اسیر محبّت
قسط نمبر 01
یہ کہانی میرے ایک بوہٹ ہی عزیز دوست فیروز نے مجھے بتائی تھی اور میں آپ لوگوں سے اسے شیر کر رہا ہوں امید ہے آپ اس کو پسند کریں گے یہ اس کے گاؤں کی سچی کہانی ہے
اسیر۔ محبّت
رات کے دس بجے کا عمل ھو گا جب میں اپنے گاؤں سے تقریباْ دو کلو میٹر دور بس سٹاپ پر اترا تھا۔نزدیک ترین شہر سے ھمارے گاؤں کے لئے صرف دن میں ھی بسیں چلتی تھیں، اور شام کے پانچ بجے کے بعد اگر کسی نے شہرسے گاؤں آنا ھوتا، تو اس کو اسی سٹاپ تک کی بس میسّر آتی تھی، جس سٹاپ کو " بابے والی ٹاہلی" کا نام دیا گیا تھا، اور جہاں ابھی ابھی میں بھی اترا تھا۔ ( یہاں ایک درخت موجود تھا، جس کو ماضی کے کسی بزرگ کی نسبت سے بابے والی ٹاہلی کا نام دیا گیا تھا۔ اس درخت اور اس سے منسوب بزرگ کے حوالے سے ھمارے علاقے میں ایک پرانا قصّہ بھی بہت مشھور ھے، مگر میں اس قصّے کا ذکر کئے بغیر کہانی کی طرف آتا ھوں۔) سردی میں دس بجے، اور وہ بھی ھمارے گاؤں کے علاقے میں، ، ، میرے تو دانت پہلے ھی بج رھے تھے، لیکن جب میں بس سے باھر آیا، تو سردی ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ میں نے سردی سے بچنے کے لئے کافی کچھ پہن رکھّا تھا، مگر اس کے باوجود میں کانپنے پر مجبور ھو چکا تھا۔ چند دن پہلے ھونے والی بارشوں نے ٹمپریچر پر شدید ترین اثر ڈال رکھّا تھا۔
" کاش ، میں اسلام آباد سے جلدی نکل پڑتا، تو سردی سے بچ سکتا تھا۔ "
میں نے اپنے آپ کو کوستے ھوئے دل میں سوچا۔ مگر اب تو کچھ نہیں ھو سکتا تھا۔ سو میں ٹھٹھرتا ٹھٹھرتا، اپنے گاؤں والی سڑک پر چل دیا۔
ھمارے گاؤں کی طرف جانے والی سڑک کے اطراف میں ھرے بھرے کھیت موجود تھے۔ ان کھیتوں میں کثرت سے اس وقت گندم کی فصل کاشت کی گئی تھی، مگر ابھی وہ زمین سے اتنی زیادہ نہیں نکلی ھوئی تھی۔ میں آھستہ آھستہ اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔میرا دھیان رستے پر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف پر بھی لگا ھوا تھا۔ یہ انسانی نفسیات کی بات ھے، کہ رات کی تاریکی میں اگر آپ اپنے گھر میں بھی موجود ھوں، اور تنہا ھوں، تو یقیناْ آپ کو کچھ نہ کچھ عجیب ضرور لگے گا، چاھے وہ ایک لمحے کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ میں تو پھر بھی ایک سنسان سڑک پر اکیلا پیدل سفر کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ یہ میرے اپنے گاؤں کا علاقہ تھا۔ کچھ دور میرے دادا کی زمین بھی موجود تھی۔ سارا رستہ میرا دیکھا بھالا تھا، یہیں میرا بچپن ھنستے کھیلتے گزرا تھا، اس کے باوجود، رات کے سنّاٹے میں، اس ویران سڑک پر چلتے ھوئے میں قدرے خوف محسوس کر رھا تھا۔ پوری فضا پر ایک بوجھل خاموشی طاری تھی۔ میرے اندر طرح طرح کے اندیشے سر اٹھانے کی کوشش کر رھے تھے، جنہیں میں دباتے ھوئے اپنے گاؤں کی جانب رواں دواں تھا۔
رات کے اس پہر کے باوجود سارا رستہ خیریّت سے کٹ گیا۔ میں نے اندر ھی اندر قدرے سکون محسوس کیا۔میرے خوف کی ایک وجہ اچھّو گجّر بھی تھا، جو آج کل جیل سے مفرور تھا۔ اچھّو میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا ایک جوان سال بد معاش تھا، جس پر اپنے سگے چچا زاد بھائیوں کے قتل کا سنگین الزام تھا۔ سنا تھا، کہ وہ آج کل ساتھ والے جنگل میں چھپا ھوا ھے، اور رات کی تاریکی میں سنسان رستوں پر گھات لگا کر بیٹھ جاتا ھے۔ جو بیچارے شہر سے گاؤں واپس آتے ھوئے کسی مجبوری کے تحت لیٹ ھو جاتے ھیں، ان کو وہ گن پوائنٹ پر لوٹ لیتا ھے۔ میں اچھّو گجّر کے بارے میں سارا رستہ سوچ سوچ کر خوفزدہ ھوتا رھا، مگر میری قسمت میں اس کا شکار بننا نہیں لکھّا تھا، سو میں خطرناک علاقے سے بحفاظت اپنے گاؤں تک پھنچ آیا تھا۔
گاؤں کو سامنے دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ اب میں کافی پر سکون ھو چکا تھا۔ خوف نام کی کوئی چیز اب میں محسوس نہیں کر رھا تھا۔ گاؤں کے کسی کونے سے کبھی کبھی کسی کتّے کے بھونکنے کی آوازیں آ رھی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رھی تھی۔ پورا گاؤں خاموشی میں ڈوبا ھوا تھا۔ گاؤں کی زیادہ تر گلیاں چند سال پہلے تک رات کے وقت اندھیرے میں ھی ڈوبی رھتی تھیں، مگر پچھلے سال منتخب ھونے والے کونسلر صاحب کی کوششوں سے ھر گلی میں روشنی کا معقول انتظام کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ اب ایک گلی میں کھڑے ھو کر تقریباْ گلی کے دوسرے کونے تک دیکھا جا سکتا تھا۔
ھماری گلی بھی مکمّل طور پر روشنی میں نہائی ھوئی تھی۔ جب میں اپنی گلی میں داخل ھو رھا تھا، تبھی بالکل اچانک، کسی نے میرے دائیں بازو کو پیچھے سے پکڑ لیا۔ یہ میرے لئے بالکل غیر متوقّع تھا۔ میری سانس خشک ھو گئی، اور میں غیر ارادی طور پر چلّا اٹھّا۔ اضطراری طور پر میں اپنا ھاتھ بھی کھینچ چکا تھا۔ مجھے سخت سردی میں بھی اپنے ماتھے پرپسینہ محسوس ھونے لگا۔ میں نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے حملہ آور کو دیکھا۔ یہ ایک لڑکا تھا مگر اس کے چہرے اور حلئے کو دیکھ کر میرے خوف میں اضافہ ھو گیا۔ افّ، کس قدر خوفناک چہرہ تھا اس کا۔ ۔ ۔ ! اور اوپر سے اس کے بڑھے ھوئے بال، میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ھوئے ایک طرف کو جست لگائی۔ وہ عجیب انداز سے مجھے دیکھ رھا تھا۔اس کے کپڑے بھی جگہ جگہ سے پھٹے ھوئے تھے، اور اس نے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے اپنے اوپر کوئی سویٹر یا جرسی نہیں پہنی تھی،نہ ھی چادر نام کی کوئی چیز اوڑھی ھوئی تھی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میرے چلّانے سے وہ بھی خوفزدہ ھو گیا تھا۔ کیونکہ وہ بھی اب مجھ سے دور ھو کے کھڑا ھو گیا تھا۔ اس کا انداز بتا رھا تھا، کہ اس کو میرا چلّانا ذرا پسند نہیں آیا۔ اس کو خوفزدہ دیکھ کر ایک بات تو یقینی ھو چکی تھی، کہ اب وہ میرے نزدیک نہیں آنا چاھتا تھا۔ سو میں نے اسے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی اثناٴ میں ھمارے پڑوسیوں کی بیٹھک کا دروازہ کھلا، اور اس میں سے اشرف، اور اصغر باھر آ گئے۔ یہ دونوں چاچے کرم دین کے بیٹے تھے، اور سگے بھائی تھے۔ ان کی عمریں اندازاْ اٹھارہ سال، اور بیس سال تک رھی ھوں گی۔ وہ سیدھے ھماری طرف ھی آ رھے تھے۔ انہوں نے دور سے ھی آواز لگائی۔ " ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے فیروز بھائی۔ یہ ھمارے مہمان ھیں۔ ھم انہی کو ڈھونڈ رھے تھے۔ " پڑوسی ھونے کے ناطے وہ مجھے جانتے تھے، اور روشنی کی وجہ سے انہوں نے مجھے دور سے ھی پہچان بھی لیا تھا۔ مگر مجھے یہ جان کر تعجّب ھوا، کہ وہ پاگل آدمی ان کا مہمان ھے، اور یہ، کہ اس سے ڈرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
میں نے ان سے سلام دعا کے بعد، اس آدمی کی حرکت شکوہ کناں انداز میں ان کو بتائی۔ میں اس آدمی پر ناراض بھی تھا، اور اس پاگل کو دیکھ کر پریشان بھی تھا۔ مجھے الجھن سی محسوس ھونے لگی تھی۔ اس کی اداس آنکھیں ، ، ، ایسے محسوس ھوتا تھا، کہ ، شائد میں نے اس آدمی کو پہلے بھی کہیں دیکھا ھے ، ، ، ، مگر کہاں دیکھا ھے، یہ بالکل بھی یاد نہیں آ رھا تھا۔ اشرف اور اصغر نے معذرت کی، کہ ان کی لاعلمی میں وہ آدمی گھر سے نکل آیا۔ آئندہ وہ اس آدمی کا پورا پورا خیال رکھّیں گے۔ میں نے جب اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا، کہ وہ کون ھے، اور ان کے گھر میں کیا کر رھا تھا، تو جواب میں اشرف نے معذرت کے بعد، مجھے رخصت کرتے ھوئے کہا، "ابھی آپ سفر سے آئے ھیں فیروز بھائی، سردی بھی آپ کو لگ رھی ھو گی۔ گھر جائیے، اور آرام کیجئے۔ صبح آپ کو اس آدمی بارے میں تمام تفصیل بتا دوں گا۔"
میں سمجھ گیا، کہ اشرف اس آدمی کے سامنے اس کے متعلّق کوئی بات نہیں کرنا چاھتا تھا۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ مجھے اچھّی طرح سے معلوم تھا،کہ اگر اشرف نے کہا ھے، تو صبح وہ مجھے ساری حقیقت ضرور بتائے گا۔ ، ، ، لیکن ایک بات کا تو مجھے سو فیصد یقین ھو چکا تھا، کہ وہ آدمی، یقیناْ پاگل ھی ھے، جس کے لئے وہ یہ الفاظ استعمال کر رھے تھے، کہ وہ ان کی لاعلمی میں گھر سے نکل آیا تھا۔ اور یہ کہ، وہ آئندہ اس کا زیادہ خیال رکھّیں گے۔
وہ پاگل ٹائپ آدمی،جو کہ شائد میرا ھم عمر ھی رھا ھو گا، ان کو قریب دیکھ کر کافی حد تک نارمل ھو چکا تھا۔ ابھی تک خاموش کھڑا ھوا تھا، اچانک زور زور سے ھنسنے لگا۔ ھم تینوں چونک گئے۔ اس کے ھنسنے سے اس کا چہرہ اور بھی بھیانک محسوس ھو رھا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بہ رھی تھیں، جو اس کی ٹھوڑی سے ھوتی ھوئی اس کی پھٹی ھوئی قمیض اور سینے پر منتقل ھو رھی تھیں۔ اس لمحے مجھے اپنے دل میں پہلی بار اس آدمی کے لئے ھمدردی محسوس ھوئی۔ نہ جانے کس دکھیاری ماں کا بیٹا تھا،جو جوانی میں ھی پاگل ھو چکا تھا۔ بیچارے کو اپنا ذرّہ برابر ھوش نہیں تھا۔ ر وہ آدمی زور سزور سے ھنستے ھوئے اچانک خاموش ھوا، مجھے مخاطب کرنے کے لئے میرے نزدیک ھوا، اور بولا۔ " تم نے میری کوثر کو دیکھا ھے ؟ ابھی یہیں تھی۔ نہ جانے کہاں چلی گئی۔ ؟ ، ، ، اور میں اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر اس کا منہ تکنے لگا۔
یقیناْ، یہ کوئی مریض۔ محبّت تھا،
جو اپنی کسی کوثر نامی محبوبہ کا نام لے کر مجھ سے اس کا پتہ جاننے کی کوشش کر رھا تھا۔ اس وقت اشرف اور اصغر کے چہروں پر میں نے صاف ناگواری محسوس کر لی تھی۔
اچانک، بالکل اچانک، وہ پاگل رونے لگ گیا۔ اشرف اور اصغر نے ایک دم سے اسکی جانب دیکھا۔ وہ سسکیاں لے کر رو رھا تھا۔ میں بھی اس کی اس اچانک کیفیّت پر حیران تھا۔ اصغر نے اس کا چہرہ اپنے کاندھے سے لگا لیا، اور اس کو چپ کروانے لگا۔ وہ اس کو ایسے چپ کروا رھا تھا، گویا، وہ ایک یا دو سال کا کوئی بچّہ ھو۔ وہ پاگل بھی اس کے کاندھے پر سر رکھّ کر رو رھا تھا۔ آخر کچھ دیر رونے کے بعد، وہ اچانک چپ ھو گیا۔ اس کے منہ سے بہنے والی رالیں اب پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بہ رھی تھیں۔
اصغر اس بیچارے کا منہ اپنی چادر سے صاف کرنے میں لگ گیا۔ وہ اس کو بہت ھی پیار سے ٹریٹ کر رھا تھا۔ اس سے ظاھر ھوتا تھا، کہ ان کے چہروں پر یک دم در آنے والی ناراضگی، اس پاگل کے رویّے سے نہیں، بلکہ اس لڑکی کے نام لینے سے آئی تھی، جس کو اس پاگل نے " کوثر " کہ کر پکارا تھا۔ اصغر اس پاگل کا منہ انتہائی توجّہ سے صاف کر رھا تھا۔ اشرف اس دوران خاموش کھڑا رھا۔ وہ آدمی مسلسل مجھے ھی گھور رھا تھا۔ میں نے پھر سے اپنے دماغ پر زور ڈالا، مگر میں اس آدمی کو نہ پہچان سکا۔
ضرور یہ محبّت میں ناکامی کا ھی کیس لگتا ھے،،،!
میں دل ھی دل میں سوچ رھا تھا۔
اب تو میرے اندر اس آدمی کے بارے میں جاننے کا تجسّس مزید بڑھ گیا تھا۔ چنانچہ میں نے دل میں مصمّم ارادہ کر لیا، کہ کل صبح ھوتے ھی اس آدمی کے بارے میں اشرف وغیرہ سے ضرور معلوم کروں گا، کہ یہ کون ھے، اور اس کی کہانی کیا ھے۔ اس کے بعد، میں نے ان کو خدا حافط کہا، اور ھم اپنے اپنے گھروں کو چل دئے۔
اگلے دن میں دس بجے کے قریب میں، اشرف وغیرہ کی بیٹھک میں اشرف کے ساتھ ، موجود تھا۔ پڑوسی ھونے کے ناطے، ھمارا ایک دوسرے کے گھر میں کافی آنا جانا تھا۔ اس کے گھر سے بن کر آنے والے گرما گرم پراٹھے ابھی ابھی ھم نے صاف کئے تھے، اور اب بھاپ اڑاتی چائے سے بھرے ھوئے کپ اٹھائے، ھم دونوں باتوں میں مصروف تھے۔ ھماری گفتگو کا محور ، ظاھر ھے، کہ وھی آدمی تھا۔ میں نے اشرف سے ابتدا میں ھی کہ دیا تھا، کہ اگر وہ بتانا چاھتا ھے، تو صرف سچّ بتائے۔ اس لئے، کہ اس آدمی کے بارے میں افسانوی قسم کی اور من گھڑت داستان سننے سے بہتر ھے، کہ میں اپنا وقت ضائع نہ کروں۔
میں نے اپنے طور پر یہ کہ کر اشرف پر نفسیاتی وار کیا تھا، تا کہ وہ اس آدمی کی کہانی سناتے وقت صرف حقیقت بیان کرے، اور جھوٹ سے مکمّل پرہیز پر مجبور ھو جائے۔ لیکن اس نے مجھے یقین دلایا، کہ" فیروز بھائی، میں آپ کی طبیعت سے اچھّی طرح سے واقف ھوں۔ اس لئے یقین کریں، میرا پہلے بھی آپ سے اس متعلّق جھوٹ بولنے کا قطعی ارادہ نہیں تھا۔ "
اس کی اس بات سے میں مطمئن ھو گیا۔
اب اشرف نے اس آدمی کی داستان سنانا شروع کی۔ اس نے سب سے پہلے مجھے ھی مخاطب کیا۔ " فیروز بھائی، میں حیران ھوں، کہ آپ نے بھی اس بیچارے کو پہچانا نہیں ھے ۔ "
" کیا مطلب ؟ " میں ایک دم مسے سیدھا ھو کر بیٹھ گیا۔ " کیا میں اس آدمی کو جانتا ھوں ؟ "
" جی ھاں فیروز بھائی۔ " اشرف نے ایک اور دھماکہ کیا۔ میں اسے حیرانی سے دیکھ رھا تھا۔
" مگر یہ کون ھے، اور میں اسے کیسے جانتا ھوں؟ " میں نے پھر سے سوال کیا۔ ساتھ ھی ساتھ میں نے اپنے ذھن پر زور دے کر پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی۔ میرے پردہٴ تصوّر اس آدمی کا چہرہ لہرایا۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں اپنی شناسائی کے خانے میں سے اس کا چہرہ نہ ڈھونڈ سکا۔
اشرف دھیرے سے مسکرایا، اور بولا۔
" اس کا نام واجد ھے۔ ، ، ، واجد عرف واجی۔ "
میں نے جونھی اس کے منہ سے یہ نام سنا، مجھ پر حیرتوں کے پھاڑ ٹوٹ پڑے۔
واجد عرف واجی۔ ۔ ۔ یہ تو اشرف کا پھپھو زاد کزن تھا، جو کہ تین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ایک اور گاؤں میں رھتا تھا۔ اور اسی واجد عرف واجی کے ساتھ میرے بچپن کے دن کھیلتے ھوئے گزرے تھے۔ وہ جب بھی اشرف وغیرہ کے گھر میں آیا کرتا تھا، ھم دونوں ضرور ملتے۔ اس وقت کے ھم عمر دوستوں میں، واجی میرا سب سے اچھّا دوست تھا۔ ھم نے بچپن کے پانچ سال ایک ساتھ کھیل کود کر گزارے تھے۔ پھر میں شہر میں چلا گیا تھا۔ اس کے بعد، اگلے دو سالوں میں واجد سے چند ایک بار ھی ملاقات ھو سکی تھی، وہ بھی اشرف کے گھر پر۔ غالباْ وہ بھی کسی شہر میں چلا گیا تھا، اور ھمارے گاؤں میں کم کم ھی آتا تھا۔ پھر مجھے اس کی کوئی خیر خبر نہ مل سکی تھی۔ ھم اس کے بعد، ھمارے گاؤں میں بھی کبھی اکٹھّے نہ ھو سکے تھے۔
اور آج، اتنے سالوں بعد، واجد، عرف واجی، میرے سامنے اس حال میں آیا تھا، کہ اس کو اپنی ھوش تک نہیں تھی۔ اور میں، فیروز، جس کے ساتھ اس نے بچپن گزارا تھا، وہ بھی اس کو پہچان نہیں سکا تھا۔
میرے اندر کی کیفیّت ایک دم سے عجیب ھو گئی تھی۔ مجھے یقین ھی نہیں آ رھا تھا، کہ اشرف جو کہ رھا ھے، وہ واقعی سچّ ھے۔
" کیا یہ واقعی وھی واجی ھی ھے۔ میرے بچپن کا دوست، واجد، عرف واجی، ، ، ، کیا یہ واقعی وھی ھے ، ، ، ، ، ، ، ، ؟ "
میں اپنے اندر سوچ رھا تھا۔ اشرف نے ایک بار پھر سے دھرایا۔ " جی ھاں فیروز بھائی۔ اب آپ کو یاد آیا ھے یہ بد نصیب۔ یہ واجد ھی ھے۔ آپ کے بچپن کا دوست۔ بچپن میں آپ کے ساتھ ھنس ھنس کر کھیلنے والا میری پھوپھی کا اکلوتا بیٹا واجد۔ واجد عرف واجی۔ "
اشرف نے ابھی اتنا ھی کہا تھا، کہ وہ رونے لگ گیا۔ اس کو روتا دیکھ کر مجھے بھی ایسے محسوس ھوا، کہ میں بھی شائد رو دوں گا۔ لیکن ، ، ، ، میں ایسا نہ کر سکا۔ میری عجیب قسم کی طبیعت نے مجھے ایسا نہ کرنے دیا۔ البتّہ اشرف کو تسلّی دینا میرا فرض تھا، سہ میں نے اپنا کپ ایک طرف رکھّا، اور اشرف کو بازو سے پکڑ کر، تسلّی دیتے ھوئے اس کو خاموش کروانے کی کوشش کرنے لگا۔ اشرف کچھ دیر میں پر سکون ھو گیا۔ واقعی، سگا رشتہ تو دور، کوئی عام انسان بھی ھو، اس کو اس حال میں دیکھ کر،اس کے لئے، کم از کم درد مند دل رکھنے والا انسان، تو ضرور روتا ھو گا۔ چاھے وہ رونا ایک بار کے لئے ھی کیوں نہ ھو۔ اور اشرف تو اس کا سگا بھی تھا، اور اوپر سےاچھّا خاصا نرم مزاج انسان بھی تھا۔
اشرف کو تو میں نے جیسے تیسے چپ کروا دیا تھا۔ مگر اب میں اندر سے بے حد دکھّی ھو گیا تھا۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آ رھا تھا، کہ جو کچھ مجھے ابھی ابھی اشرف نے بتایا ھے، وہ سچّ ھے۔
لیکن وہ سب کچھ واقعی میں سچّ ھی تھا۔ اور میرے یقین کرنے یا نہ کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
جب ھم دونوں کچھ نارمل ھو چکے، اور دوبارہ سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے، تو میں نے اس سے دوبارہ سے بات شروع کرنے کو کہا۔
اس نے واجد کی کہانی یوں بیان کی۔
" واجد کا بچپن تو آپ کے سامنے ، بلکہ آپ کے ساتھ ھی گزرا ھے۔ اس لئے میں وہاں سے شروع کرتا ھوں، جب آپ اور وہ جدا ھو چکے تھے۔
واجد جب بچپن سے جوانی کی حدوں کو پہنچا، تو اس کےمعصوم بچپن نے ایک حسین نوجوان کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا ھونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تو تھا ھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلاٴ کا ذھین بھی تھا۔ اس نے لاھور کے ایک پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیا، تو شروع شروع میں سب شہری لڑکے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ لڑکیاں اور لڑکے اس کو پینڈو کہ کر چھیڑتے، مگر جلد ھی اس نے سب پر اپنی ذھانت کی دھاک بٹھا دی۔ سب کو اندازہ ھو گیا تھا، کہ ایک سادہ اور پینڈو نظر آنے والا یہ لڑکا، کس قدر خدا داد صلاحیّتوں کا مالک ھے۔ سبھی لڑکے اور لڑکیاں اب اس کی قدر کرنے لگ گئی تھیں۔
کالج کے تمام پروفیسرز بھی اب واجی سے بے حد متاٴثّر ھو چکے تھے۔
کئی لڑکیاں، تو اب واجی کو کسی اور ھی نظر سے دیکھنا شروع ھو گئی تھیں۔ اتنا ھی نہیں، کئی ایک نے تو اس سے کھلم کھلا اظہار محبّت بھی کر دیا تھا۔ یہ وہ لڑکیاں تھیں، جو محبّت کے نام پر جسم کی آگ بجھانا چاھتی تھیں۔
واجی ایک گاؤں میں پلا بڑھا تھا۔ پھر اس کی ماں نے اس کی تربیت ایسے انداز سے کی تھی، کہ وہ اپنے مظبوط کردار کی حفاظت کرنے میں کامیاب رھا۔ کسی بھی مرحلے پر وہ نہیں ڈگمگایا۔
اتنا تو آپ بھی جانتے ھیں، کہ گاؤں اور شہر کے ماحول میں کس قدر فرق ھوتا ھے۔ اسی لئے، واجی نے ان بے باک لڑکیوں کی کسی بھی اوچھی حرکت کا حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اسی وجہ سے وہ کالج میں "ذھین " کے ساتھ ساتھ " شریف " کے نام سے بھی مشھور ھونا شروع ھو گیا تھا۔ کئی لڑکیوں نے تو اس کو " نامرد" تک کا خطاب دے ڈالا تھا، مگر واجی نے کسی بھی بات کا برا نہیں منایا تھا۔ اس کی نظریں صرف اور صرف اپنے مقصد پر ٹکی تھیں۔
اور اس کا مقصد تھا، " کمپیوٹرز سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری۔ "
واجی کالج میں اٹھنے والے ھر طوفان کو کامیابی سے عبور کر کے اپنی منزل کی جانب محو۔ سفر تھا، جب ، ، ، ، اس لڑکی نے کالج میں داخلہ لیا۔ "
اتنا کہ چکنے کے بعد، اشرف چند لمحوں کے لئے خاموش ھوا۔ میں مکمّل توجّہ سے اس کی بات سن رھا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کا یہ وقفہ مجھے ناگوار گزرا، مگر میں نے اپنی ناگواری چھپاتے ھوئے، اس سے سوال کیا، " کون سی لڑکی ؟ "
اور اس نے جواب میں کہا۔ " وہی، جس کا نام واجی نے رات کو بھی لیا تھا۔ "
میں نے کہا۔
" تمھارا مطلب ھے، کوثر نے ؟ "
اور اشرف نے کہا۔
" جی ھاں، کوثر نے ۔ اور یہی وہ دن تھا، جب واجی کی بربادی کا آغاز ھوا تھا۔ "
میری تمام حسیّات سمٹ کر میرے کانوں میں آ چکی تھیں۔ اتنا تو مجھے ابھی بھی یاد تھا، کہ رات کو واجی نے واقعی، کسی کوثر نامی لڑکی کا نام ھی لیا تھا۔
تو گویا، وہ کوثر نامی لڑکی اس کو لاھور میں ملی تھی، جو اس کے پاگل پن کی ذمّہ دار تھی۔ ۔ ۔ ۔ ! "
میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
جاری ہے