شریف بہن اور بھائی
آخری قسط
گی امی سے ملنے ابھی ان کو آرام کرنے دو۔۔۔ لیکن ناز آنکھیں نکال کر بولی۔ خبر دار آپی جو آپ نے جانے کا نام بھی لیا تو۔۔ ابھی تو آپ سے جی بھر کر ملاقات بھی نہیں ہوئی۔۔۔ آپ ایسا کریں کہ آپ آج یہاں ہی رک جائیں۔۔۔ صبح ہم لوگ اکٹھے آپ کے گھر چلیں گے۔۔۔ ویسے آپ کے گھر میں اور کون کون ہے مطلب آپ کہاں کس کے ساتھ رہتی ہیں۔۔۔ تو آپی نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کوئی بھی نہیں چھوٹی میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتی ہوں۔۔۔ میں اور میرا بچہ بس ہم دونوں ایک دوسرے کی ذات میں گم رہتے ہیں۔۔۔ میرا بیٹا ہی میری سوچوں کا محور ہے۔۔۔ میں ایک مال میں جاب کرتی ہوں تو بیٹا سارا دن آیا کے پاس رہتا ہے شام کو میں اسے لے آتی ہوں ۔۔۔
ناز بولی بس اب میں آگئی ہوں نا اب میں خود ہی اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کر لوں گی۔۔۔ چلیں آئیں اب کھانا کھاتے ہیں۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد ناز آپی کو ساتھ لے کر امی والے کمرے میں ہی چلی گئی۔۔۔ اور کچھ دیر بعد واپس آکر میرے ہونٹوں کو چوم کر بولی جان آج کی رات آپ اکیلے سو جائیں۔۔۔ میری تو آج کی رات میری آپی کے نام ہو گی۔۔۔ یہ کہہ کر ناز واپس کمرے میں چلی گئی۔ جبکہ میں اٹھا اپنے بیڈ روم میں آکر لائٹ بند کی اور بیڈ پر لیٹ گیا پھر ہزاروں سوچوں میں ڈوبتے تیرتے نجانے کب آنکھ لگ گئی۔۔۔
میں بہت گہری نیند میں تھا جب مزے اور سرور کی وجہ سے آنکھ کھل گئی۔۔۔ میرا لن فل اکڑا ہوا تھا اور کوئی اس کے چوپے لگا رہا تھا۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ ناز آپی کو سلانے کے بعد آئی ہے اور میرے لن کے چوپے لگا رہی ہے۔۔۔ میں بھی مزے میں آگیا اور نیچے سے جھٹکے مارتے ہوئے پورا لن اس کے منہ میں داخل کرنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور میرے اوپر آکر میرا لن اپنی پھدی میں لے کر بیٹھ گئی۔۔۔ اور اوپر نیچے ہونے لگی۔۔۔ وہ فل ننگی تھی۔ میں نے ہاتھوں سے اس کے ممے پکڑ کر مسلنے شروع کر دیے۔ یہ ممے مجھے پہلے کی نسبت بڑے بڑے محسوس ہوئے لیکن میں نے سرور میں ہونے کی وجہ سے زیادہ دھیان نہیں دیا۔۔۔
دو منٹ میں ہی لذت سے میرا برا حال ہو گیا اور میں نے نیچے سے اپنی گانڈ ہلاتے ہوئے جھٹکے مارنے شروع کر دیے۔۔۔ چند جھٹکے مارنے کے بعد میں نے پوری جان سے ایک جھٹکا مارا تو اس کے منہ سے بے ساختہ سکاری نکلی۔۔۔ ہائے امی جی ۔۔۔۔ آہ۔ آہ۔ اف فففففف ساگر در در ر۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ ناز کے تو نہیں تھے۔۔۔ یہ تو۔۔ یہ تو ۔۔ روبی آپی کی آواز تھی میں نے ایک دم اٹھنے کی کوشش کی لیکن آپی نے میرے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر مجھے اٹھنے سے روک دیا۔۔ اور خود اپنی پھدی میں لن لیے اوپر نیچے ہوتی ہوئی بولیں ۔۔۔ ساگر میں بہت ترسی ہوں تمہارے بنا۔۔۔ ابھی کچھ مت بولو۔ بس میری پیاسی روح کو سیراب کر دو۔۔۔
میں نے آپی کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر ایک طرف کیا اور آپی کو اپنے اوپر گرا کر اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں میں پیوست کر دیے۔۔۔ اور نیچے سے اپنا لن آپی کو پھدی میں اندر باہر کرنا جاری رکھا۔۔۔ چند منٹ کی شاندار چدائی کے بعد میرا جسم اکڑنا شروع ہوا تو میں نے آپی کو کہا کہ میں چھوٹنے والا ہوں۔۔۔ لیکن آپی اوپر سے نہیں اٹھیں بلکہ اپنی پھدی کو اور ٹائٹ کر کے لن کو اندر لیتے ہوئے اپنی گانڈ ہلانے لگیں۔۔۔ دو چار جھٹکوں کے بعد ہی میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور میرے لن نے منی سے آپی کی پھدی کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔۔۔ میرا آخری جھٹکا محسوس کرتے ہی آپی نے پوری جان سے اپنی پھدی کو نیچے کی طرف دبایا اور میرے لن کی ٹوپی ان کی بچہ دانی سے ٹکرا کر رک گئی۔۔۔
منی اگلتے لن کی آخری ضرب نے آپی کو بھی جھڑنے پر مجبور کر دیا اور وہ اکھڑتی ہوئی سانسوں کے ساتھ فارغ ہو گئیں۔۔۔ فارغ ہونے کے بعد آپی ایسے ہی میرے اوپر لیٹ گئیں اور مجھے پوری جان سے جھکڑتے ہوئے میرے ہونٹوں کو چومنے اور چاٹنے لگیں۔۔۔ اور میں آپی کی کمر اور گانڈ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔۔۔ کچھ لمحے ایسے ہی گزر گئے۔ پھر آپی میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر پیچھے ہٹیں تو لن پھدی سے باہر نکل آیا اور آپی میری داہنی سائیڈ پر لیٹ گئیں۔۔۔ آپی میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ساگر تم نے مجھے بہت رلایا ہے۔۔۔ میں تم سے ناراض ہو کر وہاں سے چلی تو آئی۔ لیکن میرا دل وہیں تمہارے ساتھ ہی اٹکا رہا۔۔۔
پہلے میں امریکہ گئی وہاں دو مہینے میں ہی میرا کام ختم ہو گیا۔۔۔ ان لوگوں نے مجھے مستقل بنیادوں پر ہائر کرنے کی کوشش کی لیکن میرا دل وہاں بھی نہیں لگا۔۔۔ تو میں لندن چلی آئی۔۔۔ یہاں نیشنیلٹی لینے کی خاطر میں نے ایک برٹش مسلم سے شادی کر لی۔ یہ کہہ کر آپی چپ ہو گئیں۔ جبکہ میں تو پہلے ہی چپ تھا۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آپی پھر گویا ہوئیں۔۔۔ شادی کر کے میں سمجھتی تھی کہ میرا دل لگ جائے گا لیکن اپنے شوہر سے چدواتے وقت بھی مجھے ہمیشہ تمہاری یاد آئی۔۔۔ پھر تمہاری لگائی ہوئی کونپل نے ایک پودے کا روپ دھار لیا اور زین پیدا ہو گیا۔۔۔
زین میرے بیٹے کا نام ہے۔۔۔
زین یہاں کے قانون کے مطابق پیدائشی برٹش نیشنیلٹی کا حامل بن گیا۔۔۔ میرے دل کو کچھ سکون ملا کیونکہ زین تمہارے ہی پیار کی نشانی ہے۔۔۔ میں نے زین کے ساتھ اپنا من لگا لیا۔۔۔ لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔ میرا شوہر بھی زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے پایا اور ایک بینک ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر مارا گیا۔۔۔ تب سے میں ہوں میرا بیٹا ہے اور تمہاری یادیں ہیں۔۔۔ آج جب تم لوگوں کو جب مال میں دیکھا تو مجھے لگا میں خواب دیکھ رہی ہوں کیونکہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسے ہی دھوکہ کھا چکی ہوں۔۔۔
کبھی کسی کے چہرے میں تمہیں ڈھونڈتی ہوں تو کبھی کسے اور کو تمہارے دھوکے میں مخاطب کر جاتی ہوں۔۔۔ لیکن جب تمہیں دیکھ کر میرا یہ خواب حقیقت میں بدلا تو مجھ پر جیسے خوشیوں کے دروازے کھل گئے۔۔۔ میں نے سارا وقت بڑی مشکل سے گزارا ہے۔۔۔ کیونکہ اب تم ناز کے شوہر ہو اس لیے میں اس کے سونے کا انتظار کرتی رہی اور اس کے سوتے ہی اپنی محبت کا خراج وصول کرنے کیلئے یہاں آگئی۔۔۔ میں خود کو روک نہیں پائی اور تمہارے پاس پہنچ گئی۔۔۔ دیکھو ساگر اب سارے حالات ہمارے سامنے ہیں۔۔۔ میں بھی جان چکی ہوں کہ ناز تمہاری بیوی ہے اس لیے میں تمہیں مجھ سے شادی کرنے کو نہیں کہتی ۔۔۔
لیکن مجھے اپنے پاس رہنے دو شادی بے شک مت کرو پر مجھے پہلی بیوی کی طرح حقوق ادا کرو۔۔۔ یہ میرا حق بنتا ہے۔۔۔ اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور ناز اندر داخل ہوئی اور اس نے لائٹ جلا دی۔۔۔ آپی ایک دم گڑ بڑا گئیں اور انہوں نے اپنا منہ میری بغل میں چھپا لیا۔۔۔ تبھی ناز مسکراتے ہوئے بولی۔ آپی کیا ہوا میری جان یہ سب کوئی پہلی دفعہ تھوڑی ہوا ہے۔۔ آپ کا حق بنتا ہے ساگر پر۔ مجھے پہلے ہی کچھ کچھ اندازہ ہوا تھا کہ آپ ضرور ساگر سے ملنا چاہیں گی اس لیے میں سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔۔۔ آپ کے کمرے سے نکلنے کے کچھ دیر بعد میں بھی آپ کے پیچھے چلی آئی کیونکہ میں آپ کی چدائی کا شو دیکھنا چاہتی تھی
لیکن میں تھوڑا لیٹ ہو گئی اور لائٹ بند ہونے کی وجہ سے کچھ دیکھ نا سکی مگر دروازے کے باہر کھڑے ہو کر آپ کی ساری باتیں سن لیں۔۔۔ ناز بولتے بولتے آپی کے پاس آکر لیٹ گئی اور آپی کو کھینچ کر اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔ ناز پھر بولی۔ کیوں آپی آخر آپ کو میری طرف سے کس بات کا اندیشہ ہے صرف یہی نا کہ ساگر میرا شوہر ہے تو آپی کیا ہوا ہم لوگ پہلے بھی تو مل کر مزے کرتے تھے نا۔۔۔ اب بھی کر لیں گے ۔۔۔ اور آپ شادی کیوں نہیں کر سکتیں ساگر کے ساتھ۔۔۔ میں خود آپ کی شادی ساگر سے کرواؤں گی۔ یہاں ہمیں کون جانتا ہے اور ویسے بھی پیپرز کے حساب سے آپ بیوہ ہیں اور آپ کے پیپرز ابو کے نام کی بجائے اب آپ کے شوہر کے نام سے بن چکے ہیں تو ساگر سے شادی کے بعد ساگر کے نام سے بن جائیں گے۔۔۔ اتنا کہہ کر ناز نے آپی کے چہرے کو اوپر اٹھایا اور پھر بولی اب آپ کو کوئی اعتراض ہو تو بتائیں۔۔۔
آپی نے ناز کو اپنے بازوؤں میں کستے ہوئے کہا نہیں میری جان تم تو مجھ سے بھی بڑی ہو گئی ہو تمہاری باتوں نے تمہارا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔۔۔ پر ناز ہم دو بہنیں ایک لڑکے کے ساتھ کیسے شادی کر سکتی ہیں۔۔۔ تو ناز شوخی سے بولی شادی کے بنا دونوں بہنوں کا اسی ایک لڑکے سے پھدی مروانا منظور ہے پر شادی نہیں کرنی ہاں۔۔۔ اور آپی نے پھر سے ناز کے بالوں میں منہ چھپا لیا۔۔۔ اب کی بار میں بولا یار روبی اگر ہم لوگ پہلے بھائی بہن کی حیثیت سے چدائی کر سکتے ہیں اور آپ بہن ہونے کے باوجود میرے بچے کو اپنی کوکھ سے پیدا کر سکتی ہیں۔۔۔ تو شادی کیوں نہیں کر سکتیں۔۔۔ اب تو یہ بھی ثابت ہو چکا کہ میں تم لوگوں کا بھائی نہیں ہوں۔۔ تبھی تو ناز میرے ساتھ بیوی کی حیثیت سے موجود ہے۔۔۔
ہم تھوڑانا کسی کو بتائیں گے کہ تم دونوں سگی بہنیں ہو۔۔۔ تمہاری بات ٹھیک ہے ساگر لیکن تم دونوں ایک اہم نقطہ بھول رہے ہو امی کو کیا بتائیں گے میرے بارے میں آپی نے اندیشوں میں گھرے ہوئے کہا۔۔۔ تو ناز آپی کے ممے پر چٹکی کاٹ کر بولی۔۔۔ یار ایک تو آپ یہ کیا، کیوں اور کب کیسے ، کہاں بہت کرتی ہیں۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا اب مجھے آپ کے ممے چوسنے ہیں آپ کی پھدی چاٹنی ہے۔۔۔ بہت عرصہ گزر گیا مجھے اس ذائقے سے محروم ہوئے۔۔۔ خبر دار ابھی ایک بھی لفظ کہا تو۔۔۔
یہ کہہ کر ناز نے اپنے ہونٹ روبی کے ہونٹوں سے جوڑ دیے اور اسے کس کرنے لگی۔۔۔ میں نے بھی پیچھے سے حملہ کیا اور آپی کی گردن چاٹنے لگا۔۔۔ ساری رات ہم لوگوں نے سیکس میں گزار دی اور ایک نہایت شاندار چدائی کا مزہ لیا۔۔۔ اگلے دن صبح ناشتہ کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ امی کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔۔۔ ہم انکو لے کر فوراً ہسپتال پہنچے ڈاکٹر ز نے چیک اپ کرنے کے بعد بتایا کہ امی کے دماغ کی کیفیت بدل رہی ہے ان کے دماغ پر پڑی ہوئی گرہ کسی بھی وقت کھل سکتی ہے بس ان کو کسی بھی قسم کے صدمے سے بچانا ہوگا۔۔۔ ڈاکٹر نے دوائی بدل دی اور ہم امی کو لے کر گھر آگئے۔۔۔ اسی طرح دن گزرتے گئے اب روبی آپی بھی ہمارے ساتھ شفٹ ہو چکی تھیں۔۔۔ میں نے اور روبی نے کورٹ میر بیچ کر لی۔۔۔
اب میں روبی کو روبی آپی کی بجائے روبی ہی کہوں گا۔۔۔ آخر کو وہ میری بیوی ہے یارو۔۔۔ اور ہمارے دن رات چدائی میں گزرنے لگے۔۔۔ اب ہم لوگ ہر دفعہ اکٹھے ہی سیکس کرتے تھے۔۔۔ ناز کے ساتھ ساتھ میں نے روبی کی گانڈ کا بھی افتتاح کر دیا۔۔۔ چند دن بعد روبی کو بھی میں نے اپنی ہی کمپنی میں جاب دلوادی۔۔۔ اب ہم اکٹھے جاتے تھے اور اکٹھے آتے تھے جب کہ ناز زمین اور امی دونوں کا خیال رکھتی تھی۔۔۔ اور یوں ہم ایک لا جواب اور خوشگوار زندگی گزارنے لگے۔۔۔
آہستہ آہستہ امی کی حالت میں بہتری آئی گئی اور انہوں نے ناز کو پہچان لیا۔۔۔ لیکن وہ پچھلی کوئی بھی بات یاد نہیں کر پارہی تھیں۔۔۔ ہم امی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس چلے گئے ۔۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا۔۔۔ مسٹر ساگر آپ کے لیے خوشخبری ہے۔۔۔ آپ کی مام کی ذہنی حالت اب بلکل درست ہو گئی ہے۔۔۔ اب وہ ہر چیز کو پہچان رہی ہیں۔۔۔ یہ بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ اتنا کہہ کر ڈاکٹر خاموش ہو گیا۔۔۔ میں نے بے تابی سے پوچھا ڈا کٹر لیکن کیا آپ چپ کیوں کر گئے ہیں۔۔۔ تو ڈاکٹر نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ مسٹر ساگر آپ کی والدہ اپنی پچھلی ساری زندگی بھول چکی ہیں اب ان کو پچھلی زندگی کا ایک بھی لفظ یاد نہیں اور ناہی آپ کسی بھی قسم کی کوشش کریں۔۔۔
اس طرح کی کوئی بھی کوشش ان کے دماغ میں انتشار پیدا کر سکتی ہو۔۔۔ جو کہ کافی خطر ناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔ میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔ تبھی ڈاکٹر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے والے انداز میں کہا۔۔۔ ویل مسٹر ساگر آپ کو خوش ہونا چاہیے وہ آگے کی زندگی نارمل طریقے سے گزاریں گی۔۔۔ آپ لوگ اپنے اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ اپنائیت کے ذریعے اپنی والدہ کے دل میں اپنا پن پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔ اور ان کو ان کی دماغی کیفیت کے بارے میں کوئی کہانی بتا سکتے ہیں مطلب آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا اکسیڈنٹ ہوا ہے جس کا تھوڑا اثر دماغ پر پڑا ہے۔۔۔ باقی حالات و واقعات آپ لوگوں کو مل کر سنبھالنے ہوں گے۔۔۔ اب آپ اپنی والدہ کو گھر لے جائیں وہ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔
ہاں ایک اہم بات یہ کہ آپ کی والدہ آپ کی وائف کو پہچان رہی ہیں وہ بھی اس لیے کیونکہ ان کی دماغی کیفیت بگڑنے کے بعد سے آپ کی وائف لمحہ بہ لمحہ ان کے ساتھ رہی ہیں۔۔۔ وش یو آل دی بیسٹ اینڈ گڈ لک مسٹر ساگر ۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ڈاکٹر اٹھ کھڑا ہوا اور ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم امی کو گھر لے آئے۔۔۔ کچھ دن تو امی ماحول اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہیں۔۔۔ وہ ہم سب سے ملکی پھلکی بات بھی کر لیتی تھیں۔۔۔ لیکن میرے اور روبی کے سامنے وہ زیادہ تر چپ کر جایا کرتی تھیں۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہمیں پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔۔
آخر ہم تینوں نے مل کر ایک فیصلہ کیا اور زین کو ساتھ لے کر امی کے کمرے میں جاکر ان کے سامنے بیٹھ گئے۔۔۔ ناز اپنی ذہنی تخلیق سے تیار کردہ سٹوری کے حساب سے آہستہ آہستہ امی کو میرے اور روبی کے متعلق بتانے لگی ۔۔۔ امی یہ ساگر ہیں میرے شوہر ۔۔۔امی نے میری طرف دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور امی نے میرے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا جیتے رہو بیٹا۔۔۔ اور پوچھا یہ لڑکی کون ہے۔۔۔ تو ناز بولی امی اس کیلئے آپ کو شروع سے بتانا پڑے گا۔۔۔ ابو اور ساگر کے پاپا آپس میں گہرے دوست تھے۔۔۔ جب آپ لوگوں کا ایکسیڈنٹ ہوا تو ابو بہت زیادہ زخم زخمی ہو چکے تھے۔۔۔ اور آپ کے دماغ پر بھی چوٹ کا گہرا اثر تھا۔۔۔
اس وقت ساگر نے ہماری بہت مدد کی ورنہ میں اکیلی لڑکی کیا کرتی۔۔۔ ابو ساگر کے حسن سلوک سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مرنے سے پہلے مجھے پابند کر دیا کہ میں ساگر سے شادی کر لوں اور ہم لوگوں نے وہیں ابو کے سامنے ہی چند گھنٹوں میں نکاح کر لیا۔۔ اگلے دن ابو کی ڈیتھ ہو گئی۔۔ ساگر کی پہلے بھی شادی ہو چکی ہے لیکن ابو کی آخری خواہش کا احترام رکھتے ہوئے انہوں نے مجھ سے شادی کی اور ہمیں سہارا دیا۔۔۔ آپکا سارا علاج بھی انہوں نے ہی کروایا ہے۔۔۔ یہ گھر بھی انہی کا ہی ہے اور یہ لڑکی ساگر کی پہلی بیوی روبی ہے۔ یہبہت اچھی ہے اب میری بہن بن چکی ہے۔ اور ہم لوگ بہت خوش ہیں۔۔۔
اب آپ بھی ٹھیک ہو چکی ہیں تو ہماری خوشیاں دوبالا ہو گئی ہیں۔۔۔ یہ ساری باتیں سن کر امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے روبی کی طرف دیکھا تو وہ فوراً آگے ہوئی امی کو سلام کیا اور سر پر ان سے پیار لے کر زین کو امی کے آگے کر دیا۔۔۔ امی فوراً ہی بچے سے بہل گئیں اور زین کو پیار کرتے ہوئے بولیں بیٹا یہ بچہ تو بہت پیارا ہے۔۔۔ زین کو چومنے کے بعد امی مجھ سے مخاطب ہوئیں۔۔ بیٹا تم دونوں نے ہم ماں بیٹی کیلئے اتنا کچھ کیا ہے جس کیلئے میں تم لوگوں کی بہت شکر گزار ہوں۔۔ بس اس ماں کی آخری خواہش پوری کر دو۔۔۔ میں نے ان کے آگے ہوتے ہوئے کہا امی آپ حکم کریں۔۔۔ تو امی آنسوؤں بھرے لہجے میں بولیں بیٹا ایسا ہی ایک بچہ میرے بیٹی کی جھولی میں بھی ڈال دو۔
میری بیٹی کی بھی گود ہری کر دو۔۔۔ میں نے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا اور ناز امی کی بات سن کر شرماتے ہوئے سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔
ختم شدہ