Ghar main do kanwariyan - Episode 10

گھر میں دو کنواریاں

قسط 10


میں نے بھی زیادہ تڑپانا مناسب نہیں 

سمجھا اور آہستہ آہستہ رضوان کے اوپر جھکنے 

لگی، اب میرامنہبالکل لن کےقریب تھا

 اور میرے منہ میں اتنا مضبوط لن دیکھ کر پانی آرہا تھا۔ مگر میں ابھی رضوان کو یہی شو کروا رہی تھی کہ مجھے نفرت 

آرہی ہےاور محض رضوان کی خواہش پر میں ایسا کر رہی ہوں۔ 

  رضوان بھی بیتابی سے انتظار

کر رہا تھا کہ کب میں اسکا لن اپنے منہ ِمیں لیتی ہوں۔ 

پہلے میں نے رضوان کے لن کی ٹوپی پر ایک کس کی جس سے اسکے لن کو ایک

جھٹکا لگا۔ اور پھر میں رضوان کے لن کی سائیڈ پر اپنی زبان آہستہ آہستہ پھیرنے لگی۔ مگر اسکو بہت جلدی تھی کہ میں 

اسکا لن اپنے منہ میں لوں۔ اس نے مجھے کہا

کہ جلدی کرو دیر نہ کرو پھر گھر بھی جانا 

ہے۔ اب میں نے اپنا منہ لن کی ٹوپی پر رکھ

دیا اور اپنے ہونٹ ٹوپی پر گھمانے لگی۔ 

 لن کے منہ سے کچھ قطرے بھی نکل رہے تھے جو عموما مرد کے لن سے شدت جزبات سے نکلتے ہیں۔ یہ قطرے بھی 

میرے منہ میں گئے اور میں نے انکا ذائقہ 

محسوس کیا۔ کچھ دیر ٹوپی پر ہونٹ گھمانے کے بعد

اب میں ٹوپیپر بھی اپنی زبانپھیر رہی تھی۔ اور 

  رضوان کے لن کو تھوڑی تھوڑی دیر

بعد جھٹکے بھی لگتے۔ پھر آہستہ آہستہ 

میں نےلن کی ٹوپی اپنے منہ میں لے لی اور

آہستہ آہستہ چوسنے لگی۔ رضوان کے 

مزے کی کہوئی حد نہیں تھی اسنے ابھی سےسسکیاں لینی شروع کر دی تھیں۔ مجھے شرارت سوجھی اور میں نے 

رضوان کی ٹوپی پر اپنے چبھو دیے۔ 

رضوان کی ایک دم چیخ نکلی اور اسنے ایکدم سے اپنا لن

  میرے

منہ سے نکال لیا۔ اسکو شاید کچھ زیادہ ہی 

تکلیف ہوئی تھی کیونکہ یہ اسکا پہلا تجربہ 

تھا۔ اب وہ اپنا لن میرے منہ میں دیتے 

ہوئے ڈرنے لگا مگر اب کی بار میں نے 

شرم اتار کر سائیڈ پر رکھی اور فل تیاری کر لی کہ اب رضوان کا لن جڑ تک چوس کر

رضوان کو مزہ دینا ہے۔ میں نے رضوان 

سے سوری بھی کی کہ اب دانت نہیں 

 لگتے 

غلطی ہوگئیپہلے اب میں پیارسے لن 

چوسوں گی۔ اب کی بار رضوان نے ڈرتے ڈرتے 

لن میرے منہ میں جانے دیا اور میں نے 

آہستہ آہستہ پورا لن اپنے منہ میں لے لیا جس سے رضوان کی سسکیاں ایک بار 

پھر سٹارٹ ہوگئیں۔ اب میں بہت مہارت کے ساتھ

رضوان کا لن چوس رہی تھی جو مکمل 

طور پر گیال ہو چکا تھا۔ کچھ تو میرے منہ میں

جانے سے گیال ہوا اور کچھ اسکے لن 

 سے مسلسل

  چھوٹے چھوٹے مذی کے قطرے 

نکل رہے تھے۔ جو پریکٹس میں نے قاسم کے لن پر کی تھی اسکا مکمل استعمال ابمیں رضوان کے لن پر کر رہی تھی اور بہت مزے کے ساتھ لن کے چوپے لگا رہی تھی 

جس سے رضوان کو بھی بہت مزہ آرہا 

تھا۔ میں کبھی رضوان کا لن جڑ تک اپنے 

منہ میں لے لیتی تو کبھی محض آدھے لن سے

ہی اپنے منہ کی چودائی کرتی۔ کبھی لن باہر نکال کر اسکی ٹوپی پر پیار کرتی تو کبھی 

لن کی سائڈپر نیچے سے اوپرکی طرفزبان پھیرتی۔ رضوان میری ان حرکتوں سے

بہت مزے لے رہا تھا اور خوش بھی ہو رہا تھا۔ 5 منٹ تک رضوان اپنے مضبوط لن

سے میرے منہ کی چدائی کرتا رہا اور پھر بولا کہ وہ اب چھوٹنے واال ہے۔ میں ابھی 

رضوان کی منی اپنے منہ میں نہیں لینا چاہتی تھی 

  کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ 

کسی بھی طرح سوچے کہ میں پہلے بھی 

کسی کے لن کا چوپا لگا چکی ہوں اور اسکو

مجھ پر شک ہو اسلیے میں نےفورا ہیاسکا لن اپنے منہ سے نکالا اور اسکو کہا منی 

باہر ہی نکلانا۔ رضوان بولا تم اپنے منہ 

میں نکلوا لو نہیں تو گاڑی خراب ہوگی۔ اب میں

ادھر ادھر دیکھنے لگی کیونکہ گاڑی میں منی نکلانا بھی ٹھیک نہیں تھا، تو میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسکو باہر کی 

 طرف منہ کرنے کو کہا، اب رضوان باہرکی طرف منہ کر کے بیٹھے گیا تہ میں نے 

پیچھے سے آکر ایک بار پھر اسکا لن اپنے منہ 

میںلیا اوراسکے چوپے لگانے لگی۔ 9سے 10 چوپوں کے بعد اسکے لن میں ایک

بار پھر سے ضرورت سے زیادہ سختی 

ہوئی تو میں نے لن منہ سے نکالا اور اپنے 

ہاتھ سے اسکی مٹھ مارنے لگی۔ کچھ ہی سیکنڈ میں 

  رضوان کے لن نے منی نکالی جو 

بہت پریشر سے نکلی اور گاڑی سے باہر جا گری۔ کچھ قطرے گاڑی کے دروازے پر 

گرے جسکو رضوان نے فوری طور پر ایک کپڑے سے صاف کر دیا۔

ابرضوان مکمل فارغہو چکاتھا اور 

میری طرف مشکور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ 

رضوان نے کچھ دیر مجھے مزید کسنگ کی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا کہ میں نے آ ج

اسکو بہت مزہ دیا۔ میں نے بھی رضوان 

کو پیار سے ایک کس کی اور کہا کہ چلو اب

دیر ہو رہی ہے گھر چلیں۔ رضوان نے اپنا 

لن واپس پینٹ میں ڈال زپ بند کی اور واپس

اپنیجگہ پرجاکےبیٹھگیا۔ میں نے بھی ساڑھی کا پلو ٹھیک کیا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اب ہمارا رخ گھر کی طرف تھا۔

جب گھر پہنچے تو گھر والے بے چینی 

سے ہمارا انتظار کر رہے تھے کیونکہ وہ بارش

کی وجہ سے پریشان تھے۔ مگر جب ہم خیر

 خیریت سے ٹائم پر پہنچ گئے تو گھر والے

خوش ہوگئے۔ رضوان کو ابو نے روک لیا 

کہ بارش رک جائے تو پھر جانا واپس۔ مگر

بارش نہ رکیاسلیےرضوانہماری 

طرف ہی رک گیا رات کو۔ ہم سب نے ملکر چائے 

پی اور پکوڑے بنا کر بھی کھائے۔ رات 

کافی دیر جاگنے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سوگئے۔ رضوان کو میرے چھوٹے بھائی 

  حمزہ کے ساتھ سالیا گیا اور میں اپنے کمرے میں سوگئی۔ 

صبح اٹھے تو ابو کام پر جا چکے تھے اور حمزہ بھی کالج جا چکا تھا۔ گھر میںرضوان ، امیاورمیںموجود تھے۔ ہم تینوں نے ملکر ناشتہ کیا۔ ناشتہ کرنے کے کچھ 

دیر بعد تک ہم باتیں کرتے رہے کہ اتنے میں ہمسائیوں سے ایک بچی آئی امی 

کوبلانے۔ انکے گھر پر کوئی مسئلہ تھا 

 جسکے لیے امی کو فورا جانا پڑا۔ اور اب گھر میں

رضوان اور میں اکیلے تھے۔ جیسے ہی 

امی گھر سے نکلیں، رضوان نے مجھے پکڑ 

کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میں بھی اسیموقع کی تلاش میںتھیلہذا میںنے بھی 

رضوان کا پورا ساتھ دیا اسکے ہونٹ چوسے 

زبان اپنے منہ میں لیکر چوسی۔ رضوان کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ میرے چوتڑ دبانے میں بھی مصروف تھا۔ جس سے 

مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیر کسنگ کرنے 

کے بعد رضوان نے میرے ممے پکڑ لیے 

اور انکو قمیص کے اوپر سے ہی دبانے 

 لگا۔

رضواننے آج تک میرے ممے نہیں 

دیکھے تھے اور آج رضوان چاہتا تھا کو وہ میرے 

ممے دیکھ لے۔ میں بھی چاہتی تھی کہ 

رضوان کچھ آگے بڑھے، اسکے لن کا تو میں

چوپا لگا ہی چکی تھی اب میں چاہتی تھی کے 

  رضوان بھی میرے جسم کا مزہ لے اور

میرے جسم کے ابھاروں سے کھیلے اور 

میرے جسم سے چھیڑ خانی کرے۔ رضوان نے 

آہستہ آہستہ میری قمیص میں اپنے ہاتھ داخل کیے اور پہلے کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرے 

اور پھر میری قمیص اوپر اٹھانے لگا، میں نے تھوڑی سی برائے نام مزاحمت کی مگر

کچھ ہی دیر میں قمیص میرے بدن سے جدا ہو چکی تھی اور میں رضوان کے سامنے 

برا پہنے کھڑی تھی۔ رضوان کی آنکھوں 

میں چمک تھی میرے مموں کا ابھار دیکھ کر۔

رضوان نے اپنے دونوں ہاتھ میرے مموں 

پر رکھ دیے اور برا کے اوپر سے ہی 

 دبانے 

لگااورساتھ میں ایک بار پھر میرے ہونٹوں سے رس پینے لگا۔ کچھ دیر میرے ممے


دبانے کے بعد رضوان نے اپنے ہونٹ 

میرے مموں کے ابھار پر رکھ دیے۔ اور میرے 

 مموں کو چومنا شروع کر دیا۔

میرے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی اور میں

  مزے کی وادیوں میں گم رضوان کو سر

سے پکڑ کر مموں کی طرف دبا رہی تھی ۔ کچھ دیر رضوان نے ممے پر کسنگ کرنے کےبعد میرا برا اتارناچاہا تو میں نے 

سختی سے منع کر دیا۔ کیونکہ میں ابھی رضوان کو مزید تھوڑا تڑپانا چاہتی تھی 

اور ایک دم سے اسکو سب کچھ دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔ رضوان نے بہت 

کوشش کی کہ وہ میرا برا اتار کر میرے 

 ممے دیکھ 

  سکے 

مگر میں نے منع کر دیا۔ پھر رضوان نے میرا منہ دوسری طرف کیا اور میری کمر پر کسنگ شروع کر دی۔ کچھ دیر میری 

کمر چاٹنے کے بعد وہ میری گردن پر آگیا اور اپنے

دونوںہاتھسامنے لاتےہوئے میرے ممے بھی دبانے لگا۔ رضوان کا لن جو پینٹ سے

نکلنے کے لیے بے چین تھا وہ میری گانڈ میں گھسا جا رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ 

پیچھے کیا اور اسکے لن پر اپنا ہاتھ رکھ 

دیا۔ لن کو چھوتے ہی میری چوت گیلی ہونے 

لگی اور لن حاصل کرنے کو تڑپنے لگی۔ 

ساتھ ہی رضوان نے بھی ظلم کی انتہا کرتے 

ہوئے ایک ہاتھ میری چوت پر رکھ دیا اور 

شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت 

 رگڑنے 

لگا۔ ابرضوان کا ایکہاتھ میرے مموں 

پر تھا، ایک ہاتھ سے وہ میری چوت رگڑ 

 رہا

تھا اور اپنے ہونٹوں سے میری گردن کو چوم رہا تھا۔ 

  اور میرا ہاتھ رضوان کے لن پر

تھا۔ میری تڑپ بڑھتی جا رہی تھی، میں 

ابھی رضوان کو اپنا مکمل جسم دینے کے موڈ

میں نہیں تھی مگر چوت پر رضوان کے 

ہاتھ کی رگڑ اور میرے ہاتھ میں رضوان کا موٹا

لن مجھےمجبور کر رہاتھا کہ میں آج اپنا 

سب کچھ رضوان کو سونپ دوں۔ مگر اچانک

ہی باہر بیل بجی اور ہم دونوں کو ایک 

کرنٹ لگا اور ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ میں 

نے فورا اپنی قمیص اٹھائی اور باتھ روم میں بھاگی اور

  رضوان کو کہا کو وہ فورادروازہ کھولے۔ 

جب میں اپنی قمیص پہن کر واش روم سے نکلی تو کمرے میں امی موجود تھیں۔ اوررضوانبھیکمرے میںہی بیٹھا تھا۔ کچھ 

دیر باتیں کرنے کے بعد رضوان نے امی سے

اجازت لی اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ اس طرح کی چھیڑ خانی کا جب بھی ہمیں موقع 

ملتاہم ضرور کرتے۔ مگر دوبارہ رضوان کو کبھی میری

  قمیص اتارنے کا موقع نہیں مال۔ وہ

اوپر اوپر سے ہی میرے ممے دباتا اور 

کبھی کبھی میری چوت پر اپنا ہاتھ پھیرتا ،

 البتہ

میں نے ایک بار پھر سے رضوان کے لن کا چوپا لگا کر اسکی منی نکالی۔ 

اب اس واقعہ کو 2 مہینے کاٹائم گزر چکا تھا۔ ایک دن رضوان نے مجھے بتایا کے 

انکے دوست ایک پارٹی ارینج کر رہے ہیں جس میں انکی گرل فرینڈز بھی انکے ساتھ

ھ یہ پارٹی جوائن کروں۔ میں نے حامی بھر 

ہونگی اور رضوان نے مجھے کہا کہ میں ب 

لی مگر مسئلہ ابو سے اجازت لینے کا تھا۔ 

اور یہ کام میں نے رضوان کے ذمے لگا 

 دیا۔

رضوان نے جانے ابو کو کیا کہانی سنائی کہ ابو نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ رضواننےمجھے بتایا کہ یہ ہائی کالس پارٹی ہوگی لہذا میں کوئی سیکسی سا 

ڈریس پہن کر جاوں۔ میں نے اپنی ٹائٹ جینز نکال کر پہنی اسکے ساتھ فوم کے کپس واال

وائرڈ برا پہن لیا اور اپر سے ایک ٹائٹ 

شرٹ پہن لی۔ میرے ٹائٹ ممے اس شرٹ 

میں پھنس کر رہ گئے اور بڑی مشکل سے سینے کے اوپر واال بٹن بند کیا۔ ساتھ میں 

نےایک لمبی سی شال لی اور اپنے کندھوں 

پر ڈال لی جو میرے گھٹنوں تک جا رہی تھی۔ 

یہ تیاریکر کے میںرضوانکے ساتھ ابو کی گاڑی میں پارٹی میں شریک ہونے چلیگئی۔ گھر سے تھوڑا دور جا کر میں نے شال اتار دی تو رضوان نے میرے مموں کی

طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ کونپل تم بہت 

سیکسی لگ رہی ہو آج تو مزہ آجائے گا۔ میں

 بھی مسکرا دی۔ 

کچھ دیر میں ہم رضوان کے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑی کوٹھی 

 تھی اور 

گھر کےباہرسے ہیپتہ لگتا تھا کہ کو ئی 

بہت امیر شخص ہوگا اس گھر کا مالک۔ گیٹ 

کھلا تھا رضوان نے گاڑی اندر لے جا کر 

روکی تو رضوان کا دوست ویلکم کرنے کے 

لیے وہیں آگیا۔ اسنے مجھ سے ہاتھ مالیا 

اور میرا اوپر سے نیچے تک کا جائزہ لیکر

مجھے تعریفی نظروں سے دیکھا اور پھر رضوان سے مال اور رضوان کو کہا کہبھابھی تو آج قیامتڈھا رہیہیں۔ رضوان 

یہ بات سن کر قہقہ لگا کر ہنسا اور ہم اکٹھے 

اندر چلے گئے۔ اندر جا کر رضوان کا دوست جسکا نام

  علی تھا وہ ہمیں ایک بیسمینٹ 

میں لے گیا جہاں سے میوزک کی آواز آرہی تھی۔ ج یسے ہی ہم بیسمینٹ میں داخل

ہوئے تو اند ر کا ماحول میرے لیے بالکل نیا تھا۔ یہ واقعی ایک ہائی کالس پارٹی تھی اور لڑکے اور لڑکیاں ڈانس کرنے میں 

مصروف تھے۔ کمرے میں قریب 6 لڑکے اور 8لڑکیاں موجود تھیں۔ ہمیں ملا کر کل 8 لڑکے اور 9 لڑکیاں ہوگئیں تھیں۔ ہمیں 

 اندر آت ا

دیکھ کر سب لوگ ہمیں ملے۔ لڑکے 

رضوان سے گلے ملے اور میرے ساتھ سب نے 

ہاتھ مالیا۔ جب کہ لڑکیاں مجھ سے بھی گلے ملیں اور 3 لڑکیاں رضوان کے ساتھ بھی 

گلے ملیں جو مجھے بہت عجیب لگا۔ رضوان نے بھی بہت گرم جوشی سے انہیں گلے

لگایا اور فورا ہی ڈانس دوبارہ شروع ہوگیا۔ 

رضوان نے مجھے بھی ڈانس کرنے کی 

دعوت دی مگر میں جھجھک محسوس کر رہی 

تھی اس لیے رضوان کو کہا کہ وہ ڈانس 

کرے اور میں خود ایک سائیڈ پر جا کر بیٹھ 

گئی۔ اور رضوان کو ڈانس کرے دیکھنے 

لگی۔ رضوان دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے 

ساتھ محو ہو کر ڈانس کر رہا تھا۔ تمام لڑکیاں بہت بولڈ تھیں اور بال جھجھک مختلف

لڑکوں کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھیں۔ مجھے اکیال بیٹھا دیکھ کر علی میرےپاس آیا اور مجھے ایک کولڈ ڈرنک آفر کی جو میں 

  نے لے لی۔ اور علی میرے ساتھ ہی 

بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے میرے سے پوچھا کہ میں ڈانس کیوں نہیں 

کر رہی تو میں نے بتا یا کہ میں نے کبھی ڈانس کیا ہی نہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔ 

اس پر علی قہقہ لگا کر ہنسا اور بولا ہم کونسا ایکسپرٹ ڈانسر ہیں۔ بس میوزک کےساتھ ساتھ جسم ہی تو ہلانا ہوتا ہے اور خود بخود ڈانس ہوتا رہتا ہے۔ علی نے 

مجھے اپنے ساتھ ڈانس کرنے کو کہا مگر میں نے معذرت کر لی۔ جس پر علی نے برا منائے 

بغیر میرے سے باتیں جار رکھیں۔ میری 

نظریں رضوان پر تھیں۔ رضوان جن لڑکیوں کے 

ساتھ ڈانس کر رہا تھا وہ بہت بولڈ اور سیکسی تھیں۔ رضوان بیچ بیچ میں ان لڑکیوں 

کے چوتڑوں پر بھی ہاتھ پھیرتا اور کبھی کبھی وہ لڑکیاں اپنی گانڈ پیچھے کو نکال کررضوان کے ساتھ ٹچ کرتیں جو تقریبا رضوان کے لن پر ہی لگتی ہوگی۔ باقی لڑکے بھی 

اسی طرح کی بیہودہ حرکتیں کر رہے تھے۔ 

علی نے نوٹ کر لیا کہ میں رضوان کو دیکھ 

رہی ہوں تو اس نے کہا کیا آپکو برا لگ 

رہا ہے رضوان کا دوسری لڑکیوں کے ساتھ

ڈانس کرنا ؟؟ تو میں نے کہا نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے عادت نہیں ۔ تو 

اس پر علی نے کہا کہ میں ہمت کروں اور ڈانس شروع کروں۔ اسنے کھڑے ہوکر اپناہاتھ میری طرف بڑھایا، میں نے کچھ 

سوچتے ہوئے ڈرنک سائیڈ پر رکھی اور علی کا

ہاتھ تھام کر ڈانس فلور کی طرف بڑھنے لگی، اب میں بھی ذرا سیکسی انداز میں اپنی 

گانڈ ہلاتے ہوئے چل رہی تھی۔ میرا خی ال 

تھا کہ مجھے علی کے ساتھ دیکھ کر رضوان

ان لڑکیوں کو چھوڑ کر میری طرف بڑھے گا مگر

  ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ مجھے علی کے ساتھ آتا دیکھ کر رضوان نے خوشی 

سے چیخ ماری اور مجھے ویلکم کہا اور اپناڈانس جاری رکھا۔ 

میں نے بھی پھر چارو ناچار علی کے 

ساتھ ہی ڈانس کرنا بہتر سمجھا۔ علی نے مجھے 

کہا کہ زیادہ مشکل نہیں بس میوزک کے 

ساتھ ساتھ جیسے آپکو سمجھ لگے اپنا جسم

ہلانا ہے۔ میں نے اونچی ایڑی والی ہیل 

پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میں تھوڑا ڈر

بھی رہی تھی، مگر باقی لڑکیوں کی طرف دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے 

میوزک کے ساتھ ساتھ ہلکا پھلکا ڈانس 

شروع کیا۔ علی نے میرا ہاتھ ابھی تک پکڑا ہوا

تھا اور وہ بھی میرے ساتھ ہلکا ہکا ڈانس 

کر رہا تھا۔ وہاں تمام موجود لڑکیاں اپنی گانڈ

ہال ہال کر ہی ڈانس کر رہی تھی اور یہی 

انکے نزدیک ڈانس تھا۔ میں نے بھی یہی کام

جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد جب میری جھجھک 

 ختم ہوئی تو میں نے زیادہ اعتماد کےساتھ 

ڈانس کرنا شروع کیا، گانڈ ہلانے کے ساتھ ساتھ میں ہاتھوں اور ٹانگوں کا استعمال بھی 

کر رہی تھی ۔ میرا اعتماد بحال ہوتے دیکھ کر علی نے اپنے ہاتھ میری گانڈ پر رکھ دیے


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)