گھر میں دو کنواریاں
قسط 15
اور مجھے اس وقت بہت شدت کے ساتھ
کسی اصل مرد کے طاقتور لن کی ضرورت تھی
۔ بالآخر میں نے فون نکالا اور رضوان کو کال کر کے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہے؟ ا سنے پوچھا خیریت ہے بہت غصے میں لگ رہی ہو۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے ایکگہرا سانس لیا اور اپنے آپ کو نارمل
کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں غصے میں نہیں ہوں
مگر اس وقت تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان
نے پھر پوچھا کہ تم ہو کہاں؟ تو میں نے
بتایا کہ میں سائرہ کے گھر گئی تھی اور سوئمنگ کی تو مجھے وہی وقت یاد آگیا جب
تم میری چدائی کر رہے تھے۔ اور اب
میری چوت گیلی ہو رہی ہے میں شہر میں آچکی
ہوں اور تم جیسے بھی ہو ایک بار مل لو
میرے سے۔ یہ بات سن کر وہ ہنسا اور کہا واہ
کیا بات ہے۔ اس نے مجھے بتایا کو وہ علی
کے گھر ہے۔ وہی علی جسکے گھر وہ
مجھے ایک بار پہلے پارٹی پر لے گیا تھا۔
رضوان نے مجھے کہا کہ یہاں اور لوگ بھی
آئے ہوئے ہیں تم بھی یہیں پر آجاو۔ میں
نے فون ب ند کیا اور ایک رکشہ روک کر اسکو
ایڈریس بتا کر رکشے میں بیٹھ گئی۔ رکشے میں بیٹھ کر میں نے موبائل واپس بیگ میں
ڈالا تو میری نظر خفیہ کیمرے پر پڑی میں
نے کیمرے کی ریکارڈنگ بند کی اور پین کو
محفوظ جگہ پر بیگ کے اندر والی جیب
میں رکھ دیا۔ اب میرا رخ علی کے گھر کی
طرف تھا اور میں اس وقت رضوان کے لن کے لیے بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں رکشہعلی کے گھر کے
سامنے رکا۔ میں نے رکشے والے کو پیسے
دیے اور گیٹ سے علی کے گھر میں داخل
ہوگئی۔ مین گیٹ کھلا تھا لہذا میں بے دھڑک
اندر چلی گئی۔ اندر جا کر اب میرا رخ اسی دروازے کی
طرف تھا جس دروازے پر پہلے
رضوان نے میرے ممے دبائے تھے۔ میں
جب اس دروازے پر پہنچی تو وہاں علی اپنی
گرل فرینڈ کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں آس پاس سے بے خبر ایک دوسرے کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے۔ میں انکے
پاس پہنچی مگر انہیں پتہ نہیں چال۔ میں
نےہلکا سا اونہہ اونہہ کیا، یعنی کے ہلکا
سا کھانسی تو علی کو ہوش آیا۔ اس نے اپنی گرل
فرینڈ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور میری طرف دیکھا۔ میں نے ہائے بولا تو
علی فورا آگے بڑھااور مجھ سے ہاتھ مالیا
اور میرا حال وغیرہ پوچھا۔ میں نے کہا میں
ٹھیکہوں آپ سنائےکیا چل رہا ہے۔ تو
علی مسکرایا اور کہا جو چل رہا تھا تم نے
دیکھ ہی لیا ہے۔ یہ کہ کر اس نے قہقہ لگایا اور میرے مموں پر نظر گاڑتے ہوئے بولا
جاو نیچے رضوان نیچے ہی ہے۔ میں فورا نیچے چلی گئی، نیچے پہنچ کر جیسے ہی مین ہال میں داخل ہوئی تو وہاں جو میں
نے دیکھا وہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔
میرے سامنے ندیم بالکل ننگا کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا جسکے ساتھ میں نے ڈانس کیا تھا اور ڈانس کرتے ہوئے وہ بار بار اپنا لن میری گانڈ سےٹچ کر رہا تھا اور ایک بار
میں نے اسکی گود میں بیٹھ کر اسکو
کسنگ بھی کی تھی اور موقع ملنے پر اسکے لن
پر اپنا ہاتھ بھی رکھا تھا۔
جو لن میں نے کپڑوں میں چھپا ہوا
محسوس کیا تھا آج اس لن کو دیکھ بھی لیا۔ ندیم کا
لن مکمل کھڑا تھا اور اسکے سامنے ایک
لڑکی بیٹھی تھی وہ بھی ننگی تھی ایک ہاتھ
سےوہ اپنا ایک ممادبا رہیتھی اور
دوسرے ہاتھ سے اس نے ندیم کا لن پکڑا ہوا تھا
اور منہ میں ڈال کر ندیم کا 8 انچ لمبا اور موٹا لن چوس رہی تھی۔ میرے قدموں کی
آواز سن کر ندیم میری طرف متوجہ ہوا تو لڑکی نے اسکا لن اپنے منہ سے نکال دیا۔
جیسے ہی اس لڑکی نے ندیم کا لن چھوڑا وہ ایک دم سے تن کر کھڑا ہوگیا اور اسکا رخ چھت کی طرف تھا۔ میں اتنا بڑا لن
دیکھ کر کھڑی پھٹی آنکھوں سے اسکو دیکھنے
لگی تو اچانک مجھے ندیم کی آواز آئی
"ہیلو کونپل کیسی ہو تم؟" اسکی آواز سن کر
میں نے اسکی طرف دیکھا اور رضوان کے
بارے میں پوچھا اور دوبارہ اسکا ل ن
دیکھنے لگی تو ندیم نے کہا رضوان اندر کمرے میں ہے تم چلی جاو کمرے میں۔
جس کمرے کا ذکر کیا ندیم نے وہ اسکے
ساتھ ہی تھا جہاں ہو کھڑا تھا۔ میں ندیم کی طرف
بڑھنے لگی اور میری نظریں مسلسل ندیم کے لن پر تھیں جس کو اب اس لڑکی نے دوبارہسے منہ میں لے لیا تھااور اسکو
چوس رہی تھی۔ ندیم کے پاس پہنچ کر میںبائیں جانب بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ میری پھدی مکمل
گیلی ہو چکی تھی اور اب میں جلد سے
جلد رضوان کے لن سے اپنی پھدی کی پیاس
بجھانا چاہتی تھی۔ جیسے ہی میں نے کمرے
میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اندر کا
نظارہ دیکھ کر تو میری ساری شہوت ختم ہوگئی اور اسکی جگہ غصے نے لے لی۔میرے سامنے رضوان ایک لڑکی کے ممے چوسنے
میں مصروف تھا۔ لڑکی کی گانڈ
میری طرف تھی اور وہ مکمل ننگی تھی۔
موٹی گانڈ پر رضوان کے ہاتھ تھے اور وہ
اسکی گانڈ کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔ جبکہ اسکے ممے
رضوان کے منہ میں تھے۔
یہ دیکھ کر میں نے زور سے چیختے ہوئے رضوان کا نام لیا، رضوان کو جیسے ایک
جھٹکا سا لگا اور اسنے ایک دم اسکے مموں کو چھوڑ کر میری طرف دیکھا۔ میںچلائی کہ یہ کیا کر رہے ہو تم؟تو رضواناسکو چھوڑ کر میری طرف بڑھا اور کہا کچھ
نہیں یار تمہارا انتظار کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی تو ۔۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا کہ میں
دوبارہ چلائی "تو تم نے دوسری لڑکی کو
پکڑ لیا؟" وہ بولا "نہیں یار، یہ میرے کمرے
میں آئی تو میں تو بس کسنگ کر رہا تھا
جیسے اس دن پارٹی میں بھی کی تھی مگر
پھر ۔۔۔۔۔۔۔" یہ کہ کر اس نے سر جھکا لیا۔ وہ شرمندہ تھا اور مجھ
سے نظریں نہیں مال
پا رہا تھا۔ میں زور سے چلائی کہ اب اسے
سے کام چالو اور آئندہ میرے بارے میں سوچنا بھی مت۔
یہ کہ کر میں کمرے سے نکلی اور واپس جانے لگی تو رضوان میرے پیچھے بھاگا اور
سوری کونپل، سوری یار کہتا ہوا مجھ تک پہنچ گیا اور مجھے منانے لگا۔ مگر میں نے
اسکو سختی سے منع کر دیا کہ خبردار جو
مجھے چھوا بھی ۔ رضوان میرا راستہ روک
کر کھڑا تھا اور مسلسل مجھ سے معافیمانگ رہا تھا مگر میں تھی کہ اسکی ایک بات
سننے کو تیار نہیں تھی۔ میرے ساتھ ہی
ندیم اسی لڑکی کی چدائی میں مصروف تھا جو
کچھ دیر پہلے اسکا لن چوس رہی تھی۔
ہمیں دیکھ کر اس نے لن اس لڑکی کی چوت
سے نکالا اور ہماری طرف آکر بولا کہ کیا
ہوا کس بات پر لڑائی ہو رہی ہے۔ تو رضوان
نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یاروہ
اندر رافعہ تھی نا میں اسکے ممے چوس
رہا
تھا تو یہ دیکھ کر کونپل کو غصہ آگیا۔ میں
ایک بار پھر چلائی کے میرے راستے سے
ہٹ جاو اور جا کر اپنی رافعہ کے ساتھ ہی
مستی کرو۔ یہ سن کر ندیم نے رضوان کو
کہا
تم اندر جاو میں کونپل سے بات کرتا ہوں۔
میں نے کہا مجھے کسی سے کوئی بات نہیں
کرنی۔ میں غصے سے کانپ رہی تھیاور اس وقت مجھے ندیم کے کھڑے ہوئے لن میں
بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ندیم نے ایک بار پھر رضوان سے کہا یار تو اندر کمرے
میں جا کونپل ابھی تیرے پاس آجائے گی۔ رضوان نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یارمیں تو کونپل سے سوری کر رہا ہوں
مگر یہ مان ہی نہیں رہی۔ میں پھر سے چلائی کے
رضوان میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔
یہ سن کر ند یم غصے سے بولا "ابےمیں تجھے کہ رہا ہوں نہ تو اندر جا میں کونپل سے بات کرتا ہوں ابھی یہ تیرے پاس
آجائے گی تو جا اندر یہ کہتے ہوئے ندیم نے
رضوان کو دھکہ دیا اور رضوان مرے
ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں جانے لگا،
میں باہر نکلنے لگی مگر اب کی بار ندیم اپنے لن کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔ اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا۔ میں اب چپ چاپ کھڑی تھی مگر پھر مجھے غصہ آیا اورمیںنے اب کی بار ندیم کو کہا کہ میرے
راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔
رضوان کمرے میں جا چکا تھا۔ ندیم بولا
کیوں واپس جانا ہے تمہیں؟ تم تو یہاں رضوان
سے چدوانے آئی تھی اب ایسا کیا ہوگیا کہ واپس جانا ہے؟ اسکے منہ سے یہ بات
سنکر میں ایک دم چونکی کہ اسکو کیسے پتا کہ میں نے رضوان کو فون پر یہ کہا تھا؟
مگر میں نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہے تم بیچ میں نہ آو۔
میری یہ بات سن کر ندیم غصے میں مگر آہستہ آواز میں بولا، ابے او رنڈی بند کر یہ
ڈرامہ بازی اور چپ چاپ کمرے میں چلی
جا اور اپنی چوت مروا۔ خود بھی مزے کر اورہمیں بھی مزے کرنے دے۔ ورنہ میں
رضوان کو بتا دوں گا کہ تو رضوان سے چدوانے
سے پہلے بھی اپنی چوت کسی اور سے
مروا چکی ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھ پر
جیسےسکتہ طاری ہوگیا۔ اور غصے میں مجھ سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ میرے
چہرے کا رنگ بھی غصے سے سرخ ہو
چکا تھا۔ مگر پھر میں ہمت کر کے بولی یہ
کیا
بکواس کر رہے ہو تم؟ ندیم بولا کہ رضوان سیدھا سادھا لڑکا ہے وہ تیرے بارے میں
نہیں جانتا مگر سب رضوان جیسے نہیں
ہوتے۔ مجھے تو اس دن پارٹی میں ہی پتا چل
گیا تھا کہ تو کنواری نہیں ہے جب کہ رضوان ہم
سب کے سامنے قسمیں کھاتا تھا کہ
اسکی منگیتر بہت شریفہے۔ اسی کی
خاطر کسی نے تیری طرف بری نظر سے نہیں دیکھا ورنہ ہم تو تجھ جیسا مال چھوڑتے ہی نہیں۔
میں اپنے دانت پیستے ہوئے بولی یہ کیا بکواس
کیے جا رہے ہو تم۔ میں نے ایسا کچھنہیں کیا۔ میری بات سن کر وہ ہنسا اور بولا یہ معصومیت کا ناٹک رضوان کے سامنے
ہی کرنا میں تو لڑکی کی شکل دیکھ کر بتا
دیتا ہوں کہ یہ لن لے چکی ہے یا نہیں۔ اور
پھر وہبولا اس دن میری گود میں بیٹھ کر جس طرح تو نے اپنی گانڈ میرے لن پر
گھمائی تھی میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ تو پہلے لن کا مزہ لے چکی ہے۔ اور
پھر تو نے ڈانس کرتے ہوئے جس طرح بار بار اپنی گانڈ میرے لن پر دبائی تھی ا س
سے بھی اندازہ ہو رہا تھا مجھے کہ تیری چوت کو
اس وقت لن کی طلب ہو رہی ہے۔
اور پھر جس طرح تو نے اپنا ہاتھ میرے لن پر پھیرا تھا اس سے تو مجھے یقین ہی ہوگیا کہ تو کنواری نہیں۔ یہتو ہمارا دوست
ہی معصوم ہے جس نے کبھی کسی لڑکی کو
نہیں چھوا اور ہماری پارٹیز میں شامل ہوتا بھی
تھا تو کبھی ڈانس اور کسنگ سے بات
آگے نہیں بڑھائی تھی۔ میں نے پھر دانت
پیسے ہوئے کہا تم بکواس کر رہے ہے۔ میں
نے کچھ غلط نہیں کیا میں نے کسی سے
چوت نہیں مروائی۔ مگر یہ بات کرتے ہوئے
میریاپنی آواز کانپ رہی تھی اور میری
بات میں بالکل بھی اعتماد نہیں تھا۔ کیونکہ ندیم صحیح کہ رہا تھا۔ میں پہلے ہی اپنی
چوت اپنے بہنوئی سے مروا چکی تھی۔ میری
بات سن کر ندیم ایک بار پھر ہنسا اور بولا
بند کردو اب یہ ڈرامہ۔ چپ چاپ اندر جاو اور
رضوان کے لن کو سکون دو۔ اپنی چوت کو بھی سکون دو۔ میں اسکو کبھی نہیں بتاوں
گا کہ تم پہلے کسی اور سے چدوا چکی ہو۔
لیکن اگر تم نے یہ ڈرامہ بند نہیں کیا تو میں
ابھی جا کر بتا دوں گا اسےاور میرے لیے یہ بات ثابت کرنا بھی مشکل نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ندیم کو واقعی یقین تھا کہ میں
پہلے چوت مروا چکی ہوں یا
پھر وہ ہوا میں تیر چھوڑ رہا تھا۔ اگر اس نے ہوا میں تیر بھی چھوڑا تھا تب بھی وہبالکل ٹھیک نشانے پر لگا تھا اور اب
میرے دل میں خوف تھا کہ اگر اس نے رضوان
کو یہ بات کر دی تو رضوان یقین نہ بھی
کرے مگر اسکے دل میں شک تو پیدا
ہوجائے
گا۔ اور اب میں اپنی جگہ پر ساکت کھڑی
تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں
کیا کروں۔ اتنے میں مجھے ندیم کا قہقہ
سنائی دیا اور وہ بولا اب کیا ارادہ ہے؟ اگر میرا
لن چاہیے تو یہیں کھڑی رہو اور اگر
رضوان کا لن چاہیے تو اندر چلی جاو۔ اسکا اتنا
کہنا تھا میں فورا واپس مڑی اور کمرے میں چلی گئی۔
اندر گئی تو بیڈر پر رضوان اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا اور دوسری لڑکی اسکے ساتھ بیٹھی اسے کہ رہی تھی کمسے کم میرے ساتھ
تو سیکس کرو پورا کونپل کو بعد میں
مناتے رہنا، مگر رضوان نے کہا پلیز اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ پھر میں بولی
رافعہ تم پلیز باہر چلی جاو۔ میری آواز سن
کر رضوان نے چونک کر میری طرف دیکھا
تو اسکے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے آثار تھے ،وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور دوبارہ سوری
کرنے لگا۔ میں نے کہا
کوئی بات نہیں بھول جاو اس بات کو اب۔ اتنے میں رافع نے اپنا برا اور اپنے کپڑے
اٹھائے اور مجھے گھورتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
اسکے جاتے ہی میں نے رضوان کو
پیچھے کیا، کمرے کا دروازہ بند کیا اور واپس آکر
رضوان کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور
اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پینٹ اتار کر میں نےرضوان کا انڈر وئیر بھی اتار دیا اور
اسکا 7 انچ لمبا لن فورا ہی اپنے منہ میں لے لیا
اور اسکے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔
رضوان نے اوپر سے میرا سر پکڑ لیا اورمیرے منہ کو زور زور سے لن کے اوپر دھکیلنے لگا تاکہ پورا لن میرے منہ میں جا
سکے۔ اب میری چوت بھی گیلی ہونے لگی
تھی اور میں بہت مزے کے ساتھ رضوان
کا
لن چوسنے میں مصروف تھی، میرے ذہن میں اس وقت حیدر کا لن آرہا تھا جس نے
3
بار منی چھوڑی تھی مگر میری چودائی
کرنے میں ناکام رہا
تھا۔ اور ایک طرف اب یہ
رضوان کا لن تھا جس نے میری چدائی تب
تک کرنی تھی جب تک کہ میں تھک نا جاوں۔
میں نے رضوان کے لن پر تھوک بھی
پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر
مسل دیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر
چوستی رہی۔ کچھ دیر بعد رضوان نے مجھے
کھڑا کیا اور فورا ہی میرا اپر اتار دیا۔ میرا اپر اتارتے
ہی رضوان نے بغیر دیر لگائے
میرا برا بھی اتارا اور پھر میراٹراوزر اور پینٹی اتارنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔
میری پینٹی اتار کر رضوان نے فورا ہی کھڑے ہوکر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور بڑی ہی شدت کے ساتھ میرے
مموں کو چوسنے لگا۔ میرے تنے ہوئے نپلز پر وہ
اپنی زبان پھیرتا اور انکو دانتوں سے کاٹتا تو میری سسکیاں نکلنے لگ جاتی۔ نیچے
سے ایک ہاتھ سے رضوان میری چوت کو
مسل رہا تھا جو مکمل طور پر گیلی ہو چکی
تھی۔ کچھ دیر ممے چاٹنے کےبعد رضوان نے مجھے تھوڑا سا پیچھے دھکیلا
اورمجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اور نیچے بیٹھ کر میری ایک ٹانگ اٹھا کر
اپنے
کندھے
پر رکھی اور اپنی زبان میری چوت پر پھیرنی شروع کر دی۔ رضوان کی اس حرکت نے
میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میرا پورا جسم جلنے لگا۔ وہ میری ٹانگ اپنےکندھے پر رکھے مسلسل اپنی زبان کو میری چوت میں پھیر رہا تھا۔ میرے منہ
سے بےہنگمآوازیں نکل رہیتھیں آہ آہ
آہ۔۔۔۔ اف اف اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ میری جان۔۔۔۔ اور زور
سے
چاٹو میری چوت کو، میری چوت کو زبان سے چودو، اف اف اف۔۔۔ مسلسل سسکیوں سے رضوان کا جوش بھی بڑھتا جا رہا
تھا، کچھ دیر چوت چٹوانے کے بعد مجھے
دوبارہ سے حیدر یاد آیا جس نے پہلی بار
میری گانڈ چاٹی تھی۔ جیسے ہی مجھے
گانڈ
کی چٹائی یاد آئیمیں نے اپنی ٹانگ
رضوان کے کندھے سے نیچے اتاری اور دیوار کی
طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکالا جس سے میری
کمر اندر کی طرف دہری ہوگئی اور میں نے رضوان کو کہا میری گانڈ بھی چاٹے۔ میری
اس فرمائش پر رضوان نے حیرت سے
میری طرف دیکھا