Maa ka badilah - Episode 5

ماں کا بدلہ


قسط 5


بہن چود کتی بڑی شریف بن رہی تھی تیری ماں حرامزادی ۔۔ پروین آنٹی نے امی کی طرف دیکھ کر مجھے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چادر اتار کہ سائیڈ پہ پھینک دی۔ میں نے جلدی سے ان کے قریب ہوتے ہوئے ان سے سرگوشی میں کہا او آہستہ بولیں امی جاگ جائیں گی ۔وہ بولیں فکر مت کرو اس پہ پورا محلہ بھی چڑھا دو تو یہ نہیں جاگے گی لسی میں شراب ملی ہوئی تھی۔ میں نے کہا آنٹی ایسا کیوں کیا آپ نے امی کو شراب کیوں پلوا دی مجھے یہ بات بہت بری لگی تھی اور میں نے آنٹی سے سخت لہجے میں یہ بات کی ۔ آنٹی نے میری طرف حیرت اور غصے سے دیکھا اور کہا ماں چود حرامی میں یہ سب تیرے لیے کر رہی ہوں اور تو مجھ پہ ہی غصہ کر رہا ہے ۔ مجھے آنٹی پہ پہلے ہی غصہ تھا جو وہ امی جو گالیاں دے رہی تھیں اور امی کو شراب پلانے والی بات تو مجھے اور بھی بہت بری لگی کہ انہوں نے کسی اور کے ساتھ مل کہ امی کو شراب پلا دی ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ بول کس طرح رہی ہین کیونکہ میں گھر میں لاڈلہ بھی تھا اور اس طرح کی بات مجھ سے کسی نے نا کی تھی اور شراب والی بات نے مجھے اور تپا دیا دیا یہ ایک بچے کی چاہت تھی جو اپنی فطری کشش کی وجہ سے ماں کے وجود میں دلچسپی تو رکھتا تھا لیکن ماں کی تزلیل بھی اسے برداشت نہ تھی۔ یہ انسانی فطرت بھی عجیب ہے کہ کچھ لمحے قبل ماں کے جسم کی طلب اب بدل چکی تھی اور مجھے کلثوم آنٹی ایک ڈائن کی طرح لگ رہی تھیں جو امی کا خون چوسنے کو تیار کھڑی ہو ۔ میں نے ان کی بات سن کہ کہا یہ آپ کس طرح بات کر رہی ہو اور امی کو گالیاں کیوں نکال رہی ہو یہ کون سا طریقہ ہے؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس بات پہ وہ اور تپ گئین اور غصیلے لہجے میں بولیں ارے او گشتی کے بچے تو مجھے تمیز سکھائے گا اب اپنی ماں کی پھدی پہ لن کھڑا کرنے والے کنجر تیری اتنی اوقات کہ مجھ سے یوں بات کرے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے ان کی بات سے ڈر بھی لگا کہ اگر یہ کسی سے یہ بات کر دیں تو میں تو پھنس جاؤں گا اور میں ایک لمحے کے لیے ڈر گیا اور اگلے لمحے میرے زہہن میں خیال آیا کہ اگر کسی نے پوچھا تو میں یہ کہہ دوں گا یہ مجھ سے تجوری کا پوچھ رہی تھیں میں نے نہیں بتایا تو مجھ پہ غصہ کرنے لگ گئیں ۔ یہ بات سوچتے ہی میں نے ان کی طرف تھوڑا غصے سے دیکھا اور کہا آپ یہ گھٹیا انداز میں بات مت کرو اپنا بدلہ لینا چاہتی ہو اور مجھے احمق بنا رہی ہو ساتھ ہماری تزلیل بھی کر رہی ہو میں نے آپ سے دوستی زلیل ہونے کے لیے تو نہیں کی تھی ۔ آپ ایک گندی عورت ہو مجھے تھوڑا ان کے بات کرنے سے غصہ تھا تو میں یہ سب بول گیا کلثوم أنٹی آگے بڑھی اور میرے پاس پہنچ کر مجھے ایک زوردار تھپڑ دے مارا اور دانت کچکچاتے ہوئے بولی رہے نا رنڈی کے بچے تم اور میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے زور سے جھٹکا دیا اور ایک اور تھپڑ مار کہ بولی تم حرامزادے اس عزت اور مزے کے لائق تھے ہی نہیں ۔ اور مجھے زوردار دھکا دیا جس سے میں امی کے اوپر جا گرا ۔ کلثوم آنٹی نے ایک قہر اور نفرت بھری نگاہ مجھ پہ ڈالی اور اپنی چادر اٹھاتے ہوئے نفرت انگیز انداز میں بولی اب ساری عمر مٹھ لگاتے رہنا اس کنجری نے تم پہ تھوکنا بھی نہیں ہے ورنہ آج تمہیں جو مزہ کرواتی تم بھی سمجھ جاتے کہ مزہ کیا ہوتا ہے لیکن تم اس قابل نہیں تھے۔ میں کیونکہ آنٹی سے بہت چھوٹا تھا مجھے بہت غصہ تو تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہاں فرش پہ پڑے پڑے ہی میں نے اس کی طرف دیکھتےہوئے کہا دفع ہو جاو اپنی کتی شکل لیکر میرے گھر سے تم دوستی کے لائق نہیں تھیں میں ہی غلط تھا اس لیے تم دفع ہو جاو ، کلثوم آنٹی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی ماں کی پھدی میں وڑ میری طرف سے کتے کے بچے اور اٹھ کر باہر کی طرف چل پڑی۔ وہ جیسے ہی دروازے سے باہر نکلی میں دوڑ کہ باہر گیا اور دروازہ بند کر کے جلدی سے اندر آ گیا اور اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور اندر کا منظر دیکھ کر مجھے بے اختیار چکر آ گئے ۔


امی اٹھ کہ بیٹھی ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا میری تو جیسے جان نکل گئی میں سمجھ گیا کہ امی سب جان گئی ہیں اور آنے والے لمحات کا تصور ہی جان لیوا تھا میری حالت تو یوں ہو گئی تھی کہ میں تھر تھر کانپنے لگا ۔ میں کانپتے ہوئے امی کے سامنے کھڑا ہوا تو انہوں نے مجھے فرش پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود فرش کی طرف نظرین جھکائے دیکھتی رہیں میں بھی ان کے سامنے چپ چاپ بیٹھ کر فرش کو دیکھنے لگ گیا۔ کمرے میں ایک گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر اسی چپ کے بعد امی نے خاموشی کو توڑا اور اسی طرح سر جھکائے بولنا شروع ہوئیں مین کچھ تو سمجھ گئی ہوں کہ معاملہ کیا ہے لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میری تربیت میں کہاں کمی رہی جو تم مجھ سے بات کرنے کے بجائے اس کلموہی کے قریب ہوئے؟؟ مجھے ساری بات شروع سے بتاو اور کوئی جھوٹ مت بولنا سچ بولو گے تو تمہاری جان بچ جائے گی ورنہ مجھے ستر فیصد بات تو پتہ چل ہی چکی ہے امی نے سر نیچے جھکایا ہوا تھا لیکن ان کی آواز میں بہت سختی تھی میں نے ان کی طرف ڈرتے ڈرتے ایک نظر ڈالی اور پھر شروع سے آخر تک تمام بات ان کو بتا دی جس میں سکول میں ان کو یاسر والی بات پتہ چلنے سے لیکر کلثوم آنٹی تک بتانے والی ہر بات شامل تھی لیکن کلثوم آنٹی کی چودائی والی بات میں گول کر گیا امی اس دوران ناخن سے فرش پہ لکیریں لگا کر کھرچتی رہیں اور میری بات سنتی رہیں میری ساری کہانی سنانے کے دوران انہوں نے ایک بار بھی میری طرف نہ دیکھا اور نا کوئی تبصرہ کیا بس چپ چاپ میرے سے ساری بات سنتی رہیں ۔ میں جب بول کہ چپ ہوا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرے چہرے پہ انگلیوں کے شائد نشان تھے جس کو انہوں نے انگلیوں کی پوروں سے سہلایا میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا لیکن ان کا چہرہ سپاٹ تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا علی جو بات بھی آج ادھر ہوئی ہے وہ سمجھو کہ یہیں دفن ہو گئی تم کسی سے اس بات کا زکر مت کرنا اور بالکل چپ ہو جاو میں اپنی طرف سے معاملات کو ہینڈل کر لوں گی۔ 


میں ڈرتے ڈرتے امی کی طرف دیکھ رہا تھا مجھے تو لگ رہا تھا بہت مار پڑے گی لیکن امی کچھ کھوئی کھوئی کسی اور ہی سوچ میں گم تھیں میں انی کے پاس بیٹھا ان کو دیکھتا رہا کہ اب وہ کیا کہتی ہیں لیکن وہ چپ بیٹھے کچھ سوچتی رہیں کافی دیر اسی طرح گزر گئی میں بھی ان کے سامنے بیٹھا رہا اب ان کو بلانے کی یا ان سے بات کرنے کی ہمت مجھے بھی نہ تھی میں ابھی تک صورتحال سے اچھی طرح واقف ہی نا ہو سکا تھا کہ ہوا کیا ہے ۔ کلثوم آنٹی کا اتنے یقین سے کہنا کہ وہ بے ہوش ہوں گی اور پھر اتنا تزلیل بھرا رویہ رکھنا اور ایسی باتیں کرنا اور پھر اٹھ کر چلی جانا اور امی کا تمام واقعہ سے واقف ہو جانا، یہ سب باتیں مجھے کنفیوز کر رہی تھیں اور میں نے بھی سب امی کو بتا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد پھر امی نے ایک گہری سانس لی اور میری طرف دیکھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے کہا امی مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ امی نے میری آنکھوں میں کھوجتی آنکھوں سے دیکھا اور کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں ہھر بولیں تمہاری یہ پہلی غلطی ہے بیٹا اور غلطی بھی بہت بڑی ہے کوئی بھی بات ہو تمہیں یہ بات مجھے بتانا چاہیے تھی کسی اور کو نہیں ۔ ٹھیک ہے تمہاری عمر میں ایسا ہوتا ہے لیکن تم مجھے بتاتے تو میں تمہیں اچھے طریقے سے سمجھا دیتی کہ ایسا ممکن نہیں اور ہم اس کا بہتر حل نکالتے۔ وہ بول رہی تھیں اور میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا وہ پھر بولیں ۔ دیکھو تم نے کلثوم کو موقع دیا تو وہ کس طرح کی باتیں کر رہی تھی اور اس نے تمہیں تھپڑ بھی مارا اور سوالیہ نظر سے میری طرف دیکھا اور بولیں یہ فرق ہے ماں کا اور باہر کے لوگوں کا اور یہ تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ میں تمہاری بڑی غلطی بھی معاف کر رہی ہوں اور اس نے تمہیں مارا ہے۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور بولنے کو کچھ نہیں تھا تو وہ پھر بولیں اس کا تو میں اچھا بندوبست کروں گی لیکن تم اب ایسی کوئی بھی بات کوئی بھی بندہ کرے سکول میں یا کہیں بھی تو مجھے بتاؤ گے اور کسی سے کسی بات کا زکر نہیں کرو گے۔ میں نے ان سے اس بات کا وعدہ کر لیا اور کہا ٹھیک ہے امی اب ایسا ہی ہو گا میرے چہرے پہ شرمندگی کے تاثرات تھے امی نے آگے ہو کہ میرے ماتھے پہ پیار دیا اور کہا جاو اب زرا سو جاو اور یہ بات اب بھول جاو کہ ایسا کچھ ہوا تھا۔ میں امی کی بات سن کر کمرے کی طرف چلا گیا اور سوچتے سوچتے سو گیا ۔ شام میں آنکھ کھلی پھر اس کے بعد روٹین کے معاملات چلتے رہےصبح جب ہم سکول کے لیے تیار ہوئے تو میں نے دیکھا کہ امی نے ایک بڑی سی چادر سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کی ہے میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا امی یہ کیا اتنی بڑی چادر کیوں رکھ لی ہے آپ نے؟؟ تو وہ زرا سا ہنس کہ بولیں اب چھپاوں نہیں تو تم گندے بچوں کی نظر سے کیسے بچوں گی میں ان کی بات پہ شرمندہ سا ہو گیا اور پھر ہم سکول چلے گئے سکول میں بھی جا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ جب امی نے ہماری کلاس کو پڑھانا چھوڑ کر چھوٹی کلاس کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ پھر اسی روٹین میں کئی دن گزر گئے ایک دن ہم سکول سے لوٹ رہے تھے جب اپنی گلی میں داخل ہوئے تو کافی رش اور پولیس کی دو گاڑیاں بھی کھڑی تھیں ہم رش سے نکل کہ آگے آئے تو امی نے محلے کی ایک عورت سے پوچھا کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ کلثوم اپنے گھر میں کسی مرد کے ساتھ پکڑے گئی ہے اور اس کے گھر سے کوئی چرس افیون وغیرہ بھی برامد ہوئی ہے ۔ امی نے میری طرف دیکھا تو ایک لمحے میں مجھے ان کے چہرے پہ خوشی کے تاثرات نظر آئے اور پھر وہ نارمل ہو گئیں اور ہم لوگ گھر کی طرف بڑھ گئے 


گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے اپنی چادر اتار پھینکی اور دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے یاہو کا ایک نعرہ لگایا ان کی خوشی دیدنی تھی انہوں نے باقی بچوں کو کہا کہ جاو بچو کپڑے تبدیل کرو سب اور پھر میری طرف متوجہ ہوئی جو ان کے چادر سے بے نیاز جسم کو دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے مجھ پہ ایک نظر ڈالی اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے گھول گھول گھومنے لگ گئیں اور پاؤں کے بل اچھلتی بھی جا رہی تھیں میں نے دیکھا تو ان کے چہرے پہ بہت خوشی تھی وہ اسی طرح ناچتے ناچتے بولیں بڑی آئی تھی کتی مجھے خراب کرنے اب اسے پتہ چلے گا کہ کیا ہوتا ہے مجھے کچھ معاملے کی سمجھ آ گئی کہ وہ کلثوم آنٹی کے پکڑے جانے سے خوش ہیں لیکن اس وقت میرے سامنے امتحان ان کے اچھلنے سے ان کے خربوز نما ممے تھے جو ہر قدم کے ساتھ ان سے زیادہ اچھل کر اپنی موجودگی اور نرمی کا احساس دلا رہے تھے جیسے ہی ایک دو بار میں نے ان کو دیکھ کر امی کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور پھر انہوں نے وہ سوال کیا جو مجھے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا تھا۔ وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں علی کتنی بار کلثوم سے لڑائی پہ افسوس ہوا ہے کیونکہ اس لڑائی سے تمہارا مجھے ننگا دیکھنے کا خواب تو ادھورا رہ گیا تھا۔ مجھے سوال کی توقع تو نا تھی لیکن جواب میرے پاس تو میرے دل کی آواز تھی ۔ میں نے کہا امی ایک بار بھی افسوس نہیں ہوا کوئی آپ کے بارے میں بکواس کرے تو مجھے کیسے اچھا لگ سکتا ہے میں اتنا بھی نہیں سن سکتا تھا جو انہوں نے کہا مجھے افسوس اس کا ہے کہ میری وجہ سے ان کو اس بکواس کا موقع ملا۔ امی نے میرا چہرہ اوپر کیا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا سچ کہہ رہے ہو ؟؟ میں نے بھی ان کی آنکھ میں دیکھ کر کہا امی سو فیصد سچ کہہ رہا ہوں امی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور میری کمر کو سہلانے لگیں میرا چہرہ ان کے مموں سے زرا اوپر ان کی گردن کے پاس جا لگا اور مجھے ان کے جسم کی مہک اپنی ناک کے راستے روح تک اترتی محسوس ہوئی ان کے نرم جسم کی نرمی مجھے انگ انگ تک سرشار کر گئی اور ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے اپنی للی میں تناو محسوس ہوا ۔ 


جیسے ہی میری للی امی کی ٹانگ سے ٹکری انہوں نے اپنی ٹانگ پیچھے کر لی میں بھی سنبھل گیا اور دل ہی دل میں خود کو کوسا اور اپنا نچلا بدن ان سے الگ کر لیا لیکن اوپر میں ان کے سینے پہ منہ رکھے ان سے جڑا رہا ان کے دونوں بازو میرے گرد لپٹے ہوئے تھے میں نے منہ اوپر کر کہ ان کے چہرے پہ دیکھا جہاں مسکراہٹ اور خوشی کے تاثرات تھے میں نے جب منہ نیچے کیا تو میرئ نظر ان کے کھلے گلے سے ان کے مموں پہ پڑی تو مجھے جیسے سکتہ ہو گیا بھاری بھاری سفید ممے اور ان کو پنک کلر کی برا نے ہلکا سا چھپایا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ممے آدھے سے زیادہ ننگے تھے اور مجھے واضح نظر آ رہے تھے۔ میں نے ایک گہری سانس خارج کی تو میری بدقسمتی کہ وہ سانس سیدھا ان کے مموں سے ٹکرائی ۔ میرے اناڑی پن کی وجہ سے میری گرم سانس ان کو جیسے ہی چھاتی پہ محسوس ہوئی تو وہ اچھل کہ پیچھے ہوئیں اور مجھے چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹتے ہی اپنے گریبان میں جھانکا اور پھر شرمندہ سی زیر لب ہنسی میں بولیں بدتمیز نہ ہو تو ۔۔ اس کلموہی نے زیادہ ہی آوارہ کر دیا تھا تمہیں اچھا ہوا دفع ہوئی کنجری عورت۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نا جی مجھے انہوں نے کوئی آوارہ نہیں کیا تھا میں تو بس ۔۔ اب میں بے ساختگی میں یہ کہنے لگا تھا کہ مین آپ کو دیکھ کر خراب ہوا مگر پھر آدھی بات کر کہ لگا کہ امی اس پہ ناراض ہوں گھ تو میں چل کر کہ بات سوچنے لگا کہ اب کیا بات کروں؟ میرے اس طرح چپ ہونے پہ امی نے دونوں ہاتھوں سے ایک تالی بجائی اور پھر پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ ہنسنے لگ گئیں اور بولیں ہاں ہاں بولو نا رک کیوں گئے اس نے خراب نہیں کیا تو کس نے کیا ہے ؟؟ وہ ہنستے ہنستے دوہری ہوئیں اور میری نظر ایک بار پھر ان کے مموں پہ پڑی جو ان کے جھکنے سے واضح نظر آ رہے تھے ۔ وہ نیچے جھکی جھکی ایک دم اوپر ہوئیں اور میری نگاہ میں دیکھتے ہوئے اپنے گریبان کو دیکھا اور پھر مجھ سے بولیں باز آ جاو لڑکے میں تمہیں پیار سے سمجھا رہی ہوں میں ان کی بات سے شرمندہ تو ہوا مگر جب میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پہ غصہ نہیں ہے تو میرا بھی خوف ختم ہو گیا میں نے کہا میں تو آپ سے بہت دور کھڑا ہوں میں نے تو کچھ نہیں کیا امی ۔ امی نے پھر اسی لہجے میں کہا ہاں یہ سامنے میرا باپ کھڑا مجھے تاڑ رہا ہے پھر ۔ میں شرمندہ ہو گیا تو وہ اور ہنسنے لگیں اور بولیں چلو اس خوشی کے موقع پہ آج تمہیں فری ہینڈ ہے میری طرف سے اور ہنس کہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور مجھے دیکھنے لگیں ۔

اب میری بلا جانے فری ہینڈ کس معاملے میں ہے تو میں سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگ گیا امی کے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ تھی مجھے یوں دیکھتے ہوئے دیکھ کر ایک بار پھر ہنس پڑیں اور بولیں بندہ وہی کام کیا کرے جو عمر کی مناسبت سے ہوں اپنے سے بڑے کام کرو گے تو ایسے ہی سوچتے رہ جاو گے ۔ اب مجھے یہ تو لگا کہ وہ مجھے چھونے سے دیکھنے سے نہیں روکیں گی لیکن یہ بھی کنفرم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یہی کہہ رہی ہیں یا کچھ اور کہہ رہی ہیں تو میں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا اور بازو کھول کہ امی سے لپٹ گیا ۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر امی نے ڈانٹا یا روکا تو پیچھے ہٹ جاؤں گا ورنہ نہیں ہٹوں گا اور یہ سوچتے ہی میں ان سے چپک گیا اور اپنے بازو میں ان کو بھرنے کی کوشش کی لیکن ان کا بھاری وجود ظاہر ہے مجھ سے اس طرح کدھر سنبھالا جا سکتا تھا۔ میں نے جیسے ہی امی کو اپنے بازو میں پکڑا تو وہ زیر لب بولیں اففف بدتمیز بچے اتنا بھی فری ہینڈ نہیں دیا ہے مت۔ میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں سراپا شفقت اور محبت تھی اور ناراضگی کا کوئی شائبہ تک نا تھا میں یہ دیکھ کر شیر ہو گیا اور ان کے گال کو چوم لیا ان کا گال چومنے کے لیے مجھے اپنے پاؤن پہ کھڑا ہونا پڑا مگر وہ گال تھا یا جیسے مکھن اور شہد سے بنی ہوئی کوئی کریم ۔۔ میں نے ان کے گال کو چوم کہ ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ وہی بہترین مسکراہٹ تھی اب میرا ڈر کسی حد تک ختم ہو چکا تھا اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے مجھے بھی حوصلہ مل رہا تھا ۔ میں نے ایک بار پھر ان کے نرم گال کو چوما اور ہاتھ ان کی کمر کے نچلے حصہ پہ لگا دئیے اور گانڈ کے اوپری حصے کو ہلکا سا دبایا اور ان کی گردن پہ ایک پیار کر دیا۔ میں بغیر کچھ بولے یہ سب کر رہا تھا اور وہ چپ چاپ میرے آگے کھڑی تھیں اور ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا اب ۔امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور بولیں ناراض جو ہوتا ہے وہ اتنے قریب کبھی نہیں جاتا اور بس جو ہو گیا وہ ہو گیا اب آگے کیا کرنا ہے یہ اہم ہے 


آگے کیا کرنا ہے امی؟ میں نے خوش ہوتے ہوئے امی کی طرف دیکھا اور ندیدوں کی طرح ان کو تکنے لگا ۔ آگے یہ کرنا ہے کہ اب تمہیں بچا کہ رکھنا ہے کہ کلثوم جیسی کوئی ڈائن تمہارا خون نا پی جائے امی نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ میرے سر سے گزارتے ہوئے میری گردن پہ رکھ دیا میں نے ان کے بھاری جسم سے خود کو جوڑتے ہوئے ان میں پیوست کر لیا اور کہا آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی اور کچھ نہیں کہہ سکتی امی کوئی ڈائن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ ہلکی سی ہنسیں تو ان کے جسم کی لرزش مجھے اپنے سارے وجود پہ محسوس ہوئی اور وہ بولیں شکر ہے کہ مجھے وقت پہ پتہ چل گیا ورنہ تو حالات بڑے خراب ہو رہے تھے میرا بچہ مجھے ہی ننگا کروانے کے چکر میں تھا ۔ میں امی کی یہ بات سن کہ شرمندہ ہوا اور میری گرفت ان سے ڈھیلی ہو گئی ۔ انہوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگیں چلو اب میں کپڑے تبدیل کر لوں میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں میں نے بھیایک لمحے کو سوچا اور پھر امی کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف چل پڑا باقی بہن بھائی لاوئنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں امی کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو امی بھی الماری سے کپڑے نکالنے لگیں میں ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا امی نے کپڑے نکال کہ میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے بولیں اوئے بدتمیز کیا بات ہے ؟؟ میں نے جب دیکھا امی غصے میں نہیں ہیں تو میں نے دل بڑا کر کہ کہا وہ میں فری ہینڈ کا مطلب پوچھنے آیا تھا ۔ امی نے سر کو جھٹک کر زیر لب کہا چل بدتمیز نا ہو تو اور اپنی قمیض کے دامن اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے اور اوپر کرنے لگیں لیکن اوپر کرتے کرتے رک گئیں اور میری طرف دیکھنے لگیں اور پھر بولیں ویسے یہ بہت بدتمیزی والی بات ہو جائے گی چلو بھاگو یہاں سے ۔ میں جو خوش ہو رہا تھا ایک دم میرا چہرہ اداس ہو گیا کیونکہ سارے ارمانوں پہ پانی پڑ چکا تھا میں مرے ہوئے قدموں سے اٹھا اور باہر نکلنے لگا میں دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ امی کی آواز آئی علی۔ میں پیچھے مڑا اور دیکھا کہ امی دوسری طرف مڑی ہوئی ہیں اور ان کی قمیض اتری ہوئی ہے البتہ نچلے جسم پہ شلوار تھی میں نے امی کی گوری چکنی کمر کو دیکھا تو مجھے بہت انوکھا سا احساس ہوا بہت الگ کہ جس کےلیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی امی؟؟ امی کی آواز تھوڑی بھاری لگی انہوں نے پیچھے دیکھے بغیر مجھے کہا علی یہ برا کے ہک کھول دو اور اپنے ہاتھ سے ان کی کمر پہ لگی برا کی طرف اشارہ کیا ۔ میں تھوڑا کنفیوز ہو چکا تھا کہ امی یہ کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور نا ہی مجھے یہ توقع تھی مین حیران سا ان کے پیچھے پہنچا اور ان کی گوری سفید کمر کو دیکھا اور کمر سے نیچے ان کے بھاری چوتڑوں پہ بھی نظر ڈالی۔ میں نے ان کی برا کے ہک کو پکڑنا چاہا تو میرا ہاتھ ان کی ننگی کمر سے ہلکا سا مس ہوا تو میرے جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی میں ان کے قریب ہوتے ان کی گردن کے اوپر سے ان کے ادھ ننگے مموں کو دیکھنے لگا اور برا کے ہکس کو مخالف سمت میں کھینچا جس سے ان کی برا ایک جھٹکے سے کھل گئی۔ امی سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کے موٹے ممے ان کی سانس کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ برا کے ہکس کھلتے ہی ان کی برا ڈھیلی ہوئی اور ان کے ممے آدھے سے زیادہ ننگے ہو گئے اور گورے گورے گول مموں کے اوپر براون رنگ کے نپلز پہ میری نظر پڑی تو مجھے ایک عجیب اور میٹھا سا احساس ہوا۔ امی نے برا کے اترتے ایک گہری سانس لی اور نظریں ترچھی کر کہ مجھے دیکھا اور برا کو سامنے بیڈ پہ چھوڑتے ہوئے قمیض کو اٹھانے کے لیے جھک گئیں۔ میں امی کے پیچھے کھڑا تھا تو ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گداز گانڈ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹکرائی اور میری للی اپنی ناتوانی کے باوجود ان کی گانڈ کے درمیان زور سے رگڑنے ہوئی جتنی اس میں ہمت تھی اور للی تقریبا ساری ان کی گانڈ کی گولائیوں کے درمیاں غائب ہو گئی۔ امی نے اسی طرح جھکے ہوئے اپنی گانڈ کی گولائیوں کو بھینچا تو میری ساری للی کو ان کی گانڈ کی نرمی اور گرمی محسوس ہوئی لیکن اپنے اناڑی پن کی وجہ سے میں کوئی بھی مزید حرکت نا کر سک

جاری ہے




*

Post a Comment (0)