Asir e Muhabbat - Episode 2

اسیر محبّت

قسط نمبر 02



اشرف کے منہ سے اب یقیناْ کوثر اور واجی کا تعلّق واضح ھونے والا تھا۔


میں اشرف کے مزید بولنے کا منتظر تھا، مگر اچانک واجی بیٹھک میں داخل ھوا۔ اشرف اس کو دیکھ کر خاموش ھو گیا۔


مجھے بھی انداہ ھو گیا تھا، کہ واجی کے سامنے کوثر کا ذکر واجی کی ذھنی حالت کے پیش نظر مناسب نہیں تھا۔ سو میں بھی چپ رھا۔ واجی کمرے میں آ کر میری طرف ھی دیکھ رھا تھا۔ شائد وہ بھی مجھے کسی حد تک پہچاننے کی کوشش کر رھا تھا۔


اس کا اس طرح سے دیکھنا مجھے بے چین کر رھا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اب بچپن کے مناظر پھر سے واضح ھونا شروع ھو گئے تھے۔ ، ، ، وہ بچپن، جس میں میرے ساتھ واجی کھیلا کرتا تھا۔ واجی کا معصوم چہرہ اس لمحے میری آنکھوں میں اتر آیا تھا۔ ، ،، کتنا معصوم ھوا کرتا تھا واجی،


، ،، ،


اور آج کا واجی، ،، کتنی اذیّت بھری زندگی گزار رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔!


میرا دل بھر آیا، مگر میں جانتا تھا، کہ مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا ھو گا۔ چنانچہ میں نے جلد ھی اپنے آپ کو سنبھال لیا۔


واجی بالکل خاموش کھڑا تھا۔ اشرف نے اس کو انتہائی پیار سے اپنے پاس بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس نے واجی سے پیار بھری دو تین باتیں کیں۔ اس دوران واجی بالکل پر سکون نظر آ رھا تھا۔ البّتہ کبھی کبھی سہمی سہمی ھوئی نظروں سے وہ مجھے بھی دیکھ رھا تھا۔ اس کی کیفیّت سمجھ سے بالاتر تھی۔ کبھی وہ مجھے سہمی ھوئی نظروں سے دیکھتا، تو کبھی وہ میری طرف دیکھتے ھوئے مجھے پہچاننے کی کوشش کرتا۔


چند لمحوں بعد، واجی اشرف کے کہنے پر، برتن اٹھا کر بیٹھک سے واپس گھر چلا گیا۔ "اس کو جاتے ھوئے دیکھ کر کوئی عام آدمی یہ جان نہیں سکتا، کہ جانے والا یہ آدمی اپنے ھوش کھو چکا ھے۔ ، ، ، اور کسی کی محبّت میں پاگل ھو چکا ھے۔ ، ،، ، ، !"


اس کی پشت پر نظریں گاڑے میں سوچ رھا تھا۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس بات کو سوچتے ھوئے درد کی ایک ٹیس میں نے اپنے دل میں محسوس کی تھی۔


اشرف نے واجی کے جانے کے بعد، میری طرف دیکھا۔ میں نے اپنے چہرے پر آنے والے درد کو اندر جذب کرتے ھوئے اس سے کہانی دوبارہ سے شروع کرنے کے لئے کہا۔


اس نے بات وھیں سے شروع کی، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔


" یہ بھی واجی کی بد قسمتی تھی، کہ کوثر سے اس کا سامنا اسی دن ھو گیا، جس دن وہ داخلہ لینے کے آئی تھی۔


کوثر ایک بے حد حسین لڑکی تھی، اور اس میں صنف مخالف کے لئے ایک عجیب طرح کی کشش موجود تھی۔ لڑکے خواہ مخواہ ھی اس کی طرف متوجّہ ھونا شروع ھو گئے تھے۔ کوثر بھی اپنی اس خوبی سے واقف تھی، سو وہ بھی اس طرح کی کیفیّات کو خوب انجوائے کیا کرتی تھی۔ آج کالج میں بھی بظاھر انتہائی خاموشی سے اپنے بھائی کے ساتھ چلنے والی کوثر اندر ھی اندر بے حد لطف اندوز ھو رھی تھی۔


واجی بھی سامنے سے آ رھا تھا۔ اپنے کسی دوست کے کہنے پر اس نے سامنے سے آنے والی لڑکی کو دیکھ تو لیا تھا، مگر پھر وہ پلکیں جھپکانا ھی شائد بھول گیا تھا۔ ، ، ، کالج کی کسی بھی حسین سے حسین تر لڑکی کو اک نظر نہ دیکھنے والا واجی آج ایک نئی آنے والی حسینہ کے حسن کی تاب نہ لا سکا تھا۔


واجی وہیں کھڑا کوثر کو دیکھتا رہ گیا۔ اور کوثر اس کے پاس سے مسکراتی ھوئی گزر گئی۔


واجی اب سب کچھ بھول چکا تھا۔ اسے اگر یاد تھا، تو صرف یہ، کہ کالج میں ایک نئی لڑکی داخل ھوئی ھے، اور اس کو دیکھنا واجی کے لئے عبادت سے کم ھر گز نہیں ھے۔ کوثر کے دیدار کی خاطر اس نے اپنے کئی کئی لیکچر مس کر ڈالے تھے۔ کبھی کوثر اسے نظر آتی، تو اس کے دیدار سے اس کے من میں لگی آگ کو جز وقتی تسلّی مل جاتی۔ لیکن جس دن وہ کوثر کو نہ دیکھ پاتا، اس کا سارا دن ھی انتہائی بے کلی میں گزر جاتا۔ نہ وہ کھانا کھاتا، نہ ھی کسی سے سیدھے منہ بات کرتا۔ ، ،، اسے بس یہی فکر دامن گیر رھتی، کہ کاش، ،کسی طرح سے دیدار یار میسّر آ جائے۔


اس کے تمام دوست، اس کی اس اچانک بدلتی کیفیّت پر، جہاں شروع شروع میں حیران ھوا کرتے تھے اور اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اب اچھّے خاصے پریشان ھو چکے تھے۔ یقیناْ ان کو احساس ھو چکا تھا، کہ واجی کی یہ کیفیّت کوئی عام کیفیّت نہیں ھے۔ ، ،


، ، ،، واجی کوحقیقت میں کوثر سے عشق ھو چکا تھا۔ اور یہ بہت سنگین صورت حال تھی۔


واجی کا کالج میں کئی بار کوثر سے آمنا سامنا ھوا تھا، مگر وہ ابھی تک اس سے اپنے دل کی بات کہ نہیں پایا تھا۔ اس لئے نہیں، کہ وہ ڈرپوک تھا، بلکہ اس لئے، کہ اس کے نزدیک یہ بات کوئی ضروری نہیں تھی۔ کوثر کو چاھنا اس کے نزدیک ایک عبادت تھی، اور یہ عبادت کوثر کو بتائے بغیر بھی کی جا سکتی تھی۔


، ، ، ھاں، اگر کوثر کو بھی اس سے محبّت ھو جائے، تب اور بات تھی۔


، ، ، اس کے دوست اس کے خیالات سن کر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے، کہ واجی اچھّا خاصا شیکسپئر بنتے بنتے اچانک مجنوں کیسے بن گیا۔


کالج میں اس کے دوستوں کی تعداد بھی بے حد مختصر تھی۔ اس نے کالج میں صرف دو بہترین دوست بنا رکھّے تھے، جو واجی کی اندرونی کش مکش سے مکمّل طور پر آگاھی رکھتے تھے۔ باقی سلام دعا والے ھی تھے۔


ان دونوں دوستوں نے واجی کو طریقے سے سمجھانا شروع کیا، کہ کوثر سے محبّت میں وہ اپنے اصل مقصد سے ھٹ رھا ھے، اور یہ ، کہ اس کو اپنے آپ کو سنبھال کر چلنا ھو گا۔ کوثر کی نگاہ التفات اس کے لئے ھر گز


نظرنہیں آتی تھی، اس لئے اس کو بھی اس خیال سے اپنی جان چھڑانی ھو گی۔


سلمان اور ضیاٴ ( واجی کے دونوں دوست ) نے ھر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لیا تھا، مگر واجی پر ان کی کسی بھی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ھوا۔


وہ جو محبّت کو ایک فضول اور بکواس لفظ قرار دیا کرتا تھا، آج خود اسی عنوان کی ایک داستان بننے جا رھا تھا۔


واجی کی یہ دیوانگی کوثر سے ڈھکی چھپی نہ رہ سکی۔ کسی نہ کسی طرح سے اس کو خبر مل ھی گئی، کہ کالج میں اس کے کئی آوارہ عاشقوں کے درمیان ایک ایسا خاموش عاشق بھی موجود ھے، جس نے آج تک دوسرے لڑکوں کی طرح سے اس کا راستہ نہیں روکا تھا، جس نے کبھی اس پر کوئی فقرہ تک نہیں کسا تھا۔ یہاں تک کہ جس راستے سے کوثر آرھی ھوتی تھی، واجی اکثر وہ راستہ ھی بدل دیا کرتا تھا،


لیکن ان سب باتوں کے باوجود، واجی اس کی محبّت میں گرفتار بھی تھا۔ اور اب تک کے کوثر کے تمام عاشقوں میں سب سے منفرد تھا۔


کوثر بھی واجی سے کسی حد تک واقف ھو چکی تھی، لیکن ابھی تک اسے واجی کا صرف یہی تعارف حاصل تھا، کہ واجی ایک انتہائی شریف، محنتی اور ذہین سٹوڈنٹ ھے۔


آج جب اس کی سہیلی نے اسے واجی کی محبّت سے آگاہ کیا تھا، تو وہ حیران رہ گئی تھی۔


واجی کے بر عکس، کوثر ایک چنچل، مگر دوسروں کو ستا کر خوش ھونے والی لڑکی تھی۔ اسے دوسروں کو بے وقوف بنا کر بہت مزہ آتا تھا۔


اس نے اپنی سہیلیوں کو اکٹھّا کیا، اور واجی کو بے وقوف بنانے کا ایک پروگرام بنا لیا۔


اگلے دن واجی کو ایک لڑکی ملی، جس نے اسے کوثر کا ایک پیغام دیا، کہ کوثر آج اور ابھی، اس سے ملنا چاھتی ھے، مگر کالج سے باھر، (ماڈل ٹاؤن پارک میں۔)


واجی پر تو شادیٴ مرگ کی سی کیفیّت طاری ھو گئی۔ اس نے اپنی کتابیں اپنے دوست ضیاٴ کو تھمائیں، اور آناْ فاناْ پارک کے لئے روانہ ھو گیا۔ ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گیا۔ اس نے واجی سے پوچھا بھی، کہ وہ اتنا خوش خوش کہاں جا رھا ھے۔ مگر واجی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔


پارک میں ھونے والی ملاقات میں کوثر نے اس سے اظھار محبّت کر دیا۔ واجی خوشی سے پاگل ھو گیا۔ اس نے بھی اپنی دلی کیفیّت بیان کر دی۔ اس کے بعد، واجی اور کوثر نے وہاں کھڑے ھو کر ایک دوسرے کو اپنی محبّت کا یقین دلایا۔ اور کچھ وقت ساتھ گزارنے کے بعد، علیحدہ ھو گئے۔ لیکن واجی نہیں جانتا تھا۔ کہ آج کا یہ اظہار محبّت اسے کتنی بڑی آزمائش سے دوچار کرے گا۔


اب تو واجی اس سے اکثر ھی ملنے لگا تھا۔ کوثر اس سے خوب خرچہ بھی کرواتی تھی، اور اپنے ناز بھی اٹھواتی تھی۔ واجی اپنی خوشی سے اس کے لئے سب کچھ کر رھا تھا ۔ نہ اسے اپنی پڑھائی کے حرج کا احساس تھا، نہ ھی اپنی والدہ کے خواب ڈوبتے ھوئے نظر آ رھے تھے۔ اس کے سامنے تو بس کوثر ھی کوثر تھی۔ باقی سب کچھ تو اس کے ذھن سے نکل ھی چکا تھا۔


واجی نے اپنے دوستوں سے کوثر سے ملنے ملانے والی بات چھپائی تھی، مگر کہتے ھیں ناں، کہ عشق جیسی چیزیں چھپائے نہیں چھپتیں،


چنانچہ اس کے دوستوں کو بھی اس بات کی خبر ھو ھی گئی تھی۔


ضیاٴ اور سلمان حیران رہ گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ واجی ان سے بھی کچھ چھپا سکتا ھے۔


لیکن شام کو انہوں نے واجی سے پوچھا، تو اس نے پہلے تو پس و پیش سے کام لینے کی کوشش کی، مگر آخر کار اقرار کر ھی لیا۔


سلمان نے اسے سمجھانے کی ابتدا کرتے ھوئے کہا، کہ کوثر کے ساتھ اس کا ملنا ملانا مناسب نہیں ھے۔ واجی نے سنی ان سنی کر دی۔ ضیاٴ نے بھی واجی کو سھت سمجھایا، کہ واجی کوثر سے ملنا بند کر دے، کیونکہ واجی کے لئے کوثر سے ملنا نقصان دہ ثابت ھو سکتا ھے۔ اس کی تعلیم بھی متاٴثّر ھو رھی تھی۔ اور، ، ، ، ویسے بھی ان کی معلومات کے مطابق، کوثر کسی طور بھی شریف لڑکی نہیں تھی۔ اس کا کردار کسی طور بھی ایک شریف لڑکی سے میل نہیں کھاتا تھا۔


، ، ، ، ، ،


اس بات پر واجی ایک دم سے ھتھّے سے اکھڑ گیا۔ اس نے الٹے ھاتھ سے ضیاٴ کے منہ پر ایک زنّاٹے دار تھپّڑ رسید کر ڈالا۔ سلمان اور ضیاٴ ھکّا بکّا رہ گئے۔ پھر اس سے پہلے، کہ صورت حال مزید بگڑتی، سلمان نے ان کو دور دور کر دیا۔ مگر واجی نے ضیاٴ کی اس بات پر اس سے قطع تعلّق کر ڈالا۔ سلمان نے بھی اسے سمجھایا، کہ وہ حالات کو اپنی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ مگر واجی کی آنکھوں پر تو کوثر کے عشق کی پٹّی بندھی ھوئی تھی۔ اس نے ان کی ایک نہ سنی، اور ان کے پاس سے چلا گیا۔


واجی کے جانے کے بعد، ضیاٴ نے سلمان سے مل کر ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ در اصل ان دونوں کو کوثر کے بارے میں معلوم ھو چکا تھا، کہ وہ کس وقت کس کس سے ملتی ھے۔


کوثر نے کالج میں دو لڑکوں سے جسمانی تعلّقات استوار کر رکھّے تھے۔


ان میں سے ایک نے ضیاٴ کو اپنے راز سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ اسی بناٴ پر ضیاٴ واجی کو سمجھانا چاھتا تھا، کہ وہ کوثر کے فریب میں نہ آئے۔ مگر واجی نے الٹا دوستی ھی ختم کر دی تھی۔ اور ضیاٴ پر ھاتھ بھی اٹھا دیا تھا۔، ، ، اب ضیاٴ اس تھپّڑ کا بدلہ کوثر سے وصول کرنے کے بارے میں سوچ رھا تھا۔


اگلے دن کوثر کالج نہیں آئی۔ در اصل وہ اپنے بوائے فرینڈ غنی( جو کہ ان کا ھی کلاس فیلو تھا اور شہر کے ایک معروف تاجر کا بیٹا تھا) کے ساتھ رنگ رلیاں منا رھی تھی۔


دسری طرف ضیاٴ بھی اسی جگہ موجود تھا، جہاں کوثر اور غنی ایک دوسرے کے جسم سے اپنی اپنی پیاس بجھا رھے تھے۔ یہ ایک کوٹھی تھی، جو کہ غنی نے کرائے پر لے رکھّی تھی۔ اس کام میں اس کے کچھ دوست بھی شامل تھے۔ ھر لڑکا، اپنی اپنی گرل فرینڈ کو یہاں لاتا ، اور کچھ وقت اس کے ساتھ گزار کر چلا جاتا۔ آج غنی کا نمبر تھا۔ اور آج کی یہ ملاقات غنی نے ضیاٴ کے کہنے پر ھی سیٹ کی تھی۔


ضیاٴ نے سلمان کو بھی اس بات سے آگاہ کر رکھّا تھا۔ سلمان کے ذمّے یہ کام تھا، کہ وہ کسی طرح سے واجی کو وہاں لے کر آتا۔


غنی جس کمرے میں موجود تھا، اس سے ملحقہ کمرے میں ضیاٴ موجود تھا۔ کوٹھی میں غنی نے کچھ ایسی سیٹنگ کروا رکّھی تھی، کہ جس کمرے میں غنی کوثر کی پھدّی مار رھا تھا، اس کے ساتھ والے کمرے میں موجود ضیاٴ سب کچھ دیکھ رھا تھا۔ اصل میں ان دو کمروں کے درمیان میں ایک ایسا شیشہ فٹ تھا، جس کی ایک سائیڈ سے دیکھا نہیں جا سکتا تھا، اور اسی طرف غنی کوثر کی جوانی سے اپنے آپ کو سیراب کر رھا تھا۔ شیشے کی دوسری طرف سے آر پار دیکھا جا سکتا تھا۔ اور اسی سہولت کی وجہ سے ضیاٴ اس وقت کوثر کو بے لباس دیکھ رھا تھا۔ اسے اب شدّت سے سلمان کا انتظار تھا۔


جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رھا تھا، ضیاٴ کی پریشانی میں بھی اضافہ ھوتا چلا جا رھا تھا۔، ، ،


لیکن آخر سلمان واجی کو لے کر وہاں پہنچ ھی گیا۔ ضیاٴ ان کو دیکھ کر کمرے سے باھر نکل آیا، اور کمرے کو کنڈی لگا دی۔ در اصل وہ واجی کو ایک دم سے سب کچھ نہیں دکھانا چاھتا تھا۔


وہ متوقّع صورت حال کے لئے پہلے اس کو ذھنی طور پر تیّار کرنا چاھتا تھا۔


یہ کوٹھی کا عقبی حصّہ تھا، جس میں وہ لوگ پیدل آمدورفت کر رھے تھے۔


واجی نے جب ضیاٴ کو دیکھا، تو اس کا موڈ پھر سے آف ھو گیا۔ مگر سلمان نے بات سنبھال لی، اور چند منٹ کی باتوں میں ان کی صلح بھی کروا ڈالی۔ ضیاٴ بہت خوش نظر آ رھا تھا، البتّہ واجی کے انداز میں پرانی گرمجوشی مفقود تھی۔


واجی ان سے پھر سے سوال کر رھا تھا، کہ وہ لوگ اسے یہاں کس مقصد کے تحت لے کر آئے ھیں۔ جواب میں ضیاٴ اور سلمان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اور دونوں کے منہ سے ٹھنڈی سانسیں خارج ھو گئیں۔


یقیناْ اب واجی کو حقیقت دکھانے کا وقت آ چکا تھا۔


سلمان کے اشارے کے بعد،ضیاٴ نے کمرے کی کنڈی کھول دی، اور اس کو پیش بندی کے طور پر صرف اتنا کہا، "


اندر کمرے میں دیوار نما شیشہ فٹ ھے واجی۔ اس میں تمھیں تمھارے ھر سوال کا جواب مل جائے گا، مگر پلیز، شیشے کے پار سے جو کچھ بھی دیکھو، اسے ذرا حوصلے سے دیکھنا ۔ اس لئے، کہ شائد تم اس سب کو آسانی سے برداشت نہ کر سکو۔ "


واجی اس کی باتوں کو سن کر حیران ھوا، مگر سلمان نے اس کو پکڑ کر اندر کی جانب ھلکا سا دھکیلا، واجی کے لئے یہ ایک عجیب صورت حال تھی۔ جب اسے کچھ سمجھ نہ آئی، تو اس نے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے سلمان اور ضیاٴ بھی آ چکے تھے۔


واجی شیشے کے آر پار دیکھ چکا تھا۔ ، ، ، ، ، !


سلمان اور ضیاٴ اس کو بغور دیکھ رھے تھے۔ وہ سوچ رھے تھے، کہ واجی اس منظر کو دیکھ کر انتہائی شدید ردّ عمل بھی دے سکتا ھے، اسی لئے وہ چوکنّے ھو کر کھڑے تھے۔ ، ،، ،


مگر واجی نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ تو اس منظر کو اسیے دیکھ رھا تھا، گویا، اس کی آنکھیں پتھرا گئی ھیں، اور اس کے جسم سے روح نکال لی گئی ھے۔ ، ، ،


وہ بالکل بے جان بت کی طرح نظر آ رھا تھا۔


دوسری طرف کوثر اور غنی کا شرمناک کھیل جاری تھا۔ کوثر اس بات سے بالکل بےخبر تھی، کہ اس کو اس حالت میں اس کے تین کالج فیلو دیکھ رھے ھیں، جن میں سے ایک اس کا شدید ترین چاھنے والا بھی ھے۔


واجی کی کیفیّت ایک دم سے بگڑی تھی۔ پہلے تو اس کے منہ سے ایک چیخ بلند ھوئی تھی، اور اس کے بعد اس کی ٹانگوں نے اس کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا۔


وہ دھڑام سے زمین پر آ رھا۔ سلمان اور ضیاٴ گھبرا گئے۔ انہوں نے اس کو اٹھایا، اور کسی طرح سے ھاسپٹل لے گئے۔ دوسرے کمرے میں موجود غنی اور کوثر ان کی کسی بھی آواز کو نہ سن سکتے تھے، اس لئے کہ وہ کمرہ ساؤنڈ پروف تھا۔


واجی کو ھاسپٹل میں دو دن رکھّا گیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق واجی پر انتہائی قسم کا کوئی دماغی حملہ ھوا تھا۔


ھاسپٹل میں واجی کے ساتھ سلمان اور ضیاٴ باری باری ایک ایک رات ٹھہرے۔


دوسرے دن شام میں واجی کو ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔ داکٹر نے اس کو دوائی دے کر اس کے دوستوں کو واجی کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔ واجی بیڈ پر لیٹا تھا۔ اس کی نگاھیں دور خلاٴ میں کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔ ابھی تک اس نے اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ سلمان نے ایک دو بار اسے بلانے کی کوشش کی تھی، مگر اس نے جواب میں سلمان کی جانب چند ساعتیں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ ڈاکٹر بھی واجی کی اس کیفیّت کو دیکھ رھا تھا، مگر اس کے مطابق مریض کو اب علاج سے زیادہ گھریلو ماحول کی ضرورت تھی۔ آخر کار وہ لوگ واجی کو گھر لے آئے۔


واجی کمرے پر آ کر بھی گم سم ھی رھنے لگا تھا۔ اسے اپنی ھوش بھی نہیں رھی تھی۔


وہ کالج سے ایک ھفتے تک غیر حاضر رھا۔ حقیقت میں وہ اپنے کمرے تک ھی محدود ھو گیا تھا۔ سلمان اور ضیاٴ اس کا بھر پور خیال رکھ رھے تھے۔


اپنے دونوں دوستوں کی موجودگی میں ھمیشہ ھنس کر بات کرنے والا واجی اب ایسے ھو گیا تھا، جیسے اس مے منہ پر تالے لگا دئے گئے ھوں۔ کبھی کبھی کوئی بات کر لیا کرتا تھا، مگر زیادہ تر وہ خاموش رھتا تھا۔ بس دور کہیں دیکھتا رھتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بھی دن میں کئی کئی بار رواں ھو جایا کرتے تھے۔ البتّہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلتا تھا، اس نے کوثر کی اس دن کی حالت پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ ایک دو بار سلمان اور ضیاٴ نے انتہائی محتاط انداز میں اس سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس واقعے کے ذکر کے ساتھ ھی واجی کی حالت غیر ھو جاتی تھی، اس لئے انہوں نے اب اس قصّے کا ذکر کرنا بند کر دیا تھا۔


اس دوران کوثر نےاس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اس کا موبائل آف تھا۔ آخر ایک دن کوثر واجی کے کمرے پر آ گئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو سہیلیاں بھی تھیں۔ واجی اس وقت کمرے میں اکیلا تھا۔ سلمان مارکیٹ گیا ھوا تھا۔ ضیاٴ بھی کسی کام سے باھر تھا۔ کوثر نے دستک دی، تو اندر سے واجی نے پوچھا، " کون ؟



جاری ہے

*

Post a Comment (0)