Ghar main do kanwariyan - Episode 14

گھر میں دو کنواریاں

قسط 14


 

اس پر حیدر نے کہا کہ یہ لمبی کہانی ہے۔ میں ایک دن سائرہ آپی کو لیکر انکی ایکدوست کے گھر گیااور انہیں دوست کے 

 گھر چھوڑ کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ

مارکیٹ چال گیا۔ 3 ،4 گھنٹے بعد میں دوبارہ

  سائرہ آپکے کی دوست کے گھر گیاانہیں لینے کے لیے اور گھرکے اندر داخل ہوا

 تو میں نے دیکھا کہ سامنے ہی گاڑی میںسائرہ آپی بیٹھی تھیں اور انکے ساتھ انکی فرینڈ کا بھائی تھا۔ دونوں گاڑی کی پچھلی 

سیٹ پر بیٹھے تھے اور کسنگ کر رہے تھے۔ وہ لڑکا سائرہ آپی کے ہونٹ چوس 

 رہا

تھا اور سائرہ آپی بھی کسنگ میں اسکا 

 بھرپور ساتھ دے رہی تھیں۔ سائرہ آپی ا سلڑکے کی گود میں بیٹھیں تھیں اور ہلکا 

ہلکا اچھل رہی تھیں جیسے اسکے لن کے اوپر

اپنی چوت کو دبا رہیہوں۔ اور لڑکے کے ہاتھ سائرہ آپی

  کے مموں پر تھے۔ اور وہ

مسلسل کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سائرہ آپی کے ممے دبا رہا تھا۔ اچانک ہی سائرہ

آپی کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو وہ ہڑ بڑا کر اسکی گود سے اتر گئیں اور اس لڑکے نے بھی مجھے دیکھا تو چپ چاپ گاڑی سے 

 نکل کر واپس اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔ 

سائرہ آپی فورا گاڑی سے باہر آئیں اور 

مجھے کھینچتے ہوئے گاڑی کے اندر بٹھا کردروازہ بند کیا اور میری منتیں کرنے لگ گئیں کہ پلیز یہ باتکسی کو مت بتانا۔ میں تو 

ایسے ہی اسکے ساتھ مستی کر رہی تھی 

جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کوچھ نہیں۔ مستی

کے علاؤہ اور کچھ نہیں کیا میں نے 

اسکے ساتھ صرف کسنگ ہی کی ہے۔ میں نے 

غصے سے کہا آپ اسکی گود میں بیٹھیں کیا کر رہی تھیں؟ صرف کسنگ؟ تو سائرہ آپی

شرمندہ ہوکر بولیںوہ میں ویسےہی 

اسکو چھیڑ رہی تھی تنگ کرنے کے لیے لیکن 

پلیز میرے بھائی یہ بات کسی کو نا بتانا پلیز پلیز۔ 

مزید حیدر نے کہا کہ جب میں نے اس 

لڑکے کو سائرہ آپی کے ممے دباتے ہوئے دیکھا 

تو مجھے فورا آپکی یاد آگئی اور میرا بہت دل کیا کہ 

  اس وقت اس لڑکے کی جگہ میں 

ہوتا اور سائرہ آپی کیجگہ کونپل میری 

گود میں بیٹھی ہوتی اور میں کونپل کے ممے

دباتا ایسے ہی۔ جب سائرہ آپی نے میری 

منتیں کیں تو میں نے سوچ لیا کہ اب سائرہ آپی

ہی مجھے یہ موقع دیں گی کہ میں آپکے 

ممے حاصل کر سکوں۔ تبھی میں نے سائرہ

آپی کو آپکے بارے میں بتایا کہ میں آپکو 

بہت پسند کرتا ہوں۔ اگر سائرہ آپی آپکو میرے 

بیڈ روم تک پہنچا دیںتو میں یہ باتکسی

کو نہیں بتاوں گا اور سائرہ آپی فورا ہی مان

گئیں میری بات۔ اور ساتھ ہی کہا مجھے 

پہلے ہی شک تھا تم جس طرح بھوکی نظروں 

سے کونپل کے مموں کی طرف دیکھتے 

تھے مجھے پتا تھا تم اسکے مموں کو حاصل

کرنا چاہتے ہو۔ اسکے بعد ہم گھر واپس آگئے اور سائرہ آپی نے وعدہ کیا کہ وہ ا س

 معاملے میں میری پوری مدد کریں گی۔ پھر اس دن جب سائرہ آپی آپکے گھر آئیں 

تو انکا مقصد یہی تھا کہ آپکا ہمارے گھر 

 آنا

جانا شروع ہو اور آہستہ آہستہ آپکی میرے ساتھ بھی فریکنیس بڑھ جائے تو آسانی 

ہوجائے گی آپکے ممے حاصل کرنے میں ۔ ساتھ میں آپکے منگیتر بھی آگئے ہمارے

گھر۔ اور جب آپ لوگ سوئمنگ کر رہے تھے تبھی سائرہ آپی نے سوچا کہ آپکو اور

آپکے منگیتر کو موقع دیں کہ آپ ایکدوسرے کو

  پیار کرو۔ سائرہ آپی کو پتہ تھا کہ جب آپکے منگیتر آپکو برا اور پینٹی میںگیلے

 جسم کے ساتھ دیکھیں گے تو وہ آپکو پیارضرور کریں گے اور سائرہ آپی آپکی 

تصویریں بنا لیں گی۔ مگر آپ دونوں نے تو حد ہی 

کر دی سائرہ آپی نے صرف پیار کرنے کا 

موقع دیا تھا اور آپ لوگوں نے وہیں پر چدائی

بھی شروع کر دی۔ اور اس طرح میرا کام بن گیا۔ 

یہ آخری الفاظ کہتے ہوئے حیدر کا لہجہ بڑا معنی خیز تھا جیسے اسنے کوئی فتح حاصل کر لی ہو اور جو وہ چاہتا تھا وہ ہوگیا۔ 

 پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری منگیتر سمیرا کو بھی اس بارے میں علم ہے؟ 

تو اسنے بتایا کہ نہیں سمیرا کو اس پورے معاملے کا کوئی علم نہیں۔ جب سائرہ آپی 

اوپر سے آپ دونوں کو سوئمنگ پول میں پیار کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں تو سمیرابھی ساتھ تھی، مگر جیس ے ہی آپکے منگیتر نے اپنا لن باہر نکالا تو سمیرا کمرے سے 

باہر چلی گئی اور سائرہ آپی نے کمرے کی کنڈی لگا کر آپکا پورا چدائی کا شو ریکارڈکیا اور بعد میںویڈیو اور تصویریں مجھے

دے دیں کہ اب آگے جو کرنا ہے تم خودکرو۔ 

یہ سب سن کر ہم دونوں کافی دیر خاموشی 

سے بیٹ ھے رہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آخر

 سائرہ نے ایسا کیوں کیا؟ اسنے اپنی عزت 

 بچانے کے لیے میری عزت داو پر لگا دی۔ 

مجھے غصہ بھی آرہا تھا۔ اب مجھے اس 

ہوٹل کے کمرے میں آئے ہوئے قریبا آدھے

گھنٹے سے زیادہ کا ٹائم گزر چکا تھا۔ پھر 

میں اپنی سوچوں سے نکل کر واپس کمرے

میں آئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرے 

ساتھ اس وقت ایک لڑکا بیٹھا ہے جو مجھے 

چودنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور 

میں بھی اس سے اپنی چوت مروانے کے لیے 

اپنے بال صاف کرکے آئی ہوں۔ یہ سوچ کر میرا جسم گرم ہونے لگا۔ 

اور میں نے سوچا کہ اب جس کام کے لیے آئی ہوں وہ کر لینا چاہیے۔ میں نے حیدر کاہاتھ پکڑا تو وہاب ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگ پر رکھ دیا۔ اور اپنا

ہاتھ اسکی ٹانگ پر رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ 

میں اسکی تھائی کو دبانے لگی اور اس سے

پوچھا اب تم اپنی کونپل آپی کے ممے دبانا چاہتے 

  ہو یا نہیں؟؟ تو حیدر خوشی سے بولا 

اسی کے لیے تو اتنی محنت کی ہے۔ اسکی اس بات کے مکمل ہوتے ہی میں اٹھی اوراسکی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے ہونٹ حیدر کے ہونٹوں پر رکھ کرانکو چوسنا شروع کر دیا۔ حیدرنے بھی 

 اپنے دونوں ہاتھ میری گردن پر رکھے اور

میرے ہونٹوں پر ااپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چوسنے لگا۔ وہ بڑی بیتابی اور شدت سے

میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم

  دونوں کی زبانیں آپس میں لڑائی کر رہی 

تھی اور ایکدوسرے کو خوب ٹکریں مار 

رہی تھیں۔ میں نے اپنا منہ کھوال اور حیدر کی

زبان کو اپنے منہ میں داخل ہونے دیا۔ 

اسنے جیسے ہی زبان میرے منہ میں ڈالی میں

نے اسکوبڑیگرمجوشی کے ساتھ چوسناشروع کر دیا۔ ہم دونوں کی کسنگ جاری تھی، میں نے حیدر کے ہاتھ پکڑے اور 

 گردن سے ہٹا کر اپنی گانڈ پر رکھ دیے اور کہ ا

اپنی کونپل آپی کے چوتڑ بھی دباو۔ اس نے جیسے ہی میرے چوتڑ محسوس کیے جوگوشت سے بھرے ہوئے تھے تو فورا ہی انکو دبانا شروع کر دیا۔ اب اسکی کسنگ میں

اور بھی تیزی آگئی تھی اور اسکی گرم سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔ کچھ دیرایسے ہی کسنگ کرنےکے بعد 

 میں اسکی گود سے اٹھی اور منہ دوسری

طرف کر کے دوبارہ اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ 

 اب میری کمر حیدر کی طرف تھی اور میں اپنی ٹانگیں موڑ کر حیدر کی گود میں 

بیٹھی تھی میری گانڈ حیدر کے لن کے بالکل اوپر

تھی ۔ اسطرح بیٹھنے کے بعد میں نے حیدر کی طرف گردن موڑی اور دوبارہ سے اپنے 

ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے اور اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ دیے۔حیدر کے ہاتھوں نے جیسے ہی

میرے مموں کی نرمی کو محسوس کیا تو اسکو

تو جیسے ایک کرنٹ لگ گیا اور اس نے انکو زور زور سے دبانا شروع کر دیا اور بہت 

ہی بیتابی کے ساتھ میرے ہونٹ بھی 

چوسنا شروع کر دیے۔ اب اسکے ہونٹ جیسے 

میرے ہونٹوں کو چھیل رہے تھے اور وہ مسلسل میرے مموں کو مسل رہا تھا اپنے ہاتھوں سے۔ مجھے نیچے اپنیگانڈپر 

اسکے لن کا دباو محسوس ہو رہا تھا۔ جب حیدر

میرے ممے زیادہ ہی دور سے دباتا تو درد کی شدت 

  سے میں اپنی گانڈ اوپر ہوا میں

اٹھا لیتی اور میرا جسم اکڑ جاتا۔ وہ میرے 

مموں کو اور زور سے دبا کر مجھے دوبارہ

سے اپنی گود میں بیٹھنے پر مجبور کر 

 دیتا۔ 2 منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ اب میں پھر 

اسکی گود سے اتری اور اسکی طرف منہ کر کے پھر سے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں سے مالدیے اور ساتھ ہی اسکی شرٹکے

بٹن کھولنے لگی۔ سارے بٹن کھول کے میں

نے اسکی شرٹ اتار دی اور اسکو دھکا دیکر بیڈ پر لٹا دیا۔ اب میں اسکے اوپر جھک 

کر اسکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ اسکا 

سینہ بالوں سے صاف تھا اور میں اپنی زبان

سے اسکا سینہ چاٹ رہی تھی۔ کبھی اسکے نپلز پر اپنی زبان پھیرتی تو کبھی اسکا

سینہ چاٹنے لگتی۔ اس نے بھیمیرااپر 

کمر سے اوپر کر دیا اور اپنے ہاتھ میری کمر

پر مسلنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے میرا اپر بھی

  اتار دیا۔ اب میرے بڑے بڑے ممے

اسکے سامنے برا میں قید تھے۔ اسنے مجھے اپنے اوپر سے ہٹایا اور مجھے بیڈ پر لٹا

 کر خود میرے اوپر آگیا۔

میرے اوپر آتے ہی اس نے پہلے تو اپنے 

ہونٹ میرے ہونٹوں پر رک ھ کر چوسنا شروع

کیے اور ساتھ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو برا کے اوپر سے ہی دبانے لگا۔ پھر وہ میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر میرے 

  سینے پر زبان پھیرنے لگا اور

وہاں سے ہوتا ہوا اب اسکی زبان میری 

 کلیوج کی گہرائی میں داخل ہوکر گویا میری کلیوج کی چدائی کر رہی تھی۔ حیدر بڑی 

 شدت سے میری کلیوج کو چاٹ رہا تھا اوردونوں ہاتھ سے میرے مموں کو دبا بھی 

رہا تھا۔ اسنے میرا برا اتارنے کی کوشش کی

تو میں نے منع کر دیا کہ نہیں ابھی نہیں۔

پھر وہ مزید میرے ممے برا کے اوپر سے ہی چوسنے لگا اور مموں سے ہوتا ہوا وہ 

نیچے آنے لگا۔ ناف پر زبان پھیرنے کے بعد وہ 

مزید نیچے آیا اور ٹانگوں اور پیٹ کے 

 ملاپ والی جگہ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔مجھے حیدر کا اسطرح میرے جسم کو 

چاٹنا بہت اچھا لگ ر ہا تھا۔ اب اس نے 

میرےٹراؤزر کو پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر بھی اتار دیا۔ میں اب حیدر کے 

سامنے ننگی لیٹی تھی، میرے جسم پر محض

  ایک برا اور ایک جی سٹرنگ پینٹی تھی۔ 

اب وہ اپنے ہاتھ میری تھائیز پر پھیر رہا 

تھا اور انہیں دبا دبا کر خوش ہورہا تھا۔ بالوں

سے پاک نرم اور ملائم تھائیز پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب اسنے میری تھائیز کو زبان

سے چاٹنا شروع کر دا جس سے مجھے 

عجیب گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ میری چوت 

کے بالکل قریباپنا ہاتھ پھیر رہا تھا اورزبان میری تھائز پر مسلسل نیچے سے اوپر

کی طرف پھیر رہا تھا۔ میری چوت گیلی ہو 

رہی تھی اور یہ گیلا پن پینٹی کو بھی گیلا کر

 چکا تھا۔ 

اب حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگا دیں۔ میری گانڈ اوپر اٹھ چکی تھی۔ میرے 

چوتڑوں پر بھرا بھرا گوشت دیکھ کر حیدر کے منہ 

میں پانی آنےلگا اور وہفورا میرے 

چوتڑوں کے اوپر جھک کر ان پر اپنی زبان

پھیرنے لگا۔ میرے مکمل چوتڑ ننگے تھے اور دودھ کی طرح سفید تھے۔ جی سٹرنگپینٹی کی بیک سائڈ محض اتنی ہوتی ہے 

 کہ وہ چوتڑوں کی لائن میں جا کر گانڈ کے

سوراخ کو ڈھانپ سکے۔ اسکے علاؤہ تمام چوتڑ ننگے ہوتے ہیں اور حیدر اسکا

بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے چوتڑ 

چاٹ رہا تھا، آہستہ آہستہ اسکی زبان چوتڑوں 

کے گوشت سےہوتی ہوئیگانڈ والی لائن میں

  جانے لگی۔ تھوڑی دیر اس نے گانڈ والی

لائن میں اپنی زبان پھیری جس نے میری چوت کو اور بھی گیلا کر دیا ۔

اب حیدر نے میری پینٹی اتارنی چاہی تو 

 میں نے اسے منع کر دیا اور کہا وہ نیچے لیٹے۔ وہ نیچے لیٹ گیا تو میں نے اوپر 

 آکر اسکا ٹراوزر اتار دیا۔ اب وہ بھی میرے سامنے ننگا تھا محض انڈر وئیر پہنا ہوا تھا۔ انڈر وئیر میں اسکے لن کا ابھار کافیواضح تھا۔ میں نے اپنا ہاتھاسکے لن کے اوپر رکھا اور اسکا سائز ماپنے کی کوششکی۔ اسکا لن چھوٹا تھا شاید 5 انچ سے کچھ زیادہ ہوگا۔ یا پھر 6 انچ کا ہوگا مگر ا س

سے زیادہ نہیں تھا۔ اب میں اسکے لن کے 

اوپر بیٹھ گئی اور اپنی گانڈ پر اسکے لن کو

محسوس کرنے لگی۔ اسکا لن میری چوت 

سے ٹکرا رہا تھا جس نے میرے شہوت میں

 اور بھی اضافہ کر دیا۔ اب میں نے اسکے اوپر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھ کمر پر لیجا

کر اپنے برا کی ہک کھول دی اور اپنے 

مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ میرے 

ممے برا کی قید سے نکلتے ہی حیدر کی آنکھوں کے سامنے اچھلنے لگے۔ میں 

آہستہ آہستہ اسکے لن پر اچھل رہی تھی 

جسکی وجہ سے میرے 34 سائز کے ممے میرے 

سینے پر لہرانے لگے۔ انکو دیکھ کر حیدر 

کی تو رال ٹپکنے لگی اور اس اب حیدر سے

مزید نہ رہا گیا اور اسنے فورا ہی مجھے 

کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔ اور میرے 

ممے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ 

اسنے میرے دونوں ممے اپنے دونوں ہاتھوں 

سے پکڑے ہوئے تھے اور ایک مما منہ 

میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر

بعد مما چینج کر کے اپنے منہ میں لیتا اور 

اسکو چوسنے لگتا۔ حیدر کا بس نہیں چل 

 رہا

تھا کہ وہ پورےکا پورا مما اپنے منہ میں لیکر

  کھا جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ منہ 

میں لینے کی کوشش کر ررہا تھا۔ تھوڑی 

دیر میں نے اسکو ایسیے ہی ممے چوسنے 

دیے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ میرے نپل بھی منہ میں لیکر انکو کاٹے اور انکو

چوسے۔ اسنے فورا ہی میرے نپل کو منہ میں لے لیا اور اسکو ایسے چوسنے لگا

جیسے بچہ اپنی ماں کے سینے سے دودھ پیتا ہے۔ میرے نپل مکمل تنے ہوئے تھے۔ اور حیدر مسلسلاسکو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ کبھی نپل کو چوستا تو 

کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا تو کبھی اپنی زبان پھیرتا میرے نپلز پر۔ 

میرے منہ سے مسلسل اف اف اف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ 

 ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکل رہیتھیں مگر میری آواز دھیمی تھی کیونکہ یہ 

 ہوٹل کا کمرہ تھا اور آواز باہر جانے کا خطرہ تھا۔ 

جب حیدر نے دل بھر کر میرے ممے چوس لیے تو میں دوبارہ سے اسکے اوپر بیٹھ گئی۔ اسکا لنمیریگانڈ کی لائن میں 

مجھے محسوس ہورہا تھا۔ اب میں نے اسکے لن

کے اوپر مچلنا شروع کر دیا۔ میں اسکے 

لن پر مسلسل اپنی گانڈ کو گھما گھما کر مزے

لے رہی تھی اور حیدر میرے اچھلتے ہوئے ممے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ ساتھ

ساتھ اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ میں مسلسل اسکے لن پر اچھل رہی تھیاوراپنیگانڈ کو اسکے لن پر

گول گول گھما رہی تھی، اچانک حیدر کا جسم

اکڑنے لگا اور اسکے جسم کو جھٹکے 

لگنے لگے۔ اور مجھے نیچے سے اپنی گانڈگیلی محسوس ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو حیدر کا انڈر وئیر گیلا تھا اور اسکی منی 

نکل چکی تھی۔ یہ دیکھ کر میری ہنسی 

نکل گئی اور میں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کر

دیا۔ میں مسلسل ہنس رہی تھی اور حیدر تھوڑا شرمندہ تھا۔ میں نے اسے کہا کیسے مردہو یار تم ابھیتوتمہارا لن باہر بھینہیں نکالا اور اس نے پانی بھی چھوڑ دیا۔۔۔ اس

سے کوئی بات نہیں ہورہی تھی بس چہرے سے شرمندگی ٹپک رہی تھی۔ پھر میں نے 

اسے حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں تم نے کبھی کسی لڑکی کی چودائی نہیں کی تو

ہوجاتا ہے ایسے۔ ابھی دوبارہ کھڑا ہوجائے گا۔ 

 یہ کہ کر میں خود لیٹ گئی اور اسکو کہا 

تم نے فرمائش کی تھی چوت کے بال صاف کرنے کی اب چوت نہیں دیکھو گے میری؟ میری یہباتسنکروہ فورا اٹھا، سب

سے پہلے اس نے اپنا انڈر وئیر اتار کر سائیڈ پرپھینکا نیچے اسکا چھوٹا سا لن 

تھا جو پانی چھوڑنے کے بعد سکُڑ گیا تھا اور اب 2

انچ کا رہ گیا تھا۔ اسکو حیدر نے پاس پڑے ٹشو 

  پیپر کے ڈبے سے ٹشو نکال کر صاف

کیا اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر میری چوت پر پینٹی کے اوپر سے ہی 

ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ میری چوت ایک 

بار پھر سے گیلی ہونے لگی، حیدر نے پینٹی 

اتارے بغیر ہیاپنا منہمیری چوت پر رکھ دیا اور پینٹی کے اوپر سے ہی میری چوت 

چاٹنے لگا۔ اب میری سسکیاں تیز ہوگئیں تھیں اور میں چاہنے کے باوجود بھی اپنی 

آواز نیچی رکھنے میں ناکام تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی میری

  چوت چاٹنے کے بعد حیدر

نے میری پینٹی اتار دی۔ نیچے اس میری 

بالوں سے پاک صاف ستھری پھدی نظر آئی۔ 

وہ شکاری نظروں سے میری پھدی پر 

نظریں جمائے بیٹھا تھا اور پھر آہستہ 

 آہستہ 

جھکتا گیااوراپنی زبان میری پھدی سے کچھ اوپر پھیرنےلگا جس سے میرے جسممیں جھر جھری سی آئی اور میری 

سسکیاں اور تیز ہوگئیں۔ میں نے اسکو سر سے پکڑ 

کر اپنی پھدی کے اوپر دبانا شروع کر دیا۔ 

پھر حیدر نے اپنی زبان نیچے کی اور میری 

پھدی کے لبوں پر زبان پھیرنے لگا اب 

میری پھدی مکمل طور پر گیلی تھی اور مسلسل

سسکیوں سےکمرہ گونج رہا تھا۔ کچھ دیر 

پھدی کے لبوں کو چوسنے کے بعد حیدر نے 

اپنی زبان میری چوت کے اندر داخل کر دی اور اپنی زبان سے میری چوت چاٹنے لگا۔

میں پاگل ہورہی تھی اور بری طرح مچل رہی تھی۔ 

  میں نے اپنی دونوں ٹانگیں فولڈ کی 

ہوئی تھیں اور میری ٹانگوں کے درمیان 

حیدر کا سر تھا اور زبان مسلسل میری پھدی 

کی چدائی میں مصروف تھی۔ کچھ دیر مزید پھدی کی چدائی کے بعد اس نے میری ٹانگیں اوپر اٹھا کر فولڈ کیں اورسینے 

سے لگا دیں۔ اور میرے چوتڑون والی لائن 

میں اپنی زبان پھیرنے لگا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی 

  لڑکا میری گانڈ چاٹ رہا تھا اپنی زبان

سے۔ اس نے اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اس پر زور زور

سے ٹکرانے لگا۔ یہ بالکل نیا احساس تھا میرے لیے۔ میری چوت سے شہوت کا پانیبہہ رہا تھا اور میری سسکیاں تھیں کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایسے تورضوان نے بھی چوت نہیں چاٹی تھی جیسے حیدر چاٹ رہا تھا اور ساتھ میں وہ گانڈ کو

بھی چاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد

  حیدر دوبارہ سے میری چوت میں زبان

پھیرنے لگا۔ اب اسکی زبان بہت تیزی کے ساتھ میری چوت کی چدائی کر رہی تھی 

اورمیری برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ دیر مزید زبان کی چدائی کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور چند جھٹکوں کے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ 

اب میں حیدر کےنیچے سے نکلیتو اسکا لن دوبارہ

  سے تھوڑا سخت ہو چکا تھا۔ میں 

نے اسکو نیچے لٹایا اور اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی کو

پاکر حیدر کے لن میں اور سختی آنے لگی 

اور اسکی لمبائی میں بھی اضافہ ہونے 

 لگا۔

کچھ ہی دیر چوسنے کے بعد اسکا لن 5 

 سے 6 انچ تک لمبا ہو چکا تھا اور اسکی 

سختی دوبارہ سے واپس آ چکی تھی۔ میں اپنے ہاتھ سے اسکے لن کو مسل بھی رہی تھی اور اسکیٹوپی کو منہ میں لیکر چوس بھی رہی تھی۔ میں نے اسکے لن کی ٹوپی 

پر تھوڑا سا تھوک بھی پھینکا اور اسکو 

اپنے ہاتھوں سے اسکے پورے لن پر مسل 

 دیا

اور پھر سے اسکا لن منہ میں لیکر 

چوسنے لگی۔ اب اسکا پورا لن میرے منہ میں تھا 

اور میں اسکو مسلسل اندر باہر کر رہی 

تھی۔ لن منہ میں اندر باہر کرنے کے ساتھ ساتھ

 میری زبان بھی لن کا مساج کرنے میں مصروف تھی۔ابھی لن چوستےہوئے مجھے 3

منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ حیدر کے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اسکی

ساری منی میرے منہ میں ہی نکل گئی۔ اس بات پر مجھے بے تحاشہ غصہ آیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ میرے منہ میں منی کیوں 

نکالی بلکہ غصے کی وجہ یہ تھی کہ دوسری بار

اس نے بہت جلدی منی چھوڑ دی تھی۔ میں ابھی اسکے لن کو اپنی چوت میں ڈالنے کا

سوچ ہی رہی تھی کہ اسکے لن نے منی 

 چھوڑ دی۔ 

میں نے حیدر کی طرف غصے سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ دوسری بار بھی تم 

اتنی جلدی فارغ ہوگئے۔ تو حیدر نے کہا معلوم نہیں کیا ہورہا ہے مٹھ مارتے ہوئے تو 

منٹ مسلسل مٹھ مار لیتا ہوں اسکے 7 ،6 بعد ہی منی نکلتی ہے۔ آج بہت جلدی نکل 

رہی ہے۔۔ میں نے اسے غصے سے کہا اب اسکوجلدی کھڑا کرو اور میری چوت میں داخل کرو۔ حیدر شرمندہ ہوکر واش روم 

گیا۔ وہاں جا کر اسنے اپنے لن کو دھویا اور پھر

میں نے جا کر کلی کی اور اپنا منہ صاف 

کیا۔ حیدر کا لن اب پھر سے سکُڑ کر 2 انچ کا

ہوچکا تھا جسکو حیدر مسلسل ہاتھ میں 

پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور

میں مسلسل غصے میں اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ 2 ،3 منٹ تک انتظار کرنے کے باوجود جب اسکا لن کھڑا نہیں ہوا تو میں لیٹ گئی اور اسکو کہا دوبارہ سے میری

چوت کو اپنی زبان سے چاٹے شاید تھ وڑا ٹائم گزرنے کے بعد لن کھڑا ہوجائے۔ میری چوت اب بالکل خشک ہو چکی تھی، 

حیدر نے میری ٹانگیں کھول کر دوبارہ سے

میری چوت پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی 

تو آہستہ آہستہ میری چوت کا گیلا پن واپس

آنے لگا اور میرا جسم ایک بار پھر سے گرم ہونا شروع ہوگیا۔ اس بار حیدر اور بھی 

زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اب میں مکمل طور پر گرم ہوچکی۔ 

تھی اور اب میری چوت تیار تھی لن لینے کے لی۔ حیدر نے اب پیچھے ہٹ کر دوبارہسے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیااور اسکو 

جھٹکےمارنے لگا۔ اب اسکا لن آہستہ آہستہ کھڑا

ہو رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکا لن 

 مکمل طور پر کھڑا ہوگیا تو میری جان میںجان آئی۔ میں نے اسکو کہا اب میری 

ٹانگیں اٹھائے اور اپنا لن داخل کر دے میری چوت میں۔ 

حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور آگے بڑھ کر اپنے لن کی ٹوپی میری چوت پر سیٹ 

کی اور ایک دھکا لگایا۔ میری چیخ نکلگئی کیونکہ میری پھدی ابھی اتنی کھلی نہیں 

ہوئی تھی کہ اتنی آسانی سے لن اندر جا 

 سکے۔ میں نے اسکو کہا کہ آرام آرام سے

داخل کرو۔ اب حیدر نے آہستہ آہستہ اپنے 

لن کا پریشر میری پھدی پر بڑھایا تو لن اندر

جانے لگا۔ اور مجھے درد بھی شروع 

ہوگئی تھی۔ کچھ دیر زور لگانے کے بعد 

 حیدر کا

پورا لن میری چوت میں داخلہو چکا تھا۔ 

اور اسکے چہرے پر خوشی تھی کہ آخر 

 کار

اسنے میری چوت حاصل کر لی تھی۔ کچھ 

دیر لن اندر رہنے کے بعد میں نے اسے 

 کہا

کہ اب آہستہ آہستہ دھکے مارنے شروع کرے


 تو 

  حیدر نے میری چودائی شروع کر دی۔

اسکے دھکوں سے میرے ممے ہلنے لگے تو اسنے میرے اوپر جھک کر ممےچوسنے شروع کر دیے اور نیچے سے

اپنے دھکے جاری رکھے۔ اب میری چوت مکمل

طور پر گیلی ہو چکی تھی اور حیدر کا لن بڑے آرام کے ساتھ میری چودائی کر رہا تھا۔ 

میں نے حیدر کو کہا کہ اب اپنے لن کی سپیڈ تھوڑی بڑھاو۔ حیدر جیسے اسی بات کے 

انتظار میں تھا۔ میری بات سنتے ہی اسنے 

 ایک دم سے زور دار دھکے لگانے شروع کر دیے۔ 

مگر اسکے یہ زور دار دھکےابھی محض 

5 ،6 ہی لگے تھے کہ اسکے جسم کوجھٹکے لگے اور اسکے لن نے ایک 

بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اب تو جیسے 

 میرا

سارا صبر جواب دے گیا۔ میں نے اسکو پیچھے دھکا دیا اور ایک بڑی ساری گالی دی۔ 

اور کہا کہ شوق تمہیں چوت لینے کے ہیں اور لن

  تمہارا 2 منٹ سے زیادہ چدائی نہیں 

کر سکتا۔ اب میرا موڈ بری طرح خراب

ہوچکا تھا۔ حیدر کا لن 3 بار پانی چھوڑ چکا تھا

جبکہ میری چوت ابھی محض ایک بار ہی پانی چھوڑ سکی تھی۔میں بستر سے اٹھی ٹشو اٹھا کر اپنی چوت کو صاف کیا اور کپڑے پہننے لگی۔ حیدرچپ چاپ بیڈ پر 

بیٹھا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا تھا جبکہ میں غصے سےاسے گھور رہی تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد 

  میں نے پانی پیا، اپنا بیگ اٹھایا اور اسکوپھر سے ایک گالی دی اور نا مردی کا 

طعنہ دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی اور

تیز تیز قدموں کے ساتھ ہوٹل کے گیٹ پر 

آگئی۔ اب میں روڈ پر کھڑی تھی اور غصہ 

میرا اچھا خاصا تھا، مگر میری چوت کو ابھی بھی لن چاہیے تھا۔



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)