شریف بہن اور بھائی۔ قسط 19

شریف بہن اور بھائی 

 قسط  19

خالو کی آواز نے تو جیسے بمب پھوڑا۔۔ خالہ ایک دم اچھلی لیکن خالو کو دیکھ کر بڑے پیار سے مسکراتے ہوئے بولیں آجا تیری من پسند ڈش بالکل تیار ای۔ لیکن امی نے اپنا منہ نہیں ہٹایا اور مسلسل پھدی چاٹتی رہیں اور پھر اچانک ۔۔۔۔


اب مجھے سمجھ آئی کہ وہ کس کنجر کے آنے کی بات کر رہی تھیں۔ اور میں سوچ رہی تھیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ پہلے خالہ اور امی۔ اب خالو بھی شامل ہو گئے۔ اگر اس کے متعلق کسی کو پتہ چل گیا تو کیا ہو گا۔۔ یہ سوچتے ہوئے اچانک میں اچھل پڑی اور مجھے ادراک ہوا کہ میں کتنی بڑی مصیبت سے بچی ہوں۔ اگر میں وہاں کمرے کے سامنے ہی کھڑی رہتی تو خالو کے آتے ہی پکڑی جاتی۔ تو پھر میرا جو حال ہونا تھا وہ اظہر من الشمس تھا۔ پھر میں نے اپنی نظریں دوبارہ اندر جما دیں۔۔۔۔ خالو آہستہ سے چلتے ہوئے خالہ کے پاس گئے اور امی کے سر کی طرف بیٹھ کر خالو نے خالہ کے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے اور ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے خالہ کے مموں کو مسلنے لگے۔۔۔ 


خالہ لذت بھری سکاریاں بھرنے لگی تھی۔ خالو نے کسنگ کرنے کے بعد خالہ کے موٹے سے نپل کو اپنے منہ میں لے لیا اور چوستے ہوئے نیچے سے خالہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کالے لن پر رکھ دیا۔۔ خالہ لن کو پکڑے اپنی مٹھی آگے پیچھے ہلا رہی تھیں۔ چند منٹ ممے چوسنے کے بعد خالو اٹھے اور سیدھا امی کی طرف آئے اور خالہ کو ہٹا کر امی کو اٹھنے میں مدد دی۔ امی جیسے ہی اٹھ کر بیٹھیں تو خالو کا کالا ناگ اچھل کر امی کے سامنے آیا۔۔ جس کو دیکھ کر امی کی آنکھیں ایسے چمکنے لگیں جیسے کوئی من پسند چیزوں ملنے لگی ہو۔ 


امی نے ہاتھ بڑھا کر خالو کے لن کو پکڑا اور اس کو نیچے سے اوپر تک ہاتھ پھیرتے ہوئے سہلاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ ہائے میں مر جاواں ایڈا وڈا ہو گیا اے۔۔۔۔ پھر غصے سے کہا ویسے توں کتھے رہ گیا سی۔۔۔ تو خالو نے جواب دیا باجو آویکھ تیرے واسطے اینوں تیار کر ریا سی اج تاں ایسی گولی کھادی آ کہ تواڈی دوناں گشتیاں دی پھدیاں نوں پھدے بنا کے ساہ لواں گا۔ اور امی کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیا۔ اور اپنے ہاتھوں سے امی کو چوتڑوں کو دبانے لگے۔ امی کر بڑے بڑے چوتڑ بڑے سیکسی لگ رہے تھے۔۔ اوپر سے امی نے خالو کے منہ میں منہ ڈال دیا اور بڑی مہارت سے خالو کی زبان کو چوسنے لگیں۔ 


خالہ سامنے بیڈ پر ٹانگیں کھول کر بیٹھی اپنی پھدی میں تین انگلیاں اندر باہر کر رہی تھی۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد خالو اور امی بھی بیڈ پر چڑھ گئے اور خالو سیدھا لیٹ گئے۔۔ان کا لن چھت کی طرف رخ کیے کھڑا تھا۔۔۔ امی بڑے پیار سے اسے سہلاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ پھر آہستہ سے آگے ہوئیں اور خالو کے لن کے موٹے ٹوپے کو اپنے منہ میں ڈال لیا اور چوسنے لگیں۔۔ خالہ نجمہ بھی اٹھ کر سامنے آگئی اور نیچے لیٹ کر خالو کے لٹکتے ہوئے بالز کو چاٹنے لگیں۔ اسی طرح دس منٹ تک دونوں لن کو چوستی رہیں اور خالو مزے سے سکاریاں بھرتے رہے۔ 


پھر خالہ اٹھ کر خالو کے اوپر آئیں اور بلکل ان کے لن کر او پر آکر اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنا منہ خالو کے منہ کی طرف کیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نیچے ہوئیں اور اپنے ہاتھ سے خالو کا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے نیچے سیدھا کیا اور اس کے اوپر بیٹھ گئیں جس سے سارا لن ان کی پھدی میں غائب ہو گیا۔۔۔۔ میں آنکھیں پھاڑے سارا سین دیکھ رہی تھی۔ میری پھدی میں پھر سے جلن ہونے لگی اور میں نے اپنی شلوار اتار کر پھر پھینک دی اور دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے پھدی کو مسلنا شروع کر دیا۔ خالہ اچھل اچھل کر اپنے آپ کو چدوا رہی تھی۔ چونکہ خالو کے آنے سے پہلے ہی خالہ پھدی چٹوا کر بہت گرم ہو چکی تھی تو زیادہ ٹائم نہیں نکال پائی اور لرزتی ہوئی منزل ہو گئی۔۔


جیسے ہی خالہ منزل آشنا ہوئی خالو نے خالہ کو ایک سائیڈ پر لڑھکا دیا اور امی کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولے آ جا باجو ہن تیری پھدی دی اگ کڈاں بار۔۔ امی پاس ہی لیٹی ہوئی تھیں۔ خالو نے وہیں لیٹے لیٹے پلٹی ماری اور امی کے اوپر چڑھ گئے اور امی کے ممے چوسنے لگے۔ تو امی تلملا کر بولیں۔۔۔۔۔ ایتھے کیڑی تیری ماں دی گاں بجھی ہوئی اے جیڑا ایناں نوں چھڑ گیا ایں۔ سیدھا کوس نال ہو۔۔۔ خالو نے ہنستے ہوئے امی کو کہا باجو۔۔۔۔۔رن تاں میری وی بہت وڈی گشتی اے پر تیرا مقابلہ نہیں کر سکدی۔۔۔۔۔ اچھا اچھا بوتیاں گلاں نا چود میری پھدی چٹ فٹافٹ۔۔۔


اور خالو نے نیچے ہو کر امی کی پھدی کو منہ لگا دیا۔۔۔۔۔ اور اپنی پوری زبان پھدی کے اندر گھسیڑ کر لپالپ چاٹنے لگے ۔۔۔۔ امی کے منہ سے مزے سے بھرپور آوازیں نکلنے لگیں۔۔۔۔ ہاں اینج ای۔۔ ہاں ہاں اپنج ای۔۔۔۔۔۔ تھوڑا جیا ہور اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انگلیاں نال تھوڑا جیا کھول لے۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں اف ف ف ف فف میں گئی۔۔۔۔۔۔۔ کمرے میں شڑپ شڑپ کی آوازیں گونج رہی تھیں۔۔۔۔ اتنے میں خالہ نے پھر آگے ہو کر لیٹے لیٹے کروٹ لی اور خالو کا لن پھر منہ میں ڈال کر چوسنے لگی۔ امی مسلسل چلا رہی تھیں۔۔۔۔ آہو اینج ای۔۔۔۔۔ اپنی جیب تھوڑی جئی ہور اگے لے جا۔۔۔۔۔۔ آہ بس بس س س س ۔۔۔۔۔۔۔ میں چلی می سی سی۔۔۔۔۔ میں گئی ی ی ی۔۔۔۔ آہو وووو۔ اور ساتھ ہی امی کا جسم جھٹکے کھانے لگا۔۔۔۔۔ 


اور امی کی پھدی سے منی نکلنے لگی اور خالو لگاتار شڑپ شڑپ پھدی کا پانی چاٹتے گئے۔ میں اس وقت اپنی پھدی کے دانے کو مسلتی جا رہی تھی اور دانہ پھول گیا تھا۔۔۔۔ تبھی خالو نے اپنا لن خالہ کے منہ سے نکالا اور آگے ہو کے امی کو اٹھا کر اپنی ٹانگوں کے درمیان میں بٹھایا اور خود لیٹ کر اپنا لن امی کے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔ تو امی نے بڑے پیار سے اس کی ٹولی کو چوما اور اپنے منہ میں لے گئیں۔ کچھ دیر پیار سے چوسنے کے بعد امی کی سپیڈ بڑھ گئی جو اس بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ امی ایک بار پھر گرم ہو چکی ہیں۔۔۔ امی نے لن کو منہ سے نکالا اور اٹھ کر خالو کے ساتھ لیٹ گئیں اور اپنی ٹانگیں کھول کر تھوڑی اوپر اٹھا کر بولیں چل ہن توں میرے اوپر آجا میرے گوڈے بوہتی دیر میرا ساتھ نئیں دیندے امتر جانے پیٹ کرن لگ چندے نیں۔ 


خالو اٹھ کر امی کی ٹانگوں کے درمیان آگئے۔ اور اپنا بڑا سا کالا لن ایک ہاتھ سے پکڑ کر امی کی پھدی کے اوپر رکھا اور ایک جھٹکا مارا تو آدھا لن پھدی میں چلا گیا۔۔۔۔۔ امی کی ایک دم چیخ نکلی۔۔۔۔وے مر جانیاں ہوئی۔۔۔۔۔ مارنا ای سی کی مینوں۔ خالو نے دھکے مارنے شروع کر دیے اور امی ایسے ہی آہ ہ ہ۔۔۔۔۔اف فف ف۔۔۔۔ لگاتار، سٹ زور دی مار۔۔۔۔ ہاں اتے چک لے ہور۔۔۔۔ اس طرح کی آوازیں لگاتی رہی۔۔۔ وہاں انہوں نے کوئی دو گھنٹے تک لگاتار سیکس کیا کبھی خالو نے امی کی پھدی ماری اور کبھی خالہ کی۔ خود خالو کے لن سے بھی تین دفعہ سفید سفید پانی نکلا۔۔۔۔ جب بھی خالو کا پانی نکلنے والا ہو جاتا امی فوراً گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتی اور سارے کا سارا جوس اپنے منہ میں ہی نکلوا کر پی جاتیں۔ 


اور لن کا جوس پیتے وقت امی کے چہرے پر بہت زیادہ خوشی کے آثار ہوتے۔۔ میں اتنے مزے میں تھی کہ پھدی سے پانی نکلنا بند ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔ پھر جب وہ لوگ تھک گئے تو انہوں نے کپڑے پہننا شروع کیئے اور میں آہستہ سے وہاں سے کھسک گئی اور دبے پاؤں نہایت احتیاط سے چلتی ہوئی نیچے ٹی وی لاؤنج میں جا کر لیٹ گئی۔۔۔۔ پندرہ منٹ بعد امی لوگ بھی نیچے آگئے اور کچھ دیر وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم لوگ گھر چلے آئے۔۔۔ ساری رات سوچوں میں گزر گئی کہ وہاں یہ سب کیا چل رہا تھا اور ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ امی کو اس کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔۔۔ لیکن میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ 


اس کے بعد میں اس کوشش میں لگ گئی کہ امی اور ابو کو بھی دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔ لیکن چونکہ وہ لوگ کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیتےہیں تو میری ساری کوشش بیکار گئی۔۔۔۔ انہی کوششوں میں وقت گزرتا گیا۔۔ دن میں سکول اور رات میں بے چینی لیکن کچھ بھی نا کر پائی اسی طرح چند مہینے اور گزر گئے لیکن میں پھر دوبارہ وہ سین نہیں دیکھ پائی۔ اب امی کے گھٹنوں میں درد رہنے لگا تھا۔ اور امی کیلئے سیھڑیاں چڑھنا ممکن نہیں تھا۔ پھر ایک دن میں نے امی کو خالہ سے فون پر بات کرتے سنا۔ وہ باہر ٹی وی کے سامنے بیٹھی خالہ سے بات کر رہی تھیں۔ نجمہ اب میرے گھٹنوں میں درد رہنے لگا ہے زیادہ چلنا پھرنا اور خاص طور پر سیڑھیاں چڑھنا میرے لیے ممکن نہیں۔۔۔ 


اب تم ہی گھر چکر لگا لیا کرو۔۔۔ میں کچن میں کھڑی یہ باتیں سن کر سوچ رہی تھی کہ لگتا ہے اب پھر سے وہ شود یکھنے کو ملے گا۔۔۔ لیکن ہم لوگ سکول چلے جاتے تھے تو پتہ نہیں پیچھے کیا کرتی ہوں گی اور کب کرتی ہوں گی۔ چھٹی والے دن وہ کوئی پروگرام رکھتی نہیں تھیں۔ میرے اندر بے چینی کسی ان دیکھے غبار کی طرح بڑھتی جا رہی تھی۔ اکثر میں واش روم میں جاکر اپنی پھدی مسل کر تسکین حاصل کر لیا کرتی تھی۔ لیکن وہ سب کچھ دیکھنے میں جو مزہ تھا میں اس کیلئے بے چین تھی۔۔۔


پھر ایک رات کی بات ہے کہ مجھے سوتے وقت شدید پیاس لگی اور پیاس کی شدت سے میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ آپی میرے ساتھ ہی سوئی تھیں لیکن اب...


جاری ہے

*

Post a Comment (0)