ماں کا بدلہ
قسط 4
آنٹی نے میرا سر سہلاتے ہوئے کہا اب تم جاو اور جیسا کہا ہے ویسا ہی کرنا اس سے ہٹ کہ کچھ نہ کرنا میں نے آنٹی کی طرف دیکھا اور ہاتھ اوپر کر کہ ان کے دونوں ممے پکڑنے کی ناکام کوشش کی آنٹی میری اس کوشش پہ ہنس پڑیں اور بولیں بدمعاش اتنے دن آیا نہیں اور جب وقت نہیں ہے تو اب کھینچنے لگا ہے اتنے دن کیوں نہیں آیا ماں چود ۔ میں شرمندہ سا ہو کہ ہنس پڑا کیونکہ مجھے آنٹی کی طرف آنے میں ایک جھجھک تھی اور اگر وہ نا بلاتیں تو شائد میں آج بھی ان کی طرف نا آتا۔ وہ خود ہی بولیں اچھا اب جاو دیر ہو رہی ہے رات شادی پہ ملتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا آنٹی بس خیال رکھنا مجھے مار نا پڑے ایسا نا ہو مجھے امی ماریں تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں اس عورت کے حسن کے لیے لوگ کیا کیا کر جائیں اور تم مار سے ڈرتے ہو اور ڈرنے والے کو کچھ نہیں ملتا اور ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں کچھ نہیں ہو گا ابھی تو یہ پہلا ٹیسٹ ہے اس پہ دیکھ کہ آگے عمل کریں گے اور میرے گال اپنے ہاتھ میں لیکر کھینچنے لگیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہتی ہو وہی ہوگا میں ویسا ہی کروں گا۔ وہ بولیں تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے تم بھی یاد کرو گے مجھے کہ کس سے دوستی کی تھی اور پھر بولیں اب جاو گھر جلدی سے مجھے بھی دیر ہو رہی ہے میں پھر ان سے مل کہ گھر کی طرف نکل پڑا۔ گھر پہنچا تو امی نے کھانا وغیرہ تیار کیا ہوا تھا مجھے گھر آتے دیکھ کہ انہوں نے کہا کہ جلدی آو کھانا کھا لو پھر ہم نے شادی پہ بھی جانا ہے میں ان کی آواز سن کہ کچن کی طرف بڑھ گیا اور امی نے مجھے کھانا دیا اور میں کھانا کھانے لگا امی مجھے کھانا دے کر کچن سے باہر نکل گئیں ۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن واش بیسن میں رکھے اور باہر نکلا تو دیکھا امی لاونج میں نہ تھیں تو میں ان کے کمرے کی طرف چل پڑا کہ اپنے کپڑون کا ان سے پوچھ لوں کہ کون سے پہنوں ۔ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک لمحے کے لیے مجھے سکتہ ہو گیا امی نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے بال کھلے ان کی کمر تک تھےاور وہ شیشے کے آگے جھکی میک اپ کر رہی تھیں ۔ دروازہ کھلنے سے انہوں نے شیشے میں ہی مجھے آتے دیکھا اور پھر میک اپ میں مشغول ہو گئیں ۔ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا تو ان کے کھلے گلے کی وجہ سے ان کے ممے آدھ ننگے شیشے میں سامنے نظر آ رہے تھے اور میں ان کے پاس کھڑا تھا ان کے جسم سے ہلکی ہلکی مہک نکل رہی تھی۔ انہوں نے اسی طرح برش چہرے پہ چلاتے ہوئے پوچھا ہاں کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا اور پھر نظر جھکا کہ کہا وہ میرے کپڑے کون سے ہیں میں کون سے کپڑے پہنوں تو امی نے ایک ادا سے سر کو جھٹکا جس سے ان کے بال ایک سائیڈ پہ ہوئے اور کندھے کے دوسری طرف سے اپنا تھا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بالوں کو پکڑا اور سیدھی کھڑی ہوئیں تو ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ ابھی امی کی قمیض پھٹ جائے گی اور یہ ممے اچھل کر باہر آ جائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ امی نے مجھے یوں تاڑتے دیکھا تو اسی انداز میں بولیں مجھے ہی دیکھتے رہو گے یا اب جا کہ تیار بھی ہو گے؟ میں نے ان کی طرف ایک ستائش بھری نظر ڈالی اور کہا امی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ماشااللہ کہیں نظر ہی نا لگ جائے۔ میرے انداز میں اتنی بے ساختگی تھی کہ امی بھی ہنس پڑین اور مڑ کہ خود کو شیشے میں دیکھنے لگ گئین اور میں نے کہا دیکھ لیں آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں آج، انہوں نے ماتھے پہ ہلکی سی سلوٹ ڈال کر کہا کیا مطلب آج پیاری لگ رہی ہوں کیا میں روز پیاری نہیں ہوتی؟؟ میں نے جلدی سے کہا ارے نہیں آپ تو روز ہی پیاری لگتی ہو آج بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو میں نے اس لیے جلدی جلدی کہا کہ وہ ناراض نا ہو جائیں لیکن اس بات کو وہ پکڑ کر بولیں تو اچھا جناب مجھے روز پھر اسی طرح دیکھتے ہیں کہ میں پیاری لگ رہی ہوں یا نہین اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ کے گرد رکھ لیے مطلب اپنی سائیڈوں پہ جیسے بندہ لڑائی کے لیے تیار ہو رہا ہو
میں امی کی بات سن کر بوکھلا گیا کیونکہ آنٹی کلثوم نے کہا تھا کہ امی کو شک نہ ہونے دینا کہ تم اس کو دیکھتے ہو جب کہ یہاں معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تھا میں نے امی کی طرف دیکھا تو مجھے اور تو کچھ نا سوجھا میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا وہ آپ اتنی پیاری لگ رہی ہوتی ہو کہ بس خود ہی پیاری لگ جاتی ہو میں جان کہ تو نہیں دیکھتا۔ امی نے سنجیدہ ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا اور وہ ہنستے ہوئے دوہری ہوتی گئیں ان کے اس طرح جھکنے سے ان کے گول مٹول ممے آدھے سے زیادہ ان کے گلے سے جھانکنے لگے اور میں سب کچھ بھول کر ان کے موٹے رسیلے ممے دیکھنے لگ گیا وہ اسی طرح ہنستے ہنستے اوپر ہوئیں اور میری آنکھوں میں دیکھا اور بولیں ارے میرا منا تو جوان ہو گیا ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے آنکھیں جھکا لین وہ اسی طرح مسکراتے چہرے سے بولیں چلو جاو اور سٹور سے کپڑے پہنو پھر ہم چلتے ہیں ۔ میں نے ایک نظر امی کی طرف دیکھا اور ان کے بھرپور سراپے سے اپنی نظر سینکتا ہوا واپس باہر کی طرف مڑ گیا اور سٹور کیطرف چل پڑا۔ سٹور سے کپڑے تبدیل کر کہ میں باہر نکلا تو ابو بھی لاوئنج میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گیا اتنے میں امی کمرے سے نکلیں تو اب انہوں نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا لیکن اس سے انہوں نے کچھ بھی چھپایا ہوا نہیں تھا۔ ابو نے امی کی طرف دیکھا اور بولے بیگم اطمینان سے آ جانا میں بچوں کو دیکھ لوں گا اور علی کا دھیان رکھنا۔ امی نے تشکر بھری نظروں سے ان کو دیکھا اور کہا چلیں یہ تو اچھا ہے اب میں اطمینان سے شادی میں شرکت کر لوں گی ویسے بھی بچے سو جائیں گے ۔ ابو نے کہا بیگم تم ان کی فکر مت کرو میں گھر ہوں بس علی کا دھیان رکھنا اور پھر مجھ سے بھی مخاطب ہوتے ہوئے بولے بیٹا باہر آوارہ مت پھرنا اور ماں کے پاس ہی رہنا اور اکھٹے گھر آنا ماں کے ساتھ اور ایسا نا ہو کہ آوارہ گردی کرتے رہو۔ میں نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا اور کہا ٹھیک ہے ابو ایسا ہی ہو گا۔ ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ باہر گھنٹی بجنے کی آواز آئی تو میں اٹھ کر باہر کی طرف گیا اور دروازہ کھولا تو سامنے کلثوم آنٹی کھڑی تھیں ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور اندر آنے کا راستہ دیا تو وہ میرے سلام کا جواب دیتی ہوئی مجھے نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں میں حیران سا رہ گیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے پیچھے مڑا تو وہ امی سے گلے مل رہی تھیں اور اس طرح کہ ان کا چہرہ اور امی کی کمر میری طرف تھی۔ انہوں نے امی کے کندھے پہ چہرہ رکھتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور امی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولیں اف بنو آج تو محلے والوں کی خیر نہیں ہے اتنی پیاری لگ رہی ہو اور ایک ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ان کے کولہوں کو ایک سائیڈ سے دبایا امی ان کے ایسا کرنے سے ایک دم ان سے الگ ہوئیں اور ان کے بازو پہ ایک مکا مار کہ پیچھۓ مڑ کہ مجھے دیکھا اور پھر ان کی طرف مڑ کہ بولیں بدتمیز کچھ شرم کرو بچہ سامنے کھڑا ہے ۔ کلثوم آنٹی ہنستے ہوئے بولیں ارے یہ تو بچہ ہے قیامت تو جوانوں پہ گزرے گی جانے کتنے کو صبح اٹھ کہ نہانا پڑے گا امی ان کی بات پہ شرمندہ سی ہو گئیں اور وہیں سے تھوڑا آگے ہو کر ابو کو آواز لگائی کہ ہم جا رہی ہیں اور پھر دروازے کی طرف چل پڑیں اور مجھے بھی چلنے کا اشارہ کیا اور میں ان کے پیچھے پیچھے دروازے کی سمت چل پڑا جیسے ہی امی دروازے سے باہر نکلنے لگیں کلثوم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ ماری اور ہاتھ آگے بڑھا کہ امی کے کولہوں کے درمیان ہلکا سا گھسا دیا اور ان کے پیچھے ہو گئیں۔ امی دروازے سے باہر نکلین اور ان کو گھور کہ میری طرف اشارہ کیا مگر کلثوم آنٹی ہنس کہ آگے چل پریں اور میں بھی ان کے ساتھ چلنے لگ
میں امی اور کلثوم آنٹی چلتے ہوئے شادی والے گھر کی طرف بڑھتے گئے بلکہ وہ دو چلتی گئیں میں ان کے ساتھ چلتا گیا ان کی آپس میں گپ شپ لگی ہوئی تھی اور میں ان کے ساتھ چپ چپ چل رہا تھا اسی طرح ہم شادی والے گھر میں پہنچے تو اس گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتیں تو کلثوم آنٹی نے ان سے پہلے کہا علی تم یہیں کہیں بیٹھ جاو اور دور نہ جانا رات کا معاملہ ہے بچے تم ادھر عورتوں والی طرف ہی کہیں بیٹھ جاو اور پھر یہ کہتے ہوئے انہوں نے امی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو امی نے بھی ان پہ ایک ستائشی نظر ڈالی اور کہا ہاں بیٹا کلثوم ٹھیک بول رہی ہے تم باہر کہیں نا جانا یہیں بیٹھ جاو اور ادھر ادھر نا گھومنا ہم بھی جلدی نکلنے کی کوشش کریں گی ۔ مجھے پتہ تو تھا کہ یہ جلدی اتنی بھی جلدی نہیں ہو گی اور کلثوم آنٹی کیونکہ ساری پلاننگ ڈسکس کر چکی تھیں اس لیے میں دل ہی دل مین سب سمجھ گیا اور اوپر سے ایک معصوم شکل بنا لی اور کہا ٹھیک ہے امی میں ادھر ہی بیٹھ جاتا ہوں ۔ مجھے پتہ تھا کہ تھوڑی دیر میں یاسر بھی آئے گا تو اس سے گپ شپ ہو جائے گی اور پھر مجھے سٹیج پہ بھی جانا ہے ۔ امی اور کلثوم آنٹی اندر کی طرف بڑھ گئیں اور میں ادھر ہی پڑی کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھ گیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں یاسر بھی اپنی امی اور بہنوں کے ساتھ آیا اور مجھ پہ نظر پڑتے ہی وہ میری طرف آ گیا میں نے اس کی امی اور بہنوں کو سلام کیا اور پھر یاسر سے ملنے لگا اور مل کہ ہم وہیں بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔ میں وقت پورا ہونے کا انتظار کر رہا تھا اور پھر جب میں نے دیکھا کہ گیارہ بجنے میں پندرہ منٹ رہ گئے ہیں تو میں نے یاسر سے کہا کہ یار مجھے امی نے کہا تھا گیارہ سے پہلے اندر آنا تو میں ان کی بات سن کہ آتا ہوں اگر ہم گھر گئے تو یہیں سے تمہیں ملتا چلوں گا۔ یاسر نے بھی کہا ٹھیک ہے اب اس کے وہم و گماں میں بھی اصلی بات تو نہیں ہو سکتی تھی تو مین اندر گھستا گیا جہاں رنگے برنگے لباس میں ہر عمر اور ہر سائز کی لڑکیاں اور عورتیں اپنے ادھ ننگے وجود لیے گھوم رہی تھیں میں سٹیج کر قریب پہنچا تو دیکھا امی اور کلثوم آنٹی سٹیج پہ ہی صوفے کے پیچھے کھڑی تھیں ان کے ساتھ اس گھر اور محلے کی کچھ اور خواتین بھی تھیں اور وہ سب ہنسی مزاق کر رہی تھیں میں کیونکہ بچہ تھا اس لیے کسی نے میری طرف توجہ نہ دی اور میں آرام سے چلتا ہوا سٹیج پہ ان کےپیچھے پہنچ گیا اور کلثوم آنٹی اور امی کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ ان کو کیسے متوجہ کروں اور پھر دیکھا کہ جب کوئی میری طرف متوجہ نہیں تو آگے ہو کہ میں نے کلثوم آنٹی کے بھاری بھرکم چوتڑوں کو ہلکا سا دبایا وہ تھوڑی سی ہلیں لیکن پیچھے نہ مڑیں میں پھر پیچھے ہٹ گیا کوئی پندرہ بیس سیکنڈ بعد انہوں نے ترچھی سی نظر سر گھماتے ہوئے پیچھے کی اور مجھے دیکھ کر اگے مڑ گئین ۔ پھر وہ تھوڑا سا کھسک کہ پیچھے ہوئیں اور میرے اور امی کے درمیان اس طرح کھڑی ہو گئیں کہ امی کا آدھا جسم ان کے آگے چھپ گیا اور انہوں نے مجھے ہاتھ کے اچارے سے امی کو دیکھنے کا کہا۔ میں کیونکہ ان کے پیچھے کھڑا تھا اور ان کی ساری حرکات دیکھ رہا تھا ۔ کلثوم آنٹی نے ہلکا سا ہاتھ امی کی بنڈ پہ پھیرا تو امی نے ایک دم ان کی طرف مڑ کہ دیکھا کیونکہ میرا قد بھی کلثوم آنٹی سے چھوٹا تھا تو مجھے امی کی حرکت سے اندازہ ہوا کہ وہ پیچھے مڑی ہیں لیکن وہ مجھے نہ دیکھ سکیں
کلثوم آنٹی آگے ہوئیں اور امی نے تھوڑا پیچھے مڑتی ہوئے ان سے کوئی سرگوشی کی جو مجھے سمجھ نہ آئی لیکن کلثوم آنٹی نے بھی ان کے کان میں کوئی سرگوشی کی اور اس دوران ان کا ہاتھ امی کی گانڈ کو سہلاتا رہا انہوں نے امی کے بھاری چوتڑوں کو سہلاتے ہوئے ایک ہاتھ ان کی گانڈ کی دراڑ میں رکھ کہ دبایا اور ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو متوجہ نا پا کر پھر سے گانڈ کی دراڑ میں ہاتھ پھیرنے لگیں امی بھی چوکنا ہو کہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ساتھ دولہن کے سامنے کھڑی خواتین سے باتیں بھی کیے جا رہی تھین اور کلثوم آنٹی بھی ان کے ساتھ باقی عورتوں سے ہنسی مزاق میں مصروف تھیں لیکن ان کا ایک ہاتھ اپنی کاروائی میں لگا ہوا تھا۔ وہ امی کے گانڈ کی گلی میں ہاتھ گھسا کر اسے رگڑ رہی تھیں جس سے ان کی قمیض ان کی دراڑ میں پھنس چکی تھی میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا کلثوم آنٹی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پیچھے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ مارتے ہوئے قریب ہونے کا اشارہ کیا اور میں دبے پاوں ان کے قریب ہوا۔ میں امی کے قریب پہنچا تو انہوں نے امی کی گانڈ کو ہلکا سا تھپتپھایا اور ہاتھ قمیض کے دامن میں سے سائیڈ کی طرف سے اندر گھسا کہ ان کی گانڈ کو ٹٹولنے لگیں اس سے ان کا ہاتھ تو امی کی قمیض میں چھپ گیا لیکن گانڈ کے اوپر ایک شلوار ہی تھی۔میں اس نظارے کی خوبصورتی میں ڈوبا ہوا تھا اور مجھے حیرت امی پہ تھی جو بالکل نارمل انداز میں کھڑی باتیں کر رہی تھیں ۔ کلثوم آنٹی نے ایک نظر مجھے پھر دیکھا اور قریب ہونے کا اشارہ کیااور اپنا ہاتھ امی کی گانڈ سے نکال لیا تو میں ان کے قریب ہوا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کہ امی کی گانڈ سے ہلکا سا ٹچ کیا مجھے بہت مزہ آیا اور مجھے امی کے جسم کی نرمی اور ملائمت اپنے ہاتھ پہ محسوس ہوئی انہوں نے میرا ہاتھ بار بار پکڑ کہ امی کی گانڈ پہ لگانا شروع کر دیا۔ انہوں نے تین چار بار یہ حرکت کی اور پھر اچانک لائٹ چلی گئی جیسے ہی لائٹ گئی تو کلثوم آنٹی نے میرا ہاتھ زور سے امی کی گانڈ میں دبایا اور پھر میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چھوڑ دیا اور میں اپنا ہاتھ ان کی گانڈ میں پھیرنے لگا۔ میں نے ہاتھ گلی میں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھیرا اور کلثوم آنٹی کی طرح ہی امی کے بھاری چوتڑوں کو درمیان سے ٹٹولا اور انگلی پھیرنی چاہیئ تو اندھیرے میں مجھے امی آگے اچھلتی محسوس ہوئیں اور انہوں نے بے ساختہ اونچی آواز میں کہا اوئے کون بدتمیز ہے اور انہوں نے پیچھے مڑ کہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن کلثوم آنٹی ایک دم ان کے پیچھے ہو گئیں اور ہنسنے لگ گئیں اور ساتھ اپنی ٹانگ پیچھے کر کہ مجھے پیچھے دھکیلا میں سمجھ گیا کہ اب بھاگ جانا ہی بہتر اور مناسب ہے کیونکہ مجھے امی کی آواز میں شدید غصہ محسوس ہوا تھا میں فورا بھاگتا ہوا باہر نکل گیا اور ایک جگہ جا کر اپنی سانس بحال کرنے لگ گیا اور سوچنے لگا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے ۔ میں ابھی وہاں کھڑا سانس ہی بحال کر رہا تھا کہ بجلی بھی آ گئی اور بجلی کے آتے ہی مجھے امی اندر سے تیز تیز چلتی ہوئی نظر آئیں جن کے چہرے پہ بہت سنجیدگی تھی۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا چلو علی گھر چلیں ان کا سنجیدہ موڈ دیکھ کر میں بھی کان دبائے ان کے ساتھ ہو گیا اور پھر میں نے تھوڑا سا چل کہ پوچھا امی وہ کلثوم آنٹی؟؟ مگر میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ غصے سے بولیں دفع کرو اس لعنتی عورت کو اور چل چاپ چلتے جاو مجں ان کی اس گھرکی سے سہم گیا اور چپ چاپ چلتا ہوا ان کے ساتھ گھر کی طرف رواں ہو گی
میں امی کے ساتھ چلتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہوا اور امی بھی سنجیدہ موڈ میں چل رہی تھیں میں سمجھ گیا وہ سٹیج پہ ہوئی حرکتوں کی وجہ سے موڈ میں ہیں اور انہیں برا لگا ہے لہزا چور کی داڑھی میں تنکا تھا تو میں بھی چپ چاپ چلتا ہوا ان کے ساتھ گھر داخل ہوا گھر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے اوپر سے چادرین اتار دیں اور اپنے بھاری کولہے مٹکاتی ہوئی اندر کی طرف چلنے لگیں ان کے اوپر سے چادر اترتے ہی میں نے دیکھا کہ ان کی گانڈ میں اسی طرح قمیض پھنسی ہوئی تھی اور ان کی گانڈ ہچکولے کھا رہی تھی میں کلثوم آنٹی کی نصیحت کو بھول کر ان کو تکنے لگ گیا اور انہوں نے چار پانچ قدم اٹھائے اور ایک دم پلٹ کر مجھے دیکھا تو ان کا بھاری سینہ بھی ادھ ننگا مجھے نظر آیا میں نے فورا ان کی گانڈ سے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو ہماری نگاہین چار ہوئیں تو مجھے ان کی نگاہ مین ناگواری سی محسوس ہوئی ۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا چلو جاو چینج کرو اور کمرے میں جا کہ سو جاو ان کے انداز میں سختی تھی تو میں ان کے کہنے پہ سر جھکائے تیزی سے سٹور روم میں گیا اور کپڑے تبدیل کر کہ کمرے میں سونے چلا گیا۔ کلثوم آنٹی کا یہ مشن کامیاب رہا یا ناکام میں اتنا تو سمجھ نہیں سکا تھا بس مجھے یہ تھا کہ امی کو غصہ تھا اور اس کے بعد کچھ دن مجھے کلثوم آنٹی نظر نا آئیں اور ہم بھی سکول اور گھر کی روٹین میں مشغول ہو گئے اس کے بعد بھی کلاس میں امی کو تاڑنا اور دوسرے لڑکوں کا تاڑنا بھی میں دیکھتا اور برداشت کرتا رہا تو اس واقعہ کے کوئی بیس دن بعد یا زیادہ دن سمجھ لیں میں کھیل کر گراونڈ سے واپس آ رہا تھا تو کلثوم آنٹی اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی تھیں مجھے دیکھتے ہی وہ کھل سی اٹھیں اور میرے سلام کرنے پہ گھر کے اندر کی طرف داخل ہو کر مجھے گھر میں آنے کا راستہ دیا۔ میں جیسے ہی ان کے گھر داخل ہوا تو انہوں نے مجھے دروازہ بند کرتے ہوئے فورا جپھی ڈال لی اور مجھے چومتے ہوئے بولیں کدھر رہ گئے تھے تم اتنے دن سے؟؟ میں نے کہا وہ مجھے ڈر لگ رہا تھا اس دن امی اتنے غصے میں تھیں تو مجھے لگا وہ کسی کو مارنے نا لگ جائیں ۔ کلثوم آنٹی نے اسی طرح مجھے چومتے ہوئے کہا ارے اس کنجری کی فکر ہی نہ کرو اس گشتی کو تیرے نیچے نا لٹایا تو میرا نام بھی کلثوم نہیں بس تم دیکھتے جاو میں کیا کرتی ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ پاوں کے بل فرش پہ بیٹھ گئیں اور میرے ٹراوزر کو نیچے کرتے ہوئے میری للی کو نکال کر دیوانہ وار چومنے لگ گئیں میری للی کا اچھی طرح چوپا لگانے کے بعد انہوں نے اپنی شلوار اتاری اور صحن میں پڑی چارپائی پہ ہاتھ رکھ کہ نیچے جھک گئیں اور مجھے پیچھے مڑ کہ دیکھتے ہوئے کہا چل پھر ڈال دے ابھی ادھر پھر دیکھ تجھے ماں کی پھدی کیسے لیکر دیتی ہوں میرا دل تو ان کو دیکھ کر نہیں چاہ رہا تھا لیکن امی کا سن کہمیں ان کے قریب ہوا تو انہوں نے ایک ہاتھ سے اپنی گانڈ کو کھولا جس سے ان کی پھدی کے کالے ہونٹ سامنے نظر آئے اور میں نے اپنی للی ان کی پھدی میں گھسا کہ جھٹکے مارنے شروع کر دئیے اور وہ سیکس انجوائے کرنے لگیں اور میں بھی یہ ناگوار فریضہ سرانجام دینے لگا کچھ ہی دیر میں وہ فارغ ہو گئیں اور سیدھی ہو کر مجھے چومنے لگیں اور پھر بولیں کل چھٹی ہے کل صبح میں تم لوگوں کے گھر آوں گی اور تمہیں ایک سرپرائز دوں گی
کیسا سرپرائز؟ میں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں دیکھو بتا رہی ہو لیکن تم بیچ میں کچھ بھی نہ کرنا اور صرف مجھے دیکھ کر بتا دینا میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے کیا دیکھنا ہے؟ وہ بولیں دیکھو کل صبحیہ کے گھر سے تمہاری امی کو لسی بھیجی جائے گی اس کا ایک گلاس اگر وہ پی لے تو تم مجھے فورا آ کر بتا دینا ۔ میں جو کچھ اور سوچ رہا تھا میرے ارمان پہ تو پانی پھر گیا کہ یہ کیا بکواس ہوئی بھلا؟ اب لسی پینے کا بھی آ کر اس کلموہی کو بتاؤں گا۔ مجھے دل ہی دل میں یہ بات بہت بری لگی لیکن میں نے اوپری دل سے ہاں کر دی کہ چلو آپ کو بتا دوں گا۔ آنٹی جاہندیدہ عورت تھی ایک دم یہ بات سمجھ گئی اور بولی دیکھو پوری بات تمہیں کل سمجھ آئے گی تم یہ لازمی کرو اگر وہ لسی پی جائے تو سمجھو تمہاری کل عید ہے اور تم بھول کہ بھی لسی نہ پینا۔ مجھے سمجھ تو کچھ نہ آئی لیکن آنٹی سے وعدہ کر کہ گھر آ گیا اور کھانا کھا کر سو گیا صبح چھٹی تھی میں جاگا ناشتہ کیا اور پھر گھر میں ہی بیٹھ گیا کہ کب لسی آتی ہے اور اسی انتظار میں گھر ادھر ادھر بیٹھتا اور گھومتا رہا آخر کوئی گیارہ بجے کے قریب صبحیہ آنٹی کے گھر سے لسی کی بوتل آ گئی اور پھر میں کچن میں امی کے آس پاس ہی گھومنے لگا امی نے بھی کھانا پکایا اور تقریبا بارہ کے قریب انہوں نے کھانا خود بھی کھایا اور ہمیں بھی کھلایا اور ساتھ لسی کے دو گلاس بھی پی لیے ۔ کھانا کھانے کے بعد امی نے مجھے کہا کہ برتن اٹھا دو مجھے ہمت نہیں لگ رہی ہے میں نے برتن اٹھائے اور کچن میں رکھے تو جب واپس آیا تو امی کا سر دائیں بائیں جھوم رہا تھا اور ان کی آنکھیں کھل اور بند ہو رہی تھیں ۔ میں ان کے پاس سے گزرا تو وہ بالکل اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھیں میں نے چھوٹے بہن بھائیون کو امی کے کمرے میں کارٹون لگا کہ دئیے اور خود بھاگ کر کلثوم آنٹی کو بتانے چلا گیا۔ میں نے کلثوم آنٹی کو بتایا کہ امی نے دو گلاس پیے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئیں اور مجھے کہا تو گھر پہنچ تو میں آتی ہوں ۔ مین دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور اندر داخل ہواتو امی لاونج میں پڑی ہوئی تھیں جیسے مدہوش سو رہی ہوں میں امی کے پاس پہنچا اور ان کو ہلکے سے آواز دی مگر وہ کچھ نہ بولیں تو پھر میں نے بازو سے پکڑ کر ہلایا تو امی نے کوئی حرکت نہ کی میں ابھی ان کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی اور میں دروازے پہ گیا تو کلثوم آنٹی دروازے پہ تھی ۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں کدھر ہے وہ نیک پروین کمینی؟ میں نے کہا وہ لاوئنج میں بے ہوش ہو گئی ہیں میرے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات تھے کلثوم آنٹی یہ دیکھ کر مسکرائی اور بولی فکر نہ کرو تم سے دوستی نبھا رہی ہوں اسے بھی کچھ نہیں ہو گا اور ہم باتیں کرتے کرتے لاوئنج میں پہنچے تو آنٹی نے باقی بہن بھائیوں کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ ٹی وی دیکھ رہے ہیں آنٹی نے اس کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور پھر امی کی طرف متوجہ ہوئیں جو نیچے قالین پہ بے سدھ سو رہی تھیں امی بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے اوپر دوپٹہ ایک سائیڈ سے ان کے ممے اور پیٹ کور کر رہا تھا
جاری ہے