گھر میں دو کنواریاں
قسط 17
اب میں رضوان کے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی مگر میری گانڈ تھوڑا نیچے تھی اور میں ہاتھوں کے بل رضوان کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ میری چوت میں مسلسل رضوان کا لن ضربیں مار رہا تھا جس سے میرے ممے رضوان کے اوپر جھول رہے تھے اور
دائیں بائیں ہل رہے تھے جنکو دیکھ کر رضوان بہت خوش ہو رہا تھا۔ اتنے میں
مجھےدروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے گردن موڑ کر
پیچھے مڑ کر دیکھا تو ندیم کمرے میں آ چکا تھا۔ میں نے دل ہی دل میںشکر کیا کہ جس مقصد کے لیے رضوان کو
اجازت دی تھی غیر لڑکی کو چودنے کی
بالآخر وہ مقصد پورا ہونے لگا تھا۔ اور وہ
مقصد یہی تھی کہ میں بھی ندیم کا لن اپنی چوت
مین داخل کر سکوں۔ ندیم میرے قریب آیا
اور رضوان سے پوچھا ہاں بئی چیتے سنا کیسا لگ رہا ہے 2 ،2 لڑکیوں کی چدائیکر کے۔ رضوان کی خوشی کی کوئی انتہا
نہیں تھی وہ بولا بس یار آج تو ایسا لگ رہا
ہے جیسے میری عید ہوگئی ہو۔ ندیمنے ایک
شارٹ پہن رکھا تھا جس میں اسکا لن
کھڑا نظر آرہا تھا۔ شارٹ تھوڑا ٹائٹ تھا اسلیے اس میں سے ندیم کے لن کا ابھار بہت
واضح نظر آرہا تھا۔اب ندیم نے اپنا ہاتھ
میری کمر پر پھیرنا شروع کر دیا اور بولا تم سناؤ کونپل کیسا لگ
رہا ہے رافعہ کے ساتھ ملک کر رضوان
سے چدائی کروانا۔ میں بھی بولی کہ اچھا لگ
رہا ہے۔ وہ مسلسلاپنا ہاتھ میری کمر پر پھیر رہا تھا اور مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ مگر
حیرت کی بات یہ تھی کہ رضوان نے بھی برا نہ منایا۔ جس سے مجھے حوصلہ ہوا۔ کمر
پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ندیم اپنی انگلی
میری گانڈ پر لے گیا اور انگلی میری گانڈ میں
داخل کرنے کی کوشش کی تو میں نے گانڈ زور سے
دبا لی۔ اور اسکی انگلی میری گانڈ
میں نہ جا سکی۔ تووہ بھی حیران ہوا اور
کہا واہ تمہاری گانڈ تو بالکل ان ٹچ ہے۔ کسی
نے تمہاری گانڈ نہیں ماری کیا؟ اس پر رضوان پھر بولا یار تجھے بتایا تو تھا کہ ابھی
پچھلے ہفتے ہی میں نے کونپل کا کنوارہ
پن ختم کیا ہے۔ اس پر رضوان زیرِ لب مسکرایا
جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ یہ چوت کنواری نہیں تھی، مگر بولا کچ ھ نہیں وہ۔
پھر وہ بولا کہ آجتو کونپل کی گانڈ کی بھی چدائی ہونی چاہیے۔ جس پر میں فورا بول
اٹھی کہ نہیں مجھے نہیں اپنی گانڈ مروانی۔ اس پر ندیم
ہنس پڑا اور بولا اچھا ڈرو نہیں
آرام سے فی الحال اپنی چدائی کرواو اور
عیش کرو۔ اس نے پھر سے میری کمر پر ہاتھ
پھیرنا شروع کیا اور اب میرے چوتڑوں پر ہاتھ بھی مارنے لگا۔ وہ میرے چوتڑوں پرزور سے ہاتھ مارتا تو کمرے میں آواز
گونجتی اور میری ہلکی سی سسکی بھی نکلتی۔
جب میں نے دیکھا کہ رضوان نے اس بات کا بھی برا نہیں منایا کہ ندیم میری گانڈ کو
چھو رہا تھا اور میرے چوتڑوں کو دبا رہا تھا تو میں نے ہمت کی اور رضوان کے لنپر سیدھی ہوکر بیٹھ ہوگئی اور اپنا ہاتھ
ندیم کے شارٹ پر سے اسکے لن پر رکھ
دیا۔
نیچے سے چوت میں رضوان کا لن دھکے مارنے
میں مصروف تھا اور اوپر سے میں
اپنا ہاتھندیم کےلن پر پھیر رہی تھی۔
پھر میں نے اپنا ہاتھ ندیم کی شارٹ میں
داخل کر دیا۔ اور پہلی بار اسکے لن کو چھوا
اور سائز کا اندازہ کرنے لگی۔ پھر میں نے اسکا لن باہر نکال لیا تو ندیم نے بھی اپنی شارٹ اتار دی اور اپنا 8 انچ کا موٹا تازہ
لن میرے سامنے کر دیا۔ میں نے کچھ دیر توللچائی ہوئی نظروں سے اسکے لن کو دیکھا اور کہا کہ بہت مظبوط لن ہے تمہارا ۔ جس
پر ندیم بولا کہ یہچودتا بھی بہت خوب
ہے۔ میں پھر سے ندیم کے لن پر ہاتھ پھیرنے
لگی تو ندیم بولا اسکو منہ میں نہیں لوگی؟ تو میں
نے اسکو قریب کیا اور اسکے لن
کی ٹوپی پر ایک کس کی۔ پھر اس پر اپنے
ہونٹ پھیرنے لگی۔ پھر اپنی زبان نکالی اور
ندیم کے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔ اسکا لن آگ
کی طرح گرمی چھوڑ رہا تھا جس
نے میریچوت کیگرمی کو بھی بڑھا دیا
تھا۔ اور اب میں ندیم کا لن اپنے منہ میں لیکر
اسکو چوس رہی تھی۔ رضوان نے جب مجھے غیر مرد کا لن چوستے ہوئے دیکھا تو
بجائے غص ہ کرنے کے اس نے اور بھی شدت کے ساتھ میری چدائی شروع کر دی۔ اب میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب
تھی میں نے اپنے منہ سے ندیم کا
لن نکالا اور
رضوان کو کہا اور زور سے چدائی کرومیری اور زور دار جھٹکے مارو، میری بات
سن کر رضوان کے دھکوں میں اور اضافہ
ہوا ، میرے ہاتھ میں ابھی بھی ندیم کا لن تھا
مگر اسکو اب میں نے منہ میں نہیں لیا
کیونکہ اب سسکیاں برداشت نہیں ہو رہی
تھیں اور کمرہ میری آوازوں سے گونج رہا
تھا۔ رضوان کے دھکے حیرت انگیز طور
پر پہلے
سے بہتزیادہ ہو چکے تھے اور اسکا
جسم بھی اب لذت کی انتہا پر تھا۔ پھر اچانک ہی
ہم دونوں کے جسم کو جھٹکے لگے اور ہم دونوں نے ایک ساتھ پانی چھوڑ دیا۔
جب ہمارے جھٹکے ختم ہوئے اور سارا پانی چھوڑ چکے تو میں رضوان کے لن
سے اتر گئی، ندیم نے فورا ہی مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور بولا اپنی چوت کا پانی تو ٹیسٹ
کرواو کیسا ہے۔ اور یہ کہ کر وہ میری چوت کو چاٹنے لگا میری ٹانگوں پر میری چوت
کا پانی تھا اسنے میری ٹانگوں سے چوت
کا پانی چاٹا اور مزے لیکر زبان اپنے ہونٹوں
پر پھیرنے لگا۔ دوسری طرف رضوان کا
لن رافعہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی رضوان
کی منی اور میری چوت کے پانی کا
مکسچر رضوان کے لن سے چوس رہی تھی۔ ندیم
نے جب میری چوت سے سارا پانی چوس لیا تو دوبارہ اپنا لن میرے آگے کر دیا اور
میں بیٹھ کر اسکا لن چوسنے لگی۔ میں بیڈ پر
ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی جبکہ ندیم بیڈ سے نیچے کھڑا تھا اور میں ندیم کا لن
چاٹنے میں مصروف تھی۔ دوسری طرف رافعہ بیڈ پر لیٹی تھی اور رضوان اسکی
ٹانگیں اٹھا کر اپنا سر اسکی چوت پر رکھے اسے
چاٹ رہا تھا۔ رافعہ نے اپنے ہاتھ رضوان کے
سر پر رکھے ہوئے تھے اور رضوان
مسلسل رافعہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا۔
اتنے میں رافعہ بولی کہ تم نے آج تک کسی گانڈ
کا مزہ نہیں لیا لہذا اب تم میری گانڈ میں لن ڈال کر گانڈ کا مزہ لو۔ تو رضوان بولا آج تو
تمہاری گانڈ بھی ماروں گا اور کونپل کی
بھی۔ اس پر ندیم بولا کہ تم پہلے رافعہ کی گانڈ
مار لو، کونپل کی گانڈ میں لن پہلے میں ڈالوں گا، تمہیں تجربہ نہیں تم ڈالو گے تو کونپل
کو درد زیادہ ہوگا۔ میں طریقے سے اسکی گانڈ پھاڑوں گا جس سے اسکو کم سے کم
تکلیف ہو۔ پھر بعد ِمں تم جب چاہو کونپل کی گانڈ مار لینا۔
اس پر رضوان نے تو ہاں میں سر ہال دیا مگر میں چالئی کہ آخر تم لوگ میری گانڈ کےپیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ مجھے نہیں
گانڈ مروانی تم بس میری چوت میں لن ڈالو اور
ن من ایک بار گانڈ مروا کر تو دیکھو
بہت مزہ آئے گابس۔ اس پرندیم ہنسا اور بولا جا
تمہیں۔ اور ویسے بھی جب تمہاری چوت کھلی ہوجائے گی تو رضوان کو اسکا مزہ نہیں
آئے گا، پھر وہ بھی تمہاری گانڈ سے ہی
مزہ لیا کرے گا۔ تو جب کل بھی گانڈ مروانی ہی
ہے تو کیوں نہ آج ہی مروا لی جائے۔ میں نے ایک بار پھر انکار کیا اور کہا نہیں بسمیری چوت میں لن ڈالو۔ اس پر ندیم نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے منہ
دوسری طرف کرنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی بیڈ پر منہ دوسری طرف کیا میں ابھی
بھی ڈوگی سٹائل میں بیٹھ ی تھی اور ندیم بیڈ سے نیچے تھا۔ رضوان نے اب اپنیانگلیاں میری چوت میں داخل کیں اور
گیلے پن کو چیک کرنے لگا۔ میری چوت پہلے
سے ہی گیلی تھی اورندیم کے لن کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے گیلے پن کو محسوس
کرکے ندیم سمجھ گیا کہ میری چوت چدائی کے لیے مکمل تیار ہے۔
اس نے اپنا لن میری چوت کے سوراخ پر
سیٹ کیا اور ایک ہی دھکے میں اپنا 8 انچ کا
لن میری ٹائٹ چوت میں داخل کر دیا۔ میری دلخراش چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ
گونج اٹھا اور میں نے ندیم کو کہا کہ آرام سے کرو۔ تو وہ بولا آرام سے کرنے کا مزہ
نہیں آتا۔ اور ساتھ ہی اسنے میری چوت کی تعریف کی کہ یہ واقعی بہت ٹائٹ ہے
عرصہ ہوگیا ایسی ٹائٹ چوت کی چدائی
کیے ہوئے۔ آج تو بہت مزہ آئے گا، یہ کہ کر
اس نے
میری چوت میں اپنا لن تیزی سے اندر باہر
کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شدید
درد ہوئی کیونکہ ندیم کا لن نہ صرف رضوان کے لن سے لمبا تھا بلکہ وہ موٹائی میں
بھی موٹا تھا اور اسکے دھکوں کی سپیڈ بھی شروع سے ہی تیز تھی جبکہ رضوانشروع میں آرام سے چودتا تھا بعد میں سپیڈ پکڑتا تھا۔ ندیم نے سٹارٹ میں ہی تیزی
سےچودنا شروع کیا، مگر تھوڑی ہی دیر بعد اب میرا درد مزے میں بدل چکا تھا ۔
میں ڈوگی سٹائل میں بہت مزے سے اپنی
چوت چدوا رہی تھی تو دوسری طرف رافعہ بھی ڈوگی سٹائل میں بیٹھ چکی تھی مگر رضواننے اپنا لن اسکی چوت پر رکھنے کی
بجائے اسکی گانڈ پر رکھا اور زور دار دھکا مارا مگر لن گانڈ میں نہیں گیا۔ پھر اس نے
دوبارہ سے گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور
آہستہ آہستہ دباو ڈلانا شروع کیا تو رضوانکے لن کی ٹوپی رافعہ کی گانڈ میں جا چکی تھی مگر رافعہ کے چہرے پر تکلیف کے
آثار تک نہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان کا پورا لن رافعہ کی گانڈ میں تھا۔ اور
رضوانآہستہ آہستہ گانڈ میں لن داخل کرتا اور نکالتا۔
رضوان کے چہرے کے تاثرات اور اسکی آوازوں
سے واضح پتہ لگ رہا تھا کہ رضوان
کو گانڈ چودنے میں بے حد مزہ آرہا ہے۔ رافعہ کی گانڈ چاہے کتنی ہی کھلی کیوں نہ ہو
مگر بحر حال وہ میری چوت سے تو تنگ
ہی تھی۔ جسکو رضوان بہت مزے سے چود
رہا تھا۔اور جب رضوان نے اپنے دھکوں
کی سپیڈ بڑھائی تو اب رافعہ کی بھی سسکیاں
نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کی چدائی کو انجوائے کرنے لگی۔ ادھر میری چوت بھی
ندیم کے دھکوں سے بے حال ہوئے جا
رہی تھی۔ اب ندیم نے آگے بڑھر کر میرے مموں کو بھی دبانا شروع کر دیا۔ڈوگی سٹائل میں چدائی کرواتے ہوئے میرے ممے ہوا
میں لٹک رہے تھے جنکو اب ندیم اپنے ہاتھوں سے دبا رہا تھا۔ پھر اچانک ندیم نے
مجھے سینے سے پکڑ کر پیچھے کی
طرف کھڑا کر لیا، میں اب بیڈ پر گھٹوں کے بل
ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی مگر میری کمر ندیم نے کھینچ کر اپنے قریب کر لی ،
اورمیرے مموں کو مسلنے لگا۔ میں نے بھی ایک ہاتھ ندیم کی گردن میں ڈال لیا اور منہ
انچا کر کے اپنے ہونٹ ندیم کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا لن میری چودائی کر رہاتھا اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوس رہے تھے ایک ہاتھ سے وہ میرے ممے دبارہاتھا اور دوسرا ہاتھ وہ آگے سے میری پھدی مسل رہا تھا اور لائن پر مسلسل ہاتھ پھیر رہا تھا جس سے میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔
ندیم نے اب دھکے بہت ہی زیادہ سپیڈ سے
مارنے شروع کیے اور چند ہی دھکو ں کے
بعد میری چوت جواب دے گئی اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنے دھکے سہنے کے بعد میں اب بری طرح سے تھک چکی تھی۔ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ دوسریطرف رافعہ نے اب اپنی پوزیشن چینج کر لی تھی۔ وہ اب بیڈ پر لیٹی تھی اور اسنے اپنی
دونوں ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا رکھی
تھیں۔ رضوان اسکے اوپر آیا اور اسکی ٹانگوں
کو فولڈ کر کے اسکے سینے سے لگا دیا۔
اب رضوان کے لن کی ذد میں رافعہ کی پھدی
اور گانڈ دونوں ہی تھے، رضوان نے رافعہ کی گانڈ کا انتخاب کیا اور ایک بار پھر اپنالن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر دیا، اس پوزشن میں شاید رافعہ کو کچھ تکلیف ہوئی اوراس نے ہلکی ہلکی چیخیں مارنی شروع کر دیں تھی۔
رضوان بہت ہی مزے سے گانڈ مارنے میں مصروف تھا۔
اب ندیم نے مجھے ایک بار پھر سے بیڈ
پر الٹا لٹا دیا اور میرے چوتڑ کھول کر اپنیزبان میری گانڈ پر چالنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب وہ میری گانڈ مارنا چاہتا ہے۔
مگر میجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی اتنا
بڑا لن اپنی گانڈ میں لینے کی۔ مگر میں فی
الحال مزاحمت بھی نہیں کر رہی تھی
کیونکہ گانڈ
چسوانے میں آج مجھے بہت مزہ آرہا
تھا، پہلے حیدر نے میری گانڈ چوسی، پھر
رضوان نے پھر رافعہ نے اور اب ندیم میری
گانڈ چوس رہا تھا، پھر اس نے میرے چوتڑوں کو اوپر اٹھایا اور اپنی زبان میری چوت
پر پھرینے لگا اور اپنی ایک انگلی میری
گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ میری گانڈ ندیم کے تھوک سے اب کافی چکنی ہو چکی
تھی، اسکی آدھی سے کم انگلی اب میری
گانڈ
میں تھی اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ میں مرچیں لگ گئیں ہوں۔ میں
نے ندیم کو سختی سے کہا کہ میری گانڈ
سے انگلی نکال لے۔ مگر اس نے نہ نکالیاور آہستہ آہستہ انگلی میری گانڈ میں
گھمانے لگا اور نیچے سے میری چوت بھی چاٹتا
رہا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گانڈ میں ندیم کی انگلی کی درد زیادہ ہے یا پھر
چوت چاٹنے سے جو مزہ مل رہا ہے وہ زیادہ
ہے۔ندیم کی اب آدھی سے زیادہ انگلی
میری گانڈ کو چیرتی ہوئی گانڈ میں جا چکی تھی اور
میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ندیم کو پھر کہا کہ میری گانڈ کا پیچھا
چھوڑ دے اور جتنی بار چوت چودنا چاہے چود لے۔ پھر اچانک ندیم نے اپنی انگلی
میری گانڈ سے نکال دی اور رافعہ کو کہا
کونپل کی گانڈ مارنے میں مدد کرے۔ یہ بات
سن کر رافعہ نے رضوان کو پیچھے کیا اور اپنی گانڈ سے رضوان کا لن نکال لیا۔ ایک
الماری کھول کر وہ ایک کریم لے آئی اور
ندیم کو پکڑا دی۔ اور خود بیٹھ کر ندیم کا لن
اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ دوسری طرف رضوان میرے قریب آیا اور اپنا لن میرے منہ میں داخل کرنے لگا، میں نے
رضوان کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکو
چوسنے لگی۔ ندیم نے اپنی انگلی پر کریم
لگائی اور میری گانڈ کے سوراخ پر مسلنے
لگا جس سے میری گانڈ کی چکناہٹ میں
اضافہ ہونے لگا۔
اب رافعہ ندیم کا لن چوس رہی تھی،
رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور ندیم کی انگلی
میری گانڈ کے اندر کریم لگا کر گانڈ کو
اندر سے بھی چکنا کرنے میں مصروف تھیں۔
جب رضوان نے اچھی طرح میری گانڈ پر
کریم لگا دی تو رافعہ اٹھی اور ایک اور کریم
لے کر آئی وہ کریم رافعہ نے خود کھولی اور ندیم کے لن پر مسلنے لگی، ندیم نے اپنی
پوری انگلی میری گانڈ میں داخل کی ہوئی تھی مجھے اس سے تکلیف تو ہو رہی تھی
مگر اتنی نہیں جتنی پہلے تھی۔ شاید اسکی
وجہ یہ کریم تھی جس نے میری گانڈ کو چکنا کر دیا تھا۔
جب رافعہ نے ندیم کے لن پر وہ کریم اچھی طرح مسل دی تو ندیم نے میری گانڈ سےانگلی نکال کر میری دونوں ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا
لیا، میں اندر ہی اندر ڈر رہی تھی
کیونکہ آنے واال وقت بہت ہی تکلیف دہ
تھا۔ میں نے ایک بار پھر کہا کہ پلیز میری گانڈکو بخش دو چوت جتنی مرضی مار لو۔ مگر ندیم نےمیری بات کوسنی ان سنی کر دیا۔
اب ندیم میری ٹانگیں اٹھائے میری گانڈ پھاڑنے کے لیے تیار کھڑا تھا تو رافعہ نے
رضوان کو کہا کہ اگر تمہیں اپنا لن پیارا
ہے تو کونپل کے منہ سے نکال لو ورنہ یہ کاٹ
ڈالے گی تمہارے لن کو۔ رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال دیا تو رافعہ نے
مجھے کہا اپنی منہ میں کوئی کپڑا ٹھونس لو درد کی شدت کم ہوجائے گی، تو میں نے
پاس پڑا ندیم کا شارٹ اٹھایا اور اسکو اپنے منہ میں ڈال لیا۔
اب میں ذہنی تور پر گانڈ مروانے کے لیے تیار تھی مگر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
رافعہ میرے ساتھ لیٹ گئی اور میرے نپلز اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی، رافعہ
الٹی لیٹی تھی اور میری ممے چوس رہی
تھی، اس نے رضوان کو اپنے پیچھے آنے کو کہا
اور کہا چوتڑ کھول کر گانڈ میں ڈال دو لن۔ رضوان فورا رافعہ کے اوپر آیا اور اسکے چوتڑ کھول کراپنا لن اسکیگانڈ میں داخل
کر دیا اور چودنے لگا۔ اب ندیم نے اپنے لن
کی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور مجھے کہا کہ
تیار ہوجاو، اور ساتھ ہی
ایک زور دار جھٹکا مارا۔ کپڑا منہ میں ہونے کے باوجود میری ایک زور دار چیخ نکلی
اور میں نے اپنے آپ کو ندیم سے چحڑوانا چاہا مگر ناکام رہی۔ ندیم کے لن کی ٹوپیمیری گانڈ میں تھی اور میرا درد کے مارے برا حال تھا۔ میری آنکھوں سے ایک ہی
دھکے میں آنسو نکل آئے تھے۔ درد اتنی شدید تھی کے میری ٹانگیں اور پورا جسم
بری طرح کانپ رہا تھا جب کہ رافعہ میرے اوپر میرے نپل چوسنے میں مصروف تھی۔
گانڈ کی درد اتنی شدید تھی کہ نپل چوسنے کا مزہ بھی اب محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ندیم
نے میری دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھیں تاکہ میں چھڑوا نہ سکوں۔ کچھ دیر بعدندیم نے ایکاور زور دار دھکا مارا اور اب کی بار میری چیخ پہلے سبھی
زیادہ تھی۔ اور میں نے مسلسل چیخنا
شروع کر دیا تھا اور اپنے جسم کا پورا زور لگانا
شروع کریا کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں گانڈ مروانی۔ مگر ندیم نے مجھ پر ذرا بھی
رحم نہ کھایا اور میرے جسم کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ میں نے رضوان کی بھی
منتیں کیں کہ پلیز مجھے اس مصیبت سے نجات دلواو مگر وہ تو اس وقت رافعہ کی گانڈ مارنے میں مصروفتھا اور وہ چاہتا
تھا کہ ایک بار میری بھی گانڈ کی چودائی
کرے ندیم تاکہ بعد میں رضوان بھی میری گانڈ ما ر
سکے۔ لہذا وہ بھی میری مدد کو نہ
آیا اور مجھے تسلی دینے لگا کہ حوصلہ رکھو ابھی تمہیں مزہ آنے لگے گا جیسے رافعہ مزے سے گانڈ چدوا رہی ہے۔ آخر
کار ندیم نے ایک اور آخری دھکا مارا اور اسکا
لن کافی حد تک میری گانڈ میں غائب
ہوچکا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے
میں ابھی بے ہوش ہوجاوں گی۔ ایک تو
ندیم کا لن بہت موٹا تھا اوپر سے وہ میری گانڈ
میں تھا۔ میری چیخیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اور میری ٹانگیں اب
کانپ رہی تھیں۔ اور ٹانگوں میں جسیسے جان بالکل ختم ہوچکی تھی۔ آنکھوں سےمسلسل آنسو جاری تھے۔ ندیم کچھ دیر ایسی ہی میری گانڈ میں لن ڈالے کھڑا رہا۔ جب
میری درد کی شدت کچھکم ہوئی تو ندیم
نے لن باہر نکلانا شروع کیا تو میری درد ایک
بار پھر تیز ہوگئی اور میں نے پھر سے اسکی
منتیں کیں کہ پلیز میری گانڈ مت مارو۔
مگر ندیم نے اپنا پورا لن میری گانڈ سے
نکاال صرف ٹوپی اندر رہنے دی اور ایک
بارپھر ایک زور دار دھکا مارا تو اسکا لن میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر تک چال گیا۔ اورایک بار پھر میری چیخوں سے کمرہ
گونجنے لگا۔ ندیم نے پھر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر سے لن باہر نکال کر دھکا مارا ۔ اب کی بار وہ انتظارنہیں کر رہا تھا وہ
بہت آہستہ آہستہ اپنا لن باہر نکالتا اور اک دم سے دھکا ما ر
کر میری گانڈ پھاڑ کر رکھ دیتا۔ ہر دھکے
پر مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میری گانڈ کو
کسی لوہے کے راڈ نے چھیل کر رکھ دیا ہو۔ 10 منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ندیم آہستہ آہستہ لن باہر نکالتا اور پھر ایک
زور دار دھکا مار کر لن اندر ڈال دیتا۔ اور میں
مسلسل 10 منٹ سے تکلیف میں تھی ۔ اب تو میری چیخیں بھی نکلنا بند ہوگئی تھیں کیونکہگال خشک ہوکاتھا۔ رضوان ان
10 منٹ کے دوران اپنی منی رافعہ کی گانڈ میں
نکال چکا تھا۔ اور اب رافعہ میرے نپل
چھوڑ کر اسکا لن چوسنے میں مصروف تھی۔
میرا درد اور پیاس سے برا حال تھا۔ میں
نے پانی مانگا تو رافعہ نے مجھے پانی
پالیا
تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اب ندیم نے ایک بار اپنا
لن میری گانڈ سے نکاال تو مجھے
لگا کہ اس تکلیف سےنجاتمل گئی۔ مگر ندیم نے میری گانڈ میں ایک بار پھر کریم
لگائی اور بولا کہ تمہاری گانڈ کچھ زیادہ ہی ٹائٹ ہے، رافعہ کی گانڈ بھی پہلی بار میں
نے ہی پھاڑی تھی مگر وہ اتنی ٹائٹ نہیں
تھی اور 5 منٹ بعد ہی رافعہ مزے میں تھی۔