گھر میں دو کنواریاں
قسط 12
سائرہ نے رضوان کو کہا کہ اب کچھ دیر آپکو اکیلے بیٹھ کر بور ہونا پڑے گا۔ یا تومیرے بھائی کے کمرے میں جا کر کوئی
مووی دیکھ لیں یا نیچے لان میں چہل قدمی
کریں ۔ سائرہ کا بھائی گھر پر موجودنہیں
تھا ابو اسکے ویسے ہی گھر پر نہیں ہوتے
تھے اور امی بھی گاوں گئی ہوئیں تھیں۔
رضوان نے کہا کہ آپ بے فکر ہوکر سوئمنگ
کرو میں لان میں چہل قدمی کر لوں گا۔
سائرہ نے ملازم کو بال کر کہا کہ رضوان صاحب کو لان تک لے جاو اور ہم تینوں
سوئمنگ پول کی طرف چلی گئیں۔ سوئمنگ پول کے چاروں سائڈ پر بڑی چار دیوار ہی کم و بیش 2 کنال کی ہوگی۔ اور بیچ میں ایک سوئمنگ پول تھی۔ یہ چار دیواری میں تھا۔ یہ اصل میں سوئمنگ پول اور ٹیوب
ویل کا مکسچر تھا۔ اس میں سوئمنگ پول کی
طرح پانی کھڑا نہیں تھا بلکہ مسلسل ایک سائڈ سے پانی آرہا تھا اور دوسری سائیڈ
سے پانی خارج ہو رہاتھا۔ سائرہ نے بتایا کہ یہ سارہ دن چلتا ہے اور پول میں پانی تازہ
رہتا ہے۔ اور جو پانی خارج ہورہا ہے وہ حویلی کی پچھلی
سائڈ پر انکی زمینوں کوسیراب کرتا ہے۔ پول کے اندر نیلے رنگ کی ٹائلز لگی ہوئیں تھیں۔ اس مٹی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پانی بالکل شفاف تھا
اور نیلی ٹائل کی وجہ سے اور بھی نیال لگ
رہا تھا۔ پانی کی گہرائی تقریبا 5 فٹ سے کچھ اوپر تھی اور یہ اوپن ائیر میں تھا۔ یعنی
چار دیواری تو تھی مگر چھت نہیں تھی۔ اور آس پاس دور دور تک کوئی گھر بھی نہیں
تھا۔ کیونکہ انکی یہ حویلی شہر سے باہر
تھی اور اور آس پاس کی ساری زمین انکی اپنی تھی۔
پول پر پہنچتے ہیں سائرہ اور سمیرا نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ دونوں نے
اپنی قمیص اتاری اور پھر شلوار بھی اتار
دی۔ اب دونوں محض برا اور پینٹی می ں تھیں۔
دونوں نے اپنے کپڑے ساتھ پڑے ہوئے
بینچ پر رکھے جس پر پہلے سے ٹاول بھی
رکھے ہوئے تھے۔ سائرہ کو میں نے پہلی بار بغیر
کپڑوں کے دیکھا تھا۔ وہ ایک سمارٹ اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اسکا رنگ گورا تھا اور چکنا جسم تھا۔ جسم پر بالوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اسکے ممے میرے
مموں جتنے ہی تھی یعنی کہ 34 سائز
تھے مگر گانڈ میرے سے چھوٹی تھی۔
سائرہ کی گانڈ 32 کی تھی اور پیٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسکے مقابلے میں
سمیرا کے ممے ہم دونوں سے بڑے تھے۔
36
سائز کے مموں پر بلیک برا میں سمیرا کا
دودھیا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ گانڈ بھی
36
سائز کی تھی اور گوشت سے بھری ہوئی
تھی اور حیرانگی سے ان دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔
مجھے ایسے اپنی طرف
دیکھتے ہوئے سمیرا بولی کیا ہوا پہلے کبھی کسی ننگی لڑکی کو نہیں دیکھا؟ اور تم تو
ایسے دیکھ رہی ہو جیسے کوئی لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو ننگا دیکھ
لے۔ میں اس بات پرہنس پڑی اور کہا نہیں
ایسی بات نہیں، تم دونوں سوئمنگ کرو
میں باہر ہی بیٹھوں گی۔
میری یہ بات سن کر دونوں آگے بڑھیں اور کہا ایسے نہیں اتارتی کپڑے تو ہم خود اتا ردیتے ہیں تمہارے کپڑے۔ اور انہوں نے
میری قمیص اتارنی شروع کی میں نے ہلکا سا
روکا مگر سائرہ میری قمیص اتار چکی تھی اور سمیرا میری شلوار اتار رہی تھی۔ اب ہم
تینوں کے کسے ہوئے ممے برا میں تھے
اور نیچے سے ہم تینوں نے پینٹی پہن رکھی
تھی۔ سمیرا نے میرے مموں پر ایک چماٹ ماری اور بولی کے بڑے ٹائٹ ممے ہیں تیرے تو۔ اور یہ کہ کر سوئمنگ پول میں
جمپ لگا کر کسی مچھلی کی طرح تیرنے لگی۔
اسکے بعد سائرہ نے بھی چھلانگ لگائی
اور مجھے اپنے پیچھے پانی میں آنے کو
کہا۔
میں ایک سائیڈ پر گئی جہاں سیڑھیاں
نظر آرہی تھی جو پول کے اندر اتر رہی تھیں، میں
ان سیڑھیوں کی مدد سے ڈرتے ڈرتے پول میں اتری۔ پانی میرے مموں سے اوپر
کندھوں تک تھا اور میرا محض سر ہی پانی
سے باہر تھا۔ پانی چونکہ بہ رہا تھا اور
ٹیوب ویل سے تازہ پانی آرہا تھا اس لیے بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ وہ دونوں پول کا ایک چکر
لگا کر میرے پاس آئیں اور مجھے بھی تیرنے کو کہا، میں نے کہا کہ مجھے تیرنا نہیں
آتا تو انہوں نے مجھے ایک سائڈ سے
پکڑا اور پانی میں آگے لے گئیں اور کہا کہکوشش کرو تیراکی کی دونوں نے مجھے پیٹ سے سہارا دیا اور کہا کہ ہاتھ اور مار کر پانی پر تیرنے کی کوشش کروں، میں
نے کوشش کی مگر سیدھا پانی میں غوطہ لگ
گیا۔ سمیرا نے مجھے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ
کھڑا کیا تو میں نے توبہ کی کہ مجھے نہیں
تیرنا، میں ایسے ہی کھڑی ہوں تم لوگ
تیراکی کرو۔ میں ایسے ہی انجوائے کر لوں گی۔
اس پر سائرہ پول سے باہر نکلی اور ایک کونے میں پڑی ٹیوب اٹھا لائی جو انسان کوڈوبنے سے بچاتی ہے۔ سائرہ نے وہ ٹیوب مجھے دی اور کہ ا
اسکی مدد سے تیراکی
کرو۔ میں نے وہ ٹیوب اپنی کمر کے گرد ڈال لی اور اب پانی پر با آسانی تیرنے لگی۔
کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی
رہیں۔ شروع میں تو پانی میرے کندھوں تک
تھا مگر تھوڑا آگے جا کر پول کی گہرائی
زیادہ تھی جس کا مجھے سائرہ نے بتا دیاتھا۔
کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ میرے لیے یہ پہلا ایکسپیرینس تھا
اور کچھ دیر کی تیراکی کے بعد میں نے کم گہرائی والے پانی میں آکر ٹیوب کے بغیر
بھی تیراکی کی کوشش کی تو کسی حد تک کامیابی ہوئی مگر محض کچھ سیکنڈ کے
لیے ہی میں پانی میں تیر سکی اسکے بعد پھر سے غوطہ لگ گیا تو میں نے دوبارہٹیوب پکڑ کر تیراکی جاری رکھی۔ اب
سائرہ میرے پاس آئی اور میرے جسم سے چھیڑ
خانی کرنے لگی۔ اس نے میرے مموں پر ہاتھ
رکھا اور بولی کے بہت پیارے ممے ہیںتمہارے اور انکی گولائی تو رضوان بھائی کو پاگل کر دے گی۔ پھر میری گانڈ پر ہاتھ
رکھ کر بولی کہ یہ بھی بہت زبردست ہے میں ہنسی اور کہا تجھے کیوں فکر ہورہی ہے
میری، اپنی بھابھی کے ممے اور گانڈ دیکھ اور سوچ تیرے بھائی کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
یہ بات سن کر سائرہ زور سے ہنسی جبکہ سمیرا کے گال شرم سے سرخ ہوگئے۔ پھرسائرہ نے میرے جسم کا بغور جائزہ لیا
اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر اچانک بولی کہ
یار
رضوان بھائی باہر بور ہورہے ہونگے انکے بھی بال لیتے ہیں ادھر ہی۔ میں ایک دم ہکا
بکا رہ گئی اور کہا یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟ سمیرا نے بھی کہا کہ نہیں رضوان کوادھر نہیں بالو ہم نے کونسا سوئم سوٹ پہنا ہوا ہے ہم تو برا اور پینٹی میں ہیں۔ لیکن
سائرہ بضد رہی کہ نہیں انہیں بولنا چاہیے۔
کونپل تو ویسے ہی اسکی منگیتر ہے اسنے
لازمی اپنے حسن کے جلوے پہلے بھی
دکھائے ہونگے رضوان کو اور مجھے کوئی
فکر نہیں اگر وہ مجھے اس حالت میں
دیکھ بھی لے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ
کونسا میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ مگر سمیرا پھر بھی نا مانی تو سائرہ نے سمیرا کو کہاکہ وہ باہر نکل کر اپنا گاون پہن لے۔ میں
رضوان کو بال رہی ہوں۔ وہ بھی کونپل کے
ساتھ تھوڑا سا انجوائے کر لیں تو کیا حرج ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔ سمیرا نے میری حالت دیکھی تو
ہنستی ہوئی سوئمنگ پول سے باہر نکل گئی
اور کہا کونپل آج تمہاری خیر نہیں۔ سائرہ
نے باہر نکل کر میرا فون اٹھایا اور رضوان کا
نمبر مال کر اسے کہا کہ پول کی طرف آجاو اندر کونپل آپکو بال رہی ہے۔ اور سمیرا نے
باہر نکل کر ٹاول سے اپنا جسم صاف کیا اور برا او ر
پینٹی اتار کر گاون پہن لیا۔ اور برا
اور پینٹی جگہ پر رکھ دی۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان اندر آتا دکھائی دیا، اس وقت
سمیرا پول سے باہر گاون پہن کر کھڑی
تھی اور سائرہ میرے ساتھ پول میں تھی، میں
نے بھی باہر نکل کر کپڑے پہننے کا کہا تھا مگر سائرہ نے ایسے نہیں کرنے دیا اور
کہا اپنے منگیتر کو بھی تھوڑے جلوے دکھا دے اپنے جسم کے۔
رضوان جب پول کے قریب آیا تو ایک بار وہ بھی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سمیرا گاونمیں ہونے کے باوجودکافی سیکسی لگ
رہی تھی مگر اصل حیرانگی کی بات میرا اور
سائرہ کا برا پینٹی پہنے پانی میں موجود ہونا تھا۔ رضوان کے آتے ہی سائرہ پانی سے
باہر نکلی اور رضوان کی طرف کمر
لچکاتے ہوئے جانے لگی۔ رضوان بھی پھٹی پھٹی
نگاہوں سے سائرہ کو دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر
یہ سائرہ کو ہوا کیا ہے۔سائرہ رضوان کے پاس پہنچی اور اپنے مموں پر ہاتھ پھیرتے
ہوئے بولی کیا ہوا رضوان بھائی ایسے کیا دیکھ رہے ہو پہلے کبھی خوبصورت لڑکینہیں دیکھی کیا؟ رضوان جو بغیر نظریں
جھکائے سائرہ کے جسم کو اوپر سے نیچے
دیکھ رہا تھا واپس ہوش میں آگیا اور کہا نہیں خوبصورت لڑکیاں تو بہت دیکھی ہیں
مگر اس حالت میں کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ
سن کر سائرہ نے رضوان کے سینے پر ہاتھ
رکھا اور اسکی شرٹ کابٹن کھولتے ہوئے بولی جھوٹ نہ بولیں، کونپل کو تو ضرور
دیکھا ہی ہوگا۔ رضوان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے
میری طرف دیکھا اور کہا کہ کوشش
تو کئی بار کی مگر تمہاری دوست
شرماتی بہت ہے کچھ دکھاتی ہی نہیں۔ میں اب پانی میں ہی تھی اور باہر آنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔
سائرہ نے پھر اپنا ہاتھ اپنے
مموں پر پھیرتے ہوئے پانی نیچے ٹپکایا
اور بولی اب ایسی بھی کیا شرم بھال
منگیتر
سے بھی کوئی شرماتا ہے کیا اور پھر
سے رضوان کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اب
رضوان میں بھی تھوڑا اعتماد آچکا تحا۔
سائرہ رضوان کی شرٹ کے سارے بٹن کھول
چکی تھی اور پھر شرٹ اتارنے میں بھی سائرہ نے دیر نہیں لگائی۔ شرٹ اتارنے کے
بعد رضوان کی بنیان بھی اتار دی۔ میں نے پہلی بار رضوان کو بغیر شرٹ اور بینان کے
ھی بالوں سے پاک تھا۔ جبکہ میرے بہنوئی قاسم نےدیکھا تھا۔ رضوان کا سینہ
۔
سینے پر بال موجود تھے۔ رضوان کا سینہ بہت سیکسی لگا مجھے اور سینہ دیکھ کرلگتا تھا کہ رضوان باقاعدگی سےِ ِجم کرتا ہے۔ سائرہ نے اب کی بار رضوان کے سینےپر ہاتھ پھیرا کہ رضوان بھائی اپنا یہ سینہ کسی بھی جوان لڑکی کو دکھاو وہ
خود ہی اپنا سب کچھ آپ کو دکھا دے گی۔ یہ کہ کر وہ سمیرا کی طرف دیکھ کر بولی
کیوں
سمیرا ٹھیک کہ رہی ہوں نہ میں؟ سمیرا ہنستے
ہوئے بولی کہ سائرہ تیرا دماغ خراب
ہوگیا ہے۔ کیوں تنگ کر رہی ہے رضوان بھائی کو۔ تو سائرہ بولی میں کب تنگ کر رہی
ہوں انہیں انہی سے پوچھ لو رضوان بھائی آپ تنگ ہورہے ہیں کیا؟؟؟ رضوان بھال
کیوں کہتا کہ وہ تنگ ہورہا ہے اسکے سامنے تو 2 ننگی لڑکیاں موجود تھیں اور اسے
کیا چاہیے تھا۔
اب کی بار سائرہ کے ہاتھرضوان کی بیلٹ پر تھے اور
اسنے رضوان کی بیلٹ بھی کھول دی اور پھر پینٹ کا بٹن بھی کھول دیا۔ میں ابھی تک حیران تھی اور اب مجھےتھوڑا غصہ بھی آرہا تھا کہ آکر یہ سائرہ کی بچی کرنا کیا چاہتی ہے۔ بٹن کھول کر
سائرہ نے رضوان کو کہا اب کچھ خود بھی اتار لیں
آپ تو ایسے کھڑے ہیں جیسے میں
آپکی بیوی ہوں اور میں نے ہی آپکے
کپڑے اتارنے ہیں۔ یہ سن کر رضوان ہنسا اور
اپنیپینٹ اتار دی۔ اب رضوان محض انڈروئیر میں تھا اور انڈر وئیر سے رضوان کے
لن کا ابھار بڑا واضح تھا۔ اب کی بار سائرہ نے پھر سے رضوان کے سینے پر ہاتھ
پھیرا اور نیچے ناف تک ہاتھ ال کر سائڈ
پر تھائیز پر ہاتھ لے آئی اور پوچھا سوئمنگ
آتی ہے آپکو؟ اب میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا تھا، کوئی اور میری آنکھوں کے سامنے میرے منگیتر سے اسطرح فلرٹ کرے اسکے جسم پر ہاتھ پھیرے۔ لڑکی یہ بات برداشت نہیں کر سکتی۔
میںنے ساری شرم ایکسائیڈ پر رکھی اور فوران ہی سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی۔
مجھے باہر آتے دیکھا تو اب رضوان کی نظریں میرے جسم پر تھیں اور اسکا بس نہیں
چل رہا تحا کہ آگے بڑھ کر مجھے کھا
جائے۔ میں نے رضوان کے پاس آکر رضوان کو
بازو سے پکڑ کر تھوڑا اپنی طرف کھینچا
اور کہا آو ہم سوئمنگ کریں۔ یہ سن کر سائرہ
نےزور دار قہقہہ لگایا اور بولی کہ بڑی
دیر کر دی تم نے غصہ کرنے میں میرا تو
خیال تھا پینٹ اترنے سے پہلے ہی تم باہر آجاو گی، مگر تمہیں باہر نکالنے کے لیے
مجھے رضوان بھائی سے فلرٹ بھی کرنا پڑ گیا۔
یہ کہ کر وہ ہنستی ہوئی پانی میں
چھلانگ لگا کر تیراکی کرنے لگی اور ہم دونوں کو بھی کہا کہ آجاو۔ اور ساتھ میں
ھاسنے بولا کہ اگر دلکرے تو آجاو تمبھی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اورسمیرا کو ب
رضوان نے بھی فوران ہی پانی میں
چھلانگ لگائی اور سائرہ کے پیچھے
پیچھے جانےلگا۔ مجھے آج پتا لگا تھا کہ
رضوان بھی تیراکی جانتا ہے۔ جب وہ دونوں پانی میں چلے
گئے تو اب میرے پاس باہر رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں نے بھی پانی میں
چھالنگ لگائی اور ٹیوب کی مدد سے تیراکی کرنے لگی۔ تھوڑی دیر تیراکی کرنے کے بعد سائرہ باہر نکلی اور ٹاول سے جسم صاف کر کے گاون پہن لیا اور بولی آپ دونوں
انجوائے کرو میں اور سمیرا واپس جا رہے ہیں۔ یہ کہ کر اس نے رضوان کو آنکھ
ماری اور کہا رضوان بھائی اب کونپل آپکے
حوالے اسکے بدلے مجھے کوئی اچھا س ا
گفٹ دینا نہ بھولنا۔ رضوان نے بھی ہنستے
ہوئے کہا جو تم کہو بال جھجھک مانگ لینا۔
یہ کہ کر رضوان اب میری طرفآیا جبکہ
سمیرا اور سائرہ اپنے کپڑے اٹھا کر باہر چلی گئیں۔
رضوان نے آتے ہی مجھے اپنی بانوں میں لے لیا اور بولا تمہاری دوست تو بہت
سیکسی ہے۔ میں نے اسکو کہنی ماری اور ناراض ہوتے
ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آئی
اسکو کیسے دیکھ رہے تھے تم۔ تو رضوان بولا اب اپنے والی کچھ دکھائے ہی نہ تو
دوسری کوہیدیکھناپڑے گا نا، اور وہبھی تو خود ہی میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی
اور میری شرٹ بھی اتار دی، میں بھی آخر مرد ہوں۔ اب خود ہی لڑکی ایسی حرکتیں کرے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کہ کر
رضوان نے میرے ہونٹوں پر کس کی اور
کہا
مگر جو بات تم میں ہے وہ اسمیں نہیں۔
میں نے کہا مکھن نا لگاو مجھے تو رضوان
بولا مکھن تو ابھی تمنکالو گیمیرا اور
میں صحیح کہ رہا ہوں، تمہاری گانڈ اسکی
گانڈ
سے بڑی ہے۔ میں نے اسکو پھر کہنی
ماری اورکہا بڑے ٹھرکی ہو تم اتنی سی دیر میں
دونوں کی گانڈ بھی دیکھ لی۔ تو رضوان
بولا مرد کی نظریں عورت میں 2 ہی تو چیزیں
دیکھتی ہیں۔ ایک عورت کے ممے اور ایک
عورت کی گانڈ۔ میں بھی ہنس دی کیونکہ رضوان کہتوصحیحرہا تھا اورویسے
بھی میرے چوتڑ سائرہ کے چوتڑوں سے بڑے
تھے۔ میں نے رضوان کو کہا چلو سوئمنگ کریں اور مجھے سوئمنگ سکھاو تم۔ مگر
رضوان نے کہا کہ یہ بڑا سنہری موقع مال ہے اسکو سوئمنگ میں ضائع نہیں کرنا آ جتو کھا جانا ہے میں نے تمہیں۔ یہ کہ کر رضوان نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ
دیے۔رضوان نے بڑی ہی شدت سے کسنگ شروع کی تھی اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ آج پہلی بار رضوان نے
مجھے برااور پینٹی میں دیکھاتھا اس سے پہلے وہ صرف
تصویروں میں ہی دیکھتا رہا تھا مجھے اسطرح سے۔ اور رضوان خود بھی انڈروئیر میں تھا۔ رضوان نے ایک ہاتھ
میرے چوتڑوں پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا میری کمرکے گرد تھا اور اسکے ہونٹوں
نے میرے ہونٹوں کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ وہ
مسلسل میری گانڈ دبا رہا تھا اور اپنی زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دینے لگا تو
ھی فورا ہونٹ کھول کر اسکی زبان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ میرے منہ میں زبان ڈالتےہیوہ میری زبان کوٹٹولنےلگا اور زبان ملنے پر وہ اپنی زبان کو
میری زبان کو ٹکرانے لگا۔ میں نے بھی اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا ۔ کب
رضوان کے منہ میں ہوتی تو کبھی رضوان کی زبان میرے منہ میں ہوتی۔ میرے ہاتھرضوان کے سینے پر مساج کر رہے
تھے۔ تو میرا دل کیا کہ رضوان کے سینے پر بھی پیار کروں۔ میں رضوان کو
سیڑھیوں کی سائیڈ پر لے گئی اور اسکو سیڑھی پرچڑھنے کو کہا۔ وہ 2 سیڑھیوں
پر چڑھا تو میں نے اسے روک دیا اور کہا ادھر ہی بیٹھ جاو۔ اب پانی رضوان کے انڈر وئیر تک تھا رضوان کی ٹانگیںپانی می تھیں مگر
سینہ اور ناف سے اوپر کا حصہ پانی سے باہر تھا۔ میں نے پہلی بار رضوان کا سینہ
اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ آج سے پہلے
کبھی رضوان کی شرٹ نہیں اتاری تھی ، جب
بھی موقع ملتا تھا رضوان اپنا لن نکال کرمیرے منہ میں ڈال دیتا تھا۔ رضوان کا سینہ
بہت پیارا لگ رہا تھا مجھے۔ مینے نے رضوان کے سینے کو چومنا شروع کیا اوررضوان کیگود میںٹانگیں کھولکر بیٹھ گئی میں گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور
رضوان کے سینے پر پیار کر رہی تھی۔ کبھی میں
رضوان کے سینے پر زبان پھیرتی تو
کبھی ہونٹوں سے چومتی۔ رضوان نے
دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھےاور آہستہ آہستہ انہیں دبا رہا تھا جو
مجھے بے حد مزہ دے رہا تھا۔ رضوان کب میرے چوتڑوں کو دباتا تو کبھی اپنے ہاتھ میری ٹانگوں پر تھائیز پر پھیرتا۔ میری
تھائیز بالوںسے بالکلپاک تھیں اور ان
پر رضوان کے ہاتھوں کا لمس مجھے مدہوش
کر رہا تھا۔ میں بھی رضوان کے سینے پر بڑی
بیتابی سے پیار کر رہی تھی۔ رضوان
کے نپل بھی کافی سخت ہو رہے تھے جن
پر میں اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ نپلز پر زبان
پھیرنے سے رضوان کو بھی شاید مزہ آرہا تھا
اس لیے جب میں نے زبان پھیری نپل پرتو رضوان نے میراسرپکڑ کر تھوڑا سا
نپل کی طرف دبایا جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ رضوان کو اچھا لگا ہے ۔
کچھ دیر رضوان کے نپلز اور سینے پر
پیار کرنے کے بعد میں تھوڑا اور نیچے آئی اور
رضوان کے پیٹ پر بھی پیار کیا، اب رضوان ایک سیڑھی اور اوپر ہوکر بیٹھ گیا تھا
جس سےپانی اور نیچے ہوگیا۔ اب رضوان
کا انڈر وئیر بھی پانی سے باہر تھا۔ رضوان
کی ناف پرپیار کرتےہوئے میرا بازو رضوان کے لن سے ٹکرایا تو وہ بہت سخت ہو
رہا تھا۔ اب میں نے اپنا دھیان رضوان
کےلن کی طرف دیکھا۔ رضوان کی ٹانگوں پربال
تھے اور انڈر وئیر کے اوپر سے لن کا ابھار بہت زیادہ تھا، میں نے ایک ہاتھ انڈر وئیر
پر رکھ کر اسکو دبانا شروع کیا تو دوسرا
ہاتھ رضوان کی ٹانگ پر رکھ کر اسکا مسا ج
کرنے لگی۔پھر میںنے اپنا ہاتھ رضوان
کے انڈروئیر میں ڈاال اور لن باہر نکال لیا ،رضوان نے بھی فورا ہی تھوڑا سا اوپر ہوکر اپنا انڈر وئیر اتار دیا۔ اب رضوان میرے
سامنے مکمل ننگا تھا۔ میں نے رضوان کا لن تو پہلے دیکھ رکھا تھا مگر رضوان کو
مکمل ننگا فرسٹ ٹائم دیکھا تھا۔ میں نے بغیر ٹائم ضائع کیے رضوان کا لن اپنے منہ
میں لیا اور اسکو چوسنا شروع کر دیا۔ آج رضوان کا لن چوسنے کا علیحدہ ہی مزہ تھا ،
اسکی وجہیہ بھی تھی کہ رضوان مکمل
طور پر ننگا تھا اور میں نے بھی صرف
برا
اور پینٹی پہن رکھی تھی۔ اسکے ساتھ ہی یہ
احساس بھی تھا کہ میں سر عام رضوان
کا
لن چوس رہی ہوں کیونکہ ہمارے گرد چار
دیواری تو تھی مگر اوپر چھت نہیں تھی۔اور
ایسے لگ رہا تھا کہ میں سب کے سامنے
رنڈیوں کی طرح رضوان کا لن چوسنے میں
مصروف ہوں۔ آج لنچوسنے میں جو مزہ آرہا تھا وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا، میری
چوت مسلسل گیلی ہو رہی تھی۔ گیلی تو وہ پہلے ہی تھی پول کے پانی سے مگر اب
چوت کے اندر کا پانی بہنے لگا تھا۔ میں
کبھی رضوان کا لن چوس رہی تھی تو کبھی
رضوان کے ٹٹے منہ میں لیکر چوس رہی
تھی۔ رضوان کے لن کی ٹوپی سے بھی پانی
نکل رہا تھا جو میرے منہ کو نمکین کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر چوپے لگانے کے بعد
رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال لیا۔ آج سے پہلے رضوان نے ایسا کبھی نہیں
کیا تھا جب تک میں رضوان کو فارغ
نہ کروا دیتی وہ اپنا لن میرے منہ سے
نہیں نکالتاتھا۔ میں نے رضوان کو کہا ابھی
مکھن تو نکالنے دو مجھے تو وہ بولا وہ بھی نکل
جائے گا تمہارا جسم دیکھنے کا موقع روز
روز نہیں ملنا، آج تو تمہارے ممے دیکھ کر
ہی رہوں گا۔ یہ سنتےہی میں ہنسی اور
شرما کر پیچھے ہوئی اور پانی میں رضوان
سے دور جانے لگی، رضوان نے بھی ایک
ہی جست میں مجھے آن لیا اور مجھے پکڑ
کر جپھی ڈال لی اور میرے ہونٹ چوسنے
شروع کر دیا۔ نیچے سے رضوان کا لن کھڑا
ہوکر میری پھدی پر دستک دے رہا تھا، لن کی یہ دستک مجھے مدہوش کر رہی تھی
کتنے عرصے سے میری پھدی میں لن نہیں
گیا تھا۔کسنگ کے دوران رضوان نے
میرے برا کی ہک کھول دی اوربرا اتار کر دور پانی میں
ہی پھینک دیا۔ اب میرے 34 سائز کے
ممے رضوان کے سامنے تنے کھڑے تھے
اور
نپل سخت ہورہے تھے۔ رضوان نے پہلی
بار میرے ممے ننگے دیکھے تھے اور دیکھتا
ہی رہ گیا۔ اس نے فورا ہی مجھے گود میں
لیا اور میرے ممے پانی سے اونچے کر کے
انکو چوسنے لگا۔ اوپرسے رضوان میرے
ممے چوس رہا تھا تو نیچے سے رضوان
کا
لن میری پھدی پر لگ رہا تھا۔ اور میں بھی مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔ ایک طرف
رضوان میرے نپل چوس کر میرا دودھ پی رہا
تھا تو دوسری طرف اسکا لن میری پھدی کو بغاوت پر مجبور کر رہا تھا۔ رضوان
میرے تنے ہوئے نپلز کو بڑی گرمجوشی سےچوس اور مسل رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم نے تو میری پھدی چاٹنے سے ہی
انکار کر دیاتھا اس لیے اس وقت میں وہ
مزہ نہیں لے سکی مگر رضوان کے ساتھ
میں نے یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ فلموں میں دیکھ رکھا تھا
جاری ہے