اسیر محبّت
آخری قسط
یہاں پر ایک وضاحت بیان کرنا ضروری سمجھتا ھوں، کہ واجی کی کہانی کی ابتدا، میں نے اشرف سے ھی سنی تھی، مگر اس سے ملنے والی کہانی ادھوری تھی۔یعنی اس کہانی کی کئی جزئیات تشنہ تھیں، کیونکہ کئی باتوں کا اشرف کو بھی صحیح علم نہیں تھا۔ چنانچہ مجھے ساری کہانی مکمّل کرنے میں مزید محنت بھی کرنا پڑی تھی۔ یہاں تک ، کہ مجھے ایک بار لاھور بھی جانا پڑا، جہاں میں واجی کے دوستوں سلمان اور ضیاٴ سے بھی ملا، تب کہیں جا کر مکمّل کہانی میرے علم میں آ سکی تھی۔ یہ تو میں نے آپ سب دوستوں کی سہولت کی خاطر کہانی ایک ھی تسلسل میں بیان کر دی ھے۔ امّید ھے، آپ اس تسلسل پر تنقید کرنے کی بجائے اسے پسند کریں گے۔ )
اسیر۔ محبّت (آخری حصّہ)
جواب میں کوثر نے اپنا نام بتایا، تو کافی دیر تک کوثر کو کوئی آواز سنائی نہ دی۔ وہ حیران ھوئی، اور انتظار کرنے لگی، مگر واجی کی طرف سے کوئی ردّعمل سامنے نہ آیا۔ جب اسے وھاں کھڑے ھوئے دو منٹ مزید گزر گئے، تو کوثر کی ایک سہیلی نے دوبارہ دستک دی۔ اب کے واجی نے اندر سے ھی آواز لگا کر ان کو وہاں سے چلے جانے کا کہ دیا۔ کوثر اور اس کی سہیلیاں ھکّا بکّا تھیں۔ مگر واجی اندر سے باھر نہیں آ رھا تھا، اور نہ ھی کنڈی کھول رھا تھا۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ وہاں سے چلی جائیں، اور ان کو ایسا ھی کرنا پڑا۔ ان کو یہ تو معلوم نہیں تھا، کہ واجی نے ایسا کیوں کیا، مگر کوثر اس بات پر بہت پیچ و تاب کھا رھی تھی، اور اس نے دل ھی دل میں واجی سے اس بے عزّتی کا بدلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔
کوثر اب کالج میں واجی کے آنے کا انتظار کرنے لگی تھی، مگر واجی سے اس کا سامنا کئی دن تک نہ ھو سکا۔ دوسری طرف اس کی ایک سہیلی نے کئی لڑکیوں کو یہ بتا دیا تھا، کہ واجی نے اس کے ساتھ اور کوثر کے ساتھ کیا سلوک کیا ھے۔ کوثر اس بات کی تشھیر پر اور بھی سیخ پا تھی۔ کوثر اب بظاھر واجی کا ذکر کسی سے بھی نہیں کر رھی تھی، مگر اس واقعے کے بعد اس نے دل ھی دل میں واجی کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
آخر کچھ دن کے بعد، کوثر کو واجی کالج میں نظر آ ھی گیا۔ اس دن کوثر نے واجی کا راستہ روک لیا اور اس دن کے حوالے سے اس سے گلہ کرنے لگی جب واجی نے کوثر کی آواز سن کر بھی دروازہ نہیں کھولا تھا۔ کوثر شائد اس سے توقّع کر رھی تھی، کہ وہ اس سے معذرت کرے گا، مگر واجی تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رھا تھا۔ آخر وہ کوثر کو اسی طرح حیران پریشان چھوڑ کر چلا گیا۔ کوثر اپنی آج کی تذلیل ، اور وہ بھی پورے کالج کے سامنے، برداشت نہ کر پائی۔ اس نے آگے بڑھ کر واجی کا راستہ روک لیا۔ واجی نے اس سے بچ کر جانا چاھا، مگر کوثر اپنے فطری غرور اور غصّے کے اثر میں آ چکی تھی۔ واجی نے جب دیکھا، کہ کوثر اس کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ رھی، تو اس نے اس سے صاف صاف کہ دیا، کہ وہ کوثر سے کوئی دوستی یا محبّت نام کا تعلّق رکھنا نہیں چاھتا۔ اس بات پر کوثر مزید بھڑک گئی۔ کالج کے کئی لڑکے لڑکیاں ان کی طرف متوجّہ ھو رھے تھے۔ کوثر ان سب کے سامنے اپنے آپ کو تماشہ بنتے ھوئے محسوس کر رھی تھی اور اسی وجہ سے اسے واجی پر غصّہ آ رھا تھا جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رھا تھا۔ آخر ان کے درمیان بحث شروع ھوگئی، جو بڑھتے بڑھتے تلخ کلامی کی شکل اختیار کر گئی۔ کوثر اس بات پر واجی پر چیخ رھی تھی، کہ وہ ھوتا کون ھے، سارے کالج کے سامنے کوثر کی انسلٹ کرنے والا۔ ،، ، ، ۔ واجی اس کے انداز گفتگو پر حیران ھو رھا تھا، جب کوثر نے ایک اور دھماکا کر ڈالا۔
کوثر نے یہ کہ دیا تھا، کہ ، ، ، واجی سے اس کو کبھی بھی، ذرا بھی محبّت نہیں تھی، وہ تو اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر اس کو بے وقوف بنا رھی تھی۔ بھلا واجی جیسے ایک اجڈ، عام سی شکل والے پینڈو سے کوثر جیسی انتہائی خوبصورت لڑکی کیسے محبّت کر سکتی ھے۔
واجی نے اب تک کی کوثر کی تمام باتیں تو انتہائی تحمّل سے برداشت کر لی تھیں، مگر جب کوثر نے واجی سے محبّت کو بھی ایک ڈرامہ قرار دیا، تو واجی اپنا ضبط کھو بیٹھا۔ اس کے سامنے وہ تمام لمحات ایک سیکنڈ میں لہرا گئے، جب کوثر نے مختلف اوقات میں اس کے ھاتھوں میں ھاتھ ڈال کر اس سے اظہار محبّت کیا تھا۔ دوسری طرف اس کی آنکھوں میں وہ منظر بھی آیا تھا، جب اس نے کوثر کو بالکل ننگی حالت میں غنی کے نیچے دیکھا تھا، جب غنی اپنی کوٹھی میں کوثر کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ثابت ھوا،اور اس کا دماغ، اور ھاتھ ایک ساتھ گھوم گئے۔ تڑاخ کی آواز کے ساتھ واجی نے ایک زنّاٹے دار تھپّڑ کوثر کے گال پر رسید کر ڈالا تھا۔
کوثر کے وھم و گمان میں بھی نہیں رھا ھو گا، کہ واجی اچانک اس طرح کی جرّاٴت کا مظاھرہ بھی کر سکتا ھے۔ نتیجتاْ واجی کا تھپّڑ کھا کر کوثر پیچھے کو گرگئی تھی۔
پورا کالج دیکھ رھا تھا، اور واجی نے کوثر کو تھپّڑ دے مارا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر ساکت رہ گئے تھے۔
واجی نے کوثر کی گالیوں کا جواب ھاتھ سے دے ڈالا تھا۔ کئی دن کا جمع ھونے والا غبار شائد آج ایک تھپّڑ کے راستے نکل گیا تھا، مگر نہیں۔ ایک تھپّڑ اتنے دنوں کی تکلیف کا مداوا نہیں ھو سکتا تھا۔ واجی شائد کوثر کو اور بھی مارنا چاھتا تھا، مگر کالج کے کچھ لڑکوں نے واجی کو پکڑ لیا۔ واجی کے دوست وہاں موجود تھے، جو واجی کو موقع سے کھسکا کر لے گئے۔
واجی کی حالت بہت خراب ھو رھی تھی۔ وہ ابھی شائد کوثر پر مزید ھاتھ صاف کرنا چاھتا تھا۔ وہ کوثر کی یہ بات سہ نہیں پایا تھا، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر مذاق کیا تھا۔ واجی نے تو کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھ کر انجام دیا تھا۔ اس نے تو کوثر کی محبّت کے نام پر اپنی تعلیم کے انتہائی قیمتی سال برباد کر ڈالے تھے۔ اس نے تو کوثر کو ھی اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا تھا، اس نے تو نہ جانے کتنے سپنے سجا لئے تھے، اور اس کے سپنے تو کوثر کے کرداد کی کمزوری سے ختم ھوئے ھی تھے، مگر آج کوثر کی اس بات نے اسے بے حد اذّیت پہنچائی تھی، کہ کوثر نے اس سے محبّت کے نام پر بھی ایک مذاق ھی کیا تھا۔ محبّت کرنے والے ایسے ھی ھوتے ھیں۔ واجی بھی ایسا ھی تھا۔ اس نے کوثر کے کردار کی کمزوری کو تو برداشت کر لیا تھا، کہ کوثر اپنی مرضی کی خود مالک تھی، مگر کوثر نے محبّت کے نام پر واجی سے دھوکا اور مذاق کیا، یہ واجی کے لئے ناقابل برداشت ثابت ھوا تھا۔
کوثر کی محبّت کو ایک عبادت سمجھنے والا، آج اپنی ھی محبّت کی دیوی کے ظلم کا شکار ھو کر رہ گیا تھا۔
سلمان اور ضیاٴ واجی کو وہاں سے نکال کر کمرے پر لے گئے۔
دوسری طرف کوثر وہاں سے اٹھی، اور روتی ھوئی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
اس کے بعد واجی کالج تو کیا، لاھور میں ھی نہ رہ سکا۔ وہ اپنے گاؤں چلا آیا تھا۔ اس کے دونوں دوستوں نے اس کے ساتھ گاؤں تک جانے کی کوشش کی تھی، مگر واجی نے سب کو منع کر دیا تھا۔ واجی اپنے کالج کے واقعے کو یہیں دفن کر کے جانا چاھتا تھا۔ وہ نہیں چاھتا تھا، کہ کالج کے دوستوں میں سے کوئی اس کے گاؤں میں جائے، اور ان کی زبانی اس کے گھر والوں کو یا گاؤں کے کسی بھی فرد کو کوثر والے واقعے کا پتہ چل جائے۔ وہ لاھور کی تلخ یادوں کو اپنے ساتھ گاؤں نہیں لے جا سکتا تھا۔ وہ اپنی محبّت کی تلخ یادوں سے دامن چھڑانے کے لئے ھی تو لاھور چھوڑ رھا تھا۔ لیکن اس کو معلوم نہیں تھا، کہ یہ محبّت اتنی آسانی سے کسی کا پیچھا نہیں چھوڑا کرتی۔ محبّت کرنے والے چاھے آپس میں ٹھیک رہیں، نہ رھیں۔ اور چاھے وہ ھمیشہ کے لئے جدا بھی ھو جائیں، مگر محبّت کا آسیب ان کے دلوں میں پنجے جمائے رکھتا ھے۔ یہ ایک ایسا عفریت ھے، جو محبّت کے میدان میں اترنے والوں کو ایک دن آخر نگل کے ھی دم لیتا ھے۔
گاؤں میں سب اس کی اچانک واپسی پر حیران تھے۔ اس کی والدہ کا دل اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر ڈول گیا۔ ابھی چند دن بعد ھی تو واجی کے سالانہ پیپرز تھے۔ ان دنوں میں واجی کا یوں اچانک گاؤں چلے آنا، اور وہ بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے، ، ، ، وہ سمجھ گئیں ، کہ ضرور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ھے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی، کہ وہ واجی سے پوچھ سکیں، کہ آخر اس کو کیا ھو گیا ھے۔ لیکن واجی نے ان کو ٹال دیا۔
گاؤں واپسی کے بعد سے، واجی گھر میں ھی قید ھو کر رہ گیا تھا۔ اس کی والدہ اسے باھر دوستوں میں جانے کو کہتیں، تو وہ کبھی کبھی دوستوں کی محفل میں چلا جاتا، لیکن باھر جا کر بھی وہ چپ چپ رھتا۔ اس کے گاؤں کے کئی دوستوں نے بھی اس سے کئی بار بات پوچھنے کی کوشش کی، مگر واجی کسی کی بات کا کوئی جواب نہ دیتا۔ وہ تو جیسے سب سے ھی بیگانہ ھو گیا تھا۔ ھاں، کبھی کبھی جب اس کی والدہ اس کے پاس بیٹھ کر انتہائی پیار سے اس سے پوچھتیں، کہ آخر وہ اپنی ماں کو تو بتائے، کہ اس کو کیا غم ھے، آخر کس چیز کو اس نے دل کا روگ بنا لیا ھے۔ اور اس کے ساتھ ھی اس کی والدہ تسلّی دینے کے سے انداز میں کہتیں،
" اگر کسی لڑکی کا معاملہ ھے، تو بھی وہ کھل کر بتائے، کیونکہ پھر وہ خود اس لڑکی کے گھر جا ئیں گی، اور اس لڑکی کے والدین سے واجی کے لئے اس کا ھاتھ مانگ کر اسے واجی کی دلھن بنا کر گھر لے آئیں گی، ، ، ،"
تو واجی کا ضبط جواب دے جاتا، اور وہ اپنی والدہ کے گلے لگ کر رو دیتا۔ اس کی والدہ اپنے جوان اور اکلوتے بیٹے کو خاموشی سے دلاسہ دینے میں لگ جاتیں۔ واجی کی کیفیّت سے اتنا تو وہ بھی سمجھ چکی تھیں، کہ ان کا سادہ، معصوم اور نوجوان بیٹا شہر کی کسی پری پیکر سنگدل حسینہ کے تیر نظر سے گھائل ھو کر اس حالت کو پہنچا ھے۔لیکن ان کو ساری حقیقت معلوم نہیں تھی، اور یہی بات ان کی تشویش کا باعث تھی۔
واجی کے سامنے بہادر نظر آنے والی اس کی والدہ اکیلی بیٹھ کر خوب روتیں۔ وہ جانتی تھیں، کہ ان کا بیٹا ھر کسی لڑکی کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ھے۔ اگر اس کی یہ حالت ھوئی ھے، تو ضرور واجی کی پسند لاکھوں میں ایک ھو گی۔ لیکن وہ بیچاری کیا کر سکتی تھیں۔ کیونکہ واجی کی حالت گواھی دے رھی تھی، کہ یا تو واجی کی پسند نے واجی کو ٹھکرا دیا تھا، اور یا پھر اس لڑکی نے واجی کو کوئی بہت بڑا دھوکا دیا تھا۔
واجی کی والدہ نے اپنے بیٹے پر بہت توجّہ دی۔ واجی اب ان سے پہلے کی نسبت بہتر انداز میں، کھل کر بات کرنے لگا تھا۔ لیکن ابھی تک اس نے ان کو بھی یہ نہیں بتایا تھا، کہ وہ اچانک کالج چھوڑ کر کیوں چلا آیا۔ اس کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی طبیعت سے واقف تھیں۔ ان کو معلوم تھا، کہ ایک دن واجی اپنے منہ سے ھی ان کو سب کچھ بتا دے گا۔ وہ خاموشی سے اس دن کا انتظار کر رھی تھیں۔
واجی کی دن بدن سنبھلتی صحّت نے اس کی والدہ کے اندر بھی ایک حوصلہ پیدا کر دیا تھا، جب ایک دن اچانک واجی پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔
واجی کے دوستوں میں سے چند ایک ایسے بھی تھے، جن کی کئی کئی لڑکیوں سے بیک وقت دوستی تھی۔ ایک نے واجی کو کسی طرح سے بہلا پھسلا کر گاؤں سے باھر جانے پر راضی کر لیا۔ اس کے مطابق جنگل تک جانا تھا، اور کچھ لکڑیاں اٹھا کر واپس آ جانا تھا۔
گاؤں سے کچھ ھی فاصلے پر ایک جنگل موجود تھا، جس سے گاؤں والے لکڑی لاتے تھے جو جلانے کے کام آتی تھی۔ واجی جنگل میں اس کے ساتھ آ تو گیا تھا، مگر اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس کے دوست کا اصل مقصد لکڑیاں نہیں تھیں، بلکہ ایک لڑکی تھی، جو کہ پہلے سے ھی جنگل میں موجود تھی۔ واجی کے دوست نے واجی کو کسی بہانے سے جنگل میں ایک جگہ پر بٹھا دیا، اور خود چند منٹ بعد آنے کا کہ کر جنگل کے اس حصّے میں گھس گیا، جہاں بہت زیادہ جھاڑیاں تھیں، اور ان کے بالکل درمیان میں خالی میدان تھا۔ اس میدان کے بارے میں صرف مقامی لوگوں کو ھی علم تھا، باھر سے دیکھنے والا کوئی اجنبی آدمی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا، کہ جنگل کے اتنے گھنے حصّے کے اندر کوئی خالی میدان بھی ھو سکتا ھے۔
واجی کافی دیر تک اپنے دوست کا انتظار کرتا رھا۔ جب اس کے دوست کو گئے دس منٹ سے بھی زیادہ گزر گئے، تو واجی بھی اسی سمت چل پڑا جس طرف اس کا دوست گیا تھا۔ واجی اس کو ڈھونڈتا ڈھانڈتا، جنگل کے اسئی حصّے میں پہنچ گیا، جہاں خالی میدان تھا۔ وہاں اس نے دیکھا، کہ اس کا دوست ایک ننگی لڑکی کے ساتھ اس کی چدائی میں مصروف تھا۔اس کے دوست نے لڑکی کی ٹانگیں اٹھائی ھوئی تھیں، اور زور زور سے اس لڑکی کو چود رھاتھا۔ واجی یہ منظر دیکھ کر ماضی میں پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر آ گیا، جب اس نے کوثر کو غنی کے ساتھ اسی حالت میں دیکھا تھا۔ غنی کوثر کو بالکل اسی انداز میں چود رھا تھا، جیسے اس کا دوست اس وقت جنگل میں ایک لڑکی کو چود رھا تھا۔ واجی کی حالت خراب ھونا شروع ھو گئی۔ آخر واجی چلّا اٹھّا۔ اس کا دوست ایک دم سے ڈر کر لڑکی کے اوپر سے اٹھ گیا۔ لڑکی گھبرا گئی تھی، اس نے واجی کی منّت کرتے ھوئے راز داری کی درخواست کرتے ھوئے بدلے میں واجی کو اپنی پھدّی آفر کر دی تھی۔ اس کا دوست بھی واجی کے سامنے شرمندہ کھڑا تھا۔ مگر واجی تو کسی اور ھی جگہ پر پہنچا ھوا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ھو چکے تھے اور وہ اونچی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ روتے روتے ھی وہ نیچے گر پڑا۔ اس کی حالت اب بہت خراب ھو گئی تھی۔ واجی کا دوست گھبرا گیا۔ ان کو واجی کی اس کیفیّت کی سمجھ تو نہ آئی، لیکن اس کے دوست نے اور لڑکی نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنے، اور پھر بڑی مشکل سے واجی کو سنبھالا ۔ اس کے دوست نے ایک ریڑھی پر واجی کو لاد کر گھر تک پہنچایا۔۔ واجی کا دوست سمجھ نہیں پایا تھا، کہ وہ تو اپنی معشوقہ کو ھی چود رھا تھا، مگر اس منظر کو دیکھنے سے واجی کی حالت کیوں اتنی خراب ھو گئی۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا، کہ اسی طرح کا منظر واجی نے لاھور میں بھی دیکھا تھا، اور اس سے ملتا جلتا ایک اور منظر آج دوبارہ دیکھنے سے واجی کے پرانے زخم پھر سے ھرے ھو گئے ھیں۔
واجی کا علاج ایک انتہائی قابل ڈاکٹر سے کروایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق واجی پر شدید قسم کا دماغی حملہ ھوا ھے۔ اس نے کچھ ٹیسٹ بھی لکھ کر دئے، مگر واجی نے کسی بھی طرح کے ٹیسٹ یا علاج کروانے سے انکار کر دیا۔ اس کی والدہ رو رو کر نیم پاگل ھو گئی تھیں، مگر واجی کو تو اپنی بھی ھوش نہیں تھی۔ وہ اپنی والدہ کو کیا تسلّی دیتا۔ بس جب بھی کوئی اس کو علاج کے لئے شہر لے کر جانے کی بات کرتا، وہ ایک دم ھتھّے سے اکھڑ جاتا۔ شائد اس کے دماغ میں لاھور آ جاتا ھو گا۔
کچھ دن کے بعد واجی نارمل ھو گیا۔ اس کی والدہ کچھ حوصلہ پکڑ گئیں، مگر ان کے اندر ھر وقت ایک خوف دامن گیر رھنے لگا تھا، کہ کہیں ان کے بیٹے کو کچھ ھو نہ جائے۔ ڈاکٹر کے مطابق ان کے بیٹے کی دماغی حالت خطرے میں تھی۔اس پر کسی بھی وقت پھر سے دماغی حملہ ھو سکتا تھا۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی ان کے سیدھے سادے واجی کو۔
ایک دن، جبکہ واجی گھر میں خاموشی سے چارپائی پر بیٹھا ھوا تھا، انہوں نے واجی کو ایک بار پھر سے سمجھانا شروع کیا۔ وہ اس کو سمجھاتے سمجھاتے رو پڑیں۔ واجی تڑپ اٹھّا، اور ماں کے قدموں میں گر پڑا۔ اب کے واجی مان گیا تھا۔ دو دن کے بعد، واجی اپنے چچا زاد کے ساتھ اسلام آباد جانے پر مان گیا تھا۔ اس کی والدہ بے حد خوش ھوئیں۔
واجی جب سے گھر آیا تھا، اس نے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے اس طرح کی چیزوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں رھی تھی۔ اسلام آباد جانے سے ایک رات قبل واجی کا چچا زاد کزن جس نے واجی کے ساتھ ھی اسلام آباد جانا تھا، وہ واجی کے ساتھ ھی اس کے گھر میں لیٹ گیا۔ وہ فلموں کا بے حد شوقین تھا۔ ان دنوں پی ٹی وی پر ھر جمعرات کی رات دس بجے کے قریب ایک اردو فلم لگا کرتی تھی۔ واجی کے چچا زاد کے بے حد اصرار پر انہوں نے فلم کے وقت پر ٹی وی لگا لیا۔ واجی کے کزن نے فلم پر زور اس لئے بھی دیا تھا، کہ اس نے واجی کی حالت دیکھ لی تھی۔ اس نے دلیل دیتے ھوئے یہ کہا تھا، کہ اس سے واجی کا دل بھی بہل جائے گا۔ اس کی والدہ بھی اس بات پر مان گئی تھیں۔ ان کو کیا معلوم تھا، کہ آج کا ٹی وی لگانا ان کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ھو گا۔ کاش وہ اس رات ٹی وی نہ لگاتیں۔ لیکن کہتے ھیں ناں، تقدیر کا لکھّا کوئی نہیں بدل سکتا۔ اور شائد واجی کی تقدیر میں یہی لکھّا تھا۔
اس رات ٹی وی پر ماضی کی مشہور فلم سٹار رانی کی اردو فلم لگنا تھی۔ جونہی فلم شروع ھوئی، اور ٹی وی سکرین پر رانی کا پہلا سین چلا، واجی کی حالت ایک دم سے بگڑ گئی۔ جوں جوں رانی ٹی وی سکرین پر نظر آ رھی تھی، واجی کی حالت خراب ھوتی چلی گئی۔ رانی کے بولنے سے واجی پر اور بھی زیادہ اثر پڑتا۔ واجی کی والدہ ایک الگ کمرے میں سو رھی تھیں، جبکہ واجی اور اس کا کزن دوسرے کمرے میں لیٹے فلم دیکھ رھے تھے۔ واجی کی بدلتی حالت کا اندازہ اس کے کزن کو بہت دیر سے ھو سکا۔ واجی اس وقت تک قابو سے باہر ھو چکا تھا۔ واجی کا کزن گھبرا گیا۔ اس نے پہلے تو واجی کو قابو کرنے کی کوشش کی، لیکن جب اس نے دیکھا، کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ھے، تو وہ واجی کی والدہ کو بھی اٹھا لایا۔واجی اس وقت تک ٹی وی توڑ چکا تھا۔ واجی کے کزن اور واجی کی والدہ میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ واجی کو اچانک کیا ھو گیا ھے۔ حقیقت میں واجی کو رانی میں کوثر نظر آ رھی تھی۔ کوثر کا چہرہ ھو بہو رانی کی طرح تھا۔ اس کی والدہ جب کمرے میں پہنچی، تو واجی زور زور سے چلّا رھا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کی والدہ کے ھاتھ پاؤں پھول گئے۔ انہوں نے واجی کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، مگر اب بہت دیر ھو چکی تھی۔ واجی پر پھر سے دماغی حملہ ھو چکا تھا۔ وہ کبھی ھنستا تھا، تو کبھی بہت زور زور سے رونے لگ جاتا۔ کبھی وہ چیخنا شروع کر دیتا۔
ڈاکٹر نے کہا تھا، کہ اگر اب کی بار اس پر ایسا ایک حملہ اور ھو گیا، تو واجی کی زندگی کو بھی خطرہ ھو سکتا ھے، مگر جس خطرے کا زیادہ امکان تھا، وہ تھا، واجی کے پاگل پن کا۔ اور اب واجی پر حملہ ھو چکا تھا۔ تھوڑی ھی دیر میں، واجی واجی چلاّتے چلّاتے ایک دم بے ھوش ھو گیا۔ ، ، ، ،
کافی دیر بعد، جب واجی کو ھوش آئی، تو اس نے کسی کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا۔
واجی پاگل ھو چکا تھا
واجی کے ارد گرد رشتے داروں اور محلّے والوں کا ایک جمّ غفیر جمع ھو چکا تھا۔ اس کی والدہ بھی ایک سائیڈ پر بیٹھی رو رھی تھیں ۔ واجی ھوش میں آنے کے بعد، اول فول بکنے لگا تھا۔ پھر اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی، تو کچھ لوگوں نے اسے قابو کر لیا، ورنہ وہ اٹھ کر بھاگ چلا تھا۔ پھر بھی وہ ان سے اتنی آسانی سے قابو نہیں آ رھا تھا۔
واجی کی والدہ بھی اٹھ کر وہاں آ گئیں۔ محلّے والے ان کو پیچھے کھینچتے ھی رہ گئے۔ شائد وہ نہیں چاھتے تھے، کہ وہ اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھیں۔ لیکن وہ سب کو ایک طرف ھٹاتی ھوئی واجی تک پہنچ گئیں۔ اس دوران میں واجی مکمّل طور پر ھوش و حواس سے بیگانہ ھو چکا تھا۔ اس کے منہ سے رالیں بھی بہ رھی تھیں، اور وہ کوثر کا نام لے کر کبھی تو زور زور سے ھنس رھا تھا، تو کبھی اونچی آواز میں رو رھا تھا۔ سارا محلّہ ھی واجی کی اس کیفیّت پر افسوس کر رھا تھا، لیکن، ، ، ،
واجی کی والدہ اپنے جوان بیٹے کو اس حال میں دیکھ کرسکتے میں آ گئیں۔ پہلے تو وہ کافی دیر تک ایسے واجی کو دیکھتی رھیں، اور پھر اچانک وہ بھی زمین پر گر گئیں۔
کچھ لوگوں نے واجی کی والدہ کو ھاسپٹل پہنچانے کی کوشش کی، مگر اب وہ شائد اتنا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں، کہ اپنے جوان بیٹے کو پاگل کے روپ میں دیکھ سکیں، چنانچہ ھاسپٹل جاتے ھوئے راستے میں ھی انہوں نے دم توڑ دیا۔
محلّے میں ایک کہرام مچ گیا ۔
ایک طرف واجی کی والدہ کا جنازہ اٹھ رھا تھا، تو دوسری طرف کچھ لوگ واجی کو سنبھال رھے تھے، جو اپنے آپ میں ھی نہیں تھا۔ محلّے کی عورتیں رو رھی تھیں۔ پورا گاؤں ھی واجی کی والدہ کی اچانک موت پر نوحہ کناں تھا، مگر جس کا سب سے بڑا نقصان ھوا تھا، اسے اس بات کی ھوش تک نہیں تھی۔ اسی بات پر پورا گاؤں سوگوار تھا، کہ واجی تو چلو پاگل ھوا، مگر اس کی ماں بھی چل بسی، اور ستم در ستم یہ بات تھی، کہ واجی اس بات کا احساس تک نہیں کر سکتا تھا، کہ اس نے کیا کھو دیا ھے۔
گاؤں والوں نے اور واجی کے رشتے داروں نے مل جل کر واجی کی والدہ کو منوں مٹّی تلے دفنا دیا۔
اب واجی کا کوئی نہیں تھا، جو کہ اس کو سنبھال سکے، چنانچہ ھم لوگ (اشرف وغیرہ کی فیملی) واجی کو اپنے گھر لے آئے۔ اس دن سے یہ ھمارے پاس ھی رہ رھا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
***************************************
واجی کی داستان سننے کے دوران میں اس قدر کھویا ھوا تھا، کہ مجھے وقت کا احساس تک نہیں رھا تھا۔ جب اشرف کہانی ختم کر چکا، تو میں اس کے بعد بھی، کافی دیر تک گم سم بیٹھا رھا۔ آخر اشرف نے مجھے مخاطب کیا،
" فیروز بھائی، آپ رو رھے ھیں ؟ "
میں اس کی بات سن کر چونکا تھا، اور جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ واقعی میں رو رھا تھا۔ کہانی سننے کے دوران میری آنکھوں سے کب آنسو رواں ھوئے تھے، مجھے پتہ ھی نہ چل سکا تھا۔ لیکن، واقعی واجی کی کہانی اتنی درد ناک تھی، کہ پتھّر سے پتھّر دل آدمی بھی رو دے۔ اسی لئے میں بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکا تھا۔
جب میں ان کی بیٹھک سے نکل رھا تھا، تو شام ھونے والی تھی۔ میں نے ان کی بیٹھک کے کونے میں واجی کو دیکھا۔ وہ دو تین بچّوں کے ساتھ بیٹھا کھیل رھا تھا۔ اس وقت مجھے واجی پر اتنا ترس آیا، کہ میری پلکوں کے گوشے ایک بار پھر سے نم آلود ھو گئے۔ میں ایک بار پھر سے ماضی میں کھو گیا۔ جب ھم دونوں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ زندگی کتنی پر سکون تھی، جب ھمیں کوئی غم نہیں ھوا کرتا تھا۔ کون جانتا تھا، کہ بچپن کو یاد گار بنا کر انجوائے کرنے والا واجی، کل کس آزمائش سے دوچار ھونے والا ھے۔ وہ تو یہی سمجھتا تھا، کہ وہ ھمیشہ اسی طرح سے خوش و خرّم زندگی گزارے گا، ، ،
لیکن آج واجی کس قدر اذیّت ناک زندگی گزار رھا تھا۔
میں یہ سوچتا ھوا واجی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ واجی نے جب مجھے دیکھا، تو ایک دم سے گھبرا گیا، مگر میری آنکھوں میں ھمدردی اور محبّت دیکھ کر وہ ریلیکس ھو گیا۔ میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اس سے ھاتھ ملانا چاھا، تو اس نے کسی قدر تردّد کے بعد مجھ سے مصافحہ کر ھی لیا۔ اس وقت واجی کافی حد تک نارمل نظر آ رھا تھا۔ میں اسے دیکھ رھا تھا، اور میرا دل اندر سے ڈوبا جا رھا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا، کہ اب واجی کے سامنے بیٹھنا میرے لئے مشکل ھو رھا ھے، تو میں نے اپنا ھاتھ واجی کے ھاتھ سے چھڑایا، اور بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ آیا۔ واقعی دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک داستان غم موجود ھے۔
دور کسی کے گھر میں اونچی آواز میں ایم عزیز (انڈیا ) کا ایک گانا لگا ھوا تھا۔
" دنیا میں کتنا غم ھے، میرا غم کتنا کم ھے،
لوگوں کا غم دیکھا تو، میں اپنا غم بھول گیا۔ "
ختم شد