بریزر والی شاپ
قسط 1
ہیلو دوستو۔۔ آج میں آُپکو اپنی ایک چھوٹی سی کہانی سنانے جا رہا ہوں جس میں میں نے مختلف لڑکیوں اور آنٹیوں کی چدائی کی۔ لمبی تمہید باندھنے کی بجائے سیدھے مدعے کی بات پر آتے ہیں۔
تو دوستو میرا نام سلمان ہے۔ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں مگر کسی لڑکی کی چوت کو کیسے چودنا ہے یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ میری تعلیم محض ایف اے ہے۔ اور میری عمر 24 سال ہے۔ ، 5 فٹ 7 انچ قد ہے ، زیادہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نوکری تو ملی نہیں گھر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کی ساری زمہ داری مجھ پر آگئی تھی۔ 20 سال کی عمر میں میں نے کام شروع کیا۔ میں آپکو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میرا تعلق ملتان سے ہے۔ شاہ رکنِ عالم میں ایک چھوٹا سا گھر ہے جو والد صاحب نے اچھے وقتوں میں اپنی زندگی میں ہی بنا لیا تھا جو اب ہماری واحد جائداد تھا۔ 20 سال کی عمر میں جب والد صاحب اس دنیا سے چلے گئے تو میری والدہ نے مجھے کوئی کام ڈھونڈںے کا کہا کیونکہ گھر کا خرچہ بھی چلانا تھا اور سب سے بڑا ہونے کے ناطے یہ کام مجھی کو کرنا تھا۔ مجھ سے چھوٹا ایک بھائی اور 3 بہنیں تھیں جنکی عمر ابھی بہت کم تھی۔
کام ڈھونڈنے کی غرض سے میں حسین آگاہی بازار چلا گیا جہاں تھوڑی سی جدو جہد کے بعد مجھے ایک شخص نے ایک دکان کا پتا بتایا جنہیں ایک سیلز مین کی ضرورت تھی جو نہ صرف گاہک سے بات کر سکے بلکہ حساب کتاب کا بھی پکا ہو۔ میں ان صاب کی بتائی ہوئی دکان پر پہنچ گیا۔ دوپہر 12 بجے کا وقت تھا ابھی بازار میں زیادہ چہل پہل نہ تھی۔ میں دکان میں داخل ہوگیا تو سامنے ایک باریش بزرگ کاونٹر پر موجود تھے اور انکے سامنے کچھ خواتین کھڑی تھیں، مجھے دکان پر آتا دیکھ کر ان بزرگ نے ایک کپڑا آگے کر دیا جو وہ پردے کے لیے استعمال کرتے تھے، اب میں بزرگ کو تو دیکھ سکتا تھا مگر خواتین اور میرے درمیان اب ایک پردہ آچکا تھا اور میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہے کہ ان کو پردے کی ضرورت پڑ گئی جبکہ وہ خواتین پہلے ہی برقع پہنے ہوئے تھیں۔ خیر میں دکان کا جائزہ لینے لگا ۔ یہ کاسمیٹکس اور آرٹیفیشل جیولری کی دکان تھی۔ کچھ دیر بعد پردہ ہٹا اور وہ خواتین وہاں سے نکل گئیں۔ اب بزرگ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے بولو بیٹا کیا چاہیے؟؟؟ میں نے بزرگ کی طرف دیکھا اور کہا سر مجھے جاب چاہیے۔ میں نے سنا ہے کہ آپکو ایک سیلز مین کی ضرورت ہے۔ یہ سن کر بزرک نے کہا، ہاں ہاں میں نے مظفر کو کہا تھا کہ کوئی اچھے گھرانے کا بچہ ہو تو بتائے مجھے سیلز مین کی بہت ضرورت ہے۔ کیا لگتے ہو مظفر کے تم؟؟؟ میں نے کہا کچھ نہیں انکل، میں تو مختلف دکانوں پر جا جا کر جاب کا پوچھ رہا تھا تو کچھ پیچھے ایک دکاندار نے ہی مجھے آپکے بارے میں بتایا کہ آپکو ضرورت ہے تو میں ادھر آگیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بیٹا ایسے تو میں کسی کو نہیں رکھ سکتا، مجھے تو اعتماد والا لڑکا چاہیے۔ ان بزرگ کا نام اقبال تھا۔ میں نے کہا سر آپ بے فکر رہیں مجھ سے آپکو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی، مجھے جاب کی بہت سخت ضرورت ہے، میں نے اقبال صاحب کو گھرکا پتہ اور گھر کے حالات سب کچھ بتا دیا۔ اس پر اقبال صاحب کے لہجے میں پہلے سے زیادہ نرمی اور پیار آگیا، مگر وہ ابھی تک ہچکچا رہے تھے ، پھر انہوں نے کہا بیٹا خواتین اور لڑکیوں سے بحث کرنی پڑے تو کر لو گے؟؟؟ میں نے انہیں بتایا جی انکل میرے سکول میں لڑکیاں بھی تھیں اور فی میل استانیاں بھی اور میں بہت اچھا اور سب کا پسندیدہ سٹوڈنٹ تھا، آپکو میری وجہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
پھر انہوں نے مجھے کہا اچھا چلو تم ابھی جاو، میں تھوڑا سوچ لوں، کل صبح 10 بجے آجانا تم مگر کسی بڑے کو لے کر آنا بہتر ہے اسی مارکیٹ میں کوئی واقف ہو تو اسے لے آنا۔ میں نے انکل سے ہاتھ ملایا اور انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے فورا گھر چلا گیا۔ گھر جا کر میں نے امی سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کافی سوچنے کے بعد ابو کے ایک اچھے دوست کا پتہ مجھے بتایا کہ ان سے جا کر ملو شاید وہ کوئی مدد کر سکیں اس سلسلے میں۔ میں اسی وقت ابو کے دوست سے ملنے چلا گیا، کچھ دیر بعد انکے گھر پہنچا تو قسمت سے وہ گھر پر ہی مل گئے، وہ اپنی بیوی اور 2 بیٹیوں کے ساتھ کہیں گھومنے کے لیے جا رہے تھے مگر میرے آنے کی وجہ سے انہوں نے اپنا پروگرام تھوڑی دیر کے لیے معطل کر دیا تھا۔ میں اپنا تعارف تو جاتے ہی کروا چکا تھا جسکی وجہ سے مجھے انکل اور آنٹی نے بڑے پیار سے اپنے گھر میں بٹھایا اور انکی ایک بیٹی جسکی عمر مشکل سے 15 سال ہوگی میرے لیے میٹھے پانی کا ایک جگ اور ایک شربت لے آئے۔ میں غٹا غٹ 2 گلاس چڑھا گیا تھا کیونکہ صبح سے پھر پھر کر مجھے کافی پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے انکل کو اپنی مشکل بتائی اور ان سے مدد مانگی تو وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے کہ فکر نہیں کرو تمہارا کام ہوجائے گا۔ کل صبح تم پہلے میرے گھر آجانا میں تمہیں اپنے ساتھ لے چلوں گا اور اقبال صاحب کو تمہاری گارنٹی دے دوں گا۔ کچھ دیر اپنی خدمت کروانے کے بعد میں واپس گھر آگیا اور اگلے دن صبح صبح انکل کے گھر جا دھمکا۔ انکل پہلے ہی تیار ہو چکے تھے، 10 بجنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا، انکل نے اپنی بائیک نکالی اور سیدھے حسین آگاہی بازار میں داخل ہونے کے بعد اسی دکان کے سامنے لے جا کر میں نے بائک روکنے کو کہا۔ انکل میرے ساتھ دکان میں داخل ہوئے اور اقبال صاحب کو اپنا تعارف کروایا اور اپنا ملازمتی کارڈ نکال کر اقبال صاحب کو دکھا دیا۔ میرے یہ انکل محکمہ جنگلات میں ملازم تھے، سرکاری ملازم کا کارڈ دیکھ کر اقبا ل صاحب کو اطمینان ہوگیا اور وہ بولے کہ اگر آپ بچے کی ضمانت دیتے ہیں تو میں اسے رکھ لیتا ہوں، روزانہ ایک ٹائم کا کھانا دوں گا اور شروع میں 6000 روپے تنخواہ ہوگی اگر اس نے دل لگا کر کام کیا تو تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔ میں نے فورا حامی بھر لی تو انکل نے کہا ٹھیک ہے اقبال صاحب میں چلتا ہوں، بِن باپ کے بچہ ہے اسے اپنا ہی بچہ سمجھیے گا اور میں گاہے بگاہے چکر لگاتا رہوں گا امید ہے آپکو اس سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
یہ کہ کر انکل چلے گئے جبکہ اقبال صاحب بے کاونٹر کا ایک چھوٹا سا دروازہ کھول کر مجھے اندر آنے کو کہا تو میں اب کاونٹر کےپیچھے کھڑا تھا۔ کاونٹر کے اندر جاتے ہوئے میری نظر دکان کے اس حصے میں پڑی جہاں کل کچھ خواتین کھڑی تھیں تو میرے 14 طبق روشن ہوگئے۔ وہاں عورتوں کے اندر کے استعمال کے کپڑے یعنی بریزئیر پڑے تھے۔ اب مجھے سمجھ لگی کہ کل وہ خواتین اپنے لیے بریزئیر خرید رہی ہونگی تبھی اقبال صاحب نے پردہ گرا دیا تھا۔ خیر میں اندر آگیا تو اقبال صاحب نے مجھے کام سمجھانا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں دکان میں کچھ خواتین آئیں تو اقبال صاحب نے کہا تم نے صرف خاموشی سے دیکھنا ہے کہ گاہک سے کس طرح بحث کی جاتی ہےاور اسے مطمئن کیا جاتا ہے۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا، خواتین نے اپنے لیے کچھ میک اپ کا سامان خریدا اور میں اقبال صاحب کی ڈیلنگ پر غور کرتا رہا۔ ۔ اسی طرح سارا دن مختلف خواتین گاہے بگاہے آتی رہیں اور میں چپ چاپ اقبال صاحب کو دیکھتا رہا، دوپہر میں انہوں نے اپنے گھر سے کھانا منگوایا جو انکا ایک چھوٹا بیٹا دینے آیا تھا۔ میں نے بھی انکے ساتھ ہی کھانا کھایا۔ پورا دن اسی طرح گزر گیا۔ رات کو 7 بجے اقبال صاحب نے مجھے چھٹی دے دی تو میں جلدی سے گھر چلا گیا کہ کہیں اندھیرا نہ ہوجائے۔
جاری ہے