گھر میں دو کنواریاں
قسط 13
تجربہ بھی کیا۔ اس پوزیشن میں لن اور پھدی چاٹنا مگر حقیقت میں یہ پہلی بار
ہورہا تھا۔ کچ ھ دیر اسی پوزیشن میں مزہ
لینے کے بعد میں دوبارہ سے رضوان کے لن پر آکر بیٹھ گئی اور ایک
ہی جھٹکے میں پورا 7 انچ کا لن اپنی
پھدی کی گہرائیوں میں اتار لیا تھا۔ اور میں
مسلسل رضوان کے لنکے اوپر چھالنگیں لگا لگا کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ نیچے پڑے بینچ کی بھی میری چھالنگوں سے چیخیں نکالن شروع ہوگئی تھیں کچھ دیر
چھالنگیں لگانے کے بعد میں تھک گئی تو
میں رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اب نیچے
سے رضوان نے دھکے لگانے شروع
کیے۔ میں نے رضوان سے کہا کہ جتنی زور سے
چود سکتے ہو چود دو مجھے تو رضوان
نے اپنے دھکوں کی
رفتار اور بھی تیز کر
دی۔ اب اسکے طوفانی دھکوں نے مجھےتو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا
جہاں بس مزہ ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر تک
رضوان کے لن نے اپنی سپیڈ اور تیز کی اور
رضوان بولا کہ اسکا مکھن نکلنے واال
ہے، میں نے رضوان کو کہا بس کچھ دیر اور
روک کے رکھو میری بھی منزل قریب ہی
ہے، تو رضوان نے اپنی سپیڈ تھوڑی سلو کر
دی۔۔۔ میں نے اپناایک مما رضوان کے منہ میں ڈال دیا اور اسکو کہا کے دھکے بھی جاری رکھے اور میرے ممے کو بھی
چوس چوس کر بڑا کر دے۔ رضوان نے بہت ہی
شدت سے مما چوسنا شروع کیا تو اس ڈبل مزے سے میری منزل بھی قریب آنے لگی۔ میں نے رضوان کو کہا کہ بس میں بھی اب چھوٹنے لگی ہوں تو اپنی سپیڈ بڑھا دو، یہ
سنتے ہی رضوان نے ایک بار پھر سے
چودائی کی اس گاڑی کا پانچواں گئیر لگا
دیا
اور سپیڈ پر پورا پاوں رکھ دیا۔ میری پھدی میں جیسے کوئی مشین چل رہی تھی تو
مسلسل میری پھدی کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اچانک ہی
رضوان کے لن نے سپیڈ ختم کر دی مگر رک
رک کر زور زور سے دھکے مارنے
لگا۔رضوان کی منی نکل چکی تھی اور
انہی سلو مگر زور دار جاندار دھکوں نے مجھے
بھی فارغ کر دیاتھا۔ ہم دونوں اکٹھے ہی
فارغ ہوگئے تھے۔ کچھ دیر دونوں کے جسم
نے جھٹکے لیے اور پھر جیسے سکون
آگیا۔ رضوان نے اب میرا بدن چومنا شروع کر
دیا۔ اور مجھے کہا کہ آج اسکو بہت مزہ
آیا ہے۔ وہ ساری زندی اپنی یہ پہلی چودائی
نہیں بھولے گا۔ میں نے بھی اسکو کہا کہ آج تم نے اپنی کونپل کو معصوم لڑکی سے
عورت بنا دیا ہے اور لن کے مزے سے آشنا کر دیا ہے۔
ابہم نے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور
واپس سائرہ کے کمرے کی طرف جانے
لگے تو سمیرا ہمں بڑے حال میں ہی مل
گئی ہمیں دیکھتے ہی بولی ہاں جی گئی آپ لوگوں کی
سوئمنگ؟؟ تو میں نے شرماتے ہوئے کہا ہاں جی
ہوگئی۔ اتنے میں سائرہ بھی سیڑھیاں
اتر کر نیچے آگئی اور رضوان کو آنکھ مار
کر بولی رضوان بھائی کونپل کو زیادہ تکلیف
تونہیں دی آپنے؟؟؟ یہ بات سن کر
رضوان پہلے تو تھوڑا جھجک گیا کہ کیا جواب
دے مگر پھر بولا کہ نہیں سوئمنگ میں
کیسی تکلیف۔ البتہ آپکا شکریہ جو آپ نے
مجھے کونپل کے ساتھ سوئمنگ کرنے کا موقع دیا ۔
پھر سائرہ کا ملازم ہم لوگوں کے لیے جوس لے آیا۔ جو پی کر ہم لوگوں نے اجازت
چاہی تو سمیرا نے کہا تم دوبارہ بھی چکر لگانا میں ایک مہینہ ادھر ہی ہوں۔ میں نے اسےکہا ہاں جی اگر سائرہ نے آنے دیاتو میں ضرور آوں گی۔ پھر میں دونوں سے
گلے ملی اور رضوان کے ساتھ گاڑی میں واپس گھرآگئی۔ راستے میں رضوان بار بار
مجھے کہتا رہا کہ چوپے لگوا کر اور مٹھ
مار کر کبھی وہ مزہ نہیں مال جو آج تمہاری
پھدی نے دیا ہے۔ میں نے اسے کہا تمہا لن
بھی بہت جاندار ہے، شروع میں مجھے
بہت تکلیف دی مگر پھر مزہ بھی بہت آیا۔
ایسے ہی ہم گھر پہنچ گئے۔ گھر پہنچ کر رضوان
کچھ دیر رکا اور پھر واپس چال گیا۔ ابو
پہلے سے ہی گھر پر تھے۔ میں نے کھانا
تیار
کیا ابو امی کے ساتھ کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں جا کر میں نے اپنا موبائل آن
کیا اور فیس بک پر رضوان کو میسج کرنے
لگی۔ جب موبائل پر فیس بک میسج کھولے
تو کسی انجان آئی ڈی سے مجھے میسج آیا
ہوا تھا۔ میں نے جب وہمیسج کھولا تومیرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ ا س
میسج میں میری اور رضوان کی چدائی کی تصویریں اور ایک چھوٹی سی چدائی کی
ویڈیو تھی۔ اور نیچے لکھا تھا کہ اگر تم نے اپنی چوت مجھے نہ دی تو میں یہ
تصویریں اور ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیلا دوں گا۔ ابھی
میں یہ میسیج ہی پڑھ رہی تھی کہ
مجھے موبائل نمبر پر بھی ایک انجان نمر سے ایس ایم ایس آگیا۔ اس میں لکھا تھا کہ
اگر تم نے چوت دینے سے انکارکیا تو
تمہاری عزت انٹرنیٹ پر سر عام پھیلا دوں گا تم اور تمہارا یار دونوں بدنام ہوجائیں۔
گے۔ چوت کس دن دینی ہے اسکا میں
تمہین بعد میں بتاوں گا۔
یہ میسج پڑھ کر میرا دماغ بالکل ماوف ہوگیا اور
مجھے ایسے لگا جیسے میرے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
کافی دیر تک تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ پھر جب
کچھ
حواس بحال ہوئے تو میںنے ایکبار پھر سے فیس بک میں میسج اوپن کیا اور وہ
تصویریں دوبارہ دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی دوبارہ دیکھی۔ غور کرنے پر
معلوم ہوا کہ یہ بالکل اسی اینگل سے بنائی
گئی ہیں جو اینگل سائرہ کے کمرے سے بن
رہا تھا جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوا کہ
ویڈیو بنانے واال سائرہ کے کمرے میں موجود
تھا۔ یہ خیال پختہ ہوا تو میں نے سائرہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ کہیں اسنےتو یہ ویڈیو نہیں بنائی؟؟؟ مگر پھر سوچا کہآخر اسکو کیا فائدہ ہوگامیری
ایسی ویڈیوبنانے کا اور پھر مجھے بلیک
میل کرنے کا؟؟؟ پھر میں نے سائرہ کے بھائی
حیدر کےبار میں سوچا کہ ہوسکتا ہے اسنے یہ ویڈیو بنا لی ہو؟ مگر پھر سوچا کہ اس دن تو وہ گھر پر تھا ہی نہیں۔ جب
ہم سائرہ کے گھر گئے اس وقت سے لیکر
جب اسکے گھرسے واپس نکلے تو حیدر گھر پر نہیں تھا۔
پھر میں سوچنے لگی کہ اگر سائرہ بھی
نہیں اور حیدر بھی نہیں تو پھر آخر کون
بنا
سکتا ہے یہ ویڈیو؟ کافیدیر سوچنےکے بعد اچانک مجھے سائرہ کے اس ملازم کا
خیال آیا جو ہمارے لیے پانی لیکر آیا تھا۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا تھا کہ سائرہ کے
سامنے تو وہ بہت مؤدب اور آنکھیں جھکا کر کھڑا تھا مگر اسکی نظریں میرے مموں
کا دیدار ضرور کر رہی تھیں اسکی آنکھوں میں میرے مموں کی طلب موجود تھی
جیسے وہ انہیں فورا اپنے ہاتھوں میں لیکر دبا دینا چاہتا ہو۔ اسکا خیال آتے ہی میرے
ذہن نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ یہ حرکتاسی کمینے ملازم کی ہوگی۔
اب میں سوچنے لگی کہ صبح ہوتے ہی اسکی شکایت سائرہ سے کروں گی اور ساری
بات اسکو بتاوں گی۔ مگر پھر سوچا کہ
سائرہ کیا کر لے گی؟ زیادہ سے زیادہ اس سے
موبائل لے کر وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گی
اور اسکو نوکری سے نکال دے گی؟؟ مگر اب
تک تو وہ ملازم میری ویڈیو کو نجانے
کہاں کہاں سیو کر چکا ہوگا بیک اپ کے طور
پر۔ اور اگر سائرہ کو شکایت لگانےپر
اسکو غصہ آگیا تو وہ میری ویڈیو لازمی انٹرنیٹ
پر ڈال دے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنا ارادہ کینسل کر دیا۔ پھر سوچا کہ کیوں نہ
رضوان کو بتاوں وہ خود ہی اس سے نمٹ لے گا۔ مگر پھر سوچا کہ اگر رضوان نے
غصے میں آکر اسکو قتل کر دیا تو رضوان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ تو تباہ ہوجائے گا۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الٹا وہ ملازم رضوان کو کوئی نقصان پہنچا دے اور اس میں
بھی پھروہی رسک تھا کہ اگر اس نے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی پھر رضوان بھی میری
عزت نہیں بچا سکے گا۔ آخر کافی سوچنے
کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچی کہ اسکو
چوت دینے کے علاؤہ اور کوئی حل نہیں
اس مسئلے کا۔ یہ سوچ سوچ کر میں روتی
رہی اور نجانے کب میری آنکھ لگی۔ صبح اٹھی تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور
آنکھیں سوج چکی تھیں۔ امی نے میری یہ
حالت دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں
نے کہا کہ ساری رات سر میں درد ہوتی رہی اس لیے طبیعت خراب ہے۔ امی نے
مجھے ناشتہ کروایا اور گولی دی۔ میں بھی
سارا دن اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔ یہ دن
بھی پریشانی میں گزر گیا اور پھر اگلا دن بھی پریشانی میں ہی گزرا۔ 4 دن گزرنے کے
بعد جب میں کسی حد تک اس واقعہ کو
بھول چکی تھی تو مجھے پھر سے فیس بک پر
اسی کا میسج آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آج جمعرات ہے، اتوار والے دن تم نے اپنیچوت مجھے دینی ہے ورنہ تمہاری چودائی کی ویڈیو پورا پاکستان اور پوری دنیادیکھے گی۔یہ میسج پڑھ کر میں پھر سے پریشان ہوگئی اور سوچنے لگی کہ آخر اس مصیبت سےکیسے جان چھڑائی جائے۔ مگر کچھ سمجھ نہیں
آئی۔ پھر میں نے اس ملازم کے بارے
میں سوچنا شروع کر دیا، وہ کافی لمبا
چوڑا اور مضبوط جسم کا انسان تھا۔ اسکے
بارے میں سوچتے ہوئے مجھے اسکے لن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اسکا لنبھی کافی بڑا اور مظبوط ہوگا۔ آہستہ آہستہ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ میری
چودائی کیسے کرے گا؟ کیا وہ وحشیوں
کی طرح میرا جسم نوچ لے گا یا پھر کسی
محبوب کی طرح میرے جسم کو پیار کرے گا
اور میری چودائی کرے گا؟ یہ سوچ سوچکر مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میری
شلوار گیلی ہو رہی تھی۔ تب مجھے شرمندگی
ہوئی تھوڑی کہ وہ زبردستی میری چدائی کرنے کو تیار ہے اور میں اسکے بارے میں سوچ رہی ہوں کہ وہ میری چودائی کیسے کرے گا۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ
اسکے چوت دیے بغیر کوئی اور راستہ نہیں مگر
کیوں نہ میں بھی اس چودائی کی
ویڈیو بنا لوں، ہوسکتا ہے بعد میں میرے کسی کام آسکے۔ کیونکہ ظاہری بات ہے وہ
مجھ سے ملتے ہی میری چوت میں اپنا لن تو نہیں گھسائے گا بلکہ کچھ باتیں کرے گااور اس دوران میں کوشش کروں گی کہ
کچھ ایسی بات ہوجائے جس سے اسکو بعد میں
بلیک میل کیا جا سکے اور اس مصیبت سے جان چھڑوائی جا سکے۔
یہ خیال آتے ہی میں نے فورا شہر کا رخ
کیا اور خان پالزہ جا کر ایک خفیہ کیمرہ خریدلیا جو ایک پین کی کیپ میں لگا ہوا
تھا۔ یہ کیمرہ مجھے محض 3500 روپے میں مل گیا۔ گھر آکر میں نے اس خفیہ
کیمرے کو اپنے بیگ میں فٹ کر دیا اور
چیک کرنے کےلیے اس سے ویڈیو بنا کر
دیکھی۔ میں نے بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور کمرے میں ادھر
ادھر پھرنے لگی۔ روشنی بھی کم زیادہ کر
کے دیکھی
اور بعد میں ویڈیو چیک کی تو
بالکل صحیح اور واضح ویڈیو تھی آواز کی ریکارڈنگ بھی زبردست تھی۔ یہ کیمرہ 2
گھنٹے تک کی ویڈیو بنا سکتا تھا جو اچھا
خاصا ٹائم ہے۔ اب میں پر سکون ہوکر اتوار
کا انتظار کرنے لگی۔
ہفتے کی رات کو مجھے پھر انجان نمبر سے کال آئی، میں نے ہیلو کہا تو آگے
سے من کل کے لیے پھر تیار رہنا اور اپنی
چوت کو بھی میرے لیے تیار رکھنا۔ آواز آئی ج ا
یہ بہت بھاری آواز تھی جیسے کوئی 35
،40 سال کا مرد بول رہا ہو۔ میں نے اسکو گالی دی اور کہابہن چود آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ تجھے جتنے پیسے
چاہیے بتا میں تجھے دیتی ہوں جا کر کسی چکلے پر کسی رنڈی کی چدائی کر لے
میراِپیچھا چھوڑ دے۔ میری باتیں سن کر
اس نے قہقہ لگایا اور بولا
مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہاری چوت
کے۔ اسکے بعد اس نے غصے میں
غراتے ہوئے کہا کہ اپنی چوت کی صفائی کر کے
آنا مجھے بالوں والی چوت پسند نہیں۔ اور اچھی طرح تیار ہوکر آنا ورنہ تمہاری
تصویریں فیس بک پر تمہاری پروفائل پر
اپلوڈ ہوجائیں گی۔ یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیااور میں پھر سے رونے لگ گئی۔ پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ کافی دیر رونے
کے بعد میں نے سوچا کہ جب چوت دینی ہی ہے تو کیوں نے آرام اور سکون سے دی
جائے۔ پریشان ہونے کا کیا فائدہ؟ جب اسچوت میں ایک لن جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس لن کا مزہ بھی لیا جائے اور پریشان ہوکر بلاوجہ اس مزہ کو کرکرا نہیں کرنا
چاہیے۔ یہ سوچ کر میں اٹھی اور میں نے واش روم جا کر اپنی چوت اور انڈر آرم بال صاف کیے
اور آرام سے آکر سوگئی۔ صبح 10 بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور 11 بجے کے قریب مجھے کال آئی کہ 30:12 منٹ تک گلگشت میں موجود پیزا ہٹ کے ساتھ گول باغ
کے سامنے آکر کھڑی ہوجاو اور مجھے کال بیک کرو۔ میں پھر بتاوں گا کہ تمہیں کہاں
آنا ہے۔میں کال سن کر اٹھی اور تیاری
کرنے لگی۔ میں نے ایک جی سٹرنگ نیٹ کی
پینٹی پہنی
اور اسکے ساتھ ایک ٹراوزر پہنا۔ اوپر
سے میں نے انڈر وائرڈ برا پہنا نیلے رنگ کا
جس نے میرے مموں کو اوپر اٹھا کر اور بھی سیکسی بنا دیا۔ اب دونوں ممے آپس میں
جڑے ہوئے تھے اور سینے کی لائنیعنی کے کلیوج کافی واضح ہوگئی تھی۔ اسکے
اوپر میں نے ایک لوز اپر پہنا۔ تھوڑا سا
میک اپ کیا اپنے آپ کو شیشہ میں دیکھا۔ لوز
اپر میں سے کلیوج کافی واضح نظر آرہی تھی جس سے میں بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
اوپر سے میں نے ایک چادر لی اور امی
کو بتایا کہ میں دوست کے گھر جا رہی ہوں۔
امی نے دوست کا نام پوچھا تو میںنے
سائرہ کا ہی نام بتا دیا اور باہر نکل کر سائرہ کو
کال کی کہ میں رضوان سے ملنے جا رہی ہوں اگر امی کا فون آئے تو بتا دینا کہ میںتمہارے گھر پر ہی ہوں۔ سائرہ نے بھی کہا
کے بے فکر ہوکر جاو آنٹی کا فون آیا تو میں سنبھال لوں گی۔
فون کر کے میں رکسشے میں بیٹھی اور گول باغ جا کر اسکو کال کی۔ اس نے کہا کہ
اب ایسا کرو گردیزی مارکیٹ آجاو۔ یہ مارکیٹ یہاں سے تھوڑا ہی دور تھی میں نے پھررکشہ لیا اور گردیزیمارکیٹچلی
گئی۔ وہاں سے میں نے پھر کال کی تو اسنے مجھے
ایک ہوٹل کا نام بتایا اور ایڈریس بتایا کہ
اس ہوٹل میں آجاو اور باہر کھڑی ہوکر مجھے
کال کرو۔ یہ کہ کر اسنے کال بند کردی اور میں کھڑی اسکو گالیاں دینے لگی کہ ایک تو
میری چوت مارنا چاہتا ہے زبردستی اوپر
سے مجھے جگہ جگہ ذلیل کر رہا ہے۔ پھرمیں نے رکشہ پکڑا اور اسکے بتائے ہوئے ہوٹل کے سامنے پہنچ کر اسکو
دوبارہ کالکی تو اسنے کہا اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 203 میں آجاو۔
میں ہوٹل کی ریشیپشن پر گئی اور کمرہ
نمبر 203 کا پوچھا۔ انہوں نے مجھے سیکنڈ
فلور پر جا کر رائٹ سائد پر تیسرے کمرے کا بتایا۔ میں لفٹ سے اوپر پہنچی اور 203
نمبر کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر اب میری ٹانگیں کانپ رہی تھی
اور میں سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں آگے
کیا ہوگا اور یہ شخص میرے ساتھ کیا کرے
گا۔ کمرے کے سامنے پہنچکر میں نے چادر اتار کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالی اور بیگ
میں فٹِ کیا ہوا کیمرہ آن کر دیا۔ پھر
حوصلہ جمع کیا اور دروازہ ناک کیا۔ اندر سے آواز
آئی کون؟ میں نے اپنا نام بتایا تو دوبارہ
آواز آئی اندر آجاو۔ یہ آواز مجھے جانی پہچانی
سی لگی۔ میں نے دروازہ کھوال اور اندر
داخل ہوگئی۔ میرے سامنے ایک ڈبل بیڈ تھا
جسکے ساتھ ایک صوفہ پڑا تھا اسکے سامنے
ایک ٹیبلپڑی تھی جس پر کچھ مشروب
رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک شیشے کی
ونڈو تھی جسکے سامنے ایک چھوٹے قد
کا
شخص کھڑا تھا۔ میں نے پہلے تو پیچھے
مڑ کر دروازہ بند کیا کنڈی لگائی اور مناسب
جگہ ڈھونڈنے لگی بیگ رکھنے کے لیے
جہاں سے ویڈیو بن سکے۔ میں نے سامنے
ٹیپبل پر ہی بیگ رکھ دیا کیونکہ یہاں سے
بیڈ کی ویڈیو با آسانی بن سکتی تھی
کیونکہ
آخر کر چدائی تو بیڈ پر ہیہونی تھی۔
اب میں نے اس شخص کی طرف دیکھا ،
اسکی پیٹھ میری طرف تھی۔ میں نے اندازہ لگا
لیا کہ یہ وہ مالزم تو ہرگز نہیں کیونکہ
اسکا قد بڑا تھا۔ پھر سوچنے لگی کون ہو سکتا
ہے یہ مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ پھر میں نے حوصلہ کیا اور اپنا اعتماد بحال
کرتےہوئی بولی کہ اب میں اپنی چوت دینے آ گئی
ہوں تو اپنی شکل بھی دکھا دو۔ وہ میریبات سن کرآہستہ آہستہ مڑا اور جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔
یہ کوئی اور نہیں بلکہ سائرہ کا بھائی حیدر ہی تھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکال حیدر
تم؟؟؟؟؟ وہ میرے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا
تھا۔ میں دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی کہ
حیدر آخر تم نے یہ سب کیوں کیا؟ مگر وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہ نہیں پا رہا تھا۔ میں آگے گئی اور اسکاہاتھ پکڑ کر اسکو بیڈ پر بٹھایا۔ اسکا ہاتھ بہت گرم تھا جیسے اسے 104 ڈگری بخار
ہو۔ مگر یہ گرمی بخار کی نہیں بلکہ میری چوت کو چودنے کے لیے تھی۔ اسکو بٹھا کر
میں خود اسکے ساتھ بیٹھ گئی اور اپنے
بیگ کی طرف دیکھا۔ اینگل سے مجھے انداز ہ
ہوگیا کہ یہاں کی ویڈیو با آسانی بن رہی ہوگی۔ پھر
میں نے حیدر سے پوچھا کہ حیدر یہ
سب آخر کیوں؟ تو اسکے منہ سے صرف اتنا ہی نکال کہ "سوری کونپل آپی"۔ حیدرسائرہ سےچھوٹا تھا اور وہمجھے آپیکہتا تھا۔ میری حیدر سے پہلے بھی کافی بار
ملاقات ہوئی تھی ۔ اکثر جب ڈرائیور کی
غیر موجودگی میں سائرہ کو کالج سے گھر
جانا
ہوتا تو حیدر لینے آتا تھا اور میری بھی ملاقات ہوجاتی تھی۔
میں نے حیدر سے پوچھا کہ آخر یہ سب تم نے کیوں کیا؟؟؟ وہ پھر بھی خاموش
بیٹھارہا۔ اور صرف اتنا ہی بولا کہ میں بس آپکو چودنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا وہ تو
مجھے
بھی پتا ہےمیں اسی لیے آئی ہوں، مگر
میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ
مجھے بلیک میل تم کر رہے ہو؟ اب میرے
ذہن میں کچھ سوالات ہیں جو مجھے پریشان
کر رہے ہیں۔ جب تک تم انکے جواب نہیں
دیتے تب تک مجھے سکون نہیں ملے گا۔ اور
اس حالت میں سیکس کرنے کا بالکل مزہ نہیں آتا۔ تم میرے سوالوں کے جواب دو
اسکے بعد جو چاہو میرے ساتھ کر لینا۔
تاکہ میں سکون سے کروا سکوں اور چودائی
کا مزہ بھیلے سکوں۔ میرییہ بات سن
کر حیدر کچھ مطمئن ہوا اور بولا کہ پوچھیں
آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟
میں نے پوچھا کہ تم اتنے امیر ہو تمہارے پاس پیسہ بھی ہے گاڑی بھی ہے اور بہت سی لڑکیاں تم پر مرتی ہیں۔ وہ خوشی
خوشی تم سے دوستی کرنے ک لیے تمہیں اپنی
چوت دینے کو بھی تیار ہیں پھر آخر تم نے میرے ساتھ ہی ایسا کرنے کو کیوں سوچا؟حیدر نے جواب دیا کہ مجھےکبھی کوئیلڑکی پسند نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو میں
اپنی شرم کی وجہ سے اسکو اپنی طرف مائل
نہیں کر سکا۔ محض باتھ روم جا کر
اسکے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مار کر گزارا کرتا رہا۔
حیدر واقعی میں ایک شرمیلا لڑکا تھا۔ میں
نے اگلا سوال کیا کہ اگر تمہیں اتنی شرم آتی
ہےتو تم نے مجھے چودنےکے بارے
میں کیسے سوچ لیا؟ اور اتنی ہمت کیسے کر
لی؟
تو اسنے بتایا کہ میں آپکو شروع سے ہی پسند
کرتا ہوں۔ جب آپ سائرہ آپکی کے ساتھ
مجھ سے ملتی تھیں تب سے ہی مجھے آپکے ہونٹ
بہت پسند تھے میں آپکے ہونٹوں
کو چوسنا چاہتا تھا اور آپکے بڑے بڑے ممے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے تومیرا دل کرتا تھا کہ میںانہیں اپنے
ہاتھوں میں پکڑ کر پیار کروں انکو دباوں اور انہیں
اپنے منہ میں لے کر چوس لوں۔ اب جب
آپکی ویڈیو اور تصویریں دیکھیں اور آپکو
اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو میرا صبر جواب دے گیا اور میں
نے ارادہ کر لیا کہ اب آپکو ہر صورت میں
حاصل کرکے آپکے ممے دبانے ہیں اور آپکی چوت مارنی ہے۔
پھر میں نے پوچھا کہ یہ ویڈیو تم نے
کیسے بنا لی ، تم تو اس دن گھر پر تھے ہی نہیں۔
اسپر پہلے وہ خاموش رہاپھر بولا کہ
اس بات کو رہنے دیں آپ۔ میں نے کہا نہیں
مجھے یہ جاننا ہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا
اور کہا پھر آپ مجھ سے وعدہ کریں
کہ آپ اس بارے میں سائرہ آپی کو کچھ نہیں بتائیں گی اور ان سے دوستی بھی ختم
نہیں کریں گی۔ اور انہیں کبھی نہ پتا چلے کہ میں نے یہ بات آپکو بتائی ہے۔ میں نے وعدہ کیا تو حیدر بولا کہ اصل میں یہ
ویڈیو میں نے نہیں بنائی، میں واقعی اس دن
گھرپر نہیں تھا۔
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا اگر تم نے نہیں
بنائی تو پھر کس نے بنائی؟ اور
تمہارے پاس کیسے آئی۔ تو حیدر نے بتایا کہ یہ ویڈیو سائرہ آپی نے بنائی ہے اور انہوں نے ہی مجھے دی ہے۔
یہ سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں
آرہا تھا
کہ واقعی حیدر نے سائرہ کانام لیا ہے یاپھر بات کچھ اور ہے؟ میں نے پھر حیدر سے
پوچھا کہ سائرہ نے کیوں بنائی یہ ویڈیو؟ اور آخر اس نے تمہیں کیوں دی؟؟
جاری ہے