بریزر والی شاپ
قسط 15
شیزہ کی اس بات نے مجھے اندر تک گھائل کر دیا تھا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا شیزہ پر مگر کیا کرتا بات تو اس نے سچ ہی کی تھی۔ میں محض میٹرک پاس شخص تھا اور ہائی کلاس سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ مجھے نہیں آتا تھا اسکے علاوہ جس طرح شیزہ کے پاس پیسہ تھا میرے پاس تو ویسے پیسہ بھی نہیں تھا پھر بھلا میں شیزہ کا بوائے فرینڈ بننے کا خواب کیوں دیکھ رہا تھا۔ بحرحال شیزہ اب اپنے کپڑے پہن چکی تھی اور لن والی پینٹی اس نے اپنے کالج بیگ میں ڈال لی تھی میں بھی اپنے آپ کوکوستے ہوئے شلوار قمیص پہن چکا تھا۔ شیزہ نے سامنے لگے شیشے میں اپنے بال درست کیے اور اپنے کپڑوں کو بھی درست کرنے لگی تاکہ باہر نکل کر اسکے حلیے سے یہ نہ لگے کہ وہ کسی کے ساتھ سیکس کر کے آئی ہے۔ میں نے دروازے کا لاک کھول دیا تھا اور سائنڈ بورڈ بھی تبدیل کر دیا تھا۔ واپش شیزہ کے پاس آیا تو اس نے پرس میں سے 4000 نکال کر مجھے دیا، میں نے کہا شیزہ جی یہ 4000 کیوں؟؟؟ شیزہ نے کہا 2500 اس پینٹی کا، 500 جو تم نے کہا تھا کہ میں یہ برا پینٹی کا سیٹ پہن کر تصویریں بنا لوں خریدنے کی بجائے۔ میں نے کہا اور باقی کا 1000؟؟؟ شیزہ نے آگے بڑھ کر ایک بار پھر میرے ہونٹ چوسے اور بولی یہ 1000 میری چوت کو سکون پہنچانے کے لیے جو تم نے اتنا زبردست چودا ہے۔ میں نے 1000 واپس شیزہ کو پکڑاتے ہوئے کہا نہیں شیزہ جی چدائی کرنے کے میں پیسے نہیں لوں گا، آپکو مزہ آیا تو میں نے بھی آپکے جسم سے خوب مزہ لیا ہے حساب برابر۔ یہ باقی کا 3000 میں رکھ رہا ہوں۔ شیزہ نے کہا نہیں کوئی بات نہیں تم 4000 ہی رکھو۔ میں نے کہا نہیں شیزہ جی یہ نہیں ہوسکتا کہ میں آپکو چودنے کے پیسے لوں۔ یہ کہ کر میں نے وہ 1000 کا نوٹ شیزہ کو دے دیا اور واپس کاونٹر میں جا کر کھڑا ہوگیا۔
شیزہ نے کہا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی مگر میں پھر آوں گی دوبارہ۔ یہ کہ کر شیزہ نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور 1000 کا نوٹ پرس میں رکھ کر دکان سے نکل گئی۔ جیسے ہی شیزہ دکان سے نکلی ٹھیک اسی وقت لیلی میڈم دکان میں داخل ہوئیں۔ انکے چہرے پر حیرت کے آثار تھے ، وہ اندر آتی رہیں مگر انکی نظریں شیزہ پر تھیں جب تک شیزہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی لیلی میڈیم شیزہ کو ہی دیکھے جا رہی تھیں۔ میں نے لیلی میڈیم سے پوچھا میم خیریت تو ہے آپ کچھ دیر پہلے ہی تو گئیں تھیں؟؟؟ لیللی میم نے مجھے شک بھری نظروں سے دیکھا اور بولیں یہ لڑکی اتنی دیر تک تمہاری دکان میں کیا کرتی رہی ہے؟؟؟ مجھے ایک شاک لگا کہ لیلی میم کو کیسے پتا کہ یہ لڑکی پچھلے 2 گھنٹے سے میری دکان پر تھیں، مگر میں نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا میم یہ تو ابھی آئی تھی۔ میم نے کہا نہیں جب میں گئی تھی اس وقت یہ لڑکی رکشہ سے اتری تھی اور سیدھی تمہاری دکان میں داخل ہوئی تھی۔ اب میں واپس آئی تو تمہاری دکان کے دروازے پر دکان بندہے کا سائن بورڈ لگا ہوا تھا لہذا میں سامنے والی دکان میں چلی گئی وہاں بھی مجھے کام تھا۔ ابھی جب تم نے دوبارہ سائن تبدیل کیا دکان کھلی ہے کا تو میں اس دکان سے تمہاری دکان میں آئی ہوں اور یہ لڑکی اب نکلی ہے تمہاری دکان سے۔۔۔ میں بری طرح پھنس گیا تھا۔ ایک بار تو مجھے لگا کہ بس سلمان آج تیری خیر نہیں۔ مگر پھر فورا ہی میرا دماغ چلا اور میں نے لیلی میم کو کہا کہ میم ایسی بات نہیں، یہ اس وقت ضرور آئی تھی جب آپ گئی ہیں، مگر یہ برا لیکر چلی گئی تھی، اب پحر 15 منٹ پہلے ہی آئی تھی، میری دکان کا کارڈ اسکے پاس تھا تو اس نے بھی دکان بند دیکھ کر مجھے فون کیا تو میں نے اسے بتایا کہ یہ وقت میرے آرام کرنے کا ہوتا ہے، تو پھر اس لڑکی نے درخواست کی کہ ابھی دکان کھول لو اسے اپنی بہن کے لیے بھی برا لینے ہیں کیونکہ آج رات ہی انکا مری جانے کا پروگرام بن گیا ہے تو گھر سے بہن کا فون آیا ہے کہ اسکے برا نہیں وہ اسکے لیے بھی لیتی آئے۔ تو اس لیے میں نے سائن تبدیل نہیں کیا بس دکان کھول کر اسے اندر آنے دیا اور اس نے اپنی بہن کے لیے برا لیے 15 سے 20 منٹ ہی رکی ہے یہ یہاں اور پھر ابھی آپکے سامنے باہر گئی ہے۔
میں نے فوری طور پر کہانی تو بنا لی تھی مگر شاید میرے چہرے کے تاثرات میری کہانی کے برعکس تھے جسے لیلی میڈیم نے بخوبی پڑھ لیا تھا۔ مگر انہوں نے کچھ کہا نہیں مجھے اور محض اتنا ہی کہا اچھا چلو چھوڑو اصل میں میرے واپس آنے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے بھی اپنے گاوں سے بہن کا فون آیا ہے میں کل کچھ دنوں کے لیے گاوں جا رہی ہوں تو مجھے اپنی بہن کے لیے بھی برا چاہیے۔ میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں میڈیم آپ سائز بتائیں میں آپکو اور برا دکھا دیتا ہوں۔ لیلی میم نے اپنی بہن کے مموں کا سائز بتایا اور میں نے انہیں اسکے مطابق برا دکھا دیے جن میں سے کچھ برا پسند کر کے وہ چلی گئیں، مگر وہ ابھی تک شک بھری نظروں سے دکان کا جائزہ لے رہی تھیں اور مجھے بھی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھیں مگر انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ لیلی میم گئیں تو میں نے سکھ کا سانس لیا اور 2 گلاس پانی کے اپنے حلق میں انڈیل لیے جو خشک ہوچکا تھا۔ پھر میرا سارا دن پریشانی میں ہی گزرا کہ کہیں لیلی میم کو اگر یہ شک ہوگیا کہ میں نے اس لڑکی کو دکان میں چودا ہے تو کہیں لیلی میم مجھے دکان خالی کرنے کا ہی نہ کہ دیں۔ اس پریشا نی میں میں نے کھانا بھی نہیں کھایا اور سیدھا گھر جا کر ہی امی کو کھانے کا کہا۔
امی نے مجھے کھانا لا دیا اور بولیں بیٹا پریشان لگ رہے ہو کچھ۔ ۔ ۔ میں نے کہا نہیں امی ایسی تو کوئی بات نہیں۔ امی نے کہا نہیں بیٹا کوئی تو بات ہے۔ میں نے بہانہ بنایا کہ بس امی آج طبیعت خراب رہی ہے دکان پر، دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اسی لیے۔۔۔۔ امی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے کھانا کھانے کو بولا۔ جب میں نے کھانا کھا لیا اور سونے کے لیے اوپر چبارے پر اپنے کمرے میں جانے لگا تو امی نے کہا رکو بیٹا مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔ میں نے کہا جی امی فرمائیں۔ امی نے میرے سے پوچھا بیٹا کاروبار کیسا جا رہا ہے تمہارا؟ میں نے کہا امی بہت بہتر ہے کرم ہے اوپر والے کا۔ امی کو اندازہ تو تھا ہی کیونکہ اب میں گھر میں امی کو اچھا خاصا خرچہ دینے لگ گیا تھا جسکی بدولت میرے چھوٹے بھائی اور بہنوں کی پڑھائی بھی اچھے سکولوں میں ہورہی تھی اور گھر میں کھانا پینا بھی کافی اچھا ہوگیا تھا پھر امی نے کہا بیٹا جب تمہاری لیلی میڈیم کرایہ لینا شروع کریں گی تب بھی اسی طرح خرچہ آیا کرے گا گھر؟؟؟ میں نے کہا جی امی آپ فکر نہ کریں۔ بس یہ آخری مہنیہ ہی ہے۔ اگلے مہنیے سے لیلی میم کو کرایا دیا کرنہ ہے۔ مگر میں پچھلے 3 ماہ سے 15 کرایہ نکال کر جمع کر رہا ہوں تاکہ مجھے اندازہ ہوسکے کہ دکان سے کرایہ نکالنے کے بعد بھی ہمارا خرچہ اسی طرح ہوگا یا نہیں۔ پچھلے 3 ماہ اور اس ماہ کا کریہ 60 ہزار میرے پاس موجود ہے اگلے ماہ سے کرایہ دینا شروع کرنا ہے تو اسی 60 ہزار کو میں دوبارہ سے دکان میں انویسٹ کروں گا اور مزید مال لے کر آوں گا۔
امی نے میرے سر پر پھر ہاتھ پھیرا اور میرا ماتھا چوم کر بولیں میرا بیٹا کافی سمجھدار ہوگیا ہے۔ امی کے اس پیار سے میں اپنی ساری پریشانی بھول گیا اور میرا دماغ بالکل ہلکا پھلکا سا ہوگیا جو پہلے کافی بوجھل تھا۔ پھر امی نے مجھے کہا بیٹا اصل میں خرچے کا میں اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ اب مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا تیری بہنیں بھی ابھی چھوٹی ہیں اور انہیں پڑھنا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔ امی کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میں نے کہا کوئی بات نہیں امی آپ کام والی رکھ لیں میں اسے تنخواہ دے دیا کروں گا۔ امی نے پیار سے مجھے دیکھا اور کہا نہیں بیٹا کام والی نہیں رکھنی، اب تو گھر والی لانی ہے۔ میں نے کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے امی کی طرف دیکھا تو امی نے کہا بیٹا تیرے لیے ایک لڑکی دیکھی ہے۔ بہت پیاری ہے۔ بس اگر تو ہاں کر دے تو میں اس لڑکی سے تیری بات پکی کر دوں اور پھر جلد ہی تیری شادی بھی کر دوں۔ شادی کا سن کر میرے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ امی نے کہا شرما مت، جلدی بتا۔۔ تجھے میں لڑکی کی تصویر بھی دکھا دیتی ہوں۔ میں نے کہا نہیں امی تصویر کی ضرورت نہیں اگر آپکو لڑکی پسند ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ بات پکی کر دیں۔ یہ سن کر امی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا صدا خوش رہو بیٹا۔ میں کل ہی جا کر تیری بات پکی کرتی ہوں۔ یہ کہ کر امی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں اور میں بھی اپنے کمرے میں جا کر سکون کی نیند سوگیا۔ اگلے دن صبح اٹھا تو امی نے مجھ سے 5000 روپے مانگے۔ 3000 تو میرے پاس شیزہ والا ہی پڑا تھا باقی 2000 میں نے مزید جیب سے نکال کر امی کو دیا اور دکان پر چلا گیا۔ شام کے وقت امی کا فون آیا کہ بیٹا بہت بہت مبارک ہو، میں تمہاری بات پکی کر آئی ہوں، لڑکی والوں کو تمہاری تصویر بھی دکھا دی ہے انہیں تم پسند آئے ہو۔ آج میں مٹھائی لے کر گئی تھی اور لڑکی کے ہاتھ پر پیسے بھی رکھ دیے ہیں۔ میں نے کہا امی جیسے آپکی خوشی۔ امی نے کہا کہ بیٹا کل تم دکان سے چھٹی کر لو لڑکی والوں نے تمہیں دیکھنے آنا ہے۔ اور رسم کرنی ہے انہوں نے بھی۔ میں نے کہا امی چھٹی تو میں نہیں کر سکتا البتہ دوپہر 2 بجے آسکتا ہوں گھر اسی وقت آپ لڑکی والوں کو بلا لیں۔ امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا کل میں انہیں اسی ٹائم بلا لیتی ہوں ۔ امی کی آواز میں بہت خوشی تھی اور میں بھی تھوڑا تھوڑا خوش ہورہا تھا، لڑکی تو میں نے نہیں دیکھی تھی کہ کون ہے کیسی ہے، مگر دل ہی دل میں ایک خوشی تھی کہ اب میری بھی زندگی کی ساتھی ہوگی، رات کو گھر جاوں گا تو ایک پیاری سی مسکراہٹ سے وہ میرا استقبال کرے گی اور رات کو میری راحت کا سامان کرے گی، اسکے علاوہ امی کے ساتھ بھی کام میں ہاتھ بٹایا کرے گی۔
اگلے دن میں دکان پر آیا تو مجھے عجیب سے بے چینی تھی کہ 2 بجے گھر جانا ہے، نجانے کیا ہوگا، مجھے دیکھ کر لڑکی والوں کے کیا تاثرات ہونگے۔ کہیں وہ انکار ہی نہ کر دیں، اور وہ مجھ سے کام کے بارے میں پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں کہ میں لڑکیوں کو برا اور پینٹیاں بیچتا ہوں؟؟؟ بحرحال 2 بجنے میں ابھی آدھی گھنٹہ باقی تھا کہ امی کا فون آگیا کہ بیٹا لڑکی والے آگئے ہیں تم بھی گھر آجاو ۔ میں نے شیشے میں اپنے آپکو دیکھ کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کیے اور کچھ ہی دیر میں گھر پہنچ گیا۔ گھر پہنچ کر میں نے ڈرتے ڈرتے گھر کا دروازہ کھولا تو اندر صحن میں 2،3 بچے کھیل رہے تھے جنہں میں نہیں جانتا تھا یہ یقینی طور پر میرے ہونے والے سسرالیوں کے بچے ہونگے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے سلام کی اور اپنے کھیل میں مصروف ہوگئے۔ سامنے کمرے میں میری بہن نے مجھے دیکھا اور کمرے میں پہنچ کر زور سے بولی بھیا آگئے ہیں۔ یہ سن کر امی اٹھ کر باہر آگئیں اور مجھے اپنی طرف بلایا آجاو بیٹا ادھر ہی۔ میں ڈرتے ڈرتے امی کی طرف بڑھنے لگا۔ نجانے کیوں مجھے عجیب سا خوف محسوس ہورہا تھا، شاید ہر لڑکے کو اسی طرح محسوس ہوتا ہو مگر مجھے اپنا پتا ہے کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا مہمانوں کا سامنا کرتے ہوئے۔
بحرحال میں کمرے میں داخل ہوا تو میری نظریں سامنے بیٹھیں اپنی ہونے والی ساس پر پڑی، وہ مجھے دیکھ کر اپنی جگہ کھڑی ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر انکو سلام کیا اور انکے آگے سر جھکایا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور میرے سر پر پیار کیا۔ ساتھ بیٹھ سسر جی کے سامنے بھی میں تھوڑا سا جھکا تو انہوں نے جیتے رہو بیٹا کہ کر میرے کندھے پر تھپکی دی اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔ انکے ساتھ بیٹھی انکی چھوٹی بیٹی پر میری نظر پڑی تو مجھے ایک دم شاک لگا۔ یہ لڑکی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی جب میری نظر اس پر پڑی تو اسنے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا کیسے ہیں جیجا جی آپ۔۔۔۔ میں نے شاک سے سبھل کر مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا اور کہا آپ یہاں کیسے؟؟؟ میری بات پر اس نے جواب دیا میری بڑی آپی سے ہی آپکی بات پکی ہوئی ہے ۔ امی نے کہا بیٹا تم ایکدوسرے کو جانتے ہو؟؟؟ اس پر میری ساس نے کہا جی بہن جی، جب آپ نے سلمان کی تصویر ہمیں دی تو رافعہ نے ہی ہمیں بتایا تھا سلمان کے بارے میں کہ اسکی شریف پلازہ میں آرٹیفیشل جیولری اور کاسمیٹکس کی دکان ہے۔ رافعہ اپنی دوستوں کے ساتھ سلمان بیٹے کی دکان پر جا چکی ہے 2، 3 بار ، تو اسی کی سفارش پر ہم نے آپکے بیٹے کو پسند کیا ہے۔ رافعہ کو دیکھ کر میں تھوڑا ریلیکس ہوگیا تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مجھے کوئی اپنا مل گیا ہے مہمانوں میں۔ کیونکہ ایک رافعہ ہی تھی جسے میں پہلے سے جانتا تھا۔ رافعہ بھی تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی اور اس نے مجھے بور ہونے نہیں دیا۔ آج اس نے چادر بھی نہیں لی ہوئی تھی البتہ سر پر ایک ہلکا سا دوبپٹہ موجود تھا۔ مگر یہ رافعہ دکان والی رافعہ سے بالکل مختلف تھی۔ دکان پر تو یہ رافعہ بالکل خاموش اور چپ چاپ کھڑی رہتی تھِ مگر آج اسکی زبان رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اس نے میرا دل لگائے رکھا اور باتوں باتوں میں اپنی بڑی آپی کا خوب تعارف بھی کروایا اور اسکے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ میری ساس صاحبہ نے مجھے انگوٹھی پہنائی تو رافعہ نے اپنے موبائل سے تصویریں بنائی اور بولی آپ کو دکھاوں گی میں یہ تصویریں۔ میرے سسرال والے کوئی 3 گھنٹے موجود رہے اور ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ سسر نے میری دکان کے بارے میں معلومات لیں کہ آیا دکان میری اپنی ہے یا کرائے کی اور کتنا کما لیتا ہوں میں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ساس صاحبہ اور امی آپس میں باتیں کرتی رہیں، امی میری تعریفیں اور میری ساس اپنی بیٹی ملیحہ کی تعریفیں کرتی رہیں۔ جی ہاں میری منگیتر کا نام ملیحہ تھا اور وہ رافعہ کی بڑی بہن تھی۔ 5 بجے کے قریب میرے سسرالی جانے لگے تو ایک بار پھر ساس نے پیار دیا اور سسر نے دل لگا کر کام کرنے کی تلقین کی۔ رافعہ نے بھی بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور میرے قریب ہوکر میرے کان میں بولی جیجا جی ملیحہ باجی کے ساتھ آوں گی دکان پر اب میں۔۔۔۔ یہ کہ کر اس نے مجھے آنکھ ماری اور میں اسکی اس بات پر خوش ہوتا ہوا دکان پر چلا گیا۔
جاری ہے