ڈاکٹر ہما
قسط 9
یہ کہتے ہوئے زیب نے ہما کو آنکھ ماری اور مسکرا دی
ہما مسکرا کر بولی؛ کمی
دونوں ہنس پڑیں۔ پھر ہما باہر آئی اور اپنے شوہر کے ساتھ گھر کے لے نکل یڑی۔
ہما گیٹ تک ہی پہنچی تھی کہ اندر سے ڈاکٹر زمان تیزی سے باہر آیا اور جلدی سے ہما کے شوہر انور سے ہاتھ ملایا اور بولا؛
ڈاکٹر ہما، پلیز وہ روم نمبر 7 کے بارے میں تو بتاتی جائیں اور ایک نظر اسے دیکھ بھی لیں۔
ہما نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا اور پھر انور کی طرف دیکھنے لگی۔
انور؛ جاؤ یار دیکھ آؤ جا کر میں ویٹ کرتا ہوں۔
ہما واپس اندر چلی گئی۔ اندر جاتے ہیں جیسے ہی وہ انور کی نظروں سے اوجھل ہوئی تو زمان نے اسکا بازو پکڑا کر اسے اپنی بانہوں میں گھسیٹ لیا۔ اور اپنے ہونٹ ہما کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ اور اسکو چومنے لگا۔
ہما؛ اُووووووںںںںں ںںںںںں کیا کرتے ہو۔ یہ کیا شرارت ہے
زمان؛بس کیا کروں تم کو اسکے ساتھ جاتے ہوئے دیکھ کر برداشت نہیں ہو تو تم کو بہانے سے اندر بلا لیا۔
ہما مسکرائی؛ اے مسٹر ۔۔ ہی از مائی ہسبنڈ اس لیے اسکو مجھے لے جانے کا پورا پورا حق ہے۔
زمان ہما کے ہونٹوں کو ایک بار پھر چومتا ہو بولا؛ اور میرا حق؟؟؟
ہما نے مسکرا کر زمان کے ہونٹوں کو چوما اور بولی؛ تمہارا جو حق بنتا تھا وہ تمہیں رات کو مل گیا ہے نا۔ اور صبح کو بھی۔ پھر بھی تمہارا دل نہیں بھرا کیا؟
زمان ہما کو اپنی بانہوں میں کستے ہوئے بولا؛ ہاں نہیں بھرتا دل۔ کیا کروں اسکا؟
زیب بھی انکی طرف آئی اور انکو دیکھ کر بولی؛ ارے ڈاکٹر زمان اب جانے بھی دیں ڈاکٹر ہما کو آپ ایسے کر رہے ہیں جیسے کہ رات کو دوبارہ یہ آپکو نہیں ملیں گئیں۔
ہما اسکی بات سن کر مسکرا دی اور پھر زمان کی بانہوں سے نکل کر خود کو تھوڑا ٹھیک کیا اور باہر کی طرف چلی گئی۔
انور کار میں بیٹا ہما کا انتظار کر رہا تھا اور اسکے آتے ہی دونوں گھر کو روانہ ہو گئے۔
انور کا ذہن بھی بھی زیب کی طرف ہی تھا۔اور اسکے ساتھ بیٹھی ہوئی اسکی بیوی ہما زمان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اتنے میں اسکے موبائل پر میسج کی بیل ہوئی۔
ہما نے اپنا موبائل دیکھا تو اس پر زمان کا میسج تھا۔
پڑھا تو لکھا تھا۔ شکریہ ڈاکٹر ہما۔
ہما نے دھیرے سے مسکرا کر اسے جواب دیا۔کس بات کا؟ حالانکہ اسے پتہ تھا کہ زمان کا اشارہ کس طرف ہے۔
فوری ہی زمان کا جواب آیا۔۔ اس سب کا جو آپ نے مجھے دیا ہے۔
ہما کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔اس نے جواب دیا۔ بس بھی کر دو اب تم۔
شکر ہوا کہ انور کا دھیان ہما کی طرف نہیں تھا۔ اسکی نظروں کے سامنے تو پتلے سے کپڑے کی شرٹ میں ملبوس زیب کھڑی تھی جسکا برا بھی اسکی شرٹ کے نیچے سے جھانک رہا تھا۔ زیب کی دعوت انگیز نظریں انور کو مست کر رہی تھیں۔
ہما انور کی طرف دیکھا تو اسے کسی خیال میں کھویا ہوا دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ زیب کے بارے میں ہی سوچ رہا ہوگا۔ ہما کی نظریں انور کی گود کی طرف گئیں تو اسے وہاں اسکا لوڑے کا ابھار نظر آیا۔۔ ہم مسکرا دی۔ اور اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکا اکڑا ہو لن پکڑ لیا اور بولی؛
ہسبنڈ جی کیا بات ہے آج تو یہ صبح صبح ہی تیار ہو گیا ہے۔ آج آپکے ارادے خطرناک لگ رہے ہیں۔
انور کی تو جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ وہ جھینپ گیا۔ اور بولا؛ ہاں بس ایسے ہی
اپنی بلڈنگ پر پہنچے تو رات والا گارڈ بھی بھی ڈیوٹی پر موجود تھا اس نے دروازہ کھولا اور انور نے کار اندر داخل کر دی۔ ہما کار سے اتر گئی اور انور گاڑی پارک کرنے چلا گیا۔ کار پارک کر کے انور بھی آگیا۔
تو دونوں لفٹ کے ذریعے اوپر اپنے فلور پر آگئے۔ ہما نے جلدی سے ناشتہ بنایا اور انور اپنے آفس کے لیے نکل گیا۔
انور کے جانے کے بعد ہما کو خیال آیا کہ وہ تو نہائی بھی نہیں ہے زمان سے چدوانے کے بعد۔ ہمار مسکرائی اور ہاتھ روم کی طرف چلی گئی۔ اندر جا کر اس نے اپنے تمام کپڑے اتارے اور نہانے لگی اچھے سے اپنے جسم کو صاف کیا۔
نہا کر ہما نے اپنے لیے چائے بنائی او بیڈ پر بیٹھ کر پینے لگی۔ اور رات کے ہوئے تمام واقعات کو سوچنے گی۔ ہما اپنے اس نئے ریلیشن کو انجوائے کر رہی تھی۔ یہ حیرت کی بات تھی کہ جو کچھ اس نے پچھلی رات میں کیا تھا۔ جو بے وفائی اس نے اپنے شوہر کے ساتھ کی تھی اس پر اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔نہ ہی کئی گناہ کا احساس ہو رہا تھا۔ بلکہ اس سب کو یاد کرتے ہوئے اسے اچھا لگ رہا تھا اور اسکا ہاتھ خود سے ہی اپنی چوت پر چلا گیا، جو کہ اسے تھوڑی تھوڑی گیلی ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
ہما نے آنکھیں بند کیں اور زمان کا چہرہ اپنی نظروں کے سامنے لاتے ہوئے اپنی چوت کو سہلانے لگی۔
اُدھر ہما کے جانے کے بعد ایک ایمرجنسی مریض آیا۔ ڈاکٹر زمان اور زیب دیکھنے لگے۔ زمان چیک کر رہا تھا تو زیب بلکل اسکے قریب کھڑی تھی۔ اسکا جسم زمان سے بہت قریب تھا۔ ایک بار تو زمان کی کہنی زیب کی چھاتی سے ٹکرائی۔ مگر زیب نے کوئی بھی حرکت نہیں کی۔ بلکہ کچھ ہی دیر کے بعد خود سے آہستہ سے اپنی چھائی کو ڈاکٹر زمان کی بازو سے چھونے لگی۔ دونوں کو احساس ہو رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
مریض کے جانے کے بعد زیب نرسنگ کاؤنٹر پر کھڑی تھی کہ پیچھے سے زمان بھی وہیں آیا اور زیب کے پیچھے سے گزرتے ہوئے بے خیالی کے انداز می اپنا ہاتھ زیب کی گانڈ سے سہلا دیا۔ زیب نے چونک کر زمان کی طرف دیکھا۔ اور مسکرا دی۔ زمان بھی مسکرا دیا۔ اور آہستہ سے بولا؛ سوری
زیب؛ کوئی بات نہیں۔ ویسے آجکل آپکے ہاتھ بہت بے قابو ہو رہے ہیں۔ جہاں کوئی خوبصورت لڑکی دیکھتے ہیں تو بہکنے لگتے ہیں۔
زمان نے اسکی طرف سے اجازت دیکھتے ہوئے دھیرے سے اپنا ہاتھ اب اسکی ابھری ہوئی گانڈ پر رکھا دیا۔۔اور اسے اپنے ہاتھ میں دبوچ کر زور سے دباتا ہوا بولا؛ کیا کروں برداشت ہی نہیں ہوتا۔
زیب؛ آؤچ چ چ چ چ چ چ۔۔۔۔۔ سی ی ی ی،،،،،،،،، دھیرے نا۔
زمان نے جب زیب کو اپنے قابو میں آتے ہوئے دیکھا تو اسکا ہاتھ پکڑا اور ساتھ ہی موجود اپنے آفس میں اسے کھینچ کر لے گیا۔ زیب بھی کھل کھلا کر ہنستی ہوئی اسکے ساتھ اندر آگئی۔ اندر جاتے ہی زمان نے زیب کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔
زیب تو پہلے سے ہی زمان پر فریفتہ تھی فور ہی اس سے لپٹ گئی۔ اور خود بھی زمان کے ہونٹوں کو چومنے لگی۔ اپنی زبان کو زمان کے منہ کے اندر ڈالنے لگی۔ زمان نے اسکی زبان کو چوستے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اسکے جسم کو سہلانہ شروع کر دیا۔ زیب کی کمر پر اسکی برا کی اسٹریپس اور ہک زمان کے ہاتھوں کو محسوس ہو رہے تھے
زمان نے زیب کی شرٹ کے نیچے سے اپنا ہاتھ ڈالا اور اس کی ننگی کمر پر رکھ دیا۔ زیب ترپ اٹھی۔اور اپنے مموں کو زمان کے سینے میں گھسانے کی کوشش کرنے لگی۔ دوسرا ہاتھ زمان نے زیب کی یونیفارم کے پاجامے میں ڈالا اور اسکی ننگی گانڈ کو سہلانے لگا۔
زمان کا قد زیب سے لمبا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ اسکی گانڈ سے نیچے لے جا کر اسکی چوت کو سہلانا شروع کر دیا۔ زیب کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔
زمان بھی کبھی اسکے گالوں کو چومنے لگتا تو کبھی اسکی گوری گوری گردن کو کس کرنے لگتا۔ اسکا لوڑا ایک بار پھر سے اکڑ چکا تھا۔ اور زیب کے پیٹ سے ٹکرا رہا تھا۔ آخر زمان نے خود ہی زیب کا ہاتھ پکڑ کر اپنی پینٹ کے اوپر سے ہی اپنے لوڑے پر رکھا اور زیب نے اسکے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔
جب زیادہ دیر برداشت نہیں ہو سکا تو زمان نے زیب کی شرٹ کو اتارنا چاہا۔ زیب نے اسے روک دیا۔
نہیں پلیز ڈاکٹر زمان ابھی نہیں۔ رات کو کر لیجئے گا جو کرنا ہے۔
زمان؛ کیوں۔ ابھی کیوں نہیں۔ رات کو تو ہما بھی ہو گی۔
زیب زمان کے سینے پر ہاتھ پھیرتی ہوئی ایک ادا سے بولی؛
تو کیا ڈاکٹر ہما کے سامنے ہم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے آپ۔۔؟
زمان زیب کے ممے کو سہلاتا ہوا بلا؛ نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں تو تم دونوں کو ایک ساتھ چودنا چاہتا ہوں۔ لیکن پہلی بار کے لیے صرف ہم دو ہی ہوں تو زیادہ اچھا ہے نا۔
زیب زمان کے ہونٹوں کو چوم کر بولی؛ اگر یہ بات ہے تو پھر کہیں باہر لے چلیں مجھے۔
زمان زیب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا؛ چلو گی ؟؟؟
زیب نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے اسکے لوڑے کو مٹھی میں دبایا اور بولی؛ اسکے لیے تو کہیں بھی چلوں گی۔
زمان ہنس پڑا؛ ٹھیک ہے ڈیوٹی ختم کر کے میرے ساتھ چلو۔ میرا ایک گھر ہے وہاں چلتے ہیں ۔
زیب؛ او کے ڈیر۔
زمان نے ایک بار پھر اسے کس کیا اور دونوں باہر آگئے۔
8 بجے دونوں کی ڈیوٹی ختم ہوئی تو زمان زیب کو اپنی کار میں لے کر ہاسپٹل سے نکل پڑا۔ جیسے ہی کار ہاسپٹل سے نکلی تو زمان نے اپنا ہاتھ زیب کی رانوں کے درمیان رکھ دیا۔
زیب نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ کے اوپر رکھا اور بولی؛ آپکے ساتھ ہی جارہی ہوں۔ اتنی بے صبری کیوں ہو رہی ہے جی۔
زمان ہنس پڑا اور اسکے ممے کو بھی ایک بار دبا دیا۔ اور اسکا ہاتھ کھینچ کر اپنی پینٹ کے اوپر سے ہی اپنا اکڑے ہوئے لوڑے پر رکھ دیا۔ زیب اسکی حالت کو دیکھ کر مسکرا دی۔
زیب؛ کمال ہے ڈاکٹر زمان ساری رات ڈاکٹر ہما جیسی خوبصورت لڑکی کے ساتھ گزارنے کے بعد بھی آپکی یہ حالت ہے ؟؟؟
زمان؛ یہ تو تمھارے حسن کی گرمی ہے میری جان۔
زیب مسکرائی اور اسکے لوڑے کو زور سے اپنی مٹھی میں دبا کر بولی؛ آج میں اسکی ساری گرمی نکال دوں گی۔
زمان مسکرایا؛ تھوڑی رات کو ہما کے لیے بھی رہنے دینے یار۔
زمان کی اس بات پر دونوں بسنے لگے۔
زیب بولی؛ ڈاکٹر زمان ویسے آپ نے زبردست لڑکی پٹائی ہے۔ سچ بتا رہی ہوں میں آپکو وہ کبھی بھی ایسی نہیں رہیں۔ مگر آپکے ساتھ یہ سب کچھ کرنے پر پتہ نہیں کیسے تیار ہو گئی۔ اور آپکی ہو گئی ہے۔ تو آپ کے تو مزے ہی مزے ہیں۔
دونوں مسکرانے لگے۔۔ زمان زیب کو ایک اچھے سے ریسٹورنٹ میں لے آیا۔ وہاں انہوں نے ناشتہ کیا اور پھر وہ اسے اپنے ایک الگ سے لیے ہوئے چھوٹے سے گھر پر آگیا۔ چھوٹا سا مگر صاف ستھرا گھر تھا۔ اور اچھا سجا ہوا تھا۔ امارت نظر آتی تھی۔ زیب نے اپنا بینڈ بیگ صوفے پر رکھا اور اپنا دوپٹہ بھی اتار کر بیٹھ گئی۔ اتنے میں زمان اندر سے دو گلاس اور شراب کی بوتل لے آیا۔
زیب نے اسکے ہاتھ میں شراب کی بوتل دیکھی تو مسکرا کر بولی؛ اچھا تو یہ شوق بھی کرتے ہیں آپ۔
زمان اسکے قریب بیٹھ کر دونوں گلاسوں میں شراب ڈالتے ہوئے بولا؛ جی ہاں سبھی شوق ہیں جناب۔
زمان نے زیب کی طرف شراب کا گلاس بڑھایا تو مسکرا کر بولی؛ آپ کو کیسے یقین ہے کہ میں بھی پیتی ہوں گی۔
زمان زیب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا؛
تمھاری آنکھوں سے جو شراب چھلک رہی ہے اس سے ہی مجھے یقین ہو رہا ہے میری جان۔
یہ کہتے ہوئے زمان نے اپنا گلاس اسکے ہونٹوں سے لگا دیا اور زیب نے پہلا گھونٹ لے لیا اور پھر اپنا گلاس بھی اسکے ہاتھ سے پکڑ لیا۔
زمان نے ایک ہاتھ میں اپنا گلاس لیا۔ اور دوسرا بازو زیب کی گردن کے پیچھے سے ڈال کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا۔ اسکا ہاتھ اسکے کندھے پر سے اسکے سینے کے ابھار پر آگیا۔ اور وہ اسکو سہلاتے ہوئے پینے لگا۔
ایک ایک پینگ پینے کے بعد زمان نے دونوں گلاس رکھے اور پھر زیب کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا۔ وہ بھی اسکے سینے پر لڑھک سی گئی۔ زمان نے اسکے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔ اور اسکے ہاتھ زیب کی کمر کو سہلانے لگے۔ زمان نے اسکی شرٹ کو اوپر کی طرف کھنچنا شروع کیا تو زیب نے سیدھی ہو کر اپنی شرٹ نیچے سے پکڑ کر اوپر ٹھائی اور اپنے جسم سے الگ کر دی۔ اب اس کا گورا گورا اوپری بدن بلکل کا تھا سوائے اسکی کالے رنگ کی برا کے جو کہ اسکے گورے گورے جسم پر بہت ہی جچ رہی تھی۔
زمان نے فور ہی اپنے دونوں ہاتھ زیب کی کالی برا کے اوپر سے ہی اسکی چھاتیوں پر رکھ دیئے۔
زمان؛ بہت دنوں سے حسرت تھی انکو دیکھنے کی۔
زیب مسکرائی؛ تو کہہ دیتے۔
زمان؛ بس ہمت ہی نہیں ہوئی چانس مارنے کی۔
یہ کہتے ہوئے زمان نے اسکی برس کو نیچے کھینچ دیا۔ اور اسکے گورے گورے ممے ننگے کر دیئے۔ گول گول ممے جن کے سروں پر گلابی نیل تنے ہوئے تھے۔ ہما کے مموں سے چھوٹے ہی تھے۔ مگر خوبصورت ویسے ہی لگ رہے تھے۔
زمان نے اسکے نپلز کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلا۔ اور پھر اپنے ہونٹ اسکے ایک نیل پر رکھ کر اسے چوسنے لگا۔ چوستے ہوئے اسکو اپنی زبان سے رگڑ نے بھی لگا۔ چوستے ہوئے اسکے نپل کو کھینچتا اپنے ہونٹوں سے اور پیچھے سے اسکا ایک ہاتھ زیب کی نگی کمر کو سہلا رہا تھا۔
تھوڑی دیر تک دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح چومتے اور چوستے رہے۔ پھر زمان نے اسے صوفے پر سیدھا کر کے لٹایا۔
اور خود نیچے کھڑے ہو کر اسکا پاجامہ بھی کھینچ کر اتار دیا۔ زیب کی خوبصورت چوت اسکے سامنے ننگی تھی۔
جاری ہے