بریزر والی شاپ
قسط 27
میں نے رافعہ کو کہا کیوں تم خود بھی تو مجھے اپنے بوبز دکھانا چاہتی تھی، وہ تو میری شرافت کہ میں نے دیکھے نہیں۔ اور اگر تم نے پہلے ملیحہ اور مجھے کسنگ کرتے دیکھا تو یہ بھی دیکھا ہوگا کہ میں نے اسکی قمیص اٹھائی ہوئی تھی اور اسکے مموں کو دبا رہا تھا۔ اور تم جانتی تھی کہ اب بھی اندر یہی کچھ ہوگا، تم نے جان بوجھ کر مجھے ملیحہ کے ساتھ جانے کو کہا اور کیمرہ بھی آن کروایا تاکہ تم یہ سب کچھ دیکھ سکو۔ جو تم دیکھنا چاہتی تھی وہی تمہیں دکھایا ہے۔ بس اب جو میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ تم مجھے دکھاو گی۔ اور اب جلدی سے باہر آجاو ملیحہ آنے ہی والی ہے۔ یہ کہ کر میں نے کیمرہ اور کمپیوٹر سکرین دونوں ہی بند کر دی اور رافعہ بھی جلدی سے اٹھ کر کاونٹر سے باہر آگئی۔ اور جب رافعہ کاونٹر سے باہر نکل کر کھڑی ہوئی تبھی ملیحہ بھی ٹرائی روم کا دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ اسکے چہرے پر ابھی تک اندر ہونے والے سیکس کی وجہ سے خوشی کے آثار تھے جبکہ رافعہ کا چہرہ بھی کچھ اڑا اڑا سا تھا وہ مجھ سے اور ملیحہ سے نظریں نہیں ملا رہی تھی بس خاموش کھڑی تھی۔ ملیحہ کے باہر آنے کے بعد میں نے ملیحہ کو 2 برا اپنی پسند کے شاپر میں ڈال کر دیے تو رافعہ فورا ہی جانے کے لیے کھڑی ہوگئی۔ ملیحہ ابھی کچھ دیر مزید رک کر مجھ سے باتیں کرنا چاہتی تھی مگر رافعہ نے اسکو ایسا نہ کرنے دیا اور بولی کہ گھر سے امی کا فون آیا ہے کہ جلدی آجاو کافی دیر ہوگئی ہے۔ امی کا سن کر ملیحہ نے بھی جلدی سے جانے کی کی اور مجھے گڈ بائے کہ کر اور ہاتھ ملا کر چلی گئی۔
اسکے بعد کافی دن تک ملیحہ اور میری فون پر بات چلتی رہی مگر رافعہ نے نہ تو کبھی مجھ سے فون پر بات کی اور نہ ہی وہ دکان پر آئی۔ حالانکہ جب ملیحہ اور میری بات ہوتی تھی تو بیچ میں کبھی کبھی رافعہ اس سے فون پکڑ کر مجھ سے بات کر لیتی تھی۔ مگر جب سے رافعہ نے کیمرے میں میرا لن دیکھا تھا اس نے مجھ سے بات نہیں کی تھی۔ اس بات پر مجھے تھوڑی سی پریشانی تو ہوئی تھی کہ کہیں وہ یہ بات اپنے گھر نہ بتا دے اگر اسے زیادہ ہی بری لگی ہو میری یہ حرکت مگر پھر میں نے سوچا کہ اگر اس نے بتانی ہی ہوتی تو وہ آخر تک ہمارا شو کیوں دیکھتی؟؟؟ اور اب تک ملیحہ کو بتا چکی ہوتی مگر ملیحہ تو نارمل بات کر رہی تھی مجھ سے اس نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا تھا کہ گھر میں رافعہ کی وجہ سے کوئی مسئلہ بنا ہو۔ اور ویسے بھی مجھے اس بات کا یقین تھا کہ وہ خود ہی یہ سب کچھ دیکھنا چاہ رہی تھی اور میں نے اسکی خواہش کے مطابق اسے دکھا دیا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ اسے یہ امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی یہ سب کچھ ہوجائے گا۔ اس لیے میں نے اسکے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ ضرور کچھ دنوں تک نارمل ہوجائے گی پھر ایک جمعہ والے دن میں نے دوستوں کےساتھ ٹیوب ویل پر نہانے کا پروگرام بنایا اور صبح 6 بجے ہی کچھا اور ٹی شرٹ پہن کر موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے دوست کی طرف جانے لگا کہ میڈیم لیلی کی کال آگئی۔ اتنی صبح صبح لیلی میڈیم کی کال دیکھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو لیلی میڈیم سے ہائے ہیلو کے بعد لیلی میڈیم نے پوچھا کہ میں نے صبح صبح کال کر کے تمہیں تنگ تو نہیں کیا؟؟؟ میں نے کہا نہیں میم میں تو خود ہی آج صبح اٹھ گیا تھا میرا اپنے دوستوں کے ساتھ ٹیوب ویل پر نہانے کا پروگرام ہے آج۔ میری بات سن کر لیلی میم نے کہا او ہو۔۔۔۔۔ تو تم اپنے دوستوں کے ساتھ جارہے ہو؟؟؟ میں نے کہا جی ہاں۔۔۔ خیریت ہے ؟ کوئی کام ہے تو بتائیں۔۔۔ لیلی میم نے کہا اصل میں آج میں نے سوچا تھا کہ تمہارے ساتھ جا کر ذرا اپنی حویلی کو چکر لگا آوں۔ میں نے کہا کونسی حویلی؟؟ آپکے گاوں میں؟؟ لیلی میم بولیں نہیں وہاڑی چوک سے کچھ آگے بہاولپور روڈ پر ہماری زمین ہے تو وہاں ہم ایک حویلی بنوا رہے تھے جسکا کام ابھی رکا ہوا ہے۔ مگر مہینے میں ایک بار میں وہاں کا چکر ضرور لگاتی ہوں تو میں نے سوچا تھا آج تمہارے ساتھ وہیں چلی جاوں۔ میں نے مروت میں لیلی میم کو کہا کوئی بات نہیں میڈیم اگر آپ کہتی ہیں تو میں آجاتا ہوں۔۔۔ میم نے کہا لیکن تمہارا اپنا پروگرام؟ میں نے کہا کوئی بات نہیں میڈیم وہ ہم اگلے جمعہ کو بنا لیں گے۔ میرا خیال تھا کہ لیلی میم مجھے منع کر دیں گی اور کہیں گی کہ ہم اگلے جمعہ کو حویلی چلے جائیں گے مگر ابھی تم اپنے دوستوں کے ساتھ جاو۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا الٹا لیلی میم نے مجھے کہا ٹھیک ہے پھر تم آجاو میرے گھر یہاں سے اکٹھے آگے نکل جائیں گے۔
مجھے لیلی میڈیم پر غصہ تو بہت آیا مگر پھر سوچا کہ چلو شاید لیلی میم کا کام زیادہ ضروری ہو تو اس طرح کسی کی مدد کرنے میں کیا حرج ہے جب انہوں نے مشکل وقت میں میرا ساتھ بھی دیا ہو۔ یہی سوچ کر میں واپس اپنے کمرے میں گیا اور ایک انڈر وئیر اٹھا کر پہن لیا کیونکہ اب لیلی میم کو دیکھ کر میرا لوڑا بلاوجہ ہی کھڑا ہوجاتا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ لیلی میم کبھی یہ سوچیں کہ انہیں دیکھ کر میری حالت خراب ہوتی ہے اس لیے میں نے انڈر وئیر پہن لیا اور موٹر سائکل پر لیلی میم کے گھر پہنچ گیا۔ انکے گھر بھی میں اسی کچھے اور ٹی شرٹ میں چلا گیا تھا۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا تو لیلی میم اپنے لان میں ہی بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ مجھے موٹر سائیکل پر دیکھ کر وہ کافی حیران ہوئیں اور پوچھا یہ تمہارا اپنا ہے؟؟؟ تو میں نے کہا جی میم بس کچھ دن پہلے ہی لیا ہے۔ لیلی میم نے مجھے بائیک کی مبارکباد دی اور بولیں چلو پھر تمہارے بائک پر ہی چلتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟؟؟ میں نے کہا ٹھیک ہے میم جیسے آپکی مرضی۔ دل ہی دل میں میں خوش بھی ہوا کہ لیلی میم میرے ساتھ جڑ کر بائک پر بیٹھیں گی۔ لیلی میم اس وقت ایک شلوار قمیص اور چھوٹے دوپٹے میں ملبوس تھیں۔ انہوں نے کہا چلو پھر تمہاری بائیک پر ہی چلتے ہیں اور انہوں نے مجھے بائیک سٹارٹ کرنے کا کہا اور خود میرے پیچھے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے بائیک کو ریس دی اور انکے گھر سے نکل کر وہاڑی چوک کی طرف بڑھنے لگا جہاں سے مجھے آگے بہاولپور روڈ کی طرف جانا تھا۔ صبح 6 بج کر 30 منٹ کا وقت تھا روڈ پر زیادہ ٹریفک نہیں تھی اس لیے میں قدرے تیز رفتاری کے ساتھ بائیک چلا رہا تھا کہ اچانک روڈ پر وہاڑی چوک سے کچھ پہلے ایک بچہ آگیا جسکی وجہ سے مجھے اچانک بریک لگانی پڑی اور لیلی میم بائک کی سیٹ پر تھوڑا سا پھسل کر میرے قریب ہوگئیں اور انکے 36 سائز کے کسے ہوئے ممے مجھے اپنی کمر پر محسوس ہونے لگے۔ لیلی میم نے مجھے کہا کہ دھیان سے بائیک چلاو تو میں نے رفتار تھوڑی دھیمی رکھی مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ لیلی میم دوبارہ سے پیچھے نہیں ہوئیں بلکہ وہ اپنے ممے میری کمر میں گھسائے میرے ساتھ چپک کر بیٹھی رہیں جسکی وجہ سے میرے انڈروئیر میں میرے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا اور میں شکر کر رہا تھا کہ میں نے انڈر وئیر پہن لیا تھا۔ لیلی میم کے ممے مسلسل میری کمر کے ساتھ لگے ہوئے تھے مگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی تھی جسکی وجہ سے میں یہ سمجھتا کہ وہ اس وقت سیکس کے لیے تیار ہیں، نہ تو انہوں نے میری کمر پر اپنے مموں کو مسلا اور نہ ہی زیادہ چپک کر بیٹھیں، جتنا قریب وہ بریک لگنے کی وجہ سے ہوئیں تھیں بس اتنا ہی قریب ہوکر وہ بیٹھیں تھی اور انکے ممے میری کمر پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔
کچھ ہی دیر بعد ہم بہاولپور روڈ پر پہنچ چکے تھے جہاں قریب 2 سے 3 میل کی دوری پر جا کر لیلی میم نے مجھے ایک کچے راستے پر چلنے کو کہا اور میں نے بائیک کچے راستے پر چلا دی۔ یہاں بائیک کی رفتار کافی دھیمی تھی اور روڈ پر کھڈے ہونے کی وجہ سے کافی جھٹکے لگ رہے تھے۔ انہی جھٹکوں کی بدولت اب بار بار لیلی میم کے ممے میری کمرے سے ٹکرا رہے تھے اور جھٹکے لگنے کی وجہ سے ممے محض ٹچ نہیں ہوتے تھے بلکہ پوری طرح میری کمر کے ساتھ دب جاتے تھے۔ مگر لیلی میم اس بار نہیں بولیں کہ بائیک دھیان سے چلاو کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ بائیک پر اس طرح کے جھٹکے تو لگیں گے ہی جب روڈ خراب ہوگا لہذا وہ خاموشی سے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھی رہیں اور میں اپنی کمر پر لیلی میم کے مموں کو محسوس کر کے خوش ہوتا رہا۔ یہاں لیلی میم مجھے راستہ بتاتی رہیں اور کچھ دیر کے بعد لیلی میم نے ایک زیرِ تعمیر حویلی نما کوٹھی کے سامنے بائیک روکنے کے لیے مجھے کہا۔ میں نے بائیک روکی تو لیلی میم بائیک سے اتریں اور اپنے پرس میں سے ایک چابی نکال کر حویلی کے بڑے گیٹ پر لگا تالا کھولا اور گیٹ کھول کر مجھے بائیک اندر لیجانے کو کہا۔ اندر کافی بڑا کھلا گروانڈ تھا جس میں کچھ پودے لگے ہوئے تھے اورچند ایک درخت بھی تھے اور گراونڈ میں گھاس تھی۔ حویلی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی نہیں رہتا اور چیزیں کافی بکھری ہوئی تھیں۔ لیلی میم دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آگئیں اور میں نے بھی بائیک ایک سائیڈ پر کھڑی کر دی۔ لیلی میم کسی سے فون پر بات کر رہی تھیں اور مختصر سی بات کر کے میم نے فون بند کر دیا۔ پھر لیلی میم نے مجھے کہا کہ آو تمہیں اپنی حویلی دکھاوں۔ یہ کہ کر لیلی میم میرے آگے آگے چلنے لگیں اور میں انکی فٹنگ والی قمیص میں سے انکے 32 سائز کے ہلتے ہوئے چوتڑ دیکھ دیکھ کر اپنے لوڑے کو مسل رہا تھا۔ حویلی کی عمارت میں جا کر لیلی میم مجھے مختلف کمرے دکھانے لگیں اور انکے بارے میں بتانے لگیں کہ کس کمرے کو کس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ حویلی بہت بڑی تھی پوری حویلی دکھاتے دکھاتے لیلی میم کو 20 منٹ ہوچکے تھے اور ابھی حویلی کا پچھلا حصہ دیکھنا باقی تھا۔ اتنے میں مجھے کمرے سے باہر گراونڈ میں ایک عورت اور 2 مرد آتے دکھائی دیے۔ لیلی میم نے بھی انہیں دیکھ لیا اور مجھے لیکر انکی طرف چل پڑیں۔ یہ یہاں کام کرنے والے لوگ تھے، تعمیر کا کام تو رکا ہوا تھا مگر میم لان کی صفائی وغیرہ اور کچھ دوسرے ضرور کام ہر مہینے کرواتی تھیں۔ ان میں سے ایک مالی تھا جسکو لیلی میم نے لان کی صفائی اور پودوں کی صفائی کا حکم دیا جب کہ ایک شخص کو عورت کے ساتھ مل کر تمام کمروں کی صفائی کا کہا اور اسکے بعد مجھے حویلی کے پچھلے حصے میں لے گئیں ۔ وہاں ایک خوبصورت چھوٹا سا لان بنا ہوا تھا جس میں چند کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور آگے ایک سائیڈ پر ایک چھوٹے سائز کا سوئمنگ پول تھا جس میں اس وقت خاصی مٹی اور پتے وغیرہ پڑے تھے ۔۔ سوئمنگ پول سے تھوڑا ہی آگے ایک ٹیوب ویل لگا ہوا تھا۔ میں نے لیلی میم سے پوچھا کہ کیا یہ ٹیوب ویل چلتا بھی ہے تو لیلی میم نے بتایا کہ ہاں یہ چلتا ہے اس سے ہم اپنی زمین میں لگی فصل کو پانی دیتے ہیں۔
میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو ٹیوب ویل کو حوض خاصا بڑا تھا اور اس میں نہانے کا یقینا مزہ آتا مگر اس میں گندہ پانی کھڑا تھا۔ جس میں نہانا ممکن نہیں تھا۔ لیلی میم نے میری بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھا نہانے کا ارادہ ہے کیا اس میں؟؟؟ میں نے کہا جی میڈیم، آج بڑا موڈ تھا ٹیوب ویل پرنہانے کا اب سامنے ہے تو دل کر رہا ہے۔ میم نے کہا مگر اس وقت تو اسمیں پانی خاصا گندہ ہے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک سائیڈ پر مجھے ایک بڑے سائز کی بالٹی رکھی نظر آئی، میں نے میم کو کہا گندہ پانی میں ابھی نکال دیتا ہوں پھر ٹیوب ویل چلا کر مزید صفائی کرکے نہا لوں گا۔ میم نے کہا تم ایک منٹ رکوں ، کرمو فارغ ہوجائے تو پھر وہ صفائی کر دے گا۔ میں نے کہا نہیں میم میں خود کر لوں گا اسکو تو بہت دیر ہوجائے گی اور پھر دھوپ بھی تیز ہوجانی تو میں کر لیتا ہوں۔ یہ کہ کر میں نے اپنی ٹی شرٹ اور بنیان اتار کر ٹیوب ویل کے پائپ پر لٹکا دیا ور کچھا اوپر کر کے بالٹی اٹھا کر ٹیوب ویل کے حوض میں گھس گیا اور وہاں سے گندا پانی بالٹی بھر بھر کر باہر نکالنے لگا۔ کچھ دیر میں جب سارا پانی باہر نکل گیا تو نیچے موجود کوڑا کرکٹ اور میل وغیر کو میں نے جھاڑو سے صاف کیا اور کافی حد تک حوض کی صفائی کر لی۔ اس دوران لیلی میم واپس حویلی کے کمروں میں جا چکی تھیں اور وہاں موجود نوکروں سے کام کروا رہی تھیں۔
میں نے ٹیوب ویل چلایا اور جب تھوڑا سا پانی ٹیوب ویل میں بھرا تو ٹیوب ویل بند کر کے دوبارہ سے حوض کا پانی نکالا تاکہ مزید گند باہر نکل جائے اور اندر تازہ اور فریش پانی رہ جائے۔ اس کام میں مجھے قریب آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا اور مجھے خاصہ پسینہ آچکا تھا۔ مگر یہ ساری صفائی کر لینے کے بعد میں ٹیوب ویل سے باہر نکل آیا اور لیلی میم کا انتظار کرنے لگا۔ کیونکہ حوض کے آگے نکلنے والا پائپ بند تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آیا اسکو کھولنا ہے تاکہ پانی فصلوں کی طرف جا سکے یا پھر اسکو بند ہی رکھنا ہے اور فصلوں تک پانی جانے سے روکنا ہے۔ 15 منٹ کے انتظار کے بعد لیلی میم آگئیں اور پوچھا کہ تم نے نہانا شروع نہیں کیا ابھی تک؟؟؟ میں نے میم سے پانی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کھول دو ویسے بھی تم صفائی نہ بھی کرتے تو ٹیوب ویل چلا کر فصلوں کو پانی تو دینا ہی تھا۔ یہ سن کر میں نے ٹیوب ویل کے حوض سے آگے نکلنے والے پائپ کا بڑا سا ڈھکن ہٹا دیا تاکہ پانی آگے نکل سکے اور اسکے بعد پیچھے بنی چھوٹی سی کوٹھری سے ٹیوب ویل آن کر دیا۔ لیلی میم اور میں ٹیوب ویل کے بڑے پائپ سے ٹھنڈا پانی نکلتا دیکھ رہے تھے۔ میں نے میم سے نوکروں کے بارے مِں پوچھا تو میم نے بتایا کہ وہ جا چکے ہیں ۔ انکا کام پورا ہوگیا۔ اب بس ٹیوب ویل چلا کر کھیتوں تک پانی پہنچانا ہے اور پھر واپسی۔ مین نے میم سے پوچھا کہ آپ بھی نہاتی ہیں ٹیوب ویل میں؟؟؟ تو میم نے کہا ہاں جب میرے شوہر چل پھر سکتے تھے تو ہم دونوں یہاں آکر نہاتے تھے۔ میں نے کہا تو آج بھی نہائیں، بہت ٹھنڈا پانی ہوتا ہے ٹیوب ویل کا سکون مل جائے گا۔ میری بات پر میڈیم کی آنکھوں میں بے چینی کافی واضح تھی، مگر انہوں نے بے بسی سے کہا نہیں میرے سارے کپڑے خراب ہوجائیں گے۔ میں نے کہا تو آپ میرے کپڑے پہن لیں۔۔۔ میم نے کہا نہیں تمہارے بھی تو خراب ہونگے اور واپسی پر بائیک پر جانا ہے تو ٹھنڈے کپڑوں کی وجہ سے ہوا لگے گی اور نمونیا ہو سکتا ہے۔ میں نے کچھ سوچنے کے بعد کہا آپ ایسا کریں میری بنیان پہن لیں واپسی پر میں بنیان نہیں پہنوں گا ٹی شرٹ پہن کر چلا جاوں گا۔ میم نے کہا اور میری شلوار؟؟؟؟ میں نے میم کی شلوار کی طرف دیکھا اور کہا میں نے انڈر وئیر تو پہنا ہوا ہےاگر آپ چاہیں تو میری نیکر پہن سکتی ہیں۔ لیلی میم نے کہا نہیں تم رہنے دو۔ بس تم نہاو میں پھر کبھی نہا لوں گی ایکسٹرا کپڑے ساتھ لے آوں گی۔ میں نے میم پر زیادہ زور نہیں ڈالا اور ٹیوب ویل کے حوض کی طرف چلا گیا۔ وہاں جا کر میرے دل میں خیال آیا کہ کیا معلوم میم کا بھی موڈ بن جائے نہانے کا اس لیے اپنی نیکر اتار دوں۔
میں نے میم سے کہا اگر آپ برا نہ منائیں تو میں اپنی نیکر اتار دوں؟؟؟ نیچے انڈر وئیر ہے۔ میم نے کہا ہاں اتار دو اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے۔ میں نے فورا اپنی نیکر اتاری اور ٹیوب ویل کے حوض میں کود گیا جو اب بھر چکا تھا ، اس میں پانی کے اخراج والا سوراخ کافی اونچا تھا جسکی وجہ سے یہ بڑا حوض کافی پانی جمع کیے ہوئے تھا اور میرے پیٹ تک ٹیوب ویل میں پانی موجود تھا۔ پانی میں چھلانگ لگانے کے بعد ایک بار میں ٹیوب ویل سے نکلنے والے پانی کے نیچے سر کر کے کھڑا ہوگیا اور اپنے پورے جسم پر پانی گرنے دیا۔ ٹھنڈا ٹھنڈا پانی سر پر پڑنے سے بہت سکون مل رہا تھا۔ جب میں نے ٹیوب ویل کے نیچے سے سر ہٹا کر کچھ گہری سانسیں لیں تو میں نے دیکھا کہ لیلی میم حوض کے بالکل قریب کھڑیں تھیں اور مجھے نہاتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں لیلی میم کے تھوڑا قریب ہوا اور اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کپکپاتے ہوئے کہا میم بہت ٹھنڈا پانی ہے، آجائیں آپ بھی بہت مزہ آئے گا۔ میم نے مسکراتے ہوئے کہا دل تو بڑا کر رہا ہے مگر کپڑوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا میم آپ کپڑوں کی فکر نہ کریں، اپنی قمیص اتار کر میری بنیان پہن لیں اور شلوار کی جگہ میری نیکر پہن لیں اور گھبرائیں نہیں دونوں صاف ہیں میں نے آج صبح ہی یہ بنیان اور نیکر پہنی ہے۔ دھلی ہوئی ہیں۔ میم نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں وہ بات نہیں، تمہاری بنیان تک تو ٹھیک ہے وہ میں پہن سکتی ہوں مگر تمہاری نیکر ۔۔۔۔۔ وہ تو تم نے واپسی پر لازمی پہننی ہے۔ میں نے کہا میم وہ میرا مسئلہ ہے آپ پریشان نہ ہوں، بس آپ کپڑے تبدیل کریں اور آجائیں۔ میم نے پھر سے کہا نہیں یار تمہاری نیکر خراب ہوجائے گی۔ میں نے پھر ہنستے ہوئے کہا اسکا تو پھر یہی حل ہے کہ جیسے میں انڈر وئیر میں نہا رہا ہوں آپ اپنے انڈر وئیر میں نہا لیں۔ یہ کہ کر میں نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور دوبارہ سے ٹھنڈے پانی کے نیچے اپنا سر لے گیا۔ کچھ دیر ٹھنڈا پانی سر پر دوبارہ سے ڈالنے کے بعد میں نے حوض میں ایک غوطہ لگایا اور سوئمنگ کرتے ہوئے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔ حوض خاصا بڑا تھا، اسکی کم سے کم لمبائی 20 ہوگی۔ اور اتنا لمبا حوض بنوانے کا مقصد یقینا یہی ہوگا کہ میم اپنے شوہر کے ساتھ اس میں نہاتی ہونگی۔ دوسری طرف پہنچ کر میں نے ایک اور غوطہ لگایا اور واپس ٹیوب ویل سے نکلنے والے پانی کی طرف آگیا، وہاں پہنچ کر میں نے ایک بار پھر ٹیوب ویل کے نیچے اپنا سر کیا اور پھر سانس لینے کے لیے اپنا سر باہر نکالا تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔
حوض کے باہر لیلی میم میری بنیان پہن کر کھڑی تھیں۔ بنیان کا گلا چونکہ کافی بڑا ہوتا ہے اس لیے میری بنیان سے لیلی میم کے ابھرے ہوئے ممے واضح نظر آرہے تھے اور انکی خوبصورت کلیویج بھی بنی ہوئی تھی۔ بنیان کے نیچے میم کا کالے رنگ کا برا واضح نظر آرہا تھا۔ میرے انڈر وئیر میں لن نے ایک بار پھر سے سر اٹھا لیا تھا اور مجھے یہ سوچ سوچ کر ہی کچھ ہونے لگا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد لیلی میم اور میں اسی حوض میں اکٹھے نہائیں گے۔ اور میں لیلی میم کے بدن سے کھیلوں گا۔ اتنے میں مجھے ٹیوب ویل کے پائپ پر اپنی نیکر نظر آئی تو میں نے ایک دم سے لیلی میم کی ٹانگوں کی طرف دیکھا کہ اگر میری نیکر وہاں ہے تو لیلی میم نے کیا پہنا ہے۔۔۔۔ اف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا نظارہ تھا وہ جب میں نے لیلی میم کی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔ لیلی میم نے اپنا دوپٹا اپنی ٹانگوں پر لپیٹ رکھا تھا جو بمشکل انکی گوش سے بھری ہوئی رانوں کو ڈھانپ رہا تھا۔ دوپٹے کے نیچے شاید میم نے پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ میں بالکل سکتے کی حالت میں میم کو دیکھ رہا تھا جب مجھے میم کی آواز آئی، میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچو۔ میں ہوش میں آیا تو لیلی میم نے اپنا خوبصورت ہاتھ میری طرف بڑھایا ہوا تھا جسکو میں نے فورا ہی تھام لیا، تو میم نے اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھائی اور ٹیوب ویل کے حوض کی دیوار پر رکھ دی۔ دیوار خاصی اونچی ہونے کی وجہ سے میم کو کافی مشکل ہوئی اپنی ٹانگ اوپر رکھنے میں ، اور اسی وجہ سے مجھے میم کی ٹانگوں کے درمیان کا نظارہ بھی مل گیا۔ میم کی ایک ٹانگ حوض کی دیوار اور ایک نیچے زمین پر تھی اور میری نظریں میم کے دوپٹے کے درمیان میں تھی جہاں سے میم کی کالے رنگ کی پینٹی واضح نظر آرہی تھی۔
جاری ہے