بریزر والی شاپ
قسط 18
اگلے دن وہی اپنی روٹین کے مطابق دکان پر چلا گیا اور کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگا۔ بوریت کی انتہا تھی ابھی تک کل کے منظر آنکھوں میں گھوم رہے تھے جب میم نے خود میری بنیان اتار کر اپنی زبان سے میرے نپلز کو چاٹا تھا۔ اور پھر اپنی لگائی ہوئی آگ کو خود ہی پانی ڈال کر بجھا دیا تھا۔ اسی وجہ سے موڈ آف تھا۔ دوپہر کے 2 بجے تو میں نے دکان کا دروازہ بند کر دیا اور کھانا کھا کر سستانے کے لیے لیٹ گیا۔ ابھی مجھے لیٹے ہوئے 5 منٹ ہی گزرے ہونگے کہ میرے نمبر پر ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ میں نے پہلے تو کال کاٹنے کا سوچا مگر پھر سوچا شاید کسی کا ضروری فون ہو، یہی سوچ کر فون اٹھا کر کال اٹینڈ کی اور ہیلو کہا تو آگے کوئی کھلکھلاتی ہوئی نسوانی آواز تھی۔ میں نے پوچھا کون؟ تو آگے سے وہ لڑکی بولی بوجھو تو جانیں۔ میں نے کہا میں نے پہچانا نہیں کون بول رہی ہیں آپ ؟؟ آگے سے لڑکی چہکتی ہوئی بولی تو اب ہماری آواز بھی نہیں پہچان سکتے آپ؟؟؟ مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے کہا بی بی میرے پاس زیادہ فضول باتوں کا وقت نہیں میرے آرام کا ٹائم ہے کوئی ضروری بات ہے تو بتاو نہیں تو میں فون بند کر رہا ہوں۔
میری بات سن کر آگے سے لڑکی بولی ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔ جیجا جی فون بند نہ کرنا میں رافعہ بات کر رہی ہوں۔ رافعہ کا نام سن کر میرا موڈ ایک دم سے ٹھیک ہوگیا ، آخر کو میری سالی تھی وہ، اور سالی اپنے جیجا سے مذاق نہیں کرے گی تو اور کون کرے گی۔ میں نے کہا ہاں رافعہ کیا حال چال ہیں؟ رافعہ نے کہا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟؟ میں نے کہا میں نے کیسا ہونا ہے، تم نے اپنا وعدہ ہی پورا نہیں کیا ۔۔۔۔ اس پر رافعہ اٹھلاتی ہوئی بولی اجی آپ حکم تو کریں ہماری کیا مجال کہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کریں۔ میں نے کہا بس رہنے دو، تم نے ملیحہ کو مجھ سے ملوانے میری دکان پر لانا تھا اور آج اتنے دن گزر گئے مگر تمہارا کوئی اتا پتا ہی نہیں۔ ملیحہ کو چھوڑو تم نے تو اپنی شکل بھی دکھانا گوارا نہیں کیا۔ چلو بندہ سالی کو دیکھ کر ہی خوش ہوجاتا ہے آخر کو وہ بھی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔ میری بات سن کر رافعہ کھلکھلا کر ہنسی اور پھر بولی میں وعدہ کیسے پورا کروں جب آپ دروازہ بند کر کے آرام کرنے میں مصروف ہونگے۔ میں نے کہا کیا مطلب؟ رافعہ بولی مطلب یہ کہ ماہ بدولت آپکی دکان کے باہر ہیں مگر آپ نے دروازہ لاک کر رکھا ہے۔ یہ سن کر میں نے ایکدم سر اٹھا کر صوفے سے دروازے کی طرف دیکھا تو دروازے کے باہر واقعی رافعہ کھڑی تھی۔ اور اسکے ساتھ ایک اور لڑکی بھی سر جھکائے کھڑی تھی جو رافعہ کے پیچھے تھی اسکی شکل میں صحیح طرح سے دیکھ نہیں پایا۔
مجھے ایک جھٹکا لگا اور دن بھر کی ساری اداسی ایک دم سے غائب ہوگئی۔ پچھلی لڑکی ہو نہ ہو ملیحہ ہی ہے اسی یقین کے ساتھ میں ایکدم سے اٹھا اور فون بند کر کے دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی رافعہ اندر آگئی اور اپنی آپی کو بھی اندر آنے کا کہا۔ رافعہ نے اندر آتے ہی میرے سے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملا کر سلام کیا اور پیچھے ملیحہ نے بھی ہلکی سے آواز میں مجھے سلام کیا تو میں نے پیار کے ساتھ دھیمے لہجے میں اسکے سلام کا جواب دیا اور اسکی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ ملیحہ نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملا لیا۔ اور ایک لمحے کے لیے آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر فورا ہی اپنی نظریں جھکا لیں۔ ان دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کا کہ کر میں نے دروازہ دوبارہ سے لاک کر دیا اور کاونٹر میں جا کر فون پر ساتھ ہی ایک چھوٹی شاپ پر سموسوں اور بوتلوں کا آرڈر کیا۔ اس پر ملیحہ نے رافعہ کو کہنی ماری کے انہیں روکو، مگر رافعہ بولی ارے آپی آپکو تو ابھی سے جیجا جی کے خرچوں کی فکر ہونے لگ گئی، منگوانے دیں منگوانے دیں، ویسے تو انہوں نے ہم سے کبھی پانی کا بھی نہیں پوچھا اب آپکی وجہ سے اگر سموسے اور بوتل مل رہی ہے تو آپ کیوں میری دشمن بن رہی ہو۔ رافعہ کی بات سن کر میں مسکرایا اور کہا بڑی جھوٹی ہے میری سالی تو۔ میں نے تو ڈرنکس کا پوچھا تھا مگر محترمہ خود ہی انکار کر دیں تو بھلا میں کیا کر سکتا تھا۔ میری بات سن کر رافعہ بھی مسکرائی اور بولی نہیں میں تو ایسے ہی مزاق کر رہی ہوں۔ البتہ آج سموسے تو ضرور کھاوں گی آپ سے۔ میں اسکی بات سن کر مسکرایا اور کہا جو حکم سالی صاحبہ کا۔ پھر میں ملیحہ کی طرف متوجہ ہوا، اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تو وہ بھی بالکل رافعہ کی طرح ہی دکھتی تھی۔ دونوں کی شکل و صورت میں کافی حد تک مماثلت تھی ما سوائے یہ کہ ملیحہ کے اوپر والے ہونٹ کے اوپر ایک چھوٹا سا تِل تھا جبکہ رافعہ کا چہرہ بالکل صاف تھا۔ خوبصورت آنکھیں، آنکھوں میں شرم ہو حیا کی وجہ سے لال ڈورے، چہرے پر ہلکی سی مسکان صاف شفاف رنگ ، ہر لحاظ سے ملیحہ رافعہ کی طرح ہی خوبصورت تھی۔ اچھی طرح اسکا جائزہ لینے کے بعد میں نے دل ہی دل میں امی کی پسند کی داد دی کہ انہوں نے اپنے اس نکمے بیٹے کے لیے اتنی اچھی جیون ساتھی ڈھونڈ لی۔ پھر میں نے ملیحہ سے پوچھا کہ آپ ایسے ہی خاموش رہتی ہیں یا کچھ بولتی بھی ہیں۔ میری بات سن کر ملیحہ کو جیسے جھٹکا لگا وہ اسی بات پر بوکھلا گئی کہ میں نے اسکو مخاطب کیا ہے۔ میری بات کا جواب دینے کے لیے اس نے اپنے لب کھولے تو ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہنے لگی۔۔۔ نہیں وہ۔۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی۔۔۔۔ آپکی باتیں سن رہی ہوں۔ میں نے کہا ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم آپکی آواز سنیں اگر آپ بھی تھوڑا سا کچھ بول لیں گی تو اچھا لگے گا۔ اس سے پہلے کہ ملیحہ کچھ بولتی باہر سموسوں والا آگیا تو میں نے آگے ہوکر دروازہ کھولا اور اس سے سموسے اور بوتلیں پکڑ کر اپنے کاونٹر پر لگا دیں۔ اور واپس ہوکر دروازہ پھر سے لاک کر دیا، پھر کاونٹر کے پیچھے جا کر میں نے ملیحہ اور رافعہ کو کہا کہ میرے پاس یہاں کوئی ٹیبل موجود نہیں جو آپکے سامنے رکھ سکوں اس لیے آپکو یہیں آکر کھڑے ہوکر کھانا پڑے گا۔ میری بات سن کر رافعہ تو فورا اٹھ گئی اور ایک سموسہ اٹھا کر ہاتھ سے توڑ کر کھانے لگی حالانکہ پلیٹ میں چمچ بھی پڑا تھا اور ساتھ چٹنی والی پلیٹ بھی تھی مگر وہ بغیر چٹنی کے ہی ہاتھ سے توڑ کر سموسہ کھانے لگی، وہ کچھ زیادہ ہی شوقین لگ رہی تھی سموسوں کی۔ جبکہ ملیحہ ابھی تک صوف پر ہی بیٹھی تھی۔
ملیحہ کو ہچکچاتے دیکھ کر میں نے کہا رافعہ تمہاری آپی خود اٹھ جائیں گی یا مجھے جا کر ہاتھ پکڑ کر اٹھانا پڑے گا انہیں۔ میری بات سن کر رافعہ بولی آپ دونوں کا آپس کا معاملہ ہے مجھے تنگ نہ کریں مجھے سموسہ کھانے دیں آرام سے۔ رافعہ کی بات سن کر میری ایک دم سے ہنسی نکل گئی جبکہ میری بات سن کر ملیحہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوچکی تھی کہ کہیں میں واقعی اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے کے لیے نہ آجاوں۔ ملیحہ کاونٹر کے قریب آئی تو میں نے سموسوں کی ایک پلیٹ اسکے سامنے کر دی اور چٹنی کی پلیٹ بھی اسکے آگے کی۔ رافعہ نے اپنی پلیٹ سے چمچ اٹھا کر وہ بھی ملیحہ کی پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا چلیں آپ دونں مل کر کھا لیں اسی چمچ سے مجھے تو ہاتھوں سے کھانا ہی اچھا لگتا ہے۔ میں نے کہا نہیں میں تو نہیں کھاوں گا میں نے ابھی ابھی روٹی کھائی ہے۔ میری بات سن کر رافعہ بولی وہ تو آپ نے اکیلے کھائی ہے نہ، اب ذرا باجی کے ساتھ بھی تھوڑا سا کھا کے دیکھ لیں شاید کچھ اپنا اپنا سا لگے۔ ملیحہ اسکی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی اور بولی آپ اسکی باتوں کا برا نہ منائیے گا اسکو تو بکواس کرنے کی عادت ہے۔ میں نے کہا شکر ہے آپ بھی کچھ بولیں۔ ویسے آپکی بہن بکواس نہیں کر رہی بلکہ اس نے بہت پتے کی بات کی ہے۔ آج میں بھی تو دیکھوں کہ اپنی منگیتر کے ساتھ کھاتے ہوئے کیسی فیلنگ آاتی ہے۔ میری بات مکمل ہونے تک ملیحہ ایک چمچ اپنے منہ میں ڈال چکی تھی تب میں بھی دوسرے چمچ سے سموسہ توڑنے لگا مگر پھر خود ہی وہ چمچ رافعہ کو واپس کر دیا اور کہا رافعہ میں نے سنا ہے کہ ایک ہی چمچ سے کھانے سے محبت بھی بڑھتی ہے۔ رافعہ کے منہ میں سموسہ تھا وہ ایسے ہی سموسہ کھاتے کھاتے بولی بڑھتی ہوگی، مجھے کیا پتا میں تو ابھی بچی ہوں۔ اسکی بات سن کر میں ہنس پڑا اور کہا نہیں تم اتنی بھی بچی نہیں ہو۔ جبکہ میری محبت بڑھنے والی بات کا سن کر ملیحہ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر چمچ میری طرف کر دیا تھا تاکہ میں بھی اسی چمچ سے سموسہ کھا سکوں جس سے ملیحہ نے کھایا تھا۔ میں نے وہ چمچ پکڑا اور تھوڑا سا سموسہ اپنے منہ میں ڈال کر چمچ واپس ملیحہ کو پکڑا دیا او رکہا واہ ۔ ۔ ۔ اس چمچ سے تو سموسہ بھی میٹھا میٹھا لگ رہا ہے۔ میری بات سن کر ملیحہ اور رافعہ دونوں ہی مسکرانے لگیں۔ میں پیچھے ہوکر بیٹھ گیا تاکہ ملیحہ آرام سے کھا سکے اس نے مجھے دوبارہ سے چمچ پکڑایا مگر میں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ نہیں بالکل گنجائش نہیں، اگر آپ پہلے بتا کر آتیں تو میں آپکے لیے کوئی اچھی چیز بھی منگوا لیتا اور ہم تینوں ملکر کھاتے مگر آپکے آنے سے پہلے ہی کھانا کھایا تھا اب مزید گنجائش نہیں ۔
سموسے کھانے کے بعد رافعہ اور ملیحہ دونوں ہی جیولری دیکھنے لگ گئیں اور میں بہت شوق کے ساتھ انہیں دکھاتا رہا۔ میں جانتا تھا کہ انہوں نے لینا کچھ نہیں بس ایسے ہی وقت گزاری کی خاطر جیولری دیکھ رہی ہیں۔ کیونکہ ابھی ملیحہ اور میں اتنے فری نہیں ہوئے تھے کہ لمبی لمبی باتیں کر سکتے۔ یہ تو ہماری پہلی ملاقات تھی۔ جیولری دیکھنے کے دوران ملیحہ نے ایک دوبار انڈر گارمنٹس کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھی مگر پھر فورا ہی دوبارہ سے جیولری دیکھنے میں مصروف ہوجاتی۔ جب دونوں جی بھر کر جیولری دیکھ چکیں تو رافعہ نے ملیحہ کو کہا آپی چلیں اب؟؟؟ میں نے کہا ارے اتنی جلدی؟؟؟ رافعہ نے کہا جیجا جی آپی کے آنے کی خوشی میں آپکو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا ہمیں آئے ہوئے گھنٹے سے اوپر کا وقت ہوچکا ہے۔ میں نے وال کلاک کی طرف نظر ڈالی تو واقعی 4 بج کر 15 منٹ ہورہے تھے۔ انکو آئے ہوئے 2 گھنٹے گزر چکے تھے۔ اور میری دکان ابھی تک بند تھی جبکہ اس وقت تک میں دکان کھول لیتا تھا۔
ملیحہ نے بھی کہا ہاں چلو چلتے ہیں۔ رافعہ صوفے کی طرف اپنا سامان اٹھانے کے لیے بڑھی تو میں نے ملیحہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس روک لیا اور بہت پیار سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ملیحہ آپ پہلی بار مجھ سے ملی ہو، میرے پاس یہاں کوئی بہت قیمتی چیز تو نہیں لیکن میں آپکو ایک چھوٹا سا تحفہ دینا چاہتا ہوں اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ میں ملیحہ کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ شرم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ مجھے اس طرح اسکا کانپتا ہاتھ دیکھ کر اس پر بہت پیار آیا، میں نے ہولے سے اسکے ہاتھ کو دبایا اور آہستہ سے کہا آپکا ہاتھ کسی غیر کے ہاتھ میں نہیں جو آپ اتنا ڈر رہی ہیں، اب تو آپ میری اور میں آپکا ہوں۔ میری بات سن کر ملیحہ کا ہاتھ تو نہ رکا، وہ مسلسل کانپتا ہی رہا مگر اسکے گالوں پر ایک سرخی اور ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ ضرور آئی۔ اتنی دیر میں رافعہ اپنی چیزیں اٹھا کر واپس پہنچی تو مجھے یوں ملیحہ کا ہاتھ پکڑا دیکھ کر بولی، او ہو۔۔۔۔ یہاں تو رومانس چل رہا ہے میں ایسے ہی کباب میں ہڈی بننے آگئی۔ رافعہ کی بات سن کر ملیحہ نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر میں نے نہ چھوڑا اور کہا بس ایک منٹ ۔۔۔ یہ کر کہ میں ایسے ہی واپس مڑا اور جیولری میں سے ایک انگوٹھی نکالی جسے پہلے رافعہ اور ملیحہ بہت دیر تک دیکھتی رہی تھیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ ملیحہ کو یہ انگوٹھی پسند آئی ہے۔ میں نے وہ انگوٹھی اٹھائی اور ملیحہ کا ہاتھ چھوڑ دیا، پھر اسکو انگوٹھی دکھاتے ہوئے بولا، ابھی میں آپکو گولڈ کی رنگ تو نہیں پہنا سکتا، مگر میرا خیال ہے کہ یہ آپکو اچھی لگی ہے، اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا میں آپکو یہ پہنا سکتا ہوں۔ ملیحہ بولی ارے نہیں اسکی کیا ضرورت ہے، آپ رہنے دیں، آپکی امی نے مجھے گولڈ کی رنگ ہی پہنائی ہے آپکی طرف سے۔ ملیحہ کی بات سن کر رافعہ بولی ارے واہ، ضرورت کیوں نہیں، وہ بے شک گولڈ کی ہو مگر وہ تو آنٹی نے پہنائی تھی، اور یہ جیجا جی خود اپنے ہاتھوں سے، بڑے پیار سے، بڑے چاو سے اپنی منگیتر کو پہنانا چاہ رہے ہیں، تو اسکی ویلیو تو خود ہی گولڈ کی رنگ سے بڑھ گئی نہ۔ رافعہ کی بات سن کر میں نے رافعہ کو کہا ، تمہیں بڑا پتا ہے پیار کے بارے میں ، ابھی تو تم کہ رہی تھی کہ تم بچی ہو۔ یہ سن کر رافعہ ہنسی اور بولی وہ تو میں ہوں۔ پھر میں نے دوبارہ ملیحہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے اپنا بایاں ہاتھ میرے سامنے کر دیا، میں نے اسکا ہاتھ پیار سے پکڑا اور اسکی تیسری انگلی میں انگوٹھی پہنا دی اور پھر اسکو کچھ دیر دیکھنے کے بعد اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ملیحہ نے بھی کچھ دیر تک اپنی انگلی میں انگوٹھی کو دیکھا پھر میرا شکریہ ادا کرنے لگی۔ میں نے کہا ارے شکریہ کیسا ، یہ تو میں نے اپنی پہلی ملاقات کی خوشی میں آپکو دی ہے۔ رافعہ بولی ہاں بس سمجھو آپی آپکو منہ دکھائی ملی ہے۔ یہ سن کر میں نے اور ملیحہ دونوں نے ایک دم سے حیران ہوکر رافعہ کی طرف دیکھا اور وہ بھی تھوڑی شرمندہ ہوکر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئی۔ ملیحہ نے اسکو آہستگی سے ڈانٹا اور بولی شرم کرو رافعہ۔ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی اچھا اب ہم چلتے ہیں بہت دیر ہو رہی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے مگر آپ اپنا نمبر دیتی جائیں تو آپ سے تھوڑی فون پر گپ شپ ہوجائے گی، دوبارہ تو معلوم نہیں کہ آپ کب اپنا دیدار کراوئیں گی۔ ملیحہ نے کہا میرے پاس کوئی موبائل نہیں ، یہ تو ماما کا موبائل ہے۔ آپکا نمبر میرے پاس ہے، میں آپکو خود ہی کال کر لوں گی مناسب وقت دیکھ کر۔ میں نے کہا چلیں یہ بھی ٹھیک ہے، مگر کال کی بجائے ایس ایم ایس کیجیے گا کال میں خود کر لوں گا۔ ملیحہ نے کہا ٹھیک ہے، میں نے ایک بار پھر ملیحہ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا چلیں پھر رات کو امید ہے بات ہوگی۔ ملیحہ نے بھی اپنا ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھاما اور بولی ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی رات 11 بجے کے بعد آپکو ایس ایم ایس کردوں۔ اسکے بعد ملیحہ اور رافعہ تو دونوں ہی چلی گئیں مگر میں کافی دیر تک ملیحہ کے خیالوں میں ہی کھویا رہا، بہت معصوم اور خوبصورت لڑکی تھی۔ رافعہ تو مجھے پہلے ہی پسند تھی اور میری خواہش بھی تھی اس سے دوستی کرنے کی، اور یہ خواہش پوری بھی ہوئی تو اس طرح کہ ایک تو رافعہ سالی بننے کے بعد ویسے ہی فری ہوگئی میرے ساتھ ، جتنا پہلے وہ خاموش رہتی تھی اب اتنا ہی بولتی تھی، جبکہ اسی کی ہم شکل ملیحہ سے میری منگنی ہوگئی۔ دونوں بہنیں ایک جیسی ہی خوبصورت تھیں بس تھوڑا سا ہی فرق تھا جسامت کا اور ملیحہ کے ہونٹوں کے اورپر ایک چھوٹے سے تِل کا۔ رات گیارہ بجے مجھے اسی نمبر سے میسج آیا جس سے دوپہر میں کال آئی تھی، میسج میں لکھا تھا 5 منٹ بعد مجھے کال کریں۔ میں نے 5 منٹ کے بعد کال کی تو آگے سے ملیحہ کی خوبصورت آواز سنائی دی۔ ہم دونوں کے بیچ باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، دونوں ایکدوسرے کو زیادہ نہیں جانتے تھے اس لیے پہلی رات 2 سے 3 گھنٹے بات تو کی مگر صرف ایک دوسرے کے بارے میں معلومات ہی لیتے رہے، کس کو کیا پسند ہے، کیا چیز بری لگتی ہے، مصروفیات کیا ہوتی ہیں، پسندیدہ موویز، اداکار، اداکارہ، فلم، گانے، شعر و شاعری سے شغف، کپڑوں میں پسند نا پسند، بس اسی طرح کی باتیں ہوتی رہیں اور کب رات کے 2 بج گئے پتا ہی نہ لگا۔ تبھی ملیحہ نے مجھے کہا اچھا اب آپ سوجائیں صبح آپ نے دکان پر بھی جانا ہوگا۔ ملیحہ کی بات سن کر مجھے ہوش آیا اور میں نے ملیحہ کو گڈ بائے کہ کر فون بند کر دیا اور اسی کے سپنے دیکھتا ہوا سو گیا
کافی دن گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، نہ تو سلمی آنٹی کی کوئی خیرخبر تھی اور نہ ہی لیلی میڈیم دوبارہ دوکان پر آئیں۔ شیزہ اور نیلم کا بھی کوئی چکر نہیں لگا۔ پھر ایک دن ایک نوجوان جوڑا میری دکان میں آئے۔ اپنی عمر کے حساب سے لڑکی 20 سال کی لگ رہی تھی جبکہ لڑکے کی عمر 22 کے لگ بھگ ہوگی۔ لڑکی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سمارٹ تھی۔ یوں کہ لیں کہ سنگل پسلی لڑکی تھی۔ اسکی کمر 26 کے لگ بھگ تھی۔ اس نے چہرے پر چادر سے نقاب کر رکھا تھا۔ اسکا نام فریحہ تھا جبکہ اسکےساتھ لڑکا جو شکل و صورت سے پڑھا لکھا اور اچھی فیملی کا معلوم ہورہا تھا اسکا نام وقاص تھا۔ وقاص نے مجھے کہا کہ اسے کچھ برا دکھاوں میں ۔ میں نے پوچھا کس سائز کا دکھاوں، وقاص نے فریحہ سے پوچھا کیا سائز ہے؟ فریحہ نے ہلکی آواز میں وقاص کو بتایا کہ اسکا سائز 32 ہے۔ مجھے یہ چیز کچھ عجیب سی لگی، اگر یہ میاں بیوی تھے تو وقاص کو فریحہ کا سائز معلوم ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ بحر حال میں نے 32 سائز کا برا دکھایا اور فریحہ کو کہا کہ ساتھ ہی ٹرائی روم ہے آپ چیک کر لیں کہ صحیح ہے آپکے یا نہیں۔ ٹرائی روم کا سن کر وقاص نے کہا یہ تو اچھی بات ہے، اس طرح میں بھی دیکھ سکتا ہوں کہ کون سا زیادہ اچھا لگے گا۔ میں نے کہا جی ضرور برا تو ہمیشہ اپنی پسند اور فٹنگ کے مطابق ہی لینا چاہیے۔ وقاص نے 3، 4 برا اور نکلوائے اور کہا یہ ایک ہی بار ہم ٹرائی کر لیتے ہیں پھر ان میں سے جو پسند آئے گا وہ ہم آپکو بتا دیں گے۔
میں نے کہا ٹھیک ہے آپ تسلی سے چیک کر لیں۔ اسکے بعد فریحہ اور وقاص دونوں ہی ٹرائی روم کی طرف بڑھے۔ جہاں میں بیٹھتا تھا وہاں سے ٹرائی روم نظر نہیں آتا تھا وہ تھوڑا سا آگے جا کر تھا۔ دونوں کو ٹرائی روم میں گئے ہوئے جب 15 منٹ سے اوپر ہوچکے تو مجھے شک ہوا کہ اندر برا چیک نہیں ہورہا بلکہ کوئی اور ہی کام ہورہا ہے۔ اسی تجسس میں میں نے ٹرائی روم کا کیمرہ آن کرکے اپنی سکرین آن کی ۔ جیسے ہی سکرین آن ہوئی اندر کا منظر کچھ عجیب ہی تھا۔ فریحہ نے اپنی قمیص اور برا اتارا ہوا تھا اور اسکے چھوٹے چھوٹے 32 سائز کے ممے واضح نظر آرہے تھے۔ جبکہ وہ فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور وقاص کا 6 انچ کا لن اپنے ہاتھ میں لیکر مسل رہی تھی۔ وقاص کا چہرہ اوپر کی طرف تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ پھر فریحہ نے وقاص کا 6 انچ کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکی ٹوپی اپنے منہ کے نزدیک کی اور اس پر اپنے خوبصورت ہونٹ رکھ دیے۔ اور پھر آہستہ آہستہ فریحہ نے وقاص کا لن اپنے منہ میں لے لیا۔ گوکہ میں اپنی دوکان میں سلمی آںٹی کو اور شیزہ کو چود چکا تھا مگر کوئی اور میری دکان میں لڑکی کی چودائی کرے یا سیکس کرے یہ مجھے ہرگز ہرگز گورا نہیں تھا۔
جاری ہے