ماں کا بدلہ
قسط 1
میرے تمام چاہنے والوں کو میرا سلام جن کی محبتیں میرا حوصلہ ہیں۔ ایک نئی کہانی کے ساتھ حاضر ہوئی ہوں امید ہے یہ اپروو ہو جائے گی اور کچھ فن تقسیم ہوگا۔ تو چلتے ہیں کہانی کی طرف اور یہ کہانی بھی جس پہ گزری ہے اسی کے انداز سے لکھی جائے گی ۔ میرا نام علی ہے اور یہ میری سچی آپ بیتی ہے جو آپ لوگوں تک پہنچے گی ۔ ہم چار بہن بھائی ہیں ابو ایک درمیانے درجے کے کاروباری اور امی ایک بہت اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں یہ تب کی بات ہے جب میں کلاس آٹھ میں تھا باقی ایک بھائی اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹے ہیں میں سب سے بڑا ہوں۔ ہم سب امی کے سکول میں ہی پڑھتے تھے اور انہی کے ساتھ سکول آتے جاتے تھے ایک وین ہمیں سکول سے پک ڈراپ کرتی تھی جس میں اور بچے اور ٹیچرز بھی ہوتے تھے۔ کہانی تب سے شروع ہوتی ہے جب میں آٹھویں کلاس میں تھا میرا ایک ہی اچھا دوست تھا جس کا نام یاسر تھا۔ ایک دن سکول بریک میں جب میں کینٹین سے واپس کلاس کی طرف جا رہا تھا تو یاسر کے ساتھ ہی میرے کلاس کے دو لڑکے عمیر اور یوسف کھڑے تھے اور کسی بات پہ ہنس رہے تھے مجھے دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ کچھ پریشان سے ہو گئے۔ میں جا کر ان سے ملا اور باتیں کرنے لگا لیکن وہ تینوں کچھ الجھے الجھے نظر آئے اور جلد ہی وہ دونوں کھسک گئے اور اب میں اور یاسر اکیلے رہ گئے ۔ پہلی بار میں نے نوٹ کیا کہ یاسر مجھ سے نگاہیں چرا رہا ہے جیسے وہ کچھ بات چھپانا چاہ رہا ہو۔ میں نے یاسر سے پوچھا کیا مسئلہ ہے تم اتنے پریشان کیوں ہو رہے ہو؟ یاسر ایک دم بوکھلا سا گیا اور بولا کچھ بھی ایسا نہیں ہے ۔
لیکن میں شک میں پڑ چکا تھا اور میں نے یاسر سے پوچھا لیکن وہ بات کو ٹالنے لگا۔ میں بار بار اس سے بات کے لیے اسرار کرنے لگا لیکن اس کے بات بتانے سے پہلے ہی بریک ختم ہو گئی اور ہمیں کلاس میں جانا پڑا۔ یاسر کے اس رویے سے مجھے اس پہ بہت غصہ آیا اور میں اس سے ناراض ہو گیا کلاس میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور چھٹی کے بعد گھر آ گیا ۔ اس سے ناراضگی کی وجہ سے میں کھیلنے کے لیے گراونڈ میں بھی نہ گیا اور جب شام میں وہ میرے گھر کھلینے کے لیے مجھے لینے آیا تو میں نے اسے منع کر دیا اور اسے واپس بھیج دیا یاسر نے بہت منت سماجت کی لیکن میں نے اس کی کوئی بات نا مانی اور ناراض ہی رہا تھک کہ وہ بھی واپس چلا گیا۔ اگلے دن سکول میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور بریک تک وہ مجھے منانے کی کوشش کرتا رہا لیکن میں نے اس سے بات نہ کی۔ جونہی بریک ہوئی میں باہر جانے لگا تو اس نے ایک دم میرا بازو پکڑ لیا اور مجھے کہا دیکھو علی ناراض مت ہو میں وہ سب تمہیں بتا دیتا ہوں لیکن مجھ سے ایک وعدہ کرو پہلے۔ میں نے جب یہ دیکھا کہ وہ مجھے بات بتانے کے لیے راضی ہے تو میرا دل نرم ہوتا گیا ۔ میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے بولو کیا وعدہ کرنا ہے،؟؟ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ میں نے یاسر کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مجھے بے بس نظر آیا اور بولا دیکھ علی تم ضد کر رہے ہو اور ناراض ہو لیکن یہ بات جان کہ تم اور ناراض نہ ہونے کا وعدہ کرو تو بتا دوں گا لیکن یہ وعدہ کرو کہ یہ بات کسی کو نہیں بتاو گے اور مجھ سے ناراض بھی نہیں ہو گے۔ یہ وعدہ کرنے میں مجھے تو کوئی مشکل نہ تھی اس لیے میں نے اس کا ہاتھ تھامے اس سے وعدہ کر لیا ۔ سارے بچے کلاس سے نکل چکے تھے میں اور وہ کلاس میں کھڑے تھے۔ یاسر نے میرا ہاتھ چھوڑا اور کلاس روم سے باہر جھانک کہ اندر میری طرف مڑا اس کے چہرے پہ ہوائیں اڑ رہی تھی اور وہ بار بار اپنی زبان ہونٹوں پہ پھیر رہا تھا اور بولنے کی ہمت جمع کر رہا تھا اور میں اس کی طرف مشتاق نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی مجھے کرتب دکھانے والا ہو میرا بھی سسپنس عروج پہ تھا کہ جانے اب کیا بات مجھے پتہ چلے گی میں یاسر کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ بات کرنے کی ہمت جمع کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا بات ہے آخر بتاو تو سہی۔ یاسر نے بے بسی سے سر ہلایا اور ہاتھ ملتے ملتے بولا یار علی میں کیسے بتاوں تمہیں یہ بات؟؟ میں نے کہا جس طرح تم ان سے ہنس ہنس کہ بات کر رہے تھے اسی طرح بتا دو مجھے کیونکہ مجھے بھی بہت سسپنس ہو رہا تھا کہ جانے اب بات کیا ہے ۔ یاسر نے اسی طرح الجھے ہوئے لہجے میں کہا یار ناراض نہ ہونا لیکن وہ عمیر کہہ رہا تھا کہ اس کو ٹیچر شازیہ (امی) کے دودھ بہت اچھے لگتے ہیں اور جب وہ جھک کہ پڑھاتی ہیں یا کاپی چیک کرتی ہیں تو گلے سے اندر تک نظر آتے ہیں اور پھر ان کے موٹی بنڈ میں جب قمیض پھنستی ہے تو میری للی کھڑی ہو جاتی ہے یہ سب وہ کہہ رہا تھا یاسر نے یہ ساری بات جلدی جلدی ایک ہی سانس میں کی لیکن میرے کانوں میں جیسے سائیں سائیں ہونے لگا، یہ بات مجھے بہت ہی بری لگی اور میرا سارا وجود جھنجھنا اٹھا میں ایک جھٹکے سے آگے ہوا اور یاسر کا گلہ پکڑا اس سے پہلے کہ میں اسے مارتا اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور جلدی سے بولا دیکھ علی تو نے وعدہ کیا تھا کہ ناراض نہیں ہوگا اور کسی کو نہیں بتائے گا۔ دیکھ تو مجھے مارے گا تو بات باہر نکل جائے گی۔ اس کی بات سن کہ میں نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا لیکن مجھے بہت غصہ آیا ہوا تھا میرا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو چکا تھا اور مجھے اپنے کان کی لووئیں جلتی محسوس ہو رہی تھیں ۔ میں نے خونخوار نظروں سے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ پھر بولا یار وہ یہ بات کہہ رہا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اب اتنی سمجھ مجھے بھی تھی کہ اس بات سے امی کی بدنامی ہو گی میں نے اس لیے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ یاسر میرے سامنے کھڑا تھا اور میں کرسی پہ بیٹھ چکا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا اور کیا بکواس اس کمینے نے کی؟ یاسر میرے پاس آیا اور بولا دیکھ علی خود کو کنٹرول کر میں تمہیں سب بتا دوں گا اور اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ مجھے تھپکی دی اور کہنے لگا دیکھ میں جانتا ہوں یہ بہت بری بات ہے لیکن ہم اس پہ کوئی ایکشن اس طرح نہیں لے سکتے
میں عمر کے اس دور سے گزر رہا تھا جہاں ابھی ابھی جنس کے فرق کا اندازہ ہونا شروع ہوا تھا مرد اور عورت کے جسمانی اعضا میں فرق ہے یہ علم تو بچپن سے ہی دیکھے گئے کئی مناظر نے بتا دیا تھا ۔ (یہاں ایک بات بتاتی چلوں کہ بہت سی عورتیں چھوٹے بچوں کو معصوم سمجھتے ہوئے ان کے سامنے لباس بدل لیتی ہیں یا ان کو نہلاتے ہوئے نہا لیتی ہیں یا ٹوائلٹ استعمال کر لیتی ہیں جس سے ان کے پوشیدہ حصے اس بچے کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے یہ انتہائی غلط حرکت ہے اور بچے کے زہہن پہ بہت برا اثر ڈالتی ہے اس سے بچنا چاہیے۔ ) تو مجھے یاسر کی بات انتہائی بری لگی کیونکہ اتنا تو میں جانتا تھا کہ امی کے یا ان کے جسم کے بارے میں ایسا بولنا گندی بات ہے جس پہ مجھے غصہ بھی آیا تھا لیکن بچپنا بھی تھا تو اس لیے سوچ وعدے کا پاس رکھنے کی بھی تھی اور یہ بھی کہ اگر لڑائی کی جائے تو بات نکلے گی اور جب امی کو پتہ چلے گا تو کتنا برا لگے گا تو میں غصے کے باوجود چپ ہو گیا۔ یاسر نے مجھے کہا کہ چلو آو باہر چلتے ہیں میرا موڈ تو نا تھا مگر میں یاسر کے ساتھ کینٹین کی طرف چل پڑا۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں کامیاب بھی رہا۔ کلاس روم سے کینٹین کے راستے کئی بچے ملے لیکن میں خاموش یاسر کے ساتھ چلتا ہوا کینٹین کی طرف چل پڑا۔ ہم نئے نئے جوان ہو رہے تھے تو کینٹین کی رش میں کئی بار ہم نے کلاس کی یا دیگر لڑکیوں کے کولہوں پہ ہاتھ لگانے کی شرارت کی ہوئی تھی اور ہم اسے ایک ایڈونچر کے طور پہ کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے اس پہ منع یا شکایت اس لیے نہیں لگائئ تھی کہ وہ چھونا بس ہلکے سے چھونے تک تھا اور کئی بار تو شائد متاثرہ لڑکی نے لمحاتی لمس کے سوا اس پہ سوچا بھی نہ ہو ۔ خیر ہم کینٹین پہ پہنچے تو ہم نے چیزیں لیں اور میرے حصے کے پیسے بھی میرے بہت منع کرنے کے باوجود یاسر نے دئیے۔ ہم چیزیں لیکر باہر گراونڈ کی طرف آئے لیکن اس سے پہلے ہم کوئی بات کرتے تو بریک ختم ہو گئی۔ امی ہماری کلاس میں دو پیریڈز لیا کرتی تھیں اور وہ بہت ہنس مکھ اور نرم دل ٹیچر تھیں کلاس کے سبھی بچے ان سے بہت خوش تھے مجھے حیرت تھی کہ کوئی بچہ ان کے بارے میں غلط بات کیسے کر سکتا ہے؟ میں عمر کے اس دور میں تھا جہاں سسپنس اور سیکھنے کی لگن زیادہ ہوتی ہے تو یہی لگن مجھے بہت کچھ سکھاتی گئی اور میرا سب کچھ بدلتا گیا جیسے ہی ہم کینٹین سے اٹھنھ لگے تو یاسر نے مجھے کہا کہ علی پلیز خود پہ قابو رکھنا اور ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے کوئی معاملہ بگڑ جائے ۔ میں نے نا سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا مطلب ہے ؟ تو اس نے کہا دیکھو اب تمہاری امی بھی کلاس لیں گی اور کلاس کے دوران کوئی لڑکا انہیں دیکھ رہا ہوا تو اسے نارمل لینا پہلے کی طرح جیسے تمہیں علم ہی نہیں ہے پلیز خود پہ کنٹرول کرنا۔ یاسر کی بات مجھے سمجھ آ گئی اور ہم کلاس کی طرف بڑھ گئے۔ اگلی کلاس اور ٹیچر کی تھی اس کے بعد پھر جب امی کلاس میں آئیں تو ہم سب نے کھڑے ہو کہ ان کو ویلکم کیا اور پہلی بار میں نے ان کی طرف ایک ٹیچر کی طرح دیکھا۔ اس سے پہلے تو وہ صرف امی ہی تھیں ان میں عورت کبھی دیکھی ہی نہ تھی نا کبھی ایسی سوچ بنی تھی۔ باقی ٹیچرز کو ہم بھی تاڑتے تھے اور آپس میں ہلکی پھلکی گپ بھی ہو جاتی تھی اور کسی نظارے کو دیکھ کہ اپنی للی کو تنہائی میں سہلا بھی لیتے تھے لیکن انی کے بارے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ایک پیاری سی آنٹی نما ٹیچر کمرے میں داخل ہوئی ہیں جن کا دوپٹہ ان کے گلے میں ہے ان کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور کشش ہے اور آنکھوں میں چمک ہے جیسے آنکھیں مسکرا رہی ہوں ۔ گورے گورے پھولے ہوئے شہد سے رنگ کے گال اور سرخ ہونٹ جو کہ اوپر نیچے ایک جتنے موٹے اور شاندار شیپ کے، کالے بالوں کی ایک لٹ ان کے چہرے پہ آئی ہوئی تھی جس کو وہ اپنے خوبصورت مخروطی ہاتھوں سے کان کے پیچھے کر رہی تھیں لیکن وہ کمبخت بار بار چہرہ چومنے کو آگے بھاگ آتی تھی ۔ لمبی سفید گردن اور گردن کے نیچے دو بڑے بڑے گول غبارہ نما ممے جن کی اٹھان ان کو نمایاں کر رہی تھی اور ان کی بلندی بتا رہی تھی کہ یہاں پہنچنا آسان نہیں ہے اور ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ نیچے سڈول سا پیٹ اور گول گول گدرائی ہوئی رانیں۔ میں انہماک سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ یاسر نے مجھے ہلکا سا ہلایا تو میں شرمندہ سا ہو کر اس کی طرف مڑا۔ یاسر نے سرگوشی کی کہ پلیز نارمل رہو اس طرح ری ایکٹ کرو گے تو انہیں بھی شک ہو جائے گا۔ یاسر کی بات سنتے ہی میں بھی سیدھا ہوا اور پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ امی نے بھی ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔ میں اور یاسر اگلے بینچ پہ سائیڈ دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور پڑھاتے پڑھاتے امی جب بورڈ کی طرف مڑیں تو پیچھے کا نظارہ دیکھ کہ ایک لمحے کے لیے میرا بھی منہ کھل گیا ۔ امی نے ایک پاوں پہ وزن ڈالا ہوا تھا جس سے ان کا وزن کی سائیڈ والا گانڈ کا بھاری بھر کم حصہ نیچے تھے اور دوسرا حصہ اوپر تھا لکھتے لکھتے جیسے ہی انہوں نے وزن دوسری ٹانگ پہ منتقل کیا تو کولہوں نے اسی طرح اوپر نیچے ہو کر اپنی جگہ تبدیل کی ۔ لیکن جگہ تبدیل ہوتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے اور دور ہوئے اور اپنی درمیان وسیع اور عریض وادی کے روبے کو بھی نمایاں کیا۔ یہ منظر دیکھ کہ میں نے فورا عمیر اور یوسف کی طرف دیکھا تو ان کی نظر بھی امی پہ تھی اور پھر میں نے غیر محسوس انداز میں دیکھا تو کلاس کا ہر لڑکا اسی نظارے میں ڈوبا ہوا تھا البتہ لڑکیاں شائد یہ نہیں دیکھ رہی تھیں ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ امی اس وقت جو کچھ پڑھا رہی ہیں وہ کلاس کا کوئی بھی لڑکا نہیں سمجھ رہا اور اس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے ۔
(انسانی زہہن بھی ایک مشین کی طرح ہے اس کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ سوچتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اس کو نظر انداز کر دو لیکن بچپن میں سیکھنے کے مراحل میں یہ ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے میں بھی ان چیزوں پہ زیادہ سوچا کرتی تھی )۔ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں تو میری نظر امی کے جسم کا احاطہ کر رہی تھی یا میں نگاہوں سے ان کا ایکسرے کر رہا تھا بلکہ کلاس کے شائد سبھی لڑکے توجہ سے ان کو دیکھ رہے تھے اور وہ ہم سب سے بے نیاز پڑھانے میں لگی ہوئی تھیں ۔ کیونکہ میں نے پہلی بار ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھا تھا اس سے پہلے تو وہ صرف امی تھیں جو شائد پلاسٹک کی یا پتھر کی مورت کی طرح مقدس تھیں جن کے بارے غلط سوچنا تک حرام تھا لیکن بات جاننے کی ضد مجھے یہاں تک لے آئی تھی کہ میں ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھ رہا تھا اور مجھے اصلی شرمندگی تب ہوئی کہ جب میری ننی منی للی جو اس وقت شائد ان کی انگلی سے کچھ ہی بڑی ہوئی ہو گی جھٹکا کھا کہ کھڑی ہو گئی اور اس کا اکڑاو اپنے انڈر وئیر میں محسوس ہوا تو میں نے ہل کہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں میری نظر یاسر پہ پڑی جو کہ نارمل لگنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ نارمل نہیں تھا۔ میں نے پھر عمیر اور یوسف کی طرف دیکھا تو وہ سب سے بے خبر بس امی پہ فوکس کیے ہوئے تھے۔ میں ساری کلاس کا جائزہ لیتا گیا ہر لڑکا تقریبا یہی کر رہا تھا سوائے دو لڑکوں کے جو کسی دیہات سے آئے ہوئے تھے اور ابھی ہمارے ساتھ اتنے فری نہیں تھے۔ امی نے کیا پڑھایا کچھ علم نہیں تھا پھر وہ کاپیاں چیک کرنے ہر ڈیسک کے پاس آتی گئیں اور ہوم ورک چیک کرنے لگیں وہ ہمارے ڈیسک کے پاس پہنچی اور جھک کہ کاپی چیک کرنے لگیں تو میری نظر ان کے گلے میں اندر گئی اور پھر وہیں کی ہو کہ رہ گئی۔ سفید رنگ کے گول مٹول بڑے بڑے تھن جن میں ایک پہ تل تھا نیلے ہی رنگ کی برا میں تقریبا آدھے ننگے نظر آ رہے تھے وہ کاپی چیک کرتے ہوئے ڈیسک پہ جھکی ہوئی تھیں کہ یوسف نے ان سے پانی پینے کا پوچھا اور ان کے پیچھے سے گزرتا ہوا باہر نکل گیا ۔ جیسے ہی اس نے پانی کا پوچھا تو میں نے بھی ان سے نظر ہٹا لی تھی۔ میری اور یاسر کی کاپی چیک کر کہ وہ پچھلی لائن میں چلی گئیں یاسر نے مجھے سرگوشی کی ایک بات بتاوں؟ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے میرے کان کے قریب ہوتے ہوئے کہا یہ ٹیچر کو پیچھے سے چھو کہ گزرا ہے اور واپسی پہ بھی ایسا کرے گا ایک کلاس میں عمیر کرتا ہے دوسرے پیریڈ میں یوسف کرتا ہے ابھی دیکھنا۔ مجھے یاسر کی بات پہ زرا یقین نہ آیا کیونکہ میرا تو یہ ماننا تھا کہ ایسی کوئی حرکت ہوئی تو امی اسے تھپڑ ماریں گی لیکن مین چپ رہا اور دیکھنے لگا کہ کب وہ واپس آتا ہے ۔ ایک دو منٹ میں ہی وہ واپس آیا تو میں نے پیچھے مڑ کہ دیکھا کہ امی کھڑی تھیں جیسے ہی اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو امی اسے اجازت دیتے ہوئے جھک گئین اور کاپی چیک کرنے لگیں ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گانڈ ابھر کر واضح ہو گئی اور یوسف جب ان کے پیچھے سے گزرا تو میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ہاتھ ایک سائیڈ پہ رکھا اور چلتے چلتے درمیان سے گزارتا ہوا پیچھے لے گیا ان کی موٹی گانڈ اس ٹکراو سے تھر تھرا اٹھی لیکن انہوں نے اس پہ کوئی ری ایکشن نہ دیا اور نہ ہی مڑ کہ یوسف کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ بات بہت بری تو لگی لیکن اس سے بھی برا مجھے امی کا چپ رہنا لگا۔ میں نے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی للی ایڈجسٹ کر رئا تھا مجھے دیکھتے ہی بوکھلا کہ اس نے وہاں سے ہاتھ ہٹا لی امی نے کلاس لی اور اسکے بعد وہ کلاس سے نکل گئیں لیکن میری سوچ میرا دماغ بدل چکا تھا میری آنکھوں کے سامنے بار بار وہ امی کی گانڈ پہ ہاتھ لگنا اور اس کا تھرتھرانا اور ہلنا اور پھر امی کا کچھ نہ کہنا مجھے دکھائی دے رہا تھا مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پہ تھی کہ امی نے اس پہ کوئی ردعمل نہ دیا تھا اور وہ یوں چپ رہی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس حرکت پہ تھپڑ تو مارنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے یوں نظر انداز کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی سوچنے کے درمیان ہماری چھٹی کا وقت ہو گیا اور ہم سکول سے نکلے تو گیٹ پہ امی بھی چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھیں میں بھی جا کہ کھڑا ہی ہوا تھا کہ وین آ گئی اور سب بچے وین کی طرف لپکے عام طور پہ میں بھی دوڑا کرتا تھا لیکن تب میرا دل کیا کہ آج امی کو پیچھے سے دیکھوں گا۔ سب بچے وین کی طرف دوڑے تو دو تین بچے امی سے ٹکرتے ہوئے وین کی طرف لپکے ان کی دیکھا دیکھی میں بھی دوڑا اور یہ کوشش کی کہ امی کے پیچھے سے ٹکرتا ہوا گزروں لیکن کیونکہ اناڑی پن تھا تو میں نے جو ہاتھ ان کی سائیڈ پہ لگانا تھا میرے اناڑی پن کی وجہ سے ان کے بھاری چوتڑوں کے بالکل درمیان میں زور سے لگا کیونکہ میں بھاگ رہا تھا تو یوں لگا جیسے کسی نے گانڈ پہ تھپڑ دے مارا ہو۔ میرا ہاتھ ان پہ لگتے ہی تھپ کی آواز آئی اور اسکے ساتھ ان کے منہ سے اوئی نکلا اور وہ بھڑک کہ پیچھے مڑی تو وہاں سے میں دوڑ کہ گزر رہا تھا اور میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ امی نے پہلے تو خونخوار نظروں سے دیکھا لیکن مجھے دیکھ کہ وہ آگے پلٹ گئیں اور چھوٹی کو اٹھا کر وین میں رکھنے لگیں۔ جیسے ہی وہ چھوٹی کو اٹھانے کے لیے جھکیں تو پیچھے ایک دلکش نظارہ تھا جو بڑی بڑی گانڈ کی وسیع پہاڑیوں کو الگ الگ کرتے ہوئے دعوت دے رہا تھا میں پھر ان کے پیچھے سے لگتا ہوا گزرا اور وین میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اب کی بار انہوں نے کہا علی زرا صبر کرو دو منٹ مجھے چھوٹوں کو پہلے بٹھانے دو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔ میں نے فورا آگے بڑھتے ہوئے پاوں واپس کھینچ لیے اور پیچھے ہٹ گیا مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کہ وہ بولیں بیٹھ بھی جاو اب لیکن میں فورا پیچھے ہو کر نیچے اترا اور پھر سے دیدار کرنے لگ گیا۔ دل کے کسی کونے میں ہلکی سی یہ آواز ابھری بھی کہ یہ غلط بات ہے لیکن وسوسے نے یہ سمجھا دیا کہ باقی کلاس فیلوز ہاتھ بھی پھیر جاتے ہیں میں تو صرف دیکھ ہی رہا ہوں ۔ امی نے سب کو گاڑی میں سوار کیا اور پھر میری طرف مڑیں اور مجھے گاڑی میں آنے کا اشارہ کر کہ سیڑھی پہ قدم رکھا میں نے سہارا لینے کے بہانے ہاتھ اوپر کیا اور ان کے ایک موٹے چوتڑ پہ لگا دیا انہوں نے دوسرا قدم اٹھایا اور گاڑی میں داخل ہو گئیں میں نے بھی وہاں دو تین بار ہھر ان کو چھو لیا ۔ اس طرح ہم گاڑی میں بیٹھے رہے میں بار بار ان کی طرف دیکھ رہا تھا جب تین چار بار ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی میری طرف دیکھا جیسے ہی ہماری نگاہیں ملی ان کی نگاہ مجھے اندر تک اترتی محسوس ہوئی جیسے میرے دل سے ہر راز کی بات نکال رہی ہوں میں نے گھبرا کہ آنکھیں چرا لیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا ۔
انی کے دیکھنے سے میں بھی کنفیوز ہو گیا اور ان سے نظر چرا لی لیکن میرا دل کر رہا تھا میں پھر ان کی طرف دیکھوں میں بار بار نظر ان کی طرف کر کہ راستے سے واپس موڑ لیتا لیکن کب تک۔ آخر میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں میں نے جیسے ہی ادھر دیکھا تو انہوں نے دانتوں سے نیچے والا ہونٹ دبایا ہوا تھا اور ان کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔ ہماری نظرین چار ہوتے ہی انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ کیا بات ہے؟ میں نے نظرین چرا کہ پھر سر جھکا لیا گاڑی میں اور بچے بھی تھے سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے میں نے پھر اپنی طرف سے نظر بچا کہ امی کو دیکھا اور پھر دیکھتا رہ گیا انہوں نے ایک ہاتھ اوپر کر کہ وین کی چھت سے لگے ڈنڈے کو پکڑا ہوا تھا جس سے ان کے مموں کی ایک سائیڈ سے چادر ہٹ چکی تھی ان کا ایک موٹا تازہ مما دوپٹے سے بالکل باہر تھا اور ان کے گلے کے درمیان گئری لائن بالکل واضح نظر آ رہی تھی ان کی گردن سے نیچے سفید رنگ میں عجب سی کشش اور جازبیت تھی۔ چلتے چلتے جیسے گاڑی ہلتی تو اسی ردھم میں ان کے ممے میں بھی ہلکی سی تھرتھراہٹ ہوتی۔ ایک بچے کے لیے اس منظر سے الگ ہونا ناممکن ہو چکا تھا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں باقی دنیا سے کٹ چکا ہوں اور دنیا میں امی کے اس ممے کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں ہے میں شاید ایک منٹ ہی یہ نظارہ دیکھ سکا کہ امی نے مجھے دیکھے بغیر اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے ممے کو ڈھانپ لیا لیکن انہوں نے میری طرف نہ دیکھا ۔ مین بھی اپنی طرف سے خوش ہوا کہ ان کو میری اس گستاخی کا علم نہیں ہوا۔ ہم گھر کے قریب سٹاپ پہ پہنچے تو گاڑی سے اترنے لگے میرے آگے جونہی امی کھڑی ہوئین تو بیچاری قمیض ان کے بھاری بھرکم چوتڑوں کے انتہائی اندر تک گھسی ہوئی تھی جس کو انہوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ ہم گھر میں داخل ہوئے اور میں اپنے کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا کپڑے تبدیل کرتے بھی میرے زہہن میں یہی سب چل رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کیوں نا امی کو دیکھا جائے وہ بھی تو کپڑے بدل رہی ہوں گی میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور ان کے کمرے کی طرف بھاگا میں نے بہانہ سوچ رکھا تھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ اگر بند ہوا تو کھول کر کہوں گا مجھے بھوک لگی ہے اور جو بھی نظارہ ہو گا دیکھ لوں گا میں بھاگتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچا تو دیکھا دروازہ کھلا تھا میں بے دھڑک اندر داخل ہوا تو امی دوپٹہ بیڈ سے اٹھا رہی تھیں اور وہ کپڑے تبدیل کر چکی تھیں مجھے دیکھ کہ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی مگر انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا اور میری طرف بڑھتی آئیں میں دروازے پہ کھڑا اپنے پلان کے ناکام ہونے کا ماتم کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ وہ میرے پاس پہنچی میرے گال سہلائے اور کہا چلو آو کچن میں چلتے ہیں کھانا کھا لو دوسرے سب تو لاونج میں بیٹھے ہیں ۔ میں نے سر ہلا دیا اور امی میرے آگے بڑھ گئیں میں ان کے پیچھے چلنے لگا اور پیچھے چلتے چلتے میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو میری سانس جیسے گلے میں اٹک گئی
جاری ہے