بریزر والی شاپ
قسط 11
پھر کچھ دیر کے بعد آنٹی مجھ سے دوبارہ چدائی کروانے کا وعدہ کر کے چلی گئیں اور میں سلمی آںٹی کی گانڈ کو یاد کرتا رہا۔ 3 سے 4 دن مزید گزر گئے مگر سلمی آںٹی کا نہ تو دوبارہ فون آیا اور نہی سلمی آنٹی خود آئیں، میں نے بھی سلمی آںٹی کو تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا، جب انکی چوت میں کھجلی ہوگی وہ خود ہی میرے سے چدائی کروانے آجائیں گی، یہی سوچ کر میں نے سلمی آںٹی کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی ہمسائی کو گھر بلا کر آسکی خوب چدائی کر ڈالی۔ جس دن اپنی ہمسائی کی چودائی کی اس سے اگلے دن میں دکان پر بیٹھا تھا کہ نیلم اور شیزہ میری دکان پر پھر سے آئیں۔ وہی کالج کا یونیفارم اور گلے میں باریک دوپٹہ جس سے فٹنگ والی قمیص سے مموں کا سائز بڑا واضح نظر آتا تھا۔ مگر آج ان دونوں کے ساتھ رافعہ نہیں تھی جسکو دیکھنے کے لیے میں خاصا بے تاب تھا۔ میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ نیلم اور شیزہ کا استقبال کیا۔ آج دونوں کافی خوش نظر آرہی تھیں۔ میں نے دونوں سے پانی کا پوچھا مگر انہوں نے انکار کیا اور مجھ سے کہا آج کوئی نئی اور اچھی چیز دکھائیں۔ میں نے ان سے پوچھا کس قسم کا برا چاہیے آپکو؟ انہوں نے کہا بس کوئی نئے اور زبردست قسم کے سٹائل کا ہو۔ میں تھوڑا تھوڑا سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔ میں نے پوچھا آپکا مطلب ہے کوئی سیکسی سٹائل میں ہو؟؟؟ اس پر شیزہ تھوڑا سا ہچکچائی مگر نیلم نے مسکراتے ہوئے کہا، ہاں سیکسی ہو۔ میں نے نیلم کے مموں پر نظریں ڈالتے ہوئے کہا کیا آپ شادی شدہ ہیں؟؟؟ نیلم نے کہا نہیں، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟ میں نے کہا کچھ نہیں ، اکثر شادی شدہ لڑکیاں سیکسی برا کی ڈیمانڈ کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہر کو دکھا سکیں اس لیے پوچھ لیا، خیر میں آپکو دکھا دیتا ہوں۔ میری اس بات پر نیلم بھی تھوڑی ہڑبڑا گئی تھی۔ جیسے میں نے اسکی چوری پکڑ لی ہو۔
دراصل نیلم کو سیکسی برا اسی لیے چاہیے تھا کہ وہ اسے اپنے بوائے فرینڈ کو دکھا سکے اور میں نےپہلے شادی کا پوچھ کر اور پھر شوہر کو دکھانے کا کہ کر اسکو یہ احساس دلا دیا تھا کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ کو دکھانے کے لیے سیکسی برا مانگ رہی ہے۔ خیر میں نے ایک سرخ رنگ کا برا نکالا جس پر سفید رنگ کے ستارے لگے ہوئے تھے۔ یہ ہاف کپ برا تھا، یعنی اس سے مموں کا اوپری حصہ واضح نظر آتا تھا، یہ برا نہ صرف مموں کو اٹھا کر رکھتا تھا بلکہ مموں کو بہت واضح کر کے دیکھنے والے کو دکھاتا تھا۔ یہ مموں پر صرف نپل تک ہی آتا تھا، نپلز سے اوپر کا حصہ ننگا ہوتا تھا۔ میں نے یہ برا دکھاتے ہوئے نیلم کو بتایا کہ یہ ہاف کپ برا ہے جو آپکے پارٹنر کو یقینا پسند آئے گا اور آپکے سینے کو بھی ایکسپوز کرے گا۔ میری بات سن کر شیزہ تھوڑا پریشان نظر آرہی تھی مگر نیلم کو جیسے کوئی فکر نیہں تھی۔ نیلم نے برا الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولی، اس کے علاوہ بھی دکھاو کوئی۔ میں نے کہا مس آپکو برا اور پینٹی کا سیٹ دکھا دوں؟؟ نیلن نے کہا ہاں اگر اچھا ہے تو دکھاو۔ میں نے ایک اور برا دکھایا۔ یہ کالے رنگ کا سلکی برا تھا، اسکے دائیں ممے کے کپ سے سٹرپ کندھے کے اوپر سے ہوکر بائیں طرف کی ہک میں لگتی تھی اور بائیں ممے کے کپ کی سٹرپ کندھے سے ہوکر دائں ہک پر لگی تھی۔ یعنی کمر پر برا کی سٹرپ سے کراس بن جاتا تھا۔ اسکے علاوہ اسکے ساتھ ایک پینٹی بھی تھی۔ یہ پینٹی بھی بلیک کلر کی ہی تھی۔ پینٹ اور برا آپس میں ملے ہوئے تھے۔ دائیں ممے کے کپ سے ایک سٹرپ پیٹ سے ہوتی ہوئی پینٹی کے بائیں طرف لگی ہک سے ملتی تھی اور بائیں ممے کے کپ سے سٹرپ نکل کر پینٹی کی دائیں سائیڈ پر ہک سے ملتی تھی۔ ایک کراس کمر پر بنتا تھا تو ایک کراس پیٹ پر بنتا تھا۔ اسکے علاوہ اس برا پینٹی سیٹ کے ساتھ ایک بلیک کلر کا منی سکرٹ بھی تھا جو پینٹی کے اوپر سے پہننے کے لیے تھا۔ یہ پورا سیٹ میں نے نیلم کو دکھایا تو اسے بہت پسند آیا۔ پھر میں نے اسی طرح ایک اور برا اور پینٹی کا سیٹ نکال کر نیلم کو دکھایا جو ہلکے گلابی رنگ کا تھا، اس پر چھوٹے چھوٹے نگینے لگے ہوئے تھے اور برا کے دونوں کپس پر گولڈن کلر کی چھوٹی چھوٹی چین بھی بنی ہوئی تھی جو سلور کی تھی۔ اور اس برا کے پیچھے کمر پر کوئی ہُک موجود نہیں تھی، بلکہ دونوں کپس کے درمیان میں جہاں دونوں مموں کا ملاپ ہوتا ہے وہاں پر ایک کلپ لگا ہوا تھا جسکو کھول کر برا اتارا جاتا تھا۔ اسکے علاوہ اسکے ساتھ پینٹی بھی ہلکے گلابی رنگ کی تھی اور یہ تھونگ سٹائل کی پینٹی تھی۔ اسکی بیک سائیڈ جی سٹرنگ پینٹی سے زرا چوڑی ہوتی ہے مگر عام پینٹی سے باریک ہوتی ہے۔ اور اس پینٹی کے فرنٹ پر برا کی طرح چھوٹے نگینے اور سلور کی چین لگی ہوئی تھی۔ مزید اسکے ساتھ گلابی رنگ کی ہی لیگ سٹاکنگ بھی تھیں جو جرابوں کی طرح پہنی جاتی ہے مگر یہ باریک جالی دار کپڑے کی ہوتی ہے جو پاوں سے لیکر گھٹنوں تک آتی ہے۔ پھر گھٹنوں سے کلپ لگے ہوتے ہیں جو سٹاکنگ سے لیکر پینٹی تک سٹرپ کے ذریعے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔
یہ چیز دکھاتے ہوئے میں نے نیلم کو زور دے کر بتایا کہ نئے شادی شدہ جوڑے اپنے ہنی مون کے لیے اس طرح کے برا پینٹی سیٹ پسند کرتے ہیں اور یہ انکے پیار میں بے حد اضافہ کرتا ہے۔ یہ ڈریس دیکھ کر بھی نیلم کی آنکھوں میں ایک چمک آگئی تھی۔ اس نے شیزہ کی طرف دیکھا اور بولی کہ بہت خوبصورت چیزیں ہیں یہ تو، اور کہیں سے بھی مجھے ایسی چیزیں نہیں ملیں۔ پھر اسکے علاوہ میں نے نیلم کو کچھ مزید سیکسی برا اور پینٹی کے سیٹ دکھائے۔ تمام سیٹ خوبصورت اور سیکسی تھے جنکو دیکھ کر نیلم اور شیزہ دونوں ہی خوش ہورہی تھیں۔ پھر مجھے نیلم نے کہا کہ وہ یہ ٹرائی کرنا چاہتی ہے، مگر انکو ٹرائی کرنے میں تھوڑی دیر ہوسکتی ہے، کیونکہ انکی سیٹنگ تھوڑی مشکل ہوتی ہے اور سارے کپڑے اتارنے پڑتے ہیں انکے لیے۔ میں نے نیلم کو کہا کیوں نہیں آپ ضرور ٹرائی کریں۔ پھر میں نے شیزہ سے پوچھا آپکو بھی اس طرح کے برا پینٹی کے سیٹ چاہیے؟؟؟ اس پر شیزہ نے کہا نہیں مجھے ابھی نہیں چاہیے مگر میں کچھ دن تک لوں گی آپ سے۔ آپ مزید اچھے سٹائل میں منگوا کر رکھیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، ابھی اور بھی اچھے سٹائل پڑے ہیں، اسکے علاوہ کل نیا مال آنا ہے اس میں اس طرح کے اور بھی اچھے اچھے اور سیکسی سٹائل ہونگے جنکو جب آپ پہن کر اپنے بوائے فرینڈ کے سامنے جائیں گی تو وہ پاگل ہوجائے گا۔ میری یہ بات سن کر نیلم ہنسی اور بولی، اسکا بوائے فرینڈ تو اسے ویسے ہی دیکھ لے تب بھی پاگل ہوجاتا ہے۔ یہ کہ کر شیزہ اور نیلم دونوں ہی زور زور سے ہنسنے لگیں، پھر نیلم نے کہا اچھا بھائی میں یہ ٹرائی کرنے جا رہی ہوں تھوڑا وقت لگ جائے گا پلیز مائینڈ مت کیجیے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ تسلی سے چیک کریں۔
نیلم اور شیزہ دونوں ہی ٹرائی روم کی طرف چلی گئیں اور میں اگلے کسٹمرز کا انتظار کرنے لگا۔ نیلم اور شیزہ کو ٹرائی روم میں گئے ابھی 2 سے 3 منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ میرے دماغ کی گھنٹی بجی۔ یہ برا پینٹی چیک کرنے کے لیے تو لڑکی کو مکمل ننگا ہونا پڑتا ہے۔ اگر خالی برا چیک کرنا ہو تو محض اوپر سے ننگا ہونا پڑتا ہے مگر برا پینٹی کا سیٹ ٹرائی کرنے کے لیے اوپری حصے کے ساتھ ساتھ نچلے حصے کو بھی ننگا کرنا پڑتا ہے۔ اور لڑکیاں عموما ایکدوسرے کے سامنے اپنے ممے تو دکھا دیتی ہیں مگر اپنی چوت اور گانڈ ننگی نہیں کرتی۔ جبکہ یہاں شیزہ اور نیلم دونوں ہی ٹرائی روم میں موجود تھیں۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں میرے دماغ میں کئی خیالات آئے اور چلے گئے میں نے اپنے خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ آخر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے سوچا آخر دیکھوں تو سہی کہ اندر دونوں کیا کر رہی ہیں؟؟؟ یہ سوچ کر میں نے اپنے کمپیوٹر سے ٹرائی روم کا کیمرہ آن کیا اور اپنی کمپیوٹر سکرین آن کر لی۔ جیسے ہی کیمرہ آن ہوا اندر کا منظر دیکھ کر میرے 8 انچ کے لن نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ اندر نیلم کالے رنگ کے برا میں تھی جو اسکا اپنا ہی تھا جبکہ شیزہ بالکل ننگی اپنے 34 ڈی کے ممے ننگے کیے ہوئے تھی اور نیلم ان مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی جبکہ شیزہ سسکیاں لے رہی تھی اور اسکی آنکھیں بند ہوئے جا رہی تھیں۔ شیزہ کے چھوٹے چھوٹے ہلکے براون رنگ کے نپل سخت ہورہے تھے ان پر نیلم اپنی زبان پھیر پھیر کر اسکو اور مزے دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر تک نیلم شیزہ کے بڑے بڑے مموں کو پیار کرتی رہی پھر دونوں سیدھی کھڑی ہوگئیں اور شیزہ نے نیلم کا برا بھی اتار دیا۔ دونوں آپس میں آہستہ آواز میں باتیں بھی کر رہی تھیں جسکا مجھے کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا کیونکہ اندر کیمرہ تو لگا ہوا تھا مگر مائک وغیرہ نہیں تھا کہ جس سے مجھے کچھ سمجھ آتی کہ دونوں کیا بات کر رہی ہیں۔ شیزہ نے نیلم کا کالے رنگ کا برا اتارا تو نیچے سے 36 سائز کے گول اور سڈول گورے چٹے ممے اچھل کر نکلے۔ نیلم کے ممے کسی جیلی کی طرح ہل رہے تھے اور اسکے نپل بھی شیزہ کی طرح چھوٹے چھوٹے ہی تھے اور نپلز کے گرد براون رنگ کا دائرہ بھی چھوٹا تھا۔ اب شیزہ کی باری تھی نیلم کے نپلز کو چاٹنے کی اور شیزہ بھی نیلم کی طرح بہت پیار اور مہارت کے ساتھ نیلم کے مموں کو چوس رہی تھی۔ شیزہ تھوڑی سی جھکی ہوئی تھی اور ایک مما اپنے منہ میں لے رکھا تھا جبکہ دوسرے ممے کے نپلز کو شیزہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ مسل رہی تھی جس سے نیلم کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ کیمرہ میں اسکے چہرے کے تاثرات سے میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ نیلم بہت مشکل سے اپنی سسکیوں کو روک رہی تھی اسے یقینی طور پر اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں اسکی سسکیاں باہر نکل کر میرے کانوں تک نہ پہنچ جائے۔
کچھ دیر نیلم کے ممے چوسنے کے بعد اب دونوں سیدھی کھڑی ہوگئیں تھی اور دونوں ایکدوسرے کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو چوس رہی تھیں۔ کبھی نیلم شیزہ کے پتلے پتلے خوبصورت ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے اور زبان سے چوستی تو کبھی شیزہ نیلم قدرے موٹے، انجلینا جولی جیسے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر انکو چوسنے لگی۔ پھر نیلم نے اپنی زبان نکالی اور شیزہ کے ہونٹوں پر اپنی زبان کا دباو بڑھایا تو شیزہ نے اپنا منہ کھول دیا جسکے بعد نیلم نے اپنی زبان شیزہ کے منہ میں داخل کر دی اور اسکو گول گول گھمانے لگی۔ شیزہ بھی نیلم کی زبان کو اپنی زبان سے چوسنے لگی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد شیزہ کے زبان نیلم کے منہ میں پہنچ چکی تھی۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ نیلم نیچے بیٹھ گئی تھی اور اس نے شیزہ کی شلوار اتار دی تھی۔ شیزہ نے پینٹی نہیں پہنی تھی ، مجھے کیمرے میں اسکی چوت تو نظر نہ آئی کیونکہ کیمرے کا اینگل ایسا تھا کہ شیزہ جس سائیڈ پر کھڑی تھی وہاں سے اسکی چوت کیمرے میں نظر نہیں آسکتی تھی البتہ اسکی گوری گوری ٹانگیں اور پورا جسم کیمرے میں نظر آرہا تھا، مگر کیمرہ اوپر ہونے کی وجہ سے اسکی چوت نظر نہیں آرہی تھی۔ نیلم نے شیزہ کی شلوار اتارتے ہی اپنی زبان نکال کر اسکی چوت پر رکھ دی تھی اور اسکو چاٹنے لگی تھی، شیزہ نے اپنا ہاتھ نیلم کے سر پر رکھ لیا تھا اور منہ اوپر کی طرف کر کے آنکھیں بند کیا اپنی سسکیاں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ادھر میرا ہاتھ اپنی شلوار کے اوپر سے ہی لن کو پکڑ کر اسکی مٹھ مارنے میں مصروف تھا۔ میں بڑے انہماک کے ساتھ شیزہ اور نیلم کا سیکس دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک جھٹکا لگا جب مجھے رافعہ کی آواز سنائی دی، نہ جانے وہ کب اندر آئی اور اندر آکر میرے سامنے کھڑی بھی ہوگئی، اس نے مجھے سلام کیا تھا۔ اسکی آواز سنتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا۔ میں نے اوپر منہ کر کے دیکھا تو وہ مجھے کافی پریشان نظر آرہی تھی۔ شاید اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوا تھا کہ میں اس وقت اپنے لن کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا۔ رافعہ کو دیکھ کر جو مجھے جھٹکا لگا تھا اس پر میں نے چند سیکنڈ میں ہی قابو پا لیا تھا اور اپنا ہاتھ لن سے ہٹا کر کمپیوٹر سکرین بھی بند کر دی تھی۔ گوکہ کمپیوٹر سکرین کاونٹر کے اندر نیچے اس طرح پڑی تھی کے سامنے کھڑے شخص کی اس پر نظر نہیں پڑ سکتی تھی کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں، مگر پھر بھی دل میں چور تھا اس لیے میں نے سکرین بند کر دی اور مسکراتے ہوئے رافعہ کی طرف دیکھا۔ میں نے پوچھا جی رافعہ جی کیا ہال ہیں آپکے۔ اسنے کہا مجھے اصل میں وہ چاہیے تھا۔ میں نے کہا وہ کیا؟؟ رافعہ کی کپکپاتی آواز آئی وہ۔۔۔۔۔۔ وہ اصل میں مجھے ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔ برا چاہیے تھا۔ آخری الفاظ اس نے کافی جلدی میں ادا کیے جیسے اسکو مشکل پیش آرہی ہو برا لفظ بولتے ہوئے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ رافعہ ایک شریف اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے اور وہ نیلم اور شیزہ کی طرح بولڈ بھی نہیں ہے۔
میں نے کہا جی رافعہ میں آپکو برا دکھا دیتا ہوں، آپکا سائز کیا ہے؟؟؟ میری اس بات پر رافعہ خاموش کھڑی رہی۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر سے بولا کہ رافعہ آپکا سائز کیا ہے؟؟؟ اس پر رافعہ کی گھٹی گھٹی آواز آئی اور وہ بولی مجھے نہیں معلوم۔ میں اسکی اس بات پر حیران ہوا اور کہا کیا مطلب؟؟؟ آپکو اپنا برا سائز نہیں پتا؟؟ اس پر رافعہ نے پھر سے گھٹی ہوئی آواز میں کہا، پہلے امی لا کے دیتے ہیں مجھے، میں نے کبھی نہیں لیا نہ مجھے سائز معلوم ہے اپنا۔ پھر میں نے رافعہ کو ریلیکس کرنے کے لیے کہا چلیں کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ بتائیں آج اپ اکیلی آئی ہیں نیلم اور شیزہ کے ساتھ کیوں نہیں آئیں؟؟؟ تو رافعہ نے کہا بس ایسے ہی اگر میں انکے ساتھ آتی تو وہ مجھے چھیڑتیں، اور ویسے بھی وہ مہنگے مہنگے برا لیتی ہیں میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ مہنگا برا لے سکوں، مجھے بس کوئی عام سا دے دیں۔ انکے ساتھ میں نے کبھی شاپنگ نہیں کی۔ رافعہ کی اس بات سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکا تعلق میری طرح متوسط گھرانے سے ہے اور وہ ایک خود دار لڑکی ہے، جبکہ نیلم اور شیزہ اسکی غربت کا مذاق اڑاتی ہونگی جسکی وجہ سے رافعہ نے انکے سامنے برا نہیں خریدا۔ یہ سوچ کر میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ رافعہ کو شیزہ اور نیلم سے بھی اچھا اور مہنگا اچھی کوالٹی کا برا دوں گا مگر اس سے قیمت عام برا والی ہی لوں گا۔ پھر میں نے کہا کوئی بات نہیں رافعہ جی، انسان اپنے کردار اور سیرت سے بڑا بنتا ہے، پیسے سے نہیں۔ اگر آپکے پاس زیادہ پیسے نہیں تو آپکو ان دونوں سے دبنے کی یا انسے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مزید میں آپکو اچھے والے برا ہی دکھاوں گا، اور پیسوں کی آپ فکر نہ کریں، میں نے ان پر سیل لگانی ہے اگلے ہفتے سے، تو آپکے لیے میں یہ کرسکتا ہوں کہ اگلے ہفتے کی بجائے آج ہی آپکو اس سیل والی قیمت پر برا دے دوں گا۔ اس پر رافعہ تھوڑی خوش ہوئی مگر پھر اپنی خوشی چھپاتے ہوئے بولی کہ مگر سیل اگلے ہفتے لگنی ہے تو مجھ سے آج کیوں سیل والی قیمت لیں گے آپ؟؟؟ میں نے کہا کچھ نہیں بس ویسے ہی۔ آپ میری طرح متوسط گھرانے سے ہیں، اور خود دار بھی ہیں، تو میں یہ تو نہیں کر سکتا کہ یہی برا جو میں پوری قیمت پر بیچ رہا ہوں وہ آپکو آدھی قیمت پر دوں کیونکہ مجھے معلوم ہے آپکو یہ اچھا نہیں لگے گا۔ البتہ جن برا پر میں نے سیل لگانی ہے اس میں سے ہی میں آپکو آج دے دیتا ہوں، ویسے بھی ایک ہفتے تک وہ بند پڑے رہیں گے سیل تو کرنے نہیں ابھی۔ تو امید ہے آپکو اس بات پر اعتراض نہیں ہوگا۔ اس پر رافعہ نے کہا ٹھیک ہے مگر شیزہ اور نیلم کو نہ پتا لگے کہ میں نے سیل والے مال میں سے برا خریدا تھا ورنہ وہ میرا مذاق اڑائیں گی۔
مجھے یہ بات سن کر رافعہ کی معصومیت پر بہت پیار آیا اور شیزہ اور نیلم پر غصہ بھی آیا۔ مگر میں نے رافعہ پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ دونوں اس وقت اندر ٹرائی روم میں ہیں اور کیا حرکتیں کر رہی ہیں۔ میں نے پھر رافعہ سے پوچھا کہ اب آپکے سائز کا کیا کرنا ہے؟ اگر آپکے پاس کوئی پرانا برا پڑا ہے تو مجھے دکھا دیں میں اس سے اندازہ لگا لوں گا آپکا سائز۔ رافعہ نے کہا نہیں میرے پاس 2 ہی برا ہیں، ایک گھر پڑا ہے اور ایک میں نے پہن رکھا ہے۔ پھر میں نے رافعہ کے سینے پر ایک سرسری سی نظر ڈالی ، مگر اسکے مموں کا اندازہ لگانا مشکل تھا کیونکہ اس نے اوپر ایک چادر لی ہوئی تھی۔ پھر میں نے رافعہ کے جسم پر ایک نظر ڈالی، میرے مطابق اسکی کمر 27 یا 28 کی تھی، وہ بہت دبلی پتلی خوبصورت لڑکی تھی، مگر اسکے سینے پر نظر ڈالنے سے لگتا نہیں تھا کہ اسکا برا سائز بھی چھوٹا ہوگا، پھر بھی میں نے ایک 32 نمبر والا برا نکالا اور رافعہ کو دکھا کر کہا یہ دیکھیں کیا یہ برا آپکے سائز کے مطابق ہوگا؟ رافعہ نے برا پر ایک نظر ڈالی اور بولی سیل میں صرف ایسے ہی برا ہیں؟ کوئی اچھے والے نہیں؟ میں نے کہا ارے رافعہ جی آپکو اچھے والے برا ہی دکھاوں گا یہ تو آپکو دکھا رہا ہوں تاکہ آپ اپنے سائز کے بارے میں بتا سکیں۔ میری بات سن کر رافعہ نے برا کو بغور دیکھا، اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ وہ برا پر نظر ڈالتے ہوئے بھی شرما رہی تھی۔ پھر اس نے جواب دیا کہ نہیں یہ چھوٹا ہوگا مجھے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا واہ جی واہ، اس دبلی پتی لڑکی کے بھی ممے تو بڑے ہونگے۔
پھر میں نے ایک 36 نمبر کا برا اٹھایا اور وہ دکھایا، اسکو دیکھ کر رافعہ نے کہا نہیں یہ بڑا ہوگا میرے۔ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اسکا سائز 34 ہوگا، مگر میں نے جان بوجھ کر 36 نمبر دکھایا تھا ۔ پھر میں نے رافعہ کو کہا، اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک بار اپنی چادر تھوڑی سی ہٹا لیں سامنے سے، مجھے دیکھ کر اندازہ ہوجائے گا آپکے سائز کا پھر میں آپکو ایسے زبردست برا دکھاوں گا جو نیلم اور شیزہ کے پاس بھی نہیں ہونگے۔۔۔ میری بات سن کر رافعہ نے برا سا منہ بنایا، مگر شکر ہے مجھے کچھ کہا نہیں اس نے اور پھر بولی نہیں آپ اس سے چھوٹا دکھا دیں جو آپ نے ابھی دکھایا ہے۔ اور جو پہلے دکھایا تھا اس سے تھوڑا سا بڑا ہو۔ میں سمجھ گیا کہ رافعہ کے مموں پر نظر ڈالنا ابھی میری قسمت میں نہیں۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو میں ابھی مزید تنگ کر لیتا اسکو، مگر نجانے کیوں رافعہ کی معصومیت مجھے اچھی لگی تھی اور میں نے اسے تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے اپنے پاس پڑا سب سے اچھی کوالٹی کا برا رافعہ کو دکھایا جو میں 2000 روپے میں سیل کرتا تھا۔ 34 سائز کا یہ برا نیلے رنگ کا تھا، سلکی کپڑا تھا مگر کپ کے اندر فوم موجود تھا، اور کپ کے نچلے حصے میں ایک چھوٹی سی تار بھی لگی ہوئی تھی جسے رِنگ بولتے ہیں۔ اس رنگ کی وجہ سے برا مموں کو بہت اچھی سپورٹ دیتا ہے اور انہیں اوپر اٹھا کر گول شیپ بھی دیتا ہے اور فوم کی وجہ سے ممے بھی بڑے بڑے لگتے ہیں۔ میں نے یہ برا رافعہ کو دکھایا اور کہا یہ دیکھیں، کتنا خوبصورت برا ہے، بہت اچھا لگے گا آپ پر۔ اس برا پر چھوٹے چوٹے گولڈن ستارے بھی لگے ہوئے تھے جو بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ رافعہ نے برا دیکھا تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آگئی۔ اس نے کہا لیکن یہ تو بہت مہنگا ہوگا۔ میں نے پوچھا آپ یہ بتائیں یہ سائز صحیح رہے گا آپکے لیے؟؟؟ اس پر رافعہ نے کہا جی یہ صحیح ہے۔ میں نے کہا بس پھر آپ یہ لے لیں، مہنگے کی فکر نہ کریں، یہ سیل میں اگلے ہفتے لگانے ہیں۔
رافعہ نے کہا مگر اتنا اچھا اور مہنگا برا آپ سیل میں کیوں لگائیں گے؟؟؟ میں ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گیا کہ اسے کیا جواب دوں، واقعی کوئی بھی دکاندار اچھی چیز سیل میں نہیں لگاتا بلکہ ہلکی کوالٹی کی چیز سیل میں لگائی جاتی ہے، مگر میرے ذہن نے میرا ساتھ دیا اور میں نے فورا ہی اسکو کہا اصل میں یہاں اتنے مہنگے برا خریدتا کوئی نہیں، زیادہ سے زیادہ 1000 سے 1500 تک کے خریدتے ہیں، یہ میں نے سپیشل اپنی پسند کے مطابق منگوائے تھے مگر کوئی لڑکی خریدتی نہیں یہ، صرف 2، 3 لڑکیوں نے خریدے ہیں جنکی شادی ہونے والی تھی انہیں نے اپنی سہاگ رات کے لیے خریدے ، اسکے علاوہ یہ فارغ پڑے ہیں۔ اس لیے انکو سیل میں لگانا ہے۔ میری بات سن کر رافعہ مطمئن ہوگئی اور بولی کتنے پیسے دوں اسکے؟ میں نے کہا بس 500 دے دیں۔ اس پر رافعہ بہت خوش ہوئی اور اسنے اپنے پرس میں سے 500 روپے نکال کر مجھے پکڑائے، اور میں نے برا ایک شاپر میں ڈال کر رافعہ کو پکڑا دیا، رافعہ نے وہ شاپر اپنے کالج بیگ میں ڈالا اور بغیر کچھ کہے سنے فورا دکان سے نکل گئی۔
جاری ہے