بریزر والی شاپ
قسط 8
میں برا نکالنے کے لیے مڑا تو شیزہ کی آواز آئی 36 نا دکھائے گا، 34 ڈی ہی دکھائیں 36 مجھے لوز ہوگا۔ میں نے کہا مس آپ بے فکر ہوجائیں جو سائز آپ نے بتایا ہے وہی دکھاوں گا اور بہترین فٹنگ ہوگی اسکی۔ یہ کر کر میں نے ایک سفید رنگ کا نیٹ کا برا نکالا جس پر سرخ اور سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے تھے، ایک بلیک رنگ کا برا نکالا اور ایک سکن کلر کا نیٹ میں برا نکال دیا۔ شیزا نے سفید رنگ کا برا دیکھا جو اسے بہت پسند آیا اور اسکے بعد اس نے سکن کلر کا بھی برا دیکھا۔ دونوں کو بغور دیکھنے کے بعد شیزا نے سفید رنگ کا برا پسند کر لیا اور میرے سے پیسے پوچھے، میں نے دونوں کے علیحدہ علیحدہ پیسے بتائے تو نیلم نے کندھے پر لٹکتا ہوا بیگ کھولا اور اس میں سے پیسے نکالنے لگی، میں نے اس دوران رافعہ سے پوچھا مس آپکو بھی دکھاوں کوئی برا؟؟؟ میری بات پر رافعہ نے منہ دوسری طرف کر لیا اور ہلکی آواز میں بولی نہیں مجھے نہیں چاہیے۔ نیلم نے دونوں برا کی ادائیگی کی اور پھر مجھ سے پوچھا اگر سائز ٹھیک نہ لگے تو تبدیل تو ہوجائے گا نا؟؟؟ میں نے کہا مس ٹرائی روم موجود ہے اگر آپ ٹرائی کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ نیلم نے شیزا کی طرف دیکھا جیسے اس سے پوچھنا چاہ رہی ہو کہ ٹرائی کیا جائے یا نہیں؟؟؟ شیزا نے اپنے بازو اچکائے اور بولی دیکھ لو مرضی ہے تمہاری میں تو نہیں کروں گی، پھر نیلم نے رافعہ کی طرف دیکھا اس نے سختی سے منع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ یہاں ٹرائی نہیں کرنا چاہ رہیں، لہذا میں نے نیلم کو کہا آپ بے فکر ہوجائیں اگر سائز ٹھیک نہ ہوا تو آپ تبدیل بھی کروا سکتی ہیں مگر برا خراب نہیں ہونا چاہیے بس ایک مرتبہ پہن کر دیکھیں اگر صحیح نہ لگے تو فورا اتار دیں اور کل مجھے واپس کر کے کوئی اور لے جائیں۔ اس پر نیلم مطمئن ہوگئی اور تینوں لڑکیاں دکان سے چلی گئیں۔ انکے جانے کے بعد اور بھی خواتین اور لڑکیاں برا دیکھنے آئیں مگر میرے من میں بار بار شیزا کے ممے دیکھنے کی تڑپ تھی، جبکہ میرا دل رافعہ کی معصوم شکل بھی بار بار یاد کر رہا تھا۔ وہ لڑکی بالکل کچھ نہیں بولی تھی اور کافی گم سم تھی۔ اسکی شکل بار بار میری آنکھوں میں آرہی تھی۔ رات کو دکان بند کرنے سے پہلے ایک بار میں نے اپنے کمپیوٹر پر دوپہر کے ٹائم کی ویڈیو نکال کر ویڈیو کا وہ حصہ دیکھا جہاں یہ تینو لڑکیاں اپنے لیے برا خرید رہی تھیں۔ ایک کیمرہ انکے بالکل سامنے لگا ہوا تھا جس میں رافعہ اور نیلم کی شکل کافی واضح نظر آرہی تھی جبکہ شیزا کی شکل تو نظر نہیں آرہی تھی مگر اسکے 34 ڈی کے ممے کیمرے میں واضح تھے۔ میں کافی دیر تک رافعہ کو دیکھتا رہا اور 2 سے 3 بار ویڈیو دیکھنے کے بعد میں نے دکان بند کی اور گھر واپس آگیا۔ رات بھر میری سوچ میں کبھی رافعہ کی معصوم شکل گھومتی رہی تو کبھی شیزہ کے ممے۔ اگلے دن دکان پر گیا تو دکان کھولنے کے تھوڑی دیر بعد ہی تینوں لڑکیاں پھر سے میری دکان پر آدھمکیں۔ رافعہ نے کل کی طرح ہی چادر لے رکھی تھی جبکہ نیلم اور شیزہ کے گلے میں محض دوپٹہ ہی تھا۔
انکو دیکھ کر میں نے ایک مسکراہٹ سے انکا استقبال کیا تو شیزا نے کہا بھائی یہ نیلم کا برا تو ٹھیک تھا مگر میرا برا تھوڑا سا فٹنگ میں صحیح نہیں کوئی اور دکھا سکتے ہیں آپ؟؟ میں نے پوچھا کہ فٹنگ میں کہاں سے مسئلہ ہے بینڈ چھوٹا ہے کیا؟ شیزا نے کہا نہیں بینڈ تو بالکل ٹھیک ہے مگر اسکے کپ تھوڑا مسئلہ کر رہے ہیں، سپورٹ ٹھیک نہیں انکی۔ میں نے برا پکڑا اور کہا آپ نے اسکی فٹنگ سٹرپ کی سیٹنگ تبدیل کر کے چیک کیا تو شیزا نے کہا نہیں وہ تو نہیں کیا۔ میں نے پوچھا کہ سپورٹ نہ ہونے سے آپکی یہی مراد ہے نہ کہ آپکے بوبز تھوڑے ڈھلکے ہوئے ہیں اس میں؟؟؟ تو شیزا نے تھوڑا شرماتے ہوئے اور زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا ہاں جی یہی مطلب ہے۔ میں نے برا کی سٹرپ کو سیٹ کیا جو کندھوں کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ اور شیزہ کو کہا اب چیک کریں اب یہ صحیح سپورٹ کرے گا۔ شیزہ نے کہا ٹھیک نہ ہوا تو مجھے دوبارہ آنا پڑے گا؟؟؟ میں نے کہا مس میں نے آپکو کل بھی بتایا تھا ٹرائی روم موجود ہے۔ آپ بے فکر ہوکر ٹرائی کریں، میری اور کسٹمرز بھی ٹرائی کر کے لے جاتی ہیں۔ شیزا نے نیلم کو دیکھا جیسے اسکا مشورہ لینا چاہ رہی ہو نیلم نے کہا کر لو ٹرائی اس میں کونسا حرج والی بات ہے، چلو میں ساتھ چلتی ہوں تمہارے۔ شیزا فورا چل پڑی اور اس نے رافعہ کو بھی آواز دی مگر رافعہ نے کہا تم جاو میں یہیں بیٹھی ہوں۔ وہ دونوں برا چیک کرنے چلی گئیں جبکہ رافعہ میرے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی۔ میں نے کچھ دیر اسکو دیکھا پھر اسکو مخاطب کیا کہ آپکو کچھ چاہیے؟؟ رافعہ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور انکار میں سر ہلا کر دوبارہ نیچے سر کر لیا۔ میں نے کہا کوئی جیولری وغیرہ یا کاسمیٹکس کا سامان؟ رافعہ نے ایک بار پھر اوپر میری طرف دیکھا اور بولی نہیں بھائی مجھے کچھ نہیں چاہیے بس ہم تینوں کی دوستی ہے تو انکے ساتھ آجاتی ہوں، کچھ چاہیے ہوگا تو میں بتا دوں گی آپکو۔ پھر میں نے رافعہ کو پیچھے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور کہا انہیں تھوڑا وقت لگے گا آپ بیٹھ جائیں۔ رافعہ نے چھوٹے صوفے کی طرف دیکھ جسکے دائیں اور بائیں 2 سٹیچو پڑے تھے جن میں سے ایک پر سیکسی عربی لباس موجود تھا اور دوسرے پر سلکی سبز رنگ کی نائٹی تھی۔ رافعہ نے کچھ لمحوں کے لیے سیکسی عربی لباس والے سٹیچو کو دیکھا اور پھر اس سےکچھ فاصلہ رکھتے ہوئے صوفے کے درمیان میں بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا مس آپکے لیے پانی منگواوں؟؟؟ رافعہ نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولی اگر سادہ پانی پڑا ہے تو وہ پلا دیں۔ میں نے ساتھ پڑے کولر میں سے ایک گلاس پانی کا بھرا اور کاونٹر سے باہر نکل کر رافعہ کے سامنے آکر اسکو پیش کیا اور خود وہیں پر کھڑا اسکو پانی پیتے دیکھتا رہا۔ رافعہ نے آدھا گلاس پانی پی کر پانی کا گلاس واپس مجھے پکڑا دیا اور میں واپس کاونٹر پر آکر کھڑا ہوگیا۔
پھر میں نے رافعہ سے پوچھا مس آپ کونسے کالج میں پڑھتی ہیں؟؟؟ رافعہ نے میری طرف دیکھا جیسے مجھے بتانا نہ چاہتی ہو پھر ہلکی آواز میں بولی یہیں ساتھ ہی ہے کالج وہیں پڑھتی ہیں ہم۔ میں نے بھی زیادہ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اور اپنے کمپیوٹر پر گیم کھیلنے بیٹھ گیا۔ فارغ وقت میں میرا یہی کام ہوتا تھا۔ ٹرائی روم کی مجھے کوئی فکر نہیں تھی، کیونکہ میری عادت نہیں تھی کسی بھی کسٹمر کو برا ٹرائی کرتے ہوئے دیکھنے کی، اور دوسری خاص بات تمام کیمروں کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی تھی مگر ٹرائی روم کی ریکارڈنگ میں محفوظ نہیں کرتا تھا تاکہ اسکا مجھ سمیت کوئی بھی غلط استعمال نہ کر کسے، وہ صرف لائیو دیکھنے کی آپشن تھی اور میں لائیو بھی تب تک نہیں دیکھتا تھا جب تک اندر کوئی غلط کام ہونے کا شک نہ ہو۔ لہذا شیزا کے ممے دیکھنے کی خواہش ہونے کے باوجود میں نے ٹرائی روم کا خفیہ کیمرہ آن نہیں کیا اور گیم کھیلنے میں مصروف رہا۔ کچھ ہی دیر کے بعد شیزا اور نیلم ٹرائی روم سے آگئیں تو میں نے پوچھا جی اب صحیح ہے؟ تو شیزا نے مسکراتے ہوئے کہا اب تو بہت اچھی فٹنگ بن گئی ہے، بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے کہا یہی فائدہ ہوتا ہے یہاں پر ٹرائی کرنے کا اگر کسی کو برا فٹ نہیں آتا تو میں اس سے پوچھ کر اسکو یہیں پر فٹنگ کر دیتا ہوں اور وہی برا جو پہلے انہیں فٹ نہیں آرہا ہوتا وہ فٹ آجاتا ہے۔ ان دونوں کو دیکھ کر رافعہ بھی اپنی سیٹ سے کھڑی ہوگئی اور اس نے بھی پوچھا کہ ٹھیک ہوگیا، نیلم نے اسکے کان میں ہلکی آواز میں کہا اب تو بڑی سیکسی کلیویج بھی بن رہی ہے۔ رافعہ نے اسے گھور کر دیکھا اور دبے الفاظ میں کہا آہستہ بولو۔ مگر وہ خود بھی اتنی اونچی آواز میں بولی تھی کہ مجھے اسکی آواز سنائی دی تھی۔ وہ جانے لگیں تو انکا شاپر میرے ہاتھ میں ہی تھا جس میں وہ برا ڈال کر لائیں تھیں، میں نے کہا مس لائیں میں برا اسی میں ڈال دوں، شیزہ نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر بولی وہ تو میں نے پہنا ہوا ہے آپ یہ پہلے والا اسیمیں ڈال دو، یہ کہ کر اس نے اپنی قمیص کے نیچے ہاتھ ڈالا اور وہاں سے برا نکال کر مجھے پکڑا دیا جو شاید اس نے اپنی شلوار میں پھنسایا ہوا تھا یہ دیکھ کر میری ہنسی نکلنے کو ہورہی تھی مگر میں نے بڑی مشکل سے ہنسی پر قابو پایا مگر پھر بھی میرے چہرے پر مسکراہٹ واضح تھی جسکو محسوس کر کے بھی شیزا نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ دی اور خود ہی بولی وہ کوئی اور جگہ ہی نہیں تھی یہ رکھنے کی۔ یہ کہ کر اس نے میرے ہاتھ سے شاپر پکڑا اور تینوں دکان سے چلی گئیں۔
پھر کافی دنوں تک ان تینوں میں سے کوئی بھی میری دکان پر نہیں آیا البتہ ایک دن پھر سے سلمی آنٹی کا فون مجھے موصول ہوا۔ سلمی آنٹی کو تو میں بھول ہی گیا تھا اور انکی طرف سے بالکل نا امید تھا۔ سلمی آنٹی نے ایک بار پھر سے برا لینے کی فرمائش کی تو میں نے کہا آنٹی اب تو آپکی اپنی دکان ہے آپ دکان پر ہی آکر دیکھ لیں۔ آنٹی نے کہا نہیں بیٹا تمہیں تو پتا ہی ہے میں دکانوں پر نہیں جاتی۔ میں نے کہا ارے آنٹی یہاں کوئی غیر مرد تھوڑا ہی ہوگا، صرف میں ہوتا ہوں اور میرے سبھی کسٹمر مرد ہیں۔ اور ویسے بھی آپ 2 بجے آجائیں، 2 بجے میں بریک کرتا ہوں اور اس وقت کوئی کسٹمر نہیں ہوتا دکان پر تو آپ تسلی سے اپنے لیے نہ صرف برا دیکھ سکتی ہیں بلکہ ٹرائی روم میں برا پہن کر چیک بھی کر سکتی ہیں۔ سلمی آںٹی نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا چلو میں کل آوں گی پھر، میں نے کہا جی ضرور آنٹی آپکی اپنی دکان ہے جب مرضی آجائیں آپ۔ آنٹی کا فون بند ہوا تو مجھے ایک بار پھر سے بس والا واقعہ یاد آگیا جب سلمی آںٹی نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی گانڈ میں ڈال لیا تھا۔
اگلے دن دکان پر جانے سے پہلے میں نے سپیشل غسل کیا اور اپنے لن سے غیر ضروری بالوں کی صفائی کی۔ نجانے مجھے کیوں لگ رہا تھا کہ آج سلمی آںٹی کی گانڈ مارنے کا موقع لازمی ملے گا۔ دکان پر پہنچ کر میرا لن دوپہر تک کھڑا ہی رہا۔ مختلف خواتین آتی رہیں مگر میرا لن مسلسل سلمی آنٹی کی چوت اور گانڈ کو سلامی دیینے کے لیے کھڑا ہی رہا۔ دوپہر کو 2 بجنے سے کچھ دیر پہلے ہی سلمی آںٹی دکان میں آگئیں اس وقت دکان میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جو اپنے لیے ایک نائٹی خرید رہی تھی اسکی شاید شادی ہونے والی تھی اس لیے سہاگ رات کے لیے وہ اپنے لیے سیکسی نائٹی خرید رہی تھی۔ سلمی آنٹی اس دوران دکان کا معائنہ کرتی رہیں۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکی چلی گئی تو میں کاونٹر سے باہر آیا اور بلیک شیشے کا دروازہ بند کر کے میں نے دکان بند ہے کا سائن بورڈ لگا دیا۔ واپس آیا تو سلمی آںٹی وہی سٹیچو دیکھ رہی تھیں جس پر عربی سٹائل کا سیکسی ڈریس پہنایا ہوا تھا۔ مجھے واپس آتا دیکھ کر سلمی آنٹی بولیں، واہ بھئی تمہارے تو مزے ہیں، کیسی کیسی جوان لڑکیاں تم سے نائٹی خریدنے آتی ہیں۔ میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، کیا خاک مزے ہیں آنٹی، وہ بس والا واقعہ ابھی تک نہیں بھولا میں، مزے تو تب ہوتے جب آپ دوبارہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر آنٹی تھوڑی سی شرمندہ ہوتے ہوئے بولیں، وہ تو بس میں جھٹکے کافی لگ رہے تھے اس لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ ایسی حرکتیں نہیں کی
جاری ہے