ماں کا بدلہ
قسط 6
امی نے قمیض اٹھائی اور بازووں میں لیکر اسے پہننے لگیں تو میں ان کے پیچھے سے سائیڈ سے ہو کر ان کے ممے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جو ان کے بازو کے نیچے سے سائیڈ سے نظر آ رہے تھے مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن امی کے چپ ہونے کی وجہ سے ایک ہمت بھی مل رہی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ رہی ہیں انہوں نے جب قمیض پہننی شروع کی تو وہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور میری للی ان کی گانڈ سے باہر نکل گئی اور میں ان کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ امی نے قمیض پہنی لیکن اس کا دامن پیچھے سے مکمل نیچے نہ کیا اور ان کی کمر کا کچھ حصہ ننگا رہ گیا کمرے میں بالکل خاموشی تھی صرف امی کے کپڑے بدلنے کی سرسراہٹ کمرے میں گونج رہی تھی یا پھر امی کی سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھائے اور پیچھے سے امی کی کمر کو پکڑا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور انہوں نے اپنی شلوار کو سائیڈوں سے پکڑ کہ نیچے کیا اور جھک کہ شلوار اتارنے لگیں ۔۔۔ افففف امی کے اس طرح جھک کہ ننگا ہونے کا تو میں نے کبھی سوچا تک نا تھا ان کی بھاری سفید گول گانڈ ایک دم ایک جھٹکے سے اچھل کر سامنے آئی اور گانڈ کی سفید گہری پہاڑیوں کے درمیان (. ) شیپ کا گہرے براون رنگ کا سوراخ اور اس کے بالکل نیچے موٹے گہرے گلابی ہونٹوں والی پھدی جس پہ ہلکے ہلکے بال نمایاں تھے سامنے نظر آئی ۔ میں تو اس قاتلانا نظارے کی تاب نا لاتے ہوئے ایک طرح سے کومے کی حالت میں جا چکا تھا امی اسی طرح جھکی ہوئی آگے ہوئیں اور شلوار اٹھا کر پہننے لگیں اور میں پیچھے ہونق بنا ہوا ان کو دیکھتا رہا ۔ امی نے شلوار پہنی اور قمیض کا دامن کھینچ کر سیدھا کیا اور میری طرف دیکھ کہ بولیں چل ڈرپوک کہیں کا۔ اور اپنے بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی گئیں اور مجھے سمجھ ہی نہ آ رہی تھی میرے ساتھ یہ سب ہوا کیا ہے۔ امی کچن کی طرف چل پڑیں اور میں بھی کچھ لمحے سوچنے کے بعد ان کی طرف چل پڑا اور کچن میں انہیں کام کرتا دیکھنے لگ گی
میں امی کے پاس کچن میں چلا گیا اور جا کر ان سے باتیں کرنے لگا پھر ہم نے کھانا کھایا اور اس کے بعد عام روٹین چلتی رہی ۔ اس واقعہ کے بعد میری اور امی کی دوستی ہو گئی ہم کھل کہ بات کرنے لگے امی بھی مجھ سے مختلف باتیں شئیر کر لیتیں اور ہمارے درمیان ہنسی مزاق بھی چلتا رہتا ۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ ہم یہ گھر بیچ کر کسی اور جگہ منتقل ہو رہے ہیں اور ایسا ہی ہوا کہ امی ابو نے گھر تبدیل کر لیا اور اس طرح ہمارا محلہ بدل گیا اور نئے محلے میں امی مجھے زیادہ باہر نہیں گھومنے دیتی تھیں اسی طرح وقت گزرتا گیا اور ہمارے پیپر آ گئے امی اسی طرح چادر لیکر جاتی تھیں اور بڑی کلاسسز کو نہیں پڑھاتی تھیں میرے پیپرز کے بعد امی نے میرا سکول تبدیل کروا دیا اور ہم سب ایک نئے سکول میں داخل ہو گئے اس طرح میرے وہ کلاس فیلو بھی بدل گئے ۔ اب ہم ایک نئے ماحول میں تھے اسی طرح عام روٹین میں امی سے ہنسی مزاق میں سال اور گزر گیا اب میری للی بھی بڑی ہو کہ لن کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اس کی سائیڈوں پہ ہلکے ہلکے بال بھی نمودار ہو چکے تھے اور مجھے دو تین بار اختلام بھی ہو چکا تھا اور سکول فیلوز سے بہت کچھ ہنسی مزاق میں پتہ بھی چل چکا تھا ۔ امی کے جسم سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہتی تھی لیکن ایک حد ہمارے درمیان قائم تھی ایک پردہ درمیان میں حائل تھا۔ پھر کرتے کرتے گرمیوں میں ہمارا پروگرام مری جانے کا بن گیا اور ہم سب اپنی گاڑی میں مری روانہ ہو گئے ۔ ہمارا ارادہ وہاں تین دن رہنے کا تھا۔ ایک لمبے سفر کے بعد ہم لوگ مری پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے پہلے دن تو ہم پہنچتے ہی مشکل سے کھانا کھا کہ لیٹ گئے اور آرام کیا۔ صبح جب ہم جاگے تو ایک حسین منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا سر سبز پہاڑ اور آسمان کو چھوتے ہوئے درخت اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ایک عجیب سماں باندھ رہی تھی۔ امی ابو بھی بہت خوش تھے اور ہم بچے بھی سب بہت خوش تھے۔ ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد ہم لوگ پیدل ہی پہاڑوں میں گھومنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ ہمارے ہوٹل کے قریب سے ہی ایک واکنگ ٹریک جنگل کی طرف بنا ہوا تھا جو اوپر پہاڑی کی طرف جا رہا تھا ہم نے اس ٹریک پہ چلنا شروع کر دیا اور سب اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ باقی بہن بھائی ابو کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے چلتے جا رہے تھے جبکہ امی کی رفتار بھاری ہونے کی وجہ سے کچھ کم تھی اور میں ان سے آگے مگر ان کے قریب قریب چل رہا تھا۔ وہاں ٹریک کے ارد گرد جو چیز ہمیں حیران کر رہی تھی وہ بندروں کی موجودگی تھی جہاں بندر درختوں پہ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ ابو لوگ ہم سے آگے آگے چل رہے تھے ہم نے پاس پانی اور دیگر سامان بھی رکھا ہوا تھا اور ہم پہاڑی پہ چڑھ رہے تھے امی بھی میرے ساتھ ماحول درختوں کی باتیں کرتی اوپر چڑھی جا رہی تھیں ان کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے ابو لوگ ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے۔ ہم اوپر جنگل میں ایک جگہ پہنچے تو امی کچھ بے چین نظر آنے لگیں میں تھوڑی دیر تو چپ رہا لیکن پھر ان سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں تو امی کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بولیں ایویں شودا نا بنا کرو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میرے بازو پہ ہلکا سا مکا مارا اور پھر خود بولیں یار مجھے سُوسُو آیا ہے یہی سوچ رہی تھی کہ کدھر کروں یہاں تو ٹائلٹ مشکل ہی ہو اس جنگل میں۔ میں ان کی بات پہ ہنس پڑا اور کہا ارے امی یہ پورا جنگل ہی ٹائلٹ سمجھ لیں یہاں کون ہے اور رک کر پیچھے کی طرف دیکھا تو واکنگ ٹریک بالکل ویران تھا اسی طرح میں نے پھر اوپر نظر دواڑائی اور پھر دائیں بائیں دیکھا تو صرف پرندوں اور ان کی چہکار کے سوا کوئی انسان نظر نا آیا ۔ امی نے بھی میری نظر کے تعاقب میں نظریں دوڑائی اور کہا ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہو یہاں تو کوئی نہیں ہے
یہاں کوئی نہیں ہے آپ ادھر سائیڈ پہ کر لیں میں یہاں کھڑا ہو جاتا ہوں میں نے امی کو تجویز پیش کی انہوں نے ایک بار پھر چاروں طرف دیکھا اور مطمئن ہو کر سائیڈ کی طرف چل پڑیں اور میں نے ان سے پشت کر لی اور دوسری طرف دیکھنے لگ گیا جدھر وہ گئی تھیں میں نے اس طرف اپنی کمر کر لی تا کہ ان پہ نظر نا پڑے۔ ابھی انہیں گئے ایک یا دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے امی کی تیز چیخ سنائی دی ان کی چیخ سنتے ہی میں بجلی کی تیزی سے مڑا اور امی کی طرف دیکھا تو دوسری طرف ایک عجیب منظر تھا ایک موٹا تازہ بڑے قد کا بندر امی کے پیچھے تھا اور امی جھک کہ پاؤں سے شلوار اوپر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور بندر ان کے پیچھے لگا ہوا دھکے مار رہا تھا جیسے انہیں چود رہا ہو امی چیختے ہوئے شلوار اوپرکرنے کی کوشش کر رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر ان کی طرف دوڑا اور بندر کو مارنے کے لیے کوئی چیز بھی ساتھ ڈھونڈنے لگا اور ساتھ شش شش کرتا ہوا ان کی طرف بھاگا۔ بندر نے مجھے اپنی طرف بھاگتے دیکھا تو امی کے پیچھے سے ہٹ گیا اور مجھے دیکھ کر دانت نکالتا ہوا ایک طرف اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے بھاگ گیا۔ میں جلدی سے امی کے قریب پہنچا جو بندر سے جان چھوٹنے کے بعد اپنی شلوار اوپر کر رہی تھیں اور ایک بات پھر بہت مدت بعد مجھے امی کے جسم کا دیدار حاصل ہوا موٹی تازی سفید گانڈ دن کے اجالے میں اپنی بھرپور آب وتاب کے ساتھ چمک رہی تھی اور ان کے حصوں کے درمیان گئرے براون رنگ کی کھلی سی موری خود میں گزرے ہوئے لن کی داستان سنا رہی تھی اور سامنے ہی میری جائے پیدائش کہ جس کے ہونٹ بھی شدت استعمال سے موٹے ہو چکے تھے لیکن کچش کی بات یہ تھی کہ ان پہ کوئی بال نہیں تھا۔ میں نے ایک طویل نظر ان کے جسم پہ ڈالی جس وقت تک نظارہ سامنے تھا پھر امی نے جلدی سے شلوار اوپر کر لی ان کے بال بکھر چکے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور شرمندہ ہوتے ہوئے اپنا حلیہ درست کرنے لگ گئیں اور بولیں پتہ نہیں یہ جنگلی کدھر سے آ گیا تھا افففف یہ کتنا گندہ جانور ہے۔ میں اس صورتحال پہ پہلے بوکھلایا ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ امی شرمندہ ہیں تو مجھے بھی ہمت مل گئی میں نے بھی امی کی طرف دیکھا اور کہا قصور جانور کا نہیں ہے اور اتنی بات کر کہ چپ ہو گیا۔ امی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولیں تو؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ساری غلطی آپ کے حسن کی ہے آپ کی خوبصورتی کی ہے کہ انسان تو فدا ہوتے ہیں جانور بھی نہیں رہ سکتے۔ بدتمیز انسان چپ کرتے ہو یا لگاؤں ایک امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف آنکھیں نکالیں تو میں نے دل پہ ہاتھ رکھ کہ کہا اے خدا یہ بھی کیا انصاف ہے کہ بندر تو حسن کے نظارے سے جسم کی نرمی سے فیضیاب ہو کہ بھی بچ نکلا اور یہاں تعریف پہ بھی مار پڑنے والی ہے ۔ امی اس بات پہ پھر ہنس پڑیں اور بولیں بدتمیزی مت کرو تم بیوقوف اب ماروں گی لیکن ان کے غصے میں کوئی اصلیت نہ تھی بلکہ وہ بناوٹی غصہ کر رہی تھیں ۔
ہم نے پھر آگے کی طرف چلنا شروع کر دیا اور امی میرے آگے چلنے لگیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا پیچھے چلتے چلتے میری نظر جب ان کی کمر اور چوتڑوں پہ پڑی تو واپس پلٹنا جیسے بھول ہی گئی درمیانی سی کمر کے نیچے اچانک انتہائی پھیلی ہوئی چوڑی گانڈ اور اس کے موٹے الگ الگ حصے ان کے پہاڑی پہ چڑھنے کی وجہ سے باہر کو ابھرے ہوئے تھے بلکہ الگ الگ نظر بھی آ رہے تھے۔ میری نظر میں ابھی کچھ لمحے پہلے کا منظر یوں واضح ہوا کہ مجھے لگنے لگا کہ امی نے شلوار ہی نہیں پہنی ہوئی ہے ۔ میں اس نظارے میں ڈوبا ہوا ان کے پیچھے چلنے لگا اور میری نگاہ مسلسل انہی پہ تھی امی نے شاہد چلتے ہوئے کوئی بات کی لیکن میں جس نظارے میں کھویا ہوا تھا وہ میرے لیے سب سے اہم تھا اور اس سے ہٹ کر مجھے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا مجھے دنیا کی سبھی رنگینیاں امی کے وجود سے لگ رہی تھیں اور میں جسم کی کشش میں کھویا ہوا تھا۔ امی چلتے چلتے رکیں اور فورا پیچھے ہی مڑیں ان کے اس طرح پیچھے مڑنے سے میں ان کو دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گیا امی نے میری طرف دیکھا اور ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے بولیں اوہے مار کھانی ہے کیا مجھ سے؟؟ میں نے امی کی طرف دیکھا اور کہا اگر میری اوقات بندر سے بھی گئی گزری ہے تو بیشک مار لیں ۔ بدتمیز انسان کچھ شرم کرو کیوں خود کو بندر سے ملا رہے ہو امی نے اسی لہجے میں کہا۔ بندر تو مجھ سے اچھا ہے وہ اتنا کچھ کر بھی گیا مجھے دیکھنے پہ بھی ڈانٹ پڑ رہی ہے میں نے چہرے پہ مظلومیت طاری کرتے ہوئے کہا دیکھیں نا میری آنکھوں کے سامنے وہ کیا کچھ کر گیا اور اسے کچھ نہیں کہا جب کہ میں تو صرف ایک نظر دیکھتے ہی مجرم بن جاتا ہوں ۔۔ ہائے یہ کتنا ظلم ہے میرے ساتھ میں نے ڈرامہ کرنا شروع کر دیا۔
بس ڈرامہ ہی کرتے رہنا اور کچھ نا سوچنا کبھی یہ دماغ سوچنے کے لیے ہوتا ہے نا کبھی اسے استعمال بھی کیا کرو امی نے مجھے زرا تیز لہجے میں کہا۔ کیا سوچا کروں آپ ہی بتا دو نا مجھے میں نے بھی ہلکی ٹون میں کہا۔ امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور بولیں اپنا اور بندر کا مقابلہ تو کر رہے ہو کہ میں نے بندر کو کچھ نہیں کہا لیکن یہ بھی غور کرو کہ کیوں کچھ نہیں کہا ۔ میں نے نا سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا تو امی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا بندر نے مجھ سے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور میری طرف دیکھ کر نظر جھکا لی۔ اب یہ صورتحال بہت عجیب تھی میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کیا کہنا چاہتی ہیں کیا میں ان سے نا پوچھا کروں؟؟ کیا مجھے سب کرنے کی اجازت دے رہی ہیں لیکن یہ وہ سوال تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور نا ہی میں امی سے پوچھ سکتا تھا اپنی تمام تر فرینکنس کے باوجود امی سے یہ بات پوچھنی آسان نا تھی ہلکی پھلکی چھیڑ خانی تو ہو بھی جاتی تھی اور مزاق بھی مگر اس حد تک کیا میں جا سکتا ہوں یہ مجھے یقین نہیں تھا ۔ میں نے امی کی گرف دیکھا اور سر جھکا کہ چلنے لگا امی بھی ہلکی سی مسکرا کہ چلنے لگیں اور ہماری درمیان ایک چپ سی چھا گئی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد امی بولیں یہ بندر والی بات کسی کو نا بتانا بس اپنے تک رکھنا میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا ۔تھوڑا ہی آگے جا کہ دیکھا تو ابو لوگ بھی کھڑے تھے اور چھوٹی بہن کو الٹیاں ہو رہی تھیں ہم جلدی سے ان کے پاس پہنچے اور امی اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں جب اس کی طبعیت سنبھلی تو ابو نے ہوٹل چلنے کا کہا کہ سب ہوٹل چلتے ہیں تو امی نے انہیں منع کر دیا اور کہا کہ نہیں آپ بچوں کے ساتھ انجوائے کرو میں اس کو ہوٹل لے جاتی ہوں لیکن ابو امی کو اکیلے بھیجنے پہ راضی نہ ہوئے تو میں نے کہا ابو میں بھی ہوٹل چلا جاتا ہوں امی کے ساتھ اور امی کی طرف دیکھا۔ ابو یہ بات سن کہ چپ ہوئے تو امی نے بھی ان کو کہا کہ آپ انجوائے کرو میں اور علی چلے جاتے ہیں اس کی طبعیت سنبھلی تو پھر نکل آئیں گے ۔ اس بات پہ ابو نے اتفاق کر لیا اور ہم واپس ہوٹل کی طرف لوٹ آئے ۔ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چھوٹی سو چکی تھی ہم باری باری اسے اٹھا کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچ گئے ہم نے کمرے کی چابی لی اور کمرے میں داخل ہو کہ میں نے دروازہ بند کر دیا اور امی چھوٹی کو بیڈ پہ لیٹا کر اس کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں۔
می چھوٹی کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں اور میں جوتے اتار کر کمرے میں سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا ہمارے درمیان ایک چپ سی چھائی ہوئی تھی مین نے امی کی طرف دیکھا تو ان کا لباس بے ترتیب ہو رہا تھا اور وہ چپ لیٹی ہوئی تھیں میں بھی تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلا گیا اور پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگ گیا۔ ہوٹل ایک پہاڑی پہ بنا ہوا تھا اور کھڑکی کھولتے ہی ایک حسین منظر سامنے تھا اونچی اونچی پہاڑیاں درختوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور نیلے نیلے آسمان پہ ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے اور انتہائی تازہ تازہ مہکی ہوا چل رہی تھی ۔ میں نے اس تازہ ہوا کو اپنے منہ پہ محسوس کیا اور گہری سانس لینے لگا۔ اسی دوران مجھے پیچھے کمرے میں ہلکی سی آواز آئی تو میں نے دیکھا کہ امی اٹھ کر باتھ کی طرف جا رہی ہیں اور ان کی قمیض ان کے بھاری چوتڑوں میں پھنسی ہوئی ہے میں نےجب دیکھا تو وہ باتھ کے دروازے سے اندر ہو رہی تھیں اور باتھ میں داخل ہوتے انہوں نے دروازے کو پیچھے دھکیل دیا لیکن انہوں نے دروازے کو کنڈی نا لگائی ۔ انہوں نے شائد یہی سوچا ہو گا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے دروازہ نہیں بند کیا تو میرے زہہن میں شرارت آ گئی ۔ میں دبے قدموں سے باتھ کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے ایک نظر سوتی ہوئی چھوٹی بہن کو دیکھا اور پھر قدم بڑھاتا باتھ کی طرف بڑھتا گیا اور باتھ کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا اور دروازہ نے آواز کھلتا گیا ۔ دروازے کے بالکل قریب ٹوائلٹ سیٹ تھی اور امی اس پہ بیٹھی خود کو دھو رہی تھیں ان کی پشت میری طرف تھی اور ان کی شلوار نیچے تھی اور قمیض بھی چوتڑوں سے بہت اوپر تھی اور وہ پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں ان کا منہ دوسری طرف تھا میں نے دروازہ بغیر کوئی آہٹ پیدا کیے بہت احتیاط سے کھولا تھا اور چپکے سے ان کو دیکھا لیکن میری نظر پڑتے ہی وہ میری طرف دیکھے بغیر بولیں سچ ہی کہا تھا کسی سائنسدان نے کہ انسان پہلے بندر تھا اور بندر سے انسان بنا لیکن تم انسان سے اب بندر والی حرکت کر رہے ہو بدتمیز اور یہ بھول گئے کہ میں تمہاری ماں ہوں ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ ان کو میرے دیکھنے کا علم نہیں ہو گا لیکن اس بات نے میرا زہہن فورا بدلا دیا اور میں نے دیکھا کہ ان کی بات میں غصہ نہیں ہے تو میرا بھی ڈر ختم ہو گیا۔ میں نے بھی وہیں کھڑے کھڑے ان کے ننگے بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے نا ہی شرم ہے جس چیز کو دیکھ کر جانور نا صبر کر سکیں تو میں کیسے کروں۔ امی نے اوپر اٹھتے ہوئے کہا یہی تو فرق ہوتا ہے ایک انسان اور جانور میں کہ انسان خود کو قابو میں رکھے اور وہ اوپر اٹھیں اور پھر نیچے جھک کہ اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگیں اور انہوں نے اپنی گانڈ ساری میری طرف موڑ کر ہاتھ نیچے شلوار کی طرف کئیے تو ان کی گول موٹی گانڈ ان کے جھکنے سے اس طرح کھلی کہ گانڈ کے سوراخ کے ساتھ مجھے ان کی پھدی کا بھی اچھے سے دیدار ہو گیا ۔ امی نے جب شلوار اوپر کرنے میں تاخیر کی تو میں کچھ سمجھتے کچھ نا سمجھتے ہوئے اندر داخل ہو گیا امی نے میرے قدموں کی چاپ سن کر میری طرف مڑ کہ دیکھا تو ان کے چہرے پہ شرم کے تاثرات تھے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ شلوار پوری اوپر کیوں نہیں کر رہی ہیں انہوں نے شلوار ایسے اوپر کر کہ چھوڑ دی تھی کہ ان کی گانڈ کی ادھ ننگی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں وہ میری طرف مڑیں تو ان کے سینے پہ میری نظر پڑی جو کہ ادھے سے زیادہ گلے سے باہر جھانک رہے تھے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئین اور میری کنپٹیاں سلگنے لگیں
امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں مجھ میں اور کلثوم میں فرق ہے اور ہمارا کوئی رشتہ بھی ہے یہ بات ہم دونوں اگر یاد رکھیں تو فائدے کی ہے لیکن یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پہ کوئی غصہ نہیں تھا۔ کلثوم آنٹی کے حوالہ سے مجھے ایک دم شرمندگی سی محسوس ہوئی اور میری آنکھیں ایک لمحے کو جھک گئیں اور مجھے تھوڑی چپ سی لگ گئی۔ میں نے کچھ پلان تو کیا ہوا نہیں تھا بس وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اسے گزار رہا تھا ہم باتھ میں اتنے قریب کھڑے تھے کہ مجھے امی کی بدن کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔ امی نے پھر بات شروع کی اور بولیں ۔ دیکھ علی میں جانتی ہوں تم جوان ہو چکے ہو اور یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جوانی کے بہت تقاضے ہوتے ہیں لیکن ہم پہ بھی کچھ زمہ داریاں ہوتی ہیں میں تمہاری ابھی شادی کرا سکتی ہوں جہاں تم چاہو گے وہیں پہ لیکن اس کے لیے تمہیں خود پہ قابو رکھنا ہو گا اوراب تم بچے تو ہو نہیں کہ یہ باتیں نا سمجھ سکو میں ایک دوست بن کہ تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں لیکن ہم کچھ حدود کے پابند بھی تو ہیں جہاں ہمیں اس رشتے کی لاج رکھنی ہے میں سر جھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا اور میرے دل میں جو امیدوں کے چراغ تھے ایک ایک کر کہ بجھتے جا رہے تھے کبھی مجھے لگتا تھا امی مجھے اپنا آپ سونپ دیں گی اور اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے ہزاروں میل دور ہو جاتیں تھیں۔ زبانی کلامی یہ باتیں سوچنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی خونی رشتے سے جسمانی تعلق بنا لینا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے جس کے لیے تو سالوں گزر جاتے ہیں ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو شائد میرے چہرے پہ لکھی ہوئی مجبوری واضح نظر آ رہی تھی میں نے ایک طرح ٹوٹے دل سے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی امی واش بیسن کی طرف مڑیں اور جھک کر منہ دھونے لگیں ۔ میں نے ایک نظر امی کے پیچھے سے جھانک کر امی کا چہرہ شیشے میں دیکھا تو وہ منہ پہ صابن لگا رہی تھیں ان کی قمیض چوتڑوں سے ہٹی ہوئی اور چوتڑ بھی ادھے ننگے تھے اور میں اب ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔ میں نے جب دیکھا کہ امی منہ پہ صابن لگا رہی ہیں تو میں فورا پاوں کے بل امی کے پیچھے نیچے بیٹھا اور ان کی شلوار کو پکڑ کر ان کے گھٹنوں تک اتار دیا اور ان کے بھاری چوتڑ سائیڈوں سے پکڑ کر اپنا منہ ان پہ رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی میں نے ان کی شلوار اتاری ان کے منہ سے بے ساختہ ہلکی سی چیخ نکلی اور بولیں اوئے بدتمیز ابھی اتنا کچھ سمجھایا تھا مگر تمہیں کوئی اثر نہیں ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ مجھ سے چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کی اور ہاتھ آگے واش بیسن پہ رکھ کہ جھک گئین میں نے اپنا منہ ان کے چوتڑوں کے ساتھ رگڑتے ہوئے کہا بس امی جتنی دیر آپ منہ دھو رہی ہیں اتنی دیر دیکھنے دو پلیز ۔۔ میری سانس اکھڑ چکی تھی اور جزبات کی شدت سے میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ انہوں نے کچھ بولے بغیر اپنا منہ دھونا شروع کر دیا میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹانگوں کے درمیاں سے گزارتےہوئے ان کی پھدی کے موٹے ہونٹوں پہ رکھ دیا اور وہاں رگڑنے لگا جو کہ گیلی ہوئی تھی امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا مگر وہ کچھ نا بولیں اور اپنا منہ دھونے میں مصروف رہیں میں نے بھی نیچے سے ہاتھ گھسا کہ ان کی پھدی کو ہاتھ سے مسلنے کے عمل کو تیز کر دیا اور ان کی موٹی گوری گانڈ کو چومتا اور دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنے لگ گیا
جاری ہے۔