بریزر والی شاپ
قسط 6
رات کو سوتے ہوئے تو میں نے خواب میں خوب سلمی آںٹی کی چودائی کی اور سلمی آںٹی نے بھی میرا لن منہ میں ڈال کر مجھے خوب مزے دیے، مگر ان مزوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدھی رات کو ہی آنکھ کھل گئی، اور آنکھ کھلنے کی وجہ سلمی آںٹی کے لن چوسنے کے دوران لن کا منی چھوڑنا تھا، جیسے ہی خواب میں میرے لن نے سلمی آنٹی کے منہ میں منی کی دھاریں چھوڑیں تبھی حقیقت میں بھی میرے لن نے منی چھوڑ دی اور میری ساری شلوار کو خراب کر دیا۔ مجبورا آدھی رات کو اٹھ کر نہانا پڑا اور کپڑے تبدیل کرنے پڑے، اسکے بعد کافی دیر سلمی آنٹی کی گانڈ کے بارے میں ہی سوچتا رہا اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ پھر نیند آئی تو ایسی کے جمعہ کا ٹائم گزر چکا تھا اور دوپہر 3 کے قریب میں بستر سے اٹھا۔ عام دنوں میں ایسی حرکت پر امی جان سے خوب ڈانٹ پڑتی تھی مگر آج بچت ہوگئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کل کا دن سفر میں گزرا ہے تو تھکاوٹ ہوگئی ہوگی۔
اگلے دن سے پھر معمول کی زندگی شروع ہوگئی، اس دوران میں سلمی آنٹی کے فون کا انتظار کرتا رہا کہ کبھی تو وہ اپنے لیے دوبارہ برا منگوائیں گی اور تب میں ایک بار پھر انکی نرم نرم گانڈ میں اپنا لن پھنسا کر خوب مزے کروں گا، مگر یہ انتظار لمبا ہی ہوتا چلا گیا اور کافی مہینے گزر گئے مگر سلمی آنٹی کا کوئی فون نہیں آیا۔ اب تو مجھے لگنے لگا تھا کہ شاید ملتان سے کبیر والا تک کا سفر بھی میں نے خواب میں ہی کیا تھا اور سلمی آنٹی نے میرا لن اپنے چوتڑوں میں پھنسا کر بھی میرے خواب میں مزے کیے تھے حقیقت میں شاید ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ مگر ایک دن پھر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، میرے فون کی گھنٹی بجی اور نمبر سلمی آنٹی کا تھا، دل کے تار بجنے کے ساتھ ساتھ لن نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کر دیں اور ایک بار پھر توقع کے مطابق سلمی آنٹی نے برا گھر لانے کو کہا۔ میں نے ایک بار پھر جمعہ کا دن ہی منتخب کیا کیونکہ اس دن چھٹی ہوتی تھی دکان سے تو میں آرام سے سلمی آنٹی کے گھر جا سکتا تھا۔ اس دن بھی میں دوبارہ سے 5، 6 سیکسی برا شاپر میں ڈال کر صبح 10 بجے سلمی آنٹی کے گھر جا پہنچا۔ دل میں کتنے ہی ارمان تھے کہ آج تو سلمی آنٹی کی گانڈ میرے لن سے نہیں بچ سکے گی، مگر تب میری تمام امیدوں پر پانی پھر گیا جب میں نے گھر میں داخل ہوکر دیکھا کہ آج نہ صرف شمائلہ گھر پر تھی بلکہ جاگ بھی رہی تھی اور سائرہ بھی وہیں پر تھی۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے میرا کچھ بھی بننے والا نہیں تھا۔ وہی ہوا، سلمی آنٹی نے پانی پلایا، اور پھر شاپر اٹھا کر مجھے وہیں انتظار کرنے کو کہا اور سائرہ اور شمائلہ کو میرے پاس بٹھا کر اندر کمرے میں چلے گئیں، جبکہ میں باہر صوفے پر بیٹھا کڑھتا رہا۔ اس دوران میں نے شمائلہ کے جسم کا بغور جائزہ لیا، مگر پھر سوچا کہ نہیں ابھی وہ بہت چھوٹی ہے۔ ابھی تو اسکے چھاتی کے ابھار بھی صحیح طرح سے نہیں بنے تھے، بلکہ چھوٹے چھوٹے سے نوک دار نشان واضح ہورہے تھے جس سےظاہر ہورہا تھا کہ شمائلہ نے ابھی ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے، اور ابھی وہ مکمل طور پر چودائی کے قابل نہیں ہوئی۔ پھر شمائلہ سے نظریں ہٹا کر میں سائرہ اور شمائلہ دونوں کو دل ہی دل میں کوسنے لگا۔ کوئی 15 منٹ بعد سلمی آںٹی باہر آئیں تو انہوں نے شاپر مجھے واپس پکڑا دیا جس میں کچھ برا موجود تھے۔ ساتھ ہی سلمی آنٹی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے 2 پیس رکھے ہیں اور شمائلہ کو مزید پانی لانے کو کہا، شمائلہ کچن میں گئی تو سلمی آنٹی نے مجھے ان برا کے بارے میں بتایا جو انہوں نے رکھے تھے، ایک نیٹ کا تھا اور ایک فوم والا۔ پھر سلمی آںٹی نے انکی قیمت پوچھی تو میں نے قیمت بتا دی ، سلمی آنٹی نے پیسے دے دیے تبھی کچن سے شمائلہ میٹھا شربت لے آئی۔ میں نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ 2 گلاس پانی کے پیے کہ چلو اگر سلمی آنٹی کی گانڈ نہیں ملی تو اس ٹھنڈے پانی سے اپنی محنت کا صلہ تو وصول کریں۔ پانی پی کر کچھ دیر مزید زبردستی میں بیٹھا رہا، مگر جب دیکھا کہ اب سلمی آنٹی مجھے زیادہ لفٹ نہیں کروا رہیں تو میں نے واپس آنے میں ہی آفیت سمجھی اور اور اپنا شاپر اٹھا کر واپس گھر آگیا اور سلمی آنٹی کی دونوں بیٹیوں کو کوسنے لگا۔
مگر کسی حد تک مجھے سلمی آنٹی پر بھی حیرت تھی کہ اس دن بس میں تو خود اپنے ہاتھ میرا لن پکڑ کر انہوں نے اپنے چوتڑوں میں پھنسایا تھا ، پھر آخر ایسی کیا بات ہوئی کہ انہوں نے کوئی اشارہ تک نہ کیا مجھے آج کہ جس سے مجھے کچھ حوصلہ ہی ہوجاتا کہ یہ گانڈ مجھے ملنی والی ہے۔ مگر قسمت میں یہ گانڈ ابھی نہیں لکھی تھی سو نہیں ملی۔ اور زندگی ایک بار پھر معمول پر آگئی۔ اس واقعہ کی وجہ سے سلمی آنٹی کی گانڈ کا بھوت کافی حد تک میرے ذہن سے اتر چکا تھا مگر میرے لن کو کسی گانڈ کی تلاش آج بھی تھی۔ گوکہ محلے کی ایک لڑکی سے میری سیٹنگ تھی اور مجھے جب طلب ہوتی میں کسی نہ کسی طرح اس سے اکیلے میں مل کر اپنے لن کی پیاس بجھا لیتا تھا، مگر نجانے کیوں جب سے میں نے برا بیچنے شروع کیے تھے، میرا بہت دل کرتا تھا کہ جو مجھ سے برا خرید رہی ہے اسی کو چود دوں، اسکے ممے دباوں، انکو منہ میں لیکر چوسوں، انکے منہ میں اپنا لن ڈال دوں۔ اسی لیے میری پیاس کسی طور کم نہیں ہورہی تھی۔ اب مجھے دوکان پر کام کرتے قریب 2 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اور میری تنخواہ بھی اب دس ہزار تک پہنچ چکی تھی جس میں بہت اچھا گزارا ہورہا تھا۔ ساتھ ہی میں نے اپنی نوکری کے 5 ماہ بعد ہی ایک کمیٹی بھی ڈال لی تھی اور اس کمیٹی کے علاوہ بھی میں پیسے جوڑ رہا تھا۔ اب میرا اپنی دوکان بنانے کا ارادہ تھا۔ میرے پاس اب 2 لاکھ سے زیادہ کی رقم موجود تھی، کچھ ابا کی پینشن کچھ میری کمیٹی اور کچھ میری اپنی بچت جو میں ہر ماہ کرتا تھا وہ مل ملا کر اتنی رقم تھی کہ میں ایک چھوٹی دکان کو سامان سے بھر سکتا تھا، مگر مسئلہ تھا دکان لینے کا۔ دکان کی پگڑی ہی اتنی تھی کہ میں حسین آگاہی میں تو دکان بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس لیے میں کسی چھوٹی مارکیٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا جیسے، شاہ رکنِ عالم میں گلشن مارکیٹ یا پھر گلگشت کی طرف گردیزی مارکیٹ۔ یہ دونوں مارکیٹ تھیں تو چھوٹی مگر یہاں پر ذرا ماڈرن لڑکیاں شاپنگ کے لیے آتی تھی۔ پھر ایک دن میری قسمت جاگی اور دوبارہ سے وہی لیلی آنٹی جنہیں پہلی بار برا فروخت کیا تھا وہ میری دکان پر آئیں تو باتوں ہی باتوں میں میری ان سے بات ہوئی کہ میں اپنی دکان بنانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں، بس دکان لینے کا مسئلہ ہے۔
جس وقت یہ بات ہوئی اس وقت حاجی صاحب دکان پر موجود نہیں تھے۔ میری بات سن کر لیلی میڈیم نے پوچھا کہ کہاں پر بناو گے دکان؟ اور کتنے پیسے چاہیے ہوتے ہیں دکان کے لیے؟؟ تو میں نے میڈیم کو دونوں مارکیٹس کے بارے میں بتا دیا اور بتایا کہ مال لانے کے لیے جو میرے پاس رقم موجود ہے اتنی ہی رقم دکان کے لیے بھی چاہیے۔ تب میڈیم نے مجھے کہا اگر تم میری بات مانو تو میں تمہاری مشکل آسان کر سکتی ہوں۔۔۔ میرے کان فورا کھڑے ہوگئے اور میں نے کہا جی میڈیم بتائیں ایسی کونسی بات ہے جس کے ماننے پر آپ میری مدد کریں گی؟؟؟ لیلی میڈیم نے کہا اگر تم گلشن مارکیٹ یا گردیزی مارکیٹ کی بجائے شریف پلازہ میں دکان بنا لو تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔۔۔ شریف پلازہ کچہریوں کے پاس ہے جہاں سے ایک فلائی اوور بھی گزرتا ہے۔ شریف پلازہ کا نام سن کر میں ہنسا اور میں نے کہا میڈیم میری اتنی اوقات کہاں کہ میں وہاں دکان بنا سکوں وہاں تو بہت بڑی بڑی اور مہنگی دکانیں ہیں۔ لیلی میڈیم نے کہا وہی تو میں تمہیں کہ رہی ہوں اگر تم وہاں دکان بناو تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔ اگر تم پوری بات سن لو گے تو شاید ہم دونوں کا کام آسان ہوسکے۔ میں نے کہا جی میڈیم بتائیں۔ انہوں نے کہا شریف پلازہ میں ایک دکان ہے جو میری اپنی ہے، وہ ہم نے کسی کو کرائے پر دی ہوئی تھی، مگر پھر میرے میاں نے وہاں اپنا کاروبار بنانے کا سوچا تو جنہیں دکان دی تھی انہوں نے دکان خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ کافی کوشش کے باوجود بھی جب انہوں نے دکان خالی نہ کی تو ہم نے انہیں عدالتی نوٹس بھجوا دیا جس پر انہوں نے میرے میاں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ میں نے میاں سے کہا چھوڑو اس دوکان کو آپ نوٹس واپس لے لو ہم کوئی اور کام کر لیں گے ان غنڈوں سے ٹکر لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر میرے میاں نہ مانے اور انہوں نے کہا ہم کسی کو اس طرح اپنی جائداد پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے ۔ کیس چلا اور عدالت نےہمارے حق میں فیصلہ دے دیا اور پولیس کو کہا کہ دکان خالی کروائی جائے۔ پولیس نے 2 دن میں ہی دکان تو خالی کروادی مگر ان لوگوں نے اپنا غصہ نکالنے کے لیے کچھ غنڈوں کو بھیجا جنہوں نے میرے میاں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اتنا تشدد کیا کہ وہ پچھلے 6 ماہ سے بستر پر ہیں اور ابھی مزید کچھ سال تک وہ اٹھ کر بیٹھ نہیں سکیں گے انکی کمر کی ہڈی کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ ویسے تو ہمیں پیسے کی کمی نہیں، زمینوں سے کافی پیسہ آجاتا ہے مگر میں وہ دکان خالی نہیں رکھنا چاہ رہی، کیا پتا ادھر پھر کوئی قبضہ کر لے خالی دکان دیکھ کر۔
میں وہ دکان تمہیں کرائے پر دے سکتی ہوں، تم وہاں اپنا کام کرو، تم مجھے شریف انسان لگتے ہو، ہمارا معاہدہ ہوگا کہ 5 سال سے پہلے ہم تمہیں دکان خالی کرنے کا نہیں کہیں گے۔ اسکے بعد اگر دکان خالی کروانی ہوئی تو ہم تمہیں 3 ماہ پہلے بتا دیں گے تاکہ تم اپنا بندوبست کر سکو۔ لیلی میڈیم خاموش ہوئیں تو میرے جواب کا انتطار کرنے لگیں۔ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا وہ تو ٹھیک ہے میڈیم مگر جتنے کرائے ہیں شریف پلازہ میں وہ میں کیسے دوں گا ؟؟؟ اور پھر دکان کی پگڑی بھی ہوتی ہے جو شریف پلازہ میں 5 لاکھ سے کم نہیں۔ میڈیم نے کہا اسکی تم فکر نہ کرو، ہمیں فی الحال پیسے نہیں چاہیے، بس دکان پر کوئی کام ہونا چاہیے تاکہ خالی اور لاوارث دکان دیکھ کر اس پر کوئی قبضہ نہ کرے۔ پگڑی توم نہ دینا اور دکان کا کریہ 15 ہزار ہوگا مگر وہ بھی پہلے 6 ماہ تم کوئی کرایہ نہ دینا۔ جب تمہارا کام چل پڑے گا تو 6 ماہ بعد تم 15 ہزارہ ماہانہ کے حساب سے کرایہ دیتے رہنا۔ اور دکان کا جو بھی کام کروانا ہو وہ ہم تمہیں کروا کر دیں گے۔ میں کافی دیر سوچتا رہا اور پھر میڈیم سے پوچھا مگر میڈیم آپ مجھ پر ہی کیوں اعتمار کر رہی ہیں؟ ہوسکتا ہے میں بھی آپکی دکان پر قبضہ کر لوں۔ اس پر لیلی میڈیم مسکرائیں اور بولیں تم محنت کرنے والے لڑکے ہو، نوکری کرتے ہو یہاں، 8 سے 10 ہزار تمہاری تنخواہ ہوگی تم ہم لوگوں سے پنگا نہیں لے سکتے۔ جنہیں پہلے دکان دی تھی وہ بڑی پارٹی تھی اور انکا سیاسی لوگوں سے تعلق تھا جسکی وجہ سے ہمیں مشکل ہوئی۔ تم جیسے شریف لڑکے سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میڈیم میں آپکو سوچ کر بتاوں گا، آپ مجھے دکان کا بتا دیں تاکہ میں جا کر دیکھ سکوں، اسکے بعد میں گھر والوں سے مشورہ کر کے آپکو بتا دوں گا کہ میرا کیا پروگرام ہے۔ میڈیم نے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا اور گھر کا ایڈریس بتا دیا کہ یہاں آکر تم دکان کی چابی لے جانا تاکہ دکان دیکھ سکو اور پھر مشورہ کر کے مجھے بتا دینا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور انکا نمبر اور ایڈریس موبائل میں محفوظ کر لیا۔ 8 بجے حاجی صاحب سے چھٹی لیکر میں جلدی جلدی گھر پہنچا اور امی سے اس بارے میں بات کی، امی نے لیلی میڈیم کو ڈھیروں دعائیں دی اور کہا بیٹا تمہیں وہ دکان لے لینی چاہیے اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے اور تمہاری لیلی آنٹی کی بھی مدد ہوجائے گی۔ لیکن مزید اپنے باسط انکل سے بھی مشورہ کر لینا۔ پھر میں نے امی سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ امی وہاں پر کام کرنے کے لیے میرے پاس پیسے ابھی بھی کم ہیں وہاں کم سے کم اتنے ہی پیسے اور چاہیے ہونگے کیونکہ وہاں ہر چیز اچھی کوالٹی کی رکھنی ہوگی۔ یہ سن کر امی نے کچھ دیر سوچا اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں گئیں اور ایک چھوٹی سی پوٹلی میرے سامنے رکھ دی اور کہا بیٹا یہ میرا تھوڑا سا زیور ہے جو میں نے منی کے لیے رکھا تھا کہ جب اسکی شادی ہوگی تو جہیز بنانے کے کام آئے گا۔ مگر اب تم اپنا کام شروع کرنے جا رہے ہو تو اسکو استعمال کرو۔
میں نے انکار کر دیا کہ نہیں امی یہ آپ منی کے لیے ہی رکھیں میرا کوئی نہ کوئی بندوبست ہوجائے گا میں بنک سے لون لے لوں گا۔ امی نے سختی سے منع کر دیا کہ نہیں بیٹا سود کا کام کرنا اچھا نہیں، بنک تو سود لے گا اور جو کام سود سے شروع کیا جائے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ یہ زیور ہمارا اپنا ہے، اس میں تمہارا بھی حصہ ہے اور تمہارے بھائی بہنوں کا بھی ہے۔ اسے اپنے بھائی اور بہنوں کی امانت سمجھ کر استعمال کرو، جب تمہارا کام چل پڑے تو پیسے جوڑتے رہنا ، منی کے بڑی ہونے تک تمہارے پاس اتنے پیسے جمع ہوجائیں گے کہ تم دوبارہ سے اتنا زیور بنوا کر دے سکو۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر امی سے وہ زیور لے لیا۔ اگلے دن میں نے حاجی صاحب کو جا کر اپنے ارادے کے بارے میں بتایا تو وہ تھوڑے پریشان ہوگئے کیونکہ انکی دکان اس وقت میرے سر پر چل رہی تھی۔ انکا مجھ پر احسان تھا اس لیے میں نے انہیں پہلے بتا دینا مناسب سمجھا تاکہ وہ تب تک کسی اور لڑکے کا بندوبست کر سکیں، حاجی صاحب نے مجھے منع تو نہیں کیا مگر مجھے یہ ضرور کہا کہ بیٹا کم سے کم تم 2 ماہ مزید میرے پاس ہی کام کرو اور اپنی جگہ کوئی اپنے اعتماد والا لڑکا بھی لیکر آو جسکو تم خود ٹریننگ بھی دو گے۔ اسکے بعد تم اپنا کام رب کا نام لیکر شروع کرنا اوپر والا برکت ڈالے گا۔
میں نے حاجی صاحب کو یقین دلایا کہ یہاں سے چھوڑنے سے پہلے میں اپنی جگہ انہیں کوئی اچھا لڑکا دے دوں گا جو انکی دکان سنبھال سکے اور پھر اس دن کی چھٹی لیکر میڈیم کے دیے ہوئے ایڈریس پر چابی لینے پہنچ گیا۔ انکے گھر کے سامنے جاکر میں نے میڈیم کے نمبر پر کال کی تو انہوں نے چوکیدارکو گیٹ کھول کر مجھے اندر بلوا لیا۔ یہ ایک عالیشان گھر تھا، دیکھنے سے ہی رہنے والوں کے ٹھاٹ باٹ کا اندازہ ہورہا تھا۔ بڑے ہال میں چوکیدار نے مجھے بٹھا دیا جہاں 2 منٹ بعد ہی لیلی میڈیم آئیں اور مجھے اندر اپنے بیڈ روم میں لے گئیں۔ بیڈ روم میں ٹی وی چل رہا تھا، اند گیا تو سامنے بیڈ پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا جبکہ اسکے ساتھ میڈیم کا چھوٹا بیٹا کھیل رہا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ میڈیم کا شوہر ہوگا۔ میں نے انہیں سلام کیا تو میڈیم نے اپنے شوہر کو بتایا کہ یہ سلمان ہے جسکے بارے میں آپکو بتایا تھا۔ یہ دکان کی چابیاں لینے آیا ہے۔ میڈیم کے شوہر نے کچھ دیر مجھ سے بات چیت کی اور میرے سے کچھ میرے بارے میں سوالات کیے جیسے میں کون ہوں، کہاں رہائش ہے، والد صاحب کیا کرتے ہیں، گھر میں والد صاحب کے جانے کے بعد کس نے ذمہ داری لی گھر کی وغیرہ وغیرہ۔ انکی باتوں سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہ رسک نہیں لینا چاہ رہے اور میرے بارے مِں پوری تسلی کرنا چاہ رہے ہیں۔
جاری ہے