Brazer wali dukan - Episode 5

بریزر والی شاپ

قسط 5 



پھر ایک دن جب میں دکان پر بیٹھا تھا باسط انکل دکان پر آئے اور انہوں نے حاجی صاحب سے کہا کہ اگر آپ برا نا منائیں تو آج سلمان کو چھٹی دے دیں، مجھے کچھ کام ہے اس سے۔۔ حاجی صاحب نے کہا کوئی مسئلہ نہیں بچہ بڑا محنتی ہے اور اس نے ابھی تک کوئی غیر ضروری چھٹی نہیں کی، اگر آپکو کوئی کام ہے تو آپ ضرور لے جائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ باسط انکل نے حاجی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مجھے لیکر موٹر سائیکل پر اپنے گھر لے گئے۔ گھر گیا تو سامنے سلمی آنٹی میک اپ وغیرہ کر کے کہیں جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔ میں نے آنٹی کو سلام کیا اور باسط انکل کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ سلمی کو اچانک کبیروالا جانا پڑ رہا ہے، تو میں چاہتا ہوں تم ساتھ چلے جاو۔ وہاں انکی بہن کی بیٹی کی شادی کی تاریخ رکھنے کی رسم ہے تو انکا وہاں ہونا ضروری ہے، شام کو واپسی ہوجائے گی اور کل ویسے ہی جمعہ ہے تو تم چھٹی کر سکتے ہو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے انکل کوئی مسئلہ نہیں کب چلنا ہے؟ میری بات پر آنٹی سلمی بولیں ابھی، میں تیار ہوں۔ میں نے آںٹی کو کہا ٹھیک ہے میں منہ ہاتھ دھو لوں اور گھر امی کو اطلاع دے دوں، پھرچلتے ہیں۔ انکل نے کہا ٹھیک ہے تم دونوں نے جب جانا ہوا چلے جانا، میں تو کام پر جا رہا ہوں۔ یہ کہ کر انکل چلے گئے اور آنٹی سلمی نے کہا تم منہ ہاتھ دھو آو، نہانا ہو تو نہا بھی لو، میں تمہاری امی کو فون کر کے بتا دیتی ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ امی کو بتا دیں۔ 


یہ کہ کر میں واش روم چلا گیا، اور کپڑے اتار کر شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا، میں نے سوچا آنٹی کی بہن کی طرف مہمان آئے ہونگے تو تھوڑا صاف ستھرا ہوکر جانا چاہیے یہی سوچ کر میں نے غسل کیا اور بال بنا کر باہر نکل آیا۔ کپڑے میرے نئے ہی تھی جو کسی فنکشن میں جانے کے لیے مناسب تھے۔ میں باہر آیا تو آںٹی نے بتایا کہ وہ امی کو فون کر کے میرے بارے میں اطلاع دے چکی ہیں، البتہ تم نے کھانا وغیرہ کھانا ہے تو بتاو، میں نے کہا نہیں آنٹی کھانے کے ضرورت نہیں بس نکلتے ہیں ہم۔ آنٹی نے شمائلہ اور سائرہ کو ساتھ لیا اور ہم رکشے میں بیٹھ کر بس سٹاپ تک گئے۔ وہاں آںٹی نے ایک لوکل بس کا انتخاب کیامگر میں نے آںٹی کو کہا لوکل بس بہت دیر لگا دیتی ہے ہم پنڈی اسلامآباد جانے والی بس میں چلتے ہیں آدھے گھنٹے میں ہم کبیروالہ ہونگے۔ آنٹی نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ پھر ہم ایک پنڈی جانے والی بس میں سوار ہوگئے جو چلنے کے لیے بالکل تیار تھی، مگر اس میں کوئی بھی خالی سیٹ نہیں تھی لہذا ہم بس کے بیچ میں جا کر کھڑے ہوگئے۔ 2، 3 منٹ بس رکی رہی تو کافی سواریاں اور بھی سوار ہوگئیں مگر کسی کے لیے بھی سیٹ دستیاب نہیں تھی۔ ہم جہاں جا کر کھڑے ہوئے وہاں ساتھ والی سیٹ پر 2 خواتین بیٹھی تھیں، انہوں نے سائرہ کو اپنے ساتھ کر لیا اب شمائلہ آنٹی کے ساتھ کھڑی تھی اور انکے پیچھے میں کھڑا تھا کچھ دیر بعد گاڑی چل پڑی اور 5 منٹ میں ہی ہم ملتان شہر سے باہر نکل چکے تھے۔ گاڑی کا ڈرائیور حسبِ عادت ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔ گاڑی میں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے سلمی آنٹی میرے کافی قریب کھڑی تھیں، برقع وہ پہنتی نہیں تھیں بس ایک بڑی سی چارد سر پر لی ہوئی تھی انہوں نے۔ اس دوران بریک لگنے کی وجہ سے ایک دو بار میں آگے کو ہوا تو سلمی آنٹی کے بدن سے میرا بدن ٹچ ہوگیا۔ نرم نرم ٹانگیں اور فوم کی طرح نرم انکے چوتڑ میرے جسم سے ٹکرائے تو میرے اندر ہلچل ہونے لگی۔ میں نے نیچے چہرہ کر کے سلمی آںٹی کی گانڈ دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا، انکی کمر 32 انچ تھی مگر انکے چوتڑوں کا سائز 36" تھا جو کافی بڑا تھا۔ میری نظر انکے چوتڑوں پر پڑی تو مجھے آنٹی کے ممے بھی یاد آگئے جو میں نے آنٹی کے گھر میں ہی کچھ مہینے پہلے دیکھے تھے جب میں برا دینے کے لیے گیا تھا۔ سلمی آنٹی کی 36" کی گانڈ اور دیکھ کر اور انکے 38" کے مموں کے بارے میں سوچ سوچ کر میرا فوجی شلوار میں سر اٹھا کر کھڑا ہوگیا تھا اور سلمی آنٹی کی فوم جیسی گانڈ کو سلیوٹ کرنے کے لیے تیار تھا۔ 


حسبِ عادت میں نے بھی انڈر وئیر نہیں پہنا تھا جسی وجہ سے میری شلوار میں ہلکا سا ابھار نظر آنے لگ گیا تھا، میں کوشش تو کر رہا تھا کہ لن بیٹھا ہی رہے، مگر سلمی آنٹی کی گانڈ اسکو شاید اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور وہ خود بخود انکی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ سلمی آنٹی کے بدن سے نہ ٹکرا جائے اس لیے میں ان سے کچھ فاصلے پر ہوکر کھڑا ہوا مگر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ فاصلہ بھی محض چند انچ کا ہی تھا۔ ڈرائیور کو شاید میری یہ حرکت پسند نہیں آئی اسی لیے اس نے ایک زور دار بریک لگائی مجھ سمیت ساری سواریاں آگے کی طرف ہوئیں، اور ایکدوسرے سے ٹکرانےلگیں، یہی وہ وقت تھا جب میرا فوجی بھی سیدھا سلمی آنٹی کے 2 پہاڑوں کے درمیان موجود وادی میں گھس گیا۔ میرا لن فل جوبن پر تھا اور جب سلمی آنٹی سے ٹکرایا تو مجھے انکے نرم نرم چوتڑوں کا احساس اپنی ٹانگوں پر ہوا، میرا سخت لوہے کا لن جب انکی گانڈ سے لگا تو یقینی طور پر انہیں بھی وہ محسوس ہوا ہوگا، میں فوری طور پر پیچھے ہٹا اور سلمی آنٹی کا کراکرا تھپڑ کھانے کے لیے تیار ہوگیا، مگر انہوں نے سرسری طور پر پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر نیچے دیکھنے لگیں کہ انکی گانڈ میں کیا چیز آکر لگی، مگر پھر بغیر کچھ کہے دوبارہ سے آگے کی طرف دیکھنے لگیں۔ 


پھر ایک اور بریک لگی اور میرا لن پہلے کی طرح دوبارہ سے سلمی آنٹی کے چوتڑوں میں گھسنے کی کوشش کرنے لگا اور میں جلدی سے پیچھے ہوکر کھڑا ہوگیا، ایک بار پھر سلمی آنٹی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر دوبارہ سیدھی ہوکر کھڑی ہوگئیں، مجھے ڈر لگنے لگا تھا اور میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ میرا لن بیٹھ جائے، مگر پھر اچانک معلوم نہیں کیا ہوا کہ گاڑی کی بریک بھی نہیں لگی مگر میرا لن ایک بار پھر سلمی آنٹی کے چوتڑوں سے ٹکرا نے لگا۔ میں ایک جھٹکے سے تھوڑا سا پیچھے ہوا تو پیچھے کھڑے ایک آدمی نے مجھے ڈانتے ہوئے کہا کہ اپنے وزن پر کھڑے ہواور مجھے ہلکا سا آگے کی طرف دھکیل دیا۔ اب میرا لن سلمی آنٹی کی چوت سے کچھ ہی فاصلے پر تھا مگر پھر ایک بار دوبارہ سلمی آنٹی غیر محسوس طریقے سے پیچھے ہوئیں تو میرا لن دوبارہ سے انکے پہاڑ جیسے چوتڑوں کے بیچ موجود لائن میں گھس گیا، معلوم نہیں کیوں مگر اس بار میں نے پیچھے ہونے کی کوشش نہیں کی اور حیرت انگیز طور پر سلمی آنٹی نے بھی ایسے ہی کھڑی رہیں انہوں نے دوبارہ سے آگے ہونے کی کوشش نہیں کی۔

ابھی لن صحیح طرح سے سلمی آنٹی کی گانڈ میں نہیں گیا تھا، ایک بار دوبارہ سے بریک لگی تو اب میں سلمی آنٹی کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہوگیا اور مجھے اپنے لن پر سلمی آںٹی کی گانڈ کا واضح احساس ہونے لگا، مگر سلمی آنٹی نے کوئی ری ایکشن نہ دیا اور ایسے ہی کھڑی رہیں۔ پھر میں نے غیر محسوس طریقے سے اپنا ایک ہاتھ اپنی قمیص کے نیچے کیا اور وہاں سے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اسکا رخ جو ابھی نیچے کی طرف تھا اسکو اٹھا کر سلمی آںٹی کے چوتڑوں کی طرف کر دیا۔ جب میں نے لن اٹھا کر اسکی ٹوپی کا رخ سلمی آنٹی کی گانڈ کی طرف کیا تو سلمی آنٹی تھوڑا سا کسمسائی مگر وہ اپنی جگہ سے ہلیں نہیں جس سے مجھے حوصلہ ہوا اور میں اب اسی پوزیشن میں کھڑا رہا۔ ڈرائیور کی مہربانی کے اس نے ایک بار پھر سے بریک لگائی اور میں پھر سلمی آنٹی سے جا ٹکرایا، گو کہ میرا لن تو پہلے ہی انکی گانڈ کو چھو رہا تھا مگر اب کی بار جو بریک لگی تو میرا سر بھی سلمی آنٹی کے کندھے تک گیااور میرے لن کی ٹوپی نے سلمی آنٹی کی گانڈ پر پریشر بڑھایا تو چوتڑوں نے سائیڈ پر ہٹ کر لن کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اور شاید میری ٹوپی سلمی آنٹی کی گانڈ کے سوراخ پر بھی لگی جسکو انہوں نے محسوس کیا اور بالکل اسی لمحے جب میرا سر انکے کندھے پر جا کر لگا میں نے سلمی آنٹی کی ہلکی سے سسکی سنی۔ اس سسکی نے میرے لن تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ آنٹی مست ہورہی ہیں تو اپنا کام جاری رکھ تبھی میں بے فکر ہوکر وہیں پر کھڑا رہا اور سلمی آنٹی نے اپنے چوتڑوں کو تھوڑا سخت کر کے میرے لن کی ٹوپی کو اپنے چوتڑوں کی لائن میں بھینچ لیا۔ مجھے اب اپنا لن انکی گانڈ میں پھنسا ہوا محسوس ہو رہا تھا، میں نے تھوڑا سا پیچھے ہوکر چیک کرنا چاہا کہ باہر نکلتا ہے یا نہیں، مگر سلمی آنٹی نے کمال مہارت سے میرا لن اپنے چوتڑوں میں پھنسا کر دبا لیا تھا، میں نے بھی کہا ٹھیک ہے جب آنٹی خود ہی مست ہوکر میرا لن سنبھال چکی ہیں تو مجھے کیا ضرورت ہے اسے باہر نکالنے کی۔ لہذا میں بھی ایسے ہی کھڑا رہا اور سلمی آنٹی کی گانڈ کے مزے لینے لگا۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ سلمی آنٹی کبھی اپنی گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ رہی تھیں اور پھر دوبارہ سے اپنی گانڈ کو ٹائٹ کر کے اس میں لن کو دبا رہی تھیں۔ مجھے اس کھیل میں ابھی مزہ آنا شروع ہوا تھا کہ کمبخت ڈرائیور نے ایک بار پھر بریک لگائی اور ہم سب کھڑی سواریاں ایک بار پھر آگے کی طرف جھکیں اور پھر واپس پیچھے کی طرف ہوئیں تو اس دوران سلمی آںٹی کی گانڈ کی گرفت میرے لن پر کمزور پڑ گئی اور لن انکی گانڈ سے باہر نکل آیا، جیسے ہی ہم دوبارہ سنبھل کر کھڑے ہوئے، سلمی آنٹی نے ہلکی سی گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور اندازہ لگایا کہ میں انسے کتنا دور کھڑا ہوں، پھر سلمی آںٹی خود ہی آہستگی سے پیچھے ہوئیں اور ایک بار پھر انہوں نے اپنے بھاری بھر کم چوتڑ میرے معصوم سے لن پر رکھ دیے، میں نے بھی موقع مناسب دیکھ کر دوبارہ سے قمیص کے نیچے ہاتھ کیا اور اپنے لن کا رخ آنٹی کی گانڈ کی طرف کر دیا۔ 


ایک بار پھر لوہے کے ہتھیار کے گرد سلمی آںٹی کی نازک اور نرم نرم گانڈ کا احساس ہونے لگا تو مجھے دوبارہ سے سلمی آنٹی پر پیار آنے لگا۔ لیکن چونکہ ہم بس میں تھے اس لیے زیادہ حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن میں اب اتنا سمجھ چکا تھا کہ سلمی آںٹی کی گانڈ میں اب میرا لن جلد ہی جانے والا ہے بس مناسب موقع کا انتظار کرنا ہوگا۔ کچھ دیر تک میں ایسے ہی کھڑے کھڑے اپنے لن پر سلمی آںٹی کے چوتڑوں کی مضبوط گرفت کے مزے لیتے رہا۔ لیکن پھر فورا سے ہی کنڈیکٹر کی آواز آئی جو کبیر والا کی سواریوں کو آگے آنے کو کہ رہا تھا، یہ سنتے ہی سلمی آنٹی نے اپنے چوتڑوں کی گرفت کو ڈھیلا کر دیا اور تھوڑا سا آگے ہوئیں جس سے میرا لن انکے چوتڑوں سے نکل گیا اور سلمی آنٹی نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی سائرہ کو باہر آنے کو کہا ۔ پھر ہم چاروں بس سے اتر گئے، اس دوران میرا لن بھی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گیا تھا، بس سے اتر کر ہم نے ایک رکشہ پکڑا اور 5 منٹ میں ہی سلمی آنٹی کی بہن کے گھر پہنچ گئے جہاں خاصے مہمان آئے ہوئے تھے اور انکی بھانجی کے سسرال والے بھی موجود تھے۔ سلمی آنٹی نے میرا بھی تعارف کروایا اور دوسری آنٹی جنکا نام سلطانہ تھا انہوں نے مجھے سر پر پیار دیا اور کچھ ہی دیر بعد جب سلمی آنٹی کی موجودگی میں انکی بھتیجی کی تاریخ رکھ لی گئی تو ہمیں کھانا کھلایا گیا، اور پھر سلمی آںٹی اپنی بہن اور بھتیجی کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں جبکہ سائرہ اور شمائلہ وہاں موجود اپنی ہم عمر کزنوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگئیں جبکہ میں ایک سائیڈ پر بیٹھ کر بوریت کو انجوائے کرنے لگا۔ اسی دوران میری آنکھ لگ گئی ، جب آنکھ کھلی تو سلمی آںٹی میرے پاس کھڑی مجھے سر سے ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں، اٹھ جاو سلمان بیٹا دیر ہورہی ہے ۔ یہ آواز سن کر میں نے آنکھیں کھولیں تو سلمی آنٹی نے کہا چلو اب واپس چلیں کافی دیر ہوگئی ہے ۔ میں بھی فورا ہی اٹھا اور کچھ ہی دیر میں رکشے کے ذریعے ہم دوبارہ کبیر والا کے مین بس سٹاپ پر کھڑے تھے جہاں سے ہمیں پنڈی سے آںے والی بس اڈے پر ہی کھڑی مل گئی، میں بس میں چڑھا اور میرے پیچھے سلمی آنٹی بھی بس میں آگئیں، مگر پھر سلمی آنٹی نے مجھے واپس بلا لیا اور کہا نیچے آجاو ہم اس بس میں نہیں جائیں گے۔ میں نے سلمی آںٹی کو کہا کیوں آنٹی بس میں جگہ ہے بیٹھنے کی، کنڈیکٹر نے بھی کہا خالہ جی آجائیں بہت سیٹیں پڑی ہیں، مگر خالی جی نے کسی کی نہیں سنی اور چپ چاپ نیچے اتر گئیں جس پر مجھے کنڈیکٹر کی جلی کٹی باتیں سننا پڑیں، مگر میں چپ چاپ سلمی آںٹی کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا، وہ بس چلی گئی تو میں نے آںٹی سے پوچھا کہ آنٹی جگہ تھی تو صحیح بس میں پھر ہم اس بس میں کیوں نہیں گئے، مگر آںٹی نے کوئی جواب نہیں دیا، کچھ ہی دیر میں ایک اور بس آگئی جو کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، سلمی آنٹی اس بس میں سوار ہوگئیں اور میں بھی انکی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا انکے پیچھے پیچھے ہولیا۔ پہلے کی طرح دوبارہ سے اس بس میں ہمیں کوئی سیٹ میسر نہ آئی مگر اس بار شمائلہ اور سائرہ دونوں کو ہی سیٹ مل گئی جبکہ آںٹی اور میں دوسری سواریوں کے ساتھ بس میں کھڑے رہے۔


کچھ ہی دیر بعد میری حیرانگی تب ختم ہوگئی جب آنٹی خود ہی میرے جسم کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئیں، مگر اس وقت میری سوچ کہیں اور تھی اور میرا لن سویا ہوا تھا، آنٹی کو جب اپنی گانڈ پر کوئی بھی چیز محسوس نہ ہوئی تو انہوں نے پیچھے مڑ کر میرے لن کی طرف دیکھا جہاں سکون ہی سکون تھا، پھر آنٹی نے شرمندہ ہوکر منہ آگے کر لیا اور تھوڑا سا آگے ہوکر کھڑی ہوگئیں۔ لیکن مجھے سمجھ لگ گئی تھی کہ سلمی آںٹی خالی بس میں کیوں نہیں بیٹھیں، انہیں اصل میں لن کے مزے لینے تھے، یہ اشارہ ملتے ہی میرے لن نے شلوار میں سر اٹھانا شروع کر دیا۔ چونکہ یہ رات 9 بجے کا وقت تھا اور باہر ہر طرف اندھیرا تھا، اور بس بھی چونکہ پنڈی سے ملتان آرہی تھی تو زیادہ تر مسافر سورہے تھے اس لیے بس کے اندر ی لائٹس بھی بند تھی اور بس میں قریب قریب مکمل اندھیرا تھا بیٹھی ہوئی سواریوں کی اکثریت سو رہی تھی اور بس میں مکمل سناٹا بھی تھا۔ سلمی آںٹی کی طلب کو تو میں سمجھ ہی گیا تھا لہذا اب میں نے سوچا کہ اب ذرا پہلے سے کچنھ زیادہ ہونا چاہیے اور سلمی آنٹی کی گانڈ کا صحیح مزہ لینا چاہیے۔ اسی سوچ کے ساتھ میرا لن دوبارہ سے اپنے جوبن پر آچکا تھا، میں نے قمیص کے نیچے ہاتھ کیا اور اپنی قمیص سائیڈ پر ہٹا دی اسکے بعد تھوڑا سا آگے ہوا اور بڑی احتیاط کے ساتھ سلمی آنٹی کی قمیص بھی انکی گانڈ سے سائیڈ پر کھسکا دی، جب میں نے سلمی آںٹی کی قمیص سائیڈ پر ہٹائی تو انہوں نے ایک دم پیچھے مڑ کر دیکھا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ پھر انہوں نے میرے لن کی طرف دیکھا جہاں سے میں قمیص ہٹا چکا تھا اور میرا موٹا تازہ لن شلوار کے اندر ہی کھڑا ہوکر اپنے سائز کا اندازہ دے رہا تھا جو اس وقت میرے ہاتھ میں تھا، لن پر نظر پڑتے ہی سلمی آنٹی کی آنکھوں میں ایک چمک آئی اور انہوں نے مجھ سے نظریں چار کیے بنا ہی دوبارہ منہ آگے کر لیا، اور میں نے بھی ادھر ادھر سے مطمئن ہوکر اپنا لن سلمی آنٹی کی چوتڑوں میں پھنسا دیا جس پر سلمی آنٹی پیچھے ہوگئیں۔ چونکہ ہر طرف اندھیرا تھا اور کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں کیا کھیل چل رہا ہے، میں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ سلمی آنٹی کی موٹی گانڈ پر رکھ کر اسکو تھوڑا سا کھولا اور اپنا لن مزید اندر پھنسا دیا جسکو سلمی آنٹی نے فورا اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیا۔ اب میں نے اپنا ایک ہاتھ سلمی آنٹی کے چوتڑ پر رکھ لیا اور بالکل غیر محسوس طریقے سے اپنے لن کا دباو سلمی آںٹی کی گانڈ میں بڑھانے لگا۔ ظاہری بات ہے میں اپنا لن سلمی آنٹی کی گانڈ کے سوراخ میں تو داخل نہیں کرسکتا تھا، مگر انکی گاںڈ کی لائن میں لن پھنسا کر انکو مزہ دے سکتا تھا، اور آنٹی بھی مست ہوکر پورا پورا مزہ لے رہی تھیں۔ میں نے اپنے ہاتھ سے سلمی آنٹی کا چوتڑ دبایا تو انہوں نے اپنے چوتڑوں کو پیچھے کر کے دوبارہ سے گرفت مظبوط کر لی اور پھر اسی طرح گرفت مظبوط کرتے ہوئے تھوڑا سا آگے ہوئی تو مجھے اپنے لن کی ٹوپی پر انکی گانڈ کی رگڑ محسوس ہوئی، پھر دوبارہ سے سلمی آںٹی نے اپنی گانڈ کی گرفت کمزور کر کے گانڈ پیچھے کی اور پھر سے گرفت مظبوط کر کے اپنی گانڈ کو آگے کرنے لگیں۔ سلمی آنٹی نے قریب 5 منٹ تک یہ کام جاری رکھا جس سے اب مجھے بے پناہ مزہ آںے لگا تھا، انکی نرم نرم موٹی گانڈ میں لن بہت مزے میں تھا۔ 


پھر سلمی آنٹی نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھ کر اسکی موٹائی کا اندازہ کرنے لگیں، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے لن کو گانڈ سے باہر نکالا اور اسکا رخ ہلکا سا نیچے کی طرف کر کے دوبارہ گانڈ کے سوراخ میں داخل کیا۔ اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مزے کی حرکت کی تھی سلمی آنٹی نے، ایک تو انہوں نے جب اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھا مجھے اسکا ہی بے حد مزہ آیا پھر انہوں نے گانڈ میں دوبارہ لن تو داخل کیا مگر اسکا رخ نیچے کیا تو لن کی ٹوپی پر سلمی آنٹی کی گیلی چوت لگتے ہی میرے پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا۔ سلمی آنٹی کی چوت نہ صرف گیلی تھی بلکہ وہ اس حد تک گرم تھی کہ مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے میرے لن کی ٹوپی پر گرم سلگتا ہوا کوئلہ رکھ دیا ہو۔ سلمی آںٹی نے ایک بار پھر میرا لن اپنے چوتڑوں کو ٹائٹ کر کے اپنی لائن میں مضبوطی سے جکڑ لیا اور پھر ہولے ہلے جھٹکے لے لے کر آگے پیچھے ہو ہو کر میرے لن کی ٹوپی کو اپنی چوت پر مسلنے لگیں۔ چونکہ بس بھی چل رہی تھی جسکی وجہ سے کھڑی سواریاں تھوڑا بہت ہلتی ہیں اس لیے ہماری اس حرکت کو کسی نے بھی نوٹ نہیں کیا۔ سلمی آنٹی نے 10 منٹ تک مسلسل میرا لن اپنے چوتڑوں میں پھنسا کر اپنی چوت پر رگڑا جس سے مجھے بہت سکون مل رہا تھا۔ پھر اچانک ہی سلمی آنٹی کی حرکت میں تھوڑی تیزی آگئی،سلمی آنٹی اب پہلے سے زیادہ آگے پیھے ہورہی تھیں اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ سلمی آنٹی کی اس حرکت سے کسی نا کسی کا دھیان ہماری طرف ہوجائے گا اور پھر بہت چھترول ہوگی، مگر اس سے پہلے کہ کوئی ہماری اس حرکت کو نوٹ کرتا، مجھے اپنے لن کی ٹوپی پر گرما گرم پانی کا احساس ہوا اور سلمی آنٹی میرے لن کو اپنی چوت کے سوراخ پر لگا کر ایک دم ساکت ہوگئیں اور اپنے چوتڑوں سے میرے لن کو مظبوطی سے جکڑے رکھا۔ سلمی آنٹی کی چوت نے 10 منٹ کی مسلسل رگڑ سے پانی چھوڑ دیا تھا۔ سلمی آنٹی کے جسم کو کچھ دیر جھٹکے لگتے رہے اور پھر انکا جسم پرسکون ہونے لگا ۔ جب انکی چوت نے سارا پانی چھوڑ دیا تو انہوں نے اپنے چوتڑوں کی گرفت کمزور کر کے میرا لن اپنی گانڈ سے نکال دیا اور میرے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئیں، مجھے انکی اس حرکت پر بہت غصہ آیا کیونکہ ابھی میرے لن کو سکون نہیں ملا تھا، مگر میں ایسی حالت میں سلمی آنٹی کو کچھ نہیں کہ سکتا تھا۔ بس دل ہی دل میں کڑھتا رہا اور نتیجہ کے طور پر کچھ ہی دیر میں میرا لن بیٹھ گیا۔ 


5 منٹ بعد ہی ملتان وہاڑی چوک پر بس رکی تو سلمی آنٹی نے ساتھ والی سیٹ سے شمائلہ کو اٹھایا جو سو چکی تھی، وہ جاگی تو سلمی آنٹی کے آگے آکر کھڑی ہوگئی، جبکہ چھوٹی سائرہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی، سلمی آنٹی نے مجھے کہا کہ تم سائرہ کو اٹھا لو اسکی نیند بہت گہری ہے، گو کہ وہ 10 سال کی تھی اور تھوڑی وزنی بھی تھی مگر بحرحال وہ ایک بچی تھی لہذا میں نے بمشکل اسے گود میں اٹھایا اور بس سے نیچے اتر گیا۔ وہاں سے ہم نے ایک رکشہ لیا اور اس میں بیٹھ کر آنٹی کے گھر کی طرف چلنے لگے۔ رکشے میں سائرہ میری گود میں ہی تھی جبکہ سلمی خالہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں، میں نے سلمی آنٹی کے قریب ہوکر انکے کان میں کہا آنٹی آپ نے تو مزہ لے لیا مگر میرا مزہ ادھورا رہ گیا۔ آنٹی نے میر ی طرف دیکھا اور ہلکی آواز میں بولیں خاموش رہو، اور خبردار جو اس بارے میں کسی کو بتایا یا اس بارے میں دوبارہ بات کی۔ سلمی آںٹی کا لہجہ بہت کرخت تھا، میں کچھ نہیں کہ سکا اور اپنا سا منہ لیکر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سلمی آنٹی کے گھر پہنچ چکے تھے جہاں میں نے سائرہ کو انکے کمرے میں جا کر لٹا دیا اور سلمی آںٹی شمائلہ کو لیے اندر آگئیں۔ باسط انکل نے میرا شکریہ ادا کیا اور سلمی آنٹی نے بھی بہت خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا بیٹا تمہارا بہت بہت شکریہ، تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانا بنا لوں، پھر کھانا کھا کر اپنے گھر جانا۔ میں نے کہا نہیں آنٹی آپ بھی تھکی ہوئی ہیں، میں گھر چلتا ہوں امی نے کھانا بنایا ہوا ہے میں گھر جا کر ہی کھانا کھالوں گا۔ یہ کہ کر میں وہاں سے واپس اپنے گھر چلا آیا، اور کھانا کھانے سے پہلے ایک بار پھر واش روم جا کر سلمی آنٹی کی گانڈ اور چوت کو یاد کر کرکے مٹھ مار کر اپنے لن کو سکون پہنچایا۔ اسکے بعد امی کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھایا اور سلمی آنٹی کو چودنے کے منصوبے بناتا ہوا رات کے پچھلے پہر سوگیا



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)