Brazer wali dukan - Episode 33

بریزر والی شاپ

قسط 33 



نیلم اور شیزہ کے جانے کے بعد میں کافی دیر بیٹھا رافعہ کے بارے میں سوچتا رہا کہ آخر اسے کیسے لائن پر لایا جائے؟؟ یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ کہیں نہ کہیں اسکے دل میں بھی سیکس کی خواہش ہے تبھی تو وہ کیمرے کے سامنے اپنے کپڑے اتار چکی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکا جیجا کیمرے میں دیکھ سکتا ہے، بلکہ اسکے خیال کے مطابق تو میں دیکھ ہی رہا تھا۔ میں رافعہ کو راضی تو کر لیتا چدائی کے لیے مگر یہ تب ہوتا جب وہ میری دکان پر آتی یا مجھ سے بات کرتی۔ ابھی تو مسئلہ یہ تھا کہ نہ تو رافعہ فون پر بات کر رہی تھی اور نہ ہی وہ کافی دن سے میری دکان پر آئی تھی۔ بہت سوچا مگر کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں؟؟ ایک دو بار ملیحہ سے بھی کہا کہ سالی سے بات کرواو ، مگر ملیحہ نے ہر بار کہا کہ وہ آجکل کافی خاموش رہتی ہے اور کسی سے بات نہیں کرتی۔ اور میرے سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیتی ہے۔ ملیحہ کی اس بات سے بھی مجھے مایوسی ہوئی تھی مگر پھر اچانک ہی ایک امید کی کرن پیدا ہوئی جب مجھے اپنی ساس صاحبہ کا ایک دن فون آیا۔ فون پر میری ساس صاحبہ فرما رہی تھیں کہ بیٹا رافعہ کا رکشے والا بیمار ہوگیا ہے جو اسے روزانہ کالج لے جاتا تھا اور واپس بھی لے آتا تھا گھر تو اگر تمہارے پاس وقت ہو تو کچھ دن تم رافعہ کو کالج لیجانے اور واپس لانے کا کام کر دو۔ میں نے بغیر سوچے جلدی سے ہاں کر دی اور کہا آنٹی ٹائم نہ بھی ہو تو سالی کے لیے تو ٹائم نکالنا ہی پڑتا ہے۔ یہ کہ کر میں نے آنٹی کو یعنی کے اپنی ساس کو بتا دیا کہ کل میں 8 بجے آوں گا تو رافعہ کو کہیے گا وہ تیار رہے۔ 


اگلے دن وقت سے پہلے تیار ہونا پڑا کیونکہ پہلے میں آرام سے 9 بجے اٹھ کر 10 بجے تک یا اس سے بھی دیر سے دکان پر جاتا تھا، مگر آج رافعہ کو لے کر جانا تھا اور کالج کا ٹائم ساڑھے آٹھ بجے کا تھا تو اس لیے میں 8 بجے اپنے سسرا پہنچ چکا تھا۔ سسرال جانے کا یہ میرا دوسرا موقع تھا اس سے پہلے منگنی ہونے کے بعد میں محض ایک بار ہی اپنے سسرال گیا تھا۔ سسرال جا کر بلا جھجک میں اندر داخل ہوگیا، دروازہ کھلا تھا اندر صحن میں گیا تو وہاں ایک چارپائی پر رافعہ کالج یونیفارم پہنے بیٹھی تھی اور اس نے سر پر ایک چادر لے رکھی تھی۔ اسکا موڈ کافی خراب لگ رہا تھا مجھے دیکھ کر اس نے منہ دوسری طرف کر لیا جب کہ ملیحہ جو اس وقت رافعہ کے ساتھ بیٹھی تھی وہ مجھے سلام کر کے اندر کمرے میں چلی گئی کیونکہ سسرال میں ایسا ماحول نہیں تھا کہ میں ملیحہ سے کھل کر بات چیت کر سکوں۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنی ساس صاحبہ کو سلام کیا اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے پیار دیا اور پھر رافعہ سے مخاطب ہوکر بولیں، اٹھ جاو بیٹا اب، بھائی نے اپنے کام بھی کرنے ہوتے ہیں دیر نہیں کرو اب۔ اور ہاں دوپہر کو سلمان کی دکان پر ہی چلی جانا وہ تمہیں گھر بھی چھوڑ دیں گے۔ یہ کہ کر آنٹی نے میری طرف دیکھا اور بولیں ٹھیک ہے نا بیٹا کوئی مسئلہ تو نہیں؟؟؟ میں نے کہا نہیں آنٹی ویسے بھی میں 4 بجے دکان تھوڑی دیر کے لیے بند کر دیتا ہوں، تو اسی وقت میں رافعہ کو گھر چھوڑنے آجاوں گا۔ آنٹی نے کہا چلو یہ تو اور بھی اچھی بات ہے تمہاری دکانداری بھی خراب نہیں ہوگی۔ یہ کہ کر آنٹی نے ایک بار پھر رافعہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور میرے ساتھ چلنے کو کہا تو اب کی بار رافعہ اپنی جگہ سے اٹھی اور میری طرف بڑھنے لگی، مجھے دیکھے بغیر ہی رافعہ مجھ سے آگے نکل گئی اور مین دروازے سے باہر نکل گئی میں نے آنٹی کو سلام کیا اور میں بھی باہر نکل گیا۔ باہر جا کر میں نے بائیک سٹارٹ کی اور رافعہ کو بِٹھنے کو کہا تو وہ بائیک پر میرے پیچھے بیٹھ گئی، مجھے معلوم تھا کو وہ مجھ سے دور ہوکر بیٹھنے کی کوشش کرے گی اس لیے میں پہلے ہی کافی پیچھے ہوکر بیٹھا تھا کہ رافعہ کے لیے بہت کم جگہ بچے۔ اور ہوا بھی یونہی۔ رافعہ بیٹھی تو اسنے پوری کوشش کی کہ وہ مجھ سے دور رہے اور اسکا جسم میرے جسم کو نا چھو سکے، مگر پیچھے سٹینڈ لگا ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ پیچھے نہ ہوسکی اور اسکا جسم مجھے چھونے لگا، مگر اس نے بیٹھنے کے بعد مجھے پکڑنے کی بجائے ساتھ لگے سٹینڈ کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا اور میں نے بائیک چلا دی۔ بائیک چلاتے ہوئے میں نے رافعہ کی طرف مڑ کر دیکھا اور اسے کہا اپنا غصہ اتنا رکھو کہ تمہیں خود نقصان نہ ہوسکے۔ ایسے بیٹھو گی تو گرنے کا خطرہ ہے مجھے پکڑ کر بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کوئی حادثہ پیش آجائے۔ میری بات کا اس پر اثر ہوا اور وہ ڈر گئی اور اب اس نے پیچھے سے سٹیند کو چھوڑ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے پکڑ لیا تھا۔ یہاں سے رافعہ کا کال زیادہ دور نہیں تھا اس لیے میں نے زیادہ تیزی کے ساتھ بائیک چلانا مناسب نہ سمجھا بلکہ آہستہ آہستہ بائیک چلاتا گیا راستے میں 2، 3 بار وہی حرکت کی جو ہر لڑکا لڑکی کو اپنے پیچھے بٹھانے کے بعد کرتا ہے۔۔۔ جی ہاں، بلاوجہ زور سے بریک لگانے والی حرکت۔ جیسے ہی میں بریک لگاتا رافعہ کے 34 سائز کے مموں کا احساس مجھے اپنی کمر پر ہوتا مگر وہ فورا ہی دوبارہ سے سنبھل کر بیٹھ جاتی۔ کچھ ہی دیر کے بعد رافعہ کا کالج آگیا تو میں وہ بائک سے اتری اور میں نے اسے کہا کہ جب کالج سے چھٹی ہو تو دکان پر آجانا تم سے کچھ بات بھی کرنی ہے اور ویسے بھی تمہیں گھر چھوڑنا ہے۔ وہ اچھا جی کہ کر کالج کے گیٹ میں داخل ہوگئی اور میں ساتھ ہی موجود شریف پلازہ میں داخل ہوکر آج ٹائم سے پہلے ہی دکان کھول کر بیٹھ گیا۔ 


دوپہر 2 بجنے سے کچھ دیر پہلے رافعہ دکان پر آگئی، مجھے امید تھی کہ وہ ضرور آئے گی کیونکہ ایک تو میں جانتا تھا کہ وہ ناراض ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہے یا پھر وقتی طور پر ایک دم سے لن دیکھ کر اپ سیٹ ہوئی ہے، وگرنہ خواہش تو اسکی بھی ہے دیکھنے کی، اور دوسری بات اسکی مجبوری بھی تھی۔ رافعہ آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ کالج میں کچھ کھایا تو اس نے کہا ہاں جی سموسے کھالیے تھے۔ میں نے پوچھا اور کچھ منگواوں؟؟؟ تو اس نے کہا نہیں رہنے دیں۔ اس دوران 2، 3 کسٹمر بھی آئیں جنہیں میں نے انکی پسند کی برا دکھا کر فارغ کیا اور 2 بجے تو میں نے دروازہ لاک کر دیا اور رافعہ کے سامنے کاونٹر پر آکر کھڑا ہوگیا، پہلے میں نے سوچا تھا صوفے پر اسکے ساتھ ہی بیٹھ جاوں مگر پھر سوچا کہ ابھی ذرا اسکو لائن پر واپس لانا ہے تو آہستہ آہستہ اسکی طرف بڑھنا چاہیے یوں ایک دم سے بڑھنا اچھی بات نہیں ہے۔ کاونٹر میں واپس گیا تو رافعہ نے کہا آپ نے 4 بجے کا کیوں کہا امی کو؟؟؟ آپ تو 2 بجے بند کرتے ہو دکان؟؟ میں نے کہا ہاں 4 بجے اس لیے کہا کہ مجھے تم سے بات کرنی تھی تو سوچا کچھ وقت مل جائے گا اور اگر 4 بجے سے پہلے بھی تمہیں چھوڑ آوں گا تو بھی آنٹی نے کونسا کچھ کہنا ہے۔ یہ سن کر رافعہ اپنی جگہ سے اٹھی اور بولی چلیں پھر مجھے چھوڑ آئیں۔ میں نے کہا ایسے نہیں، پہلے آرام سے سکون سے بیٹھو، میری بات سنو، اپنا موڈ درست کرو پھر تمہیں چھوڑ کر آوں گا۔ میری بات سن کر رافعہ واپس صوفے پر بیٹھ گئی اور بولی جی بتائیں کیا بات کرنی ہے آپ نے۔ میں نے کہا پہلے یہ بتاو تمہیں غصہ کس چیز کا ہے؟ تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتی؟ نہ فون پر نا دکان پر آتی ہو اور اب بھی مجھ سے ایسے بات کر رہی ہو جیسے میں نے تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیا ہو۔ وہ بولی آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے کس چیز کا غصہ ہے۔ میں نے کہا نہیں میں نہیں جانتا۔ تم بتاو کس چیز کا غصہ ہے؟؟ وہ بولی اس دن جو کچھ آپ نے کیمرے کے سامنے کیا اسکا۔۔۔۔ میں نے کہا وہ تو میں ملیحہ کے ساتھ کیا وہ میری منگیتر ہے، تمہارے ساتھ تو نہِں کیا۔ غصہ کرنا تھا تو ملیحہ کرتی تمہیں کس بات کا غصہ ہے؟؟؟ وہ بولی ملیحہ آپی کے ساتھ آپ نے یہ سب کچھ کرنا تھا تو مجھے کیمرے پر کیوں دکھایا؟؟؟ میں نے کہا میں نے کب دکھایا تمہیں؟ تم نے خود ہی زبردستی مجھ سے کیمرہ آن کروایا تھا، میں تو تمہیں منع کرتا رہا کہ نہ کرواو کیمرہ آن۔ میری بات سن کر رافعہ خاموش ہوگئی۔ ظاہری بات ہے اسکے پاس میری بات کا جواب نہیں تھا۔ پھر میں نے رافعہ سے پوچھا کہ اگر تمہیں اتنا ہی برا لگا تھا کہ میں نے تمہیں وہ سب کیوں دکھایا تو تم سکرین بند کر سکتی تھی، مگر تم دیکھنا چاہتی تھی اسی لیے تو تم آخر تک سکرین چالو کیے بیٹھی رہی اور دیکھتی رہی۔ تم دیکھنا چاہتی تھی اسی لیے میں نے تمہیں وہ سب کچھ دکھایا تھا، مجھے معلوم تھا کہ تم یہ سب کچھ دیکھنا چاہتی ہو۔ اس پر رافعہ نے سرد لہجے میں کہا نہیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ یہ سب کچھ کریں گے، اور نہ ہی میں یہ دیکھنا چاہتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ بس آپ کسنگ ہی کریں گے۔ یہ کہ کر رافعہ خاموش ہوئی تو میں نے کہا نہیں ، اس دن تم نے ملیحہ اور مجھے دیکھا تھا جب ہم کسنگ کر رہے تھے، اس نے اپنی قمیص اوپر اٹھا رکھی تھی اور میں اسکے سینے پر پیار کر رہا تھا جب تم ٹرائی روم میں برا تبدیل کر رہی تھی۔ تمہیں معلوم تھا کہ آج بھی میں ملیحہ کے بوبز دیکھوں گا۔ اس پر رافعہ نے کہا ہاں مگر جو کچھ آپ نے دکھایا اسکی مجھے بالکل امید نہیں تھی۔ رافعہ کی بات پر میں نے کہا اب میں تو تمہارا دل پڑھ نہیں سکتا کہ تم کیا کچھ دیکھنا چاہتی ہو۔ مجھے لگا کہ تم ہم دونوں کا سیکس دیکھنا چاہتی ہو اس لیے جتنا ہم کر سکتے تھے یہاں پر وہ میں نے تمہیں دکھا دیا۔ یا تو تم پہلے مجھے بتا دیتی کہ کیا کچھ دکھانا ہے میں زیادہ آگے نا بڑھتا۔ میری بات سن کر رافعہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر میں نے کہا اور اگر میں نے تمہیں دکھا بھی دیا تو تم سکرین بند کر دیتی۔ تم نے بھی تو سکرین آف نہیں کی۔ اس پر بھی رافعہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر میں کاونٹر سے نکلا اور رافعہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس نے پہلے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی مگر پھر میرے نہ چھوڑنے پر اپنی مزاحمت ختم کر دی۔ پھر میں نے رافعہ سے کہا کہ اصل میں غلطی تو تمہاری بھی ہے۔ تم جس طرح مجھے اپنی طرف مائل کر رہی تھی میں تو یہی سمجھا کہ تم میرا یہ دیکھنا چاہتی ہو۔ میری بات سن کر رافعہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا میں نے کب آپکو اپنی طرف مائل کیا؟؟؟ میں نے کہا تم ہی تو مجھے سے پوچھ رہی تھی کہ آپکو برا کیسا لگا؟؟؟ تمہارا یہ خیال تھا کہ میں تمہیں کیمرے سے دیکھ رہا ہوں۔ جب کہ میں نہیں دیکھ رہا تھا، تم نے جب بار بار پوچھا کہ آپ بتاو آپکو کیسا لگا تو میں تو تمہاری بات سمجھا ہی نہیں کہ تم کیوں پوچھ رہی ہو، مگر جب مجھے پتا لگا کہ تم کیمرے کے بارے میں جانتی ہو اسکے باوجود تم نے وہاں جا کر اپنا برا تبدیل کیا اور واپس آکے مجھ سے پوچھا کہ کیسا لگا؟؟؟ تو اسکا مطلب تمہارے ذہن میں تھا کہ میں تمہیں بنا لباس کے دیکھ رہا ہوں اور تمہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ، اگر میں نے واقعی کیمرہ آن کیا ہوتا اور تمہیں دیکھ لیتا تو مطلب تمہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اب رافعہ بولی وہ تو میں نے اپنا سینا چھپا کر برا پہنا تھا اور برا پہننے کے بعد کپڑا ہٹا کر شیشے میں دیکھا تھا کہ کیسا لگ رہا ہے، اور تبھی آپ بھی دیکھ لیتے، مگر برا تو پہنا ہی ہوا تھا میں نے تب، بالکل ننگی تو نہیں تھی میں۔ 


رافعہ کی یہ بات سن کر میں نے اس سے پوچھا اچھا اگر میں تمہیں اب کہوں کہ مجھے دکھاو تم نے کونسا برا پہن رکھا ہے تو تم دکھاو گی؟؟؟ اس پر رافعہ بولی اب تو آپکی اور میری لڑائی ہے۔ یہ سن کر میں نے ایک قہقہ لگایا اور کہا چلو اب ہم دونوں صلح کر لیتے ہیں، پھر کل تمہیں ایک برا گفٹ کروں گا میں، وہ تم ٹرائی روم میں جا کر تبدیل کرنا اور پھر مجھے دکھانا۔ اس پر رافعہ تھوڑا سا ہنسی اور بولی نہیں اب نہیں دکھانا آپکو۔ میں نے کہا ارے واہ۔۔۔۔ اب کیوں نہیں دکھانا؟؟؟ رافعہ نے کہا بس اب نہیں دکھاوں گی۔ میں نے کہا اچھا بابا نہ دکھانا مگر اپنا مووڈ تو صحیح کر لو، اچھی خاصی اپنی سالی سے بات کر لیتا تھا میں، جب سے تم نے میرا دیکھا ہے تم تو ایسے ڈرتی ہو میرے سے جیسے میں زبردستی کروں گا تمہارے ساتھ۔ میری بات پر رافعہ اٹھلا کر بولی آپ کر کے تو دکھائیں زبردستی پھر بتاوں گی آپکو۔ میں اس پر ہنسا اور کہا نہ بھئی تم تو کوئی جنگلی بلی لگتی ہو مجھے، تم سے میں زبردستی نہِں کر سکتا۔ چلو اب اپنا مووڈ صحیح کرو پھر تمہیں سموسے کھلاوں گا، مجھے خود بھی زور کی بھوک لگ رہی ہے۔ اس پر رافعہ بولی میرے مووڈ کو کیا ہوا؟؟؟ ٹھیک تو ہے۔۔۔۔ اسکی بات سن کر میں ہنس پڑا اور سموسے منگوا لیے۔ سموسے کھانے کے بعد رافعہ اور میں نے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور اتنے میں 4 بجنے میں آدھا گھنٹہ رہ گیا تو میں نے رافعہ کو کہا چلو اٹھو اب تمہیں چھوڑ آوں۔ 4 بجے تک رافعہ کو گھر چھوڑ کر میں واپس دکان پر آچکا تھا۔ اس بار وہ ریلیکس ہوکر بیٹھی تھی میرے ساتھ جڑ کر ، اور جب بھی میں بریک لگاتا اسکے ممے میری کمر پر لگتے مگر وہ اس بار پیچھے نہ ہٹی۔ اب میں مطمئن تھا کہ رافعہ کا موڈ صحیح ہوگیا ہے اب آہستہ آہستہ اسکو چودائی کے لیے بھی راضی کیا جا سکتا تھا جو کہ زیادہ مشکل نہ تھا۔ اگلے دن صبح صبح میں دوبارہ سے رافعہ کو لینے چلا گیا اور اسکو کالج چھوڑ کر دکان کھول لی۔ اور حسبِ توقع 2 بجے سے کچھ دیر پہلے ہی رافعہ دکان میں آگئی۔ آج وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اور اسکی وجہ یہی تھی کہ کل میں نے اسکا مووڈ ٹھیک کر دیا تھا۔ رافعہ صوفے پر بیٹھ گئی اور میرے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ اسی دوران ایک لڑکا اور لڑکی دکان میں داخل ہوئے اور لڑکا اپنے ساتھ آنے والی لڑکی کے لیے برا دیکھنے لگا۔ لڑکی تھوڑا شرما رہی تھی جبکہ لڑکا برا اسکے آگے کر کے اس سے پوچھ رہا تھا کہ یہ بتاو کیسا ہے؟ یہ بتاو کیسا ہے۔۔ ۔۔ رافعہ ان دونوں کو بڑے اشتیاق کے ساتھ دیکھ رہی تھی شاید اس نے پہلی بار لڑکا لڑکی کو اکٹھے اس طرح دیکھا تھا برا خریدتے ہوئے جبکہ اس سے پہلے صرف لڑکیاں ہی آتی تھیں رافعہ کے ہوتے ہوئے۔ لڑکی کو جب ایک برا پسند آگیا تو لڑکے نے اسکی قیمت پوچھی میں نے قیمت بتائی ، پھر لڑکے نے کہا اگر یہ صحیح نہ ہوا تو تبدیل ہو سکتا ہے؟ میں نے پوچھا کہ کیسے صحیح نہ ہوا؟ تو لڑکے نے کہا ارے بھئی مطلب اگر فٹنگ صحیح نہ ہوئی۔ میں نے لڑکے کو کہا پیچھے ٹرائی روم موجود ہے آپ وہاں چیک کر سکتے ہیں۔ لڑکے نے کہا ارے واہ، پھر تو یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کونسا اچھا لگ رہا ہے؟؟ میں نے کہا جی بالکل۔ لڑکے نے کہا اگر ایک لینا ہو مگر پسند زیادہ ہوں تو وہ سب ٹرائی کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا جی بالکل لیکن یہ دھیان رکھیں کہ اگر کوئی زیادہ چھوٹا ہو تو وہ زبردستی پہننے کی کوشش نہ کریں۔ 


لڑکے نے کہا وہ آپ پریشان نہ ہوں کوئی زبردستی نہیں ہوگی، یہ کہ کر اس نے اپنے سامنے پڑے 34 سائز کے برا میں سے 4 برا اٹھائے اور لڑکی کو بولا چلو یہیں پر چیک کر لو تاکہ ایک ہی بار صحیح والا لے لیں۔ کون بار بار تبدیل کرواتا پھرے گا۔ لڑکی تھوڑی ہچکچائی مگر لڑکے کے اصرار پر وہ ٹرائی روم کی طرف چلی گئی۔ اور لڑکے نے ٹرائی روم مِں جا کردروازہ بند کر لیا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ اندر کیا ہونے والا ہے۔۔




جاری ہے 

*

Post a Comment (0)