بریزر والی شاپ
قسط 7
کچھ دیر کی پوچھ گچھ کے بعد انہوں نے کہا لیلی اسے چابیاں دیدو، بلکہ ایسا کرو خود ساتھ جاو اور اسے دکان دکھاو، اور اسے وہاں جو کچھ کام کروانا ہے وہ خود سمجھ لینا ہم جلد ہی وہاں مستری لگوا کر کام کروا دیں گے۔ لیلی میڈیم نے کہا ٹھیک ہے میں ساتھ چلی جاتی ہوں۔ پھر میڈیم باہر آئیں اور انہوں نے میرے سے پوچھا کس چیز پر آئے ہو تو میں نے انہیں بتایا کہ میں رکشہ پر آیا ہوں، تو میڈیم نے پوچھا گاڑی چلا لیتے ہو؟؟؟ میں نے انکار میں سر ہلایا تو میڈیم نے خود ایک گاری کی چابی اٹھائی اور مجھے لیکر باہر آگئیں جہاں ایک ہنڈا سوک اور ایک چھوٹی سوزوکی کلٹس کھڑی تھی۔ میڈیم نے کلٹس کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئیں، میں نے پچھلا دروازہ کھولا اور بیٹھنے لگا تو میڈیم نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور بولیں آگے آکر بیٹھ جاو۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میڈیم نے شریف پلازہ میں لیجا کر گاڑی روک دی۔ شریف پلازہ میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر یہ آخری دکان تھی جو خاصی بڑی تھی۔ باہر ایک قینچی گیٹ تھا اور ایک شٹر لگا ہوا تھا۔ اندر کافی کاٹھ کباڑ پڑا تھا جو دکان چھوڑنے والوں کا تھا۔ دکان شروع سے قریب 12 فٹ چوڑی تھی جو آگے تک اسی چوڑائی کی تھی مگر قریب 20 فٹ آگے جا کر ایک دم سے کان 20 فٹ چوڑی ہوگئی تھی۔ یعنی فرنٹ پر ایک ہی دکان تھی جبکہ دکان کے اندرونی حصے میں دکان چوڑائی کے اعتبار سے قریب 2 دکانوں کے برابر تھی اور یہ حصہ قریب 8 فٹ لمبا تھا۔
دکان مجھے خاصی پسند آئی اور میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اس دکان کو بھرنے کے لیے کم سے کم بھی 7 سے 8 لاکھ روپے چاہیے ہونگے۔ میں نے میڈیم کو یہ بات کہی تو انہوں نے کہا تم فکر نہں کرو ہم دکان کی سیٹنگ ایسی کروا کر دیں گے کہ تم کم سامان سے بھی دکان کو بھر سکتے ہو، اور جیسے ہی تمہارے پاس زیادہ پیسے آئیں گے تم اسی سیٹنگ میں سے غیر ضرور الماریاں ختم کر کے سامان کے لیے جگہ بڑھا سکتے ہو۔ بس تم یہ بتاو تم یہاں دکان بنانا پسند کرو گے یا نہیں؟ میں نے کہا ضرور میڈیم ،بھلا اتنی اچھی دکان کون چھوڑ سکتا ہے، میں تو آپکا بڑا احسان مند ہونگا اگر آپ مجھے یہ جگہ دے دیں کام شروع کرنے کےلیے۔ لیلی میڈیم مسکرائیں اور بولیں بس اگر تم یہاں کام شروع کر دو تو ہم بھی تمہارے احسان مند ہونگے۔ میں نے آنٹی کو کہا بس میں آخری بار اپنے ایک انکل سے مشورہ کر لوں، مگر وہ بھی رسمی ہی ہوگا مجھے یقین ہے وہ انکار نہیں کریں گے آپ میری طرف سے 90 فی صد ہاں ہی سمجھیں۔ پھر کچھ میں نے میڈیم کو سمجھایا کہ مجھے کیسی سیٹنگ چاہیے اور کچھ میڈیم نے مجھے مشورے دیے، انکے مشوروں سے لگ رہا تھا ہ وہ کافی سمجھدار خاتون ہیں۔ انکا کوئی بھی مشورہ ایسا نہیں تھا جو مجھے غیر ضرور لگا ہو، میڈیم نے اپنی گاڑی سے ایک بڑا کاغذ اور پنسل بھی نکال لی تھی جس سے وہ ہمارے ہونے والی گفتگو کے بارے میں لکھ رہی تھیں کہ دکان کو کس طرح سیٹ کرنا ہے۔ ہم قریب آدھا گھنٹہ دکان میں رکے اور ضروری گفتگو کرنے کے بعد دوبارہ سے گاڑی میں بیٹھ کر کینٹ کی طرف چل دیے۔ میں نے میڈیم سے پوچھا کہ میڈیم یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟ تو انہوں نے کہا کینٹ میں کچھ اچھی دکانیں ہیں جو انڈر گارمنٹس ہی بیچتی ہیں، تم ان دکانوں کی اندرونی سیٹنگ دیکھ لو تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ کتنا مال لانا ہے اور کیسا مال لانا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہم کینٹ کی ایک چھوٹی مگر اچھی دکان پر موجود تھے، لیلی میڈیم مجھے اند لیکر گئیں اور کہا تم بغور جائزہ للے لینا دکان کا۔ دکان میں گئے تو لیلی میڈیم نے دکاندار سے بات چیت شروع کر دیا ور جیولری دیکھنی شروع کر دی جبکہ میں نے دکان پر گہری نظر ڈالی اور انکی سیٹنگ دیکھی تو یہ واقعی ایک اچھی دکان تھی جنہوں نے کم سامان ہونے کے باوجود اس طرح رکھا ہوا تھا کہ دکان بھری ہوئی لگ رہی تھی۔ ایک سائیڈ پر پلاسٹکے کے زنانہ ڈھانچے یعنی سٹیچو بھی پڑے تھے جن پر لیڈیز نائٹی پہنا کر ڈسپلے بنایا گیا تھا، 3 سے 4 ڈھانچوں نے دکان کا بڑا حصہ بھر دیا تھا اور آگے ایک الماری میں عورت کے سینے کے ڈھانچے موجود تھے جن پر برا ایسے لٹکائے گئے تھے جیسے کوئی عورت پہن کر کھڑی ہو۔ یہ بھِی ایک اچھی چیز تھی کہ عورتوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ برا انکے بدن پر کیسا لگے گا۔
کچھ دیر بعد ہم اس دکان سے نکل آئے اور مزید ایسی ہی 2، 3 اور دکانوں پر گئے، ہر جگہ تقریبا ایسی ہی چیزیں پڑی تھیں اور ایک جیسی ہی سیٹنگ تھی بس چھوٹی موٹی چیزوں کا فرق تھا۔ یہاں سے ہم قریب شام کے 5 بجے فارغ ہوئے تو میڈیم نے کہا چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آوں، میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا نہی میڈیم آپ گھر جائیں آپکے شوہر اکیلے ہیں میں خود چلا جاوں گا۔ میڈیم نے کہا انکی فکر تم نہ کرو گھر میں نرس موجود ہے جو انکی دیکھ بھال کرتی ہے، اور تمہیں تمہارے گھر چھوڑںے کا مقصد تمہارا گھر دیکھنا اور تمہاری والدہ سے ملنا ہے۔ اس پر میں نے کہا ٹھیک ہے میڈیم اور ساتھ ہی اپنے موبائل سے اپنی ہمسائی جو اکثر ہی میرے لن کے نیچے ہوتی تھی اسکو میسج کر دیا کہ فورا میرے گھر جا کر امی کو میڈیم کے آنے کی اطلاع دے تاکہ وہ میڈیم کی خاطر تواضع کے لیے بندوبست کر سکیں۔ 20 منٹ کے بعد ہم گھر پہنچ گئے اور حسب توقع امی نے تھوڑے سے ٹائم میں ہی چائے بھی رکھ دی ہوئی تھی اور ساتھ موجود بیکری سے اچھی کوالٹی کے بسکٹ، فروٹ کیک اور سینڈوچ وغیرہ منگوا لیا تھا۔ میں نے امی سے میڈیم کا تعارف کروایا تو امی نے میڈیم کے سر پر پیار دیا اور انکو بہت بہت دعائیں دی۔ میڈیم قریب آدھا گھنٹہ میرے گھر بیٹھی رہیں، وہ میری چھوٹی بہنوں سے بھی ملیں اور انہیں اپنے پرس سے 500 کے نوٹ نکال کر دیے، میں نے میڈیم کو بہت منع کیا مگر انہوں نے زبردستی میری تینوں چھوٹی بہنوں کو 500، 500 کا ایک ایک نوٹ تھما دیا۔ اس دوران میری امی نے میڈیم سے زیور کی بھی بات کی تو میڈیم نے کہا آپ مجھے زیور دکھا دیں اور بیچنے کی بجائے میرے پاس رکھوا دیں، میں اسکی مالیت کے مطابق سلمان کو پیسے دے دوں گی۔ کیونکہ اگر یہ مارکیٹ بیچے گا تو سونے کی کاٹ میں کافی پیسے کم ہوجائیں گے۔ اپ سونا میرے پاس گروی رکھوا کر اسکے بدلے پیسے لے لیں، اور جب آپکے پاس پیسے آجائیں دوبارہ سے تو آپ مجھے پیسے دے کر میرے سے اپنی امانت واپس لے سکتے ہیں۔ امی نے اور میں نے یک زبان ہوکر میڈیم کی اس آفر کو قبول کر لیا۔ مجھے کافی حیرت ہورہی تھی کہ میڈیم مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہورہی ہیں، ذہن میں کچھ خیالات بھی آئے کہ کہیں میڈیم بعد میں مجھ سے کوئی غیر قانونی کام کروانے کی کوشش نہ کریں، مگر جلد ہی میں نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا اور مثبت انداز میں سوچنے لگا کہ اس دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو غریبوں کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اور آج بھی میں اس بات پر قائم ہوں کہ میڈیم نے بغیر کسی لالچ کے میری مدد کی تھی، اور آج میں جو کچھ ہوں اپنی لیلی میڈیم کی مہربانیوں کی وجہ سےہی ہوں۔ اگلے ہی دن باسط انکل کو میں نے نہ صرف دکان دکھا دی تھی بلکہ ان سے مشورہ بھی لے لیا تھا اور انہوں نے بھی کہا تھا کہ بے فکر ہوکر شروع کرو کام۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا تھا اب۔ مختصر یہ کہ میں نے کچھ دنوں میں ہی اپنے ایک دوست کو جو میرے محلے کا ہی تھا حاجی صاحب کے پاس کام کرنے کے لیے بلا لیا، اسے بھی نوکری کی ضرورت تھی، میں نے دن رات ایک کر کے حاجی صاحب کی دکان پر آخری دو ماہ گزارے اور اس دوران اپنے دوست کو سارا کام اچھی طرح سکھا دیا اور حاجی صاحب بھی اس سے خوش تھے کیونکہ وہ پہلے بھی ایک کپڑوں والی دکان پر کام کر چکا تھا اسی لیے یہاں پر بھی وہ بہت جلدی ایڈجسٹ ہوگیا تھا۔ اس دو ماہ کے دوران سارا دن میں حاجی صاحب کی دکان پر کام کرتا اور شام کو چھٹی کرنے کے بعد شریف پلازہ جا کر وہاں ہونے والے کام کی نگرانی کرتا، لیلی میڈیم نے اپنے دو آدمی بھی وہاں پر رکھے ہوئے تھے جنکی نگرانی میں دکان کا کام ہورہا تھا۔
پھر اسی دوران میں کراچی گیا اور وہاں سے سستے داموں اچھی کوالٹی کے برا، پینٹی نائیٹیز، نائٹ گاونز لیگ سٹاکنگ وغیرہ خرید لایا اور ملتان سے ہی ایک لوکل دکان سے کچھ جیولری اور کاسمیٹکس کا سامان خرید لیا۔ دکان میں نائٹی ڈسپلےلگانے کے لیے بھی سٹیچو مجھے ملتان سے ہی مل گئے۔ لیلی میڈیم نے دکان کا شٹر اتروا کر ایک بلیک شیشا لگوا دیا تھا فرنٹ پر اور اسکے سامنے وہی قینچی گیٹ موجود تھا، جبکہ دکان کے اندر سیکورٹی کیمراز بھی لگائے گئے تھے اور ایک چھوٹا سا ٹرائی روم بھی تھا۔ یہ ٹرائی روم دکان کے اگلے حصے میں تھا جسکی چوڑائی 20 فٹ تھی اور سامنے سے نظر بھی نہیں آتا تھا سیدھے ہاتھ 3، 4 قدم چل کر چھوٹا سا کیبن بنا کر اسے ٹرائی روم کا نام دیا گیا تھا۔ دوکان کے داخلی راستے پر ہی ایک سٹیچو رکھ دیا گیا تھا جس پر ایک لیڈیز نائٹ گاون پہنایا گیا تھا تاکہ باہر سے دیکھ کر خواتین کو اندازہ ہوسکے کہ اس دوکان پر انکے انڈر گارمنٹس دستیاب ہونگے، جبکہ 3 سٹیچو اندر رکھے گئے تھے جن میں ایک پر سرخ رنگ کی نیٹ والی نائٹی، دوسرے پر ایک سلکی سبز رنگ کی نائٹی اور تیسرے سٹیچو پر ایک عربی سٹائل کا سیکسی نیٹ کا لباس پہنایا گیا تھا۔ دکان کا باقاعدہ افتتاح تو نہیں کیا گیا البتہ یہاں پر میری پہلی کسٹمر لیلی میڈیم ہی تھیں جنہوں نے مجھ سے ایک سیکسی نائٹی خریدی جسکی قیمت 2000 روپے تھے اور ایک برا اور پینٹی کا 1500 روپے کا سیٹ خریدا۔ پہلے ہی دن مجھے کافی اچھا رسپانس ملا اور میں نے کافی کمائی کر لی تھی۔ اچھے گھرانوں کی ماڈرن لڑکیاں، آنٹیاں، سکول کالج کی نوجوان لڑکیاں میری کسٹمرز تھیں۔ پہلے ہفتے میں ہی میں اتنا پرافٹ کما چکا تھا جتنی مجھے حاجی صاحب سے تنخواہ ملتی تھی۔
امی کی دعاوں کی بدولت اور لیلی میڈیم کی مہربانی سے کام بہت اچھا چل پڑا تھا اور مجھے امید تھی کہ لیلی میڈیم کے دیے گئے 6 ماہ میں کمائے گئے پرافٹ سے میں دکان کو مکمل طور پر بھر لوں گا اور دکان کا کرایا با آسانی نکل جایا کرے گا۔ یہاں پر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں نے لیلی میم کو بتائے بغیر ٹرائی روم میں بھی ایک کیمرہ لگوا لیا تھا۔ اس کیمرے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ میں نے لڑکیوں کو برا پہنتے ہوئے ننگا دیکھنا ہے، بلکہ اسکا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی، یا پھر دو لڑکیاں ٹرائی روم میں جاتی ہیں تو وہ وہاں غلط حرکات نہ کر سکیں میرے بیٹھنے کی جگہ پر کاونٹر کے اندر ہی ایک کمپیوٹر سکرین تھی جس پر دکان میں موجود 4 کیمروں کی ویڈیو آتی تھی۔ دوپہر کو 2 بجے میں باہر کالے شیسے پر دکان بند ہے کا سائن بورڈ لگا دیتا تھا اور 2 بجے سے لیکر 4 بجے تک میں ریسٹ کرتا، کھانا کھاتا۔ اور رات 11 سے 12 بجے تک دکان کھلی رہتی تھی۔
صبح 11 بجے شریف پلازہ میں دکانیں کھلنا شروع ہوتی تھیں، میں بھی 11 بجے سے کچھ پہلے ہی آکر دکان کھول لیتا تھا۔ ایک دن جب میں ایک آنٹی کو انکی پسند کا برا دکھا رہا تھا تو دکان میں 3 نوجوان لڑکیاں داخل ہوئیں اور میرے فارغ ہونے کا انتطار کرنے لگیں۔ آنٹی کو برا دکھاتے ہوئے میں نے ان سے بھی پوچھا مِس آپکو کیا چاہیے؟؟؟ ان میں سے ایک لڑکی جو کافی تیز لگ رہی تھی وہ بولی پہلے آپ آنٹی کو فارغ کر لیں پھر بتاتی ہوں کہ کیا چاہیے۔ میں پھر سے آںٹی کو برا دکھانے میں مصروف ہوگیا اور وہ کچھ ہی دیر میں برا پسند کر کے چلی گئیں۔ اب میں ان لڑکیوں کی طرف متوجہ ہوا اور انکا سرسری سا جائزہ لیا۔ یہ کالج کی لڑکیاں تھیں۔ کچہری چوک جو شریف پلازہ کے بالکل قریب تھا وہیں پر خواتین کے 2 کالج تھے شاید وہیں سے یہ لڑکیاں آئی تھیں۔ ان تینوں کی عمر 18 یا 19 کے لگ بھگ رہی ہوگی، البتہ انکے سینے دیکھنے لائق تھے کہ مرد ایک بار نظر ڈال لے تو اسے نظریں ہٹانا مشکل ہوجائے۔ ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی خاصی چپ چپ تھی اور اس نے سر پر چادر لی ہوئی تھی، جبہ باقی 2 لڑکیوں کے سر پر یا گلے میں کوئی چادر نہیں تھی ، محض ایک دوپٹہ تھا جو گلے میں ڈالا ہوا تھا اور انکے کالج یونیفارم کی فٹنگ سے انکے ممے واضح نظر آرہے تھے۔ یہ شاید بی اے کی طالبات تھیں۔
تینوں لڑکیوں کا جائزہ لینے کے بعد میں نے ان سے پوچھا جی مس کیا چاہیے آپکو؟ ان میں سے وہی لڑکی جس نے پہلے جواب دیا تھا وہ بولی مجھے کوئی اچھا سا برا دکھا دیں امپورٹڈ۔ میں نے اسکے سینے پر نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا مس آپکا سائز؟؟؟ لڑکی نے کہا 36 نمبر میں دکھا دو۔ میں نے پوچھا مس نیٹ میں ہو یا فوم والا؟؟؟ اس نے کہا فوم والا دکھاو۔ یہ سن کر چادر والی لڑکی جو ابھی تک خاموش تھی وہ ہلکی سی آواز میں بولی نیلم تمہارے پہلے ہی اتنے بڑے ہیں فوم والا لے کے کیا کرو گی؟؟؟ اس سے مجھے اتنا تو پتا لگا کہ اس تیز طرار لڑکی کا نام نیلم ہے اور مموں کا سائز تو اس نے خود ہی بتا دیا تھا 36 کا آئیڈیل سائز۔ میں نے اسے ایک طرف اشارہ کیا جہاں میں نے لڑکیوں کے سینے کے پلاسٹک کےڈھانچے رکھے ہوئے تھے ۔ یہ ڈھانچے میرے سامنے یعنی کسٹمرز کی بیک سائیڈ پر بنائی گئی ایک الماری میں تھے۔ میں نے نیلم کو کہا مس آپ اپنے پیچھے یہ سٹائل دیکھ لیں فوم والے برا کے اور مجھے سٹائل بتا دیں میں اس میں مختلف کلر آپکو دکھا دوں گا۔ نیلم دوسری طرف مڑی اور الماری کے قریب ہوکر برا دیکھ لگی، ساتھ ہی اسکی دوسری دوست بھی اسکے ساتھ برا دیکھنے لگی جبکہ چادر والی لڑکی وہیں پر کھڑی رہی۔ نیلم نے منہ دوسری طرف کیا تو میری نظریں تو نیلم کی گانڈ پر ہی جم گئیں۔ کیا گانڈ تھی اسکی، گانڈ کا تو میں ویسے ہی دیوانہ تھا میں نے فورا ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ اسکی گانڈ 34 سائز کی ہے جبکہ اسکی دوسری دوست کی گانڈ بھی تھی تو مست، مگر اس سے تھوڑی سی چھوٹی 32 سائز کی تھی۔ کچھ دیر برا دیکھنے کے بعد نیلم واپس مڑی اور اس نے ایک سٹائل کی طرف اشارہ کر کے کہا اس سٹائل میں دکھا دیں برا۔ یہ ایک کالے رنگ کا فوم والا برا تھا، اسکے کپس کے اوپر کپڑے سے ہی 3 پلیٹس بنی ہوئی تھیں۔ اور دونوں کپس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا گولڈن کلر کا نگینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اپنے پاس موجود سٹاک میں سے وہی برا کالے، سرخ اور نیلے رنگ میں نکال کر دکھا دیا۔ نیلم نے میرے ہاتھ سے برا پکڑا تو میرا ہاتھ نیلم کے نرم و نازک ہاتھوں کی انگلیوں سے چھوگیا جسکا لمس بہت ہی مسحور کن تھا۔ شاید اسکی جوانی کا ہی اثر تھا کہ اسکی انگلیوں کو چھوتے ہی میرے پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا تھا۔ نیلم نے برا پکڑا اور اسکا ڈیزائن دیکھنے لگی ، اس نے برا کے کپ کو اپنی نازک انگلیوں سے دبا کر اسکی موٹائی کا اندازہ کیا اور پھر خوش ہوتی ہی اپنے ساتھ کھڑی دوسری لڑکی سے بولی شیزہ دیکھ یار، برا تو کمال کا ہے۔ اسکا نام بھی مجھے معلوم ہوگیا تھا، اور دیکھنے میں اسکا برا سائز بھی 36 ہی لگ رہا تھا۔ شیزہ نے بھی برا ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور بولی ہاں اچھا ہے۔ پھر انہوں نے تینوں کلر دیکھے اور ان میں سے پسند کرنے لگیں۔ نیلم نے چادر والی لڑکی کو بلایا اور کہا رافعہ دیکھو یار کونسا کلر لوں؟ چادر والی لڑکی جسکا نام رافعہ تھا اس نے تینوں کلر دیکھے مگر انکو ہاتھ لگائے بغیر بولی تمہاری مرضی جو مرضی لے لو تینوں ہی اچھے ہیں۔ پھر نیلم شیزہ کی طرف مڑی اور بولی تم بتاو کونسا کلر لوں۔ شیزہ نے کہا بلیک اور ریڈ میں سے دیکھ لو کوئی سا۔
نیلم نے اب نیلے رنگ کا برا رکھ دیا اور بلیک اور ریڈ کو دیکھنے لگی تو میں نے اسے کہا مس بلیک زیادہ سوٹ کرے گا بلیک لے لیں، نیلم نے میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا، مجھے لگا کہ میری اس جسارت پر ابھی وہ مجھے 2، 3 میٹھی میٹھی گالیاں دے گی، مگر اسنے اطمینان سے جواب دیا میرا بھی بلیک کا ہی موڈ بن رہا ہے مگر یہ کلر پہلے بھی ہے میرے پاس۔ میں نے پوچھا پہلے جو بلیک کلر ہے وہ بھی فوم والا ہی ہے؟؟؟ تو نیلم نے کہا نہیں وہ تو کاٹن کا ہے گندا سا، ماما نے لا کر دیا تھا ذرا بھی کمفرٹ نہیں ہے۔ میں نے کہا اگر وہ کمفرٹ ایبل نہیں تو ظاہری بات ہے وہ تو اب نہیں پہنیں گی یہ بلیک کلر میں لے لیں، زیادہ خوبصورت ہے، ویسے بھی آپکا رنگ کافی صاف ہے تو اس پر بلیک اچھا لگے گا۔ میری اس بات پر رافعہ نے مجھے کھاجانے والی نظروں سے دیکھا مگر نیلم نے ایسا کوئی ایکسپریشن نہیں دیا اور بولی چلو ٹھیک ہے۔ پھر نیلم نے شیزہ کو کہا تم بھی لے لو کوئی برا۔ اس پر شیزہ نے کہا میرے لیے بھی دکھا دیں، مگر نیٹ میں دکھانا فوم والا نہیں۔ میں نے شیزہ سے اسکا برا نمبر پوچھا تو اس نے بھی میرے اندازے کے برعکس 34 ڈی سائز بتایا۔ 34 ڈی کا سن کر میرے دل میں شیزہ کے ممے دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ 34 ڈی کا مطلب تھا کہ شیزہ کی کمر نیلم کی کمر سے تھوڑی کم تھی اسکا بینڈ 34 کا تھا مگر اسکا کپ سائز بڑا تھا۔ یعنی شیزہ کے مموں کا سائز نیلم کے مموں سے بڑا تھا۔ قمیص کے اوپر سے دیکھنے میں دونوں کا سائز برابر تھا لیکن اگر میں شیزہ کو بھی 36 کا سائز دیتا تو وہ اسکے مموں پر تو فٹ آجاتا مگر اسکی کمر کے گرد برا کی گرفت کمزور رہتی
جاری ہے