مائیکل کی بائیں ٹانگ پر رکھو " مسز رابعہ کی ہدایات کچھ کنفیوژ کر رہی تھیں دونوں کو۔ مسز رابعہ نے جب دیکھا کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تو وہ آگے بڑھیں اور خدیجہ کی ٹانگ اٹھا کر مائیکل کی جانگ پر رکھ دی۔


خدیجہ کو اچھا نہیں لگا کیونکہ اس سے اس کی ٹانگوں کے درمیان وقفہ بڑھ گیا تھا اور اس کی پھدی نظر آنے کا احتمال تھا۔ کلاس میں موجود کل دو لڑکوں میں سے ایک کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ اس بات کی غماز تھی کہ اسے خدیجہ کی پھدی کا دیدار ہو رہا ہے۔ یہ جیمز تھا جسے پیار سے سب جمی کہتے تھے۔ جمی اگرچہ خدیجہ کے ساتھ نہیں پڑھتا تھا لیکن کالج میں خدیجہ سے کئی مرتبہ آمنا سامنا ہوا تھا اور اسے خدیجہ ہمیشہ مغرور لگی تھی جیسے وہ کوئی بہت توپ چیز ہو اور جمی کمتر ہو اس سے۔ آج جب وہ ایسے ننگی اپنے بڑے بڑے ممے اور پھدی اس کے سامنے کھول کر بیٹھی تھی تو جمی کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔ خوشی تو اس کے لن کو بھی ہو رہی تھی جو اس کے کالج شارٹس کے اندر ایک دم سے فل کھڑا ہو گیا تھا۔ اسے ڈر تو تھا کہ کہیں کسی کو یہ ابھار نظر نہ آ جائے لیکن ڈھیلی ڈھالا نیکر پہننے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ایسے وہ اپنے ہاتھ سے لن کو چھو سکتا تھا۔ خدیجہ کی گلابی پھدی پر نظریں گاڑے، دائیں ہاتھ سے اس نے کاغذ پر ڈرائنگ بنانا شروع کی اور بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے اپنے لن کا ٹوپا مسلنے لگا۔ 


"شاباش خدیجہ۔ اب اپنا دائیاں ہاتھ مائیکل کے کندھے پر رکھو اور ایسے پوز بناؤ جیسے مائیکل تمہیں ہونٹوں پر چومنے لگا ہو۔" مسز رابعہ نے مزید ہدایات جاری رکھیں۔


کلاس میں جہاں ٹیچر کھڑی ہو کر پڑھاتی تھیں وہ جگہ باقی کلاس کے فرش سے اونچی تھی اور سٹیج نما تھی۔ اس سٹیج پر دیوار کے ساتھ وہ بنچ تھا جہاں مائیکل اور خدیجہ بیٹھے تھے۔ دیوار بالکل قریب ہونے کی وجہ سے خدیجہ کو ایسے پیچھے ہو کر بیٹھنے میں کوئی عار نہ ہوئی۔ 


"مائیکل تم تھوڑا آگے جھکو اور اپنا دائیاں ہاتھ خدیجہ کی بائیں جانگ پر رکھو۔" مائیکل نے فوراً تعمیل کی۔


"شاباش ۔ بہت خوب" مسز رابعہ بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔


مائیکل اور خدیجہ کو اس پوز میں یہی بات پسند آئی تھی کہ ان کے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے سے کلاس کے سب طلبا ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے لیکن یہ بات حقیقت تھی کہ یہ پوز ان دونوں کے جسموں کو بہت قریب لے آیا تھا۔


خاص طور پر خدیجہ کو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ اس کا دائیاں مما مائیکل کے سینے سے لگ رہا تھا اور وہ ایسے بیٹھی تھی جیسے مائیکل نہ صرف اسے ہونٹوں پر چومنے ہی والا ہو بلکہ وہ خود بھی یہی چاہتی ہو کہ مائیکل اسے سب کے سامنے چوم لے۔ اس کی دائیں ٹانگ مائیکل کی جانگ کے اوپر رکھی ہوئی تھی جس سے ٹانگیں پھیل گئی تھیں اور پوز یہ تاثر دیتا تھا جیسے خدیجہ مائیکل کو یوں ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی کو چھونے کی دعوت دے رہی ہو


اگر واقعی مائیکل کو موقع ملتا تو وہ خدیجہ کو ضرور چومتا لیکن ایسے کلاس میں پوز بنوا کر نہیں۔ اس پوز میں خدیجہ کی بے چینی واضح تھی۔ یہ بے چینی صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی خدیجہ ڈسٹرب تھی۔ مائیکل کو اس کی تیز تیز سانسیں اپنے سینے پر محسوس پر رہی تھیں۔ اسے اچھا بھی لگ رہا تھا کیونکہ سانس لینے کے ساتھ اس کا مما جو مائیکل کے سینے سے لگا ہوا تھا وہ بھی پھولتا اور پچکتا تھا۔ لیکن جب خدیجہ اندر سے خوش نہیں تھی تو ایسے مزے کا کیا فائدہ۔


دونوں کے ہونٹ اس قدر قریب ہونے پر خدیجہ یہ سوچے بنا نہ رہ سکی کہ کہیں اس کی سانس سے بو نہ آ رہی ہو۔ چیونگم چبائے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی اور اس کا دل بھی کر رہا تھا کہ ایک اور چیونگم منہ میں ڈال لے لیکن اب اس ہوز میں تو یہ ممکن نہیں تھا۔ 


"ماشاءاللہ دونوں بہت پیارے لگ رہے ہیں۔" مسز رابعہ کی آواز میں کسی ماں کی سی چھنک تھی جو اپنی بیٹی کو بوائے فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر بھیج رہی ہو۔


"انسانی جسم کا خاکہ بنانے کا اس سے اچھا موقع میسر نہیں ہو سکتا۔ کیوں بچو کیا خیال ہے ؟" اگر نارمل کلاس میں مسز رابعہ کوئی سوال پوچھتیں تو جواب میں بچے بس مردہ سی آواز میں یس میڈم کہتے تھے لیکن آج بچوں کی آواز میں بہت جوش تھا۔


"ٹھہرو میں ذرا تمہارے بال درست کر دوں۔" مسز رابعہ نے کہا۔


خدیجہ کو لگا شاید اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور مسز رابعہ انہیں درست کرنے کا کہہ رہی ہیں لیکن اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب مسز رابعہ نے قریب آ کر اپنی انگلیاں خدیجہ کی پھدی کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیں۔ 


"خدیجہ اگر آپ برا نا مانو تو میں آپ کے بالوں کو تھوڑا تراش کر تھوڑا باریک کر دوں؟" شاید مسز رابعہ نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس موقع کو پرفیکٹ بنا کر ہی دم لیں گی۔ 


خدیجہ کا چہرہ شرم سے لال بھبھوکا ہو گیا۔ ایک تو مسز رابعہ کا پوری کلاس کے سامنے یوں اس کی پھدی کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا ہی خدیجہ کیلئے بہت عجیب بات تھی اور پھر اگر پھیر ہی رہی تھیں تو یوں پوری کلاس کو یہ بتانا کیوں ضروری تھا کہ اس کی پھدی کے بال کافی گھنے ہیں۔ ٹھیک ہے سب نے دیکھ لی تھی اس کی پھدی اور سب کو پتہ بھی ہو گا لیکن پھر بھی کیا مسز رابعہ یوں اعلان کئے بغیر رہ نہیں سکتی تھیں۔ خدیجہ کو شرمندگی بھی ہو رہی تھی اور غصہ بھی آ رہا تھا۔ 


مسز رابعہ نے خدیجہ کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی اس کی پھدی کے بالوں کی تراش خراش شروع کر دی۔ 


"آپ کی پھدی بہت خوبصورت ہے۔ کیوں بچو ؟"


"یس میڈم۔" بچوں نے جواب دیا۔ سب سے بلند آواز جمی کی تھی جو اب کھل کر اپنے نیکر میں ہاتھ ڈالے لن سہلا رہا تھا۔ اس کی نظریں شروع سے ہی خدیجہ پر تھیں۔ جب مسز رابعہ مائیکل کی مٹھ مار رہی تھیں تب بھی وہ خدیجہ کو ہی گھور رہا تھا۔ یوں لن سہلانے سے اس کا لن لوہے کی طرح سخت کو گیا تھا اور اگر وہ ڈسچارج پو جاتا تو نیکر اچھا خاصہ گیلا ہونے کا خدشہ تھا لیکن جمی کو مزے لینے کے علاوہ کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ تو نظریں خدیجہ کی پھدی پر گاڑے اس کی پھدی کا ایک ایک حصہ ازبر کرنے میں مشغول تھا


جاری  ہے

*

Post a Comment (0)