Hostel - Part 2

ہاسٹل

آخری پارٹ 



پلوشہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

شاہ میر اگر مجھے یہ بات نہ بھی کہتا تو میں خود بھی کسی نہ کسی دن کوئی راستہ ڈھونڈتی۔

شاہ میر بولا:دیکھو وشی! بہت مزہ آتا ہے، تم ٹرائی تو کرو۔

میں نے کہا:نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا،یوں ننگی ہونا اور وہ اندر ڈلوانا۔

وہ بولا:یار ایک بار کوشش تو کرو۔

میں نے کہا:اچھا پہلے ہم اندر نہیں ڈالتے بس اوپر اوپر سے کرتے ہیں۔

شاہ میر مایوس سا ہوا اور بولا:ٹھیک ہے مگر تم پھر مجھے صابراں کے ساتھ کرنے دینا۔

میں نے کہا:تم اس نوکرانی کے دیوانے ہو۔

وہ بولا:ایسی بات نہیں ہے وشی،،میں صرف اس کی کوس مارتا ہوں،وہ بھی بس شلوار اتار کر کبھی پوری طرح انجوائے نہیں کیا،سدرہ بھی بس ڈری ڈری سی کرواتی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔


میرا دل تو چاہتا تھا مگر میں اپنی سیل نہیں کھلوانا چاہتی تھی،اسی لیے کوئی راستہ سوچ رہی تھی۔

آخر رات کو میں دبے پاؤں شاہ میر کے کمرے میں گئی۔ وہ جاگ رہا تھا اور میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔

میں بولی:اچھا اب کیسے شروع کریں،،

وہ بولا:کپڑے اتارو۔

میں نے کہا:نہیں پہلے تم ایسے ہی میرے اوپر لیٹو۔

میں لیٹ گئی۔ اس نے میری چھاتی سے دوپٹہ ہٹایا اور میری قمیض ناف تک ہٹا دی اور بولا:یار اتنا تو کر لو،،کم از کم گرم جسم تو ٹکرائیں۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

وہ صرف ٹراؤزر پہنے میرے اوپر لیٹ گیا۔ اس کا وزن بہت زیادہ تھا،مگر مجھے برا نہیں لگ رہا تھا۔

وہ کہنے لگا:وشی ٹانگیں کھولو،،

میں نے ٹانگیں ذرا سی کھول دیں۔ اس نے اپنا کھڑا ہوا لن میری کوس پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سے مسلنے لگا۔

ساتھ ہی وہ میری عریاں چھاتی اور گلے کو زبان سے چاٹنے لگا۔

میں نے اسے کہا:میرو! میرے فیس پر کس مت کرنا،،بس گلے تک ہی رہنا۔


پلوشہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

شاہ میر اگر مجھے یہ بات نہ بھی کہتا تو میں خود بھی کسی نہ کسی دن کوئی راستہ ڈھونڈتی۔

شاہ میر بولا:دیکھو وشی! بہت مزہ آتا ہے، تم ٹرائی تو کرو۔

میں نے کہا:نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا،یوں ننگی ہونا اور وہ اندر ڈلوانا۔

وہ بولا:یار ایک بار کوشش تو کرو۔

میں نے کہا:اچھا پہلے ہم اندر نہیں ڈالتے بس اوپر اوپر سے کرتے ہیں۔

شاہ میر مایوس سا ہوا اور بولا:ٹھیک ہے مگر تم پھر مجھے صابراں کے ساتھ کرنے دینا۔

میں نے کہا:تم اس نوکرانی کے دیوانے ہو۔

وہ بولا:ایسی بات نہیں ہے وشی،،میں صرف اس کی کوس مارتا ہوں،وہ بھی بس شلوار اتار کر کبھی پوری طرح انجوائے نہیں کیا،سدرہ بھی بس ڈری ڈری سی کرواتی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔


میرا دل تو چاہتا تھا مگر میں اپنی سیل نہیں کھلوانا چاہتی تھی،اسی لیے کوئی راستہ سوچ رہی تھی۔

آخر رات کو میں دبے پاؤں شاہ میر کے کمرے میں گئی۔ وہ جاگ رہا تھا اور میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔

میں بولی:اچھا اب کیسے شروع کریں،،

وہ بولا:کپڑے اتارو۔

میں نے کہا:نہیں پہلے تم ایسے ہی میرے اوپر لیٹو۔

میں لیٹ گئی۔ اس نے میری چھاتی سے دوپٹہ ہٹایا اور میری قمیض ناف تک ہٹا دی اور بولا:یار اتنا تو کر لو،،کم از کم گرم جسم تو ٹکرائیں۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

وہ صرف ٹراؤزر پہنے میرے اوپر لیٹ گیا۔ اس کا وزن بہت زیادہ تھا،مگر مجھے برا نہیں لگ رہا تھا۔

وہ کہنے لگا:وشی ٹانگیں کھولو،،

میں نے ٹانگیں ذرا سی کھول دیں۔ اس نے اپنا کھڑا ہوا لن میری کوس پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سے مسلنے لگا۔

ساتھ ہی وہ میری عریاں چھاتی اور گلے کو زبان سے چاٹنے لگا۔

میں نے اسے کہا:میرو! میرے فیس پر کس مت کرنا،،بس گلے تک ہی رہنا۔


اس نے ہاتھ سے میرے پستان دبانے شروع کر دیئے۔ یہ کام بھی مزیدار تھا۔ اس کے لن کی رگڑیں مجھے بھلی لگ رہی تھیں مگر کنوارہ پن کھونے کا میرا ارادہ نہ تھا۔

میری شلوار اور اس کا ٹراؤزر دونوں گیلے ہوں گئے تو وہ بولا:یار ایک بار اندر تو ڈلوا کے دیکھو مزہ آئے گا۔

میں نے کہا:نہیں،،مزہ تو آ رہا ہے مگر،،میں اپنی ،،،ابھی نہیں مرواؤں گی۔

شاہ میر ذرا زچ ہو کر بولا:پھر یار کیسے کریں،بنا کوس کے اندر ڈالے مجھے مزہ نہیں آتا۔ یا پھر اگر تم کہو تو،،

میں نے کہا:تو،،کیا۔

شاہ میر بولا:تم گانڈ میں ڈلوا لو۔


میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں بولی:یار پلو! تو واقعی پٹھان ہے ہاہاہا،

پلوشہ بولی:اس نے کبھی گانڈ نہیں ماری تھی مگر اسے لن ڈالنے کی کوئی تو جگہ چاہیئے تھی نا۔


میں نے کہا:نہیں گانڈ بھی نہیں،،کوئی اور طریقہ۔ اچھا میرو ! اگر میں منہ میں لوں تو۔

وہ حیران ہو کر بولا:منہ میں،،تمہیں کیسے پتہ کہ منہ میں بھی لیتے ہیں،

میں نے کہا:تمہاری ان سی ڈیز نے کہا۔

وہ بولا:دیکھ لو اگر تم راضی ہو تو ٹھیک ہے، میں نے کبھی منہ میں ڈالا نہیں ہے۔ 

اس نے لن باہر نکالا اور کھڑا ہو گیا۔

میں نے کہا:ایسے نہیں ،تم کنڈوم چڑھا لو پتہ نہیں کیسا ذائقہ ہو۔

وہ بولا:کنڈوم تو میرے پاس نہیں ہے۔

میں نے کہا:تم اپنے پاپا کے کمرے کی دراز سے لے آؤ۔

وہ بولا:تم نے دیکھے ہیں وہاں۔ 

میں نے کہا:ہاں۔


وہ دبے پاؤں اپنے بابا کے کمرے میں چلا گیا اور میں اپنے کمرے میں آ گئی۔

پندرہ منٹ بعد وہ مجھے ٹیرس پر بلانے لگا۔

جب میں نے کوس مروانی ہی نہیں تھی تو اس کے کمرے میں جانے کا رسک کیوں لیتے۔ ٹیرس میں سے ہم دونوں باآسانی ضرورت پڑنے پر مختلف سمتوں میں جا سکتے تھے۔


وہ آیا تو میں نے پوچھا:بڑے پاپا جاگے تو نہیں،

وہ بولا:نہیں بس دراز کھلنے سے آنکھ کھولی مگر مجھے پا کر پھر سو گئے۔

اس نے کنڈوم لن پر چڑھایا اور بولا:تم نیچے بیٹھ جاؤ۔ 

میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور گیلا گیلا تیل جیسا چکنا اور کھردرا لن منہ میں ڈالا۔

ذائقہ کسی لپ سٹک جیسا تھا جو لڑکی ہونے کی وجہ سے میرے لیے اتنا برا نہ تھا۔

شاہ میر نے میرے ممے پکڑ لیا اور انھیں دبانے لگا۔ 

میں لن کو پکڑے اندر باہر کرنے لگی تو شاہ میر بولا:یار مزہ نہیں آ رہا،تمھیں چوسنا نہیں آتا۔

وہ بولا:تم ایسا کرو لیٹو اور منہ کو سختی سے بند کرو۔

میں فرش پر لیٹ گئی تو وہ سائیڈ سے میرے منہ کے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے لن میرے منہ میں ڈالا اور بولا:کس کے بند کرو تاکہ یہ باہر نہ نکل سکے۔

میں نے منہ کس کے بند کر لیا اور وہ کوس مارنے کی طرح دھکے لگانے لگا۔ لن میرے حلق تک جاتا اور کئی بار تالو سے جا لگا۔ میں نے ایک دو بار بیچ میں بریک لی کیونکہ مجھے الٹی آنے لگی تھی۔


شاہ میر بولا:اچھا ایک اور طریقہ ہے تم مموں میں پھنسا کر مجھے فارغ کر دو۔

طریقہ مشکل تھا کیونکہ مجھے قمیض اتارنی پڑتی مگر اب اسے بھی تو فارغ کرنا تھا سو میں بادل نخواستہ مان گئی۔یہ بھی ٹرائی کیا گیا،میں دوبارہ اس کے کمرے میں گئی،وہاں قمیض اتاری۔ اس نے میرے ممے چوسے۔ جس سے میں تو تقریبا" مطمئن ہو گئی مگر وہ چھوٹے بغیر کیسے راضی ہوتا۔

اس نے دونوں مموں کے درمیان لن ٹکایا،میں نے مموں کو سائیڈ سے درمیان میں کیا تاکہ لن پھنس جائے۔ پہلے ہی جھٹکے سے میری آہ نکل گئی۔ کنڈوم نے مموں کو کھردری سی رگڑ لگائی تھی۔

اس نے کنڈوم اتار دیا اور لن کو مموں میں گھسنے لگا۔ ممے دبانے سے مجھے اچھا لگ رہا تھا مگر شاہ میر اس سے بھی خوش نہ تھا کیونکہ وہ صرف کوس مارنا چاہتا تھا۔ یہ سب بس چھوٹنے کے لیے کر رہا تھا۔

وہ میرے گلے اور گردن پر چھوٹ گیا جس سے شدید غلاظت کا احساس ہوا۔ 

وہ بولا:یہ کوس میں لینے کی چیز ہے باہر تو نری گندگی ہی پھیلاتی ہے۔ تم کل صابراں کو میرے پاس بھیجنا۔

میں اٹھی جسم کو صاف کیا اور قمیض پہن لی۔

مجھے اچانک خیال آیا،میں نے کہا:میرو! اگر بڑے پاپا نے کنڈوم گن کر رکھے ہوئے تو،،،

وہ بھی اچانک چونک گیا اور بولا:ارے ہاں،،اب۔

میں نے کہا:تم کل اپنے لیے اور لانا ۔ پہلے ایک ویسا ہی کنڈوم دراز میں رکھ دینا۔


اگلی رات شاہ میر بولا:وشی! مجھے کوس مارنی ہے بس اور کچھ نہیں،منہ میں یا مموں 

میں مجھے مزہ نہیں آتا۔

میں نے کہا:اچھا تم گانڈ مار لو۔

وہ کسی قدر راضی ہو گیا،تو میں بولی:اندھیرے میں ہی میں گانڈ مرواؤں گی۔

وہ بےصبری اور اکتاہٹ بولا:جو مرضی کرو بس شلوار اتارو،میں تنگ آ گیا ہوں۔

میں نے لائٹ بند کی،اور بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی۔ اس نے لن میرے چوتڑوں میں رکھا اور انگلی سے سوراخ ٹٹولنے لگا۔ 

تھوڑی دیر بعد بولا:وشی یہ تنگ ہے،کوس سے،درد ہو گا میں تیل لگا کر ڈالتا ہوں۔

وہ اٹھا اور تیل لے آیا،اس نے لن کی ٹوپی اور گانڈ میں تیل لگایا۔

وہ کنڈوم پہنے لگا تو میں بولی:یہ مت پہنو میری کھال چھیلنی ہے کیا۔

اس نے انگلی سے اندر ذرا سا تیل لگایا تو میں چلا اٹھی:میرو!اندھے ہو کیا؛درد ہوتا ہے۔

وہ بولا:ابھی تو انگلی ہی ڈالی ہے،لن باقی ہے۔تم سوچ لو گانڈ مروانی ہے یا کوس ماروں۔

"تمہیں جو کہا ہے وہ کرو بس"مجھے غصہ آ گیا۔

اس نے اپنا موٹا لن میری گانڈ کر سوراخ پر رکھا تو مجھے درد ہونے لگا،اس نے ایک زوردار جھٹکا دیا تو میری گانڈ جیسے چر گئی۔

میں بلک اٹھی،ابھی صرف ٹوپی ہی گئی تھی،میں رونے لگی:میرو!پلیز باہر نکالو مجھے درد ہو رہا ہے،اف میرو پلیز،،

وہ بولا:وشی ابھی تو صرف سر گیا ہے،لن تو باقی ہے۔

ہم دونوں اناڑی تھے،اب تک وہ ایک شادی شدہ اور ایک سدرہ جیسی بار ہا بار چدی لڑکی کو چود چکا تھا، جبکہ میں ناصرف کنواری تھی بلکہ گانڈ مروا رہی تھی۔

اس نے ہلکہ سا دباؤ ڈالا تو میں اور رونے لگی اور اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ میرے اوپر تھا اور وہ بھی پیچھے سے میں اٹھ نہ سکی۔

آخر ایک ہی منٹ میں میری بس ہو گئی،میں بول اٹھی:میرو! پلیز نکال لو،تم میری کوس مار لینا۔ پلیز یہاں سے نکالو۔

وہ بولا:وعدہ ۔

میں نے کہا:ہاں ہاں وعدہ،،مگر آج نہیں کل۔

وہ بولا:نہیں ابھی اسی وقت۔ یہیں سے میں نیچے والے سوراخ میں گھسا دونگا،،بولو منظور۔

مرتی کیا نہ کرتی۔

میں نے ہامی بھر لی۔

اس نے لن باہر کھینچ لیا،سکون سا آیا مگر درد ابھی بھی گانڈ میں برقرار تھا۔

اس نے میرے سر کے نیچے سے تکیہ نکال کر اور ایک کشن اٹھا کر میری ناف سے ذرا سا نیچے رکھ دیا۔

میں کولہے عمودی رخ میں جسم سے کچھ انچ اونچے ہو گئے۔ میری کوس اس کے سامنے ذرا واضع جگہ پر آ گئی۔ 

اس نے میری شلوار اب پوری اتار دی اور لن میری کوس کے سوراخ پر رکھا۔

ایک زوردار جھٹکا دیا اور لن میرا پردہ پھاڑتا ہوا اندر گھس گیا۔

اگر شاہ میر نے پہلے میری کوس میں لن ڈالا ہوتا تو میں اس درد سے تڑپ اٹھتی مگر گانڈ کے درد کے سامنے یہ کچھ بھی نہ تھا۔

لن اندر گہرائی تک جانے لگا،خون باہر کیسے نکلتا کیوں کہ کوس کا منہ اوپر کی طرف تھا۔

میری تنگ کوس اور پوزیشن کی وجہ سے شاہ میر 5-7 منٹ ہی میری کوس مار سکا اور چھوٹ گیا۔

چھوٹنے کے بعد کنڈوم کا خیال آیا۔

میں اٹھی تو کوس سے خون، شاہ میر کی منی اور میرا اپنا پانی سب اچانک بہہ کر میری رانوں اور بستر کو رنگین کر گیا۔

بستر پر خون بہت سارے سوالات اٹھا سکتا تھا، سو چادر اسی وقت دھونی پڑی۔

وہ پہلی بار تھا پھر تو جیسے تانتا بندھ گیا،شاہ میر مجھے دن میں کئی کئی بار چودتا،

ہم کچن،ٹیرس،گیراج،الماری،باتھ روم،چھت ہر جگہ پر پانچ پانچ منٹ کے لیے ہی صحیح چودتے ضرور۔

ہم مل کر بلیو پرنٹ دیکھتے اور کچھ ہی دنوں بعد میں گانڈ بھی مروانے لگی۔

یہ ھی میری پہلی چدائی،اب بتاؤ چائے بناؤ گی،،یا چیک کروں۔


پلوشہ کی بات سن کر میں بولی:چیک کرنے کی ضرورت نہیں میں پوری طرح گیلی ہو چکی ہوں،میں چائے بناتی ہوں۔

یہی حال باقی دونوں کا تھا سو سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے پڑیں۔


ہمیں سوتے سوتے رات کے 2 بج گئے



ختم شدہ


*

Post a Comment (0)