اندھیرا
قسط نمبر 2
جب میرے ہاتھ نیچے میری رانوں سے کھیل رہے تھے ایک اور کلک کی آواز میں نے سنی۔اپنی بند آنکھوں کے پیچھے سے میں نے ایک تیز روشنی دیکھی۔اپنی پلکوں کی چلمن سے میں نے سامنے دیوار کو دیکھا ۔جہاں مجھے اپنا سایہ تھرکتا ہوا دِکھ رہا تھا۔
مجھے یاد آ رہا تھا کہ کمرے میں کوئی اور بھی موجود ہے۔میں اپنا ردھم بھول گئی۔اچانک سے میں پریشان ہو گئی تو کیا میں ایک اجنبی کے لیے ناچ رہی تھی۔
"واپس گھومو اور ناچو……شرماؤ مت۔تمہیں بے خود دیکھ کر مجھے بہت مزہ آرہا تھا……"
ایک دل کو لبھاتی ہوئی مردانہ آواز مجھے اُکسا رہی تھی کہ میں اپنا رقص جاری رکھوں
آہستہ سے رقص کرتے ہوئے میں پھر اپنے ردھم میں ناچ رہی تھی۔اپنی پلکوں کے جھروکے سے میں نے اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن روشنی کی وجہ سے میں اس شخص کا چہرہ دیکھنے سے قاصر تھی
"تم کھو گئی ہو……دھیان دو اور پھر سے میرے لیے ناچو"
موسیقی کی آواز کے باوجود اس کی آواز ایسے سنی جا سکتی تھی جیسے وہاں کوئی اور آواز نہ ہو۔اس کی آواز تحکمانہ تھی
میں نے کندھے اچکائے۔یہ صرف ایک ڈانس تھا۔تو کیوں نہ اس کا لطف لیا جائے
گٹار کی لَے کے ساتھ میں ایک دفعہ پھر سے ناچ رہی تھی۔تھرک رہی تھی ۔میرے ہاتھ میرے جسم کو چھو رہے تھے سہلا رہے تھے۔گٹار کے سُر کے ساتھ کبھی آہستہ کبھی تیز ۔مجھ پر ایک نشہ سا چھا رہا تھا
میں گرم ہو چکی تھی اور مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کون یا کوئی اس وقت یہاں میرے ساتھ موجود ہے۔میں نے اپنے سکرٹ کی زِپ کھولی۔تاکہ آسانی سے اور زیادہ جُھک سکوں
"اسے نیچے گرنے دو"سایے سے ایک تحکمانہ آواز گونجی
میں نے ایسے ہی کیا۔اب میں صرف ایک بلیک ٹاپر میں تھی۔میرے بال سر کے ہر جھٹکے سے
کندھوں پر گرتے
میرے ہاتھ میری چھاتیوں کو ٹاپر کے اوپر سے چھو رہے تھےوہاں سے یہ نیچے کو حرکت کرتے اور میری رانوں کو کھجاتے۔میرے اندر آگ لگی ہوئی تھی میں نے ایک ہاتھ سے اپنی ران کے اندرونی حصے کو رگڑا۔اور میرادوسرا ہاتھ میرے بالوں اور گردن تک پہنچا
میں نےایک تیز نظر اس کی طرف ڈالی۔میری آنکھیں اس سے رحم کی التجا کر رہی تھی۔کہ پلیز آؤاور مجھے چھوؤ
"تم کمال ہو……"
روشنیاں گل ہو گئیں۔اب میں ایک تاریک کمرے میں کھڑی تھی۔میں نے سر پیچھے کیا اور کچھ دیکھنے اور سننے کی کوشش کی۔جب مجھے اپنے پیچھے اس کی موجودگی کا احساس ہوا
وہ ایک قدم آگے ہوا اور مجھے کمر سے پکڑ کر پیچھے کیا۔میری گانڈ اس کے سخت لن سے رگڑ کھا رہی تھی
"ایسا لگا تم خود کو انجوائے کر رہی تھی۔……تمہاری آنکھوں میں دعوت تھی"وہ میرے بالوں میں منہ دیے بول رہا تھا
"ہاں"میرے منہ سے نکلا اس کا سینہ میری کمر سے جڑا ہوا تھا
"تم چاہتی ہو میں تمہیں چھوؤں"اس کے ہاتھ میرے جسم کے اطراف میں پھر رہے تھے۔جب اس کی انگلیاں میری جلد سے ٹکراتیں تو مجھ پر کپکپی طاری ہو جاتی
"ہاں۔پلیز"
واؤ کیا یہ میری آواز تھی۔شہوت میں ڈوبی ہوئی آواز جیسے کسی فحش اداکارہ کی۔میں نے سوچا
اس کی غراہٹ نے جیسے مجھے گھٹنوں پر جھکا دیا اور اب مجھے اپنی آواز کی کوئی پرواہ نہیں تھی اس نے اپنے ہاتھوں سے میری شرٹ کو اوپر اٹھایا اور سر سے نکال کر فرش پر پھینک دیا۔اس کے ہاتھ اب میرے ننگے پستانوں کو سہلا رہے تھے
میرے منہ سے ایک لمبی سانس نکلی جب اس نے زور سے میرے ایک نپل کو مسلا اس کا ایک ہاتھ میرے ٹانگوں کے درمیان پینٹی کے اوپر سے میری چوت پر پھر رہا تھا
"تم پہلے سے بہت گیلی ہو۔میں تمہیں اور زیادہ پرسکون دیکھنا چاہتا ہوں ۔مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔میں ابھی اور مزہ لینا چاہتا ہوں"
اس کے الفاظ اور اس طرح مجھے چھونے سے میں پاگل اور بےخود ہو رہی تھی میری سانس تیز تھی اور بےاختیار میرے منہ سےنکلا
"ہاں"
وہ مجھ سے الگ ہوا اور اچانک اطلس کے کپڑے کی ایک پٹی میری آنکھوں پر آئی۔میں نے اسے چھونے کے لیے ہاتھ اوپر کیا۔تو اجنبی کی آواز آئی
"نو۔نو۔کوئی تانکا جھانکی نہیں "
میں نے ہاتھوں کو نیچے گرایا۔میری دھڑکن تیز تھی۔جوش اور اضطراب سے میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔
اچانک میں اس کے بازوؤں میں جھول گئی۔میرا سر چکرا رہا تھااور دماغ ماؤف تھا۔مجھے اپنی بانہوں میں بھر کر وہ کچھ قدم چلا۔اور مجھے ایک نرم گدے پر لٹا دیا۔مجھے اس کی آواز نہ سنائی دی تو میں نے سر اوپر اٹھایا تاکہ وہ کچھ بولے
"آرام سے لیٹی رہو"
مجھے اپنے پیچھے اس کی آواز سنائی دی۔میں نےاپنا رخ اس کی آواز کی سمت موڑا اگرچہ میں اسے دیکھ نہیں سکتی تھی۔
میں لیٹ گئی اور انتظار کرنے لگی۔انتظار اور انتظار۔
مجھے بےچینی ہونے لگی۔جب ایک نرم اور مخمل جیسی چیز میری جلد سے ٹکرائی میرے رخساروں سے ہوتی ہوئی ناک کے نیچے تک
یہ ایک گلاب تھا جو پھسلتا ہوا میرے ہونٹوں تک آیا پھر ٹھوڑی کے نیچے,جیسےایک انگلی سے کوئی میرے جسم کو چھو رہا ہو۔گلاب میری گردن پر آیااور وہاں چھوٹے چھوٹے دائروں میں پھرنے لگا۔ میں تیز سانسیں لے رہی تھی اور زیادہ جوش میں آ رہی تھی
ْ"تم کانپ رہی ہو
جاری ہے